Tag: پرندے

  • کھڑکیوں پر چہچہانے والی چڑیا کہاں غائب ہوگئی؟

    کھڑکیوں پر چہچہانے والی چڑیا کہاں غائب ہوگئی؟

    کیا آپ کو یاد ہے کہ آپ نے آخری بار چڑیا کب دیکھی تھی؟ ننھی منی سی بھورے رنگ کی چڑیا اکثر و بیشتر ہمارے گھروں کی کھڑکیوں پر آ کر چہچہاتی تھی مگر اب ایک طویل عرصے سے جیسے یہ چڑیائیں غائب ہوگئی ہیں۔

    آج ان چڑیاؤں کو یاد کرنے کے لیے ان کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ ماہرین ماحولیات اور جنگلی حیات کا کہنا ہے کہ تیزی سے ہوتی اربنائزیشن اور شہروں کے بے ہنگم پھیلاؤ نے اس معصوم پرندے کی نسل کو خطرے کا شکار بنا دیا ہے۔

    sparrow-3

    ان چڑیاؤں کی معدومی کی وجہ وہی انسانوں کی خود غرضانہ ترقی ہے جو ماحول اور جنگلی حیات کو داؤ پر لگا کر کی جارہی ہے۔

    ہاؤس اسپیرو کہلانے والی ان چڑیاؤں کی پہلی آماجگاہ انسانی آبادی ہے تاہم یہ نسبتاً پرسکون آبادیوں کا انتخاب کرتی ہیں۔ اگر یہاں شور شرابہ، ہجوم اور آلودگی میں اضافہ ہوجائے تو یہ چڑیائیں وہاں سے چلی جاتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: مسلسل 10 ماہ تک اڑنے والا پرندہ

    جنوبی امریکی بریڈنگ برڈ سروے کے مطابق سنہ 1966 سے 2012 تک ان چڑیاؤں کی آبادی میں خاصی کمی آچکی ہے۔ صرف برطانوی دارالحکومت لندن میں سنہ 1994 سے 2001 کے دوران ان چڑیاؤں کی آبادی میں 70 فیصد کمی ہوئی۔

    اس عرصے میں کئی ممالک میں ان چڑیاؤں کی تعداد میں 50 فیصد سے زائد کمی واقع ہوچکی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بے ہنگم شور شرابہ اور ہجوم کے علاوہ ہمارے شہروں کی روشنیاں بھی اس معصوم پرندے کے لیے نقصان دہ ہے۔

    سورج ڈھلتے ہی روشنیوں کا سیلاب، جسے اب ماہرین روشنی کی آلودگی کا نام دیتے ہیں، نہ صرف رات کے قدرتی اور خوبصورت نظاروں کو ہم سے چھین رہی ہے بلکہ یہ پرندوں کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔

    sparrow-2

    ایک تحقیق کے مطابق مصنوعی روشنیاں پرندوں کی تولیدی صحت پر اثر انداز ہو رہی ہیں جس سے ان کی آبادی میں کمی واقع ہونے کا خدشہ ہے۔

    چلتے چلتے آپ کو امریکی یونیورسٹی میں کی جانے والی ایک اور دلچسپ تحقیق سے آگاہ کرتے چلیں جس کے مطابق پرندوں کی موجودگی کسی گھر کی مالیت میں اضافہ کردیتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق گھر خریدنے والے بلبل، چڑیا یا دیگر پرندوں کی چہچاہٹ سننا بہت پسند کرتے ہیں اور جتنے زیادہ پرندے آپ کے گھر میں ہوں گے، اتنی ہی زیادہ آپ کے گھر کی مالیت میں اضافہ ہوتا جائے گا۔

  • چٹیل میدانوں میں عقاب اپنا شکار کیسے کرتے ہیں؟

    چٹیل میدانوں میں عقاب اپنا شکار کیسے کرتے ہیں؟

    شکار عقاب کی خاص خصوصیت ہے اور وہ شکار کر کے اپنی خوراک کا بندوبست کرتا ہے، تاہم چٹیل میدانوں میں اسے اپنا شکار تلاش کرنے میں تھوڑی مشکل پیش آسکتی ہے۔

    تاہم قدرت نے اس پرندے کو ایک اور خاصیت سے نوازا ہے، عقاب پرواز کرتے ہوئے بنفشی روشنی کی شعاعوں کو دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    اس کے باعث وہ زمین کھودنے اور میدانوں میں رہنے والے جانوروں کا پیشاب دیکھ لیتا ہے اور اس کی سیدھ میں چلتے ہوئے سیدھا جانور کے بل میں پہنچتا ہے۔

    تاہم دوسرے جانور بھی خطرے کو بھانپنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور شکاری کی آہٹ پا کر زیر زمین روپوش ہوجاتے ہیں۔ ایسے میں عقاب کو مردہ جانور کی لاشوں پر اکتفا کرنا پڑتا ہے۔

    عقابوں کی پریشانی اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب طوفان کا وقت ہو، اس وقت ان کے پر گیلے ہوجاتے ہیں جن کے سوکھنے تک وہ اڑ نہیں سکتے۔

  • ننھا پینگوئن شکاری پرندے کے آگے مضبوط دیوار بن گیا

    ننھا پینگوئن شکاری پرندے کے آگے مضبوط دیوار بن گیا

    زمین پر موجود تمام جانور اور پرندے آپس میں نہایت اتحاد سے رہتے ہیں اور کسی خطرے کی صورت میں ایک دوسرے کی حفاظت پر کمر بستہ ہوجاتے ہیں، ایسا ہی ایک منظر برفانی علاقوں میں بھی دیکھنے میں آیا جہاں ایک پینگوئن اپنے ساتھیوں کی جان بچانے کے لیے ان کے آگے ڈھال بن کر کھڑا ہوگیا۔

    بی بی سی ارتھ کی ریکارڈ کی گئی اس ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ننھے پینگوئنز کا ایک ٹولہ برف پر چہل قدمی کرتا ہوا سمندر کی طرف جارہا ہے کہ اچانک ایک شکاری پرندہ ان کا راستہ روک کر کھڑا ہوجاتا ہے۔

    پیٹرل نامی یہ بحری پرندہ ننھے پینگوئنز کا شکار کر کے انہیں نہایت شوق سے کھاتا ہے۔ خطرے کو سامنے دیکھ کر ننھے پینگوئنز نے بھاگنے کی کوشش کی تاہم وہ لڑکھڑا کر گر پڑے۔

    گرتے ہی پیٹرل ایک چھوٹے پینگوئن کو چھپٹ لیتا ہے اور گردن سے اسے اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کرتا ہے تاہم پھسلنے کی وجہ سے پینگوئن اپنی گردن چھڑانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔

    بعد ازاں تمام پینگوئن حصار بنا کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔

    ان میں سے ایک پینگوئن جو دیگر پینگوئنز سے دراز قد ہے، شکاری پرندے اور اپنے ساتھیوں کے درمیان دیوار بن کر کھڑا ہوجاتا ہے اور پرندے کو روکنے کے لیے اپنے پر بھی پھیلا لیتا ہے۔

    اتنے میں قریب سے ایک اور مختلف قسم کا بڑا پینگوئن بھی اپنے ساتھیوں کی جان بچانے آجاتا ہے۔ ایڈیل نامی یہ پینگوئن پھرتیلے ہوتے ہیں اور شکاری پرندے ان سے الجھنے سے گریز کرتے ہیں۔

    فربہ پرندے کو دیکھ کر پیٹرل نے وہاں سے جانے میں ہی عافیت سمجھی اور وہاں سے فرار ہوگیا۔ بعد ازاں ایڈیل پینگوئن اپنے ننھے ساتھیوں کو بحفاظت سمندر تک چھوڑ کر آیا۔

  • 7 کروڑ پچاس لاکھ سال قدیم پرندے کی باقیات دریافت

    7 کروڑ پچاس لاکھ سال قدیم پرندے کی باقیات دریافت

    انقرہ: سائنسی ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے 7 کروڑ پچاس لاکھ قدیم کرہ ارض پرندے کی ہڈیاں اور پٹھے دریافت کرلیے جو اُن کو اڑنے میں مدد فراہم کرتے تھے۔

    تفصیلات کے مطابق اب تک سائنسی ماہرین نے ’ڈائناسور‘ کو کرہ ارض پر رہنے والا سب سے قدیم جانور قرار دیا تھا مگر حال ہی میں ہونے والی دریافت کو ماہرین بہت بڑی دریافت قرار دے رہے ہیں۔

     ماہرین کا کہنا ہے کہ پرندے کے برآمد ہونے والی قدیم باقیات کا شمار جدید پرندوں میں کیا جاسکتا ہے کیونکہ انسان نے ممکنہ طور پر اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے فضا میں اڑنے کا منصوبہ ترتیب دیا ہو۔

    مزید پڑھیں: سعودی عرب سے ایک لاکھ سال قدیم آثاردریافت

    سائنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ مذکورہ پرندہ 7کروڑ پچاس لاکھ سال قبل ترکی میں گزر بسر کرتا تھا، اس کی ہڈیاں اور پٹھے بہت زیادہ مضبوط ہیں جنہیں دیکھ کر ہم خود بھی حیران ہیں۔

    ماہرین کا ماننا ہے کہ پرندہ اپنی نسل کے ناپید ہونے کے خوف سے ترکی چھوڑ کر کہیں اور چلا گیا تھا مگر کچھ عرصے بعد وہ دوبارہ اپنے مقام کی طرف واپس لوٹا،

    مائیکرو ایٹونی کا کہنا تھا کہ ’پروں کی مضبوطی اور ان کا حجم اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ انسان نے انہی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہوا میں اڑنے کے لیے جہاز بنایا‘۔

    اُن کا کہنا تھا کہ اب تک پرندوں کے حوالے سے جو بھی دریافت ہوئیں اُن میں اسے اس خاندان کا سربراہ کہا جاسکتا ہے کیونکہ اس سے قبل دریافت ہونے والی باقیات زیادہ قدیم نہیں ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں: روم، کھدائی کے دوران سونے کے قیمتی سکے دریافت

    کیلی فورنیا یونیورسٹی کے پروفیسر اور امریکی محقق جیسی اترہولٹ کا کہنا تھا کہ ’اب تک ہونے والے مطالعے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ 115 سے 130 لاکھ سال قبل جدید پرندے زمین پر آئے۔

  • کیا ڈائنو سار اب بھی زمین پر موجود ہیں؟

    کیا ڈائنو سار اب بھی زمین پر موجود ہیں؟

    ہم جانتے ہیں کہ کروڑوں سال قبل ہماری زمین پر قوی الجثہ ڈائنو سارز رہا کرتے تھے، پھر ایک شہاب ثاقب کے زمین سے ٹکراؤ کے نتیجے میں زمین پر ہولناک تباہی رونما ہوئی جس میں ڈائنو سار کی نسل بھی ختم ہوگئی۔

    لیکن کچھ ڈائنو سارز آج بھی ہماری زمین پر موجود ہیں، گو کہ ان کی شکل تبدیل ہوچکی ہے اور وہ خاصی حد تک ہمارے لیے بے ضرر بن چکے ہیں۔

    ان ڈائنو سارز کی بدلی ہوئی شکل کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے آسمانوں پر پرواز کرنے والے پرندے ہیں۔

    خیال رہے کہ ہماری زمین پر اب تک 5 عظیم معدومیاں رونما ہوچکی ہیں۔ سب سے خوفناک معدومی 25 کروڑ سال قبل واقع ہوئی جب زمین کی 96 فیصد آبی اور 70 فیصد زمینی حیات صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔

    مزید پڑھیں: کیا زمین پر چھٹی عظیم معدومی رونما ہورہی ہے؟

    آخری معدومی اب سے 6 کروڑ 60 لاکھ سال قبل رونما ہوئی جس میں ڈائنو سارز سمیت زمین کی ایک تہائی حیاتیات ختم ہوگئی۔

    یہ معدومی اس وقت رونما ہوئی جب 10 سے 15 کلومیٹر قطر کا ایک شہاب ثاقب زمین سے آٹکریا اور پوری زمین درہم برہم ہوگئی۔


    ڈائنو سار سکڑ کر پرندے بن گئے

    شہاب ثاقب کے زمین سے اس تصادم کے بعد ڈائنو سار کی ایک نسل ایسی بھی تھی جو اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوگئی۔

    جریدہ ’کرنٹ بائیولوجی‘ میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق وہ ڈائنو سار جو اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوگئے، وہ کروڑوں سال کے ارتقا کے بعد پرندے بن گئے۔

    سائنس دانوں کے مطابق ڈائنو سار کی یہ نسل تھیرو پوڈ تھی جو زندہ رہی اور اس عرصے کے دوران مسلسل سکڑتی رہی۔ اس نسل کے ڈائنو ساروں میں ٹی ریکس اور ویلوسی ریپٹر جیسے معروف ڈائنوسار شامل ہیں۔

    ان ڈائنو سارز کے ڈھانچے 4 گنا زیادہ تیزی سے تبدیل ہوئے جس سے انہیں اپنی نسل کی بقا میں مدد ملی۔

    ڈائنو ساروں اور قدیم پرندوں کی 120 نسلوں کے جسموں کی 1500 سے زیادہ خصوصیات کے مطالعے کے بعد سائنس دانوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ زندہ رہ جانے والے ڈائنو ساروں کا جسم سکڑتا گیا، ان کے جسم پر بال اور پر اگ آئے اور سینے پر وہ مخصوص ہڈی بھی ابھر آئی جو صرف پرندوں کے سینوں پر پائی جاتی ہے۔

    جسم پر اگنے والے بالوں اور پروں نے پہلے جسم کو گرم رکھنے اور بعد ازاں اڑنے میں مدد فراہم کی۔ یہ پورا ارتقائی عمل کئی کروڑ سال میں مکمل ہوا۔

    مزید پڑھیں: ڈائنو سار کے خاندان کی آخری زندہ مخلوق

    ماہرین اس عمل کو ان ڈائنو سارز کی ارتقائی لچک کا نام دیتے ہیں اور اسی لچک نے ان ڈائنو سارز کو ختم ہونے سے بچایا۔

    اس کے برعکس وہ ڈائنو سار جو اس لچک سے محروم تھے ان کا خاتمہ ہوگیا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت ہماری زمین پر موجود تمام پرندوں کے آباؤ اجداد ڈائنو سارز ہی ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • کھڑکیوں پر چہچہانے والی چڑیا کہاں غائب ہوگئی؟

    کھڑکیوں پر چہچہانے والی چڑیا کہاں غائب ہوگئی؟

    کیا آپ کو یاد ہے کہ آپ نے آخری بار چڑیا کب دیکھی تھی؟ ننھی منی سی بھورے رنگ کی چڑیا اکثر و بیشتر ہمارے گھروں کی کھڑکیوں پر آ کر چہچہاتی تھی مگر اب ایک طویل عرصے سے جیسے یہ چڑیائیں غائب ہوگئی ہیں۔

    آج ان چڑیاؤں کو یاد کرنے کے لیے ان کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔

    ماہرین ماحولیات اور جنگلی حیات کا کہنا ہے کہ تیزی سے ہوتی اربنائزیشن اور شہروں کے بے ہنگم پھیلاؤ نے اس معصوم پرندے کی نسل کو خطرے کا شکار بنا دیا ہے۔

    sparrow-3

    ان چڑیاؤں کی معدومی کی وجہ وہی انسانوں کی خود غرضانہ ترقی ہے جو ماحول اور جنگلی حیات کو داؤ پر لگا کر کی جارہی ہے۔

    ہاؤس اسپیرو کہلانے والی ان چڑیاؤں کی پہلی آماجگاہ انسانی آبادی ہے تاہم یہ نسبتاً پرسکون آبادیوں کا انتخاب کرتی ہیں۔ اگر یہاں شور شرابہ، ہجوم اور آلودگی میں اضافہ ہوجائے تو یہ چڑیائیں وہاں سے چلی جاتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: مسلسل 10 ماہ تک اڑنے والا پرندہ

    جنوبی امریکی بریڈنگ برڈ سروے کے مطابق سنہ 1966 سے 2012 تک ان چڑیاؤں کی آبادی میں خاصی کمی آچکی ہے۔ صرف برطانوی دارالحکومت لندن میں سنہ 1994 سے 2001 کے دوران ان چڑیاؤں کی آبادی میں 70 فیصد کمی ہوئی۔

    sparrow-4

    اس عرصے میں کئی ممالک میں ان چڑیاؤں کی تعداد میں 50 فیصد سے زائد کمی واقع ہوچکی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بے ہنگم شور شرابہ اور ہجوم کے علاوہ ہمارے شہروں کی روشنیاں بھی اس معصوم پرندے کے لیے نقصان دہ ہے۔

    سورج ڈھلتے ہی روشنیوں کا سیلاب، جسے اب ماہرین روشنی کی آلودگی کا نام دیتے ہیں، نہ صرف رات کے قدرتی اور خوبصورت نظاروں کو ہم سے چھین رہی ہے بلکہ یہ پرندوں کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔

    sparrow-2

    ایک تحقیق کے مطابق مصنوعی روشنیاں پرندوں کی تولیدی صحت پر اثر انداز ہو رہی ہیں جس سے ان کی آبادی میں کمی واقع ہونے کا خدشہ ہے۔

    چلتے چلتے آپ کو امریکی یونیورسٹی میں کی جانے والی ایک اور دلچسپ تحقیق سے آگاہ کرتے چلیں جس کے مطابق پرندوں کی موجودگی کسی گھر کی مالیت میں اضافہ کردیتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق گھر خریدنے والے بلبل، چڑیا یا دیگر پرندوں کی چہچاہٹ سننا بہت پسند کرتے ہیں اور جتنے زیادہ پرندے آپ کے گھر میں ہوں گے، اتنی ہی زیادہ آپ کے گھر کی مالیت میں اضافہ ہوتا جائے گا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ہنگری میں ہجرت کرنے والے پرندوں کے علاج کا مرکز

    ہنگری میں ہجرت کرنے والے پرندوں کے علاج کا مرکز

    بڈاپسٹ: یورپی ملک ہنگری میں ہجرت کر کے آنے والے اور اس سفر میں زخمی ہوجانے والے پرندوں کے علاج کا مرکز قائم کردیا گیا۔

    مشرقی ہنگری کے ایک نیشنل پارک میں قائم اس مرکز میں افریقہ سے شمالی یورپ تک کا سفر کرکے آنے والے پرندوں کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ اس طویل سفر میں یہ پرندے بجلی کی تاروں سے ٹکرا کر اپنے ننھے پاؤں یا پروں کو توڑ بیٹھتے ہیں۔

    اکثر ہائی وے پر سفر کے دوران یہ گاڑیوں سے بھی ٹکرا جاتے ہیں۔

    ہر سال اس مرکز میں ہزاروں پرندوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ ان میں کچھ پرندے نہایت نایاب اقسام کے ہیں جن کی تعداد تیزی سے کم ہو رہی ہے۔

    یہاں موجود ڈاکٹرز ان معصوم پرندوں کے زخموں کا علاج کرتے ہیں جبکہ ان کے ٹوٹے پاؤں یا پروں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ صحت مند ہونے کے بعد ان پرندوں کو آزاد کردیا جاتا ہے۔

    یہ مرکز عام افراد کے لیے بھی کھلا ہے جہاں آںے والے افراد پرندوں کا علاج ہوتا دیکھتے ہیں اور روبصحت پرندوں سے باتیں بھی کرسکتے ہیں۔

    یاد رہے کہ پرندوں کی ہجرت ہر سال ہونے والا ایک معمول کا عمل ہے جس میں پرندے عموماً شمال سے جنوب میں گرم علاقوں کی طرف ہجرت کرتے ہیں۔ اس ہجرت کے بعد پرندے اپنی عارضی پناہ گاہوں میں افزائش نسل کا عمل بھی سرانجام دیتے ہیں۔

    تاہم ہجرت کے اس سفر میں ہر سال سینکڑوں پرندے موت کا شکار بھی ہوجاتے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • جنگلی حیات کے بغیر انسانوں کا وجود ناممکن

    جنگلی حیات کے بغیر انسانوں کا وجود ناممکن

    دنیا بھر میں آج جنگلی حیات کا دن منایا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام منائے جانے والے اس دن کا مقصد خطرے کا شکار جنگلی حیات کے تحفظ کے سلسلے میں شعور بیدار کرنا ہے۔

    سنہ 2013 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس دن کو منانے کی قرارداد منظور کی۔ رواں برس یہ دن ’نوجوانوں کی آواز سنو‘ کے عنوان کے تحت منایا جارہا ہے۔ اس کا مقصد نئی نسل اور نوجوانوں کو جنگلی حیات کے تحفظ کی کوششوں میں شامل کرنا ہے۔

    جانوروں کی موجودگی اس زمین اور خود انسانوں کے لیے نہایت ضروری ہے۔ کسی ایک جانور کی نسل بھی اگر خاتمے کو پہنچی تو اس سے پوری زمین کی خوراک کا دائرہ (فوڈ سائیکل) متاثر ہوگا اور انسانوں سمیت زمین پر موجود تمام جانداروں پر بدترین منفی اثر پڑے گا۔

    مزید پڑھیں: زمین پر آباد جانور کب سے یہاں موجود ہیں؟

    لیکن بدقسمتی سے ہماری زمین پر موجود جانور تیزی سے خاتمے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

    کچھ عرصہ قبل لندن کی زولوجیکل سوسائٹی اور تحفظ جنگلی حیات کی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جانب سے ایک رپورٹ جاری کی گئی تھی جس میں بتایا گیا کہ سنہ 1970 سے 2012 تک دنیا بھر میں موجود مختلف جانوروں کی آبادی میں 58 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ان جانداروں کو سب سے بڑا خطرہ بدلتے ہوئے موسموں یعنی کلائمٹ چینج سے لاحق ہے۔ دنیا بھر کے درجہ حرارت میں اضافہ ہورہا ہے اور یہ صورتحال جانوروں کے لیے نہایت تشویش ناک ہے جو صدیوں سے یکساں درجہ حرات میں افزائش پانے کے عادی ہیں۔

    اس کے علاوہ ان کو لاحق خطرات میں ان کی پناہ گاہوں کا خاتمہ، جنگلات کی بے دریغ کٹائی، اور مختلف استعمالات کے لیے ان کا بے تحاشہ شکار شامل ہے۔

    ماہرین کے مطابق معدومی کے خطرے کا شکار جانوروں میں پہاڑوں، جنگلوں، دریاؤں، سمندروں سمیت ہر مقام کے جانور اور ہاتھی، گوریلا سے لے کر گدھ تک شامل ہیں۔

  • جاپان کے ریستوران الوؤں کی قتل گاہیں

    جاپان کے ریستوران الوؤں کی قتل گاہیں

    مختلف ممالک میں ریستورانوں میں مختلف جانور اور پرندے رکھے جاتے ہیں۔ یہ جانور دراصل سیاحوں کو ان ریستورانوں کی طرف متوجہ کرنے کے لیے رکھے جاتے ہیں۔ یہاں پر ان جانوروں کا بے حد خیال بھی رکھا جاتا ہے اور یہاں آنے والے گاہک ان جانوروں کو دیکھ بھال اور نگہداشت کے طریقہ کار کے بارے میں آگاہی بھی حاصل کر سکتے ہیں۔

    روس کے شہر سینٹ پیٹرز برگ کا کیٹ ری پبلک کیفے، اور ہانگ کانگ کا خرگوش کیفے ایسی ہی ایک مثال ہے۔

    جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں بھی قدیم جاپانی عقیدے کے تحت گھروں اور ریستورانوں میں الو کو رکھا جاتا ہے۔ جاپان میں الو خوش قسمتی اور مختلف آفتوں سے بچاؤ کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

    owl-5

    ٹوکیو کے مختلف ریستورانوں میں الوؤں کو رکھنے کے رجحان میں اضافہ ہورہا ہے۔

    نرم پروں والا یہ جانور ریستوران میں چہل قدمی کے دوران وہاں موجود افراد کو خوشگوار تفریح فراہم کرتا ہے اور لوگ اسے دیکھ کر بے حد خوش ہوتے ہیں۔

    لیکن اس قدیم ثقافتی رواج کی وجہ سے الو شدید خطرات کا شکار ہو گئے ہیں۔ جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں اس رجحان کے خلاف اب آواز اٹھا رہی ہیں۔

    owl-2

    ماہرین حیاتیات کے مطابق دن بھر ریستوران میں لوگوں کی بھیڑ بھاڑ اس پرندے کی قدرتی نیند کی عادات کو تبدیل کر رہی ہے جس سے ان کی صحت کو خطرات لاحق ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ یہ ان معصوم پرندوں پر ایک قسم کا تشدد ہے۔

    تحفظ حیاتیات پر کام کرنے والے ایک کارکن کا کہنا ہے، ’کسی جانور کو جسمانی نقصان پہنچانا یا اسے تکلیف دینا ہی تشدد نہیں کہلاتا۔ کسی جانور کو نہایت چھوٹی سی جگہ پر رکھ دینا، اس کی نمائش کرنا اور اس کی قدرتی عادات میں خلل ڈالنا بھی ایک قسم کا تشدد ہے‘۔

    owl-3

    جاپان میں اس سے قبل بھی کئی ریستورانوں میں بکریوں، بلیوں، عقاب اور خار پشت کو رکھا گیا تھا۔ ان جانوروں کی صحت کو بھی شدید خطرات لاحق ہوگئے تاہم الو پر اس کے مزید منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق رات میں جاگنے اور اسی حساب سے حسیں ہونے کے باعث انہیں پرشور اور پرہجوم جگہوں سے مطابقت کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔

    تحفظ حیاتیات کے ایک کارکن کے مطابق ان کے علم میں آیا ہے کہ ایک اول (الو)  کیفے میں ایک سال کے دوران 7 الو ہلاک ہوگئے۔

    owl-4

    دوسری جانب ان ریستورانوں کے مالکان کا کہنا ہے کہ وہ ان الوؤں کو رکھنے سے قبل اپنے عملے کی تربیت کرتے ہیں کہ ان الوؤں کی کیسے نگہداشت کی جائے۔

    اس کے ساتھ ساتھ وہ ریستوران میں آنے والے گاہکوں کو بھی ہدایت کرتے ہیں کہ ان معصوم پرندوں کے ساتھ کیسا رویہ رکھا جانا چاہیئے۔

  • پرندوں کے شکار کے لیے بچھائے گئے جال قانون کی گرفت میں

    پرندوں کے شکار کے لیے بچھائے گئے جال قانون کی گرفت میں

    ٹھٹھہ: محکمہ تحفظ جنگلی حیات سندھ نے کینجھر جھیل میں بچھائے گئے غیر قانونی جالوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے 70 سے زائد جالوں کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔

    ترجمان محکمہ تحفظ جنگلی حیات کے مطابق یہ کارروائی نئے سیکریٹری برائے جنگلات و جنگلی حیات منظور علی شیخ کے حکم کے بعد عمل میں لائی گئی۔ کینجھر جھیل میں بڑی تعداد میں زیر سمندر غیر قانونی طور پر جال بچھائے گئے ہیں جن کا مقصد ہجرت کر کے آنے والے پرندوں کو پکڑنا ہے۔

    wildlife-2

    wildlife-4

    محکمہ کے کنزرویٹر سعید اختر بلوچ کی نگرانی میں کی جانے والی اس کارروائی میں 70 سے زائد جالوں کو قبضہ میں لے لیا گیا ہے۔

    محکمہ تحفظ جنگلی حیات کی جانب سے کالے ہرن کے شکار کی دعوت *

    ان کا کہنا ہے کہ پرندوں کے شکار کے لیے لگائے گئے آخری جال کو قبضہ میں لیے جانے تک آپریشن جاری رہے گا اور اس میں ملوث افراد و شکاریوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

    wildlife-5

    wildlife-3

    واضح رہے کہ کینجھر جھیل پاکستان کی سب سے بڑی میٹھے پانی کی جھیل ہے اور یہ کراچی اور ٹھٹھہ میں فراہمی آب کا ذریعہ ہے۔

    یہ جھیل ’رامسر‘ سائٹ میں سے ایک ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ ماحولیاتی حوالے سے ایک خوبصورت جھیل ہے۔

    keenjhar-1

    keenjhar-3

    سنہ 1977 میں اس جھیل کو ’وائلڈ لائف سینکچری‘ یعنی جنگلی حیات کی پناہ گاہ قرار دیا گیا۔

    کینجھر جھیل سائبیریا سے ہجرت کر کے آنے والے پرندوں کی میزبان جھیلوں میں سے ایک ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق یہاں آنے والے پرندوں کی تعداد 1 لاکھ تک ہے۔

    keenjhar-4

    ان پرندوں میں چیکلو، ڈگوش، آڑی، کونج، سرخاب، نیل سر، لال سر سمیت مختلف اقسام کے پرندے شامل ہیں جو اپنے محضوص راستے انڈس فلائی زون کے ذریعہ پاکستان آتے ہیں۔

    جنگلی حیات کے شکاریوں کو پکڑنے کے لیے خونخوار کتوں کی تربیت *

    بین الاقوامی قوانین کے مطابق ان پرندوں کے شکار پر پابندی ہے تاہم ان کی آمد کے ساتھ ہی شکاری بھی سرگرم ہوجاتے ہیں اور یہ نایاب پرندے بے دردی سے شکار ہوتے نظر آتے ہیں۔