Tag: پرنٹ میڈیا

  • "شمع” جس نے اندر کی خبر دی اور کئی راز عیاں کیے!

    "شمع” جس نے اندر کی خبر دی اور کئی راز عیاں کیے!

    ایک زمانہ تھا جب فلمی دنیا اور فن کاروں سے متعلق خبریں، مختلف حقائق، مشہور اور پسندیدہ ہیرو ہیروئن کے حالات اور واقعات، کام یابیوں اور ناکامیوں‌ کے قصّے، خاص طور پر اسکینڈلز میں شائقین بڑی دل چسپی رکھتے تھے اور اس کے لیے اخبار اور فلمی رسائل ہی واحد ذریعہ تھے۔

    اگر فلمی رسالے کے کسی شمارے میں کبھی بڑے پردے کی "اندر کی کہانی” اور کسی مشہور فن کار کا کوئی "راز” شایع ہو جاتا تو بازار سے اس کی کاپیاں دیکھتے ہی دیکھتے ختم ہو جاتیں۔ دور بدلا اور ہم نے ٹیکنالوجی کی مدد سے پرنٹ سے الیکٹرانک میڈیا کی طرف قدم بڑھائے تو فلمی صحافت کا انداز بھی بدل گیا۔ اس کے ساتھ ہی کئی فلمی ہفت روزہ، ماہ ناموں اور سہ ماہی رسائل کی اشاعت بھی دَم توڑ گئی۔ ہندوستان میں‌ سنیما اور متحرک فلموں کا آغاز ہوا تو کئی اخبار اور رسائل بھی شایع ہونے لگے جن میں‌ سے ایک شمع بھی تھا جسے نوّے کی دہائی میں بند کر دیا گیا۔

    "اردو میں فلمی صحافت کا آغاز رسالہ "چترا” سے ہوا تھا جو 1934 میں ماہ نامے کے طور پر شروع ہوا، جسے بعدازاں ہفت روزہ کر دیا گیا۔

    رسالہ "چترا” کے بعد ملک گیر شہرت ماہ نامہ "شمع” (نئی دہلی) کو حاصل ہوئی جس کی اشاعت 1939 سے شروع ہوئی تھی۔ اس رسالے کے بانی یوسف دہلوی تھے جنھوں نے اپنے تین فرزندان کے ساتھ "شمع پبلی کیشنز” کے نام سے ایک اشاعتی ادارے کی بنیاد ڈالی تھی۔

    ادارہ شمع نے فلمی ادبی رسالہ "شمع” کے علاوہ خواتین کے ماہ نامے "بانو” اور بچوں کے رسالے "کھلونا” کا بھی اجرا کیا تھا۔

    یوسف دہلوی نے ‘شمع’ میں فلم کے ساتھ اعلیٰ ادبی معیار بھی برقرار رکھا تھا۔ ان دنوں بڑے بڑے افسانہ نگار تمنا کرتے تھے کہ "شمع” میں ان کی کہانی شائع ہو جائے۔

    یوسف دہلوی کے لڑکے یونس دہلوی اور ادریس دہلوی کے فلمی دنیا سے قریبی رشتے تھے، بالخصوص ادریس دہلوی فلم سازوں اور اداکاروں کے یار سمجھے جاتے تھے۔ ادریس دہلوی "مسافر” کے قلمی نام سے فلمی ستاروں کے در پردہ راز اس اعتماد کے ساتھ اپنے مستقل کالم "فلمی دنیا کی سیر” کے ذریعہ قارئین تک پہنچاتے جیسے ان کے دیدہ و شنیدہ ہوں۔

    کہا جاتا ہے کہ 90 کی دہائی کے اواخر میں خاندانی اختلافات کے باعث ادارہ "شمع” کی لو مدھم ہونے لگی اور ایک ایک کر کے تمام رسائل بند ہو گئے۔”

    (فلمی رسائل سے متعلق ایک مضمون سے انتخاب)

  • فواد چوہدری کا سپریم کورٹ کو خط، میڈیا شکایات کے لیے قانون میں ترمیم کی درخواست

    فواد چوہدری کا سپریم کورٹ کو خط، میڈیا شکایات کے لیے قانون میں ترمیم کی درخواست

    اسلام آباد: وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط لکھ کر درخواست کی ہے کہ الیکٹرانک اور جدید ذرائع سے شکایات کے لیے قانون میں ترمیم کی جائے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط لکھ دیا ہے، جس میں انھوں نے کہا کہ وہ ایک عوامی معاملے پر چیف جسٹس کی توجہ چاہتے ہیں۔

    فواد چوہدری نے خط میں لکھا کہ پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، میڈیا معاشرے میں گہری رسائی کے ساتھ طبقات پر اثر انداز ہو رہا ہے۔

    انھوں نے لکھا کہ ہتک عزت اور توہین آمیز اشاعت کے خلاف قوانین کا نفاذ مؤثر نہیں ہے، درخواست ہے جوڈیشل کمیٹی آئندہ اجلاس میں اس پر غور کرے۔

    وزیرِ اطلاعات نے لکھا ’غیر مؤثر قانون سے انصاف اور احتساب کے عمل میں رکاوٹ آئی ہے، ہر شہر اور ضلع میں ججز کو تعینات کرنے کی تجویز ہے، 50 لاکھ یا اس سے زائد آبادی کے اضلاع میں 4 ججز تعیناتی کیے جائیں۔‘

    یہ بھی پڑھیں:  ہمارے نوجوان ریسرچرز ہیروں کی مانند ہیں، صرف تراشنے کی ضرورت ہے: ڈاکٹر عبد القدیر خان

    انھوں نے سپریم کورٹ کو خط میں تجویز دی کہ 25 لاکھ یا اس سے زائد آبادی کے اضلاع میں 2 ججز، 25 لاکھ سے کم آبادی کے اضلاع میں ایک جج تعینات کیا جائے۔

    فواد چوہدری نے خط میں درخواست کی کہ ثبوت، شہادت اور شکایت کے عمل کو سہل بنایا جائے، شہادت کی ویڈیو ریکارڈنگ قانون کو بھی نافذ کیا جائے۔

    انھوں نے کہا کہ چیف جسٹس ہائی کورٹس ویڈیو ریکارڈنگ قانون کا نفاذ یقینی بنائیں، اس اقدام سے بد نیتی پر مبنی الزامات اور جعلی خبروں کی حوصلہ شکنی ہوگی۔

  • سوشل میڈیا پرسب سے بڑا چیلنج ’جعلی خبریں‘ ہے

    سوشل میڈیا پرسب سے بڑا چیلنج ’جعلی خبریں‘ ہے

    فیک نیوز، فیک نیوز سن سن کر آپ کے کان پک گئے ہوں گے، یہ ایک ایسی اصطلاح ہے جو آپ نے دو سال قبل نہیں سنی ہوگی، لیکن آج سوشل میڈیا کی وجہ سے یہ سب کے لیے ایک جانی پہچانی ’چیز‘ بن گئی ہے۔ جی ہاں، سماجی دانش ور اسے ’عالمی اور مقامی منڈی کی حکمت عملی‘ سمجھتے ہیں۔

    جدید دنیا میں آج نظامِ حکومت کے لیے جمہوریت (ڈیمو کریسی) کو درست ترین انتخاب سمجھا جاتا ہے، دل چسپ امر یہ ہے کہ فیک نیوز یعنی جعلی خبر کو اسی جمہوریت کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔ جعلی خبر آزادانہ بحث اور اس سے بڑھ کر خود ’مغربی نظام‘ کی دشمن بن گئی ہے۔

    ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں لوگ اب سوشل میڈیا کو صرف انٹرنیٹ کا دروازہ نہیں سمجھتے، بلکہ ’خبر‘ کا ایک اہم ذریعہ بھی سمجھتے ہیں۔ دو سال سے ابھرنے والا یہ مسئلہ اب ایک زبردست چیلنج کی صورت اختیار کر چکا ہے کیوں کہ جعلی خبروں اور غلط اطلاعات پھیلانے کے لیے زیادہ جدید ٹیکنالوجی وجود میں آ چکی ہے۔

    فیک نیوز یعنی جعلی خبر کیا ہے؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ ’فیک نیوز غلط اطلاع دینے کی ایک شکل ہے، یہ ایک غلط اور جھوٹی خبر کو کہتے ہیں۔‘ بعض اوقات جعلی خبر پوری طرح جعلی نہیں ہوتی اس لیے اسے پکڑنا آسان نہیں ہوتا، اور اکثر لوگ طنزیہ انداز میں دی جانے والی خبر کو بھی سنجیدہ سمجھ کر اسے فیک نیوز کے زمرے میں شامل کر دیتے ہیں جو درست نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ لوگوں میں طنز کو سمجھنے کی صلاحیت کی کمی ہے۔

    آپ نے پاکستانی اخبارات میں اور برقی میڈیا پر ’زرد صحافت‘ کی اصطلاح بھی بہت سنی ہوگی، فیک نیوز اسی ’یلو جرنلزم‘ یا پروپگینڈے کی ایک قسم ہے، جو جان بوجھ کر پرنٹ، براڈ کاسٹ نیوز میڈیا یا آن لائن سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلایا جاتا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ پہلے پہل سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی جھوٹی اطلاع آخر کار مرکزی دھارے کی میڈیا میں بھی جگہ بنا لیتی ہے۔

    سوال یہ ہے کہ جعلی خبر کا مقصد کیا ہوتا ہے؟ زیادہ تر اس کا تعلق سیاست سے جڑا ہوا ہے جیسا کہ عالمی سطح پر بھی اسے جمہوریت کو نقصان پہچانے کے لیے بنایا جانے والا ہتھیار سمجھا جاتا ہے۔ خود پاکستان میں بھی اس سے یہ کام وسیع سطح پر لیا گیا ہے۔ سیاست دانوں کے بارے میں لاتعداد غلط خبریں پھیلائی گئیں، آج ملک میں سیاست کا نام ہی گالی بن چکا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ سیاست دانوں کی اپنی حرکتیں زیادہ تر مشکوک رہی ہیں تاہم ملک میں جمہوریت کو کم زور کرنے کے لیے اس ہتھیار سے بہت کام لیا گیا ہے۔

    غلط خبر، جھوٹی خبر یا فیک نیوز کی زد میں ریاستی ایجنسی بھی ہوتی ہے، سرکاری ادارہ بھی، کوئی اہم اور نمایاں شخصیت بھی، اور فیک نیوز کے ذریعے مالی یا سیاسی فائدہ بھی حاصل کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انٹرنیٹ کلک ریونیو بڑھانے کے لیے بھی سنسنی خیزی سے کام لیا جاتا ہے جو جھوٹی خبر یا غلط انداز سے لکھی اور شایع کی گئی خبر کے ذریعے پیدا کی جاتی ہے۔

    فرخ ندیم انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی کے شعبۂ انگریزی میں لیکچرار کے عہدے پر فائز ہیں، یہ ادبی اور ثقافتی نقاد ہیں اور ثقافتی تنقید کے موضوع پر دو ماہ قبل ان کی ایک بے حد وقیع کتاب بھی شایع ہوئی ہے، فیک نیوز کے حوالے سے کہتے ہیں ’فیک نیوز دراصل سرمایہ دارانہ کلچر کا ایک بڑا بحران ہے۔‘ یعنی جعلی خبر کا تعلق سرمائے سے بھی ہے، اس کے پیچھے سرمائے کی طاقت ہوتی ہے، دولت کے پجاری ادارے عوام کی ذہن سازی کی خاطر فیک نیوز کا استعمال کرتے ہیں۔ فرخ ندیم نے ایک زبردست مثال دی، انھوں نے کہا ’جیسے اسٹاک ایکس چینج کو بعض اوقات فیک نیوز سے تحریک دی جاتی ہے۔‘

    جعلی خبر کو پکڑنا آسان نہیں ہوتا لیکن بعض اوقات اسے پکڑا بھی جاسکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ ضرور دیکھا جانا چاہیے کہ کوئی خبر اگر معمول سے ہٹ کر آ رہی ہے تو کیا اس کو زیادہ ویریفائیڈ اکاؤنٹس اور ذمہ دار لوگ شیئر کر رہے ہیں۔ اکثر آپ نے دیکھا ہوگا کہ خبر ٹویٹر اور فیس بک پر ٹرینڈ بنی ہوئی ہے لیکن ذمہ دار لوگ اسے شیئر نہیں کر رہے ہوتے۔ اس سلسلے میں یہ کرنا چاہیے کہ ذمہ دار اداروں اور لوگوں کے اکاؤنٹس چیک کیے جائیں کہ کیا وہاں سے بھی خبر دی گئی ہے یا نہیں۔

    فیک نیوز اور انتخابات کا قریبی تعلق ہے۔ پاکستان میں انتخابات 2018 سے قبل سوشل میڈیا جعلی خبروں کے طوفان کی زد میں تھا جس کی بے شمار مثالیں پڑی ہیں۔ سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی بیگم کلثوم کی موت خبر، خود نواز شریف کے وطن واپس نہ آنے کی خبریں، انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف سابقہ بیوی ریحام خان کی کتاب کے مندرجات کے حوالے سے بے تحاشا غلط خبریں، پاک فوج کے شعبۂ اطلاعات (آئی ایس پی آر) کے حوالے سے خبریں، اور ان فیک نیوز کے درمیان کرکٹر عبد الرزاق کی موت کی خبر، اس کی محض چند مثالیں ہیں۔

    عالمی سطح پر امریکی انتخابات اس کی تازہ اور بڑی مثال ہے جس کے سلسلے میں ابھی بھی فیس بک ایسے جعلی اکاؤنٹس اور پیجز کی تلاش میں لگا ہوا جہاں سے امریکی انتخابات میں رائے عامہ پر باقاعدہ طور پر اثرات ڈالے گئے۔ امریکا نے روس پر بھی الزام لگایا کہ اس نے مداخلت کی ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو جتوانے کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ اس سلسلے میں روس کی انٹرنیٹ ریسرچ ایجنسی کو بھی ملوث قرار دیا گیا جس نے وسیع پیمانے پر غلط خبریں اور اطلاعات پھیلا کر رائے عامہ تبدیل کی۔

    پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ماہرین کہتے ہیں کہ فیک نیوز کی ایک بڑی پہچان ’ہیٹ اسپیچ‘ بھی ہوتی ہے، ایک ایسا مواد جو نفرت پر مبنی ہوتا ہے، جس کے ذریعے کسی فرد، کسی جماعت، کسی ادارے، کسی صوبے یا حکومت کے بارے میں حقایق کو مسخ کیا جاتا ہے اور لوگوں کو نفرت پر ابھارا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں انتہائی دائیں بازو کی جماعتیں بھی اپنا کردار ادا کیا کرتی ہیں اور دشمن ممالک کی ایجنسیاں بھی، جس کی روک تھام کے لیے ریاستیں قانون سازی کرتی ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔