Tag: پروفیسر اقبال عظیم

  • پروفیسر اقبال عظیم کا تذکرہ جن کا نعتیہ کلام بہت مقبول ہوا

    پروفیسر اقبال عظیم کا تذکرہ جن کا نعتیہ کلام بہت مقبول ہوا

    مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ، نم دیدہ
    جبیں افسردہ، افسردہ، قدم لغزیدہ، لغزیدہ
    چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانبِ طیبہ
    نظر شرمندہ، شرمندہ، بدن لرزیدہ لرزیدہ

    یہ پروفیسر اقبال عظیم کے نعتیہ کلام کے اشعار ہیں۔ ان اشعار میں مدحتِ رسول کے ساتھ شاعر نے سوز و گداز، رقت انگیزی اور والہانہ تڑپ کے ساتھ بلاشبہ بڑے ہی سلیقے اور قرینے سے اپنے جذبات کو بیان کیا ہے۔ پروفیسر اقبال عظیم کے اس نعتیہ کلام کو اپنے دور کے مشہور و معروف نعت خوانوں نے پڑھا اور آج بھی یہ نعت اسی وارفتگی اور سرشاری کے ساتھ پڑھی اور سنی جاتی ہے۔

    پروفیسر قبال عظیم 22 ستمبر 2000ء کو اس دارِ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ اردو زبان کے ممتاز شاعر، ادیب، محقّق تھے اور شعبۂ تعلیم میں تدریس سے وابستہ تھے۔

    سیّد اقبال عظیم 8 جولائی 1913ء کو یو پی کے مردم خیز شہر میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی وہ علم و ادب میں نمایاں مقام رکھتا تھا۔ ان کے دادا سید فضل عظیم فضل، نانا ادیب میرٹھی اور والد سید مقبول عظیم عرش تھے جو اپنے زمانے میں شعروسخن میں معروف تھے۔ اقبال عظیم نے شاعری میں صفی لکھنوی اور وحشت کلکتوی سے اکتساب کیا۔ لکھنؤ یونیورسٹی سے گریجویشن اور آگرہ یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے والے اقبال عظیم نے ہندی اور بنگلہ زبان کے امتحانات بھی پاس کیے اور ملازمت کا آغاز بہ حیثیت مدرس کیا۔ تقسیم کے بعد مشرقی پاکستان چلے گئے جہاں مختلف سرکاری کالجوں میں پروفیسر اور صدر شعبہ رہے۔ ڈھاکا میں انھوں نے ملازمت کے دوران علمی و ادبی مشاغل جاری رکھے، لیکن 1970ء میں‌ ان کی بینائی زائل ہوگئی تو کراچی چلے آئے۔

    پروفیسر اقبال عظیم کی تحقیقی کتب میں بنگال میں اردو، سات ستارے اور مشرق سرِفہرست ہیں۔ کراچی میں قیام کے دوران بھی انھوں نے اردو زبان و ادب کو اپنے سوزِ سخن اور فکر و نظر سے نکھارنے اور مالا مال کرنے کی سعی جاری رکھی۔ یہاں بھی وہ ادبی سرگرمیوں‌ میں حصّہ لیتے رہے اور فن و تخلیق میں مصروف رہے۔ اقبال عظیم کے شعری مجموعے مضراب، قابِ قوسین، لب کشا، ماحصل، نادیدہ اور چراغِ آخرِ شب کے نام سے شایع ہوئے۔

    پروفیسر اقبال عظیم کراچی میں سخی حسن قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ اردو زبان کے اس شاعر کا یہ شعر بھی بہت مشہور ہے۔

    مجھے ملال نہیں اپنی بے نگاہی کا
    جو دیدہ وَر ہیں انہیں بھی نظر نہیں آتا

  • ممتاز شاعر، ادیب اور محقّق سیّد اقبال عظیم کی برسی

    ممتاز شاعر، ادیب اور محقّق سیّد اقبال عظیم کی برسی

    مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ، نم دیدہ
    جبیں افسردہ، افسردہ، قدم لغزیدہ، لغزیدہ
    چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانبِ طیبہ
    نظر شرمندہ، شرمندہ، بدن لرزیدہ لرزیدہ

    یہ پروفیسر اقبال عظیم کے مقبول ترین نعتیہ کلام کے چند اشعار ہیں۔ بلاشبہ انھوں نے مدحتِ رسولﷺ کے لیے الفاظ کو اپنے کلام میں بے حد احترام، سلیقے، قرینے اور جذبات و کیفیات کی وارفتگی سے پرویا ہے۔ یہ نعت آج بھی نہایت عقیدت اور سرشاری کے ساتھ پڑھی اور سنی جاتی ہے۔ ان کا دیگر نعتیہ کلام بھی بہت مقبول ہے۔

    سیّد اقبال عظیم 22 ستمبر 2000ء کو اس دارِ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ اردو زبان کے ممتاز شاعر، ادیب، محقّق اور استاد تھے۔

    سیّد اقبال عظیم 8 جولائی 1913ء کو یو پی کے مردم خیز شہر میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی وہ علم و ادب میں نمایاں مقام رکھتا تھا۔ ان کے دادا سید فضل عظیم فضل، نانا ادیب میرٹھی اور والد سید مقبول عظیم عرش تھے جو اپنے زمانے میں شعروسخن میں معروف تھے۔

    اقبال عظیم نے شاعری میں صفی لکھنوی اور وحشت کلکتوی سے اکتساب کیا۔ لکھنؤ یونیورسٹی سے گریجویشن اور آگرہ یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے والے اقبال عظیم نے ہندی اور بنگلہ زبان کے امتحانات بھی پاس کیے اور ملازمت کا آغاز بہ حیثیت مدرس کیا۔ تقسیم کے بعد مشرقی پاکستان چلے گئے جہاں مختلف سرکاری کالجوں میں پروفیسر اور صدر شعبہ رہے۔ ڈھاکا میں انھوں نے ملازمت کے دوران علمی و ادبی مشاغل جاری رکھے، لیکن 1970ء میں‌ ان کی بینائی زائل ہوگئی تو کراچی چلے آئے۔

    پروفیسر اقبال عظیم کی تحقیقی کتب میں بنگال میں اردو، سات ستارے اور مشرق سرِفہرست ہیں۔ کراچی میں قیام کے دوران بھی انھوں نے اردو زبان و ادب کو اپنے سوزِ سخن اور فکر و نظر سے نکھارنے اور مالا مال کرنے کی سعی جاری رکھی۔ وہ یہاں بھی ادبی سرگرمیوں‌ میں حصّہ لیتے رہے۔

    اقبال عظیم کے شعری مجموعے مضراب، قابِ قوسین، لب کشا، ماحصل، نادیدہ اور چراغِ آخرِ شب کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔

    انھیں کراچی میں سخی حسن قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ سیّد اقبال عظیم کا ایک مشہور شعر دیکھیے۔

    مجھے ملال نہیں اپنی بے نگاہی کا
    جو دیدہ وَر ہیں انہیں بھی نظر نہیں آتا

  • سیّد اقبال عظیم کی برسی جو‌ اپنی بے نگاہی پر ملول نہ تھے

    سیّد اقبال عظیم کی برسی جو‌ اپنی بے نگاہی پر ملول نہ تھے

    مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ، نم دیدہ
    جبیں افسردہ، افسردہ، قدم لغزیدہ، لغزیدہ
    چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانبِ طیبہ
    نظر شرمندہ، شرمندہ، بدن لرزیدہ لرزیدہ

    اس مشہور اور مقبولِ عام نعتیہ کلام کے شاعر سید اقبال عظیم ہیں جو‌ 20 برس پہلے اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج اردو زبان کے اس معروف شاعر، ادیب اور محقق کی برسی ہے۔

    سید اقبال عظیم 8 جولائی 1913 کو یو پی کے مردم خیز شہر میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی وہ علم و ادب میں نمایاں مقام رکھتا تھا۔ ان کے دادا سید فضل عظیم فضل، نانا ادیب میرٹھی اور والد سید مقبول عظیم عرش تھے جو اپنے زمانے میں شعروسخن میں معروف تھے۔

    اقبال عظیم نے شاعری میں صفی لکھنوی اور وحشت کلکتوی سے اکتساب کیا۔ لکھنؤ یونیورسٹی سے گریجویشن اور آگرہ یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے والے اقبال عظیم نے قیامِ پاکستان کے بعد ڈھاکا میں سکونت اختیار کی جہاں مختلف کالجوں اور ڈھاکا یونیورسٹی میں‌ ملازمت کے دوران علمی و ادبی مشاغل جاری رکھے اور ان کی تحقیقی کتب جن میں بنگال میں اردو، سات ستارے اور مشرق سرِفہرست ہیں، سامنے آئیں۔ 1970 میں وہ کراچی چلے آئے جہاں اردو زبان و ادب کو اپنے سوزِ سخن اور فکرونظر سے نکھارا اور مالا مال کیا۔

    اقبال عظیم کے شعری مجموعے مضراب، قابِ قوسین، لب کشا، ماحصل، نادیدہ اور چراغِ آخرِ شب اشاعت پذیر ہوئے۔ 22 ستمبر 2000 کو وفات پانے والے اقبال عظیم کراچی کے سخی حسن قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

    سید اقبال عظیم کا ایک مشہور شعر دیکھیے۔

    مجھے ملال نہیں اپنی بے نگاہی کا
    جو دیدہ وَر ہیں انہیں بھی نظر نہیں آتا