Tag: پروفیسر غفور

  • پروفیسر غفور احمد:‌ مثالی سیاست داں، بامروت اور وضع دار انسان

    پروفیسر غفور احمد پاکستان کے اُن چند سیاست دانوں میں سے ایک ہیں جن کے اوصافِ حمیدہ گنوانے سے قلم قاصر ہے۔ آج ملکی سیاست میں صادق اور امین، حق گو اور جرأتِ اظہار کے کسی خوگر کا تذکرہ کرنا ہو تو مشکل نظر آتا ہے، لیکن 2012ء تک پروفیسر غفور احمد جیسے مدبّر، قابل اور باصلاحیت سیاست داں ہمارے درمیان موجود تھے۔

    عہد ساز شاعر منیر نیازی بھی 26 دسمبر ہی کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے تھے جن کے ایک شعر کا مصرع ہے:

    آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے…

    پروفیسر غفور احمد بامروت، وضع دار، سراپا عجز و انکسار اور مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک تھے جو سیاست کو توفیقِ خداوندی اور خدمت سمجھتے تھے۔

    کیا عجب اتفاق ہے کہ 1927 میں جون کے مہینے میں جب پروفیسر غفور احمد نے اس دنیا میں‌ آنکھ کھولی تو تاریخ 26 ہی تھی اور جب یہاں سے کوچ کیا تو ماہِ دسمبر کی 26 تاریخ ہی تھی۔

    پروفیسر غفور احمد نائبِ امیرِ جماعتِ اسلامی رہے، دو مرتبہ رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے، سینیٹر بنے، 1973 کی آئین ساز کمیٹی کے رکن، 77 میں دوبارہ انتخابات کروانے کے لیے ذوالفقار علی بھٹو کی ٹیم سے مذاکرات کرنے والی کمیٹی کے سربراہ، وفاقی وزیر بھی رہے اور چارٹرڈ اینڈ انڈسٹریل اکاؤنٹینسی کے استاد بھی تھے۔ 1950ء سے 1956ء تک وہ اردو کالج میں کامرس اور معاشیات کے استاد رہے۔ سندھ یونیورسٹی کی سلیبس کمیٹی، سندھ یونیورسٹی بورڈ برائے کامرس اور کراچی یونیورسٹی سلیبس بورڈ کے رکن کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ اپنی ایک مل کی ملازمت کے دوران لیبر یونین سے وابستگی کے دور میں مزدوروں کی بہبود کے لیے بڑا کام کیا جس کی پاداش میں مالکان نے انھیں ملازمت سے بر طرف کر دیا۔

    1950 میں جماعتِ اسلامی کے باقاعدہ رکن بن گئے اور تاحیات یہ وابستگی برقرار رہی۔ 1958 میں انھوں نے جماعتِ اسلامی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور کراچی میونسپل کارپوریشن کے کونسلر منتخب ہوئے۔ بعد میں کراچی تنظیم کے امیر منتخب اور پھر مجلس شوریٰ کے رکن بھی بنے۔ ایوب خان کے دور میں‌ گرفتار کیے گئے اور 9 ماہ تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ 1970 میں عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ وفاقی وزیرِ صنعت بن کر بھی اپنی ذمے داریاں نہایت ایمان داری کے ساتھ نبھائیں۔

    وہ قومی اتحاد کی اس مذاکراتی ٹیم کے بھی روح رواں تھے جس نے 1977 کے پُر آشوب دور میں پیپلز پارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک کے دوران مذاکرات کیے تھے۔ 1973 کا آئین تشکیل دینے میں بھی اپنا کردار ادا کیا اور مخالفین کو بھی اپنا ہم نوا بنانے میں‌ کام یاب رہے۔

    غفور صاحب کا شمار ان چند گنے چنے سیاستدانوں میں ہوتا ہے جن کا دامن ہمیشہ صاف رہا۔ ان کی صاف گوئی، صلح جوئی، نرم گفتاری، سیاسی بصیرت اور دور اندیشی ایک مثال بنی۔

  • جما عت اسلا می کے رہنما پروفیسر غفور کو دنیا سے رخصت ہو ئے ایک برس بیت گیا

    جما عت اسلا می کے رہنما پروفیسر غفور کو دنیا سے رخصت ہو ئے ایک برس بیت گیا

    سیاست شرافت و دیانت کا نمونہ ، پا نچ کتا بو ں کے مصنف، سابق رکن قومی اسمبلی،سینیٹر اور جما عت اسلا می کے رہنما پروفیسر غفور کو دنیا سے رخصت ہو ئے ایک برس بیت گیا

    شرافت کا پیکر،دلائل کے اسلحے سے لیس ،بامروت، وضعدار،پا نچ کتا بو ں کے مصنف اور پا کستان کی سیا سی تاریخ کے اہم کردار پروفیسر غفور احمد انیس سو ستا ئیس میں با نس بریلی میں پیدا ہو نے والے غفور احمد نے لکھنؤ یونیورسٹی سے کامرس میں ماسٹرز کیا۔

    انیس سو پچاس میں جماعت اسلامی سے وابستہ ہوئے اور تادم آخر اسی کا دامن تھامے رکھا، اس دوران انیس سو اٹھا ون میں کو نسلر،ستر اور ستتر میں رکن قو می اسمبلی نو ے کی دہا ئی میں سینیٹر منتخب ہو ئے۔

    سیاست ان کا پیشہ نہیں اوڑھنا بچھونا تھا۔ پروفیسر غفور نےتہتر کے آئین کی تیاری میں اہم کردار اداکیا،قومی اتحاد اور آئی جے آئی کے جنرل سیکریٹری رہے لیکن ان کی ذات پر کبھی کو ئی معترض نہ رہا۔

    غفور صاحب ان گنے چنے سیاستدانوں کی صف کے معدودے چند افراد میں شامل تھے جن کی اصول پسندی، آگہی، اخلاص، سادگی ، عوامیت اور قابلیت شک و شبہے سے بالا تھی پروفیسر غفور احمد محض اپنی جماعت کا ہی نہیں بلکہ ملک وقوم کا ایک قیمتی سرمایہ اور اثاثہ تھے۔