Tag: پروٹین

  • غذا کے نام پر دھوکہ نہ کھائیں، یاد رکھیں !! ان میں پروٹین نہیں

    غذا کے نام پر دھوکہ نہ کھائیں، یاد رکھیں !! ان میں پروٹین نہیں

    پروٹین ہمارے جسم کے لیے تعمیراتی مواد کی حیثیت لکھتا ہے اور ہر خلیے میں پایا جاتا ہے، صحت بخش اور متوازن غذائی پلان پروٹین کے بغیر ادھورا ہوتا ہے کیونکہ یہ ایک ضروری غذائی جزو ہے۔

    بہت سے لوگ اپنی روز مرہ کی خوراک میں پروٹین کی موجودگی کو اوّلیت دیتے ہیں اور ایسی غذاؤں کو اپنے دسترخوان پر سجاتے ہیں جو پروٹین سے بھرپور ہوں۔

    لیکن یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ کھانے کی کچھ اشیاء ایسی ہیں جن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ان میں پروٹین کی ایک بڑی مقدار پائی جاتی ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔

    اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان میں پروٹین بالکل نہیں مگر اتنی کم ہوتی ہے جو جسم کو درکار تجویز کردہ روزانہ 15 گرام یا اس سے زیادہ مقدار کے لیے کافی نہیں ہوتی۔

    بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ان میں سے بہت سے نام نہاد ‘ہائی پروٹین’ کھانے پروٹین کے ثانوی ذرائع ہیں، اس حوالے سے بھارتی ماہر غذائیت سپنا پیرو ومبا کا کہنا ہے کہ ان کا زیادہ تر مواد دراصل میکرو اور چربی یا کاربوہائیڈریٹ میں شامل ہوتا ہے۔

    مندرجہ ذیل سطور میں کھانے کی 8 اشیاء کا ذکر کیا جارہا ہے، جن کے بارے اکثر پروٹین سے بھرے ہونے کا گمان کیا جاتا ہے مگر ان میں پروٹین کی وافر مقدار نہیں پائی جاتی۔

    مونگ پھلی کا مکھن

    پیروومبا کا کہنا ہے کہ مونگ پھلی کے مکھن میں پروٹین کی مقدار صرف چار گرام فی چمچ ہے

    چیا کے بیج

    غذائیت کے ماہر وینڈی لوپیز کا کہنا ہے کہ آپ دو کھانے کے چمچ چیا کے بیج کھا کر چار گرام پروٹین حاصل کر سکتے ہیں۔مگر یہ مقدار تب حاصل ہوگی جب انہیں اگرانہیں کسی ڈیری متبادل جیسے بادام کے دودھ میں بھگو دیا جائے۔

    پستہ

    پستے اور ہر قسم کے گری دار میوے بنیادی طور پر چربی کے ذرائع ہیں، جس میں اچھی پیمائش کے لیے تھوڑا سا پروٹین ملایا جاتا ہے لیکن پستے میں دیگر اقسام کے مقابلے قدرے زیادہ پروٹین ہوتے ہیں۔ پستے میں فی تیس گرام میں چھ گرام پروٹین ہوتی ہے۔

    کوئنوا

    کوئنوا کی شہرت اس کی یہ حقیقت ہے کہ اس میں آٹھ گرام فی ایک کپ سرونگ ہوتا ہے۔ یہ بہت سے دوسرے اناج کے برعکس ایک مکمل پروٹین ہے۔ لیکن یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ یہ صرف جسم کی پروٹین کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔

    انڈے

    انڈے یقینی طور پر پروٹین کا ایک قیمتی اور مکمل ذریعہ ہیں، لیکن یہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ ہر انڈے سے صرف چھ گرام پروٹین حاصل ہوتا ہے۔

    حمص

    ڈاکٹر پیروومبا کے مطابق آدھا کپ چنے میں صرف سات گرام پروٹین ہوتا ہے۔ چنے کے پروٹین کے فوائد حاصل کرنے کے لیے انہیں مکمل طور پر اطمینان بخش کھانے کے لیے دیگر پروٹین سے بھرپور غذاؤں کے ساتھ جوڑا جانا چاہیے۔

    دہی

    دہی پروٹین کا ایک اچھا ذریعہ ہو سکتا ہے لیکن یہ منتخب کردہ قسم پر منحصر ہے۔ پیروومبا کا کہنا ہے کہ سادہ روایتی دہی میں فی 180 گرام سرونگ میں چھ گرام سے کم پر پروٹین ہوتی ہے۔

    ہڈیوں کا سوپ

    غذائیت کی دنیا میں ایک بڑا افسانہ ہے کہ آپ صرف ہڈیوں کا شوربہ پی کر پورے کھانے کو پروٹین میں بدل سکتے ہیں۔ یہ لیکویڈ کسی نہ کسی طرح وہ تمام پروٹین فراہم کرے گا جس کی ضرورت ایک شخص کو پیٹ بھرنے کے لیے ہوتی ہے، لیکن ہاربسٹریٹ کہتی ہے کہ یہ سچ نہیں ہے۔ یہ اپنے آپ میں ایک مناسب کھانا نہیں ہے۔

  • کیا ’ستّو‘ واقعی پروٹین حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے؟ جانیے

    کیا ’ستّو‘ واقعی پروٹین حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے؟ جانیے

    موسم گرما میں خود کو تازہ دم رکھنے کیلیے بہت سے ٹھنڈے مشروبات کا اہتمام کیا جاتا ہے، ان میں سے ایک ستو کا شربت بھی ہے جو دیگر مشروبات کے مقابلے جسم کے لیے زیادہ صحت بخش اور فائدہ مند ہے۔

    اس کے استعمال سے نہ صرف جسم میں پانی کی کمی دور ہوتی ہے بلکہ یہ ہمیں طاقت بھی فراہم کرتا ہے۔ سَتُّو میں پروٹین کی مقدار کو عام طور پر زیادہ ظاہر کیا جاتا ہے لیکن اس کی کوالٹی دالوں اور سویابین کے مقابلے میں اوسط ہوتی ہے۔

    ستو کا شربت ستو کے پاؤڈر سے بنتا ہے جو مختلف قسم کے دالوں کو پیس کر بنایا جاتا ہے لیکن خاص طور پر بازاروں میں ملنے والا ستو چنے کو پیس کر بنایا جاتا ہے۔

    دوسری جانب دیہی علاقوں کی رہنے والی خواتین دیگر اناج کو ایک ساتھ مکس کرکے پیس کر ستو بناتی ہیں جس میں گیہوں، جوار، مسور کی دال، مونگ کی دال اور چنا وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔

    Sattu

    سَتُّو اس خطے کی ایک روایتی غذا ہے اور پروٹین سے بھرپور غذا کے طور پر منسوب کی جاتی ہے لیکن ہوسکتا ہے کہ اس میں شاید اتنی غذائیت نہ ہو جتنا کہ سمجھی جاتی ہے۔

    مذکورہ مضمون میں ستّو کی غذائیت کا تفصیلی جائزہ پیش کیا جاریا ہے۔ اس حوالے سے دی ڈائٹ ایکسپرٹس کی سی ای او سمرت کتھوریا کا کہنا ہے کہ سَتُّو میں پروٹین کی مقدار اس کے بنانے کے طریقے اور تیاری میں استعمال ہونے والے مخصوص اناج کے لحاظ سے بہت مختلف ہوتی ہے۔

    بھارتی میڈیا میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق سمرت کتھوریا نے بتایا کہ گندم سے بنائے گئے سَتُّو میں تقریباً 12 سے 15 گرام پروٹین فی 100 گرام ہوتی ہے، جبکہ چنے کے سَتُّو میں پروٹین کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جو کہ 20 سے 25 گرام فی 100 گرام تک ہوتی ہے۔

    Sattu Drinks

    انہوں نے بتایا کہ اگرچہ سَتُّو جانوروں کے گوشت کی طرح پروٹین کی مقدار فراہم نہیں کرتا، لیکن یہ خاص طور پر سبزی کھانے والے افراد کی غذا کے لیے پروٹین حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔

    تاہم، دالوں اور سویابین جیسے دیگر ذرائع سے سَتُّو کے پروٹین کے معیار کا موازنہ کرنے سے اس میں کچھ کمیاں ظاہر ہوتی ہیں۔ سَتُّو کے امائنو ایسڈ کا پروفائل مکمل نہیں ہوتا، خاص طور پر اس میں لائسن جو کہ ایک ضروری امائنو ایسڈ ہے، کی کمی ہوتی ہے۔

    کٹھوریا نے تجویز کیا کہ سَتُّو کو دیگر پروٹین سے بھرپور غذا کے ساتھ شامل کیا جائے تاکہ امائنو ایسڈ کی متوازن مقدار کو یقینی بنایا جا سکے۔

    ان کا کہنا ہے کہ ذیابیطس کے مریضوں یا وہ افراد جو خون میں شکر کی سطح کو متوازن کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے سَتُّو کو کھانوں کے ساتھ ملا کر استعمال کرنا ضروری ہے۔

  • موٹاپے سے نجات کیلیے پروٹین کیسے استعمال کی جائے؟

    موٹاپے سے نجات کیلیے پروٹین کیسے استعمال کی جائے؟

    گزشتہ 20 سال میں دنیا بھر میں لوگوں میں موٹاپے کے شکار ہونے کی رفتار دگنی ہوگئی ہے۔ لیکن آج ہم اپنے کھانے پینے کے حوالے سے زیادہ باشعور بھی ہوگئے ہیں۔

    پچھلے کچھ سالوں میں ہم سفید بریڈ کی جگہ براؤن بریڈ، آٹے کی بریڈ اور موٹے اناج سے بنی بریڈ استعمال کرنے لگے ہیں۔ ہم فل کریم دودھ کی جگہ سکمڈ دودھ لینے لگے ہیں۔ صحت کے حوالے ہمارے شعور کا مرکز پروٹین ہے لیکن کس طریقے سے پروٹین لینی چاہیے، کتنی کم یا کتنی زیادہ پروٹین ہمارے لیے نقصان دہ ہے۔

    برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں صحت کے حوالے باشعور افراد یہ بات مانتے ہیں کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ پروٹین استعمال کرنی چاہیے لیکن اب تمام ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ زیادہ پروٹین والی یہ پروڈکٹس ہمارے لیے غیرضروری اور جیب پر بوجھ ہیں۔

    پروٹین ہمارے جسم کے نشوونما کے لیے ضروری ہے۔ زیادہ پروٹین والی چیزیں جسے دودھ، گوشت، انڈے، مچھلی اور دالیں ہمارا جسم بنانے کے لیے بے حد ضروری ہیں۔

    جب ہم ایسی چیزیں کھاتے ہیں، تو ہمارا معدہ انھیں توڑ کر امینو ایسڈز میں تبدیل کرتا ہے جسے ہماری چھوٹی آنت جذب کرتی ہے۔ یہاں سے یہ امینو ایسڈز ہمارے جگر تک پہنچتے ہیں۔ جگر یہ طے کرتا ہے کہ ہمارے جسم کے لیے ضروری امینو ایسڈز کون سے ہیں۔ انہیں الگ کر کے باقی ایسڈ پیشاب کے ذریعے جسم سے خارج کر دیتا ہے۔

    کتنی پروٹین لینی چاہیے؟

    جو بالغ افراد زیادہ بھاگ دور یا محنت کا کام نہیں کرتے، انھیں اپنے جسم کے مطابق فی کلو وزن کے حساب سے 0.75 گرام پروٹین چاہیے ہوتی ہے۔ اوسطاً یہ اعداد مردوں کے لیے 55 گرام اور خواتین کے لیے 45 گرام روزانہ ٹھیک ہے۔ یعنی دو مٹھی گوشت، مچھلی، خشک میوہ جات یا دالیں کھانے سے روزانہ پروٹین کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔

    پوری مقدار میں ضروری پروٹین نہ لینے سے بال جھڑنا، جلد پھٹنا، وزن گھٹنا اور پٹھے کھچنے کی شکایتیں ہو سکتی ہیں۔ لیکن کم پروٹین کھانے سے ہونے والی یہ پریشانیاں بہت کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ عام طور پر یہ انہی لوگوں میں دیکھنے کو ملتی ہیں، جن کے کھانے پینے میں بڑی گڑبڑ ہو اور کھانے میں باقاعدگی نہ ہو۔

    اس کے باوجود ہم اکثر یہی سمجھتے ہیں کہ باڈی بلڈنگ اور پٹھوں کی نشو و نما کے لیے پروٹین بے حد ضروری ہے۔ یہ کافی حد تک صحیح بھی ہے۔

    طاقت بڑھانے والی ورزش کرنے سے پٹھوں میں موجود پروٹین ٹوٹنے لگتی ہے۔ ایسے میں پٹھوں کو طاقتور بنانے کے لیے پروٹین کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ پٹھوں کی مرمت ہو سکے۔ اس میں پروٹین میں پایا جانے والا لیوسن نامی امینو ایسڈ بہت مددگار ہوتا ہے۔

    کچھ محقق تو یہ بھی کہتے ہیں کہ بہت مشکل ورزشیں کرنے کے بعد اگر ہم پروٹین سے بھرپور خوراک نہیں لیتے ہیں تو اس سے ہمارے پٹھے اور بھی زیادہ ٹوٹتے ہیں۔ یعنی ورزش سے تب فائدہ نہیں ہوتا، جب آپ پروٹین وغیرہ نہ لیں۔

    برطانیہ کی سٹرلنگ یونیورسٹی میں کھیلوں کے پروفیسر کیون کپٹن کہتے ہیں کہ ’زیادہ تر لوگوں کو ان کی ضرورت بھر سے زیادہ ہی پروٹین ان کے کھانے سے مل جاتی ہے۔ کسی کو سپلیمینٹ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ آسانی سے اپنی روزمرہ کے کھانے پینے کی چیزوں کے کے ذریعے مناسب مقدار میں پروٹین حاصل کر سکتے ہیں۔

  • بیماریوں کو دور کرنے کے لیے دہی کے حیرت انگیز فوائد

    بیماریوں کو دور کرنے کے لیے دہی کے حیرت انگیز فوائد

    دہی کھانے سے انسانی صحت پر انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں، لیکن دہی کے کچھ فوائد ایسے بھی ہیں جنہیں شاید آپ نہیں جانتے ہوں۔

    ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ اگر آپ جسمانی طور پر فٹ رہنا چاہتے ہیں لیکن آپ کے پاس ورزش کرنے کا وقت نہیں تو دہی کا روزانہ کی بنیاد پر استعمال کرکے آپ اپنے مقاصد کو حاصل کرسکتے ہیں۔

    دہی کا استعمال صدیوں سے کیا جا رہا ہے، اور اسے سپر فوڈ بھی سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس کے استعمال سے آپ کی صحت پر حیران کن اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ماہرین کی جانب سے ہر عمر کے افراد کو بہتر صحت کے لیے روزانہ دہی استعمال کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔

    دہی میں دیگر ضروری غذائی اجزا جیسے پروٹین بھی بڑی مقدار میں ہوتے ہیں جو کہ انسانی پٹھوں کی نشوونما کے لیے بہت فائدہ مند ہیں جبکہ دہی میں چکنائی اور کیلوریز بہت کم ہوتی ہیں، کیونکہ ایک کپ دہی میں صرف 120 کیلوریز ہوتی ہیں۔

    ہزاروں اچھے بیکٹریا کے ساتھ 100 گرام دہی میں 59 کیلوریز، 0.4 فیصد چکنائی، 5 ملی گرام کولیسٹرول، 36 ملی گرام سوڈیم، 141 ملی گرام پوٹاشیم، 3.2 گرام شوگر، 11 فیصد کیلشیم، 13 فیصد وٹامن، 5 فیصد کوبالا ہوتا ہے۔ B6O میں 2% میگنیشیم ہوتا ہے۔

    رائتہ استعمال کرنے، دہی کھانے، یا اس سے بنی نمکین یا میٹھی لسی پینے سے انسان کو زیادہ دیر تک بھوک کا احساس نہیں ہوتا اور جسمانی طور پر بہت زیادہ سکون محسوس ہوتا ہے۔ دہی میں ٹھنڈک کا اثر ہوتا ہے اس لیے گرمیوں اور روزے میں اس کا استعمال بڑھ جاتا ہے۔

    دہی کا باقاعدہ طور پر استعمال کرنے سے آسٹیوپوروسس اور آرتھرائٹس جیسی بیماریوں کا خطرہ بھی معدوم ہوجاتا ہے، اس کے علاوہ کیلشیم اور فاسفورس ہڈیوں اور دانتوں کے لیے بہت ضروری ہیں، دہی میں موجود کیلشیم اور فاسفورس کی وافر مقدار ہڈیوں اور دانتوں کو مضبوط بناتی ہے۔

    غذائی ماہرین کہتے ہیں کہ ورزش کرنے والوں کے لیے دہی کو خراب مسلز کے علاج اور نشوونما کے لیے ضروری غذا سمجھا جاتا ہے، جو لوگ مطلوبہ صحت مند وزن کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں انہیں روزانہ کی بنیاد پر ایک کپ دہی استعمال کرنا چاہئے۔

    دہی کا استعمال دل کی صحت کے لیے بھی بہت فائدہ مند ہے، یہی وجہ ہے کہ غذائیت کے ماہرین خاص طور پر ایسے مریضوں کے لیے جو دل کے امراض میں مبتلا ہیں، اس کا مشورہ دیتے ہیں، دہی کو دل کے امراض میں مبتلا افراد کے لیے بہترین غذا تصور کیا جاتا ہے۔

    دہی جسم میں کولیسٹرول کی سطح کو متوازن سطح تک بڑھاتا ہے اور ہائی بلڈ پریشر جیسی بیماریوں سے بھی نجات فراہم کرتا ہے۔

  • کون سی مچھلی کتنی مقدار میں کھانی چاہیے؟

    ہماری غذاؤں میں مچھلی ایک بہترین غذا ہے، ہر کوئی مچھلی پسند کرتا ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ مچھلی میں ایک ایسی چیز بھی پائی جاتی ہے جو انسانی صحت کے لیے بہت مضر ہے، یہ ہے پارہ، اس لیے یہ اہم سوال ابھرتا ہے کہ پارے کی مہلک سطح سے بچنے کے لیے کون سی مچھلی کتنی مقدار میں کھائیں؟

    سب سے یہ پہلے یہ جان لیں کہ مرکری کیا ہے؟
    مرکری ( پارہ ) ایک بھاری دھات ہے جو قدرتی طور پر ہوا، مٹی اور پانی میں پائی جاتی ہے۔ اس کی 3 اہم شکلیں ہیں۔
    1: عنصری
    2: نامیاتی
    3: غیر نامیاتی

    پانی میں پائی جانے والی قسم نامیاتی (Methyl mercury) کہلاتی ہے۔ سمندری پانی میں میتھائل مرکری کی بہت کم مقدار ہوتی یے، لیکن سمندری پودے جیسا کہ الجی (Algae) اسے جذب کرتے رہتے ہیں۔ چھوٹی مچھلیاں ان الجیوں کو کھا کر مرکری جذب کرتی ہیں۔ پھر بڑی مچھلیاں ان چھوٹی مچھلیوں کو کھا کر اپنے جسم میں مرکری لیول بڑھاتی رہتی ہیں، اور اس طرح اس چَین سے مچھلی کے گوشت میں میتھائل مرکری کی خطرناک سطح پروان چڑھتی ہے، جو انسانی جسم کے لیے بھی مہلک ہو سکتی ہے۔ انسانی بدن میں اس کا لیول بڑھنے پر یہ گردوں، اعصابی نظام اور دل پر حملہ کرتا ہے، جس سے کئی مہلک بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔

    اب اہم سوال یہ ہے کہ کتنی اور کون سی مچھلی کھائیں کہ پارے کی مہلک سطح سے بچیں رہیں؟
    مچھلی میں مرکری کی سطح کو ’پارٹس فی ملین‘ (PPM) کے حساب سے ماپا جاتا ہے۔ سمندری غذا کے استعمال کے لیے محفوظ سطح، ماہرین کے مطابق، ایک حصہ فی ملین (PPM) پارہ فی ہفتہ ہے۔ یعنی کہ پارے کی زیادہ سے زیادہ خوراک 3.3 مائیکرو گرام فی کلو گرام جسمانی وزن فی ہفتہ ہے۔ آسان زبان میں سمجھیں تو آپ وہ کم پارے والی مچھلیاں ہفتے میں دو بار کھا سکتے ہیں، جن کے پارے کی سطح 0.050 کے آس پاس ہوتی ہے۔ ان میں کیٹ فش، سول، حجام، بوئی، پلہ، تارلی یا لور اور جھینگا شامل ہیں۔

    اس کے بعد امروز ہے، جس کے پارے کی سطح 0.178 ہے، اسے مہینے میں 4 بار کھایا جا سکتا ہے، اور اسی سطح والی مچھلیوں میں مشکا اور ریڈ اسنیپر بھی شامل ہیں۔ اس کے بعد گھیسر اور یلو فِن ٹونا ہیں، جن کے مرکری کا لیول 0.350 کے آس پاس ہوتا ہے، انھیں مہینے میں 2 بار کھا سکتے ہیں۔ اور اس فہرست میں چند مچھلیوں کو چھوڑ کر باقی سبھی مچھلیاں شامل ہیں جسنھیں مہینے میں 2 بار کھا سکتے ہیں۔

    وہ مچھلیاں جن میں مرکری کی سطح بہت بلند ہوتی ہے، انھیں کھانے سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے، ان میں مندرجہ ذیل شامل ہیں:
    Swordfish 0.995
    Shark 0.979
    King mackerel 0.730
    Big-eye Tuna 0.689
    Marlin 0.485

    اگرچہ اس فہرست میں مشہور مچھلی کنگ میکریل یعنی سرمائی شامل ہے، تاہم اس سے پرہیز ہی بہتر ہے، پھر بھی اگر کھانا چاہیں تو مہینے میں صرف 1 بار کھائیں، لیکن خیال رہے کہ اس مہینے کیٹ فش اور جھینگے کے علاوہ اور کوئ سمندری غذا نہ کھائیں۔

    یاد رکھنے کی بات:
    آپ مچھلی کے پارے کے بارے میں فکرمند تب ہی ہو سکتے ہیں جب آپ اسے سال کے بارہ مہینے کھاتے ہیں۔ تب آپ کو مندرجہ بالا ہدایات کی روشنی میں ایک مینو ترتیب دینا پڑے گا، جس پر عمل کر کے آپ پارے کے نقصان دہ اثرات سے بے فکر ہو سکتے ہیں۔

    مثال کے طور پر آپ پورا مہینہ 4 سے 5 بار کم مرکری والی فش کھائیں اور پھر کوئی سی 1 یا 2 میڈیم رینج والی مچھلی کھائیں۔ چوں کہ ہر مچھلی کے اپنے اپنے نیوٹریشن اور فائدے ہوتے ہیں اس لیے ہمیشہ الگ الگ نسل کی مچھلی کا انتخاب کریں، تاکہ آپ مچھلی کے فوائد سے پوری طرح مستفید ہو سکیں۔ لیکن اگر آپ کبھی کبھار یا مہینے میں 1 سے 2 بار مچھلی کھانے والے ہیں، تب آپ کو پارے کے بارے میں فکر کرنے کی زیادہ ضرورت نہیں، بس مندرجہ بالا ہائی مرکری مچھلیوں سے اجتناب برتیں۔

    کیا پارے کے نقصان دہ اثرات کی وجہ سے مچھلی کھانا چھوڑ دینا چاہیے؟
    بالکل بھی نہیں، جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ آپ ایک ’محفوظ‘ مینو ترتیب دے سکتے ہیں۔مچھلی کھانے کے بہت سے فوائد ہیں اور یہ اللہ کی ایسی نعمت ہے جو ملاوٹ سے مکمل پاک ہے۔

    مچھلی اومیگا 3 فیٹی ایسڈز اور وٹامنز جیسا کہ ڈی اور بی 2 (ربوفلاوین) بی 12، اور بی 6 سے بھرپور ہوتی ہے۔ مچھلی کیلشیم اور فاسفورس سے بھی بھرپور ہوتی ہے اور یہ معدنیات کا ایک بڑا ذریعہ ہے، جیسا کہ آئرن، زنک، آیوڈین، میگنیشیم اور پوٹاشیم۔

    چوں کہ مچھلی پروٹین کا ایک بہترین ذریعہ ہے، اور اعصابی نشوونما میں مدد دیتی ہے، اس لیے یہ غذا کا ایک اہم جزو ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن ایک صحت مند غذا کے حصے کے طور ہر ہفتے میں کم از کم دو بار مچھلی کھانے کی سفارش کرتی ہے۔ اگر آپ پھر بھی پارے کے بارے میں فکرمند ہیں تو آپ اپنی فکرمندی کے خدشات کو بہت ہی آسانی سے مزید گھٹا بھی سکتے ہیں۔

    آپ جب بھی مچھلی خریدیں ہمیشہ چھوٹے سائز کا پیس لیں، یعنی کہ 1 کلو، یا پھر 2 کلو سے 3 کلو والا پیس لیں، اور 5 کلو سے زائد والا پیس بالکل بھی نہ لیں۔ چوں کہ کم عمر مچھلی میں مرکری جذب کرنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے، اس لیے مرکری کے نقصان دہ اثرات کا خطرہ اور بھی کم ہو جاتا ہے۔

    یاد رکھیں کہ مچھلی میں سیلینئم (Selenium) بھی ہوتا ہے، یہ مختلف انزائمز اور پروٹینز کا ایک لازمی جزو ہے، جسے سیلینوپروٹین کہتے ہیں، جو ڈی این اے بنانے اور سیل کو پہنچنے والے نقصان اور انفیکشن سے بچانے میں مدد کرتے ہے۔ سیلینئم مدافعتی نظام کے افعال اور تولیدی عمل کو بہتر بنانے میں بھی مدد کر تا ہے، اس لیے بانجھ پن کی ادویات میں سیلینئم شامل کیا جاتا ہے، تاکہ تولیدی عمل کو بڑھایا جا سکے۔ یہ تھائیرائڈ ہارمون، میٹابولزم اور ڈی این اے کی ترتیب کو برقرار رکھنے اور جسم کو آکسیڈیٹیو نقصان اور انفیکشن سے بچانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ اس لیے یہ پارے کے نقصانات کو مزید کم کرتا ہے۔

    آخری بات، مچھلی ہمیشہ تازہ یعنی کہ A گریڈ خریدیں، تبھی آپ مچھلی کے مکمل فوائد سے استفادہ کر پائیں گے۔

  • سائنس دانوں نے پانی، بجلی اور ہوا سے غذا تیار کر لی

    سائنس دانوں نے پانی، بجلی اور ہوا سے غذا تیار کر لی

    ہیلسنکی: اور اب بجلی، پانی اور ہوا سے ’کھانے‘ تیار کیے جائیں گے، فن لینڈ کی ایک کمپنی ’سولر فوڈز‘ نے پروٹین سے بھرپور غذا بنانے کا ایک انوکھا طریقہ ایجاد کر لیا ہے، آئندہ برسوں میں اس کی مدد سے پروٹین کی قلت کا عالمی مسئلہ حل کرنے میں مدد لی جا سکتی ہے۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس طریقے سے غذا بنانے کے لیے صرف ہوا، پانی اور بجلی درکار ہوتی ہے، جب کہ بجلی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے شمسی توانائی استعمال کی جاتی ہے، تاکہ یہ پورا طریقہ ماحول دوست رہے۔

    اس طریقے پر تیار شدہ غذا کو سولین (Solein) کا نام دیا گیا ہے، جو ’سولر پروٹین‘ کا مخفف ہے، پروٹین بنانے کی یہ نئی تکنیک خاصی حد تک تخمیر (فرمنٹیشن) کے عمل سے مشابہ ہے، جس کا زیادہ استعمال شراب سازی کی صنعت میں کیا جاتا ہے۔

    سائنس دانوں کے مطابق پہلے مرحلے کے دوران پانی میں سے بجلی گزار کر ہائیڈروجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے بلبلے خارج کروائے جاتے ہیں، پھر اس میں زندہ خوردبینی جان دار (مائیکروبز) شامل کیے جاتے ہیں، جو کاربن ڈائی آکسائیڈ، پانی اور ہوا کا ایک ساتھ استعمال کرتے ہوئے، مختلف اقسام کے پروٹین بناتے ہیں، اور یہ محلول کی شکل میں ہوتے ہیں۔

    آخری مرحلے پر یہ محلول خشک کر لیا جاتا ہے، سفوف (پاؤڈر) کی شکل میں اس میں پروٹین باقی رہ جاتے ہیں، خشک حالت میں ’سولین‘ کا 50 فی صد حصہ پروٹین پر مشتمل ہوتا ہے، جب کہ یہ دیکھنے اور کھانے میں گندم کے آٹے کی طرح محسوس ہوتا ہے۔

    سولر فوڈز کے مطابق، سولین کو کسی بھی قسم کی غذا میں شامل کر کے اس کی غذائیت میں غیر معمولی اضافہ کیا جا سکتا ہے، اس کی تیاری تجارتی پیمانے پر بھی کی جائے گی، سولر فوڈز کا منصوبہ ہے کہ 2021 تک سولین کی پیداوار بڑھا کر 2 ارب خوراک سالانہ تک پہنچائی جائے، واضح رہے کہ اس وقت دنیا بھر میں پروٹین کا سب سے بڑا ذریعہ گوشت ہے۔

  • پروٹین کے حصول کے لیے اب گوشت کی ضرورت نہیں

    پروٹین کے حصول کے لیے اب گوشت کی ضرورت نہیں

    دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ غذائی ضروریات بھی بڑھتی جارہی ہیں، جس کے لیے موجودہ وسائل ناکافی ہیں اور یوں دنیا کی ایک بڑی آبادی غذائی قلت کا شکار ہے۔

    اسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے چند نوجوانوں نے متبادل پروٹین کی پیداوار کا منصوبہ پیش کیا ہے جسے دنیا بھر کے ماہرین کی پذیرائی حاصل ہوئی۔

    سنگاپور میں منعقد کی جانے والی انوویٹ فار کلائمٹ کانفرنس کے تحت ہونے والے لیو ایبلٹی چیلنج میں دنیا بھر کے تخلیقی ذہن رکھنے والے افراد کو ماحول دوست آئیڈیاز پیش کرنے کی دعوت دی گئی جس کے لیے سینکڑوں آئیڈیاز موصول ہوئے۔ ان تمام آئیڈیاز میں متبادل پروٹین کا آئیڈیا مقابلے کا فاتح ٹھہرا۔

    فاتح کمپنی

    متبادل پروٹین کا یہ منصوبہ امریکی ریاست کیلی فورنیا کے نوجوانوں کی ایک کمپنی صوفیز کچن نے پیش کیا۔

    اس پروٹین کو بنانے کے لیے مختلف غذائی اشیا کی تیاری کے دوران بچ جانے والے خمیر اور ایک قسم کی الجی کو استعمال کیا گیا ہے۔ ان دونوں اشیا کی آمیزش سے اگنے والا پودے میں وافر مقدار میں پروٹین موجود ہوتی ہے۔

    یہ پودا صرف 3 دن میں اگایا جاسکتا ہے جبکہ پروٹین حاصل کرنے کے روایتی ذرائع جیسے گائے کو نشونما کے لیے ایک عرصہ درکار ہے، جبکہ گوشت کی پیداوار کے لیے کم از کم 141 ایکڑ زمین چاہیئے۔ اس کے برعکس پروٹین کے اس پودے کو صرف 0.02 ایکڑ زمین درکار ہے۔

    اسی طرح اس پودے کی تیاری میں پانی بھی کم استعمال ہوگا جبکہ گائے کی افزائش کی نسبت اس کا کاربن فٹ پرنٹ (کاربن اخراج / اثرات) بھی بے حد کم ہوں گے۔

    مزید پڑھیں: برگر ہماری زمین کے لیے سخت خطرات کا باعث

    خیال رہے کہ پروٹین کے حصول کا ذریعہ یعنی مختلف مویشیوں کو رہائش کے ساتھ پینے کے لیے پانی، گھاس (اسے اگانے کے لیے مزید پانی) اور دیگر اناج بھی درکار ہے۔

    گوشت کی کسی دکان پر موجود ایک پاؤنڈ کا گوشت، 35 پاؤنڈ زمینی مٹی، ڈھائی ہزار گیلن پانی اور 12 پاؤنڈز اناج صرف کیے جانے کے بعد دستیاب ہوتا ہے۔

    الجی اور خمیر سے تیار کیے جانے والے اس پودے کو بطور غذا استعمال کیا جاسکتا ہے جو انسانی جسم کو درکار غذائی ضروریات پوری کرسکتا ہے۔

    اس آئیڈیے کو 10 لاکھ سنگاپورین ڈالر یعنی لگ بھگ 7 لاکھ امریکی ڈالر کا انعام دیا گیا تاکہ اس منصوبے کو نہ صرف ایشیا بلکہ دنیا بھر میں فروغ دیا جاسکے اور غذائی بحران اور قلت پر قابو پانے کے لیے قدم اٹھایا جاسکے۔

  • پروٹین والی غذاؤں کا بہت زیادہ استعمال نقصان کا سبب

    پروٹین والی غذاؤں کا بہت زیادہ استعمال نقصان کا سبب

    جسم کو صحت مند رکھنے کے لیے پروٹین کا استعمال از حد ضروری ہے لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ بہت زیادہ پروٹین کھانا آپ کو نقصان سے دو چار کرسکتا ہے؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پروٹین والی غذائیں جیسے دودھ، دہی، پنیر، مچھلی اور انڈے اگر توازن کے ساتھ استعمال کیے جائیں تب تو یہ جسم کے لیے فائدہ مند ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ان کی بے تحاشہ مقدار استعمال کی جائے تو یہ آپ کو بے شمار نقصانات پہنچا سکتے ہیں۔

    طبی ماہرین کے مطابق جسم کے وزن کے ایک کلو گرام کے لیے 0.8  گرام پروٹین کافی ہے۔ اس طرح ایک عام جسامت کے شخص کے لیے 46 سے 56 گرام پروٹین موزوں ترین ہے۔

    تاہم اس مقدار سے زائد پروٹین کا استعمال آپ کو ان نقصانات سے دو چار کرسکتا ہے۔

    گردوں کی خرابی

    گردے ہمارے جسم کا فلٹر ہوتے ہیں جو غذا میں سے غیر ضروری اشیا کو چھان کر انہیں جسم سے خارج کردیتے ہیں۔ اگر آپ بہت زیادہ پروٹین والی غذائیں کھائیں گے تو ان کے سخت ذرات کو چھاننے کے لیے گردوں کو زیادہ محنت کرنی ہوگی اور وہ دباؤ کا شکار ہوں گے۔

    گویا پروٹین کا زیادہ استعمال گردوں کو خرابی کا شکار کرنے کے مترادف ہے۔

    پیٹ کے مسائل

    بہت زیادہ پروٹین کا استعمال آپ کو قبض اور گیس میں بھی مبتلا کرسکتا ہے جس کی وجہ ان غذاؤں میں فائبر یا ریشے کا نہ ہونا ہے۔

    ریشہ ہمارے نظام ہضم کو بہتر کرتا ہے جس سے کھائی جانے والی غذا جلد ہضم ہوجاتی ہے۔ تاہم پروٹین والی غذائیں اس عمل کو مشکل بنا سکتی ہیں۔

    وزن میں اضافہ

    یوں تو وزن میں کمی کے لیے پروٹین والی غذاؤں کو بہترین سمجھا جاتا ہے تاہم ان کا حد سے زیادہ استعمال آپ کو موٹاپے میں مبتلا کرسکتا ہے۔

    منہ کی بدبو

    جب ہمارا جسم توانائی حاصل کرنے کے لیے پروٹین والی غذاؤں کو توڑتا ہے تو اس وقت ہمارا جسم کچھ کیمیائی مرکبات بھی پیدا کرتا ہے جو بو پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ جتنا زیادہ ہم پروٹین استعمال کریں گے، ہمارے منہ سے بو آنے کا اندیشہ بھی اتنا ہی ہوگا۔

    پریشان کن بات یہ ہے کہ منہ کی یہ بدبو برش کرنے یا ماؤتھ واش کے استعمال سے بھی کم نہیں ہوتی۔ اس سے چھٹکارے کا واحد حل پروٹین والی غذاؤں کا استعمال کم کردینا ہے۔

    موڈ کی خرابی

    کاربو ہائیڈریٹس ہمارے جسم میں ایسے ہارمونز پیدا کرتے ہیں جو ہمارے اندر خوش کن احساسات پیدا کرتے ہیں۔ کاربو ہائیڈریٹس کی کمی اور پروٹین کی زیادتی ان ہارمونز میں کمی کرتی ہے جس کے باعث ہم غصہ، اداسی اور مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    پیاس میں اضافہ

    پروٹین کا زیادہ استعمال ہمارے جسم کو شدید قسم کی پیاس میں مبتلا کردیتا ہے جس سے ہم معمول سے زیادہ پانی پینے پر مجبور ہوجاتے ہیں، تاہم پھر بھی ہماری پیاس نہیں بجھتی۔

    بار بار پانی پینے کی وجہ سے ہمارے گردے بھی دباؤ کا شکار ہوسکتے ہیں اور ان میں مختلف پیچیدگیاں جنم لے سکتی ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • بالوں کو خراب کرنے والی چند وجوہات

    بالوں کو خراب کرنے والی چند وجوہات

    بال ہماری شخصیت کا اہم حصہ ہیں۔ اگر ہمارے بال روکھے اور بے جان ہوں گے تو ہماری شخصیت کا مجموعی تاثر بھی خراب ہوگا۔ اس کے برعکس خوبصورت اور صحت مند بال ہماری شخصیت میں چار چاند لگاتے ہیں۔

    بالوں کے خراب ہونے کی کئی وجوہات ہوتی ہیں۔ سب سے پہلے تو بالوں کی ساخت کو سمجھنا ضروری ہے تاکہ اس حساب سے بالوں کی حفاظت کی جائے۔ اگر بال خشک ہیں تو زیاہ تیل اور چکناہٹ پیدا کرنے والی چیزوں کا استعمال مناسب رہے گا۔

    مزید پڑھیں: بالوں کو لمبا اور مضبوط بنانے کے 5 آسان طریقے

    لیکن اگر بال چکنے ہیں تو ایسی چیزوں کا استعمال درست ہے جو چکنائی پیدا ہونے سے روکتے ہیں۔

    یہاں کچھ ایسی وجوہات بتائی جارہی ہیں جو عموماً ہر طرح کی ساخت کے بالوں کو متاثر کرتی ہیں۔

    :بالوں کو خراب کرنے والی وجوہات

    باہر نکلتے ہوئے بالوں کو ہمیشہ ڈھانپ کر نکلیں۔ زیادہ گرمی اور دھوپ بالوں کی رنگت کو خراب کردیتی ہے۔

    زیادہ شیمپو کا استعمال بالوں کو خشک اور خراب کردیتا ہے۔

    مزید پڑھیں: کیا آپ کا شیمپو کچھ عرصے بعد اپنا اثر کھو دیتا ہے؟

    ہیئر اسپرے اور ہیئر لوشن کا باقاعدہ استعمال بالوں کے لیے زہر ہے۔ کوشش کرنی چاہیئے کہ بالوں پر کیمیکلز کا استعمال کم سے کم کیا جائے۔

    گیلے بالوں پر کنگھا کرنے سے بالوں کی جڑیں کمزور ہوجاتی ہیں اور وہ ٹوٹنے لگتے ہیں۔

    کھارے پانی سے سر دھونا بھی بالوں کی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔

    نہانے کے بعد اگر گیلے بالوں کو رگڑ کر خشک کیا جائے تو اس سے بال پھٹ جاتے ہیں اور دو منہے ہوجاتے ہیں۔

    دائمی نزلہ بھی بالوں کو سفید کرنے کا سبب بنتا ہے۔

    :بالوں کی نشونما کے لیے غذائیں

    بال چونکہ پروٹین سے بنے ہوتے ہیں لہٰذا ایسی غذاؤں کا استعمال بالوں کے لیے مفید ہے جو پروٹین سے بھرپور ہوں۔ پروٹین حاصل کرنے کا سب سے بہترین ذریعہ انڈے اور دودھ ہیں۔

    ان کے علاوہ مسور کی دال، مچھلی، سفید گوشت، دہی، پنیر، لوبیا اور سویا بین بھی پروٹین سے بھرپور ہوتے ہیں۔

    جن غذاؤں میں زنک پایا جاتا ہے ان کا استعمال بڑھا دیں۔ زنک مخصوص ہارمونز میں باقاعدگی لا کر بالوں کو گرنے سے روکتا ہے۔

    پالک، مچھلی، اناج، کدو، سرسوں کا بیج، مرغی کا گوشت، خشک میوہ جات زنک کے حصول کا بہترین ذریعہ ہیں۔

    سالمن اور ٹونا مچھلی میں اومیگا تھری کی خاصی مقدار موجود ہوتی ہے جو آپ کے بالوں کو توانا رکھنے میں مدد دیتی ہے۔

    زیادہ سے زیادہ مچھلی کھانے سے آپ کے بال گرنا نہ صرف کم ہوجائیں گے بلکہ نئے بال بھی اگنے لگیں ہیں۔

    پالک آئرن اور فولک ایسڈ کا بہترین ذریعہ ہے، لہٰذا پتوں والی پالک بالوں کی نشوونما میں انتہائی مفید ہے۔

    فولک ایسڈ خون کے سرخ ذرات کو پیدا کرتا ہے جو بالوں کی جڑوں تک آکسیجن کی فراہمی کو ممکن بناتا ہے۔ پالک کو باقاعدگی سے اپنی سلاد کا حصہ بنائیں۔

  • دہی کااستعمال ہائی بلڈ پریشرکو معمول پرلانےمیں مفید ہے

    دہی کااستعمال ہائی بلڈ پریشرکو معمول پرلانےمیں مفید ہے

    کراچی: (ویب ڈیسک) دہی کاروزانہ استعمال ہائی بلڈ پریشرمیں مبتلا افراد کےلیےمفید ہے۔

    طبی ماہرین کےمطابق دہی کا روزانہ استعمال بلندفشار خون کو معمول پرلانےمیں مددگار ثابت ہوتاہے۔

    ایک تحقیق میں بتایا گیا ہےکہ دہی میں شامل صحت بخش بیکٹیریامعدے میں جاکربلند فشار خون کو معمول پر لانےمیں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

     دہی میں پائے جانے والے بیکٹیریا پرو بائیوٹیک کے استعمال کو معمول بنالیتے ہیں جس سے بلند فشار خون کی سطح کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔

    دہی میں پائے جانے والا کیلشیم، پروٹین ، وٹامن بی، فولک ایسڈ بڑھتے ہوئے کولیسٹرول کوکم کرنے کیلئے نہایت مفید ہے۔ اگر روزانہ دو پیالے دہی کھایا جائے تواس خطرناک مرض پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

    تحقیق کےمطابق دہی کا روزانہ استعمال ذیابطیس کے خطرہ کو بیس فیصد تک کم کر دیتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دوپہر کے کھانے میں دہی کا مستقل استعمال انسانی صحت پر خوش گوار اثرات مرتب کرتا ہے۔