پاکستان کے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ حد سے زائد ٹیکسز کا ریٹ بڑھائیں گے تو لوگ نہیں دیں گے۔
اے آر وائی کے پروگرام سوال یہ ہے میں گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے سابق رہنما کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام اس ٹیکس کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتے، کیا حکومت نے ٹیکس بیس بڑھانے کی کوشش کی؟ کوئی بھی یہ ٹیکسز برداشت نہیں کرسکتا، جو نوکریاں کررہے ہیں چھوڑ جائیں گے۔
انھوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگوں کی اکثریت 50 فیصد ٹیکس نیٹ میں آتی ہے، کیا وہ ٹیکس دیتے ہیں؟ سیاسی جمود آجائے، حکومت مینڈیٹ نہ رکھتی ہو تو ازسرنو الیکشن کے علاوہ اور حل کیا رہ جاتا ہے،
سابق رہنما مسلم لیگ ن نے کہا کہ جب ایسے حالات ہوں تو دیگرممالک میں قومی حکومت بنائی جاتی ہے، ملک میں نئے الیکشن سے پہلے سیاسی مفاہمت ضروری ہے۔
شاہد خاقان نے کہا کہ ٹیکس ریٹس گرا دیں، 50 فیصد کوئی نہیں دے گا، 15 فیصد رکھیں گے لوگ دیں گے، برآمدات پر مزید ٹیکس لگایا جا رہا ہے، پہلے ہی سب سے مہنگی بجلی، گیس اور زمین ہے اور اس پر بھی مزید ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ حکومتی بدانتظامی سے پچھلے سال جو 7 ہزار بجلی کا بل تھا وہ اب 17 ہزار ہوگیا ہے، بےسود اداروں کی لمبی فہرست ہے، ختم کیے جائیں۔
انھوں نے کہا کہ جگاڑ کب تک کریں گے، اصلاحات نہیں کریں گے تو نہیں چل سکتے، قرضوں کے پیسے پر گزارہ کرتے رہے اب وہ گنجائش ختم ہوگئی ہے۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ان ٹیکسز سے کمپنیوں میں موجود اچھے منیجرز ملک چھوڑ کر چلے جائیں گے، عدالت کے پاس فارم 45 کا معاملہ ہے، فیصلہ کرلے، آج ملک اور اداروں میں تفریق ہے، اس طرح ملک نہیں چلےگا۔
انھوں نے کہا کہ کیا یہ 6، 7 آدمی ساتھ نہیں بیٹھے سکتے؟ ملک بےپناہ مشکل میں ہے، اپنی کرسیاں چھوڑ دیں کچھ عرصے کیلئے، ملک کو دیکھیں کیسے آگے جانا ہے، روانڈا میں نسل کشی ہوئی مگر پھر مفاہمت کے بعد قومی حکومت بنی۔
اسلام آباد: ماہر قانون دان اور سینئر سیاست دان اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ ابھی تک ہم براڈ شیٹ معاملے کو صحیح انداز سے نہیں دیکھ رہے، اس معاملے پر سب سے پہلے بیوروکریٹس کا نام آنا چاہیے۔
اے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے میں گفتگو کرتے ہوئے اعتزاز احسن نے کہا براڈ شیٹ کو ادائیگیاں بیوروکریٹس کے دور میں ہوئیں، یہ معاملہ جنرل (ر) امجد کی موجودگی میں ہوا، پھر یہ معاہدہ جنرل (ر) شاہد عزیز کے دور میں ہوا، معاملے پر پہلے بیوروکریٹس کا نام آنا چاہیے، لیکن ہر معاملے پر پہلے سیاست دانوں کو بدنام کر دیا جاتا ہے۔
انھوں نے کہا جسٹس (ر) عظمت سعید شیخ کو براڈ شیٹ پر کمیٹی کا سربراہ نہیں بننا چاہیے، انھیں اس پر اعتراض کرنا چاہیے۔
تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے رہنما پیپلز پارٹی نے کہا عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے لیے ہمیں محنت کرنی پڑے گی، عمران خان کی حکومت تو صرف 4 ووٹوں پر کھڑی ہے، پنجاب میں بھی پی ٹی آئی حکومت بہت کم مارجن پر کھڑی ہے، حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد نہیں لائیں گے تو عمران خان کیسے جائیں گے۔
اعتزاز احسن کا کہنا تھا استعفے آخری آپشن ہیں، اگر ہم نے استعفے دے دیے اور حکومت نے الیکشن کرا دیے تو کیا ہوگا؟ پی ٹی آئی حکومت پر ان کی کارکردگی کا دباؤ ہے، یہ حکومت اپنے وزن سے ہی نیچےگر رہی ہے۔
انھوں نے کہا عمران خان کو اتارنے کا ایک ہی طریقہ ہے وہ ہے تحریک عدم اعتماد، اگر ان سے دباؤ کے ذریعے استعفیٰ لیا گیا تو وہ سیاسی شہید بن جائیں گے۔
کراچی: صوبائی وزیر ناصر حسین شاہ نے گھوٹکی واقعے کو بد قسمتی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پوری کوشش ہے کہ ایسے واقعات رونما نہ ہوں، واقعے پر سخت ایکشن ہوگا، اس معاملے پر قانون سازی بھی ہوئی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما ناصر حسین شاہ نے اے آر وائی پروگرام سوال یہ ہے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اقلیتوں کے تحفظ کے لیے بلاول بھٹو کے واضح احکامات ہیں، اقلیتوں کو سینیٹ اور قومی و صوبائی اسمبلی میں نمائندگی بھی دی گئی ہے۔
رہنما پی پی کا کہنا تھا کہ گھوٹکی کے معاملے پر چیئرمین بلاول بھٹو نے نوٹس لیا ہے، ان کی ہدایت پر وزیرِ اعلیٰ سندھ نے ہدایات جاری کیں، معاملے پر وزیرِ اعلیٰ پنجاب سے بھی رابطہ ہوا ہے۔
ناصر حسین شاہ نے کہا کہ اقلیتوں کے تحفظ کے لیے پیپلز پارٹی نے قانون سازی بھی کی ہے، ہماری ہم دردیاں متاثرہ خاندان کے ساتھ ہیں، بلاول بھٹوکی ہدایت پر اقلیتی برادری کا بہت خیال رکھتے ہیں، سندھ میں قانون لاگو ہے وہ لوگ دوسرے صوبے گئے۔
خیال رہے کہ سندھ کے علاقے گھوٹکی میں دو کم عمر لڑکیوں کو مبینہ طور پر اغوا کر کے مسلمان کیا گیا اور بعد ازاں ان کی شادیاں کرائی گئیں، تاہم ایک وڈیو میں لڑکیوں نے کہا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے گئیں اور مسلمان ہوئیں۔
لاہور: وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ 18 ویں ترمیم کی وجہ سے تعلیم اور صحت کا معیار گرا ہے، اس میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جنھیں بہتر بنایا جا رہا ہے۔
ان خیالات کا اظہار وہ اے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے میں کر رہے تھے، انھوں نے کہا کہ زرداری صاحب 18 ویں ترمیم کو سیاسی ایشو بنا رہے ہیں، حالاں کہ اتفاق کے بغیر اس میں کوئی ترمیم نہیں ہو سکتی۔
[bs-quote quote=”وزیرِ اعظم عمران خان آئندہ اسمبلی اجلاس میں شرکت کریں گے۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″ author_name=”فواد چوہدری” author_job=”وفاقی وزیر اطلاعات”][/bs-quote]
فواد چوہدری نے کہا ’18 ویں ترمیم میں صوبوں کو اختیارات ملنا اچھی بات ہے، تاہم اب کئی اختیارات ضلعی اور تحصیل کی سطح پر بھی جانے چاہئیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ وزیرِ اعظم عمران خان آئندہ اسمبلی اجلاس میں شرکت کریں گے، جتنی ذمہ داری حکومت کی ہے اتنی ہی اپوزیشن کی بھی ہے، لیکن اپوزیشن طے کر کے آتی ہے کہ پارلیمنٹ کا بزنس نہیں چلنے دینا، پارلیمنٹ میں کسی معاملے کو بحث سے نہیں روکا جا سکتا۔
تحریکِ لبیک ایشو
وزیرِ اطلاعات نے کہا کہ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ معاہدے ہو جاتے ہیں لیکن پھر ٹوٹ بھی جاتے ہیں، تحریکِ لبیک والوں سے بھی بات چیت ہوئی تھی، اگر یہ بات چیت کام یاب ہو جاتی تو گرفتاریوں کی نوبت نہ آتی، آئین و قانون سے خود بالا تر سمجھنے والوں کے خلاف قانون ضرور حرکت میں آئے گا۔
فواد چوہدری نے کہا ’سوسائٹی میں بغاوت نہیں چلتی، حکومت نے تمام فیصلے سوسائٹی کے مفاد میں کیے ہیں، پاکستان کی تاریخ میں کبھی اداروں کے خلاف ایسی بات نہیں کی گئی، ہم نے کبھی آئین توڑنے یا پارلیمنٹ پر حملوں کی حمایت نہیں کی۔‘
پی اے سی معاملہ
فواد چوہدری نے کہا کہ کمیٹیاں نہ بننے کے ذمہ دار ن لیگ والے ہیں، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین کے لیے ن لیگ کا مؤقف غیر اخلاقی ہے، ن لیگ کو چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے مطالبے سے پیچھے ہٹنا چاہیے۔
[bs-quote quote=”نیب کے معاملات سے ہمارا کوئی تعلق نہیں، نیب میں ہم نے تو ایک چپڑاسی بھی بھرتی نہیں کرایا۔” style=”style-7″ align=”right” color=”#dd3333″ author_job=”وزیرِ اطلاعات”][/bs-quote]
انھوں نے مزید کہا کہ نواز شریف کے منصوبوں کو آڈٹ شہباز شریف کیسے کر سکتے ہیں؟ جب ہماری حکومت ختم ہوگی تو ہمارے منصوبوں کا آڈٹ کوئی اور کر لے، تاہم اب آئندہ اجلاس تک پرویز خٹک کمیٹیوں کا معاملہ حل کر لیں گے۔
وزیرِ اطلاعات نے کہا ’خیبر پختونخوا کا قانون دیگر حصوں سے مختلف ہے، کے پی اسمبلی کا اسپیکر پی اے سی کا چیئرمین ہوتا ہے، یہ قانون 30 سال سے ہے، اپوزیشن کو کے پی اسمبلی میں قانون سازی پر مسئلہ ہے تو آ کر بات کر لیں۔‘
قومی احتساب بیورو
فواد چوہدری نے کہا کہ وزیرِ اعظم عمران خان نے نیب پر عدم اعتماد کا اظہار نہیں کیا، نیب کے معاملات سے ہمارا کوئی تعلق نہیں، نیب میں ہم نے تو ایک چپڑاسی بھی بھرتی نہیں کرایا، نیب کی وجہ سے ہمارے وزیر بابر اعوان کو استعفیٰ دینا پڑا۔
ان کا کہنا تھا ’نیب نے پی ٹی آئی پر ہاتھ ہلکا نہیں رکھا، پی ٹی آئی رہنما نیب کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں، زلفی بخاری 6 سے 7 پیشیاں بھگت چکے ہیں، کسی وزیر یا مشیر کے خلاف ریفرنس فائل ہوگا تو وہ استعفیٰ دے گا، پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف نیب کی انکوائریز بیلنسنگ ایکٹ ہیں۔‘
[bs-quote quote=”آئی جی اسلام آباد معاملے پر میری نظرمیں اعظم سواتی درست ہیں۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″ author_job=”فواد چوہدری”][/bs-quote]
وزیرِ اطلاعات نے کہا کہ سیاسی شور شرابے پر نیب دوسروں کے خلاف انکوائری شروع نہیں کرتی، اپوزیشن ترمیم کے ذریعے نیب کو غیر مؤثر کرنا چاہتی ہے، نیب کے دانت توڑنا چاہتی ہے، تاہم نیب کے لیے اپوزیشن ترامیم کی تجویز دے گی تو ان پر غور کریں گے۔
انھوں نے مزید کہا ’نیب کی کرپٹ افراد کو سزا دلانے کی شرح بہت کم ہے، ملائیشیا میں ہر 100 میں سے 90 کرپٹ افراد جیل جاتے ہیں، ہم ترمیم کے ذریعے نیب کے اختیارات بڑھانا چاہتے ہیں، جسٹس (ر) جاوید اقبال کے آنے سے نیب میں بہتری آئی ہے۔‘
آصف زرداری، اعظم سواتی اور ڈالر
وزیرِ اطلاعات نے کہا کہ آصف زرداری اندرون سندھ کی چھوٹی سی جماعت کے سربراہ ہیں، نواز شریف پر 300 ارب روپے کا الزام تھا، جس پر استعفے کا مطالبہ کیا گیا، خواجہ آصف پر دبئی میں 16 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ پر کام کا الزام تھا۔
فواد چوہدری نے کہا ’اعظم سواتی والا معاملہ 2 خاندانوں میں جھگڑا تھا جسے حل کر لیا گیا، لیکن بیوروکریسی تعاون نہیں کرے گی تو انارکی پھیلے گی، اعظم سواتی کیس میں سپریم کورٹ جو فیصلہ کرے گی قبول ہوگا، اس معاملے پر جے آئی ٹی سے مطمئن نہیں ہوں، آئی جی اسلام آباد معاملے پر میری نظرمیں اعظم سواتی درست ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ماضی میں ڈالر کے اتار چڑھاؤ سے لوگوں نے بہت پیسے بنائے، ڈالر کے اتار چڑھاؤ کو کنٹرول ہونا چاہیے، گزشتہ حکومت نے 5 ارب ڈالر صرف ڈالر کی قیمت کو کنٹرول کرنے پر خرچ کیے، ڈالر کو مصنوعی طریقے سے روکنے پر معیشت کو بہت نقصان ہوا ہے۔
کراچی: سابق بھارتی کرکٹر اور سیاست دان نوجوت سنگھ سدھو نے کہا ہے کہ کرتارپور بارڈر کھلنے کا اعلان سن کر ایسا لگا جیسے سب کچھ مل گیا، پاکستان ضرور آؤں گا۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا، نوجوت سنگھ سدھو نے کہا کہ 12 کروڑ لوگوں کی جھولی کو بھر دیا گیا ہے، محبت کے پیغام کو ساری طرف پھیلانا ہوگا، محبت لوگوں کو آپس میں جوڑتی ہے۔
نوجوت سنگھ سدھو نے کہا کہ کرتارپور بارڈر کھلنے کی شروعات بہت اچھی ہے، وزیراعظم عمران خان کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں، میری سب سے بڑی خواہش پوری ہوگئی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں نوجوت سنگھ سدھو نے کہا کہ کرتارپور بارڈر کی افتتاحی تقریب میں مجھے دعوت دی گئی ہے، پاکستان ضرور آؤں گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان خون خرابہ بند ہونا چاہئے، یہی چاہتا ہوں کہ دونوں ممالک میں امن اور محبت ہو۔
واضح رہے کہ دو روز قبل اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سدھو نے کہا تھا کہ کرتار پور بارڈر کھلنے کا سہرا میرے دوست عمران خان کو جاتا ہے، عمران خان میرادوست ہے،مجھےبلائےگا توایک ٹانگ پرچل کرآؤں گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان بہت خوبصورت ہے، وہاں کے لوگوں اور میڈیا نے بہت زیادہ پیار دیا جسے ابھی تک نہیں بھول سکا۔
خیال رہے وزیراعظم عمران خان کرتارپورکوریڈور کا افتتاح 28 نومبر کو کریں گے۔
لاہور: تحریکِ انصاف، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی خواتین رہنماؤں کا کہنا ہے کہ خواتین کو معاشرے میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کسی بھی خاتون کا الیکشن میں حصہ لینا بہت مشکل کام ہے۔
ان خیالات کا اظہار انھوں نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’سوال یہ ہے‘ میں کیا، بنوں، کے پی سے تحریک انصاف کی رکن اسمبلی زرتاج گل وزیر کا کہنا تھا کہ خواتین کے لیے انتخابات ایک مشکل ٹاسک ہے۔
زرتاج گل نے کہا کہ انتخابات میں ٹکٹ کا حصول بھی ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے، ٹکٹ مل جائے تو حلقے کے عوام حوصلہ افزائی کرتے ہیں، عوام کی طرف سے خواتین امیدواروں کا پرتپاک استقبال کیا جاتا ہے۔
مسلم لیگ ن کی رہنما عظمیٰ بخاری نے کہا ’معاشرے میں کام کرنے والی خاتون کو پسند نہیں کیا جاتا، خواتین کی جماعتوں سے وابستگی کے بغیر الیکشن میں کام یابی ممکن نہیں ہو سکتی۔‘
عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ خواتین کو جماعتوں کے اندر بھی بہت سی مشکلات کا سامنا رہتا ہے، مخصوص نشستوں پر کام یاب ہونے والی خواتین پر تنقید کی جاتی ہے۔
پیپلز پارٹی کی طرف سے سینیٹر سحر کامران نے بھی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ’خواتین کے ساتھ سلوک کے لیے معاشرے میں تربیت کی ضرورت ہے۔‘
سحر کامران کا کہنا تھا کہ معاشرے کی خواتین سے متعلق سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے، میں طویل عرصے تک پی ایس ایف کراچی کی صدر بھی رہ چکی ہوں، خواتین سے متعلق معاشرے کی سوچ سے بہ خوبی واقف ہوں۔
پی پی سینیٹر سحر کامران نے کہا کہ مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی خواتین کا معیار متعین ہونا چاہیے، تاکہ ہر چیز واضح ہو۔
لاہور: عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ وہ پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ ایک ایسی لہر آئے گی جو عمران خان کو انتخابات میں کام یاب بنا دے گی۔
ان خیالات کا اظہار انھوں نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’سوال یہ ہے‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کیا، ان کا کہنا تھا کہ عمران خان فیصلہ کر چکے ہوں گے کہ کس کس کو وزارتیں دینی ہیں۔
شیخ رشید نے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے لیے وسطی پنجاب سے نام سامنے آیا ہے، تاہم یہ نام اب تبدیل ہو گیا ہو تو مجھے علم نہیں، عمران خان فیصلہ کر چکے ہوں گے کہ کس کو وزارت دینی ہے۔
انھوں نے پروگرام میں دل چسپ باتیں بھی کیں، کہا ’میں انتخابات والے دن اپنے کسی پولنگ اسٹیشن کا دورہ نہیں کرتا اور ہمیشہ ووٹ ڈالنے کے بعد آ کر سو جاتا ہوں۔‘
شیخ رشید نے مزید کہا کہ اپوزیشن جماعتوں کوعمران خان کی جیت ہضم نہیں ہو رہی، انھوں نے سوچا ہی نہ تھا کہ عوام کا سمندر عمران خان کو ووٹ دے دے گا، ان کے کندھوں پر بہت بڑی ذمہ داری آ گئی ہے، اپنی اکثریت بنانے کے لیے دیگر جماعتوں سے بات کرنی ہی پڑتی ہے۔
انھوں نے ماضی یاد دلاتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے بھی چار حلقے کھولنے کا مطالبہ کیا تھا لیکن حکومت نے چار حلقے کھولنے میں چار سال لگا دیے تھے، پاکستانی سیاست دان وہ نہیں جو سامنے نظر آتے ہیں۔
شیخ رشید نے کہا ’ن لیگ میں فارورڈ بلاک سے پی ٹی آئی کو فائدہ ہوگا، لیکن فارورڈ بلاک تو بنتے ہیں اور بنتے رہیں گے، 30 اگست سے پہلے گرد و غبار ختم ہو جائے گا۔‘
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔
اسلام آباد : تحریک انصاف کے رہنما عثمان ڈار نے کہا ہے کہ خواجہ آصف کی بےچینی اور اضطراب کا سبب جانتے ہیں وہ ن لیگ کے خالی ہونے کا رونا رو رہے ہیں، معلوم تھا کہ ٹکٹوں کا اعلان ہوتے ہی ن لیگ کی چیخیں نکلیں گی۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے میں میزبان ماریہ میمن سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا، خواجہ آصف کے بیان پر رد عمل دیتے ہوئے عثمان ڈار کا کہنا تھا کہ خواجہ آصف اپنی جماعت خالی ہونے کا رونا رو رہے ہیں۔
پی ٹی آئی میں شامل ہونیوالوں نے نوازشریف پر عدم اعتماد کا اعلان کیا، لوگ عمران خان اور پارٹی کے نظریے کو دیکھ کر آرہے ہیں، معلوم تھا ٹکٹوں کا اعلان ہوتے ہی ن لیگ کی چیخیں نکلیں گی۔
عثمان ڈار کا مزید کہنا تھا کہ اراکین کی پی ٹی آئی میں شمولیت پارٹی کی مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت ہے، اس بار عمران خان وزیراعظم ہوگا اور خواجہ آصف ایوان سے باہر ہونگے، خواجہ آصف کا فیصلہ عوام کی عدالت میں لے جارہے ہیں، سیالکوٹ کے عوام خواجہ آصف سے ووٹ کی توہین کا بدلہ لیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ پارلیمانی بورڈ نے منظم طریقے سے ٹکٹس کا اعلان کیا ہے، پی ٹی آئی کو تقریباً ساڑھے4ہزار درخواستیں ملی تھیں، سیالکوٹ میں 16 ٹکٹ کیلئے125درخواستیں آئی ہیں، پارٹی میں نئے آنے والوں اور نظریاتی لوگوں کو ٹکٹ دیئے گئے، ٹکٹ نہ ملنے پر دیگر سیاسی جماعتوں میں بھی شور ہوگا، ٹکٹ جسے نہیں ملتا وہ مایوس اور سمجھتا ہے زیادتی ہورہی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں عثمان ڈار نے کہا کہ پاکستان کے حکمران کرپشن میں ملوث پائے گئے ہیں، سیاسی جماعتوں میں تمام لوگ کرپٹ نہیں ہوتےاچھے بھی ہوتےہیں، پارلیمانی بورڈ نےایک ایک حلقے کا سروے کرایا گیا ہے، ٹکٹ دینے پرپارلیمانی بورڈ نے اپنی معلومات کو بھی مدنظر رکھاہے۔
واضح رہے کہ خواجہ آصف نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پی ٹی آئی میں وہ لوگ شامل ہورہے ہیں جو ہر الیکشن میں اپنا ضمیر بیچتے ہیں، انہوں نے کہا کہ جنہیں گٹرمیں پھینکنا چاہیے تھا، انھیں پی ٹی آئی نے ٹکٹ دے دیئے، آخر میں عمران خان کے ارد گرد سیاسی ورکر نہیں، صرف پیسے والے لوگ ہوں گے۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔
لاہور: عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے کہا ہے کہ 28اکتوبر کو لال حویلی سے ریلی نکالیں گے، ریلی میں ایسا طوفان اٹھے گا کہ اندازہ ہوجائے گا کہ دونومبر کو ہوگا،پاکستان کی تاریخ میں جنرل راحیل شریف جیسا مقبول جنرل کوئی نہیں آیا،حکومت چاہتی ہے پاک فوج پنجاب پولیس بن جائے،اپوزیشن جماعتیں اس وقت ہماری تحریک میں شامل نہ ہوئیں تو بعد میں پچھتائیں گی،ضرورت پڑی تو قادری صاحب کو شامل کرلیں گے،طویل دھرنے کی کوئی گنجائش نہیں، دس دنوں میں نتیجہ نکل جانا چاہیے۔
دو نومبر کو مرنے یا مارنے کا فیصلہ کرلیا
اے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے میں میزبان ماریہ میمن سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے خلاف عدالت بھی حرکت میں آئے اور احتجاج کرتی سڑکیں بھی اور الیکشن کمیشن بھی، ہم نے دو نومبر کو مرنے یا مارنے کا فیصلہ کرلیا،28ا کتوبر کو ہم لال حویلی سے شام تین بجے وارم اپ ریلی نکالیں گے اور ہم عمران خان کو اسلام آباد تک سی آف کریں گے ، اس ریلی میں ایسا طوفان ہوگا کہ لوگوں کو اندازہ ہوجائے گا کہ دو نومبر کو کیا ہوگا۔
پرویز رشید میڈیا کو دیکھ کر چور دروازسے بھاگ رہے ہیں
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے وزیر اطلاعات پرویز رشید کو قربانی کا بکرا بنا کر پیش کردیا، پرویز رشید میڈیا کو دیکھ کر تقاریب میں سے چور دروازے سے بھاگ رہے ہیں،قومی سلامتی کے خلاف سازش کرناملک سے غداری ہے ، قومی غداروں کے خلاف غداری کے مقدمے قائم کیےجائیں۔
حکومت چاہتی ہے پاک فوج پنجاب پولیس بن جائے
ایک سوال پر شیخ رشید نے کہا کہ موجودہ حکومت چاہتی ہے کہ پاک فوج پنجاب کی پولیس بن جائے لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ایک ایسا جرنیل اس وقت موجود ہے جو پاکستان کی تاریخ کا سب سے مقبول ترین جرنیل ہے اور ایسا جرنیل آج تک نہیں آیا جس کی فوج ، شہدا اور ملک کے ساتھ کمٹمنٹ ہے ، بیس کروڑ افراد اس کی طرف دیکھ رہے ہیں، وہ جرنیل کچھ کرے یا نہ کرے وزیراعظم کو اپنی چوری کا اقرار کرنا چاہیے۔
اپوزیشن جماعتیں نہ آئیں تو ان کی سیاست ختم ہوجائے گی
انہوں نے کہا کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ چور اپنی چوری کا اقرار کرتے ہوئے قوم سے معافی مانگے، ساری اپوزیشن جماعتیں بعد میں یہ وقت گزرنے پر پچھتائیں گی، میں تمام اپوزیشن جماعتوں کو دعوت دیتا ہوں کہ دونومبر سے قبل ہمارے ساتھ آجائیں ورنہ آپ کی سیاست ختم ہوجائے گی۔
ضرورت پڑی تو قادری صاحب کو شامل کرلیں گے، وہ رابطے میں ہیں
ان کا کہنا تھا کہ قادری صاحب سے رابطے میں ہوں، ضرورت پڑی تو انہیں سیکنڈ رائونڈ کے لیے رکھ سکتے ہیں اور ان سے درخواست کرسکتے ہیں کہ ہمارے ساتھ شامل ہوجائیں، آج بھی ان سے ملاقات ہوئی جو بات ہوئی وہ شیئرنہیں کرسکتا کل یا پرسوں پریس کانفرنس کرکے سب کو آگاہ کریں گے۔
موت آئے یا جیل جائیں، عمران خان کے ساتھ ہیں
انہوں نے کہا کہ ہم عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں، نتیجہ جو بھی ہوں، موت آئے یا جیل جائیں، وزیراعظم تلاشی دیں یا استعفیٰ دیں، حکومت سمجھتی ہے کہ ہمیں ڈسٹرکٹ میں روک لے گی اور اسلام آبادنہیں آنے دے گی تو یہ ان کی بھول ہے ، یہ لڑائی عمران خان کی نہیں پوری قوم کی ہے۔
نواز شریف کے آنسو جھوٹے تھے، آنکھوں میں گلیسرین تھی
انہوں نے کہا کہ یہ وقت آگیا ہے کہ اب لوگ نواز شریف کے آنسوئوں کو بھی ڈرامہ سمجھتے ہیں، گلیسرین ڈالی ہوئی تھی نواز شریف نے آنکھوں میں۔
سراج الحق سے کہتا ہوں تحریک جوائن کرلیں
مدرسوں کو فنڈنگ کے سوال پر انہوں نے کہا کہ مدرسوں کے لوگ دھرنوں میں آئیں یا نہ آئیں یہ مجھے نہیں پتا، انہیں گرانٹ ملی یا نہیں ملی یہ بھی غیر سیاسی اور بے وزن سی بات ہے، لیکن مدرسے بھی اس ملک کا حصہ ہے اگر وہ اپنے جذبات کا اظہارکرتے ہوئے کوئی بات نہیں، ہم نے سب کو دعوت دی، سراج الحق سے بھی کہتا ہوں کہ یہی درست وقت ہے اس تحریک کو جوائن کرلیں، فضل الرحمن سے تو درخواست کر نہیں سکتا وہ تو کچھ اور چاہتے ہیں۔
ہم کیلے بیچ کر سیاست کرنے نہیں آئے
ماریہ میمن نے کہا کہ فضل الرحمن ایک منجھے ہوئے سیاست دان انہیں ایسا کیا نظر آرہا ہے جو وہ یہاں نہیں آرہے اس پر شیخ رشید نے کہا کہ ہم کوئی کیلے یا لیموں بیچ کر سیاست کرنے نہیں آئے، ہم نے بھی اصولی سیاست کی ہے،جب یہ تحریک کامیاب ہوگی تو فضل الرحمان یہاں آنے کا راستہ ڈھونڈیں گے اور وہ اتنی گنجائش ضرور رکھتے ہیں کہ تنگ دروازے سے داخل ہوجائیں، نام وہ اسلام کا لیتے ہیں اور نظر ان کی اسلام آباد پر ہوتی ہے وہ کامیاب نہیں ہوں گے۔
طویل دھرنے کی کوئی گنجائش نہیں، دس دنوں میں نتیجہ نکل جانا چاہیے
انہوں نے کہا کہ طویل دھرنے کی کوئی گنجائش نہیں، دس دن بہت ہوتے ہیں، دس یا گیارہ نومبر تک لازمی طور پر نتیجہ نکلنا چاہیے، عوام سے کٹمنٹ کرتے ہیں کہ بیک ڈور سے کوئی رابطہ نہیں ہورہا، رحمان ملک کا اس حوالے سے بیان بے بنیاد ہے۔