Tag: پرویز مشرف کیس

  • پرویز مشرف: حالات زندگی، دور اقتدار اور تنازعات

    پرویز مشرف: حالات زندگی، دور اقتدار اور تنازعات

    پرویز مشرف کو ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ اور آئین کی معطلی کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی ہے۔

    خصوصی عدالت کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد جہاں میڈیا پر سیاست دانوں اور قانونی ماہرین کی جانب سے رائے کا اظہار اور مباحث جاری ہیں، وہیں عوام بھی سرد موسم میں‌ اسی گرما گرم موضوع پر تبصرے کررہے ہیں اور اس حوالے سے قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔

    آئیے پرویز مشرف کی ذاتی زندگی، فوج میں ان کی خدمات اور دورِ اقتدار پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
    آئین شکنی کیس میں سزائے موت پانے والے پرویز مشرف کا تعلق دہلی سے ہے۔ ان کا خاندان قیامِ پاکستان سے قبل دہلی میں مقیم تھا۔ پرویز مشرف 11 اگست 1943 کو پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے وقت ہی ان کے والد نے پاکستان ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا اور کراچی آگئے۔ ان کے والد سید مشرف الدین نے پاکستان میں اہم خدمات انجام دیں اور سفارت کار کی حیثیت سے متحرک رہے۔
    پرویز مشرف کا بچپن ترکی میں گزرا۔ یہ 1949 سے 1956 تک کا زمانہ تھا جب ان کے والد ترکی کے شہر انقرہ میں تعینات تھے۔
    1961 میں پرویز مشرف پاکستان ملٹری اکیڈمی کا حصّہ بنے اور 1964 میں سیکنڈ لیفٹننٹ کے عہدے پر ترقی کی۔
    1965 میں پاک بھارت جنگ ہوئی جس کے بعد پرویز مشرف ان افسران میں سے تھے جنھیں بہادری کی اعزازی سند دی گئی۔
    1971 کی جنگ کے دوران پرویز مشرف کمپنی کمانڈر کی حیثیت سے فوج میں خدمات انجام دے رہے تھے۔
    1991 میں انھیں میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔
    7 اکتوبر 1998 کو چیف آف آرمی اسٹاف اور 9 اپریل 1999 کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف مقرر ہوئے۔
    12 اکتوبر 1999 پاکستان کی سیاست میں ایک نیا موڑ ثابت ہوا جب اس وقت کے وزیرِاعظم میاں نواز شریف نے پرویز مشرف کو فوج کے سربراہ کے عہدے سے ہٹاکر نئے آرمی چیف کا اعلان کیا، مگر ان کی معزولی کے بعد پرویز مشرف نے ملک کا اقتدار سنبھالا۔
    20 جون 2001 کو پرویز مشرف ملک کے صدر بنے۔
    30 اپریل 2002 کو ملک میں پرویز مشرف کے حق میں ایک ریفرنڈم کا انعقاد کروایا گیا۔
    2003 میں پرویز مشرف پر دو قاتلانہ حملے بھی ہوئے۔
    ستمبر 2006 میں پرویز مشرف کی خودنوشت ان دی لائن آف فائر منظرِ عام پر آئی۔
    پرویز مشرف نے 18 اگست 2008 کو قوم سے خطاب میں اپنے مستعفی ہو نے کا اعلان کیا تھا۔

    مشرف دور کے متنازع اقدامات
    پاکستان میں حدود آرڈیننس میں ترمیم، جامعہ حفصہ اور لال مسجد آپریشن، قومی مفاہمتی آرڈیننس جسے عام طور پر این آر او کہا جاتا ہے مشرف دور کے متنازع فیصلے اور اقدامات مانے جاتے ہیں۔ اسی طرح بلوچستان آپریشن اور اکبر بگٹی کی شہادت کا واقعہ، عافیہ صدیقی کا معاملہ، ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر الزامات اور نظر بندی بھی متنازع رہی۔

  • ‘پرویز مشرف کیس میں17 دسمبر تک فیصلے کا امکان نہیں’

    ‘پرویز مشرف کیس میں17 دسمبر تک فیصلے کا امکان نہیں’

    کراچی : بیرسٹر سلمان صفدر کا کہنا ہے کہ پرویزمشرف کیس میں17دسمبر تک فیصلےکا امکان نہیں، وہ علیل ہیں ، سزا نہیں ہوسکتی۔

    تفصیلات کے مطابق آئین شکنی کیس میں سابق صدر کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں گفتگو کرتے ہوئے کہا پرویزمشرف کیس میں17دسمبر تک فیصلے کا امکان نہیں، مشرف مفرور نہیں علیل ہیں۔

    سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ میرے موکل کو سزا نہیں ہوسکتی، ملک سے باہر ہو تو سزا پر عملدرآمد مشکل ہوتاہے۔

    یاد رہے گذشتہ سماعت میں خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کے وکیل کو آئین شکنی کیس میں دلائل دینے کا ایک اور موقع دیتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ سماعت آخری بار ملتوی کی جارہی ہے، کسی بھی وکیل کی عدم حاضری پر محفوظ فیصلہ سنا دیا جائے گا۔

    مزید پڑھیں : پرویز مشرف کیخلاف آئین شکنی کیس کا فیصلہ 17 دسمبر کو سنائے جانے کا امکان

    سماعت میں پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر روسٹرم پر آئے اور کہا تھا کہ انہیں بھی سنا جائے، اس موقع پر عدالت کی جانب سے کہا گیا تھا کہ کس حیثیت میں آپ کو سنیں، آپ سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھ لیں، اگر اس فیصلے پر آپ کو کوئی تحفظات ہیں تو اس پر نظر ثانی دائر کریں۔

    سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ ہماری معاونت سے عدالت کو آسانی ہوگی جس پر جسٹس نذر اکبر نے جواب دیا کہ ہمیں آپ کی آسانی نہیں چاہیے، آپ سپریم کورٹ کے حکم کو عزت دیں۔

    خیال رہے  اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئین شکنی کیس میں وزارت داخلہ کی درخواست منظور کرلی تھی اور خصوصی عدالت کو آئین شکنی کیس کا فیصلہ سنانے سے روک دیا تھا ، ہائی کورٹ نے حکم دیا تھا کہ خصوصی عدالت کچھ دیر کیلئے پرویز مشرف کامؤقف سن لے اور پھر فیصلہ دے۔

  • قانون دان علی ضیا‌ء باجوہ  پرویز مشرف کیس میں پراسیکیوٹر مقرر

    قانون دان علی ضیا‌ء باجوہ پرویز مشرف کیس میں پراسیکیوٹر مقرر

    اسلام آباد : وفاقی حکومت نے قانون دان علی ضیاباجوہ کو پرویز مشرف کیس میں پراسیکیوٹر مقررکر دیا، اسلام آباد ہائی کورٹ نے 5 دسمبر تک غداری کیس کا نیا پراسیکیوٹر تعینات کرنے کا حکم دیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت نے قانون دان علی ضیاء باجوہ کو سابق صدر پرویز مشرف کیخلاف آئین شکنی کیس میں پراسیکیوٹر مقرر کرتے ہوئے نوٹیفیکیشن بھی جاری کردیا ، جس میں کہا علی ضیاباجوہ بطوراسسٹنٹ اٹارنی جنرل پراسیکیوشن کی طرف سے پیش ہوں گے۔

    یاد رہے اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو 5 دسمبر تک غداری کیس کا نیا پراسیکیوٹر تعینات کرنے کا حکم دیتے ہوئے غداری کیس کافیصلہ روکنے کی درخواستیں نمٹا دیں تھیں۔

    مزید پڑھیں : وفاقی حکومت کو 5 دسمبر تک مشرف غداری کیس کا نیا پراسیکیوٹر تعینات کرنے کا حکم

    اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئین شکنی کیس میں وزارت داخلہ کی درخواست منظور کرلی تھی اور خصوصی عدالت کو آئین شکنی کیس کا فیصلہ سنانے سے روک دیا تھا ، ہائی کورٹ نے حکم دیا تھا کہ خصوصی عدالت کچھ دیر کیلئے پرویز مشرف کامؤقف سن لے اور پھر فیصلہ دے۔

    خیال پرویز مشرف آئین شکنی کیس خصوصی عدالت میں زیر سماعت ہے ، آئین شکنی کیس میں پرویزمشرف کو 5 دسمبرتک بیان ریکارڈ کرانے کاحکم دیتے ہوئے اور کہا ہے 5 دسمبرسےروزانہ کی بنیاد پر سماعت ہوگی، کوئی التوا نہیں دیا جائے گا۔

  • حکومت نے مشرف کیس کا فیصلہ روکنے کی درخواست دائر کر دی

    حکومت نے مشرف کیس کا فیصلہ روکنے کی درخواست دائر کر دی

    اسلام آباد : حکومت نے پرویز مشرف کیس کا فیصلہ روکنے کی درخواست دائر کر دی، جس میں کہا گیا خصوصی عدالت کا فیصلہ محفوظ کرنے کا حکم نامہ معطل کیا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق صدر پرویز مشرف کیخلاف آئین شکنی کیس کا فیصلہ روکنے کے لیے دو درخواستیں دائرکردی گئیں، ایک درخواست وزارت داخلہ اور دوسری پرویز مشرف کے وکیل نے دائر کی۔

    وزارت داخلہ نے درخواست میں مؤقف اختیار کیا کہ پرویز مشرف کو صفائی کا موقع ملنے تک خصوصی عدالت کو کارروائی سے اور نئی پراسیکیوشن ٹیم تعینات کرنے تک خصوصی عدالت کو کارروائی سے بھی روکا جائے، اس کے علاوہ خصوصی عدالت کا فیصلہ محفوظ کرنے کا حکم نامہ معطل کیا جائے۔

    دوسری جانب مشرف کے وکیل درخواست میں کہا ہے کہ پرویز مشرف سے قانون کے مطابق برتاؤ کیا جائے، کیس میں انھیں دفاع کے حق سے محروم کیا گیا، مشرف شدید علالت کے باعث پیش نہیں ہوسکے، خصوصی عدالت کا فیصلہ آئین کے آرٹیکل چار اور دس اے کی خلاف ورزی ہے۔

    وکیل کا مزید کہنا تھا کہ19 نومبر 2019 کا خصوصی عدالت کا فیصلہ معطل کیا جائے اور خصوصی عدالت کو فیصلہ دینے سے روکا جائے۔

    یاد رہے 23 نومبر کو سابق صدر پرویزمشرف کی جانب سے خصوصی عدالت کے فیصلہ محفوظ کرنے کیخلاف عدالت سے رجوع کیا گیا تھا ، جس میں کہا گیا تھا عدالت نے مؤقف سنے بغیر کیس کا فیصلہ محفوظ کیا، کیس کی سماعت تندرست ہونےتک ملتوی کی جائےاور اور غیرجانبدارمیڈیکل بورڈ تشکیل دینے کا حکم دے۔

    مزید پڑھیں : پرویزمشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کا فیصلہ محفوظ ، 28 نومبر کو سنایا جائے گا

    یاد رہے 19 نومبر کو خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا، جو 28 نومبر کو سنایا جائے گا، فیصلہ یک طرفہ سماعت کے نتیجے میں سنایا جائے گا۔

    عدالت نے پرویز مشرف کے وکلا کو دفاعی دلائل سے روک دیا تھا اور پراسیکیوشن کی نئی ٹیم مقرر کرنے کا حکم دیا تھا ، نئی ٹیم مقرر کرنے میں تاخیر پر عدالت نے بغیر سماعت فیصلہ محفوظ کیا، عدالت کا کہنا تھا کہ مشرف کے وکیل چاہیں تو 26 نومبر تک تحریری دلائل جمع کرادیں۔

  • خصوصی عدالت میں پرویز مشرف کیس کی سماعت

    خصوصی عدالت میں پرویز مشرف کیس کی سماعت

    خصوصی عدالت میں پرویز مشرف کیس کی سماعت جاری ہے، سابق صدر کے وکلا نے دلائل میں کہا کہ وزیراعظم اور سابق چیف جسٹس وہ افراد ہیں، جو مشرف سے ذاتی انا رکھتے ہیں۔

    آرٹیکل چھ کے تحت مقدمے کی سماعت میں پرویز مشرف کے وکیل انور منصور ایڈووکیٹ نے موقف اختیار کیا کہ انصاف صرف ہونا ہی نہیں چاہیئے ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیئے۔

    انھوں نے کہا کہ یہ جو نوٹیفکشن ہے غیر قانونی ہے یہ معاملہ ججز کی تقرری کا نہیں تھا بلکہ ججز کو نئی ذمے داری دینے کا ہے، عدالت کیلئے ججز کی نامزدگی میں سابق چیف جسٹس سے وزیراعظم کی مشاورت کی کوئی گنجائش نہیں۔

    انور منصورکا کہنا تھا کہ آئین میں وفاقی حکومت لکھا ہوا ہے اور وفاقی حکومت صرف وزیراعظم نہیں ہوتا، وزیراعظم اور سابق چیف جسٹس دونوں وہ افراد ہیں جو مشرف سے ذاتی انا رکھتے ہیں۔

    گزشتہ سماعت میں خصوصی عدالت نے پرویزمشرف کی پیشی سے متعلق فیصلہ سناتے ہوئے نیا میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کا حکم دے دیا، جس سے چوبیس جنوری کو رپورٹ طلب کی گئی ہے، عدالت نے استفسار کیا کہ کیا سابق صدر کی بیماری اتنی سنگین ہے کہ وہ چل بھی نہیں سکتے؟

    عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ میڈیکل بورڈ اے ایف آئی سی کے سینئر ڈاکٹرز پر مشتمل ہو، جو چوبیس جنوری کو رپورٹ پیش کرے، پراسیکیوٹر اکرم شیخ کے اعتراضات کا جواب نئی میڈیکل رپورٹ آنے کے بعد دیا جائے گا۔

  • مشرف غداری کیس عدالتی معاملہ ہے، سیکریٹری دفاع

    مشرف غداری کیس عدالتی معاملہ ہے، سیکریٹری دفاع

    سیکریٹری دفاع آصف یاسین ملک کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف کیس عدالت میں زیر سماعت ہے، فوج کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔

    پرویز مشرف کیس کے متعلق حکومت کیجانب سے پہلا باقاعدہ بیان سیکریٹری دفاع آصف یسین ملک کی جانب سے سامنے آیا، سیکریٹری دفاع نے کہا کہ فوج کا پرویز مشرف کیس سے کوئی تعلق نہیں، آرٹیکل سکس کا مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔

    انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ آرمی ایکٹ کے تحت مشرف کے ٹرائل کی کسی درخواست کا انہیں علم نہیں، یہ موقف اس وقت سامنے آیا جب مشرف آرمی کے ایک ہسپتال میں زیر علاج ہیں، مشرف اور ان کے وکلا بار ہا اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ مشرف کا مقدمہ آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالت میں چلایا جا ئے۔

    پرویز مشرف نے چند روز قبل یہ بھی کہا تھا کہ دیکھنا یہ ہے نئے آرمی چیف راحیل شریف ان کیلئے کہاں تک جاسکتے ہیں، اس معاملے پر فوجی ادارے آئی ایس پی آر کیجانب سے کسی قسم کا رد عمل سامنے نہیں آیا۔