Tag: پروین رحمان قتل کیس

  • پروین رحمان قتل کیس میں ملزمان کی نظربندی کا حکم غیرقانونی قرار، آئی جی سندھ کی سخت سرزش

    پروین رحمان قتل کیس میں ملزمان کی نظربندی کا حکم غیرقانونی قرار، آئی جی سندھ کی سخت سرزش

    کراچی : سندھ ہائیکورٹ نے پروین رحمان قتل کیس میں ملزمان کی نظربندی کا حکم غیرقانونی قرار دیتے ہوئے ملزمان کی نظر بندی کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں ڈائریکٹر او پی پی پروین رحمان قتل کیس میں بری ہونےوالے ملزمان کی نظربندی کے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔

    سیکریٹری داخلہ سندھ سعیداحمد ،آئی جی سندھ غلام نبی میمن ودیگر عدالت میں پیش ہوئے، ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے بتایا کہ یہ درخواست قابل سماعت نہیں۔

    جس پر جسٹس کےکےآغا نے کہا کہ آپ لوگ بد نیتی پرمبنی فیصلے کرتے ہیں اور یہاں آکراعترافی کررہےہیں ،جب ہائی کورٹ نےبری کرنے کا حکم دیا تو نظربندی کا کیا جواز؟ آپ کو فیصلے پر اعتراض تھا تو سپریم کورٹ میں اپیل دائرکریں۔

    عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو فیصلے پر اعتراض تھا تو سپریم کورٹ میں اپیل دائرکریں، اس طرح کا رویہ ہر گز قابل قبول نہیں ہے۔

    جسٹس کےکےآغا نے استفسار کیا اگرملزمان سےنقص امن کاخدشہ ہےتوملزمان کا سی آراوکہاں ہے؟ مسٹرآئی جی آپ پبلک سرونٹ ہیں کسی حکومت کے ملازم نہیں۔

    آئی جی سندھ نے بتایا کہ پروین رحمان قتل کیس میں ملزمان کےخلاف ایک ہی مقدمہ درج ہے، جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ ہم 15،15 قتل کے ملزمان کو عدم شواہد پر رہا کر دیتے ہیں۔

    عدالت نےآئی جی سندھ کی سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا ان ملزمان کے خلاف ایم پی اوکیوں نہیں لگاتے ؟ عدالت شواہد دیکھتی ہے اور فیصلہ کرتی ہے ،پروین رحمان کیس کے ملزمان رہا ہو کر کب اور کہاں گئے تھے ؟ ملزمان رہا ہو کر اورنگی ٹاؤن گئے تھے ؟ آپ کو کس نے اطلاع دی کہ ان سے خطرہ ہے ؟

    آئی جی سندھ نے بتایا کہ انٹیلی جنس اطلاعات تھیں ملزمان کےحوالے سے ، جس پر عدالت نے سوال کیا آپ کو کسی ایس ایچ او کسی پولیس افسر نے بتایا ؟ تاہم آئی جی سندھ عدالت کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے۔

    دوران سماعت عدالت نے سوال کیا ایڈوکیٹ جنرل صاحب بتائیں انکے خلاف کیا کارروائی ہوسکتی ہے ؟ معذرت کیساتھ آپکے محکمے کی انویسٹی گیشن سے مطمئن نہیں، خراب انویسٹی گیشن پر متعدد بار متنبہ کرچکے۔

    آئی جی سندھ نے استدعا کی کہ ہمیں ایک اور چانس دے دیا جائے، جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ آپ سب کیخلاف خراب انویسٹی گیشن پر کارروائی ہونی چاہیے، ملزمان کو 90 روز کیلئے نظربند کرنا چاہتے ہیں،وضاحت دیں، آپ نے جس طرح انویسٹی گیشن کی، فیصلے میں سب لکھ دیا ،آپ کی انویسٹی گیشن سے بالکل مطمئن نہیں۔

    عدالت نے آئی جی سندھ سے مکالمے میں کہا کہ آپ کا کوئی عذر قابل قبول نہیں، آپ ملزمان کو جرائم پیشہ کہہ رہے ہیں مگر شواہد پیش نہیں کرسکے، کس پر آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ تھوڑی مہلت دے دیں تو کچھ تفصیلات پیش کردیں گے۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ آپ ملزمان کو سنگین جرائم پیشہ کہہ رہے ہیں سی آر او دیں ،ایس ایس پی ویسٹ نے بتایا کہ انٹیلی جنس اطلاعات تھیں اس بنیادپرجرائم پیشہ لکھاگیا۔

    جسٹس کے کے آغا نے ریمارکسابھی آپ کو یہاں سے جیل کیوں نہ بھیج دیں ؟ آپ کو قانون کا نہیں پتا ؟ قانون میں جرائم پیشہ کی تعریف درج ہے، بہت ہوگیا آپ لوگوں نے عدالتی فیصلوں کی حکم عدولی کی انتہا کردی۔

    ایس ایس پی ویسٹ نے عدالت کو بتایا مقتولہ کی بہن نے درخواست دی کہ ان کی جان کو خطرہ ہے ، جس پر عدالت نے استفسار کیا انہیں کوئی دھمکی کی فون کال آئی تھی ؟ تو ایس ایس پی ویسٹ کا کہنا تھا کہ نہیں انہوں نے بتایا تھا کہ انہیں خطرہ ہے۔

    عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ تھریٹ لیٹر کس نے جاری کیا ؟ کس کے دستخط ہیں ، اےاےجی نے بتایا کہ یہ کانفیڈینشل رپورٹ ہوتی ہےآئی بی کی طرف سے آئی تھی ، جس پر جسٹس کے کے نے کہا کہ سیدھا جواب دیں، سخت حکم جاری کرنے پر مجبور نہ کریں۔

    جسٹس کے کے آغا نے سوال جب عدالت نے ملزمان کو بری کردیا تو گرفتاری کا کیا جواز تھا ؟ تفتیش ناقص ہے شواہد تھے تو عدالت میں پیش کرتے۔

    عدالت نے آئی جی سے سوال کیا اسپیشل برانچ آپکے ماتحت کام کرتی ہے ؟ آئی جی سندھ نے عدالت میں جواب دیا جی بالکل، جس پر جسٹس کے کے آغا کا کہنا تھا کہ تو یہ لیٹر آپ کے ادارے کا ہے اور پولیس کی کارکردگی سامنے ہے۔

    آئی جی سندھ نے بتایا کہ ہمیں آئی بی کے ذمہ دار افسر کا فون آیا تھا انہوں نے خدشہ کا بتایا ، جس پر عدالت نے کہا پولیس کے حوالے سے کارکردگی بتانےکی ضرورت نہیں ، ہمیں نہ بتائیں کہ کام کررہے ہیں جو رپورٹس آتی ہیں اس میں لکھا ہوتاہے۔

    آئی جی سندھ نے عدالت میں کہا کہ اندازے اور اطلاعات کی بنیاد پر لیٹر جاری کیا جاتا ہے ،اسیسمنٹ غلط بھی ہوسکتے ہیں ، غلطی کی گنجائش ہوتی ہے۔

    عدالت نے سیکریٹری داخلہ سندھ سے استفسار کیا سیکریٹری صاحب آپ کس گریڈ کے افسر ہیں ؟ سیکریٹری داخلہ سندھ نے بتایا کہ میرا گریڈ بیس ہے۔

    عدالت نے استفسار کیا آپ بتائیں کون سے شواہد کی بنیاد پر ایم پی او کا فیصلہ کیا گیا ؟ ملزمان 9دن تک باہر رہے بتائیں کوئی شرپسندی کی ؟ کوئی جرم کیا ؟

    سیکریٹری داخلہ عدالت کے سولاات سمجھنے سے قاصر رہے اور ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے انگریزی سمجھنے میں معاونت کی۔

    جسٹس کے کے آغا نے پوچھا آپ میرے سولاات سمجھ رہے ہیں ؟ جس پر سیکریٹری داخلہ نے جواب دیا کہ یس یس آئی انڈراسٹینڈ ، ہم انٹیلی جنس رپورٹس کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں۔

    ایس ایس پی غربی کو عدالت نے روسٹرم پر بلا لیا ، جسٹس کے کے آغا نے کہا بہت ہو چکا معذرت سے اب برداشت نہیں ہوگا ، جسٹس کے کے آغا پھر کہہ رہا ہوں بہت ہو گیا ہے۔

    سرکاری وکیل کی جانب سے انٹیلی جنس رپورٹس عدالت میں پیش کی گئی، ایس ایس پی غربی نے بتایا کہ ممکنہ خدشے کے پیش نظر ہم مدعیہ کو سیکیورٹی فراہم کردی ہے۔

    سرکاری وکیل کی جانب سے ایس ایس پی غربی معاونت کی کوشش کی گئی ، جس پرسندھ ہائیکورٹ نے سرکاری وکیل کو معاونت سے روک دیا۔

    جسٹس کے کے آغا نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کچھ نہیں کرسکتے اپنے الفاظ ایس ایس پی کےمنہ میں مت ڈالیں۔

    عدالت نے پھر آئی جی سندھ کو روسٹرم پر بلایا اور استفسار کیا یہ دو رپورٹ کس کی ہیں؟ جس پر آئی جی سندھ نے بتایا کہ ایک انٹیلی جنس بیورو اودوسری رپورٹ اسپیشل برانچ کی ہے۔

    عدالت نے کہا کہ آپ نے سیکیورٹی فراہم کردی یہ کیسے سمجھا خطرات لاحق ہیں، آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر بھی ایسے اشارے ملے ہیں ، جسٹس کے کے آغا نے آئی جی سندھ سے مکالمے میں کہا کہ عدالت کو میڈیا کی پرواہ نہیں آپ کو ہوگی، ہم صرف شواہد اورقانون کو دیکھیں گے اور کچھ نہیں۔

    جسٹس کےکےآغا کا کہنا تھا کہ سب قانون کے اندر ہوگا، کیا کسی کو 3 ماہ کیلئے شواہد کے بغیر نظر بند کیا جا سکتا، ایمانداری سے بتائیں اسے نظر بند کیوں کیا گیا، آپ کو صرف اپنی جاب کا ذمہ دار ہونا چاہیے۔

    آئی جی سندھ نے کہا سر ہمیں کوئی دلچسپی نہیں ،سچ بتا رہا ہوں ، معاملے میں کوئی بددیانتی نہیں ہے یقین دلاتا ہوں، جس پر عدالت نے کہا کہ آپ لوگ مسلسل ایک فون کال کو انٹیلی جنس رپورٹ کہہ رہے ہیں ، جب تک سی آر او سے خطرناک ملزم ثابت نہیں کرتے ایم پی او کا جواز نہیں۔

    ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ حکومت کوانتظامی فیصلے کااختیار ہے اور فیصلے کی اجازت دی جائے، جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ آپ ایم پی او کا حکم واپس لیتے ہیں تو کیس ختم ہوجائے گا۔

    سیکریٹری داخلہ نے بتایا کہ مجھے کابینہ نے اختیار دیا ہے اس لئے مشاورت کا موقع دیا جائے تو عدالت کا کہنا تھا کہ جائیں آدھے گھنٹے میں حکام سے ہدایات لے کرآئیں اور جواب دیں۔

    ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے استدعا کی کہ آدھے گھنٹے میں رابطہ ممکن نہیں پلیز کچھ زیادہ وقت دیں، عدالت نے سرکاری وکلا اور سیکریٹری داخلہ کو 12 بجے تک مہلت دے دی۔

    بعد ازاں وقفے کے بعد سماعت میں سندھ ہائیکورٹ نے پروین رحمان قتل کیس میں ملزمان کی نظربندی کا حکم غیرقانونی قرار دیتے ہوئے ملزمان کی نظر بندی کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے دیا۔

  • پروین رحمان قتل کیس: بری ہونے والے ملزمان نے 3 ماہ کی نظر بندی کو عدالت میں چیلنج کردیا

    پروین رحمان قتل کیس: بری ہونے والے ملزمان نے 3 ماہ کی نظر بندی کو عدالت میں چیلنج کردیا

    کراچی : پروین رحمان قتل کیس میں بری ہونے والے ملزمان نے تین ماہ کی نظر بندی کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں پروین رحمان قتل کیس میں بری ہونے والے ملزمان نے تین ماہ کی نظر بندی کیخلاف درخواست دائر کردی۔

    درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ سندھ ہائی کورٹ نے ملزمان کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے بری کردیا تھا، بریت کے بعد صوبائی حکومت نے احمد خان، امجد سواتی،ایاز سواتی، عبدالرحیم سواتی اور عمران سواتی کو نظر بند کردیا، ملزمان کی نظر بندی بلاجواز اور غیر قانونی ہے۔

    عدالت نے صوبائی حکومت کو بارہ دسمبر کیلئے نوٹس جاری کرتے ہوئے سیکریٹری ہوم اور آئی جی سندھ کو متعلقہ مواد اور رپورٹ کے ساتھ پیش ہونے کا حکم دے دیا۔

    عدالت نے درخواست کی نقول پراسیکیوٹر جنرل کو آج ہی فراہم کرنے کی ہدایت کردی۔

    یاد رہے سندھ ہائی کورٹ نے پروین رحمان قتل کیس میں ملزمان کی سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر فیصلہ سنایا تھا۔

    عدالت نے ملزمان کی سزاؤں کے خلاف اپیلیں منظور کرتے ہوئے سزائیں کالعدم قرار دے دیں اور کہا تھا کہ ملزمان دوسرے کیسزمیں مطلوب نہیں تو رہا کر دیا جائے۔

    واضح رہے پروین رحمان کو 13 مارچ2013 میں قتل کیا گیا تھا۔

  • پروین رحمان قتل کیس میں ملزمان کی سزائیں کالعدم قرار

    پروین رحمان قتل کیس میں ملزمان کی سزائیں کالعدم قرار

    کراچی : سندھ ہائی کورٹ نے پروین رحمان قتل کیس میں ملزمان کی سزائیں کالعدم قرار دے دیں اور رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ نے پروین رحمان قتل کیس میں ملزمان کی سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر فیصلہ سنا دیا۔

    عدالت نے ملزمان کی سزاؤں کے خلاف اپیلیں منظور کرتے ہوئے سزائیں کالعدم قرار دے دیں اور کہا کہ ملزمان دوسرے کیسزمیں مطلوب نہیں تو رہا کر دیا جائے۔

    بعد ازاں سندھ ہائیکورٹ نے پروین رحمان قتل کیس ملزمان کی اپیلوں کا تحریری فیصلہ جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ کیس کا اہم پہلو مقتولہ کا 2011 میں صحافی کو دیا گیا انٹرویو ہے، ملزمان کے وکلا کا مؤقف ہے اس انٹرویو کی کوئی حیثیت نہیں۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ کیس میں ایک نہیں کئی شکوک وشبہات پائے گئے ہیں، ٹرائل کورٹ کی جانب سے ملزمان کو دی گئی سزا کالعدم قرار دی جاتی ہے، ملزمان اگر کسی اور کیس میں مطلوب نہیں تو ان کو رہا کیا جائے۔

    تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ عدالت وکلا کا موقف تسلیم کرتی ہے کہ انٹرویو قابل قبولیت والا نہیں، ہوسکتا ہے انٹرویو کراچی کی امن وامان صورتحال مدنظر رکھ کر دیا گیا ہو۔

    عدالت کا فیصلے میں کہنا تھا کہ جےآئی ٹی رکن نےبھی کہاکہ انٹرویومیں سیاسی جماعتوں پرالزام لگائے گئے، انہوں نے کہا جو ملزمان کیس کا سامنا کر رہے ہیں ان میں کسی پر مخصوص الزام نہیں اور پراسکیوشن نے یہ ثابت نہیں کیا ملزم رحیم سواتی کا کس سیاسی جماعت سے تعلق ہے۔

    تحریری فیصلے کے مطابق ملزمان کے خلاف کوئی ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں، جائے وقوعہ سے گولیوں کے خول ہلاک ملزم بلال کے پستول سے ملتے ہیں۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ پروین رحمان کو جس ہتھیار سے قتل کیا گیا اس کے خول ملزمان کے ہتھیار سے میچ نہیں ہوئے، ملزمان کا بلال سےکوئی تعلق بھی ثابت نہیں کیا جا سکا ہے۔

    فیصلے میں کہا گیا کہ پراسکیوشن نےمزید کوئی تحقیقات نہیں کی لہذا اس ثبوت کی کوئی حیثیت نہیں، کیس میں بنائی گئی جے آئی ٹی کی حیثیت کیس کے چالان سے زیادہ کی نہیں، جے آئی ٹی رپورٹ میں جو چیزیں بتائی گئیں وہ پہلے ہی منظر عام پر آچکی تھیں۔

    عدالت کے مطابق جے آئی ٹی رپورٹ کی بنیاد پرعدالت کسی ملزم کی سزایابےگناہی کافیصلہ نہیں کرسکتی ، مفرور ملزمان کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی تک مکمل نہیں کی گئی، ملزمان پر قتل میں معاونت کے الزامات بھی ثابت نہیں ہوتے ہیں، کیس میں شک کا فائدہ ملزمان کو دیا جاتا ہے۔

  • ڈائریکٹر اورنگی پائلٹ پروجیکٹ پروین رحمان قتل کیس میں اہم پیش رفت

    ڈائریکٹر اورنگی پائلٹ پروجیکٹ پروین رحمان قتل کیس میں اہم پیش رفت

    کراچی : انسداد دہشت گردی عدالت نے ڈائریکٹر اورنگی پائلٹ پروجیکٹ پروین رحمان قتل کیس میں ترمیمی فرد جرم عائد کرنے کی درخواست مسترد کردی۔

    تفصیلات کے مطابق ڈائریکٹر اورنگی پائلٹ پروجیکٹ پروین رحمان قتل کیس میں اہم پیش رفت سامنے آئی، انسداد دہشت گردی عدالت نے ترمیمی فرد جرم عائد کرنے کی درخواست مسترد کردی۔

    عدالتی حکم میں کہا گیا کہ مقدمہ اختتامی مراحل میں ہے تمام تر کارروائی مکمل ہوچکی ہے

    عدالت نے اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر سے حتمی دلائل طلب کرتے ہوئے مقدمے کی سماعت 30نومبر تک ملتوی کردی، استغاثہ نے مقدمے میں جرم کی سازش کرنے کی دفعہ کے تحت درخواست کی تھی۔

    یاد رہے رواں ماہ ہی سندھ ہائی کورٹ نے پروین رحمان قتل کیس دو ماہ میں نمٹانے کا حکم دیا تھا ، عدالت میں لیگل برانچ کی جانب سے ڈی ایس پی خالد خان نے گواہوں کی تفصیلات پیش کیں اور بتایا کہ پروین رحمان قتل کیس میں 29 گواہ تھے، 10 کے بیانات باقی ہیں۔

    واضح رہے ڈائریکٹر اورنگی پائلٹ پروجیکٹ پروین رحمان کو 2013 میں قتل کیا گیا تھا ، مقدمےمیں رحیم سواتی،عمران سواتی،احمدخان،امجدحسین اورایاز سواتی گرفتار ہے۔

    ان کے قتل میں نامزد مرکزی ملزم رحیم سواتی کو مئی 2016 میں خفیہ اطلاع پر منگھوپیر کے علاقے سے گرفتار کیا گیا تھا ، ملزم کا تعلق عوامی نیشنل پارٹی سے تھا اور اس کے ریکارڈ پر قبضہ گیری اور بھتہ خوری جیسے جرائم بھی موجود تھے ۔ ملزم کا کہنا تھا کہ پروین رحمان ان کے عزائم کی راہ میں رکاوٹ بن رہی تھیں۔

    گزشتہ برس پولیس نے امجد نامی ایک اور ملزم کو طویل عرصے تک ریکی کی انتھک محنتوں کے نتیجے میں گرفتار کیا تھا، پولیس کےمطابق مذکورہ ملزم کے لیے تین سال تک ریکی کی گئی ہے۔

  • سندھ ہائی کورٹ کا پروین رحمان قتل کیس 2 ماہ میں نمٹانے کا حکم

    سندھ ہائی کورٹ کا پروین رحمان قتل کیس 2 ماہ میں نمٹانے کا حکم

    کراچی : سندھ ہائی کورٹ نے پروین رحمان قتل کیس دو ماہ میں نمٹانے کا حکم دے دیا، پروین رحمان اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کی ڈائریکٹر تھیں۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں پروین رحمان قتل کیس سے متعلق سماعت ہوئی، عدالتِ عالیہ نے احتساب عدالت کو حکم دیا کہ یہ کیس دو ماہ کے اندر نمٹایا جائے۔

    عدالت میں لیگل برانچ کی جانب سے ڈی ایس پی خالد خان نے گواہوں کی تفصیلات پیش کیں اور بتایا کہ پروین رحمان قتل کیس میں 29 گواہ تھے، 10 کے بیانات باقی ہیں۔

    پولیس حکام نے بتایا کہ گواہان کو نوٹس پہنچا دیے ہیں اور سیکیورٹی بھی دی جائے گی۔

    سندھ ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ پروین رحمان کو قتل کردیا گیا اورکیس اب تک چل رہا ہے، وکلا کو بھی معاشرے میں اچھے لوگوں کا احساس ہونا چاہیے۔

    چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے کہا کہ ملک میں اب پروین رحمان جیسی شخصیات کم ہی ملتی ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ نے انسداد دہشت گردی کی عدالت کو پروین رحمان قتل کیس 2 ماہ میں نمٹانے کا حکم دے دیا۔

    یاد رہے کہ اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کی ڈائریکٹر پروین رحمان کو 13 مارچ 2013 کو کراچی میں بنارس پل پر عبداللہ کالج کے قریب فائرنگ کرکے قتل کیا گیا تھا۔

     ان کے قتل میں نامزد مرکزی ملزم رحیم سواتی کو مئی 2016 میں  خفیہ اطلاع پر منگھوپیر کے علاقے سے گرفتار کیا گیا تھا ، ملزم کا تعلق عوامی نیشنل پارٹی سے تھا اور اس کے ریکارڈ پر قبضہ گیری اور بھتہ خوری جیسے جرائم بھی موجود تھے ۔ ملزم کا کہنا تھا کہ پروین رحمان ان کے عزائم کی راہ میں رکاوٹ بن رہی تھیں۔

    گزشتہ برس پولیس نے امجد نامی ایک اور ملزم کو طویل عرصے تک ریکی کی انتھک محنتوں کے نتیجے میں گرفتار کیا تھا، پولیس کےمطابق مذکورہ ملزم کے لیے تین سال تک ریکی کی گئی ہے۔

  • پروین رحمان قتل کیس کا مرکزی ملزم  رحیم سواتی گرفتار

    پروین رحمان قتل کیس کا مرکزی ملزم رحیم سواتی گرفتار

    کراچی: اورنگی پائلٹ پراجیکٹ پروین رحمان قتل کیس کے مرکزی ملزم رحیم سواتی کو گذشتہ روز خفیہ اطلاع پر منگھوپیر کے علاقے سے گرفتار کرلیا گیا۔

    ایس ایس پی ویسٹ غلام اظفر مہیسر کا کہنا تھا دہشتگردوں نے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے راستے میں رکاوٹ سمجھتے ہوئے پروین رحمان کو قتل کیا،گرفتار ہونے والے ملزم رحیم سواتی کی تصویر اے آر وائے نیوز نے حاصل کرلی۔

    The prime suspect Raheem Swati

    گرفتار ملزم رحیم سواتی عوامی نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر اورنگی کے علاقے سے کونسلر منتخب ہوا، ملزم نے زمینوں پر قبضے اور بھتہ خوری کے لیے گروہ تشکیل دیا، رحیم سواتی اپنے ساتھی ایاز سواتی کے ہمراہ پروین رحمان کی زمین پر قبضہ کر کے وہاں کراٹے سینٹر بنانا چاہتا تھا۔

    ایس ایس پی ویسٹ کے مطابق ملزم لسانی و مذہبی دہشتگردی کی متعدد وارداتوں میں بھی ملوث رہا، جبکہ اس کے روابط کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے بھی تھے۔

    پروین رحمان قتل کیس میں ملزم کے دوساتھی پہلے ہی گرفتار ہیں جبکہ ایاز سواتی سمیت دو ساتھی بیرون ملک مفرور ہیں، گرفتار ملزم کے قبضے سے اسلحہ اور دستی بم برآمد کرلیا گیا۔

    ذرائع کے مطابق سماجی کارکن کے قتل کی واردات کے یہ بعد مبینہ دہشت گرد کراچی سے فرار ہو گیا تھا، رحیم سواتی خیبرپختونخواہ میں بھی سیاست دانوں کے قتل میں ملوث رہا ہے، قانون نافذ کرنے والے ادارے کافی عرصے سے اس کی تلاش میں تھے۔

  • پروین رحمان قتل کیس کا مرکزی ملزم گرفتار

    پروین رحمان قتل کیس کا مرکزی ملزم گرفتار

    کراچی : پروین رحمان قتل کیس کے مرکزی ملزم کو گرفتار کرلیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق ضلع غربی میں پولیس نے کارروائی کرکے کالعدم تنظیم کے مبینہ دہشت گرد رحیم سواتی کو گرفتارکرلیا۔

    ذرائع کے مطابق گرفتاردہشت گرد مبینہ طور پراورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی ڈائریکٹر پروین رحمان کے قتل میں ملوث ہے، پروین رحمان کو تیرہ فروری دوہزراتیرہ میں بنارس کے قریب فائرنگ کر کے قتل کردیا گیا تھا۔

    ملزم رحیم سواتی کا تعلق کالعدم تنظیم تحریک طالبان سوات سے ہے، ذرائع کے مطابق سماجی کارکن کے قتل کی واردات کے  یہ بعد مبینہ دہشت گرد کراچی سے فرار ہو گیا تھا۔

    ذرائع کے مطابق رحیم سواتی خیبرپختونخواہ میں بھی سیاست دانوں کے قتل میں ملوث رہا ہے، قانون نافذ کرنے والے ادارے کافی عرصے سے اس کی تلاش میں تھے۔

    ذرائع کے مطابق پروین رحمان قتل کیس میں دو مبینہ دہشت گرد پہلے ہی مارے جاچکے ہیں۔ اس حوالے سے ایس ایس پی غربی اظفر مہیسر کل ایک اہم پریس کانفرنس بھی کریں گے۔