Tag: پروین شاکر

  • پروین شاکرکی مختصرسوانح حیات – آڈیو

    پروین شاکرکی مختصرسوانح حیات – آڈیو

    عکسِ خوشبو ہوں، بکھرنے سے نہ روکے کوئی
    اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی

    اردو کی مقبول شاعرہ پروین شاکر کا یہ شعر ان کے پہلے مجموعۂ کلام "خوشبو” میں شامل ہے۔ پروین شاکر جوانی میں ٹریفک حادثے میں چل بسی تھیں۔ ازدواجی زندگی کی تلخیوں کے بعد شوہر سے علیحدگی اور بطور شاعرہ پروین شاکر کی مقبولیت کے سفر پر عارف حسین کا پوڈ کاسٹ….

    ARIF AZIZ · Parveen Shakir

    پاکستان اور دنیا بھر سے آڈیو خبریں ARY Podcast

  • پروین شاکر: مقبول شاعرہ جو تلخیِ حیات سے “خود کلامی” کرتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گئی!

    پروین شاکر: مقبول شاعرہ جو تلخیِ حیات سے “خود کلامی” کرتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گئی!

    عورت ذات کی زندگی کے المیوں، دکھوں اور کرب کو بیان کرنے اور رومانوی شاعری سے ملک گیر مقبولیت حاصل کرنے والی پروین شاکر کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ وہ ایسی شاعرہ تھیں جن کی ذاتی زندگی بھی تلخیوں اور رنجشوں کے سبب بے رنگ اور یاسیت کا شکار رہی۔

    شوہر سے علیحدگی کے بعد ان کی کل کائنات اکلوتا بیٹا مراد تھا۔ نوجوانی میں پروین شاکر نے طلاق کے بعد اپنی زندگی کا مشکل وقت دیکھا، لیکن بیٹے دیکھ بھال اور تعلیم و تربیت کے ساتھ شعر و شاعری اور ادبی سرگرمیوں میں مشغول ہوگئیں اور زندگی کا سفر جاری رکھا۔ قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ وہ زیادہ عرصہ اپنے بیٹے کے ساتھ نہ رہ سکیں اور عین جوانی میں ٹریفک حادثہ میں ان کی موت واقع ہوگئی۔ یہاں ہم پروین شاکر کے مشہور اشعار اور ان کی زندگی کے حالات مختصراً پیش کررہے ہیں۔

    حادثہ اور ماہِ تمام

    26 دسمبر 1994ء کو پروین شاکر اسلام آباد میں صبح اپنے گھر سے اپنے دفتر جانے کے لیے روانہ ہوئی تھیں کہ ایک ٹریفک سگنل پر ان کی کار موڑ کاٹتے ہوئے کسی تیز رفتار بس سے ٹکرا گئی۔ شدید زخمی پروین شاکر کو فوری طور پر اسپتال پہنچایا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جاملیں۔ انھیں اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ پروین شاکر کی ناگہانی موت پر شعرو ادب کی دنیا سوگوار ہوگئی اور ان کے مداح اشک بار نظر آئے۔

    یہ بھی پڑھیے: پہلے مقبول ترین شعری مجموعے میں شامل وہ غزل جو پروین شاکر کی پہچان بنی

    ابتدائی حالاتِ زندگی

    اردو زبان کی اس مقبول شاعرہ نے 24 نومبر 1952ء کو کراچی میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد سید ثاقب حسین بھی شاعر تھے اور شاکر تخلص کر تے تھے۔ اسی نام کو پروین نے اپنایا اور پروین شاکر مشہور ہوئیں۔ وہ ایک ہونہار طالبہ تھیں۔ زمانہ طالبعلمی میں مباحث میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ وہ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کرتی رہیں۔ وہ کم عمر تھیں جب شعر گوئی کا آغاز کیا اور جلد ہی ملک بھر میں‌پہچانی جانے لگیں۔

    تعلیم

    پروین شاکر نے انگریزی ادب اور لسانیات میں گریجویشن کے بعد انہی مضامین میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ وہ نو سال شعبہ تدریس سے منسلک رہیں اور پھر 1986ء میں کسٹم ڈیپارٹمنٹ، سی بی آر اسلام آباد میں سیکرٹری دوم کے طورپر خدمات انجام دیں۔ 1990ء میں انھوں نے ٹرینٹی کالج سے مزید تعلیم حاصل کی اور 1991ء میں ہاورڈ یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری لی۔

    شادی اور علیحدگی

    1976ء میں پروین شاکر کی شادی ان کے خالہ زاد ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی۔ وہ پیشہ کے اعتبار سے ڈاکٹر تھے۔ پروین شاکر ایک بیٹے کی ماں بنیں۔ لیکن ازدواجی زندگی تلخیوں‌ کا شکار رہی اور 1987ء میں ان کے درمیان علیحدگی ہو گئی۔

    خاندانی حالات

    پروین شاکر کی والدہ کا نام افضل النساء تھا ۔ان کے والد ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے.پروین شاکر کاخاندان ہندوستان کے صوبہ بہار کے ایک گاؤں چندی پٹی سے تعلق رکھتا تھا ۔ پروین شاکر اور ان کی بڑی بہن نسرین بانو نے بچپن ایک ساتھ گزارا۔ پروین شاکر ایک ذہین اور خوبصورت خاتون تھیں جنھیں معاشرے کے رویے اور گھٹن کا شکار ہونے کے بعد شادی ختم ہونے سے بھی شدید رنج ہوا۔ ایک حساس طبع اور شاعرہ نے خود کو سمیٹنے کی کوشش کے ساتھ خود کو منوانے کے لیے بہت جد و جہد کی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں عورتوں کے جذبات کو بیان کیا گیا ہے۔

    شاعری اور ادبی سفر

    پروین شاکر کا پہلا مجموعہ خوشبو شائع ہوا تو اس وقت شاعرہ کی عمر صرف 24 برس تھی۔ اس مجموعہ کو ملک گیر پذیرائی ملی اور پروین شاکر کی شہرت آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگی۔ پروین شاکر کی شاعری کی تعریف اس دور کے مشہور شعراء نے کی اور انھیں بہت سراہا۔ پروین شاکر کو پانچ بڑے ادبی انعامات و اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ ان کے شعری مجموعے 1980ء میں صد برگ، 1990ء میں خود کلامی، 1990ء میں ہی انکار اور 1994ء میں ماہ تمام( کلیات) کے عنوان سے شائع ہوئے۔

    نمونۂ کلام

    نظم: ضد
    میں کیوں اس کو فون کروں!
    اس کے بھی تو علم میں ہوگا
    کل شب
    موسم کی پہلی بارش تھی!

    چند مشہور اشعار
    حسن کے سمجھنے کو عمر چاہیے جاناں
    دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کھلتیں

    کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا ترا خیال بھی
    دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی

    وہ مجھ کو چھوڑ کے جس آدمی کے پاس گیا
    برابری کا بھی ہوتا تو صبر آ جاتا

    میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
    وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا

  • پروین شاکر: سکوت سے ‘نغمہ سرائی’ تک

    پروین شاکر: سکوت سے ‘نغمہ سرائی’ تک

    اردو کی مقبول ترین شاعرہ پروین شاکر کی موت کے بعد ان کا کلیات ‘‘ماہِ تمام’’ کے نام سے مداحوں تک پہنچا تھا۔ اس سے قبل پروین شاکر کے مجموعہ ہائے کلام ‘‘خوش بُو، خود کلامی، انکار اور صد برگ’’ کے نام سے منظرِ‌عام پر آچکے تھے۔

    پروین شاکر نے 26 دسمبر 1994ء کو ایک ٹریفک حادثے میں زندگی ہار دی تھی۔ آج اردو کی اس مقبول شاعرہ کی برسی ہے۔

    اردو شاعری سے شغف رکھنے والوں میں پروین شاکر کو ان کے رومانوی اشعار کی وجہ سے زیادہ مقبولیت ملی، لیکن اردو ادب میں پروین شاکر کو نسائی جذبات کے عصری شعور کے ساتھ اظہار کی وجہ سے سراہا جاتا ہے۔

    ‘‘ماہِ تمام’’ پروین شاکر کا وہ کلّیات تھا جو اس شاعرہ کی الم ناک موت کے بعد سامنے آیا۔ محبّت اور عورت کا دکھ پروین شاکر کی شاعری کا خاص موضوع رہے۔ انھوں نے نسائی جذبات اور عورت کے احساسات کو شدّت اور درد مندی سے بیان کیا ہے اور غزل کے ساتھ نظم میں‌ بھی خوبی سے پیش کیا ہے۔

    پروین شاکر کا تعلق ایک ادبی گھرانے سے تھا۔ وہ چند سال درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہیں اور پھر سول سروسز کا امتحان دے کر اعلیٰ افسر کی حیثیت سے ملازم ہوگئیں۔ اس دوران شاعرہ نے اپنی تخلیق اور فکر و نظر کے سبب ادبی دنیا میں اپنی پہچان بنا لی تھی۔ مشاعروں اور ادبی نشستوں میں انھیں خوب داد ملی اور ان کے شعری مجموعے باذوق قارئین میں بہت پسند کیے گئے۔

    پروین شاکر کی شاعری میں ان کی زندگی کا وہ دکھ بھی شامل ہے جس کا تجربہ انھیں ایک ناکام ازدواجی بندھن کی صورت میں‌ ہوا تھا۔ انھوں نے ہجر و وصال کی کشاکش، خواہشات کے انبوہ میں ناآسودگی، قبول و ردّ کی کشمکش اور زندگی کی تلخیوں کو اپنے تخلیقی وفور اور جمالیاتی شعور کے ساتھ پیش کیا، لیکن ان کی انفرادیت عورت کی نفسیات کو اپنی لفظیات میں بہت نفاست اور فن کارانہ انداز سے پیش کرنا ہے۔ اپنے اسی کمال کے سبب وہ اپنے دور کی نسائی لب و لہجے کی منفرد اور مقبول ترین شاعرہ قرار پائیں۔

    بقول گوپی چند نارنگ نئی شاعری کا منظر نامہ پروین شاکر کے دستخط کے بغیر نامکمل ہے۔ احمد ندیم قاسمی نے کہا کہ پروین شاکر نے اردو شاعری کو سچّے جذبوں کی قوس قزحی بارشوں میں نہلایا۔

    پروین شاکر 24 نومبر 1952ء کو کراچی میں پیدا ہوئی تھیں۔ وہ عمری ہی میں اشعار موزوں کرنے لگی تھیں۔ انھوں نے کراچی میں تعلیمی مراحل طے کرتے ہوئے انگریزی ادب میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اور بعد میں لسانیات میں بھی ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور پھر تدریس کا آغاز کیا۔ خدا نے انھیں اولادِ نرینہ سے نوازا تھا، لیکن تلخیوں کے باعث ان کا ازدواجی سفر ختم ہوگیا۔

    اس شاعرہ کا اوّلین مجموعۂ کلام 25 سال کی عمر میں‌ خوشبو کے عنوان سے منظرِ عام پر آیا اور ادبی حلقوں میں دھوم مچ گئی۔ اس کتاب پر پروین شاکر کو آدم جی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔ یہ مجموعہ شاعری کا ذوق رکھنے والوں میں‌ بہت مقبول ہوا۔ پروین شاکر کی برسی کے موقع پر ہر سال ادب دوست حلقے اور ان کے مداح شعری نشستوں کا اہتمام کرتے ہیں جن میں شاعرہ کا کلام سنا جاتا ہے۔

    پاکستان اور دنیا بھر میں موجود اردو شاعری سے شغف رکھنے والوں میں مقبول پروین شاکر کو اسلام آباد کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ یہ اشعار ان کے کتبے پر درج ہیں۔

    یا رب مرے سکوت کو نغمہ سرائی دے
    زخمِ ہنر کو حوصلۂ لب کشائی دے
    شہرِ سخن سے روح کو وہ آشنائی دے
    آنکھیں بھی بند رکھوں تو رستہ سجھائی دے

  • یومِ وفات: نئی شاعری کا منظر نامہ پروین شاکر کے بغیر نامکمل ہے

    ‘‘خوش بُو، خود کلامی، انکار اور صد برگ’’ کے ساتھ 1994ء تک پروین شاکر کی زندگی کا سفر بھی جاری رہا، لیکن جب ‘‘ماہِ تمام’’ مداحوں تک پہنچی تو پروین شاکر دنیا سے جا چکی تھیں۔ آج اردو کی اس نام ور شاعرہ کی برسی ہے۔

    اردو شاعری سے شغف رکھنے والوں میں یہ نام شاید رومانوی موضوعات کی وجہ سے زیادہ مقبول ہے، لیکن اردو ادب میں پروین شاکر کو ان کی شاعری میں‌ نسائی جذبات اور ان کے عصری شعور کی وجہ سے بہت سراہا جاتا ہے۔

    ‘‘ماہِ تمام’’ پروین شاکر کا وہ کلّیات تھا جو 1994ء میں کار کے ایک حادثے میں شاعرہ کی الم ناک موت کے بعد سامنے آیا۔ محبّت اور عورت کا دکھ پروین شاکر کی شاعری کا خاص موضوع رہے۔ انھوں نے نسائی جذبات اور عورت کے احساسات کو شدّت اور درد مندی سے بیان کیا ہے اور غزل کے ساتھ نظم میں‌ بھی خوبی سے پیش کیا ہے۔

    پروین شاکر کا تعلق ایک ادبی گھرانے سے تھا۔ وہ چند سال درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہیں اور پھر سول سروسز کا امتحان دے کر اعلیٰ افسر کی حیثیت سے ملازم ہوگئیں۔ اس دوران شاعرہ نے اپنی تخلیق اور فکر و نظر کے سبب ادبی دنیا میں اپنی پہچان بنا لی تھی۔ مشاعروں اور ادبی نشستوں میں انھیں خوب داد ملتی اور ان کے شعری مجموعے باذوق قارئین میں بہت پسند کیے گئے۔

    پروین شاکر کی شاعری میں ان کی زندگی کا وہ دکھ بھی شامل ہے جس کا تجربہ انھیں ایک ناکام ازدواجی بندھن کی صورت میں‌ ہوا تھا۔ انھوں نے ہجر و وصال کی کشاکش، خواہشات کے انبوہ میں ناآسودگی، قبول و ردّ کی کشمکش اور زندگی کی تلخیوں کو اپنے تخلیقی وفور اور جمالیاتی شعور کے ساتھ پیش کیا، لیکن ان کی انفرادیت عورت کی نفسیات کو اپنی لفظیات میں بہت نفاست اور فن کارانہ انداز سے پیش کرنا ہے۔ اپنے اسی کمال کے سبب وہ اپنے دور کی نسائی لب و لہجے کی منفرد اور مقبول ترین شاعرہ قرار پائیں۔

    بقول گوپی چند نارنگ نئی شاعری کا منظر نامہ پروین شاکر کے دستخط کے بغیر نامکمل ہے۔ احمد ندیم قاسمی نے کہا کہ پروین شاکر نے اردو شاعری کو سچّے جذبوں کی قوس قزحی بارشوں میں نہلایا۔

    پروین شاکر 24 نومبر 1952ء کو کراچی میں پیدا ہوئی تھیں۔ وہ عمری ہی میں اشعار موزوں کرنے لگی تھیں۔ انھوں نے کراچی میں تعلیمی مراحل طے کرتے ہوئے انگریزی ادب میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اور بعد میں لسانیات میں بھی ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور پھر تدریس کا آغاز کیا۔ خدا نے انھیں اولادِ نرینہ سے نوازا تھا، لیکن تلخیوں کے باعث ان کا ازدواجی سفر ختم ہوگیا۔

    اس شاعرہ کا اوّلین مجموعۂ کلام 25 سال کی عمر میں‌ خوشبو کے عنوان سے منظرِ عام پر آیا اور ادبی حلقوں میں دھوم مچ گئی۔ اس کتاب پر پروین شاکر کو آدم جی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔ یہ مجموعہ شاعری کا ذوق رکھنے والوں میں‌ بہت مقبول ہوا۔ پروین شاکر کی برسی کے موقع پر ہر سال ادب دوست حلقے اور ان کے مداح شعری نشستوں کا اہتمام کرتے ہیں جن میں شاعرہ کا کلام سنا جاتا ہے۔

    پروین شاکر اسلام آباد کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ ان کے کتبے پر یہ اشعار درج ہیں۔

    یا رب مرے سکوت کو نغمہ سرائی دے
    زخمِ ہنر کو حوصلہ لب کشائی دے
    شہرِ سخن سے روح کو وہ آشنائی دے
    آنکھیں بھی بند رکھوں تو رستہ سجھائی دے

  • خوش بُو سے کلام کرنے والی شاعرہ پروین شاکر کی برسی

    خوش بُو سے کلام کرنے والی شاعرہ پروین شاکر کی برسی

    ‘‘خوش بُو، خود کلامی، انکار اور صد برگ’’ کے بعد ‘‘ماہِ تمام’’ سامنے آیا۔ یہ پروین شاکر کا کلّیات تھا جو 1994ء میں کار کے ایک حادثے میں ان کی موت کے بعد شایع ہوا تھا۔ محبّت اور عورت پروین شاکر کی شاعری کا موضوع رہے۔ اپنی شاعری میں عورت کے جذبات اور احساسات کو شدّت اور درد مندی سے بیان کرنے والی پروین شاکر نے خوش سلیقگی، تازگی کے ساتھ غزل اور نظم دونوں اصنافِ سخن میں‌ جمالیاتی تقاضوں کو بھی خوبی سے نبھایا۔

    آج پاکستان میں رومانوی شاعرہ کی حیثیت سے پہچانی جانے والی پروین شاکر کی برسی منائی جارہی ہے۔

    ان کا تعلق ایک ادبی گھرانے سے تھا۔ وہ چند سال درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہیں اور پھر سول سروسز کا امتحان دے کر اعلیٰ افسر کی حیثیت سے ملازم ہوگئیں۔ اس دوران پروین شاکر کا تخلیقی اور ادبی دنیا میں پہچان کا سفر جاری رہا۔ مشاعروں اور ادبی نشستوں میں انھوں نے اپنے اشعار پر خوب داد پائی اور ان کے شعری مجموعوں کو بہت سراہا گیا۔

    پروین شاکر کی شاعری میں ان کی زندگی کا وہ دکھ بھی شامل ہے جس کا تجربہ انھیں ایک ناکام ازدواجی بندھن کی صورت میں‌ ہوا تھا۔ انھوں نے ہجر و وصال کی کشاکش، خواہشات کے انبوہ میں ناآسودگی، قبول و ردّ کی کشمکش اور زندگی کی تلخیوں کو اپنے تخلیقی وفور اور جمالیاتی شعور کے ساتھ پیش کیا، لیکن ان کی انفرادیت عورت کی نفسیات کو اپنی لفظیات میں بہت نفاست اور فن کارانہ انداز سے پیش کرنا ہے۔ اپنے اسی کمال کے سبب وہ اپنے دور کی نسائی لب و لہجے کی منفرد اور مقبول ترین شاعرہ قرار پائیں۔

    بقول گوپی چند نارنگ نئی شاعری کا منظر نامہ پروین شاکر کے دستخط کے بغیر نامکمل ہے۔ احمد ندیم قاسمی نے کہاکہ پروین شاکر نے اردو شاعری کو سچّے جذبوں کی قوس قزحی بارشوں میں نہلایا۔

    پروین شاکر 24 نومبر 1952ء کو کراچی میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کا تعلق ایک علمی و ادبی گھرانے سے تھا۔ پروین کم عمری ہی میں اشعار موزوں کرنے لگی تھیں۔ انھوں نے کراچی میں تعلیمی مراحل طے کرتے ہوئے انگریزی ادب میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اور بعد میں لسانیات میں بھی ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور پھر تدریس سے وابستہ ہوگئیں۔ شادی کے بعد خدا نے انھیں اولادِ نرینہ سے نوازا، لیکن بعد میں ان کا ازدواجی سفر طلاق کے ساتھ ختم ہوگیا۔ سول سروس کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ اسلام آباد میں اہم عہدے پر خدمات انجام دے رہی تھیں۔

    وہ 25 سال کی تھیں جب ان کا پہلا مجموعۂ کلام خوشبو منظرِ عام پر آیا اور ادبی حلقوں میں دھوم مچ گئی۔ انھیں اسی کتاب پر آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔

    ہر سال پروین شاکر کی برسی کے موقع پر علم و ادب کے شائق نہ صرف انھیں یاد کرتے ہیں بلکہ ادب دوست حلقے اور مداح خصوصی نشستوں کا اہتمام بھی کرتے ہیں جس میں پروین شاکر کی یاد تازہ کی جاتی ہے اور ان کا کلام پڑھا جاتا ہے۔

    پروین شاکر اسلام آباد کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ ان کے کتبے پر یہ اشعار درج ہیں۔

    یا رب مرے سکوت کو نغمہ سرائی دے
    زخمِ ہنر کو حوصلہ لب کشائی دے
    شہرِ سخن سے روح کو وہ آشنائی دے
    آنکھیں بھی بند رکھوں تو رستہ سجھائی دے

  • گوگل کا خوش بو کی شاعرہ کے 67 ویں یومِ پیدایش پر شان دار خراج عقیدت

    گوگل کا خوش بو کی شاعرہ کے 67 ویں یومِ پیدایش پر شان دار خراج عقیدت

    کراچی: خوش بو جیسے اشعار اور نظمیں کہنے والی اردو زبان کی مقبول عام شاعرہ پروین شاکر کا 67 واں یوم پیدایش آج منایا جا رہا ہے۔

    رنگ اور خوش بو کی شاعرہ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے گوگل نے اپنا ڈوڈل پروین شاکر کے نام کر دیا ہے۔

    خوش بو، صد برگ، خود کلامی، اور انکار جيسے شعری مجموعوں کی مصنفہ پروین شاکر بلاشبہ ہر دل عزیز شاعرہ تھیں، کتاب خوشبو سے شہرت کی بلنديوں کو چھونے والی شاعرہ کو آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔

    24 نومبر 1952 کو کراچی ميں پيدا ہونے والی پروين شاکر 26 دسمبر 1994 کو اسلام آباد میں ایک ٹریفک حادثے کا شکار ہوئیں اور 42 برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملیں۔

    محبت کی خوش بو شعروں میں سمونے والی پروین شاکر نے الفاظ اور جذبات کو ایک انوکھے تعلق میں باندھ کر انسانی انا، خواہش اور انکار کو شعر کا روپ دیا، آج ان کے مداح ان کی 67 ویں سال گرہ منا رہے ہیں۔

    اردو شاعری کو اک نئی طرز بخشنے والی شاعرہ پروین شاکر نے جامعہ کراچی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہیں، بعد میں سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔

    ان کے چند مشہور اور زبان زد عام اشعار یہ ہیں:

    کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
    اس نے خوش بو کی طرح میری پذیرائی کی

    ….

    وہ تو جاں لے کے بھی ویسا ہی سبک نام رہا
    عشق کے باب میں سب جرم ہمارے نکلے

    ….

    وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا
    مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا

    ….

    حسن کے سمجھنے کو عمر چاہیے جاناں
    دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کھلتیں

    ….

    میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
    وہ جھوٹ بولے گا اور لا جواب کر دے گا

    ….

    کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
    بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

    ….

    تو بدلتا ہے تو بے ساختہ میری آنکھیں
    اپنے ہاتھوں کی لکیروں سے الجھ جاتی ہیں

    ….

    کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
    اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی

  • خوشبوکی شاعرہ پروین شاکر کو مداحوں سے بچھڑے 24 برس بیت گئے

    خوشبوکی شاعرہ پروین شاکر کو مداحوں سے بچھڑے 24 برس بیت گئے

    کراچی : محبت کی خوشبو شعروں میں سمونے والی شاعرہ پروین شاکر جن کا ساحرانہ ترنم اور لطیف جذبات کو لفظوں کا پیرہن دینے کا ہنر انہیں امر کرتا ہے، بلند خیالات کو انوکھے انداز میں بیان کرنے والی اس عظیم شاعرہ کی آج 24ویں برسی ہے۔

    اردو شاعری کو اک نئی طرز بخشنے والی عظیم شاعرہ پروین شاکر 14 نومبر1952 کو کراچی میں پیدا ہوئیں، پروین شاکر نے جامعہ کراچی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کو اردو کی منفرد لہجے کی شاعرہ ہونے کی وجہ سے بہت ہی کم عرصے میں وہ شہرت حاصل ہوئی جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔

    دوران تعلیم وہ اردو مباحثوں میں حصہ لیتی رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کرتی رہیں۔ وہ استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہیں اور پھر بعد میں آپ نے سرکاری ملازمت اختیار کرلی۔ 1986 میں کسٹم ڈیپارٹمنٹ، سی بی آر اسلام آباد میں سیکریٹری دوئم کے طور پر اپنی خدمات انجام دینے لگیں۔

    سن 1990 میں ٹرینٹی کالج جو کہ امریکہ سے تعلق رکھتا تھا تعلیم حاصل کی اور 1991 میں ہاورڈ یونیوسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی، انتہائی کم عمری میں ہی انہوں نے شعر گوئی شروع کردی تھی۔

    پروین شاکر کی شادی ڈاکٹر نصیرعلی سے ہوئی ، جس سے بعد میں طلاق لے لی۔ انہوں نے جذبات کو اپنی تصانیف میں نہایت دلفریب انداز میں پیش کیا۔ محبت، درد، تنہائی اور فراق و وصال سے لبریز پروین شاکر کی منفرد کتاب خوشبو منظر عام پر آئی تو شاعرہ کے الفاظ کی مہک چارسو پھیل گئی۔

    میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
    وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا

    خوشبو ان کے کلام کی پہلی کتاب تھی جس نے پھرسے کتابوں کے تحفوں کا رواج ڈالا بے، بے باک اندازمیں دل کی بات کہہ دینا آسان نہیں لیکن پروین شاکرکی شاعری میں اس کی جا بہ جا مثالیں ملتی ہیں۔

    مر بھی جاوں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
    لفظ میرے، مرے ہونے کی گواہی دیں گے

    اپنی منفرد شاعری کی کتاب ’’خوشبو‘‘ سے اندرون و بیرون ملک بے پناہ مقبولیت حاصل کی، انہیں اس کتاب پر آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ بعد ازاں انہیں پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ بھی ملا۔

    پروین شاکر کی تصانیف صد برگ، انکار، مسکراہٹ، چڑیوں کی چہکاراور کف آئینہ، ماہ تمام، بارش کی کن من بے پناہ پذیرائی حاصل ہوئی، الفاظ کا انتخاب اور لہجے کی شگفتگی نے پروین شاکر کو مقبول عام شاعرہ بنادیا۔

    عظیم شاعرہ پروین شاکر 26 دسمبر 1994 کو ایک ٹریفک حادثے میں 42 برس کی عمر میں انتقال کر گئی تھیں، پروین شاکر اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • محبت کی خوشبو شعروں میں سمونے والی شاعرہ پروین شاکر کا66واں یومِ پیدائش

    محبت کی خوشبو شعروں میں سمونے والی شاعرہ پروین شاکر کا66واں یومِ پیدائش

    کراچی : محبت کی خوشبو شعروں میں سمونے والی پروین شاکر جنہوں نے الفاظ اور جذبات کو ایک انوکھے تعلق میں باندھ کر انسانی انا، خواہش اور انکار کو شعر کا روپ دیا، رنگ و خوشبو کی اس شاعرہ کے مداح آج ان کی چھیاسٹویں سالگرہ منا رہےہیں۔

    کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
    اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی

    اردو شاعری کو اک نئی طرز بخشنے والی عظیم شاعرہ پروین شاکر 24 نومبر 1952 کو کراچی میں پیدا ہوئیں، پروین شاکر نے جامعہ کراچی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

    پروین ایک ہونہار طالبہ تھیں، دورانِ تعلیم وہ اردو مباحثوں میں حصہ لیتیں رہیں، اس کے ساتھ ساتھ وہ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کرتی رہیں، وہ استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہیں اور پھر بعد میں آپ نے سرکاری ملازمت اختیار کرلی۔

    منفرد لہجہ اور ندرت خیال کے باعث جلد ہی شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئیں، الفاظ و جذبات کو انوکھے اندازمیں سمو کر سادہ الفاظ بیان کا ہنر انکا خاصہ تھا ، انہوں نے روایات سے انکار اور بغاوت کرتے ہوئے صنف نازک کے جذبات کی تصویریں بنائیں اوردکھوں اور کرب کو الفاظ کے سانچے میں ڈھال کر اشعار کہے۔

    انہوں نے سچ ہی کہا تھا کہ

    مر بھی جاؤں تو کہاں، لوگ بھلا ہی دیں گے
    لفظ میرے، مرے ہونے کی گواہی دیں گے

    پروین شاکر کی منفرد کتاب خوشبو منظر عام پر آئی تو شاعرہ کے الفاظ کی مہک چارسو پھیل گئی۔

    اپنی منفرد شاعری کی کتاب ’’خوشبو‘‘ سے اندرون و بیرون ملک بے پناہ مقبولیت حاصل کی، انہیں اس کتاب پر آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ بعد ازاں انہیں پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ بھی ملا۔

    پروین شاکر کی تصانیف صد برگ، انکار، مسکراہٹ، چڑیوں کی چہکاراور کف آئینہ، ماہ تمام، بارش کی کن من کو بے پناہ پذیرائی حاصل ہوئی، الفاظ کا انتخاب اور لہجے کی شگفتگی نے پروین شاکر کو مقبول عام شاعرہ بنادیا۔

    پروین شاکر کو اگر اردو کے صاحب اسلوب شاعروں میں شمار کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ انہوں نے اردو شاعری کو ایک نیا لب و لہجہ دیا اور شاعری کو نسائی احساسات سے مالا مال کیا۔ ان کا یہی اسلوب ان کی پہچان بن گیا۔ آج بھی وہ اردو کی مقبول ترین شاعرہ تسلیم کی جاتی ہیں۔

    ابھی فن وادب کے متوالے پو ری طرح سیراب بھی نہ ہو پائے تھے کہ انیس سو چورانوے میں خوشبو بکھیرنے والی پروین شاکر ٹریفک حادثے میں دنیا سے رخصت ہوگئیں۔

    وہ تو جاں لے کے بھی ویسا ہی سبک نام رہا
    عشق کے باب میں سب جرم ہمارے نکلے

  • خوشبوکی شاعرہ پروین شاکر کو مداحوں سے بچھڑے23برس بیت گئے

    خوشبوکی شاعرہ پروین شاکر کو مداحوں سے بچھڑے23برس بیت گئے

    کراچی : خوشبو، رنگ اور محبت کی شاعرہ پروین شاکر کی آج 23ویں برسی ہے۔

    اردو شاعری کو اک نئی طرز بخشنے والی عظیم شاعرہ پروین شاکر چودہ نومبر انیس سو باون کو کراچی میں پیدا ہوئیں، پروین شاکر نے جامعہ کراچی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کو اردو کی منفرد لہجے کی شاعرہ ہونے کی وجہ سے بہت ہی کم عرصے میں وہ شہرت حاصل ہوئی جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔

    دوران تعلیم وہ اردو مباحثوں میں حصہ لیتی رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کرتی رہیں۔ وہ استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہیں اور پھر بعد میں آپ نے سرکاری ملازمت اختیار کرلی۔ 1986 میں کسٹم ڈیپارٹمنٹ، سی بی آر اسلام آباد میں سیکریٹری دوئم کے طور پر اپنی خدمات انجام دینے لگیں۔

    سن 1990 میں ٹرینٹی کالج جو کہ امریکہ سے تعلق رکھتا تھا تعلیم حاصل کی اور 1991 میں ہاورڈ یونیوسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی، انتہائی کم عمری میں ہی انہوں نے شعر گوئی شروع کردی تھی۔

    پروین شاکر کی شادی ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی ، جس سے بعد میں طلاق لے لی۔ انتہائی کم عمری میں ہی انہوں نے شعر گوئی شروع کردی تھی، انھوں نے جذبات کو اپنی تصانیف میں نہایت دلفریب انداز میں پیش کیا۔ محبت، درد، تنہائی اور فراق و وصال سے لبریز پروین شاکر کی منفرد کتاب خوشبو منظر عام پر آئی تو شاعرہ کے الفاظ کی مہک چارسو پھیل گئی۔

    میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
    وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا

    خوشبو ان کے کلام کی پہلی کتاب تھی جس نےپھرسےکتابوں کے تحفوں کا رواج ڈالا بے، باک اندازمیں دل کی بات کہہ دینا آسان نہیں لیکن پروین شاکرکی شاعری میں اس کی جابہ جامثالیں ملتی ہیں۔

    مر بھی جاوں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
    لفظ میرے، مرے ہونے کی گواہی دیں گے

    اپنی منفرد شاعری کی کتاب ’’خوشبو‘‘ سے اندرون و بیرون ملک بے پناہ مقبولیت حاصل کی، انہیں اس کتاب پر آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ بعد ازاں انہیں پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ بھی ملا.


    پروین شاکر کی تصانیف صد برگ، انکار، مسکراہٹ، چڑیوں کی چہکاراور کف آئینہ، ماہ تمام، بارش کی کن من بے پناہ پذیرائی حاصل ہوئی، الفاظ کا انتخاب اور لہجے کی شگفتگی نے پروین شاکر کو مقبول عام شاعرہ بنادیا۔

    عظیم شاعرہ پروین شاکر 26 دسمبر 1994 کو ایک ٹریفک حادثے میں 42 برس کی عمر میں ٹریفک حادثہ میں انتقال کر گئی تھیں،  پروین شاکر اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • شہری لاپتہ ہورہے ہیں لیکن کوئی ریاست سے سوال نہیں کرسکتا، رضا ربانی

    شہری لاپتہ ہورہے ہیں لیکن کوئی ریاست سے سوال نہیں کرسکتا، رضا ربانی

    اسلام آباد : چیئر مین سینیٹ رضا ربانی نے کہا ہے کہ ادب، شاعری اور کتابیں برداشت کو جنم دیتی ہیں جب کہ ادب اور سوچ پر قدغن نے ملک میں انتہاء پسندی اور فرقہ واریت کو جنم دیا۔

    وہ اسلام آباد میں پروین شاکر ٹرسٹ کی جانب سے پروین شاکر کے شعری مجموعہ خوشبو کی انتالیسویں سالگرہ کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کر رہے تھے انہوں نے کہا کہ پروین شاکر کی شاعری، خیالات اور اثرات موجودہ گھٹن زدہ ماحول میں مشعل راہ ہیں جنہیں زندہ رکھنا ضروری ہے۔

    انہوں نے کہا کہ پروین شاکر کی موت کے بعد معاشرہ ان جیسی کوئی اور شاعرہ جنم نہیں دے سکا موجودہ نسل کو ادب اور ثقافت کے فروغ کیلئے پروین شاکر کے نقش قدم پر چلنا ہو گا ۔

    رضا ربانی کا کہنا تھا کہ ریاست کا کاروبار اپنی اپنی منشاء کے مطابق چلایا جا رہاہے شہری علاقوں میں نفسا نفسی کا عالم پیدا کرکے کرپشن کا بازار گرم کر دیا گیا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ معاشرہ مردہ ہو چکا ہے اور بے حسی کا یہ عالم ہے کہ شہری لاپتہ ہو رہے ہیں لیکن کوئی ریاست سے یہ نہیں پوچھ سکتا کہ عدالتیں موجود ہونے کے باوجود ایسے مجرموں کے خلاف آئین اور قانون کے تحت کوئی مقدمہ درج کیوں نہیں کیا جا رہا ہے۔

    چیئرمین سینیٹ کا کہنا تھا کہ ریاست کے تحت لوگ غائب ہورہے ہیں اور یہ ہورہا ہے کہ خوف اتنا طاری کر دو کہ لوگ اپنے سائے سے بھی ڈریں یہی وجہ ہے کہ کسی میں ہمت نہیں کہ پوچھ سکیں اور اگر لاپتہ افراد مجرم ہیں تو ان پر مقدمہ چلنا چاہیے۔

    چیئرمین سینیٹ کا مزید کہنا تھا کہ ریاست نے اپنے اقدامات سے جان بوجھ کر ادب اور ثقافت کو تباہ کیا اور ملکی تاریخ میں فیض احمد فیض اور حبیب جالب جیسے شعراء نے آمریت اور ریاستی تسلط اورجبر کے خلاف تحریک کو جنم دیا۔