Tag: پریم چند

  • پریم چند کا تذکرہ جن کی ہنسی کبھی دھیمی یا پھیکی نہیں پڑی!

    پریم چند کا تذکرہ جن کی ہنسی کبھی دھیمی یا پھیکی نہیں پڑی!

    پریم چند کی کچھ باتیں کرنے میں آج آپ کے سامنے ہوں۔ اس بات پر جی میں کچھ بے چینی ہوتی ہے۔ آج وہ ہمارے بیچ نہیں ہیں۔ اور کبھی وہ دن تھے کہ ہم لوگ پاس بیٹھ کر چرچا کیا کرتے تھے اور ان کی ہنسی کا قہقہہ کسی وقت بھی سُنا جاسکتا تھا۔ پر اس بات پر آج اٹک کر بھی تو نہیں رہا جاسکتا ہے۔ دنیا میں کون سدا بیٹھا رہتا ہے۔ اور کون بیٹھا رہے گا۔ آدمی آتے ہیں اور جو ان کے ذمہ کام ہوتا ہے کرتے ہوئے پردے کے پیچھے چلے جاتے ہیں۔

    پر پریم چند اس انجان پردے کے پیچھے ہوکر آنکھوں سےاوجھل ہوگئے ہیں۔ یاد سے دُور کرلینا انھیں ممکن نہیں ہے۔ زندگی ان کی اوسط سے زیادہ نہیں رہی۔ کل چھپن (۵۶) برس اس دنیا میں جیے۔ کہیں یہ برس روشنی کے برس تھے۔ اور ان کی زندگی سچی محنت ایمانداری اور سادگی کی زندگی تھی۔

    یہ تو آپ اور ہم جانتے ہی ہیں کہ ہندستان میں ہندی اور اردو بھاشائیں جب تک ہیں پریم چند کا نام مٹ نہیں سکتا۔ وہ دُھندلا بھی نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ دونوں زبانوں کو پاس لانے میں اور ان دونوں کو گھڑنے میں ان کا بہت ہاتھ ہے۔ ان کے خیالات ہندوستان کی زندگی میں کھل مل گئے ہیں۔ اور وہ ہماری تاریخ کا جزو بن گئے ہیں۔ ان کی کہانیاں گھر گھر پھیلی ہیں ان کی کتابوں کے ورق لوگوں کے دلوں میں بس گئے ہیں۔

    لیکن اس سچائی کا بانی کون تھا۔ یہ بہت لوگوں کو معلوم ہوگا۔ کیا چیز تھی جو پریم چند کی تحریروں کو اس قدر عمدہ بنا دیتی تھی یہ جاننے کے لیے ذرا پیچھے جاکر دیکھنا چاہیے۔ ان کی ہنسی تو مشہور ہی ہے۔ زندگی میں، میں نے کھلے گلے کا ویسا قہقہہ اور کہیں نہیں سنا۔ گویا جس من سے ہنسی کا وہ فوارہ نکلتا تھا اس میں کسی طرح کا کینہ اور میل تو رہ ہی نہیں سکتا۔

    ان پر چوٹیں بھی کم نہیں پڑیں۔ سب ہی طرح کی مصیبتیں جھیلنا پڑیں۔ پھر بھی ان کی ہنسی دھیمی یا پھیکی نہیں ہوئی۔ یا تو وہ سب باتوں میں ایک طرح کی علیحدگی کے بہاؤ سےالگ کرکے دیکھ سکتے تھے۔ اس خوبی کی قیمت سمجھنے کے لیے ہمیں ان کے بچپن کے زمانہ کو بھی کچھ دیکھنا چاہیے۔

    چھٹپن کی بات ہے کہ ماں گزر چکی تھی پتا کا بھی پندرھویں برس انتقال ہوگیا تھا۔ گھر میں دوسری ماں تھی اور بھائی تھے اور بہن تھی۔ گھر میں کئی تن پالنے کو تھے۔ پر آمدنی پیسے کی نہ تھی۔ ادھر بالک پریم چند کے من میں ایم-اے پاس کرکے وکیل بننے کا ارمان تھا۔ بیاہ بھی چھٹپن میں ہوگیا تھا۔ وہی لکھتے ہیں پاؤں میں جوتے نہ تھے۔ بدن پر ثابت کپڑے نہ تھے۔ گرانی الگ، دس سیر کے جوتھے۔ اسکول سے ساڑھے تین بجے چھٹی ملتی تھی۔ کوئنز کالج بنارس میں پڑھتا تھا۔ فیس معاف ہوگئی تھی۔ امتحان سرپر اور میں بانس کے پھاٹک ایک لڑکے کو پڑھانے جایا کرتا تھا۔ جاڑے کاموسم تھا۔ چار بجے شام کو پہنچ جاتا۔ چھ بجے چھٹی پاتا۔ وہاں سےمیرا گھر پانچ میل کے فاصلہ پر تھا۔ تیز چلنے پر بھی آٹھ بجے رات سے پہلےگھر نہ پہنچتا۔

    اپنی آپ بیتی کہانی جو انہوں نے لکھی ہے اس سے ان کے شروع کے جیون کے دن آنکھوں کے آگے آجاتے ہیں۔ ماں کم عمری میں ہی انھیں چھوڑ کر چل بسیں۔ پندرہ سال کی عمر میں پتا بھی چھوڑ گئے۔ شادی چھٹپن ہی میں ہوچکی تھی گھر میں کئی آدمی تھے۔ گاؤں سے روزانہ دس میل چل کر پڑھنے پہنچتے۔ گذارے کے لیے تین اور پانچ روپے کی ٹیوشن پائے۔ میٹرک جوں توں پاس ہوا اب آگے کے لیے کوششیں کیں۔ سفارش بھی پہنچائی لیکن کامیاب نہ ہوئے۔ داخلہ ہوگیا تو حساب انہیں لے ڈوبتا رہا۔ سالہا سال ریاضی کے مضمون کی وجہ سے وہ فیل ہوتے رہے۔ آخر دس بارہ سال بعد جب ریاضی اختیاری مضمون ہوا تب بڑی آسانی سے انہوں نے وہ امتحان پاس کرلیا۔ پڑھائی کے دنوں میں کتنے دن انہیں بھنے چنوں پر رہنا پڑا اور کتنے دن ایک دم بن کھائے گزارے، اس کا شمار ہی نہیں۔ آخر ایک دن پاس کھانے کو کوڑی نہ بچی تھی تب دو برس سے بڑے پیار کے ساتھ سنبھال کر رکھی ہوئی ایک کتاب دوکان پر بیچنے پہنچے۔ دوروپے کی کتاب کا ایک میں سودا ہوا۔ روپیہ لے کر دوکان سے اتر رہے تھے کہ ایک شخص نے پوچھا ‘‘کیا پڑھتے ہو؟’’ ‘‘نہیں مگر پڑھنے کو دل چاہتا ہے’’۔ ‘‘میٹرک پاس ہو؟’’، ‘‘جی ہاں’’۔ ‘‘نوکری تو نہیں چاہتے؟’’، ‘‘نوکری کہیں ملتی ہی نہیں۔’’ انہی بھلی مانس نے انہیں ملازمت دی تو شروع میں اٹھارہ روپے تنخواہ ہوئی۔ یہیں سے ان کی زندگی کا شروع سمجھنا چاہیے۔

    (جے نندر کمار کے مضمون سے اقتباسات)

  • "گالی ہمارا قومی خمیر ہوگئی ہے!”

    "گالی ہمارا قومی خمیر ہوگئی ہے!”

    پریم چند ایک بڑے افسانہ نگار اور مصنّف تھے جنھوں نے عام معاشرتی برائیوں اور لوگوں میں رائج بعض غلط تصورات، مخرب الاخلاق باتوں اور بھونڈے انسانی رویوں کی نشان دہی بھی کی اور بغرضِ اصلاح ان پر مضامین بھی لکھے۔ اردو ادب میں ان کا نام آج بھی زندہ ہے۔ یہ پریم چند کی ایک ایسی تحریر ہے جس میں انھوں نے بھارتی سماج میں گالی اور بدکلامی کی عادت کو موضوع بنایا ہے۔

    پریم چند لکھتے ہیں، "گالی ہمارا قومی خمیر ہوگئی ہے۔ کسی یکہ پر بیٹھ جائیے اور سنیے کہ یکہ بان اپنے گھوڑے کو کیسی گالیاں دیتا ہے۔ ایسی فحش کہ طبیعت مالش کرنے لگے۔ اس غریب گھوڑے کی ذات خاص اور اس کی مادرِ مہربان اور اس کے پدرِ بزرگوار اور اس کے جدِ ناہنجار سب اس نیک بخت اولاد کی بدولت گالیاں پاتے ہیں۔”

    "ہندوستان ہی تو ہے۔ یہاں کے جانوروں کو بھی گالیوں سے لگاؤ تھا ہی۔ سرکار فیض مدار نے آج کل گالیاں بکنے کے لیے ایک محکمہ قائم کر رکھا ہے۔ اس محکمہ میں شریف زادے اور رئیس زادے لیے جاتے ہیں۔ انہیں بیش قرار مشاہرے دیے جاتے ہیں اور رعایا کے امن و امان کا بار ان پر رکھا جاتا ہے۔ اس محکمہ کے لوگ گالیوں سے بات کرتے ہیں۔ ان کے منہ سے جو بات نکلتی ہے، مغلظ نجاست میں ڈوبی ہوئی، یہ لوگ گالیاں بکنا حکومت کی علامت اور اپنے منصب کی شان سمجھتے ہیں۔”

    "یہ بھی ہماری کج فہمی کی ایک مثال ہے کہ ہم گالی بکنے کو امارت کی شان خیال کرتے ہیں۔ اور ملکوں میں زبان کی پاکیزگی اور شیریں بیانی، بشرہ کی متانت اور بردباری، شرافت اور امارت کے ارکان سمجھے جاتے ہیں۔ اور بھارت ورش میں زبان کی غلاظت اور بشرہ کا جھلا پن حکومت کا جزو خیال کیا جاتا ہے۔ دیکھیے فربہ اندام زمیندار اپنے اسامی کو کیسی گالیاں دیتا ہے۔ جناب تحصیل دار صاحب اپنے باورچی کو کیسی صلواتیں سنا رہے ہیں، اور سیٹھ جی اپنے کہار پر کن نجس الفاظ میں گرم ہوتے ہیں۔ غصہ سے نہیں صرف شان تحکم جتانے کے لیے۔ گالی بکنا ہمارے یہاں ریاست اور شرافت میں داخل ہے۔ واہ رے ہم!”

    "ان پھٹکل گالیوں سے طبیعت آسودہ نہ ہوتی دیکھ کر ہمارے بزرگوں نے ہولیؔ نام کا ایک تہوار نکالا کہ ایک ہفتہ تک ہر خاص و عام خوب دل کھول کر گالیاں دیتے ہیں۔ یہ تہوار ہماری زندہ دلی کا تہوار ہے۔ ہولی کے دنوں میں ہماری طبیعتیں خوب جولانی پر ہوتی ہیں اور ہفتہ بھر تک زبانی نجاست کا ایک غبار سا ہمارے دل و دماغ پر چھایا رہتا ہے۔ جس نے ہولی کے دن دو چار کبیر نہ گائے اور دو چار درجن مغلظات زبان سے نہ نکالے وہ کہے گا کہ ہم آدمی ہیں۔ زندگی تو زندہ دلی کا نام ہے۔”

    "سخن تکیہ کے طور پر بھی گالیاں بکنے کا رواج ہے۔ اور اس مرض میں زیادہ تر نیم تعلیم یافتہ لوگ گرفتار پائے جاتے ہیں۔ یہ لوگ کوئی منتخب گالی چن لیتے ہیں اور دوران گفتگو میں اسے استعمال کرنا شروع کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ ان کا سخن تکیہ ہو جاتی ہے۔ بسا اوقات ان کے منہ سے بے اختیار طور پر نکل پڑتی ہے۔ یہ نہات شرم ناک عادت ہے۔ اس سے اخلاقی کمزوری کا پتہ چلتا ہے اور اس سے گفتگو کی متانت بالکل خاک میں مل جاتی ہے۔ جن لوگوں کی ایسی عادت پڑ گئی ہو انہیں طبیعت پر زور ڈال کر زبان میں پاکیزگی پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔”

    "القصہ ہم چاہے کسی اور بات میں شیر نہ ہوں، بد زبانی میں ہم یگانہ روزگار ہیں۔ کوئی قوم اس میدان میں ہم کو نیچا نہیں دکھا سکتی۔ یہ ہم مانتے ہیں کہ ہم میں سے کتنے ہی ایسے اصحاب ہیں جن کی زبان کی پاکیزگی پر کوئی حرف نہیں رکھا جاسکتا ہے۔ مگر قومی حیثیت سے ہم اس زبردست کمزوری کا شکار ہو رہے ہیں۔ قوم کی پستی یا بلندی چند منتخب افراد قوم کی ذاتی کمالات پر منحصر نہیں ہوسکتی۔”

    "حق تو یہ ہے کہ ابھی تک ہمارے رہنماؤں نے اس وبائے عام کی بیخ کنی کرنے کی سرگرم کوشش نہیں کی۔ تعلیم کی سست رفتار پر اس کی اصلاح چھوڑ دی اور عام تعلیم جیسی کچھ ترقی کر رہی ہے، اظہر من الشمس ہے۔ اس امر کے اعادہ کی ضرورت نہیں کہ گالیوں کا اثر ہمارے اخلاق پر بہت خراب پڑتا ہے۔ گالیاں ہمارے نفس کو مشتعل کرتی ہیں۔ اور خود داری و پاسِ عزت کا احساس دلوں سے کم کرتی ہیں جو ہم کو دوسری قوموں کی نگاہوں میں وقیع بنانے کے لیے ضروری ہیں۔”

    (ماخذ: مضامینِ پریم چند، بعنوان گالیاں)

  • پریم چند: آدمی یا دیوتا!

    پریم چند: آدمی یا دیوتا!

    اردو ادب میں پریم چند اور فراق گورکھپوری دونوں کو ان کی تخلیقات کی بدولت بلند مقام و مرتبہ، شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ فراق عہد ساز شاعر اور نقّاد تھے اور پریم چند اردو اور ہندی کے افسانہ نگار تھے جن کی تحریریں جیسے جادوئی اسلوب کی حامل تھیں۔ فراق بھی پریم چند کی تخلیقات سے بہت متاثر ہوئے اور بعد میں اُن سے تعلق بھی استوار ہوا۔

    یہ فراق کی تحریر ہے جس میں انھوں نے پریم چند سے اوّلین تعارف، پہلی ملاقات اور تعلقِ خاطر کو بیان کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ہندوستان میں لگ بھگ ہر سال پندرہ سو کہانیاں یا مختصر افسانے لکھے جاتے تھے۔ اور اردو میں تو ایک ہی آدمی تھا جس نے کہانی لکھنے کے لئے پہلے پہل قدم اٹھایا اور وہ تھے پریم چند۔

    جاڑوں کے دن تھے، ہمارے یہاں گھر پر ’’زمانہ‘‘ کا تازہ شمارہ آیا تھا جو بزرگوں کے دیکھنے کے بعد ہمارے بھی ہاتھ لگا۔ اس میں پریم چند کی ایک کہانی چھپی تھی ’’بڑے گھر کی بیٹی۔‘‘ جیسے جیسے وہ کہانی میں پڑھتا گیا، میرے دل کی دھڑکن اور سانسوں کی رفتار تیز ہوتی گئی اور پلکیں بھیگتی گئیں۔ پریم چند سے یہ میری پہلی ملاقات تھی۔ آج تک کسی کہانی کا مجھ پر وہ اثر نہ ہوا تھا جیسا کہ اس کہانی کا ہوا تھا۔

    اس کے بعد لگ بھگ ہر مہینہ ’’زمانہ‘‘ میں پریم چند کی کہانی چھپتی اور میں اسے کلیجے سے لگا کر پڑھتا۔ ہر مہینہ پریم چند کی نئی کہانی ’’زمانہ‘‘ میں چھپنا دنیائے ادب کا ایک واقعہ تصور کیا جاتا۔ یہ کہانیاں لڑکوں، لڑکیوں، سب کو ایک طرح متاثر کرتی تھیں۔ کہانیوں کو پڑھ کر مولانا شبلی جیسے عالم کی آنکھوں میں آنسو آجاتے تھے اور وہ کہہ اٹھتے تھے کہ ہندوستان کے سات کروڑ مسلمانوں میں ایک بھی ایسا سحر نگار نہیں ہے۔ لوگ سوچتے تھے کہ پریم چند آدمی ہیں یا دیوتا۔

    کچھ سال بیت گئے۔ میں امتحانوں میں کامیابی حاصل کرتا ہوا بی۔ اے میں آچکا تھا۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں الہ آباد سے اپنے وطن گورکھپور آ گیا تھا۔ ایک دن شام کو گورکھپور میں ایک بڑے بینک کی بلڈنگ میں سیر کرنے کے لئے نکل گیا تھا۔ وہاں میرے ایک دوست مہابیر پرساد پود دار ملے، جن کے ساتھ ایک صاحب اور تھے۔ وہ بظاہر ایک بہت ہی معمولی آدمی معلوم ہوتے تھے، گھٹنوں سے کچھ ہی نیچے تک کی دھوتی، کرتا، جو عام کرتوں سے بہت چھوٹا کٹا ہوا تھا، پیروں میں معمولی جوتا۔ میں پود دار سے نئی کتابوں کے بارے میں باتیں کرنے لگا۔ ان کے ساتھی بھی گفتگو میں شریک ہوگئے اور بات پریم چند کی آگئی۔

    پود دار نے مجھ سے پوچھا کہ تم پریم چند سے ملنا چاہتے ہو؟ مجھے ایسا معلوم ہوا گویا وہ مجھ سے پوچھ رہے ہوں، دنیا بھر کی دولت پر قبضہ کرنا چاہتے ہو؟ اس خوش نصیبی پر یقین ہی نہیں آتا تھا کہ پریم چند کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکوں گا۔ میں نے ان کا بالکل نہ یقین کرنے کے لہجہ میں پوچھا، ’’پرم چند سے ملنا! کیسے، کہاں اور کب؟’‘ دونوں آدمی ہنسنے لگے اور پود دار نے بتایا کہ ان کے ساتھ جو صاحب ہیں وہی پریم چند ہیں۔ میری سانس اندر کی اندر اور باہر کی باہر رہ گئی، بلکہ انتہائی مسرت کے ساتھ میری کچھ دل شکنی سی ہوئی۔ اس لئے کہ پریم چند بہت معمولی صورت شکل کے آدمی نظر آئے اور میں سمجھے بیٹھا تھا کہ اتنا بڑا ادیب معمولی شکل کا آدمی نہیں ہوسکتا۔ پھر بھی پریم چند کو دیکھ کر بہت خوش ہوا۔

    یہ جان کر تو میں خوشی سے جھوم گیا کہ پریم چند گورکھپور میں میرے مکان سے آدھے فرلانگ پر نارمل اسکول کے ایک بنگلہ میں مستقل طور پر مقیم رہیں گے۔ میں اور پریم چند تو فوراً گھل مل گئے۔ ہم دونوں ایک ہی مزاج کے تھے۔ دوسرے دن سے تیسرے پہر پریم چند کے گھر جانا میرا روز کا معمول بن گیا۔ پریم چند نارمل اسکول کے سکینڈ ماسٹر اور بورڈنگ ہاؤس کے سپریٹنڈنٹ تھے، اپنے چھوٹے سے بنگلے کے صحن میں چند درختوں کے سائے میں تیسرے پہر چند کرسیاں ڈال لیتے تھے، ایک چھوٹی سی میز بھی لگا لیتے تھے۔ اسی صحن میں ہر تیسرے پہر ملنا میرا روز کا معمول بن گیا تھا۔ شاعری، ادب، کتابیں، مصنف، فلسفہ ہماری گفتگو کے موضوع تھے۔ کبھی کبھی ان لوگوں کا بھی ذکر چھڑ جاتا، جو ذکر کے قابل نہیں ہوتے تھے۔ ایسے بھی مواقع آجاتے جب کہ وہ اپنے بچپن کا حال یا خاندان کی باتیں سنایا کرتے تھے۔ اس طرح ان کی زندگی کاپورا کردار میرے سامنے آ گیا۔

    ان کی باتوں میں بڑی معصومیت ہوتی تھی، بڑی سادگی، بڑی بے تکلفی۔ اس طرح باتوں کے دوران انہوں نے بتایا کہ ان کے بچپن کے زمانے میں جب ان کے والد ڈاک خانے کے ملازمت کے سلسلے میں گورا دور میں رہتے تھے، اسکول میں پریم چندکی دوستی ایک تمباکو بیچنے والے کے لڑکے سے تھی۔ اسکول سے واپسی کے وقت اس لڑکے کے گھر پر پریم چند جاتے تھے۔ وہاں بزرگوں میں حقہ کے کش جاری رہتے تھے اور ’’طلسمِ ہوش رُبا‘‘ روزپڑھا جاتا تھا۔ ’’طلسم ہوش ربا‘‘ سنتے سنتے بچپن میں ہی پریم چند کی خوابیدہ خیالی دنیا جاگ اٹھی جیسے ’’الف لیلہ‘‘ پڑھ کر مشہور ناول نگار ڈکنس کا سویا ہوا شعور فن جاگ اٹھا تھا۔ پھر اردو نثر کی روانی بھی پریم چند کے اندر گرج اٹھی۔

    پریم چند کا بچپن بہت غریبی میں گزرا۔ باپ کی تنخواہ بیس بچیس روپے تھے۔ پھر ماں سوتیلی تھی۔ تیرہ چودہ سال کی عمر میں چار پانچ روپے کے ٹیوشن کے لئے تین میل جانا اور تین میل آنا پڑتا تھا۔ ایک بار ایسا گھر ملا کہ اسی گھر کے اصطبل میں سائیس کے ساتھ رہنا پڑتا تھا۔ سیکڑوں مواقع ایسے آئے کہ ایک پیسے کے چنے بھنا کر اسی کو کھا کر دن کاٹ دیا۔ اسی زمانے میں ایک ہیڈ ماسٹر نے انہیں ذہین سمجھ کر کچھ سہولیتں بہم پہنچائیں اور اس طرح وہ انٹرنس پاس کر کے کسی اسکول میں بیس بائیس روپے پر ٹیچر ہوگئے۔ ان کے والد نے اسی زمانے میں پریم چند کی شادی بھی کر دی تھی۔ ایسی شادی کہ دوچار ہفتوں بعد ہی بیوی سے جدا ہونا پڑا۔ اسی حالت میں باپ بھی چل بسے۔ سوتیلی ماں اور سوتیلے بھائی کا بوجھ بھی پریم چند کے کندھوں پر آرہا۔

    کہنے کا مطلب یہ ہے کہ دس بارہ سال کی عمر سے لگ بھگ بیس بائیس سال کی عمر تک جیسی تلخ زندگی پریم چند کی تھی، اردو یا کسی زبان کے ادیب کی زندگی شاید ہی اتنی پُر الم رہی ہو۔ ہم اور آپ تو شاید ایسے امتحان میں مٹ کر رہ جاتے۔ اسی دور میں پریم چند نے پرائیویٹ طور پر ایف۔ اے، بی۔ اے اور بی۔ ٹی کے امتحانات بھی پاس کئے۔ محکمۂ تعلیم میں انہیں ملازمت مل گئی۔ وہی زمانہ زندۂ جاوید تخلیقات کا ابتدائی دور ہے جنہیں آج لاکھوں آدمی کلیجہ سے لگائے پھرتے ہیں۔

    پریم چند اب اپنی اردو تخلیقات کو ہندی میں بھی شائع کرنے لگے تھے لیکن اسے اگر اردو زبان اور ادب کا جادو نہ کہیں تو کیا کہیں کہ ہندی میں ان کی پہلی ہی کتاب چھپی تھی کہ وہ ہندی کے سب سے بڑے ادیب مان لئے گئے اور اگر وہ اردو نہ جانتے ہوتے اور صرف ہندی جانتے تو اتنی شان دار اور منجھی ہوئی زبان نہ لکھ پاتے۔ یہ وقت لگ بھگ ۱۹۱۹ء کا ہے۔ اسی زمانے میں میں نے آئی۔ سی۔ ایس کی نوکری چھوڑی اور پریم چند نے بھی، جن کی نوکری ایک ہزار روپے تک جاتی۔ عدم تعاون کی تحریک کے سلسلہ میں میرے ساتھ ہی اپنی ملازمت کو خیر باد کہہ دیا۔ اس کے بعد وہ پندرہ سولہ سال اور زندہ رہے۔ اس عرصے میں لگ بھگ دس ناول اور سو کہانیاں ان کے قلم سے نکلیں۔

    یہ ہیں وہ یادیں جو پریم چند کے متعلق میرے ذہن میں محفوظ ہیں۔ پریم چند کی قبل از وقت موت نے اردو ہندی ادب اور ادیبوں کو یتیم کردیا۔ جو ادب درباروں اور رئیسوں کی محفلوں کی چیز تھی، اس زبان و ادب کو پریم چند نے کروڑوں بیگھے لہلہاتے کھیتوں میں اور کسانوں کے جھونپڑوں میں لا کر کھڑا کر دیا۔ ہماری ہزاروں سال کی تہذیب میں بھارت ورش کی دیہاتی زندگی کی آنکھ کھول دینے والی تصویر کشی ہندوستان کے کسی زبان کے کسی ادیب نے نہیں کی تھی۔

  • بد زبانی ہماری قومی پستی کا ثبوت

    بد زبانی ہماری قومی پستی کا ثبوت

    ہر قوم کا طرزِ کلام اس کی اخلاقی حالت کا پتہ دیتا ہے۔ اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ہندوستان روئے زمین کی تمام قوموں میں سب سے نیچے نظر آئے گا۔ طرزِ کلام کی متانت اور شستگی، قومی عظمت اور اخلاقی پاکیزگی ظاہر کرتی ہے۔ اور بد زبانی اخلاقی سیاہی اور قومی پستی کا پختہ ثبوت ہے۔

    جتنے گندے الفاظ ہماری زبان سے نکلتے ہیں، شاید ہی کسی مہذب قوم کی زبان سے نکلتے ہوں۔ ہماری زبان سے گالیاں ایسی بے تکلفی سے نکلتی ہیں گویا ان کا زبان پر آنا ایک ضروری امر ہے۔

    ہم بات بات پر گالیاں بکتے ہیں اور ہماری گالیاں ساری دنیا کی گالیوں سے نرالی، مکروہ اور ناپاک ہوتی ہیں۔ ہمیں ہیں کہ ایک دوسرے کے منہ سے ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کے متعلق گندہ ترین گالیاں سنتے ہیں اور پینترے بدل کر رہ جاتے ہیں۔ بلکہ بسا اوقات اس کا احساس بھی نہیں ہوتا کہ ہماری کچھ تحقیر ہوئی ہے۔ جن گالیوں کا جواب کسی دوسری قوم کا آدمی شمشیر اور پستول سے دے گا، اس سے بدرجہا مکروہ اور نفرت انگیز گالیاں ہم اس کان سے سن کر اس کان اڑا دیتے ہیں۔ ہماری گالیوں سے ماں، بہن، بیوی، بھائی غرض کوئی نہیں بچتا۔ ہم اپنی ناپاک زبانوں سے ان پاک رشتوں کو ناپاک کرتے رہتے ہیں۔

    یوں تو گالیاں بکنا ہمارا سنگار ہے۔ مگر بالخصوص عالم غیظ و غضب میں ہماری زبان جولانی پر ہوتی ہے۔ غصہ کی گھٹا سر پر منڈلائی اور منہ سے گالیاں موسلا دھار مینہ کی طرح برسنے لگتی ہیں۔ اپنے رقیب یا مخالف کو دور سے کھڑے صلواتیں سنا رہے ہیں۔ آستینیں چڑھاتے ہیں، پینترے بدلتے ہیں، آنکھیں لال پیلی کرتے ہیں اور سارا جوش چند ناپاک گالیوں پر ختم ہو جاتا ہے۔ حریف کے ہَفتاد پشت کو زبانی نجاست میں لت پت کر دیتے ہیں۔ علیٰ ہذا فریق مخالف بھی دور ہی سے کھڑا ہماری گالیوں کا ترکی بہ ترکی جواب دے رہا ہے۔ اسی طرح گھنٹوں تک گالی گلوچ کے بعد ہم دھیمے پڑ جاتے ہیں اور ہمارا غصہ پانی ہو جاتا ہے۔

    اس سے بڑھ کر ہمارے قومی کمینہ پن اور نامردی کا ثبوت نہیں مل سکتا کہ ان گالیوں کو سن کر ہمارے خون میں جوش آجانا چاہئے۔ ان گالیوں کو ہم دودھ کی طرح پی جاتے ہیں اور پھر اکڑ کر چلتے ہیں۔ گویا ہمارے اوپر پھولوں کی برکھا ہوئی ہے۔ یہ بھی قومی زوال کی ایک برکت ہے۔ قومی پستی دلوں کی عزت اور خود داری کا احساس مٹاکر آدمیوں کو بے غیرت اور بے شرم بنا دیتی ہے۔ جب احساس کی طاقت زائل ہوگئی تو خون میں جوش کہاں سے آئے۔ جو کچھ تھوڑا بہت باسی کڑھی کا سا ابال آتا ہے، اس کا زور زبان سے چند غلیظ الفاظ نکلوا دینے ہی پر ختم ہو جاتا ہے۔

    (اردو اور ہندی زبانوں کے معروف افسانہ اور ناول نگار پریم چند کے مضمون "گالیاں” سے اقتباس)

  • معافی…

    معافی…

    مسلمانوں کو اسپین پر حکومت کرتے صدیاں گزر چکی تھیں۔ کلیساؤں کی جگہ مسجدوں نے لے لی تھی۔ گھنٹوں کی بجائے اذان کی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔

    غرناطہ اور الحمرا میں وقت کی چال پر ہنسنے والے وہ قصر تعمیر ہوچکے تھے، جن کے کھنڈرات اب تک دیکھنے والوں کو اپنی گزشتہ عظمت کا اندازہ کروا دیتے ہیں۔ عیسائیوں کے با وقار مرد اور عورتیں مسیحیت چھوڑ کر اسلام کے سایہ میں پناہ لے رہے تھے اور مؤرخ اس بات پر حیران ہیں کہ اب تک وہاں عیسائیوں کا نام و نشان کیونکر باقی رہا۔

    جو عیسائی راہ نما مسلمانوں کے سامنے اب تک سر نہ جھکاتے تھے اور اپنے ملک کی آزادی کے خواب دیکھ رہے تھے۔ ان میں سے ایک سوداگر داؤد بھی تھا۔ داؤد با حوصلہ اور روشن دماغ تھا۔ اپنے علاقہ میں اس نے اسلام کو قدم نہ رکھنے دیا تھا۔

    مسلمان داؤد سے خائف رہتے تھے۔ وہ مذہبی فوقیت سے اس پر بس نہ چلتا دیکھ کر قوّت کے بل پر اسے جیتنا چاہتے تھے، لیکن داؤد کبھی اس کا سامنا نہ کرتا۔ ہاں جہاں عیسائیوں کے مسلمان ہونے کی خبر پاتا، آندھی کی طرح اڑ کر وہاں پہنچتا اورانہیں اپنے مذہب پر مضبوط رہنے کی تلقین کرتا۔ آخر میں مسلمانوں نے اسے چاروں طرف سے گھیر کر گرفتار کرنے کی ٹھانی۔

    فوجوں نے اس کے علاقے کا محاصرہ کرلیا۔ داؤد کو زندگی بچانے کے لیے اپنے ساتھیوں سمیت بھاگنا پڑا۔ وہ گھر سے فرار ہو کر مسلمانوں کی راجدھانی غرناطہ میں آگیا اور بالکل الگ تھلگ رہ کر اچھے دنوں کے انتظار میں زندگی بسر کرنے لگا۔ مسلمانوں نے اس کی تلاش میں دن رات ایک کر دیے۔ بھاری انعام مشتہر کیے گئے، لیکن کہیں بھی سراغ نہ مل سکا۔

    ایک دن تنہائی کی وحشت سے اکتا کر داؤد باغ میں گھومنے نکل گیا۔ شام ہوچکی تھی۔ داؤد سب سے الگ ہو کر ایک طرف ہری ہری گھاس پر لیٹا سوچ رہا تھا کہ وہ دن کب آئے گا جب ہمارا ملک ان سفاکوں کے پنجے سے چھوٹے گا۔ اس کے تصوّر میں آرہا تھا، جب عیسائی عورتیں اور مرد ان روشوں پر آزادانہ چلتے ہوں گے۔ جب یہ خطہ عیسائیوں کے باہمی میل جول اور ربط ضبط سے گلزار ہوجائے گا۔

    اچانک ایک مسلمان نوجوان اس کے قریب آکر بیٹھ گیا۔ اسے دیکھ کر بولا، ’’کیا ابھی تک تمہارا دل اسلام کی روشنی سے منوّر نہیں ہوا؟‘‘

    داؤد نے انتہائی شانتی سے کہا، ’’اسلام کی روشنی اونچی چوٹیوں کو روشن کرسکتی ہے، گہرے غاروں میں سے اس کا گزر نہیں!‘‘

    اس نوجوان کا نام جمال تھا۔ اتنا گہرا طنز سن کر تیکھے انداز میں بولا، ’’اس سے تمہارا کیا مطلب ہے؟‘‘

    داؤد، ’’میرا مطلب یہی ہے کہ عیسائیوں میں جو لوگ اونچے درجہ کے ہیں وہ جاگیروں اور سرکاری عہدوں کی ترغیب اور سزا کے خوف سے اسلام قبول کرسکتے ہیں۔ لیکن کم زور اور مفلس عیسائیوں کے لیے اسلام میں وہ آسمانی بادشاہت کہاں جو حضرتِ مسیح کے دامن میں انھیں نصیب ہوگی۔‘‘

    جمال اپنے مذہب کی توہین سن کر بھنّا اٹھا۔ بے قرار ہوکر بولا، ’’خدا کی قسم۔ اگر تم نہتّے نہ ہوتے تو تمہیں اسلام کی توہین کرنے کا مزا چکھا دیتا۔‘‘

    داؤد نے اپنے سینے میں چھپی ہوئی کٹار نکال کر کہا، ’’نہیں ! میں نہتّا نہیں ہوں۔ مسلمانوں پر جس روز اتنا اعتبار کروں گا۔ اس روز عیسائی نہ رہوں گا۔ تم اپنے دل کے ارمان نکال لو۔‘‘

    دونوں نے تلواریں سونت لیں۔ ایک دوسرے پر لوٹ پڑے۔ یکبارگی میں ناگن لپک کر عرب کے سینہ میں جا پہنچی۔ وہ زمین پر گر پڑا۔ جمال کے گرتے ہی چاروں طرف سے لوگ دوڑ اٹھے۔ وہ داؤد کو گھیرنے کی کوشش کرنے لگے۔ داؤد نے دیکھا۔ لوگ تلواریں لیے لپکے آرہے ہیں۔ وہ جان بچا کر بھاگا، لیکن جس طرف جاتا، سامنے باغ کی دیوار آکر راہ روک لیتی۔ دیوار اونچی تھی اور اسے پھاندنا بے حد مشکل۔

    ادھر عربوں کے انتقام کا جذبہ لمحہ بہ لمحہ بڑھتا جارہا تھا۔ یہ محض ایک قاتل کو سزا دینے کا سوال نہ تھا بلکہ قومی وقار کا مسئلہ تھا۔ مفتوح عیسائی کی یہ ہمّت کہ عرب پر ہاتھ اٹھائے۔ ایسا ظلم۔‘‘

    اچانک اسے اپنی دائیں طرف باغ کی دیوار کچھ نیچی نظر آئی۔ آہ! یہ دیکھتے ہی اس کے پاؤں میں نئی قوت عود کر آئی۔ رگوں میں نیا خون دوڑنے لگا۔ وہ ہرن کی طرح اس طرف دوڑا اور ایک جست میں دیوار پھاند کر باغ کے اس پار جا پہنچا۔ تاحد نظر جھاڑیاں ہی جھاڑیاں نظر آتی تھیں۔ زمین پتھریلی اور اونچی نیچی تھی۔ قدم قدم پر پتھر کی سلیں پڑی تھیں۔ داؤد ایک سل تلے چھپ کر بیٹھ گیا۔

    ایک لمحہ میں تعاقب کرنے والے وہاں بھی آپہنچے اور ادھر ادھر جھاڑیوں میں درختوں پر، گڑھوں میں، سلوں تلے تلاش کرنے لگے۔ داؤد نے سانس روک لی۔ سناٹا طاری ہوگیا۔ ایک نظر پر ہی اس کی زندگی کا دار و مدار تھا، لیکن عربوں کے لیے اس قدر وقت کہاں کہ اطمینان سے سلوں تلے جھانکتے پھریں، وہاں تو ہتھیار تھامنے کی جلدی تھی۔ داؤد کے سر سے بلا ٹل گئی۔ وہ ادھر ادھر دیکھ بھال کر آگے چل دیے۔

    اندھیرا ہوگیا۔ آسمان پر تارے نکل آئے اور ان کے ساتھ ہی داؤد بھی سل سے باہر آگیا۔ لیکن دیکھا تو اس وقت بھی ہلچل مچھی تھی۔ عرب بھاری تعداد میں مشعلیں لیے ادھر ادھر جھاڑیوں میں گھوم رہے تھے۔ باہر نکلنے کے تمام راستے مسدود ہوچکے تھے۔ اب جائے تو کہاں جائے۔۔۔؟ داؤد ایک درخت تلے کھڑا ہوکر سوچنے لگا کہ اب جان کیونکر بچے۔

    جب رات زیادہ گزر گئی تو داؤد خدا کا نام لے کر وہاں سے نکل کھڑا ہوا۔ اور دبے قدموں درختوں کی آڑ لیتا۔ آدمیوں کی نظر بچاکر ایک طرف کو چلا۔ وہ اب ان جھاڑیوں میں نکل کر آبادی میں پہنچ جانا چاہتا تھا۔ ویرانہ کسی کو بھی نہیں پناہ دے سکتا۔ بستی کی رونق بجائے خود آسرا ہے۔

    کچھ دور تک تو اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ آئی۔ جنگل کے درختوں نے اس کی حفاظت کی، لیکن جب وہ ان جھاڑوں سے نکل کر صاف دھرتی پر آیا تو ایک عرب کی نگاہ اس پر پڑگئی۔ اس نے للکارا۔ داؤد بھاگا۔

    قاتل بھاگا جاتا ہے۔ یکبارگی یہ آواز ہوا میں گونجی۔ اور ایک لمحہ میں ہی چاروں طرف سے عربوں نے اس کا پیچھا کیا۔

    امید اسے بھگائے لیے جارہی تھی۔ عربوں کا ہجوم پیچھے رہ گیا۔ آخر وہ اس امید پر دیے کے قریب آہی گیا۔ ایک چھوٹا سا پھونس کا مکان تھا۔ ایک بوڑھا عرب سامنے قرآن رکھے چراغ کی مدھم روشنی میں اسے پڑھ رہا تھا۔ داؤد آگے نہ جا سکا۔ اس ہمّت نے جواب دیا۔ وہ تھک ہار کر وہیں گرپڑا۔

    عرب نے پوچھا، ’’تو کون ہے؟‘‘

    ’’ایک غریب عیسائی، مصیبت میں پھنس گیا ہوں۔ اب آپ ہی پناہ دیں تو میں بچ سکتا ہوں۔‘‘

    ’’خدا پاک تیری مدد کریں گے۔ تجھ پر کیا مصیبت پڑی ہے؟‘‘

    داؤد نے لجاجت سے کہا، ’’ڈرتا ہوں۔ اگر میں نے کہہ دیا۔ تو کہیں آپ بھی میرے خون کے پیاسے نہ ہوجائیں۔‘‘

    ’’جب تُو میری پناہ میں آگیا ہے۔ تو مجھ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ ہم مسلمان ہیں۔ جسے ایک مرتبہ پناہ میں لے لیتے ہیں۔ اس کی زندگی بھر حفاظت کرتے ہیں۔‘‘

    ’’میں نے ایک مسلم نوجوان کو قتل کردیا ہے۔‘‘ یہ سنتے ہی عرب کا چہرہ بگڑ اٹھا۔ بولا، ’’کیا نام تھا اس کا؟‘‘

    ’’اس کا نام جمال تھا۔‘‘ عرب سر تھام کر بیٹھ گیا اس کی آنکھیں سرخ ہوگئیں۔ گردن کی رگیں تن گئیں۔ ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے اس کے ذہن میں خوف ناک کشمکش جاری ہے اور وہ پوری قوّت سے ذہنی مدوجزر کو دبا رہا ہے۔ دو تین منٹ تک وہ اسے یونہی بت بنا بیٹھا تاکتا رہا۔ پھر مبہم سے لہجہ میں بولا،

    ’’نہیں نہیں۔ پناہ میں آئے ہوئے کی حفاظت کرنی ہی پڑے گی۔ آہ ظالم! تُو جانتا ہے۔ میں کون ہوں؟ میں اسی نوجوان کا بدقسمت باپ ہوں۔ تُو نے میرے خاندان کا نشان مٹا دیا۔ جمال میرا اکلوتا بیٹا تھا۔ میرا دل چاہتا ہے کہ دونوں ہاتھوں سے تیری گردن دبوچ کر اس زور سے دباؤں کہ تیری زبان باہر آجائے اور آنکھیں کوڑیوں کی طرح نکل پڑیں، لیکن نہیں۔ تُو نے میری پناہ لی ہے۔ اس وقت فرض میرے ہاتھ باندھے ہوئے ہے۔ رسول پاک کی ہدایت کے مطابق پناہ میں آئے پر ہاتھ اٹھانے سے قاصر ہوں۔‘‘

    یہ کہہ کر عرب نے داؤد کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اور اسے گھر لے جاکر ایک کوٹھڑی میں چھپا دیا۔ وہ گھر سے باہر نکلا ہی تھا کہ عربوں کا ایک گروہ اس کے مکان کے سامنے آکھڑاہوا۔

    ایک آدمی نے پوچھا، ’’کیوں شیخ حسن! تُو نے ادھر سے کسی کو بھاگتے دیکھا ہے؟‘‘

    ’’ہاں! دیکھا ہے۔‘‘

    ’’اسے پکڑ کیوں نہ لیا؟ وہی جمال کا قاتل تھا۔‘‘

    ’’یہ جان کر بھی میں نے اسے چھوڑ دیا۔‘‘

    ’’غضب خدا کا۔ یہ تم نے کیا کیا؟ جمال حساب کے روز ہمارا دامن پکڑے گا۔ تو ہم کیا جواب دیں گے؟‘‘

    ’’تم کہہ دینا کہ تیرے باپ نے تیرے قاتل کو معاف کردیا۔‘‘

    ’’عرب نے کبھی قاتل کا خون معاف نہیں کیا۔‘‘

    ’’یہ تمہاری ذمہ داری ہے۔ میں اپنے سَر کیوں لوں؟‘‘

    عربوں نے شیخ حسن سے زیادہ حجّت نہ کی اور قاتل کی تلاش میں دوڑ پڑے۔ شیخ حسن پھر چٹائی پر بیٹھ کر قرآن پڑھنے لگا۔ لیکن اس کا دل پڑھنے میں نہ لگ سکا۔ اس کے دل میں بار بار یہ خواہش پیدا ہوتی کہ ابھی داؤد کے خون سے دل کی آگ بجھائے۔

    آخر میں شیخ حسن بھی برقرار ہو کر اٹھا۔ اس کو اندیشہ ہوا کہ اب میں خود پر قابو نہیں رکھ سکوں گا۔ اس نے تلوار میان سے نکالی اور دبے پاؤں دروازے پر آکر کھڑا ہوگیا جس میں داؤد چھپا ہوا تھا۔ تلوار کو دامن میں چھپاکر اس نے آہستگی سے کواڑ کھولے۔ داؤد ٹہل رہا تھا۔ بوڑھے کے منتقمانہ چہرہ کو دیکھ کر داؤد اس کے دلی جذبات بھانپ گیا۔ اسے بوڑھے سے ہمدردی سی ہوگئی۔ اس نے سوچا۔ یہ مذہب کا قصور نہیں۔ میرے بچّے کی اگر کسی نے ہتیا کی ہوتی۔ تو میں بھی یونہی اس کے خون کا پیاسا ہوجاتا۔ انسانی فطرت کا تقاضا یہی ہے۔‘‘

    عرب بولا،’’داؤد! تمہیں معلوم ہے۔ بیٹے کی موت کا غم کس قدر گہرا ہوتا ہے؟‘‘

    ’’محسوس تو نہیں ہوسکتا۔ البتہ اندازہ کرسکتا ہوں۔ اگر میری زندگی سے اس کا جزو بھی مٹ سکے تو لیجیے، یہ سَر حاضر ہے۔ میں اسے شوق سے آپ کی نذر کرتا ہوں۔ آپ نے داؤد کا نام سنا ہوگا؟‘‘

    ’’کیا پیٹر کا بیٹا؟‘‘

    ’’جی ہاں! میں وہی بدنصیب ہوں۔ میں محض آپ کے بیٹے کا قاتل ہی نہیں اسلام کا بھی دشمن ہوں۔ میری جان لے کر آپ جمال کے خون کا بدلہ ہی نہ لیں گے اپنی قوم اور مذہب کی حقیقی خدمت بھی کریں گے۔‘‘

    شیخ حسن نے متانت سے کہا، ’’داؤد میں نے تمہیں معاف کیا۔ میں جانتا ہوں کہ مسلمانوں کے ہاتھوں عیسائیوں کو بہت سی تکالیف پہنچی ہیں، لیکن یہ اسلام کا نہیں مسلمانوں کا قصور ہے۔ فتح کی نخوت نے ان کی عقل اور احساس چھین لیے ہیں۔‘‘

    ہمارے مقدس نبی نے یہ تعلیم نہیں دی تھی۔ جس پر ہم آج کل چل رہے ہیں۔ وہ خود رحم اور فیض کا معیار ہے۔ میں اسلام کے نام کو بٹّہ نہ لگاؤں گا۔ میری سانڈنی لے لو اور رات بھر میں ہی یہاں سے بھاگ جاؤں۔ بھاگو۔ کہیں ایک لمحہ کے لیے بھی نہ رکنا۔ عربوں کو تمہاری بُو بھی مل گئی تو تمہاری خیر نہیں، جاؤ! خدا پاک تمہیں گھر بخیریت پہنچائے۔ بوڑھے شیخ حسن اور اس کے بیٹے جمال کے لیے خدا سے دعا کرنا۔‘‘

    (ہندوستان کے نام ور افسانہ نگار پریم چند کے قلم سے)

  • قوّتِ بیانیہ

    قوّتِ بیانیہ

    اس میں شاید ہی کسی کو کلام ہوگا کہ ہماری قوّتِ بیان میں اب وہ رنگینی اور رنگ آمیزی نہیں رہی جو پہلے تھی، یا جو فارسی زبان کی خصوصیت ہوگئی ہے۔

    کسی فارسی کتاب کو اٹھا کر دیکھ لیجیے زورِ بیان کا جلوہ اوّل سے آخر تک نظر آئے گا۔ جہاں جنگ کا تذکرہ آیا ہے وہاں صفحوں کے صفحے مردانہ اشعار سے مزین ہیں۔ اگر حسن و عشق کا ذکر چھڑ گیا تو اس پر زورِ انشا صرف کیا گیا ہے، اور صفت اور ثنا تو گویا ان پر ختم تھی۔

    ایک باغیچہ کی تعریف میں وہ کتاب دل چسپی سے لبریز اور نادر جذبات سے معمور لکھ سکتے تھے۔ آج وہ زورِ بیان کہیں نظر نہیں آتا۔

    خیر فارسی تورہی نہیں مگر فارسی کے جانشین اردو میں بھی وہ بات نہیں ملتی۔ ابتدا میں بے شک اس نے بھی وہی رنگ اختیار کیا تھا مگر چوں کہ ابتدائی مشق تھی، اس لیے بہت اچھی نہیں تھی۔ اگر مشق جاری رہتی تو شاید وہی خوبیاں پختہ ہوجاتیں مگر مشق جاری کیوں کر رہتی۔

    زمانہ نے رنگ بدلا اور زمانہ کے ساتھ ساتھ زبان نے بھی اپنا رنگ بدل ڈالا۔ اب ہم سلاست اور اختصار کے دلدادہ ہیں۔ ہماری کتابیں خواہ وہ تبدیلیوں کے لیے لکھی جائیں خواہ مہینتوں کے لیے، سلیس ہونی چاہییں اور اس میں رنگ آمیزی کی ضرورت نہیں۔ اوّل تو رنگ آمیزی کے مسالے ہی نہیں باقی رہے اور اگر مانگے تانگے کے خیالات سے تھوڑی بہت رنگینی پیدا بھی کی جا سکتی تھی وہ ان قیود کی وجہ سے رک گئی۔

    آج ناول، تاریخ اور تذکرے اکثر شائع ہوتے رہتے ہیں مگران کے واقعات کی تحقیق اور سلاستِ زبان کی چاہے جتنی تعریف کیجیے، انشا پردازی کے لحاظ سے وہ سب کے سب قریباً صفر کے برابر ہیں۔ چناں چہ ہماری زبان کا روزمرّہ تو صاف ہوتا جاتا ہے اور اس کے علمی پہلو کی بھی، تھوڑی بہت ترقی ہو رہی ہے مگر ادبی پہلو روز بروز زوال پذیر ہے۔

    اس قوّتِ بیان کے زوال کا سب سے بڑا اور مہلک سبب ہمارا افلاس ہے۔ پرانے زمانہ کے مصنفین شاہی درباروں میں امیرانہ شان و شکوہ کے جلوے دیکھتے تھے۔ بلکہ اکثر اوقات بادشاہوں اور امیروں کے دربار میں بالانشینی کا رتبہ رکھتے تھے۔ شیشہ و آلاتِ نادرہ، ہیرے جواہرات، ظروف بیش بہا جلوسِ شاہانہ، فوجوں کا طمطراق اور تزک و احتشام اور خدا جانے کتنی ہی اور باتیں جوان کی نظروں کے سامنے روزمرّہ گزرا کرتی تھیں، ان کا آج ہم خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔

    آج کے مصنّفین میں ایسے بہت کم ہوں گے جنہوں نے ہیرے جواہرات کی صورت دیکھی ہو۔ خدا جانے مفرق اماریاں کیسی ہوتی تھیں۔ ظروفِ بیش بہا کاہے کو کسی نے دیکھے ہوں گے اور فوجی شوکت اور دلیرانہ جانبازیاں تو گویا ہمارے لیے افسانے ہوگئے۔ یہی سب قوّتِ بیانہ کو اٹھانے والے اسباب تھے۔

    جب مصنّف کو نت نئے جلوے نظر آتے تھے تو زبان میں خود بخود روانی پیدا ہوتی تھی، اور خیالات نکل آتے تھے۔ اب تو یہ حال ہے کہ ہم تاریخوں یا قصّہ کہانیوں میں بادشاہ کا ذکر ہی نہیں کرتے۔ یا اگر ذکر کیا تو بس اتنا کہ وہ ایسا مال دار تھا اور اتنی فوج رکھتا تھا، بس اس سے آگے قدم رکھنے کو ہم ہمّت ہی نہیں رکھتے۔ شاید کسی اردو ناول میں آج تک کسی مصنّف نے شاہی دربار کا نقشہ نہیں کھینچا اور نہ کسی بادشاہ یا ملکہ کو ہیروئن بنایا۔ جب ہم یہ جانتے ہی نہیں کہ بادشاہوں کے لہے عیش و عشرت اور کروفر کے کیا کیا لوازمات ہیں، تب تک ہم اسے ہیرو کیوں کر بنا سکتے ہیں۔ یا اگر کسی نے ایسا کیا تواس کے بادشاہ ہیرو اور سوداگر ہیرو میں کوئی نمایاں فرق نہ نظر آئے گا۔ اسی لیے ہمارے ناولوں کی ہیروئن اور ہیرو سیدھے سادے معمولی اوقات کے لوگ ہوتے ہیں تاکہ ان کی زندگی کا مرقع کھینچنے میں ہمیں ٹھوکریں نہ کھانی پڑیں۔

    اردو ہی میں پہلے فنِ موسیقی، فنِ شکار بازی، فنِ شہسواری وغیرہ کی صدہا اصطلاحیں ہر خاص و عام کی زبانوں پر چڑھی ہوئی تھیں۔ اب ان فنون کے زوال کے ساتھ ساتھ وہ اصلاحیں بھی فراموش ہوتی جاتی ہیں۔ کچھ دنوں میں ہم بغیر کتابی زبان کے اور کسی زبان سے اس کو نہ سن سکیں گے۔ قومی افلاس کا اثر جس قدر زبان پر پڑتا ہے اتنا شاید اور کسی چیز پر نہیں پڑ سکتا۔

    دوسرا اس زوال کا جسے ہم شاید افلاس ہی سے منسوب کر سکیں، ہماری بدشوقی ہے۔ ہم میں اب بھی بفضلِ خدا ایسے بہت سے لوگ ہیں جو فراغت سے زندگی بسر کرتے ہیں اور جنہیں سیر و تفریح کے بہت سے مواقع میسر ہیں، مگر ہم کچھ ایسے آرام طلب اور اپاہج ہوگئے ہیں، ہم میں زندہ دلی اس قدر مفقود ہوگئی ہے اور ہمارے دلوں پر کچھ ایسی اوس پڑ گئی ہے کہ کسی کام سے جس میں غور و خوص اور ریاضت کی ضرورت ہوتی ہے، ہم جی چراتے رہتے ہیں۔ بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے تاج محل اور فتح پور سیکری کی عمارتیں دیکھی ہوں گی لیکن اگر ان سے ان عمارتوں کے ایک ایک جزو کا نام پوچھا جائے تو وہ شاید بمشکل بتلا سکیں۔

    فنِ مہاری کے متعلق بے شمار اصطلاحیں تھیں، اب ایک بھی سننے میں نہیں آتی۔ ہندوستان میں انواع و خوش رنگ طیور نظر آتے ہیں، افلاس نے ہماری آنکھیں تو بند نہیں کر دیں، مگر ہم میں سے کتنے ایسے لوگ ہیں جو ایک درجن سے زائد قسموں کے نام بتلا سکیں۔ ہم میں پچھتّر بلکہ نوے فیصدی لوگ ایسے ہوں گے جو قمری کو نہیں پہچان سکتے۔ بس، طوطا، مینا کوّا، چیل یہی دس پانچ نام ہم کو یاد ہیں، زیادہ نہیں۔ باغیچے اب بھی اکثر بڑے شہروں میں موجود ہیں۔ ان میں رنگین مزاج لوگ تفنن طبع کے لیے جاتے ہیں، مگر ہم میں سے کتنے آدمی ایسے ہیں جو ایک درجن سے زائد پھولوں کا نام بتا سکیں؟ ان کے خواص وغیرہ کا تو ذکر ہی فضول ہے۔

    ہمارے ملک کے پھولوں کے پودوں پر آج باغیچوں میں انگریزی نام کے ٹکٹ چسپاں کیے جاتے ہیں اور ہمیں ان کے انگریزی نام تو معلوم ہیں مگر اردو یا ہندی نہیں۔ جب ہماری طبیعتیں ایسی مردہ و افسردہ ہوگئی ہیں تو بیان کو کیسے فروغ ہو؟ اور وہ رنگ آمیزی کرنے کے لیے کہاں سے مسالے لائے؟ جب آپ صحیفۂ فطرت کا مطالعہ نہ کریں گے، جب آپ قدرت کی خوبیاں ہی نہ دیکھیں گے، جب آپ آنکھیں بند کیے روٹی کے دھندوں میں لگے رہیں گے تو آپ کہاں سے اشارے و تشبیہات و استعارے لائیں گے، کیوں کر قلم کی جودت دکھلائیں گے؟ اور کیوں کر انشا پردازی اور زورِ بیان کے کمال تک پہنچ سکیں گے؟ اور اب تو ہم سے پرانے لقمے بھی نہیں چبائے جاتے، نہ ہم انہی ہضم ہی کر سکتے ہیں اور نہ ان میں ہم کو مزہ ہی آتا ہے۔

    افلاس اور مردہ دلی دو بلائیں تو تھیں ہی، اس پر مزید یہ کہ سستی شہرت پیدا کرنے کی ہوس ہر شخص کو ہے۔ جس نے دو چار کتابیں اردو کی پڑھ لیں وہ لکھار اور نثّار بن بیٹھا۔ پہلا مضمون قلم سے نکلا اور اس کے چھپوانے کی کوشش ہونے لگی۔ کچھ نہیں تو ہزار دو ہزار صفحے رنگ لیے جائیں۔ قبل اس کے کہ کسی مضمون یا تصنیف کو شائع کرانے کا خیال پیدا ہو۔

    چوں کہ ہمارے مضامین کسی باقاعدہ مطالعہ یا ریاضت کا نتیجہ نہیں ہوتے، اس لیے ہم کسی ایک شق ادب پر قائم بھی نہیں رہ سکتے۔ جو کچھ خیال میں آیا الٹا سیدھا لکھ دیا۔ آج کوئی قصہ لکھ دیا، کل کسی قرب و جوار کے شہر کا تذکرہ، پرسوں ایک تاریخی واقعہ کا ترجمہ اور بعد ازاں کسی طرف جھک گئے۔

    اس میں شک نہیں ہر رنگ میں چمکنے کی کوشش کرنا بہت قابلِ تعریف بات ہے اور ایک ہی رنگ میں محدود ہو جانے سے ہمارا قلم من مانے طرارے سے نہیں بھر سکتا۔ مگر ایسے دماغ جو ہر رنگ میں چمک سکیں، ایسی طبیعتیں جو نظم و نثر کے ہر رنگ پر قادر ہوں، ایسا زمین جو ہمہ گیر ہو، شاذ کسی کو ملتا ہے۔ اگر ہم ایک صیغۂ ادب کو لے لیں اور پڑھنے کے لیے جو چاہیں پڑھیں، مگر لکھیں اسی صیغہ کے متعلق جو ہماری زبان کو بہت فائدہ پہنچے۔

    اگر ہمارا رجحان تاریخ نگاری کی جانب ہے تو ہم اس شقِ ادب کو اپنا حصّہ بنالیں۔ کوئی فلسفہ کی طرف مخاطب ہو اور اسی شق ادب میں چمکنے کی کوشش کرے، کچھ لوگ زراعت و فلاحت پر مضامین لکھیں۔ غرض اپنے قلم کو کسی ایک میدان میں دوڑائیں تب ہم ایک صنف کے کل الفاظ اور اصطلاحوں پر حاوی ہو جائیں گے اور قوّتِ بیانیہ کے نشوونما میں اس سے بہت زیادہ مدد ملے گی۔

    علاوہ برایں جوں جوں پرچے اور رسالے پڑھتے جارہے ہیں، ہم میں زود نویسی کی عادت پڑتی جاتی ہے۔ پرانے زمانے کے لوگ جو کچھ لکھتے تھے اسے پہلے دس پانچ بار خود کانٹ چھانٹ کر اپنے دوستوں کو دکھاتے تھے۔ اب آج کل تیز نگاری کا دور ہے، ایک بار لکھ کر اسے دہرانا مذموم سمجھا جاتا ہے۔ بلکہ اصل مسودہ کو دوبارہ صاف کرنے کی محنت بھی نہیں برداشت کی جا سکتی۔ ایسی حالت میں زورِ بیان یا کمالاتِ انشا پردازی کا دکھانا غیرممکن ہی نہیں امید از قیاس ہے، اور اس تیز نگاری کی شکایت کچھ اسی ملک میں نہیں ہے۔ انگلستان وغیرہ ممالک میں بھی لٹریچر کے ادبی پہلو کے زوال کی شکایت سننے میں آتی ہے جو رنگینی اور لطفِ زبان اور زورِ بیان الزبتھ کے عہد کے مصنّفین میں شامل ہے، وہ گزشتہ یا موجودہ صدی کے مصنّفین میں نہیں ملتا، مگر ہاں اس کمی کے ساتھ ساتھ سائنس، صنعت و حرفت اور فلسفہ میں انہوں نے اس مدت میں جو ترقیاں کی ہیں وہ اس کمی کی تلافیاں کر دیتی ہے۔ ہمارے ہاں تو ان اصناف کا کہیں ذکر نہیں، جو کچھ بساط ہے وہ ادبی مضامین اور کتابوں تک محدود، اور ان کا بھی یہ حال۔

    نثر ہو یا نظم، زورِ بیاں اس کی جان ہے۔ جب یہی نہ ہوا تو وہ نظم یا نثر روکھی پھیکی ہوتی ہے۔ اس زوال کے لیے ہمارے طرزِ تمدّن کا انقلاب بھی ایک حد تک جواب دہ ہے۔ اب نہ پرانے مراسم آداب رہے، نہ وہ عیش وعشرت کے سامان، نہ امرا اور رؤسا میں وہ شوق۔ بجائے چوگان بازی کے اب کرکٹ اور پولو کا زور شور ہے، بجائے رنگین جلسوں کے اب گارڈن پارٹیاں ہیں۔ معاشرت میں جو ایک دل پذیر تکلّف تھا، اس کی جگہ اب تکلیف دہ تصنّع ہے۔ ان باتوں کی تفصیل کے لیے نہ ہماری زبان میں الفاظ ہیں اور نہ اصطلاحیں، اگر ہم کسی رئیس کے کمرہ کی آرائش کا بیان کرنا چاہیں تو ہمارے امکان سے باہر ہے اور اس کا تین چوتھائی سامان بالکل انگریزی ہے جس کے لیے ہماری لغت ہیں۔

    اس میں شک نہیں کہ زورِ بیان دکھانے میں کس قدر تکلّف پیدا ہو جاتا ہے، مگر اسے قابلِ معافی سمجھنا چاہیے کیوں کہ فنِ ادب کے لیے تکلّف (مگر تصنع نہیں) کی چاشنی ایک ضروری شے ہے۔

    (اردو اور ہندی زبانوں کے نام وَر ناول اور افسانہ نگار، فلمی کہانی نویس منشی پریم چند کے قلم سے)

  • حق کی فکر (پریم چند کی ایک کہانی)

    حق کی فکر (پریم چند کی ایک کہانی)

    ٹامی یوں دیکھنے میں تو بہت تگڑا تھا۔ بھونکتا تو سننے والوں کے کانوں کے پردے پھٹ جاتے۔ ڈیل ڈول بھی ایسا تھا کہ اندھیری رات میں اس پر گدھے کا شبہ ہوتا، لیکن اس کی دلیری کسی معرکے میں کبھی ظاہر نہ ہوتی تھی۔

    دو چار بار جب بازار کے لیڈروں نے اسے للکارا تو وہ جسارت کا مزہ چکھانے کے لیے میدان میں آیا۔ دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ جب تک لڑا جیوٹ سے لڑا۔ پنجے اور دانتوں سے زیادہ چوٹیں اس کی دُم نے کیں۔ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ بالآخر میدان کس کے ہاتھ رہا، لیکن جب فریق مخالف کو اپنی حمایت کے لیے اور کمک منگانی پڑی تو جنگی اصول کے مطابق فتح کا سہرا ٹامی کے سَر رکھنا زیادہ منصفانہ معلوم ہوتا ہے۔

    ٹامی نے اس وقت مصلحت سے کام لیا اور دانت نکال دیے جو صلح کی علامت تھی۔ اس نے ایسے بے اصولوں اور بے راہ رقیبوں کو منہ نہ لگایا۔

    اتنا صلح پسند ہونے پر بھی ٹامی کے رقیبوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جاتی تھی۔ اس کے برابر والے تو اس سے اس لیے جلتے تھے کہ یہ اتنا موٹا تازہ ہو کر بھی اس قدر صلح پسند کیوں ہے۔ اتنے دشمنوں کے بیچ میں رہ کر ٹامی کی زندگی دشوار ہو جاتی تھی۔ مہینوں گزر جاتے اور پیٹ بھر کھانا نہ ملتا۔

    دو تین بار اسے من مانا کھانا کھانے کی ایسی شدید خواہش ہو گئی کہ اس نے غلط طریقوں سے اسے پورا کرنے کی کوشش کی، مگر نتیجہ امید کے خلاف ہوا اور مزے دار کھانوں کے بدلے اسے ثقیل چیزیں بھر پیٹ کھانے کو ملیں جن سے پیٹ کے بدلے پیٹھ میں کئی دن تک درد ہوتا رہا تو اس نے مجبور ہو کر مل جل کر کھانے کی روش پھر اختیار کر لی۔

    ڈنڈوں سے پیٹ چاہے بھر گیا ہو، لیکن ہوس ختم نہ ہوئی۔ وہ کسی ایسی جگہ جانا چاہتا تھا جہاں خوب شکار ملے، ہرن اور خرگوش اور بھیڑوں کے بچے میدانوں میں چرتے ہوں۔ جہاں ان کا کوئی مالک نہ ہو، کسی رقیب کا اندیشہ تک نہ ہو۔ آرام کرنے کو گھنے درختوں کا سایہ ہو۔ پینے کو ندی کا صاف ستھرا پانی ہو، وہاں من مانا شکار کروں، کھاؤں اور میٹھی نیند سوؤں۔

    چاروں طرف میری دھاک جم جائے، سب پر ایسا رعب چھا جائے کہ مجھی کو اپنا راجا سمجھنے لگیں اور دھیرے دھیرے میرا ایسا سکہ بیٹھ جائے کہ کسی وقت کسی رقیب کو ادھر آنے کی ہمت نہ ہو۔

    اتفاق سے ایک دن وہ انہی خیالوں کے سرور میں سر جھکائے سڑک چھوڑ کر گلیوں میں سے چلا جا رہا تھا کہ دفعتاً ایک جواں ہمت حریف سے اس کی مڈبھیڑ ہوگئی۔ ٹامی نے چاہا کہ بچ کر نکل جائے مگر وہ بدمعاش اتنا امن پسند نہ تھا، اس نے فورا جھپٹ کر ٹامی کی گردن پکڑ لی۔

    آخر میں ہار کر ٹامی نے نہایت بے کسانہ انداز سے فریاد کرنی شروع کی۔ یہ سن کر محلے کے دو چار نیتا جمع ہوگئے لیکن بجائے اس کے کہ اس کی بے کسی پر رحم کریں، وہ الٹے ٹامی پر ہی ٹوٹ پڑے۔ اس غیرمنصفانہ برتاؤ نے ٹامی کا دل توڑ دیا۔ وہ جان چھڑا کر بھاگا، لیکن ان ظالموں نے بہت دور تک اس کا تعاقب کیا، یہاں تک کہ راستے میں ایک ندی پڑ گئی اور ٹامی نے اس میں کود کر اپنی جان بچائی۔

    کہتے ہیں کہ ایک دن سب کے دن پھرتے ہیں۔ ٹامی کے دن بھی ندی میں کودتے ہی پھر گئے۔ تیرتا ہوا اس پار پہنچا تو وہاں تمناؤں کی کلیاں کھلی ہوئی تھیں۔

    یہ نہایت وسیع میدان تھا۔ جہاں تک نگاہ جاتی تھی، ہریالی ہی ہریالی نظر آتی۔ کہیں جھرنا بہنے کا دھیما ترنم تھا تو کہیں درختوں کے جھنڈ تھے اور ریت کے سپاٹ میدان۔ بڑا ہی دل فریب منظر تھا۔ بھانت بھانت کے پرندے اور چوپائے نظر آئے، بعض ایسے لمبے چوڑے کہ ٹامی انہیں دیکھ کر تھرا اٹھا۔ بعض ایسے خونخوار کہ ان کی آنکھ سے شعلے نکل رہے تھے۔

    وہ آپس میں اکثر لڑا کرتے تھے اور اکثر خون کی ندی بہتی تھی۔ ٹامی نے دیکھا کہ وہ ان خوف ناک دشمنوں سے پیش نہ پاسکے گا، اس لیے اس نے مصلحت سے کام لینا شروع کیا۔ جب دو لڑنے والوں میں ایک زخمی یا مردہ ہو کر گر پڑتا تو ٹامی لپک کر گوشت کا ٹکڑا لے بھاگتا اور تنہائی میں بیٹھ کر کھاتا۔ فاتح جانور اپنی کام یابی کے نشے میں اسے حقیر سمجھ کر کچھ نہ کہتا۔

    تھوڑے ہی دنوں میں قوت بخش کھانوں نے ٹامی پر جادو کا سا اثر پیدا کیا۔ وہ پہلے سے کہیں زیادہ لحیم شحیم، دراز قد اور خوف ناک ہو گیا۔ چھلانگیں بھرتا اور کسی چھوٹے موٹے جانوروں کا شکار اب وہ خود بھی کر لیتا۔ جنگل کے جانور اب چونکے اور اسے وہاں سے بھگا دینے کی کوشش کرنے لگے۔

    ٹامی نے اب ایک نئی چال چلی۔ وہ کبھی کسی جانور سے کہتا تمہارا فلاں دشمن تمہیں مار ڈالنے کی تیاری کررہا ہے، کسی سے کہتا فلاں تم کو گالی دیتا تھا۔ جنگل کے جانور اس کے چکمے میں آ آکر آپس میں لڑ جاتے اور ٹامی کی چاندی ہو جاتی۔

    آخر میں نوبت یہاں تک پہنچی کہ بڑے بڑے جانوروں کا صفایا ہوگیا۔ چھوٹے چھوٹے جانوروں کو اس سے مقابلہ کرنے کی ہمت ہی نہ ہوتی تھی۔ وہ اب بڑی شان سے چاروں طرف فخریہ نظروں سے تاکتا ہوا گھومتا پھراکرتا۔

    ٹامی کو کوئی فکر تھی تو یہ کہ اس دیش میں کوئی میرارقیب نہ اٹھ کھڑا ہو۔ جوں جوں دن گزرتے تھے، عیش وعشرت کا چسکا بڑھتا جاتا تھا اور اس کی فکر بھی ویسے ویسے بڑھتی جاتی تھی۔ جانوروں سے کہتا کہ خدا نہ کرے تم کسی دوسرے حکم راں کے پنجے میں پھنس جاؤ۔ وہ تمہیں پیس ڈالے گا۔ میں تمہارا خیرخواہ ہوں۔ ہمیشہ تمہاری بھلائی میں لگا رہتا ہوں۔ کسی دوسرے سے یہ امید مت رکھنا۔ سب جانور ایک آواز ہو کر کہتے ’’جب تک جییں گے آپ کے وفادار رہیں۔‘‘

    آخرکار یہ ہوا کہ ٹامی کو لمحہ بھر بھی اطمینان سے بیٹھنا مشکل ہوگیا۔ وہ رات رات بھر اور دن دن بھر ندی کے کنارے ادھر سے ادھر چکر لگایا کرتا۔ دوڑتے دوڑتے ہانپنے لگتا، بے دَم ہو جاتا مگر ذہنی سکون نہ ملتا۔ کہیں کوئی دشمن نہ گھس آئے، بس یہی فکر رہتی۔

    ایک دن اس کا دل خوف سے اتنا بے چین ہوا کہ وہ بڑے جوش سے ندی کے کنارے آیا اور ادھر سے ادھر دوڑنے لگا۔ دن بیت گیا، رات بیت گئی مگر اس نے آرام نہ کیا۔ دوسرا دن آیا اور گیا، لیکن ٹامی بھوکا پیاسا ندی کے کنارے چکر لگاتا رہا۔ اس طرح پانچ دن بیت گئے، ٹامی کے پیر لڑکھڑانے لگے۔ آنکھوں تلے اندھیرا چھانے لگا، آنتیں سکڑ گئیں، بھوک سے بے قرار ہو کر گر گر پڑتا مگر وہ اندیشہ کسی طرح دور نہ ہوتا۔

    آخر میں ساتویں دن وہ نامراد ٹامی اپنے حق کی فکر سے پریشان اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔

    جنگل کا کوئی جانور اس کے قریب نہ آیا، کسی نے اس کی بات نہ پوچھی، کسی نے اس کی لاش پر آنسو نہ بہائے۔ کئی دن تک اس پر گدھ اور کوے منڈلاتے رہے۔ آخر میں ہڈیوں کے پنجر کے سوا اور کچھ نہ رہ گیا۔

    ( سیاست سے سماج تک پریم چند نے اپنی کہانیوں‌ اور افسانوں‌ کے ذریعے کئی حقیقتوں کو ہمارے سامنے پیش کیا ہے، یہ کہانی بھی مصنف کی بامقصد اور اصلاحی فکر کا نتیجہ ہے)