Tag: پر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
-
ایک سو تینتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
اس بار جونی نے لب کشائی کی: ’’ایسا کرتے ہیں کہ بچوں کو جانے دیتے ہیں، اس دوران ہم آپ کو اس گیند سے متعلق سب کچھ بتا دیتے ہیں۔ انھیں جانے کے بعد بس چند ہی منٹ لگیں گے اور یہ واپس بھی آ جائیں گے، اس لیے پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔‘‘ جمی نے بچوں کی طرف دیکھ کر کہا: ’’بھئی، اس بار ہو سکتا ہے کہ تم لوگ کسی ٹھنڈے مقام پر پہنچو، اس لیے اپنے کوٹ ساتھ لے کر جاؤ۔ یاد ہے نا کہ ہائیڈرا گرم مقام تھا، آئس لینڈ ٹھندی جگہ تھی اور سیچلز پھر گرم جگی تھی، تو اب ٹھنڈے مقام کی باری ہے۔‘‘
-
ایک سو دو ویں قسط: پر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
فیونا انھیں اپنے اتنے قریب دیکھ کر اسپرنگ کی طرح اچھلی اور چلاتے ہوئے دوڑی: ’’بھاگوووو…‘‘ اس کی رفتار اتنی تیز تھی کہ ذرا ہی دیر میں وہ جبران اور دانیال سے بھی آگے نکل گئی۔
اچانک ان کی سماعتوں سے ایک قذاق کی چیخ سے مشابہ آواز ٹکرائی، وہ کہہ رہا تھا: ’’یہ ہمارے خزانے کے پیچھے جا رہے ہیں … پکڑو انھیں اور تختے پر لے آؤ۔‘‘
ایک اور قذاق چلایا: ’’یہ تختہ کیا ہے گدھے… ہمارا جہاز کہاں ہے؟‘‘
سارے کے سارے بحری ڈاکو اب ان تینوں کے پیچھے چیختے چلاتے اور تلواریں لہراتے دوڑ رہے تھے۔ دوڑے دوڑتے فیونا بولی: ’’واؤ زبردست … پہلے وائی کنگ اور اب یہ پائریٹس … جب ہم گھر لوٹیں گے تو جمی اور جیزے کو ان پھندوں کے بارے میں ضرور بتائیں گے۔‘‘تینوں جھاڑیوں میں اندھا دھند بھاگتے چلے جا رہے تھے۔ سخت جھاڑیوں اور کانٹوں سے بچنا ممکن نہیں تھا اس لیے انھیں جا بہ جا خراشیں آ گئی تھیں۔ دوڑتے دوڑتے وہ ایک کھلی جگہ میں آ گئے۔ تینوں رک کر لمبی لمبی سانسیں لینے لگے۔ فیونا نے سانسوں کو قابو کرتے ہوئے کہا: ’’تم دونوں نے نوٹ کیا، یہ سب بالکل ایک ہی جیسے لگتے ہیں۔‘‘
جبران بولا: ’’میں پائریٹس کے متعلق پڑھا ہے، یہ عقل مند نہیں تھے، اس سے پہلے کہ وہ ہمیں پکڑ لیں کیوں نہ ہم کوئی چال چل کر ان سے چھٹکارا پا لیں، یہ سب بے وقوف ہیں اور مردہ بھی!‘‘
دانیال نے کہا کہ یہ لوگ بے وقوف ہو سکتے ہیں اور کسی زمانے میں یہ مرے بھی ہوں گے لیکن اب یہ زندہ ہیں اور ان کے ہاتھوں میں تیز دھار تلواریں بھی ہیں۔ دانیال سانس لینے رکا اور حیران ہو کر بولا: ’’ارے انھوں نے آنکھوں پر پٹیاں کیوں باندھ رکھی ہیں، اور یہ ارغ کیا چیز ہے، کیا واقعی بحری قذاق اسی قسم کی آوازیں نکالا کرتے تھے؟ میں تو سمجھا تھا کہ یہ صرف کارٹون اور فلموں میں ہوتا ہے۔‘‘
ان دونوں نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، لیکن فیونا اچانک بولی کہ انھیں جانا کس طرف ہے؟ یہ کہہ کر اس نے کلائی پر بندھی گڑھی پر نظر ڈالی، لیکن وہ سمندری پانی سے خراب ہو چکی تھی۔ جبران کی گھڑی واٹر پروف تھی، جس کے مطابق جیکس کی واپسی میں صرف پینتالیس منٹ رہ گئے تھے، اور وہ پک اپ پوائنٹ سے بھی بہت دور تھے۔ دانیال نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ چلو اس سمت چلتے ہیں، وہ ڈھونڈ نہیں پائیں گے۔ لیکن فیونا نے کہا: ’’انھیں پتا ہے کہ ہم نے موتی حاصل کر لیا ہے، اور انھیں ایک ایسا منتر آتا ہے جس کے ذریعے وہ ہمیں ڈھونڈ نکال سکتے ہیں۔‘‘
دانیال نے پوچھا: ’’کیا وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے ان کا خزانہ چرا لیا ہے؟‘‘
فیونا نے اثبات میں سر ہلایا۔ انھیں آوازیں سنائی دینے لگیں، فیونا نے دونوں کو اپنے پیچھے آنے کو کہا اور وہ ایک بار پھر جھاڑیوں کے درمیان دوڑنے لگے۔ وہ جتنا تیز دوڑ سکتے تھے، دوڑتے چلے جا رہے تھے۔ ان کے پیچھے بحری ڈاکو چیختے اور نعرے لگاتے ہوئے آ رہے تھے۔ ’’پکڑو… ان بدمعاشوں کو… لے چلو انھیں تختے پر!‘‘(جاری ہے…)
-
تراسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
پچھلی تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے
’’ہاں ایسا ہی ہے۔‘‘ اینگس نے اثبات میں سر ہلایا: ’’یہ سب ان جادوئی ہیروں کی حفاظت کے لیے کیا گیا، اور اب غور سے میری بات سنو، ہمیں محسوس ہو رہا ہے کہ کنگ دوگان کا جادوگر پہلان ہم سے جادوئی گولا حاصل کرنے کے لیے دوگان کے کسی وارث کو استعمال کر رہا ہے۔ اگر یہ جادوئی گیند اُس جادوگر کے پاس چلی گئی تو وہ پھر سے زندگی کی طرف لوٹ آئے گا اور پوری دنیا پر راج کرے گا۔‘‘
یہ سن کر دانیال تیزی سے بولا: ’’تو اس کا مطلب ہے کہ جو شخص فیونا کے گھر میں دو مرتبہ گھسا وہ کنگ دوگان کا وارث ہے!‘‘
اینگس نے انھیں خبردار کیا کہ اس وارث کے پاس جادوئی طاقتیں بھی ہیں، اور وہ بھی فیونا کی طرح اب آگ لگا سکتا ہے، اور جیسے جیسے فیونا کو طاقتیں ملتی جائیں گی، اس وارث کو بھی وہی طاقتیں ملتی رہیں گی، ہر ہیرہ ملنے کے ساتھ اس کی طاقتیں بھی بڑھیں گی، اسی لیے ہمیں حفاظت کے لیے ان بارہ آدمیوں کی اشد ضرورت ہے۔‘‘
کئی لمحوں تک چاروں خاموش رہے، پھر فیونا نے اس خاموشی کو توڑا: ’’اگر یہ بات ہے تو پھر جونی یا کوئی دوسرا خود کیوں نہیں جا کر باقی ہیرے حاصل کر لیتا؟‘‘ فیونا کے لہجے میں اس بار خوف کی جھلک واضح محسوس کی جا سکتی تھی، کیوں اس سے قبل اسے حالات کی سنگینی کا علم نہیں تھا۔ اب اچانک اسے سمجھ آیا کہ وہ ایک خوف ناک ترین معاملے میں پھنس چکے ہیں۔ یہی حال جبران اور دانیال کا بھی تھا، وہ دونوں بھی خوف زدہ ہو گئے تھے۔
اینگس نے ان کے چہروں پر نظریں ڈالتے ہوئے سپاٹ لہجے میں کہا: ’’نہیں … ہیروں کے لیے اور کوئی نہیں جا سکتا۔ فیونا، صرف تم اور تمھارے یہ دوست ہی ہیرے حاصل کر سکتے ہیں، کیوں کہ جبران اور دانیال بھی جادوئی سفر سے گزرنے کے بعد اب اس سلسلے سے وابستہ ہو گئے ہیں۔ اور فیونا، تم تو کنگ کیگان کے ساتھ ساتھ کنگ دوگان کی بھی وارث ہو، یعنی مشترکہ وارث، اس بات کی وضاحت میں بعد میں کر دوں گا، بس میری بات پر یقین رکھو کہ صرف تم ہی ہیرے حاصل کر سکتی ہو، اور یہ دونوں تمھارے بہترین مددگار ثابت ہوئے ہیں۔‘‘ اینگس نے جبران اور دانیال کی طرف اشارہ کیا: ’’اب تمھیں ہر حال میں ہیرے جمع کرنے ہیں۔‘‘
فیونا نے طویل سانس لے کر کہا: ’’اچھا مجھے یہ بتائیں کہ یہ جو دوسرا وارث ہے، کیا وہ بھی ہیرے حاصل کر سکتا ہے یا نہیں؟ اور کیا وہ ہمیں نقصان پہنچانے کی طاقت رکھتا ہے؟‘‘
اینگس نے کہا: ’’آلرائے کہتا ہے کہ جہاں جہاں تم جا سکتی ہو، وہاں وہاں وہ بھی جا سکتا ہے، لیکن ہیرے صرف تم ہی حاصل کر سکتی ہو۔ ہاں، وہ تمھارے لیے پریشانیاں بھی کھڑی کر سکتا ہے، اس لیے تمھیں محتاط رہنا ہوگا۔‘‘جبران نے اچانک پوچھا: ’’ہمیں یہ نہیں پتا کہ اس کی شکل کیسی ہے، وہ بڑی عمر کا ہے یا لڑکا؟‘‘ اینگس نے خود لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا اگر کوئی ایک ہی چہرہ مختلف مقامات پر نظر آئے تو اس سے محتاط رہنا۔ اسی وقت جمی اور جیزے بھی اندر آ گئے، انھوں نے گھر کی صفائی کر دی تھی، جمی جیسے ہی ان کے سامنے آیا، وہ تینوں اسے گھور گھور کر دیکھنے لگے۔ جمی نے چونک کر پوچھا کہ وہ اسے کیوں گھور رہے ہیں۔ دانیال نے کہا: ’’ہم جان گئے ہیں کہ آپ کون ہیں۔‘‘
جمی مسکرا دیا: ’’تو اینگس نے سب بتا دیا، بہرحال بچو، گھبرانے کی بالکل ضرورت نہیں، ہم یہاں آپ سب کی حفاظت کریں گے، اور اب تم تینوں جاؤ اور اگلا ہیرا لے کر آؤ، اگلا ہیرا آتے ہی ہماری مدد کے لیے ایک اور شخص آ جائے گا۔‘‘
جبران اور دانیال فیونا کے دائیں بائیں کھڑے ہو گئے اور فیونا ایک بار پھر منتر پڑھنے لگی: ’’دالث شفشا یم…‘‘
اور دنیا ان تینوں کے گرد نہایت تیزی سے گھومنے لگی!
۔۔۔۔
دوسری طرف ڈریٹن حملے کے بعد خوف زدہ ہو کر نہیں بھاگا تھا بلکہ واپس آ کر اسی کھڑکی میں جھانک کر انھیں دیکھنے لگا۔ جب اس نے فیونا کو منتر پڑھتے ہوئے سنا تو چونک اٹھا اور بڑبڑایا: ’’تو یہ ہے وہ منتر جس کے ذریعے فیونا مطلوبہ مقامات پر پہنچ جاتی ہے، لیکن واپسی کے لیے کیا منتر ہے؟‘‘وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اس نے اینگس کو کہتے سنا۔ وہ جمی اور جیزے کو وہ منتر بتا رہا تھا جس کے ذریعے تینوں واپس گیل ٹے آتے۔ ڈریٹن نے خوشی سے دانت نکال لیے۔ اتنی آسانی سے اس کا مسئلہ حل ہو گیا تھا۔ وہ اینگس کا غائبانہ شکریہ ادا کرتے ہوئے جھیل ڈون کی طرف چل پڑا۔
-
تینتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
’’ہم آپ کے لیے یونانی سموسہ اور بادام کا کیک لے کر آئے ہیں۔ یونانی زبان میں ان کے نام طویل ہیں لیکن یہ بہت ذائقہ دار ہیں۔‘‘ جبران نے کہا۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
’’بہت بہت شکریہ۔‘‘ اینگس نے جبران کے ہاتھ سے سموسہ اور بادام کے کیک لے لیے۔ ’’اگر تم لوگوں کو برا نہ لگے تو میں یہ کسی اور وقت کے لیے رکھ دوں۔ کیوں کہ میں ابھی ابھی تین عدد چاکلیٹ بسکٹ کھا چکا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ کچھ سوچنے لگے اور پھر ان کی آنکھوں میں چمک سی پیدا ہو گئی۔ ’’میرے پاس ایک زبردست آئیڈیا ہے۔ سمجھ لو کہ میں ایک تاریخ نویس ہوں، آلرائے کیتھ مور کی طرح۔ میں بھی اس کتاب میں ان دل چسپ واقعات اور مہمات کی کہانی لکھوں گا۔ میرے پاس خصوصی سیاہی ہے اور اس قدیم کتاب میں خالی صفحات بھی ہیں۔‘‘
’’اوہ یہ تو شان دار خیال ہے۔ اگر آپ کچھ بھول بھی جائیں تو ہم ساری کہانی دہرا بھی سکتے ہیں۔‘‘ جبران جلدی سے بولا۔ ’’ویسے میں یہ ساری کہانی اپنی ڈائری میں بھی لکھوں گا۔‘‘
ایسے میں دانیال اپنی جیب پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ وہ زبان کے مسئلے کی وجہ سے کافی دیر سے خاموش کھڑا تھا۔ یکایک اسے پتھر کا وہ ٹکڑا یاد آیا جو اس نے خانقاہ سے اٹھایا تھا۔ وہ جلدی سے بولا: ’’یہ دیکھیں انکل، یہ میں نے خانقاہ سے اٹھایا تھا۔‘‘
جبران نے فوراً اس کی ترجمانی کی۔ اینگس نے اس کے ہاتھ سے ٹکڑا لیا۔ یہ ماربل کی اینٹ کا ہی ایک ٹکڑا تھا۔ فیونا نے وہ تصویریں اینگس کو دکھائیں جو انھوں نے ساحل پر گدھے پر بیٹھ کر کھینچی تھیں۔ یہ تصاویر دیکھ کر وہ سب ہنسنے لگے۔
اینگس نے اٹھ کر الماری کے اوپر سے قدیم کتاب اٹھا کر میز پر رکھ دی۔ ’’میں اسے بعد میں لکھنا شروع کروں گا جب بالکل اکیلا ہوں گا، تاکہ بھرپور توجہ کے ساتھ سارے واقعات قلم بند کر سکوں۔‘‘
(جاری ہے…)
-
تیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
’’میں کیا کرسکتا ہوں۔‘‘ جبران بولا۔ ’’مجھے خود ہائیڈرا سے نفرت ہے، چلو یہاں سے بھاگتے ہیں۔‘‘
تینوں ایک بار پھر بھاگنے لگے۔ سیاہ آبسیڈین کی تلاش میں اس جزیرے پر آ کر وہ اب تک اتنا بھاگ چکے تھے کہ انھیں لگتا تھا زندگی بھر اتنا نہ بھاگے ہوں گے۔ کافی دور جا کر جبران نے مڑ کر دیکھا۔ ’’نہیں….‘‘ وہ چیخا۔ ’’وہ ہمارا پیچھا کر رہا ہے اور ہم سے کہیں زیادہ تیز دوڑ رہا ہے۔‘‘
’’ہمیں ساحل کی طرف جانا ہوگا۔‘‘ دوڑے دوڑتے فیونا نے کہا۔ ’’پتا نہیں ماربل کی ایک اینٹ سے کیسے اتنا بڑا عفریت بن گیا ہے۔ یہ یونانی اساطیر بھی بے حد عجیب ہیں۔‘‘
اچانک چرچ کی گنٹیاں بجنے لگیں۔ فیونا کو ایسا لگا جیسے وہ گھنٹیاں اسے روک رہی ہوں، اور وہ ایک دم رک گئی۔ اس نے دونوں کو آواز دے کر کہا: ’’ہم غلط راستے پر جا رہے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ ہم چرچ میں زیادہ محفوظ رہیں، چلو اندر چلتے ہیں۔‘‘
’’کیاااا…. تم پاگل ہو گئی ہو کیا۔‘‘ جبران جھلا کر بولا۔ ’’ہم مڑ کر واپس نہیں جا سکتے۔ ہائیڈرا ہمیں آسانی سے شکار کر لے گا۔ تم دیکھ نہیں رہی ہو سانپوں کے سروں میں کتنے نوکیلے دانت ہیں۔ میں تو ان ماربل کے سانپوں سے نو بار ڈسنا ہرگز نہیں چاہتا۔‘‘
فیونا نے دیکھا کہ جبران کے چہرے پر مایوسی کے آثار چھا گئے ہیں اور وہ اس کے فیصلے سے متفق نہیں ہے۔ وہ بولی: ’’دیکھو جبران، میرا من کہہ رہا ہے کہ ہم چرچ میں زیادہ محفوظ رہیں گے۔ کیسے، یہ میں نہیں جانتی۔ اگر ہم اندر نہیں گئے تو یہ ہائیڈرا ہمیں پا کر مار ڈالے گا۔ اور ایسا ہونے جا رہا ہے۔ ہم اس کے پنجے سے کسی صورت نہیں بچ سکتے۔ اس نازک وقت پر تمھیں مجھ پر اعتماد کرنا ہوگا جبران۔ میرا دل کہہ رہا ہے کہ ہمیں اس قدیم بازنطینی چرچ کی طرف جانا چاہیے۔ چلو، ہم دوسرے راستے سے وہاں جانے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘
جبران اور دانیال نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے پیچھے دوڑنے لگے۔ وہ دونوں بے حد خوف زدہ تھے۔ اچانک دانیال کو پھنکار کی آواز سنائی دی۔ اس نے دوڑتے دوڑتے جبران سے کہا: ’’تم نے سنی یہ آواز، یہ تو بہت قریب سے آ رہی ہے۔‘‘
جبران اور فیونا نے بھی پھنکار کی آواز سن لی تھی۔ وہ چلائی: ’’وہ ہمارے بہت قریب پہنچ گیا ہے، اور تیز بھاگو۔‘‘
ماربل سخت تھا لیکن پتا نہیں پتھر کا یہ سانپ کیسے حرکت کر رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ زمین پر رینگ نہیں رہا ہو بلکہ چند انچ اوپر ہوا میں تیر رہا ہو۔ فیونا نے کہا: ’’وہ دیکھو، چرچ کا دروازہ اب بھی کھلا ہوا ہے۔ ہم میں سے جو بھی سب سے آخر میں داخل ہو، وہ اپنے پیچھے دروازہ فوراً بند کر دے۔‘‘
جب وہ چرچ کے دروازے پر پہنچے تو سب سے پہلے جبران اندر داخل ہوا، اس کے پیچھے ہی فیونا اور پھر آخر میں دانیال داخل ہوا۔ فیونا اندر داخل ہوتے ہی چلائی تھی: ’’دانی دروازہ بند کر دو، جلدی کرنا۔‘‘
جبران دانیال کی مدد کے لیے تیار کھڑا تھا، دونوں نے عین اسی لمحے دروازہ بند کیا جب ہائیڈرا پہنچ گیا تھا۔ ’’اُف خدا، تم نے دیکھا فیونا، کتنا بھیانک چہرہ ہے اس کا۔‘‘ جبران تھوک نگل کر بولا۔
’’چلو اوپر چلتے ہیں، ہم وہاں زیادہ محفوظ ہوں گے۔‘‘ فیونا نے کہا اور تینوں سیڑھیاں چڑھ کر اوپر چلے گئے۔ وہ اس کھڑکی کے پاس آئے جہاں سے انھوں نے اینٹ نیچے پھینکی تھی۔ انھوں نے دیکھا کہ ہائیڈرا کے تیز دانت چرچ کے چوبی دروازے میں گڑے ہوئے تھے اور وہ اسے چبا کر توڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ’’بے فکر رہو، ہم یہاں محفوظ ہیں۔‘‘ فیونا نے ایک بار پھر انھیں تسلی دی۔ جبران نے تقریباً روتے ہوئے کہا: ’’لیکن وہ دروازے کو چبا چبا کر توڑ ڈالے گا اور ہمیں آسانی شکار کر لے گا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ کھڑکی سے ہٹا اور دیوار کے سہارے فرش پر بیٹھ گیا۔ اسے رونا آ رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ وہ گھر جانا چاہتا ہے۔
فیونا نے اس کی طرف دیکھا اور پھر جیب سے قیمتی پتھر نکال لیا۔ اس کے اندر ڈریگن کا نقش تھا۔ اس میں سے ہلکی ہلکی سی روشنی نکل رہی تھی۔ فیونا جبران کے سامنے فرش پر بیٹھ گئی اور آنکھیں بند کر لیں۔ اس نے تصور میں ایک عظیم الجثہ سیاہ ڈریگن دیکھا جس کی آنکھیں قیمتی پتھر کی مانند چمک رہی تھیں۔ وہ آسمان میں کہیں بادلوں سے نکلا اور غوطہ مار کر نیچے آیا اور پھر اپنے لمبے نوکیلے دانتوں میں عفریت ہائیڈرا کو پکڑ کر اپنے ساتھ لے گیا۔
’’ارے وہ دیکھو۔‘‘ یکایک جبران کی آواز فیونا کی سماعت سے ٹکرائی، اس کی آواز میں خوشی جھلک رہی تھی۔ ’’جلدی آؤ دانی، فیونا، ورنہ تم یہ منظر دیکھنے سے محروم رہ جاؤ گے۔ اوہ دیکھو، اتنا بڑا ڈریگن۔ اس کے پر یقیناً پچاس فٹ لمبے ہوں گے۔‘‘
اسی لمحے ان کے کانوں سے عجیب قسم کی کرخت آوازیں ٹکرانے لگیں۔ وہ دونوں دوڑ کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگے۔ باہر ایک بہت ہی بڑا سیاہ ڈریگن ہائیڈرا پر جھپٹ رہا تھا۔ اس کی پشت پر لمبے اور مضبوط کانٹوں والی ریڑھ کی ہڈی دم تک چلی گئی تھی اور اس کی لمبی دُم ہوا میں کسی کوڑے کی طرح لہرا رہی تھی۔ اس نے ہائیڈرا کو دانتوں میں دبوچا اور فضا میں بلند ہو گیا۔ ہائیڈرا اس کی ٹانگوں سے لپٹ گیا لیکن ڈریگن نے اپنی گرفت ذرا بھی ڈھیلی نہیں کی۔ کچھ ہی دیر میں دونوں آسمان کی وسعتوں میں کہیں گم ہو گئے۔ تینوں نے سکون کی سانس لی۔ وہ چند لمحوں تک خاموش رہے اور دل کی تیز دھڑکنوں کو قابو کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ ایسے میں فیونا نے انھیں چونکا دیا۔
(جاری ہے…)
-
پچیسویں قسط: پُراسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں
فیونا کی ممی مائری مک ایلسٹر نے اپنے باغیچے سے تمام قسم کے پھول چُنے، اور ان سے ایک خوب صورت گل دستہ بنا لیا۔ پھر، چند سبزیاں توڑیں اور باسکٹ میں بھر کر جبران کے گھر کی طرف چل پڑیں۔ پندرہ منٹ بعد وہ جبران کے گھر کے دروازے پر کھڑی تھیں۔ دستک دینے پر ذرا دیر بعد جبران کی امی شاہانہ نے دروازہ کھول دیا۔ وہ مائری کو نہیں پہچان سکیں، کیوں کہ وہ اس سے پہلے کبھی مائری سے نہیں ملی تھیں۔
"میں مائری… مائری اینافرگوسن مک ایلسٹر۔” انھوں نے اپنا تعارف کرایا۔
"ارے آپ، فیونا کی ممی۔” شاہانہ چونک اٹھیں اور انھیں خوش آمدید کہا اور اندر مہمان خانے میں لے گئیں۔ "بلال نے مجھے آپ کے بارے میں بتایا ہے، آپ سے ملنے کا مجھے بڑا اشتیاق تھا۔”
دونوں آمنے سامنے ایک صوفے پر بیٹھ گئیں، لیکن شاہانہ نے اچانک کہا: "میں آپ کے آنے سے پہلے اپنے لیے چائے بنا رہی تھی، میں ابھی لے کر آتی ہوں۔” یہ کہہ کر وہ اٹھیں اور باورچی خانے چلی گئیں۔ مائری اس چھوٹے سے گھر کا جائزہ لینے لگیں۔ پہلی ہی نظر میں وہ شاہانہ کی سلیقہ مندی کی معترف ہو گئیں۔ ہر چیز سے صفائی اور سادگی کی جھلک نمایاں تھی۔ دروازے کی سامنے والی دیوار پر فریم میں ایک بڑی تصویر لٹک رہی تھی۔ اس تصویر میں ایک گاؤں کے پس منظر میں برف پوش پہاڑوں کا نہایت ہی دل پذیر منظر دکھائی دے رہا تھا۔ وہ اس تصویر میں نظر آنے والی جگہ کے متعلق سوچ کر حیران ہو گئیں۔ وہ اسے پہچان نہیں سکیں۔ گھروں کا طرز تعمیر ان کے لیے بالکل اجنبی تھا۔
"یہ ہمارے آبائی گاؤں کی تصویر ہے۔” شاہانہ نے اندر آتے ہوئے مائری کو تصویر میں گم دیکھ کر کہا۔ انھوں نے میز پر سینی رکھ دی اور دو پیالیوں میں کیتلی سے چائے انڈیلنے لگیں۔ مائری کیتلی کو دیکھ کر چونک اٹھیں۔ "ارے، میں نے آج تک اسکاٹ لینڈ میں اس طرح کی کیتلی نہیں دیکھی، یہ تو کوئی بہت قدیم لگ رہی ہے۔”
شاہانہ مسکرا دیں۔ انھوں نے ایک پلیٹ آگے کرتے ہوئے کہا: "یہ کشمش کے بسکٹ ہیں، بے حد ذائقہ دار ہیں۔ رہی بات اس کیتلی کی تو یہ میں پاکستان سے اپنے ساتھ لائی ہوں۔ یہ ہماری روایتی کیتلی ہے۔”
"بہت ہی شان دار ہے۔” مائری اس سے متاثر نظر آنے لگیں، پھر کچھ یاد آکر انھوں نے باسکٹ اٹھا کر میز پر رکھ دی۔ باسکٹ سے گل دستہ نکال کر شاہانہ کے حوالے کر دیا۔ "یہ میں نے اپنے باغیچے کے پھولوں سے بنایا ہے۔”
"شکریہ….!” شاہانہ نے گل دستہ وصول کرتے ہوئے کہا: "معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے باغیچے میں بہت سارے پودے اگائے ہیں۔”
"جی ہاں۔ میں نے کئی اقسام کی سبزیاں اور پھل بھی اگائے ہیں۔ کچھ اپنے ساتھ بھی لائی ہوں۔ دراصل میں نے سوچا کہ جب بلال اور آپ کا مہمان لوٹیں گے تو رات کے کھانے کے لیے کچھ زبردست قسم کی چیزیں موجود ہوں۔” مائری نے روانی میں کہہ دیا لیکن وہ دل ہی دل میں حیران ہونے لگیں کہ اس نے اتنی روانی سے مہمان کا ذکر کیسے کر دیا۔ "میرا مطلب ہے کہ …. آپ کے ہاں ایک مہمان آیا ہوا ہے، کیا ایسا نہیں ہے؟” وہ گڑبڑا کر بولیں۔
شاہانہ مسکرا دیں۔ ان کی آنکھوں میں چمک سی آ گئی۔ ” ہاں، ہاں… جونی تھامسن لندن سے یہاں آیا ہے۔ اچھا آدمی ہے۔ وہ بلال کے ہمراہ مچھلیوں کے شکار پر گئے ہوئے ہیں۔ آج رات آپ اور فیونا کا کیا پروگرام ہے؟ کیا آپ ہمارے ہاں آنا پسند کریں گی۔ رات کا کھانا ہمارے ساتھ ہی کھائیے، مہمان کے ساتھ بھی ملاقات ہوجائے گی، اور جتنی دیر چاہیں آپ ان سے مچھلی کے شکار کے قصے بھی سن سکتی ہیں۔”
مائری ہنس پڑیں۔ "تھامسن سے کل میری ملاقات ہوئی تھی۔ وہ ایک اچھا شخص لگتا ہے۔ میں رات کے لیے قیمہ اور آلو کا بھرتا بنانے کی تیاری کر رہی تھی۔ اگر آپ کو پسند ہو تو میں وہ یہاں لے کر آ جاؤں!”
شاہانہ فوراً سمجھ گئیں کہ وہ کیا چاہتی ہیں۔ "ٹھیک ہے، آپ اطمینان کے ساتھ آ سکتی ہیں۔ جتنا چاہیں یہاں وقت گزاریں۔ ویسے آپ تو پہلے ہی سے اتنا کچھ لے کر آئی ہیں۔” انھوں نے باسکٹ کی طرف اشارہ کیا۔
(جاری ہے….)
-
اکیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی (اردو ویب) پر قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
جس دیوار میں مطلوبہ اینٹ لگی ہوئی تھی وہ بہت خستہ ہو چکی تھی، اور ایسا لگتا تھا جیسے اب گری تب گری۔ فیونا اینٹ کے پاس رک گئی۔ "یہ واقعی ڈھیلی ہے اور بہ آسانی باہر نکل آئے گی۔”
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
"فیونا، داموں کو مت بھولو۔” دانیال نے اسے پھر یاد دلایا۔ اس سے خاموش نہ رہا گیا تھا۔ وہ بے چینی سے فیونا کی طرف دیکھ رہا تھا۔ "یہ کارنر اسٹون ہے، اس پر پوری دیوار ٹھہری ہوئی ہے۔”
"میں داموں کو بھولی نہیں ہوں۔” اس نے مڑے بغیر تیز لہجے میں جواب دیا اور اینٹ کو جھٹکے سے کھینچ لیا۔ دیوار اچانک لرز کر رہ گئی۔ اوپر سے ان کے سروں پر ماربل کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اور خشک کیچڑ گرنے لگا۔ انھوں نے فوراً بازوؤں سے سر چھپا لیے۔ "یہ یقیناً پھندوں میں سے ایک ہے، اگر ہم نے اینٹ نکالی تو پوری دیوار ہم پر گر جائے گی۔” فیونا چلا کر بولی۔ دانیال نے اس کا جملہ پورا کر دیا: "اور ہم سب مر جائیں گے۔”
ایسے میں جبران نے آئیڈیا پیش کیا: "کیوں نہ گدھے سے کام لیا جائے۔ ہم نکولس سے اس کے گدھے کو کرائے پر لے لیتے ہیں۔ سہ پہر کو وہ ویسے بھی آرام کرنے جائے گا۔ ہم گدھا یہاں لا کر اس سے ایک رسی باندھ لیں گے اور اس رسی کا دوسرا سرا اینٹ کے گرد لپیٹ دیں گے۔ ہم میں سے کوئی ایک اپنے ہاتھ میں ایک اور اینٹ لے کر کھڑا ہوگا۔ جیسے ہی گدھا اینٹ کھینچ لے گا، وہ فوراً اس جگہ پر دوسری اینٹ رکھ دے گا۔ کیسا ہے یہ آئیڈیا؟” جبران فخر سے سینہ پھلائے ان کی طرف داد طلب نظروں سے دیکھنے لگا۔
"آئیڈیا تو اچھا ہے لیکن اس کا مطلب ہے کہ ہمیں گدھا چوری نہیں، ادھار پر لینا پڑے گا۔ اور مجھے یقین نہیں ہے کہ نکولس ہمیں اپنا گدھا ادھار دینا پسند کرے گا۔ ویسے تم دوڑ کر ساحل پر جا کر گدھا لا سکتے ہو۔ میں یہاں کھڑے ہو کر سوچوں گی کہ اور کیا کر سکتی ہوں۔” فیونا نے اسے دیکھ کر کہا۔
"ٹھیک ہے، مجھے پیاس بھی لگی ہے، ہم چلے جاتے ہیں۔” دانیال بولا۔ فیونا نے ڈریکما کے چند نوٹ ان کے حوالے کرتے ہوئے کہا: "یہ لو مقامی کرنسی، کھانے پینے کی چیزیں خرید لو اور ہاں رسی بھی خرید کر لانا۔”
جبران اور دانیال کے جانے کے بعد فیونا ایک دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔ اس نے اسی کونے والی ماربل اینٹ ہی پر نظریں جمائے رکھیں۔ اسے پتا ہی نہیں چلا اور وہ نیند کی وادیوں میں اتر گئی۔ اس نے ایک جھٹکا کھایا اور مڑ کر دیکھنے لگی۔ اس کے سامنے دھند سی چھائی ہوئی تھی۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ قلعۂ آذر کے ایک کمرے کی چھت کے قریب ہوا میں کسی تتلی کی طرح منڈلا رہی ہے۔ نیچے میز پر ایک اعلیٰ قسم کا فیتے والا خوب صورت میز پوش نظر آ رہا تھا۔ میز پر سنہری رنگ کا شمع دان رکھا تھا جس میں گلابی رنگ کی موم بتیاں جل رہی تھیں۔ گل دان گیندے، سوسن اور گلاب سے بھرے ہوئے تھے، جن میں گندم کی ڈنٹھل بھی دکھائی دے رہی تھی۔ میز پر طرح طرح کے کھانے سجے ہوئے تھے جن کی خوش بوؤں سے کمرا مہک رہا تھا۔ ماحول بے حد پر سکون تھا۔ اچانک فیونا کو آوازیں سنائی دینے لگیں اور پھر بہت سارے لوگ کمرے میں داخل ہوئے۔ ایسے میں فیونا نے منقش شیشے والی کھڑکی کو غور سے دیکھا۔ اس نے کمرے میں داخل ہونے والوں میں بادشاہ کیگان کو پہچان لیا۔ بادشاہ نے ترشے ہوئے سفید پشم کے ساتھ سرخ عبا پہن رکھا تھا اور اس کے سر پر خالص سونے کا تاج دھرا تھا جو، روبی، نیلم اور زمرد سے سجا ہوا تھا۔ اس کے دائیں طرف بادشاہ کی ملکہ تھی اور چند بچے چھوٹے چھوٹے قدموں سے اس کے آس پاس پھر رہے تھے۔ ان سب نے شاہی لباس پہن رکھا تھا۔ آتش دان کے پاس مسخرے اور شعبدہ باز کھڑے اس شاہی خاندان کو اپنے ہنر سے خوش کر رہے تھے۔ شاہی خاندان اور ان کے دوست کھانے کی میز کے گرد اکھٹے ہو گئے۔
اچانک سارا محل خطرے کی گھنٹیوں سے گونج اٹھا۔ ملکہ نے فوراً خطرہ محسوس کر کے بچوں کو اکٹھا کیا اور کمرے سے باہر نکال کر ایک دوسرے کمرے میں لے گئی۔ اسی وقت چوبی ڈھالوں اور اسٹیل کی چمکتی تلواروں سے مسلح افراد اندھا دھند کھانے کے کمرے میں گھسے چلے آئے۔ ان کے سامنے جو بھی آیا، اسے ان حملہ آوروں نے تلواروں سے کاٹ کر رکھ دیا۔ چند ہی لمحوں میں وہ کچھ ہوا جس کا کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ بادشاہ فرش پر تڑپ رہا تھا۔ اس کے اردگرد اس کے مہمان خون میں ڈوبے پڑے تھے۔ اسی لمحے فیونا کو کمرے کے باہر سے چیخنے کی آوازیں سنائی دیں۔ وہ سمجھ گئی کہ ملکہ اور بچے بھی ان ظالموں سے نہیں بچ سکے۔
یہ اتنا دل دوز منظر تھا کہ فیونا شدت غم سے سسکیاں بھرنے لگی۔ عین اسی وقت اچانک بادشاہ کیگان نے گردن موڑ کر اوپر فیونا کی آنکھوں میں دیکھا۔ یکایک تلوار چمکی اور کسی نے بادشاہ کا سر تن سے جدا کر دیا۔ فیونا خوف کے مارے چھت کے ساتھ دُبک گئی۔ ایک شخص اندر داخل ہوا اور اس نے بادشاہ کیگان کی کٹی ہوئی گردن سے ہار کھینچ لیا۔ کئی اور افراد نے ملکہ اور بچوں کی لاشیں گھسیٹتے ہوئے اندر لا کر بادشاہ کے قریب ڈھیر کر دیں۔
کمرے کو نذر آتش کرنے سے قبل ایک شخص نے شاہی خاندان کی لاشوں پر تیل چھڑک دیا۔ یہ منظر کہیں زیادہ تکلیف دہ تھا۔ فیونا اسے دیکھنے کی تاب نہ لا سکی اور ہوا میں تیرتے ہوئے کمرے سے نکل گئی۔ کچھ ہی دیر میں کمرے میں آگ کے سرخ شعلے چھت کو چھونے لگے۔
فیونا آنکھیں کھول کر اٹھی۔ اس کے گالوں پر آنسوؤں کی لکیریں بنی ہوئی تھیں۔ اس نے گال صاف کیے۔ وہ یہ جان کر بڑی خوش ہوئی کہ وہ محض ایک خواب تھا۔ اس نے اپنے دل میں یہ عزم کیا کہ وہ تمام قیمتی پتھر حاصل کر کے انھیں جادوئی گیند پر واپس رکھ دے گی۔ وہ بڑبڑ انے لگی: "میں اپنے جد امجد بادشاہ کیگان کا اقبال مزید بلند کرنے کے لیے جادوئی گولے کو پھر سے مکمل کر کے رہوں گی۔”
(جاری ہے….)