Tag: پشاور ریلوے اسٹیشن

  • ریلوے اسٹیشن پر ملزم 2 کلو چرس سمیت گرفتار

    ریلوے اسٹیشن پر ملزم 2 کلو چرس سمیت گرفتار

    پشاور کی ریلویز پولیس نے اسٹیشن پر ملزم کو 2 کلو چرس سمیت گرفتار کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق ریلویز پولیس کی منشیات کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں، پشاور اسٹیشن پر ایک ہفتے کے دوران دوسری کارروائی میں ریلوے پولیس نے ایک ملز م کو منشیات سمیت گرفتار کر لیا۔

    ریلویز پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم امیر حمزہ دو کلو چرس پشاور سے لاہور اسمگل کرنا چاہتا تھا، ملزم کو گرفتار کرکے تھانہ ریلویز پولیس پشاور کینٹ میں مقدمہ درج کرلیا گیا۔

    گزشتہ ہفتے بھی ریلوے پولیس پشاور نے ایک کارروائی میں مسافر کے سامان سے لاکھوں روپے مالیت کی بھاری مقدار میں ہیروئن برآمد کی تھی۔

    اس سے قبل کوئٹی ریلوے پولیس نے مچ اسٹیشن پر جعفر ایکسپریس کے مسافر سے منشیات برآمد ہونے پر گرفتار کر لیا تھا۔

    ریلوے پولیس کے مطابق خفیہ اطلااع کے بعد ایس پی ریلوے پولیس وزیر علی کی ہدایت پر مچ اسٹیشن پر چیکنگ کرتے ہوئے ٹرین میں سوار مسافر اعتزاز کے سامان جوس اور لاثانی شیٹ کے ٹکڑوں سے بنے ڈبوں سے چھ کلو چرس برآمد ہوئی، جس پر ملزم کو گرفتار کر کے چرس قبضے میں لے لی گئی تھی۔ پولیس نے بتایا کہ ملزم منشیات سندھ اسگل کر رہا تھا ۔

  • پشاور سے لنڈی کوتل تک چلنے والی سفاری ریل گاڑی

    پشاور سے لنڈی کوتل تک چلنے والی سفاری ریل گاڑی

    خیبر پختونخوا کے پشاور ریلوے اسٹیشن سے ملک کے مختلف علاقوں کے مسافر ریل گاڑیوں کے ذریعے سفر کرتے ہیں جب کہ 1947 سے 1982 تک ہر اتوار کو ایک ریل گاڑی لنڈی کوتل تک جاتی تھی۔

    پشاور سے لنڈی کوتل تک یہ ریلوے ٹریک انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے اندر سے گزرتا تھا  جس کے لیے  ریلوے کو  دو  تین  روز  قبل ایئر پورٹ حکام  سے اجازت لینا پڑتی تھی۔ بعد میں یہ ٹریک بند کر دیا گیا۔ سفاری ریل گاڑی کا ٹریک پچاس کلو میٹر طویل بتایا جاتا ہے۔ اس سفاری ریل گاڑی کا سلسلہ جو پشاور سے لنڈی کوتل تک سفر کی سہولت دیتی تھی، 2007 میں مکمل طور پر ختم کر دیا گیا تھا۔ ان راستوں میں کئی پُل اور چھوٹے چھوٹے پلیٹ فارم یا مختلف نشانیاں برطانوی راج کی یادگار کہے جاسکتے ہیں۔

    پشاور سے لنڈی کوتل تک سفر کے دوران آپ کو  اُس دور کے تعمیر کردہ 92 چھوٹے بڑے پُل دیکھنے کو ملتے ہیں، جن میں سے زیادہ تر  اب بھی درست حالت میں ہیں۔ ان پلوں کے نیچے سے روزانہ کئی چھوٹی بڑی گاڑیاں گزرتی ہیں۔ یہ تمام مقامات پہاڑی اور پتھریلے ہیں اور اکثر یہ راستے نئے مسافروں کی توجہ حاصل کر لیتے ہیں۔ کئی مقامات پر ریل گاڑی پہاڑوں کے درمیان سے گزرتی تو عجیب نظارہ ہوتا۔ سفاری ٹرین کے مسافر اور اس زمانے میں سیاحت کی غرض سے آنے والوں کے لیے وہ مناظر خاص کشش کا باعث بنتے۔ کہتے ہیں اس ٹرین کے ذریعے ان علاقوں تک جانے میں غیر ملکی سیاح خاص دل چسپی رکھتے تھے۔ اسی سفاری ٹرین میں ہائی کمیشن آف یورپ کا 15 رکنی وفد بھی سیر کر چکا ہے۔

    یہاں کئی مقامات پر  پہاڑی  سرنگیں بنائی گئیں جن کی تعداد 34 ہے جن میں سے بیش تر کے دہانے لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے بند ہو چکے ہیں۔ ان کی کوئی دیکھ بھال نہیں کی گئی جس کے بعد اب یہ سرنگیں اور اس ٹریک پر پرانے زمانے کی تعمیرات یعنی پُل وغیرہ اب صرف اجڑی ہوئی یادگار ہیں۔ تاہم بہت پرانی اور چند دہائیوں قبل ان مقامات کی کھینچی گئی تصاویر دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔