Tag: پشاور ہائیکورٹ

  • جسٹس اشتیاق ابراہیم: بار ایسوسی ایشن کے صدر سے چیف جسٹس بننے تک کا سفر

    جسٹس اشتیاق ابراہیم: بار ایسوسی ایشن کے صدر سے چیف جسٹس بننے تک کا سفر

    پشاور: پشاور ہائیکورٹ کے قائمقام چیف جسٹس جسٹس اشتیاق ابراہیم نے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق جسٹس اشتیاق ابراہیم قائمقام چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ بن گئے، ہائیکورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس اعجاز انور نے قائمقام چیف جسٹس سے حلف لیا، ہائیکورٹ کے کورٹ روم نمبر ون میں منعقدہ حلف برداری تقریب میں ہائیکورٹ کے ججز، ایڈووکیٹ جنرل شاہ فیصل اتمانخیل، ایڈیشنل اٹارنی جنرل ثنا اللہ، ہائیکورٹ اسٹاف اور وکلا نے شرکت کی۔

    انھوں نے چیف جسٹس محمد ابراہیم خان کی ریٹائرمنٹ کے بعد قائمقام چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ کا حلف اٹھایا ہے۔

    تعلیم

    جسٹس اشتیاق ابراہیم 2 دسمبر 1969 میں پشاور میں پیدا ہوئے، 1985 میں یونیورسٹی پبلک اسکول پشاور سے ثانوی تعلیم حاصل کی، گورنمنٹ کالج پشاور سے 1987 میں ہائیر اسکول کی ڈگری حاصل کی اور 1989 میں گورنمنٹ کالج پشاور سے گریجویشن کیا۔ 1992 میں خیبر لا کالج پشاور یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی اور وکالت کا شعبہ اختیار کیا۔

    پروفیشنل کیریئر

    18 مئی 1993 میں لویر کورٹ لائسنس حاصل کیا اور 11 مارچ 1995 کو ہائیکورٹ کے وکیل بن گئے، 26 ستمبر 2008 کو سپریم کورٹ کا لائسنس حاصل کیا، جسٹس اشتیاق ابراہیم جب پریکٹس کر رہے تھے تو اس وقت فوجداری مقدمات کے چند نامور وکلا میں ان کا شمار ہوتا تھا۔

    1999 سے 2000 تک ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل، 2001 سے 2002 تک اسپیشل پراسیکیوٹر نیب رہے اور 2008 سے 2010 تک ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا کے عہدے پر تعینات رہے۔

    پشاور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے عہدوں سے چیف جسٹس بننے تک کا سفر

    جسٹس اشیتاق ابراہیم پشاور ہائیکورٹ بار میں بھی مختلف عہدوں پر رہے، وہ 1998 سے 1999 تک پشاور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے جوائنٹ سیکریٹری رہے، 2007 سے 2008 تک ہائیکورٹ بار کے جنرل سیکریٹری اور 2013 سے 2014 تک پشاور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر بھی رہے ہیں۔

    بطور ہائیکورٹ جج تعیناتی

    جسٹس اشتیاق ابراہیم 11 اگست 2016 کو پشاور ہائیکورٹ کے ایڈیشنل جج تعینات ہوئے، اور یکم جون 2018 کو پشاور ہائیکورٹ کے مستقل جج بن گئے۔

    جسٹس اشتیاق ابراہیم کے بارے میں وکلا کی رائے

    سپریم کورٹ کے وکیل فضل شاہ مہمند ایڈووکیٹ نے بتایا کہ اس وقت جو حالات ہیں، ایسے میں جسٹس اشتیاق ابراہیم کا پشاور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس بننا انتہائی خوش آئند بات ہے، وہ جب وکیل تھے تو بار کی سیاست میں بھی متحرک تھے اور ہمیشہ آئین و قانون پر عمل درآمد اور عدلیہ کی خودمختاری کے لیے آواز اٹھاتے رہے ہیں۔

    انھوں نے کہا 2007 کے وکلا موومنٹ میں اشتیاق ابراہیم ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری تھے، اس تحریک کا آغاز بھی پشاور سے ہوا تھا اور ہائیکورٹ بار نے پشاور ہائیکورٹ میں آل پاکستان کلا کنونشن منعقد کرایا تھا۔

    علی گوہر درانی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ جسٹس اشتیاق ابراہیم پروگریسیو سوچ والے جج ہیں، ان کی عدالت میں وکلا جب دلائل دیتے ہیں تو ان کو بڑے تحمل سے سنتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انھوں نے بڑے اچھے فیصلے کیے ہیں، امید ہے کہ وہ بطور چیف جسٹس ہائیکورٹ میں مزید اصلاحات لائیں گے۔

    علی گوہر درانی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ پشاور ہائیکورٹ نے ہمیشہ آئین و قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنایا ہے اور جسٹس اشتیاق ابراہیم بطور چیف جسٹس اس کو مزید آگے لے کر جائیں گے۔

  • ایف آئی اے کو شاندانہ گلزار کے خلاف کارروائی سے روک دیا گیا

    ایف آئی اے کو شاندانہ گلزار کے خلاف کارروائی سے روک دیا گیا

    پشاور : پشاور ہائیکورٹ نے ایف آئی اے کو شاندانہ گلزار کے خلاف کارروائی سے روک دیا اور فریقین کو جواب جمع کرانے کی ہدایت کردی۔

    تفصیلات کے مطابق پشاور ہائیکورٹ میں ایف آئی اے نوٹس کے خلاف شاندانہ گلزار کی درخواست پرسماعت ہوئی،

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا درخواست کے دائرہ اختیار پر اعتراض ہے، شاندانہ گلزار کو یہ نوٹس لاہور سے جاری ہوا، جس پر عدالت نے کہا ایف آئی اے لاہور اس صوبے کے رہائشی کے خلاف کیسے انکوائری کرتی ہے؟

    عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ایف آئی اے آفس صرف لاہور میں ہےکسی اور جگہ نہیں ؟ تو وکیل نے بتایا درخواست گزار پراداروں کے خلاف پروپیگنڈے کا الزام ہے۔

    جسٹس سید ارشد علی نے کہا ہمیں بتا دیں ان پر الزام کیا ہے ، اس نے کیا وائلیشن کی ہے، نوٹس ایف آئی اے لاہور نے دیا تو یہاں پر کیسے آپ کیس کرسکتے ہیں، شاندانہ گلزار ایم این اے ہیں ، ان کے خلاف کیا الزامات ہیں؟

    جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا انہوں نے قومی اداروں کے خلاف منفی پروپیگنڈاکیا ہے تو جسٹس سید ارشد علی کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف الزامات کیا ہے وہ ہمیں بتا دیں۔

    عدالت نےایف آئی اے کو شاندانہ گلزار کےخلاف کارروائی سے روک دیا اور فریقین کوجواب جمع کرانےکی ہدایت کرتے ہوئے سماعت پچیس مارچ تک ملتوی کردی۔

  • مزید پڑھنے نہیں دیا جا رہا، ایل ایل بی ڈگری والے قیدی نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا دیا

    مزید پڑھنے نہیں دیا جا رہا، ایل ایل بی ڈگری والے قیدی نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا دیا

    پشاور: خیبر پختون خوا سے تعلق رکھنے والے شہری طفیل ضیا نے پشاور ہائی کورٹ سے درخواست کی ہے کہ وہ ایل ایل بی کر چکے ہیں لیکن مزید پڑھنا چاہتے ہیں اور انھیں اجازت نہیں دی جا رہی، عدالت مزید پڑھنے کی اجازت دے۔

    تفصیلات کے مطابق پشاور سنٹرل جیل میں قید ملزم طفیل ضیا نے پشاور ہائیکورٹ میں نعمان محب کاکاخیل ایڈووکیٹ کی وساطت سے درخواست دائر کی ہے، جس میں صوبائی حکومت، آئی جی جیل خانہ جات اور جیل انتظامیہ کو فریق بنایا گیا ہے، اور مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ وہ دوران قید تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے، اور ایم فل پولیٹیکل سائنس میں داخلہ لینا چاہا لیکن اجازت نہیں دی گئی۔

    درخواست میں کہا گیا کہ طفیل ضیا نے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی ہے اور وہ وکیل ہے اور مزید تعلیم کا خواہش مند ہے، اسلامیہ کالج یونیورسٹی نے ایم فل پولیٹکل سائنس میں داخلے کا اشتہار دیا ہے، درخواست گزار نے جیل سے پولیٹکل سائنس میں ایم فل داخلے کے لیے اپلائی کیا، اسکریننگ ٹیسٹ بھی دیا جس میں ٹاپ 10 میں ان کا نام آیا۔

    درخواست گزار نے کہا کہ اس نے انٹرویو بھی دیا ہے، لیکن جیل میں ہونے کی وجہ سے اس کو داخلہ نہیں دیا گیا، تعلیم حاصل کرنا ہر شہری کا آئینی اور قانونی حق ہے، جیل میں قید ملزم کو بھی تعلیم حاصل کرنے کا حق ہے، اس لیے درخواست گزار کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی جائے اور ویڈیو لنک کے ذریعے ٹیوٹر بھی فراہم کیا جائے۔ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ ملزم انڈر ٹرائل ہے اور ایف آئی آر میں ڈائریکٹ چارج بھی نہیں ہے۔

    نعمان محب کاکاخیل ایڈووکیٹ کے مطابق درخواست گزار طفیل ضیا نے ایل ایل بی کیا ہوا ہے اور وہ وکیل ہیں، اس وقت پشاور جیل میں قید ہیں اور وہ مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ایم فل پولیٹکل سائنس میں داخلہ لینے کا خواہش مند ہیں، لیکن یونیورسٹی کی جانب سے داخلہ لینے سے معذرت کی گئی ہے۔

    نعمان محب کاکاخیل کے مطابق قانون میں جیل میں قید انڈر ٹرائل ملزم کو تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل ہے، کوئی بھی ملزم جو انڈر ٹرائل ہو اور تعلیم حاصل کرنے کا خواہش مند ہو وہ داخلے کے لیے اپلائی کر سکتا ہے۔ وکیل نے بتایا کہ ملزم طفیل کو جس کیس میں گرفتار کیا گیا ہے اس ایف آئی آر میں وہ براہ راست نامزد نہیں ہیں، انھیں سہولت کاری کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ ملزم طفیل ضیا کو جوڈیشل کمپلیکس پشاور کے کمرہ عدالت کے اندر ایک شخص کو قتل کرنے کے واقعے میں مرکزی ملزم کی سہولت کاری کا الزام ہے۔

  • وزارت عظمیٰ کیلئے نامزد امیدوار عمر ایوب حفاظتی ضمانت کے لئے عدالت پہنچ گئے

    وزارت عظمیٰ کیلئے نامزد امیدوار عمر ایوب حفاظتی ضمانت کے لئے عدالت پہنچ گئے

    پشاور : پی ٹی آئی کی جانب سے وزارت عظمیٰ کیلئے نامزد عمر ایوب حفاظتی ضمانت کے لئے عدالت پہنچ گئے ، عدالت نے عمرایوب کی ایک ماہ کے لئے راہداری ضمانت منظور کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی کی جانب سے وزارت عظمیٰ کیلئے نامزد عمر ایوب نے پشاور ہائیکورٹ میں حفاظتی ضمانت درخواست دائر کی ، وکلا نے کہا کہ عمر ایوب کے خلاف پنجاب ،کے پی میں مقدمات درج ہیں۔

    پشاور ہائی کورٹ میں عمر ایوب کی حفاظتی ضمانت کی درخواست پر سماعت وکیل درخواست گزار نے بتایا 4 مقدمات لاہور میں ہیں، 2 اسلام آباد اور 13 راولپنڈی میں جبکہ 3 مقدمات اٹک اور ایک مقدمہ گوجرانوالہ میں درج ہے۔

    جس پر چیف جسٹس پشاورہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ یہ تو 23 مقدمات بنتے ہیں تو وکیل نے کہا کہ ہم نے 24 درخواستیں جمع کی ہیں شائد آفس سے رہ گئی ہو، ہماری درخواست ہے کہ زیادہ وقت دیا جائے، درخواست گزار وزارت عظمیٰ کے امیدوار بھی ہیں۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایک عدالت میں روزانہ بھی پیش ہوں تو 24 دن لگیں گے، اے اے جی دانیال چمکنی نے کہ ایک مہینے کا ٹائم دے دیں، تو جسٹس محمد ابراہیم خان کا کہنا تھا کہ ہم نے قانون کے مطابق چلنا ہے۔

    وکیل نے کہا کہ کچھ ضمنی میں بھی چارج کیا ہوگا تو عدالت حکم دے گرفتار نہ کیا جائے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پشاور ہائی کورٹ نے ضمانت دی ہے اب کوئی گرفتار نہیں کرے گی۔

    پشاور ہائی کورٹ نے عمر ایوب کی ایک ماہ کے لئے راہداری ضمانت منظورکرلی اور ایک ماہ میں آپ متعلقہ عدالتوں میں پیش ہونے کی ہدایت کردی۔

  • پشاور ہائیکورٹ کا افغان خواجہ سراؤں کو ہراساں نہ کرنے کا حکم

    پشاور ہائیکورٹ کا افغان خواجہ سراؤں کو ہراساں نہ کرنے کا حکم

    پشاور: پشاور ہائیکورٹ نے افغان خواجہ سراؤں کو ہراساں نہ کرنے کا حکم جاری کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق 16 افغان خواجہ سراؤں کو وطن واپس بھیجنے کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس شکیل احمد اور جسٹس وقار احمد پر مشتمل بینچ نے رجسٹرڈ افغان مہاجرین خواجہ سراؤں کو تنگ نہ کرنے کی ہدایت کر دی۔

    وکیل درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی کہ درخواست گزاروں کو جبری طور پر ملک بدر نہ کیا جائے، حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ تمام غیر ملکیوں کو وطن واپس بھیجا جائے گا، تاہم افغانستان میں خواجہ سراؤں کی جان کو خطرہ ہے اس لیے واپس نہ بھیجا جائے۔

    وکیل نے عدالت کو بتایا کہ رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو بھی ہراساں کیا جا رہا ہے، جس سے ملک کی بدنامی ہوری ہے، پی او آر کارڈ اور دیگر دستاویز کے باوجود بھی درخواست گزاروں کو تنگ کیا جا رہا ہے۔

    وکیل ممتاز خان نے بتایا کہ طالبان کی حکومت جب سے آئی ہے خواجہ سراؤں کو وہاں پر جان کا خطرہ ہے، اس لیے ان کو زبردستی واپس افغانستان نہ بھیجا جائے، پناہ گزینوں کو بھی حقوق حاصل ہوتے ہیں، اس وقت افغانستان میں گلوکاروں کے ساتھ خواجہ سراؤں کو بھی روزگار کی اجازت نہیں ہے، اس لیے ان کے لیے وہاں پر زندگی گزارنا مشکل ہے۔

    عدالت نے استفسار کیا کہ کیا یہ غیر ملکی نادرا کے پاس رجسٹرڈ ہیں؟ جج نے ریمارکس میں کہا غیر ملکیوں کو وہ حقوق حاصل نہیں ہوتے جو ملک کے شہریوں کوحاصل ہوتے ہیں، اگر غیر ملکیوں کے پاس ویزہ ہے اور وہ ایکسپائر نہیں تو پھر تو پاکستان میں رہ سکتے ہیں۔

    عدالت نے افغان خواجہ سراؤں کی رٹ پٹیشن افغان گلوکارہ کیس کے ساتھ کلب کر دی۔

  • پشاور ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی انتخابی نشان کیس کی سماعت ، آج فیصلہ متوقع

    پشاور ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی انتخابی نشان کیس کی سماعت ، آج فیصلہ متوقع

    پشاور : پشاور ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی انتخابی نشان کیس کی سماعت جاری ہے، جسٹس اعجازانور نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن شیڈول کے بعد کیسے انتخابی نشان کا فیصلہ کرسکتے ہیں؟

    تفصیلات کے مطابق پشاورہائیکورٹ میں پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن اور انتخابی نشان کیس پر سماعت ہوئی، جسٹس اعجاز انور ، جسٹس سید ارشد علی پر مشتمل 2 رکنی بنچ نے سماعت کی۔

    پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن پر اعتراض کرنے والے فریقین کے وکیل قاضی جواد ایڈووکیٹ نے دلائل میں کہا کہ میرے موکل پی ٹی آئی کے سابق ضلعی جنرل سیکریٹری رہے ہیں ، میرے موکل کو میڈیا سے پتہ چلا کہ انٹرا پارٹی انتخابات ہورہے ہیں، میرےموکل الیکشن میں حصہ لینا چاہتے تھے لیکن ان کو موقع نہیں دیا گیا۔

    جسٹس اعجاز انور کا کہنا تھا کہ آپ نے یہ نہیں کہا کہ انٹرا پارٹی الیکشن دوبارہ کرائے جائیں ، انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قراردیےگئے،آپ کو چاہیےتھا دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کرتے، آپ اگر پارٹی سے تھے تو پارٹی نشان واپس لینے پر آپ کو اعتراض کرنا چاہیے تھا، آپ نےپارٹی نشان واپس لیےجانےپراعتراض نہیں کیا۔

    جس پر وکیل نے کہا کہ ہمیں تو انتخابات میں موقع نہیں دیا گیا جس کے خلاف الیکشن کمیشن گئے، انٹرا پارٹی انتخابات پورے ملک کے لیے ہیں تو
    جسٹس ارشد علی نے استفسار کیا ہائیکورٹ صرف صوبے کو دیکھ سکتی ہے، کیا ہر صوبے میں الگ الگ کیس کرنا چاہیے تھا ان کو؟ انٹرا پارٹی الیکشن پشاور میں ہوا تو یہاں پر کیسے کیس نہیں کرسکتے۔

    جسٹس اعجاز انور نے بھی استفسار کیا انٹراپارٹی الیکشن میں تمام ممبران الیکٹ ہوئےیاصرف صوبےکی حد تک؟ وکیل نے بتایا کہ انٹرپارٹی الیکشن میں پورے ملک کے نمائندے منتخب ہوئے۔

    جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس میں کہا کہ یہاں پر الیکشن ہوا اور الیکشن کمیشن نے اس کو کالعدم قرار دیا ،انٹرا پارٹی الیکشن پشاور میں ہوا ہے تو اس کو یہاں کیوں چیلنج نہیں کیا جاسکتا، جس پر وکیل کا کہنا تھا کہ یہ تو لاہور ہائیکورٹ بھی گئےتھےوہاں پر ان کی درخواست خارج ہوئی۔

    جسٹس اعجاز انورنے مزید کہا کہ لاہورہائیکورٹ نےآرڈرمیں لکھا کیس پشاورہائیکورٹ ،سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے،لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ کو فیصلہ کرنے دیں۔

    دوران سماعت اکبرایس بابر نے اپنے بیان میں کہا کہ بہترہوتاپشاور ہائیکورٹ ہمیں بھی سنتی، ہم پشاورہائیکورٹ کو ثبوت دیتے، فیصلہ صادر کرنےسے پہلے ہمیں بھی سناجاتا، پی ٹی آئی نے انٹراپارٹی الیکشن کے نام پرفراڈ کیا،انٹراپارٹی الیکشن کا مقام تک خفیہ رکھا گیا۔

    اکبر ایس بابر کا کہنا تھا کہ انٹراپارٹی الیکشن کےنام پر ہونیوالےفراڈکےتمام ثبوت ہیں، ہمیں ہائیکورٹ نے نوٹس نہیں دیے، فارن فنڈنگ کیس میں 200 سے زائد پیشیاں ہوئیں، تحریک انصاف نے متعدد رٹ پٹیشن دائر کیں، پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کرنا پی ٹی آئی کا حق ہے، اس سے پہلے یہ روایت نہیں تھی۔

    سابق رہنما نے کہا کہ الیکشن کمیشن کےبازو مضبوط کرنے کےبجائےباندھےجا رہے ہیں، پڑوسی ملک میں الیکشن کمیشن کےمعاملات میں مداخلت نہیں ہوتی۔

    جج نے ریمارکس دیئے الیکشن شیڈول جاری ہو جائےتوکیسے آپ کسی کےانتخابی نشان کا فیصلہ کر سکتے ہیں؟ کیا کوئی پارٹی بغیر انتخابی نشان کے انتخابات میں حصہ لے سکتی ہے؟ وکیل شکایت کنندہ نے بتایا کہ 1985 میں بھی غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات ہوئے تو جسٹس اعجاز انور کا کہنا تھا کہ وہ تو مارشل لاء کا دور تھا۔

    جسٹس سید ارشد علی نے استفسار کیا کہ اگر ایک پارٹی کو نشان مل جائے تو آپ کو کیا نقصان ہوگا؟ شکایت کنندہ کے وکیل نے دلائل دیے کہ جو پارٹی قانون کےمطابق پارٹی الیکشن نہیں کراسکتی توکیوں سپورٹ کریں، انتخابی نشان بدلتے رہتے ہیں ہر الیکشن کیلئے نیا نشان بھی دیا جاسکتا ہے۔

    جسٹس اعجاز انوار نے کہا کہ آپ بھی یہ کہہ رہے ہیں انٹراپارٹی الیکشن ٹھیک نہیں ، نشان واپس لینا ٹھیک ہے، سوال کیا کہ کیا آپکی درخواست پرالیکشن کمیشن نےانٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دیا ۔ کیا سپریم کورٹ میں درخواست واپس لی گئی ہے، جس پر وکلا نے عدالت کو بتایا کہ جی سپریم کورٹ سے درخواست واپس لے لی گئی ہے۔

    جسٹس سید ارشد علی نے سوال کیا کہ الیکشن کاعمل ٹھیک نہیں تھا تو شوکاز جاری کیا گیا وہ کہاں ہے؟ وکیل شکایت کنندہ نے کہا کہ 7 دسمبر کو ان کو نوٹس جاری کیا گیاتھا، جس پر جسٹس اعجاز انور استفسار کیا نوٹس میں کہاں لکھاہےالیکشن ایکٹ 208 ، 209 کی خلاف ورزی ہوئی، شوکاز تو 2021 میں دیا گیا،اس کے بعد تو کوئی جاری نہیں کیا گیا۔

    شکایت کنندہ کی طرف سے طارق آفریدی ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ دائرہ اختیارپربات کروں گاکہ درخواست عدالت سن سکتی ہے یا نہیں، جس پر عدالت نے کہا کہ آپ سے پہلے وکیل صاحب نے بھی دائرہ اختیار پر ایک گھنٹہ دلائل دیے،انہوں نے جو نکات اٹھائےاس کےعلاوہ کوئی ہےتوبتائیں۔

    طارق آفریدی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی لیول پلیئنگ فیلڈکی بات کررہی ہےتواپنےکارکنوں کوبھی یہ فیلڈدے، پارٹی کے کارکنوں کو پتہ نہیں تھا کہ الیکشن کہاں پرہیں، پھرایک بلبلا اٹھااورانٹراپارٹی الیکشن ہوئے، جس پر جسٹس اعجازانور نے ریمارکس دیئے پھروہ بلبلا بھی پھٹ گیا، یہاں پر کبھی کون تو کبھی کون لاڈلا بن جاتا ہے، آپ سیاسی باتیں نہ کریں قانونی نقطے پر آجائے۔

    وکیل شکایت کنندہ نے کہا کہ یہ خود لیول پلیئنگ فیلڈ مانگ رہے ہیں، ہم نےبھی لیول پلیئنگ فیلڈ مانگی تھی تو جسٹس اعجاز انورکا کہنا تھا کہ آپ بھی یہ کہہ رہے ہیں انٹراپارٹی الیکشن ٹھیک نہیں ،نشان واپس لینا ٹھیک ہے۔

    جس پر وکیل نے بتایا کہ جوپارٹی قانون کےمطابق پارٹی الیکشن نہیں کراسکتی توکیوں سپورٹ کریں، انتخابی نشان بدلتے رہتے ہیں ہر الیکشن کیلئے نیا نشان بھی دیا جاسکتا ہے، شکایت کنندہ پارٹی ممبر ہے ان کو پارٹی سے نکالا گیا، جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیئے ہم اس پر نہیں جاتے کہ یہ پارٹی ممبر تھےیانہیں، آپ کی درخواست پرالیکشن کمیشن نےانٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دیا۔

  • پی ٹی آئی کو قانون کے تحت جلسوں کی اجازت ہے، عدالتی فیصلہ جاری

    پی ٹی آئی کو قانون کے تحت جلسوں کی اجازت ہے، عدالتی فیصلہ جاری

    پشاور: پشاور ہائیکورٹ نے ایک فیصلے میں قرار دیا ہے کہ دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح پاکستان تحریک انصاف کو بھی انتخابی جلسے کرنے کا حق حاصل ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کی الیکشن مہم کے لیے جلسوں کی اجازت کی درخواست پر فیصلہ جاری کر دیا، تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کو قانون کے تحت جلسوں کی اجازت ہے، یہ قانونی حق استعمال کر کے وہ انتخابی مہم چلا سکتی ہے۔

    عدالت نے کہا کہ کسی ایک سیاسی جماعت کو اس کے حق سے دور نہیں کیا جا سکتا، نگراں حکومت شفاف الیکشن کے انعقاد کے لیے اقدامات اٹھائے۔

    عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزاروں کو اپنی انتخابی مہم چلانے کی اجازت ہے، تاہم پی ٹی آئی کنونشن یا جلسے کے لیے پہلے انتظامیہ سے اجازت لے، جب کہ انتظامیہ قانون اور الیکشن ایکٹ کے مطابق جلسے کی اجازت دے۔

    12 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس اعجاز انور نے تحریر کیا ہے۔

  • خیبرپختونخوا میں الیکشن کی تاریخ نہ دینے پر پی ٹی آئی نے پشاور ہائیکورٹ پہنچ گئی

    خیبرپختونخوا میں الیکشن کی تاریخ نہ دینے پر پی ٹی آئی نے پشاور ہائیکورٹ پہنچ گئی

    پشاور : خیبرپختونخوا میں الیکشن کی تاریخ نہ دینے پر پی ٹی آئی نے پشاور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کردی، جس میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت گورنر کو فوری الیکشن کیلئے تاریخ دینے کا حکم دے۔

    تفصیلات کے مطابق پشاور ہائیکورٹ میں کے پی میں انتخابات کی تاریخ نہ دینے کیخلاف درخواست دائر کردی گئی ، درخواست اسپیکرخیبرپختونخوااسمبلی مشتاق غنی کی جانب سے دائر کی گئی۔

    درخواست میں کہا گیا ہے کہ گورنر خیبرپختونخوا نے انتخابات کیلئے8اکتوبرکی تاریخ دی ہے، گورنرنےپہلے28مئی کی تاریخ کااعلان کیالیکن الیکشن کمیشن نےاسےنوٹیفائی نہیں کیا۔

    درخواست میں کہا ہے کہ آئین کیمطابق اسمبلی تحلیل ہونےکے90دن کےاندرانتخابات کرانالازمی ہے، استدعا ہے کہ 90 دن میں اگر انتخابات نہیں ہوسکتے تو کم سے کم وقت میں کرائے جائیں۔

    درخواست گزار کا کہنا تھا کہ گورنر کی جانب سے 8 اکتوبر کی تاریخ غیر آئینی وغیرقانونی ہے، سپریم کورٹ نےالیکشن کمیشن کی8اکتوبر کی تاریخ کو کالعدم قرار دیا ہے، سپریم کورٹ نےبھی فیصلہ دیا،الیکشن کمیشن اس پرعملدرآمدکاپابند ہے۔

    درخواست کے مطابق معاشی بحران یا سیکیورٹی کا بہانہ بناکر انتخابات ملتوی نہیں کرائے جاسکتے، عدالت گورنر کو فوری الیکشن کیلئے تاریخ دینے کا حکم دے۔

    دائر درخواست میں صدر، وفاقی وصوبائی حکومت،الیکشن کمیشن، گورنرکےپی اور فریق بنایا گیا ہے۔

  • پہلی خاتون قائمقام چیف جسٹس مسرت ہلالی کون ہیں؟

    پہلی خاتون قائمقام چیف جسٹس مسرت ہلالی کون ہیں؟

    پشاور: جسٹس مسرت ہلالی نے پشاور ہائیکورٹ کی پہلی خاتون قائمقام چیف جسٹس کا حلف اٹھا لیا، دو دن میں پشاور ہائیکورٹ کے دو چیف جسٹس کی عہدوں سے سبکدوشی کے بعد، جسٹس مسرت ہلالی پشاور ہائیکورٹ کی تاریخ میں پہلی خاتون قائمقام چیف جسٹس کا عہدہ سنبھال لیا ہے۔

    جوڈیشل کمیشن کی جانب سے جب تک پشاور ہائیکورٹ کے مستقل چیف جسٹس کی تقرری نہیں کی جاتی، تب تک جسٹس مسرت ہلالی قائمقام چیف جسٹس کے فرائض انجام دیں گی۔

    جسٹس مسرت ہلالی 2013 کو پشاور ہائیکورٹ کی ایڈیشنل جج تعینات ہوئیں، پھر 2014 میں ہائیکورٹ کی مستقل جج بن گئیں۔ اس وقت جسٹس مسرت ہلالی پشاور ہائیکورٹ کی سینئر ترین جج ہیں، قائمقام چیف جسٹس روح الامین کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس مسرت ہلالی کو قائمقام چیف جسٹس ہائیکورٹ تعینات کیا گیا۔

    جسٹس مسرت ہلالی

    مسرت ہلالی 8 اگست 1961 کو پشاور میں پیدا ہوئیں، ان کا آبائی گاؤں ملاکنڈ ڈویژن میں ہے، انھوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد خیبر لا کالج پشاور یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی، اس کے بعد انھوں نے وکالت کا شعبہ اختیار کیا اور 1983 میں ڈسٹرکٹ کورٹس کا لائسنس حاصل کر لیا۔ 1988 میں ہائیکورٹ اور پھر 2006 میں سپریم کورٹ کی وکالت کا لائسنس حاصل کیا۔

    مختلف عہدوں پر تعیناتی

    جسٹس مسرت ہلالی خیبر پختون خوا کی پہلی بار وکیل تھیں جو 2001 سے 2004 تک ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے عہدے پر فائز رہیں۔ انوائرنمینٹل پروٹیکشن ٹربیونل کی پہلی خاتون چیئر پرسن اور پہلی صوبائی محتسب کا اعزاز بھی جسٹس مسرت ہلالی کو حاصل ہے۔

    جسٹس مسرت ہلالی وکالت کے ساتھ بار ایسوسی ایشن کی سیاست میں بھی سرگرم رہی ہیں، 1992 سے 1994 تک وہ بار ایسوسی ایشن کی پہلی خاتون نائب صدر کے عہدے پر تعینات رہیں۔ 1997 سے 1998 تک وہ بار ایسوسی ایشن کی پہلی خاتون جنرل سیکریٹری بھی رہی ہیں، اور 2007 سے 2009 تک سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی پہلی خاتون ایگزیکٹو ممبر بھی رہیں۔

    وکلا تحریک کے دوران ٹانگ کی ہڈی ٹوٹی

    2007 کی وکلا تحریک میں جسٹس مسرت ہلالی بھی دیگر وکلا کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی رہیں، وکلا احتجاج کے باعث پولیس وکلا کی گرفتاری کے لیے چھاپے مار رہی تھی، پولیس نے جسٹس مسرت ہلالی کے گھر پر بھی چھاپا مارا تو اس دوران ان کی ایک ٹانگ فریکچر ہو گئی تھی۔

    وکلا کیا کہتے ہیں؟

    پلوشہ رانی ایڈووکیٹ نے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ کی تاریخ کا انتہائی اہم دن ہے، ہائیکورٹ کی تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون جج نے آج قائمقام چیف جسٹس کا حلف اٹھایا ہے، وکالت کے شعبے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ خواتین کو اتنے مواقع نہیں ملتے لیکن جسٹس مسرت ہلالی نے خود کو منوایا، امید ہے جوڈیشل کمیشن جلد ان کی مستقل چیف جسٹس تقرری کی منظوری بھی دے گا۔

    پشاور ہائیکورٹ کی وکیل ندا خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ جسٹس مسرت ہلالی کا چیف جسٹس بننا پورے پاکستان کے لیے باعث فخر ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی جدوجہد کا نام ہے، یہ مقام انھوں نے اپنی محنت اور کوشش سے حاصل کیا ہے۔ ندا خان نے بتایا کہ نوجوان خواتین وکلا کے لیے جسٹس مسرت ہلالی مشعل راہ ہیں۔

    علی گوہر درانی ایڈووکیٹ نے کہا کہ جسٹس مسرت ہلالی نہ صرف ایک وکیل بلکہ سماجی کارکن بھی رہی ہیں، اور بار ایسوسی ایشن کی سیاست میں بھی فعال کردار ادا کیا ہے۔ وکلا تحریک میں وہ صف اول میں کھڑی رہیں، ان کی قابلیت ہی تھی جس کی وجہ سے ان کو ہائیکورٹ جج تعینات کیا گیا، جسٹس مسرت ہلالی اپنے کورٹ روم کو بھی بڑے بیلنس انداز میں چلاتی رہی ہیں، جس کی وجہ سے تمام وکلا ان کی عدالت میں کیس آرگو کرنا پسند کرتے ہیں۔

    جسٹس ہلالی نے پشاور ہائی کورٹ کی پہلی خاتون چیف جسٹس کی حیثیت سے حلف اٹھالیا

    علی گوہر درانی نے کہا کہ جسٹس مسرت ہلالی کی چیف جسٹس بننے سے خواتین نوجوان وکلا کو بہت حوصلہ ملا ہے ہم دیکھتے ہیں کہ خواتین وکلا وکالت کا شعبہ اختیار کرتی ہیں لیکن کچھ عرصہ بعد وہ غائب ہو جاتی ہیں، شائد خواتین یہ سمجھتی ہیں کہ یہاں ان کے لیے مواقع کم ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے اور اس کی مثال جسٹس مسرت ہلالی ہیں۔

    پشاور ہائیکورٹ کی وکیل نازش مظفر ایڈووکیٹ نے کہا کہ جج جج ہوتا ہے، چاہے وہ مرد ہو یا خاتون، جسٹس مسرت ہلالی بھی ہائیکورٹ کی ایک قابل جج ہیں اور اسی وجہ سے قائمقام چیف جسٹس تعینات ہوئی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ سب خواتین کے لیے فخریہ فخریہ ہے، جسٹس مسرت ہلالی نے محنت کی اور آج پورے پاکستان کی خواتین کو ان پر ناز ہے۔

  • جسٹس مسرت ہلالی پشاور ہائیکورٹ کی پہلی خاتون قائمقام چیف جسٹس تعینات

    جسٹس مسرت ہلالی پشاور ہائیکورٹ کی پہلی خاتون قائمقام چیف جسٹس تعینات

    پشاور: جسٹس مسرت ہلالی یکم اپریل سے پشاور ہائیکورٹ کی قائمقام چیف جسٹس تعینات ہوں گی۔

    تفصیلات کے مطابق 30 مارچ کو چیف جسٹس قیصر رشید خان کی ریٹائرمنٹ کے بعد پشاور ہائیکورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس روح الامین ایک دن کے لیے قائمقام چیف جسٹس تعینات کر دیے گئے ہیں۔

    31 مارچ کو جسٹس روح الامین کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس مسرت ہلالی قائمقام چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالیں گی۔ جسٹس مسرت ہلالی پشاور ہائیکورٹ کی تاریخ کی پہلی خاتون قائمقام چیف جسٹس ہوں گی۔

    صدر مملکت نے جسٹس روح الامین کی ایک دن اور جسٹس مسرت ہلالی کو مستقل چیف جسٹس کی تعیناتی تک قائمقام چیف جسٹس تعینات کیا ہے۔

    وزارت قانون کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق جوڈیشل کمیشن جب تک مستقل چیف جسٹس کی تقرری نہیں کرتا اس وقت تک جسٹس مسرت ہلالی قائمقام چیف جسٹس کے فرائض انجام دیں گی۔

    جسٹس مسرت ہلالی 2013 کو پشاور ہائیکورٹ کی ایڈیشنل جج تعینات ہوئیں اور پھر 2014 میں ہائیکورٹ کی مستقل جج بن گئیں۔

    جسٹس مسرت ہلالی کون ہیں؟

    8 اگست 1961 کو ملاکنڈ دویژن کے گاؤں بٹ خیلہ میں پیدا ہونے والی جسٹس مسرت ہلالی نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے میں حاصل کی اور پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے پشاور منتقل ہوئیں۔

    پشاور یونیورسٹی خیبر لا کالج سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد انھوں نے وکالت کا شعبہ اختیار کیا اور 1983 میں ڈسٹرکٹ کورٹس کا لائسنس حاصل کر لیا۔

    1988 میں ہائیکورٹ اور پھر 2006 میں سپریم کورٹ کی وکالت کا لائسنس حاصل کیا، 2013 میں وہ پشاور ہائیکورٹ کی ایڈیشنل جج مقرر ہوئیں اور 2014 میں ان کو مستقل جج تعینات کر دیا گیا۔