Tag: پشاور ہائیکورٹ

  • عدالت نے نیب سے مالم جبہ اسکینڈل کیس انکوائری بند کرنے کے منٹس طلب کر لیے

    عدالت نے نیب سے مالم جبہ اسکینڈل کیس انکوائری بند کرنے کے منٹس طلب کر لیے

    پشاور: ہائیکورٹ نے نیب سے مالم جبہ اسکینڈل کیس انکوائری بند کرنے کے منٹس طلب کر لیے۔

    تفصیلات کے مطابق مالم جبہ، بلین ٹری سونامی، بینک آف خیبر انکوائری کیس پر پشاور ہائیکورٹ نے 4 صفحات پر مشتمل حکم نامہ جاری کر دیا۔

    عدالت نے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب عظیم داد کو مالم جبہ کیس انکوائری بند کرنے کی نیب ایکزیگٹو بورڈ میٹنگ کے منٹس طلب کر لیے ہیں، عدالت نے ڈی پی جی نیب کو آئندہ سماعت پر مالم جبہ کیس انکوائری بند کرنے کے ایگزیکٹو بورڈ میٹنگ کے منٹس پیش کرنے کا حکم دیا ہے، حکم نامے میں عدالت نے لکھا ہے کہ کس کے حکم پر اور کیسے یہ انکوائری بند کی گئی ہے؟

    ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب کے مطابق نیب آرڈیننس 199 کے سیشن 9 (c) کے تحت نیب نے انکوائری بند کرنے کے لیے پشاور کی احتساب عدالت میں 10 ستمبر 2021 کو درخواست جمع کی تھی، جس میں انکوائری بند کرنے کی استدعا کی گئی تھی، احتساب عدالت نے 2 نومبر 2021 کو نیب کی درخواست منظور کرتے ہوئے مالم جبہ اسکینڈل انکوائری بند کرنے کا حکم دیا۔

    اس پر ہائیکورٹ نے نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سے ایگزیگٹو بورڈ میٹنگ کے کمنٹس طلب کر لیے تو ڈی پی جی نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ نیب ایگزیگٹو بورڈ میٹنگ ڈیپارٹمنٹ کا اندرونی معاملہ ہے، اس کے منٹس زاردارانہ ہوتے ہیں، اس لیے اس کو عدالت میں پیش نہیں کر سکتے۔

    تاہم عدالت نے کہا کہ کہیں پر یہ نہیں لکھا ہے کہ یہ رازدارانہ ہیں، اس میٹنگ میں پبلک میٹر کے اور بھی فیصلے ہوئے ہیں ان کو رازدارانہ نہیں رکھ سکتے، عدالت کا حکم ہے آپ میٹنگ کے منٹس آئندہ سماعت پر پیش کریں۔

    عدالت نے نیب حکام کو بلین ٹری سونامی انکوائری کا عمل مزید تیز کرنے کا بھی حکم دیا۔

    مالم جبہ، بلین ٹری سونامی اور بینک آف خیبر کیس میں درخواست گزار کے وکیل علی گوہر درانی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ جب نیب منٹس عدالت میں پیش کرے گا تو پھر پتا چلے گا کہ انکوائری کیوں بند کی گئی۔

    بینک آف خیبر سے متعلق انکوائری کیس میں بیرسٹر مدثر امیر نے عدالت سے استدعا کی کہ عدالت میں ہمارا اسی طرح کا کیس زیر سماعت ہے اس لیے عدالت بینک آف خیبر کیس میں کوئی حکم جاری نہ کرے، کیوں کہ اس کا ہمارے کیس پر اثر ہوگا، کیس 28 اپریل کو سماعت کے لیےمقرر ہے اس کیس کو بھی ان کے ساتھ کلب کیا جائے۔

    خیبر پختون خوا حکومت کے سب سے بڑے پراجیکٹ بی آر ٹی سے متعلق نیب نے رپورٹ عدالت میں پیش کی، نیب رپورٹ کے مطابق ہائیکورٹ نے بی آر ٹی پراجیکٹ کے خلاف درخواستوں پر 17 جولائی 2018 کو نیب کو انکوائری کا حکم دیا تھا، 20 جولائی 2018 کو نیب خیبر پختون خوا نے بی آر ٹی پراجیکٹ کے خلاف انکوائری کی منظودی دی اور متعلقہ محکموں سے ریکارڈ قبضے میں لے کر تحقیقات کی۔

    ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب کے مطابق نیب نے انکوائری کر کے رپورٹ ہائیکورٹ میں جمع کرائی، لیکن اس کے خلاف صوبائی حکومت نے سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کر لیا اور سپریم کورٹ نے 31 اگست 2018 کو بی آر ٹی انکوائری کی پشاور ہائیکورٹ کا حکم معطل کر دیا، جو اب سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے اس میں مزید کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی۔

  • اولاد نے بزرگ والدین کو بے سہارا چھوڑ دیا، عدالت کا اہم فیصلہ

    اولاد نے بزرگ والدین کو بے سہارا چھوڑ دیا، عدالت کا اہم فیصلہ

    پشاور: ہائی کورٹ کے جج جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ والدین ایک کمرے میں 8 بچوں کو پال سکتے ہیں لیکن بڑے ہوکر وہی اولاد بوڑھے ماں باپ کو نہیں سنبھال سکتے، بیوی کا بھی حق ہے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کا بھی لیکن والدین کا حق سب سے پہلے نمبر پر اور سب سے زیادہ ہے۔

    پشاور ہائیکورٹ میں بوڑھے والدین کو بچوں کی طرف سے بے سہارا چھوڑے جانے کے ایک کیس میں عدالت نے برزگ والدین کے پانچ بیٹوں پر ہر مہینے 26 سے 28 تاریخ تک تین تین ہزار روپے والدین کو دینے کا حکم دے دیا۔

    عدالت نے متعلقہ ایس ایچ او کو تمام بیٹوں سے تین تین ہزار روپے لے کر ان کے والدین تک پہنچانے کی ہدایت کی، جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ایس ایچ او کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ دیکھیں، ان کا جو بیٹا بیرون ملک مقیم ہے، ان کے گھر کا پتا کر کے ان کی بیوی کو اطلاع دیں، کہ اپنے شوہر کو آگاہ کرے کہ ہر مہینے تین ہزار روپے والدین کے لیے بھیجیں، اگر پیسے نہیں بھیجتے تو پھر ہم ان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کرنے کا حکم دیں گے۔

    قبل ازیں، بوڑھے والدین کو بے سہارا چھوڑنے پر بیٹوں کے خلاف دائر کیس میں ایس ایچ او نے بیٹوں کو بغیر ہتھکڑیوں کے عدالت میں پیش کیا تو عدالت نے ایس ایچ او کی سرزنش کر دی، جسٹس روح الامین نے ریمارکس دیے کہ ہم نے ان کی ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کیے تھے، بغیر ہتھکڑی کیوں پیش کیا، ہتھکڑیوں میں ان کو لاتے تو ان کو کچھ احساس ہوتا۔

    جسٹس روح الامین نے والدین کو بے سہارا چھوڑنے والے بیٹوں سے استفسار کیا کہ آپ کی شادیاں کس نے کرائیں، کیا خود شادی کی یا والدین نے شادی کا خرچہ برداشت کیا، اس پر عدالت میں موجود تینوں بھائیوں سے جواب دیا کہ والدین نے ان کی شادیاں کی ہیں، جسٹس روح الامین نے کہا کہ آپ کے والدین عدالت میں کھڑے ہیں اور شکایت کر رہے ہیں کہ آپ لوگوں نے اس عمر میں ان کو بے سہارا چھوڑا ہے، آپ لوگوں کو کچھ محسوس نہیں ہو رہا۔

    جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ریمارکس دیے کہ آپ تینوں نے داڑھی رکھی ہے اور ٹوپیاں پہنی ہیں، ایہ اچھی بات ہے نیکی کے کام کرنا چاہیے لیکن جب تک آپ والدین کی خدمت نہیں کریں گے اللہ آپ کو نہیں بخشے گا۔

    عدالت میں بے آسرا ماں نے اپنی آنکھیں پونچھتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ان کے پانچ بیٹے ہیں تین عدالت میں موجود ہیں، ایک بیرون ملک ہے، لیکن ہم اکیلے رہ رہے ہیں، ایک بیٹا ہے اس کا دماغی توازن ٹھیک نہیں، گھر کا 6 ہزار ماہانہ کرایہ ہے اور اس کے علاوہ 2 ہزار بجلی کا بل بھی ہے، لیکن ان کے بچوں نے انھیں چھوڑ دیا ہے اور اب وہ خود کوئی کام بھی نہیں کرسکتی، شوہر بیمار ہے کل بھی اسپتال لے کر گئی لیکن علاج کے پیسے نہ ہونے پر واپس گھر آ گئے۔

    ماں نے بتایا کہ ایک کمرے میں نے 8 بچوں کو پالا تھا لیکن اب میرا کوئی آسرا نہیں ہے، بزرگ خاتون کی فریاد پر عدالت میں موجود زیادہ تر لوگ جذبات پر قابو نہ رکھ سکے، اور آبدیدہ ہوگئے۔

    جسٹس روح الامین نے ریمارکس دیے کہ کتنی مشکل سے ان ماں پاب نے آپ کو بڑا کیا ہوگا آپ لوگ ان کا خیال نہیں رکھیں گے تو کون رکھے گا، بیوی کا بھی حق ہے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کا بھی حق ہوتا ہے لیکن بزرگ والدین کی خدمت سب سے پہلے ہے، ابھی اس سے پہلے ایک کیس سن رہے تھے ہم، 4 بیٹوں نے والد پر جان قربان کر دی تھی، والدین کے قدموں تلے جنت کا کہا گیا ہے اور آپ لوگوں نے بزرگ والدین کو ایسے چھوڑ دیا ہے، ہم آپ کو ایک مہینے کے لیے ڈی آئی خان جیل بھیج دیں گے، رمضان کا مہینہ جیل میں بیوی بچوں سے دور گزاریں گے تو کچھ احساس ہوگا۔

    عدالت میں موجود بزرگ والدین کے بڑے بیٹے نے والدین کو ساتھ لے جانے پر رضا مندی ظاہر کی تو عدالت نے ان کو والدین ساتھ لے جانے کی اجازت دے دی، اور ہر مہینے تین تین ہزار روپے تمام بھائیوں سے والدین کو دینے کا حکم دے دیا۔

    جسٹس اشتیاق ابراہیم نے عدالت میں موجود ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل مجاہد علی خان سے استفسار کیا کہ حکومت کا ایسا کوئی پروگرام نہیں ہے جس سے ایسے لوگوں کی امداد ہو سکے، اے اے جی نے عدالت کو بتایا کہ احساس پروگرام اور بیت المال سے ہو سکتی ہے ان کی مدد، اس پر جسٹس روح الامین نے ریمارکس دیے کہ احساس پروگرام تو ہے لیکن لوگوں میں احساس نہیں ہے۔

    جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ریمارکس دیے کہ اے اے جی صاحب والدین کے تحفظ کے لیے آپ لوگوں نے جو آرڈیننس بنایا تھا کیا وہ صرف دکھانے کے لیے تھا، صوبائی حکومت کو اس حوالے سے قانون سازی کرنی چاہیے تاکہ ایسے والدین کی مدد کی جا سکے، عدالت نے اے اے جی مجاہد علی خان کو برزگ والدین کو صحت کارڈ اور احساس پروگرام سے مدد فراہم کرنے کی ہدایت کر دی۔

  • خیبر پختونخوا: عدالت نے کرشنگ پلانٹس کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دے دیا

    خیبر پختونخوا: عدالت نے کرشنگ پلانٹس کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دے دیا

    پشاور: عدالت نے مردان میں کرشنگ پلانٹس کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق کے پی کے شہر مردان کے مختلف علاقوں میں لگے کرشنگ پلانٹس سے پیدا ہونے والی ماحولیاتی آلودگی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ضلعی انتظامیہ کو غیر قانونی طور پر لگائے گئے کرشنگ پلانٹس کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دے دیا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جن کارخانوں سے ماحولیاتی مسائل پیدا ہو رہے ہیں، جو ماحول کے لیے نقصان دہ ہیں، ان کے خلاف کارروائیاں تیز کی جائیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہاں پر دریاؤں کا بیڑا غرق کر دیا گیا ہے، مائننگ ڈیپارٹمنٹ نے غیر قانونی لیز دے کر بہت سے مسائل پیدا کر دیے ہیں۔

    کیس کی سماعت شروع ہوئی تو ڈپٹی کمشنر، ڈی پی او مردان زاہد اللہ، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سید سکندر حیات شاہ اور درخواست گزار کے وکیل عدالت میں پیش ہوئے۔

    درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ مردان میں کرشنگ پلانٹس گھروں کے قریب لگائے گئے ہیں۔ جن سے سانس کی مختلف بیماریاں پھیلنے کا خدشہ ہے، اس پر چیف جسٹس قیصر رشید خان نے ریمارکس دیے کہ اگر اس حوالے سے کوئی غیر قانونی لیز جاری کی گئی ہے، تو اس کو ہم اسکریپ کر دیں گے، ہم نے پہلے بھی ایسے لیز اسکریپ کیے ہیں، آبادی کے قریب جو کرشنگ پلانٹس لگائے گئے ہیں ان کے خلاف انتظامیہ کارروائی تیز کرے۔

    ڈپٹی کمشنر مردان حبیب اللہ نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی احکامات کی روشنی میں بڑے پیمانے پر آپریشنز کیے ہیں، متعدد غیر قانونی کرشنگ پلانٹس کو سیل کیا گیا ہے، ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر مردان زاہد اللہ نے عدالت کو بتایا کہ خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف ابھی تک 70 ایف آئی آر درج کیے جا چکے ہیں، 18 ایف آئی آر اس سال درج ہوئے ہیں، جب کہ 21 افراد کو گرفتار کیا گیا، پولیس فورس ہر وقت کسی بھی دوسرے ادارے کی مدد کے لیے تیار رہتی ہے۔

    کرشنگ پلانٹس مالکان کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ انھوں نے کرشنگ پلانٹس کے لیے قانونی طور پر لیز لیا ہے، اور پلانٹ آبادی سے 700 میٹر دور ہے، لیکن پھر بھی ان کو بند کیا گیا ہے۔

    اس پر ڈپٹی کمشنر مردان نے عدالت کو بتایا کہ سارے امور کی نگرانی کی جا رہی ہے، جو لیز قانون کے مطابق اور آبادی سے مطلوبہ فاصلے پر ہے، ان کھول دیا جائے گا۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم کسی کا کاروبار بند کرنا نہیں چاہتے لیکن ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ کوئی انسانی صحت کے ساتھ کھیلے اور ماحول کو خراب کرے۔

    عدالت نے ڈپٹی ڈائریکٹر انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی ممتاز علی کو متعلقہ علاقوں کا دورہ کرنے کا حکم دے دیا، اور کہا کہ وہ دیکھیں کہ کون سے علاقے میں ایس او پیز پر عمل نہیں ہو رہا، عدالت نے ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او کو سارے امور کی نگرانی سخت کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 17 مئی تک ملتوی کر دی۔

  • صوبائی حکومت عاصمہ رانی کے قاتل کے خلاف ڈٹ گئی

    صوبائی حکومت عاصمہ رانی کے قاتل کے خلاف ڈٹ گئی

    پشاور: خیبر پختون خوا کی حکومت عاصمہ رانی کے قاتل کے خلاف ڈٹ گئی ہے، آج پشاور ہائی کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے مقتولہ کے خاندان کی مجرم کے ساتھ صلح کے خلاف اپیل پر دلائل دیے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق پشاور ہائی کورٹ میں آج عاصمہ رانی قتل کیس میں مرکزی مجرم کے ساتھ صلح کے معاملے پر صوبائی حکومت کی اپیل پر سماعت ہوئی، سماعت جسٹس روح الامین اور جسٹس شکیل احمد پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کی۔

    اے اے جی محمد نثار خان نے عدالت کو بتایا کہ میڈیکل کی طالبہ عاصمہ رانی کو رشتے سے انکار پر گھر کے سامنے قتل کیا گیا، مجرم مجاہد آفریدی نے ساتھیوں کے ساتھ مل کر طالبہ کو قتل کیا اور فرار ہو گئے، مقتولہ نے حالت نزع میں بھی مجرم مجاہد آفریدی کا نام لیا اور اس کی ریکارڈنگ بھی موجود ہے۔

    اے اے جی محمد نثار نے بتایا مجرم مجاہد آفریدی شادی شدہ ہے اور وہ عاصمہ رانی سے شادی کرنا چاہتا تھا، لیکن رشتے سے انکار پر مجرم نے میڈیکل کی طالبہ پر فائرنگ کر کے قتل کر دیا، اس کیس کا ٹرائل چلا، جس میں مجرم مجاہد آفریدی کو سزائے موت اور ان کے ساتھیوں کو بری کیا گیا۔

    عاصمہ رانی کے والدین نے بیٹی کے قاتل کو معاف کردیا

    اے اے جی کے مطابق اب مقتولہ کے خاندان نے مجرم کے ساتھ راضی نامہ کر لیا ہے، مجرم بااثر ہے، اگر اس طرح قتل کر کے راضی نامے ہوتے رہے تو پھر ایسے واقعات میں مزید اضافہ ہوگا، بااثر لوگوں کو اگر اس طرح معاف کیا جاتا رہا تو فساد فی الارض پھیلنے کا خدشہ پیدا ہوگا، اس لیے صوبائی حکومت نے راضی نامے کو چیلنج کیا ہے تاکہ ایسے واقعات کی روک تھام ہو سکے۔

    اے اے جی نے عدالت کو بتایا کہ مقتولہ کا خاندان صرف قصاص معاف کر سکتا ہے تعزیر کی سزا معاف نہیں کر سکتا، مجرم پہلے سے شادی شدہ ہے اور اس کے دو بچے بھی ہیں، اس کیس میں سزا کا اختیار عدالت کے پاس ہے۔

    جسٹس روح الامین نے ریمارکس دیے کہ قانون اس حوالے سے قرآن و سنت سے رہنمائی کی ہدایت کرتا ہے، اگر فساد فی الارض بھی ہے تو اس میں بھی قرآن و سنت کی رہنمائی لینی ہے۔

    اے اے جی نے کہا سپریم کورٹ نے بھی اس کیس میں نوٹس لیا تھا، طالبہ کو قتل کرنے کے بعد مجرم سعودی عرب فرار ہوگیا تھا، اور مجرم کو انٹرپول کے ذریعے سعودی عرب سے واپس لایا گیا۔

    عدالت نے اے اے جی کے دلائل سننے کے بعد سماعت 29 مارچ تک ملتوی کر دی۔ یاد رہے کہ عاصمہ رانی ایوب میڈیکل کلاج میں تھرڈ ایئر کی طالبہ تھی، کالج سے چھٹیوں پر وہ گھر گئی تو جنوری 2018 میں مجاہد آفریدی نے ان کو گھر کے سامنے فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔

  • الزامات ثابت ہونے پر سینیئر سول جج نوکری سے برخاست

    الزامات ثابت ہونے پر سینیئر سول جج نوکری سے برخاست

    پشاور: سنیئر سول جج تیمرگرہ محمد جمشید کنڈی کے خلاف مس کنڈکٹ کے الزامات ثابت ہونے پر انھیں نوکری سے جبری طور پر برخاست کر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق پشاور ہائی کورٹ نے ڈسپلن اور قواعد کی خلاف ورزی کرنے کے جرم میں سینئر سول جج محمد جمشید کنڈی کو نوکری سے جبری ریٹائر کر دیا۔

    پشاور ہائیکورٹ نے سنیئر سول جج کی جبری رخصت کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا، نوٹیفکیشن کے مطابق محمد جمشید کنڈی کے خلاف دوران سروس مس کنڈکٹ کے الزامات لگے تھے، جس کے بعد پشاور ہائی کورٹ نے ملوث جوڈیشل افسر کے خلاف انضباطی کارروائی کا آغاز کیا۔

    تحقیقات کے لیے انکوائری افسر کی جانب سے ملزم کو حتمی شوکاز نوٹس جاری کیا گیا، جس کا انھوں نے جواب دیا، اس کے بعد وہ نجی سماعت کے لیے بھی پیش ہوئے اور 14 فروری کو ان کا بیان ریکارڈ کیا گیا۔

    نوٹیفکیشن کے مطابق انکوائری افسر نے انکوائری مکمل کر کے رپورٹ دی کہ مذکورہ جوڈیشل افسر مجرم پائے گئے ہیں، جس کے بعد پشاور ہائی کورٹ نے جوڈیشل افسر کو خیبر پختون خوا گورنمنٹ سرونٹس رولز 2011 کے تحت نوکری سے جبری طور پر برخاست کر دیا۔

    جنسی زیادتی کا کیس

    سنیئر سول جج پر ایک خاتون عظمیٰ شہزادی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا کیس تھا، جمشید کنڈی سینئر سول جج تیمرگرہ تھے، ان پر خاتون نے الزام لگایا تھا کہ جج نے انھیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا ہے۔

    جے آئی ٹی رپورٹ میں جج جمشید کنڈی کو کلیئر کیا گیا تھا، اس کے بعد ان کی درخواست پر خاتون کے خلاف کارروائی کا بھی آغاز کیا گیا تھا۔ تاہم جب ہائیکورٹ کی جانب سے انکوائری مکمل ہو گئی تو مذکورہ جج کو قواعد کی خلاف ورزی کا مرتکب پایا گیا۔

    خاتون سے زیادتی کے الزام میں سینئرسول جج گرفتار

    نومبر 2021 میں خیبر پختون خوا کے ضلع دیر کے علاقے بلامبٹ میں خاتون کے ساتھ مبینہ زیادتی کے الزام میں جمشید کنڈی کو پولیس نے گرفتار کیا تھا، جس کے بعد پشاور ہائی کورٹ نے انھیں معطل کر دیا۔

    خاتون جن کا تعلق چترال سے ہے اور پشاور میں رہائش پذیر ہے، نے ملزم پر الزام لگایا ہے کہ ان کی بہن کو نوکری دلانے کا جھانسا دے کر ملزم نے انھیں زیادتی کا نشانہ بنایا۔ خاتون نے سول جج کے خلاف تھانہ بلامبٹ (دیر پائین) میں ایف آئی آر درج کر وایا۔

    ایف آئی آر کے مطابق ملزم نے متاثرہ خاتون کو ان کی بہن کو نوکری دلانے کے لیے 15 لاکھ روپے طلب کیے، نقد رقم نہ ہونے پر خاتون نے ملزم کو اپنے زیورات جن کی مالیت 15 لاکھ روپے بنتی ہے، دیے۔

    خیبرپختون خواہ کے سینئر جج پر زیادتی کا الزام غلط ثابت، تحقیقات میں‌ ہوشربا انکشاف

    لیکن بعد میں خاتون کو بتایا گیا کہ اب نوکری ان کے ہاتھ سے نکل گئی ہے، ایف آئی آر میں خاتون نے کہا کہ ملزم نے رابطہ کیا کہ آپ میرے ساتھ لوئر دیر بلامبٹ جاؤ تاکہ میں آپ کو رقم واپس کروں، صبح سرکاری نمبر پلیٹ گاڑی میں ان کے ساتھ بغرض رقم واپس لینے گئی، تو سرکاری کالونی کے بنگلے میں چائے پلانے کے بعد مجھ سے جنسی خواہش پوری کرنے کا مطالبہ کیا، اور کہا کہ اس کے بعد ان کو رقم واپس کر دیں گے، انکار پر ملزم نے زبردستی جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا، اور زیورات کی رقم بھی واپس نہ کی۔

    پولیس کے مطابق متاثرہ خاتون کا ابتدائی میڈیکل ٹیسٹ ہوا، جس میں ریپ ثابت ہوا، جس پر ملزم کو 25 نومبر 2021 کو حراست میں لے لیا گیا۔

    ملزم جج رہا

    بعد ازاں دسمبر 2021 میں جنسی ہراسانی کے اس کیس میں ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر دیر کی نگرانی میں جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے تحقیقات مکمل کی، جس میں انکشاف ہوا کہ سینئر سول جج پر ریپ کا الزام لگانے والی خاتون کے خلاف پنجاب میں 8 ایف آئی آرز درج ہیں۔

    دوسری جانب متعلقہ جج کی ضمانت درخواست منظور ہونے پر انھیں رہا کر دیا گیا۔

    انویسٹی گیشن رپورٹ کے مطابق سی ڈی آر سے معلوم ہوا کہ 9 نومبر سے 25 نومبر کے درمیان خاتون نے ایمرجنسی نمبر پر 15 سے 20 کالیں کیں، جن میں دو کالیں تیمرگرہ کیے گئے، جب کہ سی ڈی آر سے متعلقہ جج کی خاتون سے رابطہ بھی ثابت ہوا۔

    دوران تحقیقات معلوم ہوا کہ مدعیہ نے ابتدا میں اپنا نام دعا دختر اختر حسین سکنہ نشتر آباد پشاور بتایا، تاہم شناختی کارڈ سے معلوم ہوا کہ ان کی رہائش سندھ کے علاقے خیرپور کٹھیرا گمبٹ کی ہے، خاتون نے اپنا نام اور رہائش مختلف بتائے، بعد میں ان کی شناخت عظمیٰ شہزادی کے نام سے ہوئی۔

    رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ خاتون سے متعلق ایس پی پنجاب سے رابطہ کیاگیا، جب کہ سی پی او لاہور نے 8 ایف آئی آرز کا ریکارڈ بھیجا، جو خاتون کا کریمینل ریکارڈ تھا۔

    ایف ایس ایل رپورٹ سے بھی زیادتی کے شواہد نہیں ملے، رپورٹ کے مطابق تحقیقات مکمل ہونے کے بعد سنیئر سول جج محمد جمشید کنڈی کے خلاف کیس ختم کر دیا گیا، تاہم عدالت نے ان کے خلاف مس کنڈکٹ کے حوالے سے انکوائری کا حکم دیا۔

  • بلین ٹری سونامی سے متعلق نیب اور محکمہ فارسٹ کی رپورٹ میں تضاد ہے: ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب

    بلین ٹری سونامی سے متعلق نیب اور محکمہ فارسٹ کی رپورٹ میں تضاد ہے: ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب

    پشاور: بلین ٹری سونامی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے نیب سے کہا کہ اکتوبر سے ہم اس کیس کو سن رہے ہیں لیکن ابھی تک آپ لوگوں نے ایک رپورٹ بھی جمع نہیں کرائی۔

    تفصیلات کے مطابق آج پشاور ہائی کورٹ میں مالم جبہ، بلین ٹری سونامی اور بینک آف خیبر انکوائری سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس روح الامین اور جسٹس ارشد علی نے شروع کی، تو ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب عظیم داد، پراسیکیوٹر نیب محمد علی، محکمہ جنگلات حکام اور درخواست گزار کے وکیل علی گوہر درانی عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔

    ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب عظیم داد نے عدالت کو بتایا کہ ہم رپورٹ تیار کر رہے ہیں، اس کے لیے مزید وقت دیا جائے، اگلی سماعت پر رپورٹ جمع کر دیں گے۔ اس پر جسٹس روح الامین نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم اکتوبر سے اس کیس کو سماعت کر رہے ہیں، لیکن ابھی تک آپ لوگوں نے ایک بھی رپورٹ جمع نہیں کرائی۔

    ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب نے بتایا کہ بلین ٹری سونامی سے متعلق نیب اور محکمہ فارسٹ کی رپورٹس میں کچھ تضاد ہے، 27 اضلاع ہیں اور 5 ہزار 600 سائٹس ہیں، ان کی نشان دہی پر بھی وقت لگے گا، کرونا وبا کی وجہ سے بھی کام رک گیا تھا، ابھی اومیکرون ویرینٹ کی وجہ سے آفس اسٹاف کے ویکسینیشن کا عمل جاری ہے، اور آفسز بند ہیں، جس کی وجہ سے رپورٹ تیار کرنے میں تھوڑا وقت لگے گا۔

    اس پر جسٹس روح الامین نے کہا کہ کرونا 2019 میں آیا تھا، اور ختم ہو گیا ہے، دیکھیں آج آپ نے بھی ماسک نہیں پہنا، اب آپ یہ نہ کہیں کہ کرونا کی وجہ سے اسٹاف نے جنگل میں درختوں کو نہیں گنا، ہمیں یہ بتا دیں کہ کتنے درخت جل گئے، کتنے پودے لوگوں نے خراب کیے اور ابھی کتنے درخت جنگل میں موجود ہیں۔

    انھوں نے کہا نیب اور محکمہ جنگلات کی رپورٹ میں جو تضاد ہے اس کو بالائے طاق رکھ کر ہمیں رپورٹ پیش کر دیں، ہمیں پتا ہے کہ آپ لوگوں کی مجیوریاں کیا ہیں، اور یہ تضاد کیوں ہے، آپ دیکھیں کہ ملاکنڈ کے پہاڑوں پر لاچی کے کتنے درخت لگائے گئے، اس پر درخواست گزار کے وکیل علی گوہر درانی نے عدالت کو بتایا کہ پانی کی کمی کا مسئلہ ہے لیکن پھر بھی یہ لاچی کے درخت لگا رہے ہیں، لاچی پانی زیادہ جذب کرتا ہے، اگر یہ لاچی کے پودے لگائیں گے تو اس سے پانی کا مسئلہ اور بھی بڑھے گا۔

    جسٹس روح الامین نے نیب پراسیکیوٹر نے استفسار کیا کہ اس کیس میں کتنے انوسٹیگیشن افسران ہیں، ڈپٹی پراسیکیوٹر نے بتایا کہ اس کیس میں 3 انوسٹیگیشن افسران ہیں، جسٹس روح الامین نے کہا کہ ان میں ہر ایک کو 9 اضلاع دے دیں، وہ جائیں اور خود دیکھیں اور رپورٹ تیار کریں تو جلد یہ کام ہو جائے گا۔

    جسٹس روح الامین نے ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب سے استفسار کیا کہ مالم جبہ کیس کا کیا ہوا، اس پر درخواست گزار وکیل علی گوہر درانی نے بتایا کہ مالم جبہ انکوائری کو نیب نے اس عدالت کے آرڈر کا سہارا لے کر بند کیا ہے، عدالت نے انکوائری بند کرنے کا نہیں کہا لیکن نیب نے وہ انکوائری بند کر دی ہے، عدالت نے مالم جبہ انکوائری رپورٹ بھی طلب کی ہے جو ابھی تک جمع نہیں کی گئی۔

    ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب عظیم داد نے عدالت کو بتایا کہ 75 ایکڑ زمین پر فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ اور ٹورزم میں مسئلہ چل رہا تھا، اس پر جسٹس روح الامین نے کہا کہ اس بات کو چھوڑ دیں کہ محکموں کے درمیان کیا تھا، آپ یہ بتا دیں کہ نیب اس کیس میں کیا کر رہا تھا، یہ زمین کس کو الاٹ کی گئی ہے اور کیسے الاٹ کی گئی، اس کی رپورٹ ہمیں دیں۔

    ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب نے کہا ہمیں مزید تھوڑا وقت دیا جائے تو ہم رپورٹ پیش کر دیں گے، ڈپٹی پراسیکیوٹر عظیم داد کی جانب سے رپورٹ جمع کرنے کے لیے مزید وقت مانگنے کی استدعا عدالت نے منظور کر لی اور نیب سے مالم جبہ، بلین ٹری سونامی اور بینک آف خیبر انکوائری سے متعلق رپورٹس طلب کرتے ہوئے سماعت 15 مارچ تک ملتوی کر دی۔

  • احتجاج کی آڑ میں اہم سڑکوں کی بندش، عدالت کا اہم قدم

    احتجاج کی آڑ میں اہم سڑکوں کی بندش، عدالت کا اہم قدم

    پشاور: پشاور ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ احتجاج کی آڑ میں دوسروں کے حقوق متاثر نہیں ہونے چاہیئں، عدالت نے اس سلسلے میں ایک کیس کی سماعت کرتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق خیبر پختون خوا اسمبلی چوک اور شہر پشاور کے دیگر اہم سڑکوں پر احتجاج اور جلسے جلوسوں کے خلاف دائر درخواست پر پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس روح الامین اور جسٹس سید عتیق شاہ پر مشتمل دو رکنی بنچ نے سماعت کی۔

    درخواست گزار سینئر صحافی جمشید باغوان کے وکیل علی گوہر درانی نے عدالت کو بتایا کہ اسمبلی چوک اور شہر کی دیگر اہم سڑکوں پر مظاہرین نکل آتے ہیں جس سے پورے شہر کا ٹریفک نظام مفلوج ہو جاتا ہے۔

    اس پر جسٹس روح الامین نے ریمارکس دیے کہ یہ اہم مسئلہ ہے حکومت کو اس کے حل کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے، چند لوگ نکل کر سڑک بند کر دیتے ہیں جس سے پورا شہر متاثر ہو جاتا ہے، ہر چیز کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے۔

    جسٹس روح الامین نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ یہ کس کی ذمہ داری ہے، اس پر اے اے جی نے جواب دیا کہ یہ حکومت ہی کی ذمہ داری ہے، اس پر جسٹس روح الامین نے کہا کہ پھر حکومت اس کے لیے اقدامات کیوں نہیں کرتی؟

    جسٹس سید عتیق شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت نے ڈی چوک میں احتجاج پر پابندی لگائی ہے، پنجاب حکومت نے بھی مال روڈ پر احتجاج پر پابندی لگائی ہے، آپ لوگ ایسا کیوں نہیں کرتے، جو اہم جگہیں ہیں وہاں احتجاج پر پابندی کیوں نہیں لگاتے۔

    درخواست گزار کے وکیل علی گوہر درانی نے عدالت کو بتایا کہ قانون ہر شہری کو احتجاج کا حق دیتا ہے لیکن اس سے دوسروں کے حقوق متاثر نہیں ہونے چاہیئں، اس حوالے سے سپریم کورٹ، ہائیکورٹ، اور بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے بھی موجود ہیں کہ احتجاج سے دوسروں کے حقوق متاثر نہیں ہونے چاہیئں۔

    علی گوہر ایڈووکیٹ نے بتایا کہ فیض آباد دھرنا کیس میں بھی سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ کسی کو یہ حق نہیں کہ احتجاج کی آڑ میں شہریوں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرے، عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کو آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 26 جنوری تک ملتوی کر دی۔

  • خیبر پختونخوا اسمبلی اراکین کے ترقیاتی فنڈز کا معاملہ عدالت پہنچ گیا

    خیبر پختونخوا اسمبلی اراکین کے ترقیاتی فنڈز کا معاملہ عدالت پہنچ گیا

    پشاور: خیبر پختون خوا اسمبلی اراکین کے ترقیاتی فنڈز کا معاملہ عدالت پہنچ گیا، آج پشاور ہائی کورٹ میں مسلم لیگ ن کے ایم پی اے کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر اہم سماعت ہوئی۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق جمعرات کو پشاور ہائی کورٹ میں پی کے 55 مردان سے پاکستان مسلم لیگ ن کے منتخب رکن صوبائی اسمبلی جمشید مہمند کی جانب سے، حلقے کا ترقیاتی فنڈ منصوبے کی منظوری کے باوجود روکے جانے کے خلاف دائر درخواست پر جسٹس روح الامین اور جسٹس اعجاز انور پر مشتمل دو رکنی بنچ نے سماعت کی۔

    درخواست گزار کے وکیل اور رکن صوبائی اسمبلی خوشدل خان ایڈوکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزار پی کے 55 مردان سے رکن صوبائی اسمبلی ہیں، اپوزیشن سے تعلق ہونے کی وجہ سے حکومت نے ان کے حلقے کے ترقیاتی فنڈ کو روک دیا ہے۔

    جسٹس روح الامین نے ریمارکس دیے کہ حکومت نے اگر اپوزیشن ارکان کے ساتھ امتیازی سلوک کرنا ہے، تو اپوزیشن ارکان کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے لیے اقدامات کیوں نہیں کر لیتے، حکومت نے اگر اپوزیشن ارکان کو ہر معاملے میں نظر انداز کرنا ہے تو سادہ الفاظ میں کہہ دے کہ آپ کے پاس اکثریت نہیں ہے باہر بیٹھ جائیں۔

    جسٹس روح الامین نے ریمارکس دیے کہ بدقسمتی سے ہر دور میں ایسا ہوتا ہے جب کوئی وزیر اعلیٰ بنتا ہے تو مجموعی سوچ کی بجائے صرف اپنے حلقے کے لوگوں کے لیے سوچتا ہے۔

    جسٹس اعجاز انور نے استفسار کیا کہ ایک منصوبے کی انتظامی سطح پر منظوری کے بعد بھی اسے کس طرح واپس لیا گیا، کیا صرف ایک حلقہ ایسا ہے جس کے لیے فنڈز نہیں ہیں، اگر فنڈز نہیں ہیں تو پھر تمام حلقوں کے لیے نہیں ہوں گے، صرف اپوزیشن ارکان کو کیوں نشانہ بنایا گیا۔

    جسٹس روح الامین نے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ نے فنڈز کی تقسیم کے لیے میکنزم بنانے کا حکم دیا ہے، کیا آپ کو پتا ہے؟ متعلقہ لوگوں نے صرف اپنے حکام بالا کو خوش کرنے کے لیے اس حلقے کا فنڈ روکا، اور منصوبے کو نکال دیا، اس اقدام سے صرف اس حلقے کے عوام ہی متاثر ہوں گے۔

    ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ فنڈز کی کمی ہے، جیسے ہی فنڈز کا مسئلہ حل ہوگا تو اس ٹینڈر کو دوبارہ کھولا جائے گا، اس پر جسٹس روح الامین نے کہا کہ جب اس منصوبے کی منظوری دی جا رہی تھی تو اس وقت یہ معلوم نہیں تھا کہ فنڈ نہیں ہے، اس سے لگتا ہے کہ متعلقہ حکام نے دباؤ میں یا کسی کو خوش کرنے کے لیے اپوزیشن ارکان کے فنڈز کو روکا، لیکن ہم کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کرنے دیں گے۔

    درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ جب فنڈ منظور ہو جائے اور ایڈمنسٹریٹیو منظوری دی جائے، تو وہ واپس نہیں ہو سکتا، یہ واحد حکومت ہے جس میں فنڈز نہ ملنے پر ارکان اسمبلی نے وزیر اعلیٰ ہاؤس کے سامنے احتجاج کیا تھا، حکومت کے ایسے اقدامات سے لوگوں میں بے چینی پھیلتی ہے۔

    عدالت نے ایم پی اے جمشید مہمند کی درخواست باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے متعلقہ حکام کو اس حلقے کے ڈرافٹ شدہ منصوبوں کو واپس ای بڈنگ میں شامل کرنے کا حکم دے دیا، عدالت نے قرار دیا کہ فریقین اگر کوئی جواب جمع کرنا چاہتے ہیں تو وہ اپنا جواب جمع کروا سکتے ہیں۔

  • نیب نے عدالتی حکم کا سہارا لے کر مالم جبہ اسکینڈل کی انکوائری بند کی: پشاور ہائیکورٹ

    نیب نے عدالتی حکم کا سہارا لے کر مالم جبہ اسکینڈل کی انکوائری بند کی: پشاور ہائیکورٹ

    پشاور: ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ نیب نے عدالتی حکم کا سہارا لے کر مالم جبہ اسکینڈل کی انکوائری بند کی ہے، عدالت نے انکوائری بند کرنے کا حکم جاری نہیں کیا۔

    تفصیلات کے مطابق پشاور ہائیکورٹ نے کہا ہے کہ مالم جبہ اسکینڈل انکوائری بند کرنے کا حکم عدالت نے نہیں دیا تھا، عدالت نے کہا تھا یہ 2 ڈیپارٹمنٹس کا مسئلہ ہے مل بیٹھ کر حل کریں لیکن نیب نے انکوائری ہی بند کر دی۔

    پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس روح الامین اور جسٹس اعجاز انور پر مشتمل دو رکنی بنچ نے مالم جبہ، بلین ٹری سونامی، بینک آف خیبر انکوائری ٹھیک طریقے سے کرانے اور ملوث افسران کو بچانے کے خلاف کیس کی سماعت شروع کی تو درخواست گزار عادل ظریف کے وکیل علی گوہر درانی ایڈوکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ بار بار نوٹس کے باوجود نیب نے ابھی تک رپورٹ جمع نہیں کی۔

    ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب عظیم داد نے عدالت کو بتایا کہ دو رپورٹس ہیں، بلین ٹری سونامی رپورٹ تقریباً تیار ہے، اور جلد جمع کر دیں گے، جب کہ بینک آف خیبر رپورٹ بھی جمع کریں گے، اس پر جسٹس روح الامین نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے دو نہیں تین رپورٹس جمع کرنے کا حکم دیا ہے۔

    مالم جبہ اسکینڈل: نیب نے پرویز خٹک کے خلاف انکوائری روک دی

    انھوں نے کہا عدالت نے کوئی انکوائری بند کرنے کا حکم نہیں دیا لیکن نیب نے اس عدالت کے آرڈر کا سہارا لے کر مالم جبہ انکوائری بند کر دی ہے، جسٹس روح الامین نے کہا کہ عدالت نے حکم دیا تھا کہ یہ دو ڈیپارٹمنٹس کے درمیان مسئلہ ہے، مل بیٹھ کر اس کو حل کریں، عدالت نے انکوائری بند کرنے کا نہیں کہا، نیب نے مالم جبہ انکوائری ہی بند کر دی۔

    عدالت نے نیب کو مالم جبہ، بلین ٹری سونامی اور بینک آف خیبر انکوائری کی جامع رپورٹس جمع کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 26 جنوری تک ملتوی کر دی۔

    علی گوہر درانی ایڈووکیٹ نے اے آر وائی نیوز کو بتایا کہ مالم جبہ کیس کو نیب نے دبایا ہے، مالم جبہ اسکینڈل میں بڑے افسران ملوث ہیں، شاید اس وجہ سے نیب اس کیس میں دل چسپی نہیں لے رہا اور ان کو بچانے کی کوشش میں ہے۔

    نیب نے احتساب عدالت کو انکوائری بند کرنے کی درخواست کی ہے، اور اس میں یہ مؤقف تھا کہ پشاور ہائیکورٹ نے انکوائری بند کرنے کا حکم دیا ہے، لیکن پشاور ہائی کورٹ نے انکوائری بند کرنے کا کوئی حکم نہیں دیا، آج عدالت کے معزز جج جسٹس روح الامین نے نیب پراسیکویٹر کو بھی کہا کہ عدالت نے مالم جبہ انکوائری بند کرنے کا کہیں پر بھی حکم نہیں دیا۔

    انھوں نے کہا کہ عدالت نے نیب کو 26 جنوری تک مالم جبہ اسکینڈل، بلین ٹری سونامی، بینک آف خیبر سے متعلق انکوائری کی جامع رپورٹ کے ساتھ طلب کر لیا ہے۔

  • ‘نیب کو بی آر ٹی، بلین ٹری سونامی اور بینک آف خیبر کیسز پر انکوائری سے کون روک رہا ہے؟’

    ‘نیب کو بی آر ٹی، بلین ٹری سونامی اور بینک آف خیبر کیسز پر انکوائری سے کون روک رہا ہے؟’

    پشاور: ہائی کورٹ نے بی آر ٹی، بلین ٹری سونامی اور بینک آف خیبر کیسز پر نیب سے استفسار کیا ہے کہ ان پر کون انھیں انکوائری سے روک رہا ہے، وہ عدالت کو بتا دیں۔

    تفصیلات کے مطابق بلین ٹری سونامی، بینک آف خیبر مالم جبہ اسکینڈل سے متعلق کیس کی سماعت پشاور ہائیکورٹ میں شروع ہوئی تو جسٹس روح الامین نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ بتائیں بی آر ٹی، بلین ٹری سونامی، بینک آف خیبر کیسز میں انکوائری سے کس نے آپ کو (نیب) روکا ہے۔

    درخواست گزار وکیل علی گوہر درانی نے عدالت کو بتایا کہ عدالت نے گزشتہ سماعت پر نیب کو انکوائری رپورٹ جمع کرنے کے احکامات دیے تھے لیکن ابھی تک وہ رپورٹ جمع نہیں کرائی گئی۔

    پراسیکیوٹر نیب ریاض خان نے عدالت کو بتایا کہ نیا آرڈیننس آیا ہے اس کی روشنی میں اس معاملے کو دیکھیں گے، عدالت ہمیں تھوڑا اور وقت دے۔

    اس پر جسٹس روح الامین نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ آپ یہ بتا دیں بی آر ٹی، بلین ٹری سونامی، بینک آف خیبر کیسز انکوائری سے آپ کو کون روک رہا ہے، نیب جب سب کو ایک جیسا ٹریٹ نہیں کرے تو پھر شک ہو جاتا ہے۔

    جج نے کہا نیب کو طریقے آتے ہیں، جس کو پکڑنا ہوتا ہے اس کو پکڑ لیتے ہیں، کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم ایسا آرڈر جاری کریں کہ نئے آرڈیننس سے نیب کا کام رک گیا ہے۔ جج نے کہا نیب کے کیسز ختم ہوگئے ہیں، جس نے عدالت میں درخواست دی ہے انھیں ان کیسز کی فکر ہے لیکن نیب کو نہیں ہے۔

    علی گوہر درانی ایڈوکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ مالم جبہ کیس کو نیب نے بند کر دیا ہے، یہ کیس محکموں کے درمیان کا معاملہ تھا، ہم نے کہا تھا کہ محکمے مل بیٹھ کر اس کا حل نکال لیں، بلین ٹری سونامی اور بینک آف خیبر میں ہم نے انکوائری رپورٹ طلب کی ہے، ایک کیس میں تو انکوائری بھی مکمل ہے اور فائل بھی یہاں سے گئی ہے، لیکن لگتا ہے اس انکوائری پر کوئی بیٹھ گیا ہے۔

    عدالت نے پراسیکیوٹر نیب سے استفسار کیا کہ انوسٹیگیشن آفیسر کہاں ہے، اس پر پراسیکیوٹر نیب نے عدالت کو بتایا کہ انوسٹیگیشن آفیسر آج نہیں ہے ہم آئندہ سماعت پر رپورٹ جمع کر دیں گے۔

    عدالت نے نیب سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت 12 جنوری 2022 تک ملتوی کر دی۔