Tag: پشاور ہائیکورٹ

  • عدالت نے دریائے کابل سے متعلق اہم حکم جاری کر دیا

    عدالت نے دریائے کابل سے متعلق اہم حکم جاری کر دیا

    پشاور: ہائی کورٹ نے دریائے کابل سے متعلق اہم حکم جاری کرتے ہوئے حکام کو ہدایت کی ہے کہ فوری طور پر دریا کے کناروں کو محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

    تفصیلات کے مطابق آج پشاور ہائی کورٹ میں دریائے کابل سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، سماعت چیف جسٹس قیصر رشید خان اور جسٹس اشتیاق ابراہیم پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کی۔

    چیف جسٹس نے سیکریٹری ایریگیشن سے استفسار کیا سیکریٹری صاحب آپ کو پتا ہے کہ آپ کو عدالت نے کیوں بلایا ہے؟ سیکریٹری نے جواب دیا جی مجھے معلوم ہے۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا، کیا آپ نے دریائے کابل کا دورہ کیا ہے اور دریا کے کنارے کی حالت دیکھی ہے؟ سیکریٹری نے جواب دیا کچھ دن ہوگئے میں نے آفس سنبھالا ہے، ماضی میں اس کے لیے اتنا کام نہیں ہوا۔ چیف جسٹس نے کہا ماضی میں کام ہوا ہی نہیں، اس عدالت نے نوٹس لیا تو اب ایریگیشن والوں کو خیال آیا۔

    چیف جسٹس نے کہا دریا دن بہ دن خشک ہو رہے ہیں، دریاؤں کے کناروں کو محفوظ بنانے کے لیے اقدامات اٹھانے ہوں گے، یہ اتنہائی سنجیدہ مسئلہ ہے اس کو ایسے نہیں چھوڑ سکتے، ضرورت محسوس ہوئی تو وزیر اعلیٰ اور چیف سیکریٹری کو بھی طلب کریں گے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ موٹر وے سے گزرتے ہوئے کیا سرکاری افسران ادھر ادھر نہیں دیکھتے؟ چیف سیکریٹری کیا کر رہے ہیں؟ سرکاری افسران جب باہر نکلتے ہیں تو انھیں دیکھنا چاہیے کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے۔

    عدالت نے سیکریٹری کو حکم دیا کہ دریائے کابل کا وزٹ کریں، اور دریا کے کناروں کو محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کریں، کناروں کو قبضہ مافیا سے بھی محفوظ بنائیں۔

    عدالت نے سیکریٹری ایریگیشن کو دریائے کابل کا دورہ کر کے دریا کے کنارے کو محفوظ بنانے کے لیے ضروری اقدامات اٹھانے اور رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔

  • ‘سیوریج لائن خرابی پر عدلیہ، گورنر اور اسپیکر ہاؤسز پر جرمانہ’

    ‘سیوریج لائن خرابی پر عدلیہ، گورنر اور اسپیکر ہاؤسز پر جرمانہ’

    پشاور: گلیات میں غیر قانونی تعمیرات اور دریاؤں کے کنارے تجاوزات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران عدالت کو اداروں کی کارکردگی کے حوالے سے بتایا گیا کہ سیوریج لائن کی خرابی پر عدلیہ، گورنر اور اسپیکر ہاؤسز پر بھی جرمانہ کیا جا چکا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پشاور ہائی کورٹ میں کیس کی سماعت کے لیے ایڈیشنل کمشنر ہزارہ، ڈی جی گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی، اے سی ایبٹ آباد، ڈی سی سوات اور سپرنٹنڈنٹ انجنیئر محکمہ آب پاشی سوات اور اے اے جی سید سکندرحیات شاہ، بابر خان یوسفزئی ایڈوکیٹ اور دیگر وکلا عدالت میں پیش ہوئے۔

    چیف جسٹس قیصر رشید خان نے استفسار کیا کہ گلیات میں بلڈنگز بن رہی ہیں ان کی سیوریج کے لیے کچھ انتظامات ہیں یا نہیں، ایسا نہ ہو کہ عمارتوں کی سیوریج لائنز جنگل میں جا رہی ہوں اور اس سے ماحول متاثر ہو، سیاحت کو فروغ دیں اچھی بات ہے، لیکن ماحول متاثر نہیں ہونا چاہیے۔

    اے سی ایبٹ آباد نے عدالت کو بتایا کہ گلیات میں جہاں پر غیر قانونی عمارتیں یا بلڈنگ بن رہی ہیں ان پر پابندی لگائی گئی ہے اور انھیں سیل کیا گیا ہے۔

    ڈی جی گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی رضا علی حبیب نے بتایا کہ جہاں پر بھی سیوریج یا پانی کے پائپ خراب تھے، ان پر جرمانہ عائد کیا گیا ہے، گورنر ہاؤس اور اسپیکر ہاؤس کے سیوریج پائپ خراب تھے ان کو بھی جرمانہ کیا ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا بہت اچھا کیا ہے جوڈیشری میں بھی کوئی خلاف وزری کرے تو ان کو بھی جرمانہ کریں۔ ڈی جی نے کہا جوڈیشری کو بھی خلاف وزری پر جرمانہ کیا گیا ہے، خلاف وزری کرنے والوں کو نہیں چھوڑا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک کریں گے تو پھر کسی کو مسئلہ نہیں ہوگا، منظور نظر افراد کے ساتھ رعایت کریں گے تو پھر مسائل ہوں گے۔

    اے سی ایبٹ آباد نے بتایا کہ ہرنوئی ندی کے کنارے تعیرات کی اجازت ٹی ایم اے اور محکمہ آب پاشی نے دی تھی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ٹی ایم اے کے کرپٹ افسران کی وجہ سے کام خراب ہے، ٹی ایم اے نے کوئی غلطی کی ہے تو اس کو اب ٹھیک بھی کرے ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ آپ بھی ویسے ہی چھوڑ دے۔

    ایڈیشنل کمشنر ہزارہ نے بتایا جھیل سیف الملوک کو صاف کر دیا ہے، جنریٹر بوٹس اور مچھلی کے غیر قانونی شکار پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔ ڈپٹی کمشنر سوات جنید خان نے بتایا کہ دریائے سوات کے کنارے جو بھی غیر قانونی تعمیرات اور مائیننگ ہو رہی تھی اس پر پابندی لگا دی گئی ہے، بونیر میں ماربل سٹی بن رہا ہے اس کے لیے پی سی ون تیار ہے، ایک ہزار کنال زمین بھی حاصل کی گئی ہے۔

    سپرنٹنڈنٹ انجنئیر محکمہ آب پاشی سوات نے بتایا کہ 2010 کے سیلاب کی وجہ سے دریائے سوات کو بہت نقصان پہنچا ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا دریائے سوات کا جو حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے تو اس کواب ٹھیک کریں، صوبائی حکومت نے دریائے سوات کے لیے 2.5 بلین، دریائے پنجگوڑہ کے لیے 2 بلین اور دریائے کنہار کے لیے 500 ملین روپے جاری کیے ہیں، اب کوئی غیر قانونی کام نہیں ہونا چاہیے۔

    عدالت نے متعلقہ حکام سے پیش رفت کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت 14 دسمبر تک ملتوی کر دی۔ کیس کی سماعت چیف جسٹس قیصر رشید خان اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کی۔

  • پشاور ہائیکورٹ نے چکن اور گوشت کی برآمد کی اجازت دے دی

    پشاور ہائیکورٹ نے چکن اور گوشت کی برآمد کی اجازت دے دی

    پشاور: پشاور ہائی کورٹ نے چوزے ، چکن اور گوشت کی برآمد کی اجازت دے دی، عدالت نے یکم جون کوچکن اورجانوروں کی افغانستان برآمد پر پابندی کا حکم دیا تھا۔

    ‌ تفصیلات کے مطابق پشاور ہائی کورٹ میں پولٹری اورلائیواسٹاک کی قیمتوں میں اضافےسےمتعلق کیس کی سماعت کی سماعت ہوئی ، دوران سماعت عدالت نے چوزے،چکن اور گوشت پرسے پابندی ہٹا دی۔

    پشاور ہائی کورٹ نے چوزے،چکن اورگوشت کی برآمد کی اجازت دے دی ، عدالت نے یکم جون کوچکن اورجانوروں کی افغانستان برآمد پر پابندی کاحکم دیا تھا۔

    دوران سماعت عدالت نے دودھ میں کیمیکل کے استعمال پر برہمی کااظہار کیا ، چیف جسٹس نے استفسار کیا دودھ میں کیمیکل ملایا جاتا ہے، ان کیخلاف کیا کارروائی کی؟ جس پر لائیو اسٹاک حکام نے بتایا کہ ہم نے دکانوں کو سیل اور دودھ تلف کیا ہے۔

    چیف جسٹس قیصررشیدخان نے کہا کہ ایسے لوگوں کیخلاف سخت سے سخت کارروائی کرے، کیمیکل استعمال کرنے والے دکانوں کو مکمل بند کرے۔

    عدالت نے لائیواسٹاک حکام کو کیمیکل ملا دودھ فروخت کرنیوالوں کیخلاف کارروائی کا حکم دے دیا۔

  • پشاور ہائیکورٹ کا فواد چوہدری، فردوس عاشق کو پیشی کا حکم

    پشاور ہائیکورٹ کا فواد چوہدری، فردوس عاشق کو پیشی کا حکم

    پشاور: ہائی کورٹ کے بینچ نے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور فروس عاشق اعوان کو توہین عدالت کیس میں آئندہ سماعت پر پیش ہونے کا حکم جاری کر دیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق پشاور ہائیکورٹ نے توہین عدالت کیس میں فواد چوہدری اور سابق معاون خصوصی اطلاعات فردوس عاشق اعوان کو آئندہ سماعت پر عدالت میں ذاتی حیثیت میں پیش ہونے اور جواب جمع کرنے کا تحریر حکم جاری کر دیا۔

    پرویز مشرف سنگین غداری کیس کا فیصلہ آنے کے بعد وفاقی وزرا نے اسلام آباد کے خصوصی عدالت کے جج جسٹس وقار احمد سیٹھ کے خلاف توہین آمیز پریس کانفرس کی تھی۔

    توہین عدالت کیس کا تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے عدالت نے قرار دیا کہ بار بار نوٹس کے باوجود فریق نمبر 5 فواد چوہدری اور فریق نمبر 6 فردوس عاشق اعوان عدالت میں پیش نہیں ہو رہے۔

    ان کے وکلا کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ وفاقی وزیر کابینہ اجلاس میں مصروف ہیں، جب کہ دوسرا فریق لاہور میں مصروف ہیں، اس لیے وہ حاضر نہیں ہوئے، تاہم عدالت نے فریقین کے وکلا کی استدعا کو غیر تسلی بخش قرار دے کر مسترد کر دیا، اور حکم جاری کیا کہ دونوں فریق آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش ہوں۔

    عدالت نے قرار دیا کہ فریق 2 وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم، فریق 3 بیرسٹر شہزاد اکبر اور فریق 4 سابق اٹارنی جنرل انور منصور ذاتی حیثیت میں پیش ہو کر معافی مانگ چکے ہیں، اور حاضری سے استثنیٰ کے لیے تحریری درخواستیں دے کر خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑا ہے، یہ عدالت فریق 5 اور 6 کو 19 اکتوبر کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیتی ہے۔

    سابق صدر پاکستان جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کی جانب سے پھانسی کی سزا سنائے جانے کے بعد وفاقی وزرا کی جانب سے خصوصی عدالت کے جج چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ (مرحوم) جسٹس وقار احمد سیٹھ کے بارے میں توہین آمیز پریس کانفرنس کرنے پر پشاور ہائیکورٹ میں دائر توہین عدالت درخواستوں پر جسٹس روح الامین اور جسٹس مسز مسرت ہلالی پر مشتمل دو رکنی بنچ نے سماعت کی۔

    سابق وفاقی وزیر اور سابق معاون خصوصی اطلاعات پنجاب حکومت فردوس عاشق اعوان کے وکلا نے عدالت کو بتایا کہ ہمیں کل شام فون کال پر عدالتی نوٹس کا پتا چلا، فواد چوہدری اور فردوس عاشق اعوان کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا عدالتی نوٹس نہیں ملا، اس وجہ سے وہ پیش نہیں ہوئے۔

    جسٹس روح الامین نے ریمارکس دیے کہ فواد چوہدری کو نوٹس کیسے نہیں ملا، میڈیا، اخبارات، سوشل میڈیا سب پر یہ خبریں چلتی ہیں، ان کو کیسے نہیں پتا، جسٹس مسز مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ اگر نوٹس نہیں ملا تھا تو پھر آپ لوگ عدالت میں کیوں پیش ہوئے۔

    جسٹس روح الامین نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے 3 بار نوٹس جاری کیا، یہ پھر بھی پیش نہیں ہوئے، یہ جان بوجھ کر عدالت میں پیش نہیں ہوتے، کیوں ان کو عدالت میں پیش ہونے میں شرم آتی ہے، ایسا ہے تو انھیں کہیں کہ اپنا منہ بند رکھا کریں، اگر نہیں رکھ سکتے تو پھر عدالت میں پیش ہوں، ان لوگوں نے پریس کانفرنس میں توہین آمیز زبان استعمال کر کے پوائنٹ اسکورنگ کی اور کسی کو اپنا جذبہ دکھانے کی کوشش کی ہے۔

    جسٹس مسز مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ حاضر سروس چیف جسٹس کے خلاف ایسی توہین آمیز زبان کا استعمال ناقابل برداشت ہے۔ جسٹس روح الامین نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بیرسٹر، اٹارنی جنرل اور ایک سنیئر وکیل سے کوئی کیسے یہ توقع کر سکتا ہے کہ وہ جج کے لیے ایسی زبان استعمال کرے گا، جب اٹارنی جنرل اور وکیل عدالتوں کا احترام نہیں کریں گے تو پھر کون کرے گا۔

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر جاوید نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم، معان خصوصی احتساب شہزاد اکبر اور سابق اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہو کر معافی مانگ چکے ہیں، انھوں نے تحریری طور پر معافی نامہ بھی جمع کیا، عدالت فروغ نسیم کو حاضری سے استثنیٰ دے چکی ہے، شہزاد اکبر اور انور منصور کی استثنیٰ درخواست بھی منظور کی جائے۔

    درخواست گزار وکیل عزیز الدین کاکا خیل نے کہا فواد چوہدری اور فردوش عاشق بار بار عدالتی نوٹس کے باوجود پیش نہیں ہو رہے، یہ اب دوبارہ توہین عدالت کے مرتکب ہو رہے ہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی مشرف فیصلہ آنے کے بعد پریس کانفرس کی تھی لیکن انھوں جج کے بارے میں کوئی ایسی بات نہیں کی، مسلم لیگ کے نہال ہاشمی، طلال چوہدری نے توہین عدالت کی تو عدالت نے معافی مانگنے کے باوجود انھیں سزا دی، وفاقی وزرا نے بھی توہین عدالت کی ہے ان کو معافی نہ دی جائے۔

    جسٹس روح الامین نے ریمارکس دیے کہ فروغ نسیم، شہزاد اکبر اور سابق اٹارنی جنرل توہین آمیز زبان استعمال کرنے پر معافی مانگ چکے ہیں، تاہم ان کی معافی کو قبول کرنا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ عدالت خود کرے گی۔

    وفاقی وزیر فواد چوہدری اور فردوس عاشق اعوان کے وکلا نے عدالت سے استدعا کی کہ ان کے مؤکل آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں پیش ہوں گے، اس لیے عدالت ان کے وارنٹ جاری نہ کرے، جس پر جسٹس روح الامین نے کہا کہ ہم آرڈر لکھ رہے ہیں وہ پھر آپ دیکھ لیں۔

  • پی ٹی اے کا عدالت میں ٹک ٹاک ویڈیوز سنسر کرنے کے حوالے سے اہم بیان

    پی ٹی اے کا عدالت میں ٹک ٹاک ویڈیوز سنسر کرنے کے حوالے سے اہم بیان

    پشاور: پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے عدالت میں بیان دیا ہے کہ ٹک ٹاک ویڈیوز سنسر کرنے کے لیے کوئی ڈیوائس موجود نہیں ہے۔

    تفصیلات کے مطابق آج پشاور ہائی کورٹ میں ٹک ٹاک پر غیر اخلاقی مواد اپ لوڈ ہونے کے حوالے سے دائر درخواست پر سماعت شروع ہوئی تو ڈائریکٹر ٹیکنیکل پی ٹی اے محمد فاروق نے عدالت کو بتایا عدالتی احکامات کے بعد اب تک ٹک ٹاک سے 98 لاکھ سے زائد غیر اخلاقی ویڈیوز کو ہٹایا جا چکا ہے۔

    انھوں نے کہا پی ٹی اے نے غیر اخلاقی ویڈیوز اپ لوڈ ہونے سے قبل ہی سنسر کرنے کے لیے مختلف ممالک سے رابطے کیے، لیکن ٹک ٹاک ویڈیو سنسر کرنے کے لیے ابھی تک کوئی ڈیوائس موجود نہیں ہے۔

    محمد فاروق نے کہا ٹک ٹاک پر غیر اخلاقی مواد اپ لوڈ کرنے والے اکاؤنٹس کے خلاف پی ٹی اے کا کریک ڈاؤن جاری ہے، اب تک ٹک ٹاک سے 98 لاکھ سے زائد غیر اخلاقی ویڈیوز کو ہٹایا گیا اور 7 لاکھ 20 ہزار اکاؤنٹ بلاک کیے جا چکے ہیں۔

    انھوں نے مزید کہا کہ ویڈیوز پر نظر رکھنے کے لیے ٹک ٹاک کنٹنٹ موڈریٹرز کی تعداد بڑھائی گئی ہے، پی ٹی اے کے وکیل جہانزیب محسود نے عدالت کو بتایا کہ پہلی بار ٹک ٹاک نے پاکستان کے لیے فوکل پرسن بھی مقرر کر دیا ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو کام آپ کر رہے ہیں، اس کو جاری رکھیں، ہم نہیں چاہتے کہ تفریح کے لیے ٹک ٹاک بند کیا جائے، لیکن ٹک ٹاک پر غیر اخلاقی مواد جو اپلوڈ ہوتا ہے، اس سے ہمارے معاشرے پر برے اثرات پڑتے ہیں، ہمیں صرف اس کی فکر ہے جو غیر اخلاقی ویڈیوز اپ لوڈ ہوتی ہیں، ان کو فلٹر کیا جائے۔

    عدالت نے پی ٹی اے کو ٹک ٹاک سے غیر اخلاقی مواد ہٹانے کا کام جاری رکھنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 22 دسمبر تک ملتوی کر دی۔

    واضح رہے کہ پشاور کے رہائشی عصمت اللہ نے ٹاک ٹاک پر غیر اخلاقی مواد اپ لوڈ ہونے کے خلاف سارہ علی اور نازش مظفر ایڈوکیٹ کی وساطت سے یہ درخواست دائر کی ہے۔

  • ہائی کورٹ نے عورت مارچ منتظمین کی درخواست خارج کر دی

    ہائی کورٹ نے عورت مارچ منتظمین کی درخواست خارج کر دی

    پشاور: چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ نے مقامی عدالت کے فیصلے کے خلاف عورت مارچ کی منتظمین کی درخواست خارج کر دی۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق عورت مارچ منتظمین کی ایف آئی آر اندراج کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس قیصر رشید خان نے ریمارکس دیے کہ عورت مارچ میں جو کچھ ہوا ایسا تو یورپ کے معاشروں میں بھی نہیں ہوتا۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا عورت مارچ میں شرکا نے ایسے بینرز اور پوسٹر اٹھا رکھے تھے جس پر نازیبا الفاظ درج تھے، مارچ میں ایسے نعرے بھی لگائے گئے جو معاشرے کے لیے کسی صورت قابل قبول نہیں ہیں۔

    جسٹس قیصر رشید خان نے ریمارکس دیے کہ عورت مارچ میں جو کچھ ہوا، اس پر شرکا کے علاوہ تمام لوگ ناراض تھے، کیا یہ سب کچھ بھی آزادی کے زمرے میں آتا ہے؟

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کے خلاف کیا کارروائی ہوئی ہے؟ درخواست گزار خاتون کے وکیل نے بتایا کہ ایڈیشنل سیشن جج نے مارچ منتظمین کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔

    جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے خلاف ابھی تک ایف آئی آر درج ہوئی ہے نہ کوئی اور کارروائی کی گئی ہے، کسی کو ابھی تک گرفتار بھی نہیں کیا گیا، پھر آپ نے کیوں یہاں درخواست دی ہے؟ وکیل نے مؤقف اپنایا کہ خدشہ ہے کہ منتظمین کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائی گی اور ان کو گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا ابھی تک ایف آئی آر درج نہیں ہوئی اور نہ کوئی کارروائی ہوئی ہے، صرف مفروضوں پر درخواستیں دائر نہیں ہو سکتیں، جب ایف آئی آر درج ہو جائے تو پھر آپ درخواست دائر کر سکتے ہیں، عدالت نے مقامی عدالت کے فیصلے کے خلاف عورت مارچ منتظمین کی درخواست خارج کر دی۔

    یاد رہے کہ 8 مارچ 2021 کو اسلام آباد میں عورت مارچ کا انعقاد کیا گیا تھا، جس میں بڑی تعداد میں خواتین شریک ہوئی تھیں، خواتین نے ایسے بینرز اور پوسٹر اٹھا رکھے تھے جن پر قابل اعتراض نعرے درج تھے، عورت مارچ منتظمین کے خلاف پشاور کے مقامی وکیل نے عدالت میں ایف آئی آر اندراج کے لیے درخواست دائر کی تھ، جس میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ عورت مارچ کی شرکا نے صحابہ کرام کی شان میں گستاخی کی ہے، اور مارچ میں غیر اسلامی حرکات کی گئی ہیں، جس پر ایڈیشنل سیشن کی عدالت نے 26 مارچ 2021 کو منتظمین کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا تھا۔

  • فیکٹریاں لگائیں لیکن عوام اور ماحول کو نقصان نہ پہنچے: پشاور ہائی کورٹ

    فیکٹریاں لگائیں لیکن عوام اور ماحول کو نقصان نہ پہنچے: پشاور ہائی کورٹ

    پشاور: عدالت نے نوشہرہ کے علاقے چراٹ سپین کانی میں سیمنٹ فیکٹری سے علاقے میں پانی کی کمی اور آلودگی بڑھنے پر محکمہ ماحولیات سے رپورٹ طلب کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس قیصر رشید نے سیمنٹ فیکٹری سے ماحولیات کو نقصان کے ایک کیس میں ریمارکس دیے کہ فیکٹریاں لگانا اچھا ہے، اس سے علاقے میں ترقی آتی ہے، لیکن اس سے علاقے کے عوام کو مشکلات نہیں ہونے چاہئیں، فیکٹریز لگائیں لیکن عوام کو بھی سہولیات دیں تاکہ علاقہ مکین اور وہاں کھیتوں کو پانی کا مسئلہ نہ ہو۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آج کل پانی کی کمی اور ماحول کو خطرات ہیں اور یہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ عدالت نے محکمہ ماحولیات کے ڈپٹی ڈائریکٹر کو ماہرین کی ٹیم کے ساتھ متعلقہ علاقے کا دورہ کرنے کا حکم دے دیا۔

    چیف جسٹس نے ڈپٹی ڈائریکٹر ماحولیات ممتاز علی کو ہدایت کی کہ آپ جا کر وہاں دیکھیں کہ فیکٹری نے کتنے ٹیوب ویل لگائے ہیں، عوام کو کتنا پانی مل رہا ہے اور فیکٹری کتنا پانی استعمال کر رہی ہے، پھر عدالت کو رپورٹ پیش کریں۔

    قبل ازیں، درخواست گزار تسلیم خان نے عدالت کو بتایا کہ سیمنٹ فیکٹری کی وجہ سے علاقے میں پانی کا مسئلہ پیدا ہوا، اور آلودگی میں بھی اضافہ ہو گیا ہے، ٹیوب ویل کا پانی فیکٹری استعمال کر رہی ہے جس کی وجہ سے علاقے کے مکینوں کو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں ہے۔

    درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ فیکٹری کے لیے پہاڑوں میں دھماکے کیے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے پہاڑوں سے درخت ختم ہو رہے ہیں، علاقے کے پہاڑ جو پہلے درخت اور جھاڑیوں سے بھرے تھے اب بنجر ہو گئے ہیں، فیکٹری کے لیے جو گاڑیاں آتی ہیں ان کی وجہ سے حادثات ہو رہے ہیں، آلودگی کی وجہ سے بھی لوگ پریشان ہیں، علاقے کے نوجوان بے روزگار ہیں لیکن فیکٹری میں ان کو ملازمت نہیں دی جا رہی۔

    سیمنٹ فیکٹری کے وکیل اسحاق علی قاضی نے عدالت کو بتایا کہ پانی 12 کلو میٹر دور علاقے سے لایا جاتا ہے، یہ فیکٹری 1981 میں بنی ہے اس وقت وہاں پر کوئی آبادی نہیں تھی، بنجر زمین تھی یہ لوگ جو یہاں آباد ہوئے ہیں، انھوں نے فیکٹری کی زمین پر گھر بنائے ہیں، اور فیکٹری میں 42 فی صد ملازمین اسی علاقے ہی کے مکین ہیں۔

    عدالت نے محکمہ ماحولیات کو علاقے کا دورہ کر کے پانی اور دیگر مسائل دیکھ کر رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 15 ستمبر تک ملتوی کر دی۔

  • بھیک مانگنے والے بچوں کے لیے ٹیکنیکل ایجوکیشن کے انتظامات کیے جائیں: عدالت کا حکم

    بھیک مانگنے والے بچوں کے لیے ٹیکنیکل ایجوکیشن کے انتظامات کیے جائیں: عدالت کا حکم

    پشاور: صوبہ خیبر پختونخواہ کے دارالحکومت پشاور کی ہائیکورٹ نے سڑکوں پر رہنے اور بھیک مانگنے والے بچوں کے لیے ٹیکنیکل ایجوکیشن کے اقدامات کرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق پشاور ہائیکورٹ میں اسٹریٹ چلڈرن کی فلاح و بہبود کے لیے دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی، عدالت نے سوشل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ کو ٹیکنیکل ایجوکیشن کے لیے اقدامات کرنے کا حکم دے دیا۔

    سیکریٹری سوشل ویلفیئر نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے ویلفیئر ہوم شروع کیے جہاں غریب بچوں کو کھانا بھی دیا جاتا ہے، ہم بچوں کو سینٹرز لاتے ہیں اور ان کی بحالی پر کام کرتے ہیں لیکن جب وہ واپس جاتے ہیں تو پھر سے بھیک مانگنے لگتے ہیں۔

    جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ ایک وقت کا کھانا دینے سے کچھ نہیں ہوتا، ان بچوں کا فیملی بیک گراؤنڈ بھی دیکھنا ہوگا، لوگوں کے پاس روزگار نہیں ہے۔ ان کی فیملی کو جب تک سپورٹ نہیں کریں گے یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔

    انہوں نے کہا کہ ایک وقت کا کھانا یا فوڈ پیکٹ دینے سے بہتر ہے ان بچوں کو ٹیکنیکل ایجوکشن دیں، بچے ٹیکنیکل ایجوکیشن حاصل کریں گے تو پھر اپنا روزگار کریں گے۔ سینٹرز پر بچوں کو ٹیکنیکل ایجوکیشن دینے کے اقدامات کریں۔

    چیف جسٹس قیصر رشید خان نے دریافت کیا کہ نشئی افراد کی بحالی کے لیے کیا اقدامات ہو رہے ہیں؟ جس پر اے اے جی سکندر حیات نے بتایا کہ فقیر آباد میں اسٹریٹ چلڈرن کے لیے جو سینٹر تھا وہاں سے بچوں کو زمونگ کور منتقل کیا ہے اور وہاں نشئی افراد کی بحالی کے لیے کام کیا جارہا ہے۔

    سیکریٹری ویلفیئر نے بتایا کہ 112 نشئی افراد کی بحالی کا کام کر رہے ہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ ویلفیئر سینٹرز کے حوالے سے الگ رپورٹ پیش کریں، انہوں نے 2 ماہ میں اقدامات کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 22 ستمبر تک ملتوی کردی۔

  • ٹیکنالوجی کاروبار کو عدالتی فیصلوں نے بہت نقصان پہنچایا ہے: فواد چوہدری

    ٹیکنالوجی کاروبار کو عدالتی فیصلوں نے بہت نقصان پہنچایا ہے: فواد چوہدری

    اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری ٹیکنالوجی کاروبار کو عدالتی فیصلوں نے بہت نقصان پہنچایا ہے، ہمارے ججز ٹیکنالوجی بزنس سے آگاہ نہیں ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ٹویٹ میں کہا کہ ٹیکنالوجی کاروبار کو عدالتی فیصلوں نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔

    فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ٹک ٹاک پر پابندی کے حوالے سے چیف جسٹس کو خط لکھوں گا، یہ جاننا ضروری ہے کہ پابندیوں سے کتنا نقصان پہنچ رہا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے ججز ٹیکنالوجی بزنس سے آگاہ نہیں ہیں، سپریم کورٹ سے ایم او یو بھی سائن کرنا چاہیں گے۔ انٹرنیٹ مواد کو روکنا مستقبل میں ممکن نہیں رہے گا۔

    فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ اخلاقی تربیت کا کام گھروں اور والدین کا ہے، اخلاقیات کی بنیاد پر عدالت کو فیصلے نہیں کرنے چاہئیں۔ پابندیاں لگانا بہت ہی پیچیدہ معاملہ ہے۔

    خیال رہے کہ گزشتہ روز پشاور ہائی کورٹ نے ویڈیو شیئرنگ ایپلی کیشن ٹک ٹاک پر پابندی عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹک ٹاک پر جو ویڈیوز اپ لوڈ ہوتی ہیں وہ ہمارے معاشرے کو قبول نہیں، ٹک ٹاک ویڈیوز سے معاشرے میں فحاشی پھیل رہی ہے۔

    پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے جاری ہونے والے حکم کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے بھی تمام انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں کو ہدایت کی کہ وہ فوری طور پر ٹک ٹاک سروس کو بند کر دیں۔

  • پہاڑی علاقوں میں ایندھن کے لیے لکڑیاں، عدالت نے پاور سیکریٹری کو نوٹس جاری کر دیا

    پہاڑی علاقوں میں ایندھن کے لیے لکڑیاں، عدالت نے پاور سیکریٹری کو نوٹس جاری کر دیا

    پشاور: پہاڑی علاقوں میں ایندھن کے لیے لکڑیاں جلانے کی مجبوری پر پشاور ہائی کورٹ نے پاور سیکریٹری کو نوٹس جاری کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق آج پشاور ہائیکورٹ میں خیبر پختون خوا کے شمالی علاقہ جات میں ٹمبر مافیا کی جانب سے درختوں کی کٹائی کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی، جس میں چیف جسٹس نے محکمہ جنگلات کی سرزنش کی کہ محکمہ جنگلات کی حفاظت کر رہا ہے یا اسے ختم کر رہا ہے۔

    سیکریٹری جنگلات نے عدالت کو بتایا کہ محکمہ جنگلات کی حفاظت کر رہا ہے اور نئے درخت بھی لگائے جا رہے ہیں۔ چیف جسٹس قیصر رشید خان نے ریمارکس دیے، بے شک آپ نئے درخت لگائیں، یہ اچھی بات ہے لیکن صدیوں پرانے درختوں کی بھی حفاظت کریں، جنگلات ہمارے آنے والے مستقبل کی امانت ہے ان کی حفاظت یقینی بنائیں۔

    چیف جسٹس نے کہا سیاحتی مقام مالم جبہ، گبین جبہ اور کمرات میں بھی ایسی سرگرمیاں شروع کی گئی ہیں جن سے وہاں جنگلات کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے، سیاحتی مقامات پر سرگرمیاں کریں لیکن وہاں جنگلات کو ختم مت کریں۔

    سیکریٹری جنگلات نے عدالت کو بتایا کہ پہاڑی علاقوں میں سردیوں کے موسم میں لوگ لکڑیاں جلاتے ہیں اس کے لیے محکمہ جنگلات وہاں لوگوں کو مفت پاپولر درخت دے رہے ہیں، جسے لوگ اپنے کھیتوں میں کاشت کرتے ہیں اور پھر ان درختوں کو ایندھن کے طور پر جلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں، اس طرح وہاں جنگلات بھی محفوظ رہتے ہیں۔

    عدالت میں موجود چیف کنزرویٹر نے کہا کہ ان علاقوں کے عوام کو اگر متبادل فیول فراہم کیا جائے تو اس سے جنگلات مزید محفوظ ہو سکیں گے، جس پر عدالت نے سیکریٹری پاور اینڈ انرجی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر طلب کر لیا۔

    چیف جسٹس نے سیکریٹری جنگلات اور چیف کنزرویٹر جنگلات کو ہدایت کی کہ درختوں کی حفاظت اور جنگلات کی بہتری کے لیے آپ اپنا کام کریں، کوئی رکارٹ ڈالے تو ہمیں درخواست دیں، ہم ان کے خلاف بھی کارروائی کریں گے۔

    عدالت نے سیکریٹری جنگلات اور چیف کنزرویٹر کو خود مالم جبہ اور گبین جبہ کا دورے کر کے وہاں صورت حال دیکھ کر تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 30 مارچ تک ملتوی کر دی۔