Tag: پشتو

  • ہاہاہا پی ڈی ایم تباہ دے، حکومتی وزرا کے پشتو میں ٹویٹس

    ہاہاہا پی ڈی ایم تباہ دے، حکومتی وزرا کے پشتو میں ٹویٹس

    اسلام آباد: وفاقی وزیر مراد سعید نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں بڑا انتشار سامنے آنے پر پشتو میں دل چسپ ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا ’ہاہاہا، ہاہاہا پی ڈی ایم تباہ دے‘۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق آج پی ڈی ایم سربراہی اجلاس میں استعفے نہ دینے کے دو ٹوک مؤقف پر مبنی پی پی شریک چیئرمین آصف زرداری کے خطاب کے بعد اپوزیشن اتحاد شدید انتشار کی حالت میں آ گیا ہے، جس کا اظہار اجلاس کے بعد ہونے والے پریس کانفرنس میں بھی نہ چھپایا جا سکا۔

    اس صورت حال پر حکومتی وزرا کے دل چسپ ٹویٹس سامنے آ رہے ہیں، مراد سعید نے بے اختیار پشتو میں ٹویٹ کر دیا ہے، انھوں نے لکھا ہاہاہا پی ڈی ایم تباہ دے۔ مراد سعید نے مزید لکھا کہ مولانا اسمبلی کے باہر نہیں رہ سکتے، سند یافتہ نا اہل و اشتہاری پاکستان میں نہیں رہ سکتا اور زرداری سندھ حکومت اور اسمبلیوں سے باہر نہیں رہ سکتا۔

    انھوں نے لکھا کہ سیاسی اور انتخابی میدان میں شکست کے بعد ذاتی مفادات کے لیے دیا جانے والا ساتھ ذاتی مفادات ہی کی نظر ہوگیا۔

    پی پی کے استعفوں پر تحفظات، پی ڈی ایم کا لانگ مارچ ملتوی کرنے کا اعلان

    شہزاد اکبر نے بھی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ زرداری کی سمجھ داری ہے کہ باپ بیٹی کی ذاتی مفاد کی لڑائی سے کنارہ کشی کر لی، ویسے بھی پی پی نظام میں اسٹیک ہولڈر ہے، جب کہ مولانا اور نواز آؤٹ سائیڈر ہیں۔ انھوں نے لکھا اب سزا یافتہ کے پیچھے کون اپنی صوبائی حکومت خراب کرے!

    وفاقی وزیر اسد عمر نے بھی ٹویٹ میں پشتو زبان کا استعمال کیا، انھوں نے لکھا ’پیپلز پارٹی پارٹی استعفے دینے سے انکاری، مولانا استعفوں کے بغیر لانگ مارچ سے انکاری،.میاں صاحب واپس آنے سے انکاری۔‘ اس کے بعد انھوں نے لکھا ’پی ڈی ایم تباہ دے۔‘

    واضح رہے کہ آج پی ڈی ایم سربراہی اجلاس میں اپوزیشن اتحاد ایک بڑے انتشار کا شکار ہو گیا ہے، اجلاس کے بعد جب مولانا فضل الرحمان پریس کانفرنس میں لانگ مارچ ملتوی کرنے کے مختصر اعلان کے بعد اچانک چلے گئے تو مریم نواز حواس باختہ ہو گئیں، انھوں نے صحافیوں کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ میں ابھی کھڑی ہوں، تاہم ان کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔

  • دنیا کا تہذیبی، ثقافتی ورثہ مادری زبانوں‌ کی آغوش میں محفوظ ہے

    دنیا کا تہذیبی، ثقافتی ورثہ مادری زبانوں‌ کی آغوش میں محفوظ ہے

    اکیسویں صدی کے آغاز پر دنیا نے مادری زبانوں کا دن عالمی سطح پر منانا شروع کیا تھا۔

    ہر سال 21 فروری (آج) کو یہ دن اس عزم اور جذبے کے ساتھ منایا جاتا ہے کہ حکومتیں زبانوں کے پھلنے پھولنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کریں‌ گی اور قوموں کو یاد رکھنا ہو گا کہ زبانیں ان کا فخر اور بیش قیمت سرمایہ ہیں۔ یوں یہ دن اس حوالے سے یاد دہانی کے طور پر ہر سال منایا جاتا ہے۔

    زندہ معاشروں میں اس روز مذاکرے، مباحث منعقد ہوتے ہیں اور زبانوں سے متعلق علمی و تحقیقی کاموں کو آگے بڑھانے پر زور دیا جاتا ہے۔ دانش ور اور ماہرینِ لسانیات کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ صاحبانِ اختیار کو مادری زبانوں کے تحفظ، فروغ اور احیا کی طرف متوجہ کریں۔

    آج پاکستان میں بھی یہ دن منایا جارہا ہے۔ قومی زبان اردو کے علاوہ ہمارے ملک کے تمام صوبوں‌ کی اپنی زبان اور مقامی بولیاں‌ ہیں‌ جو ثقافتی تنوع اور تہذیب و روایت کی رنگارنگی کا مظہر ہیں۔

    مادری زبان دراصل ہماری پیدائشی بولی، گھر اور خاندان میں رابطے کا ذریعہ بننے والی زبان ہوتی ہے۔ پاکستان میں اردو زبان کے بعد مختلف بولیاں اور چھوٹی زبانیں بھی رابطے کا ذریعہ ہیں جو مقامی اور ثقافتی لب و لہجے میں گندھی ہوئی ہیں۔

    اسی طرح دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی مقامی سطح پر مختلف زبانیں اور بولیاں سمجھی اور بولی جاتی ہیں۔ تاہم کئی زبانیں اور مقامی بولیاں ابھی متروک ہوتی جارہی ہیں۔ اقوام متحدہ نے رکن ممالک پر زور دیا ہے کہ زبانوں کا تحفظ اور رکن ممالک ان کو فروغ دینے کی کوشش کریں تاکہ دنیا کا عظیم ثقافتی اور لسانی ورثہ محفوظ رہے۔ یاد رہے کہ کسی قوم کی ثقافت، تاریخ، فن، اور ادب اس کی مادری زبان کا مرہون منت ہوتا ہے اور زبانوں کے متروک ہونے سے تاریخ و ثقافت مٹ سکتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق پاکستان میں مختلف لہجوں میں لگ بھگ 74 زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں اردو کے علاوہ پنجابی، سندھی، سرائیکی، پشتو، بلوچی، ہندکو، براہوی، میمنی، مارواڑی، پہاڑی، کشمیری، گجراتی، بلتی، دری اور بہت سی دوسری بولیاں قبائل اور برادریوں کے افراد میں رابطے کا ذریعہ ہیں۔

  • پشتو شاعر ظہور عباس کا قتل، سیکڑوں افراد کا احتجاجی مظاہرہ

    پشتو شاعر ظہور عباس کا قتل، سیکڑوں افراد کا احتجاجی مظاہرہ

    لکی مروت: خیبر پختون خوا کے علاقے لکی مروت میں مشہور پشتو شاعر ظہور عباس شاہ افکار بخاری کو قتل کر دیا گیا، جس پر احتجاج کرتے ہوئے سیکڑوں مقامی افراد سڑکوں پر نکل آئے۔

    تفصیلات کے مطابق بنوں ڈویژن کے ضلع لکی مروت میں پشتو شاعر ظہور عباس شاہ کے قتل پر سیکڑوں افراد نے احتجاج کیا، مظاہرین نے ظہور عباس کی میت کارگل چوک پر رکھ کر انڈس ہائی وے بلاک کر دی۔

    ظہور عباس شاہ افکار بخاری گزشتہ روز نا معلوم نقاب پوش ملزمان کی فائرنگ سے جاں بحق ہوئے تھے، واقعے کے بعد ان کی لاش پوسٹ مارٹم کے لیے گورنمنٹ سٹی اسپتال لکی مروت منتقل کی گئی تھی، تاہم مظاہرین نے ان کی میت حاصل کر کے سڑک پر رکھ کر احتجاج شروع کیا۔

    احتجاج کے دوران ڈی پی او قاسم علی اور ڈپٹی کمشنر جہانگیر اعظم مذاکرات کے لیے پہنچے، پولیس کے اعلیٰ افسران کے ساتھ مظاہرین کے مذاکرات میں مطالبہ کیا گیا کہ افکار بخاری کے قاتلوں کا سراغ لگا کر فوری گرفتار کیا جائے۔

    خیال رہے کہ پشتو شاعر کو گزشتہ روز ان کے حجرے میں گولیاں ماری گئی تھیں، جس سے وہ موقع ہی پر جاں بحق ہو گئے تھے، واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس کی بھاری نفری جائے وقوعہ پر پہنچی تھی، پولیس کی جانب سے ضلع بھر کے داخلی و خارجی راستوں کی ناکہ بندی بھی کر دی گئی ہے۔

  • لیلا او لیلا کے بعد علی ظفر اب کون سا گانا گائیں گے؟

    لیلا او لیلا کے بعد علی ظفر اب کون سا گانا گائیں گے؟

    لاہور: بین الاقوامی شہرت یافتہ گلوکار و اداکار علی ظفر نے کہا کہ میں ہمیشہ اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ اگر آپ ایک اسٹار ہونے کے باوجود بھی دوسروں کے لیے نہیں چمکیں گے تو آپ اسٹار نہیں ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر فلم اسٹاراورگلوکارعلی ظفر نے اپنے پیغام میں کہا کہ لیلا او لیلا کے بعد میری خواہش ہے کہ میں اب اور بھی کچھ کروں جس سے پاکستان کے دوسرے حصوں کے نوجوانوں کا ٹیلنٹ بھی سامنے آسکے۔

    علی ظفر نے اپنی ٹویٹ میں مداحوں سے سوال کیا کہا کہ پشتو گانا کیسا رہے گا؟ انہوں نے کہا کہ مجھے ان گانوں کے لنک بھیجیں جو آپ چاہتے ہیں کہ میں کسی گلوکار کے ساتھ گاؤں۔

    معروف گلوکار علی ظفر نے کہا کہ میں ہمیشہ اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ اگر آپ ایک اسٹار ہونے کے باوجود بھی دوسروں کے لیے نہیں چمکیں گے تو آپ اسٹار نہیں ہیں۔

    پاکستانی گلوکار علی ظفر نے ٹویٹ میں ہیش ٹیگ پشتو کا استعمال کیا جس سے لگتا ہے کہ وہ اب اپنے کسی مداح کے ساتھ پشتو گانا گانا چاہتے ہیں۔

    یاد رہے کہ حال ہی میں علی ظفر نے بلوچستان سے تعلق رکھنے والی 12 سالہ گلوکارہ عروج فاطمہ کے ساتھ بلوچی گانا لیلا او لیلا گایا تھا

    یاد رہے کے چند روز قبل ریلیز کیا جانے والا گانا ’لیلا او لیلا‘ معروف گلوکار علی ظفر نے بلوچستان سے تعلق رکھنے والی 12 سالہ گلوکارہ عروج فاطمہ کی خواہش پوری کرنے کے لیے ان کے ساتھ گایا تھا۔

    علی ظفر اور عروج فاطمہ کی جانب سے گائے جانے والے گانے لیلا او لیلا کو یوٹیوب پر اب تک 20 لاکھ سے زائد لوگ دیکھ چکے ہیں اور اس گانے کو بے حد پسند کیا جا رہا ہے۔