Tag: پشتو ادب

  • ماہرِ تعلیم، ادیب اور محقق پری شان خٹک کی برسی

    ماہرِ تعلیم، ادیب اور محقق پری شان خٹک کی برسی

    آج معروف ماہرِ تعلیم، ادیب اور متعدد علمی و تحقیقی اداروں‌ کے سربراہ پروفیسر پری شان خٹک کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 16 اپریل 2009ء میں‌ وفات پاگئے تھے۔ تعلیم کے شعبے میں بے مثال خدمات انجام دینے والے پری شان خٹک نے اپنے علمی و تحقیقی کام اور ادبی تخلیقات کے سبب بڑا نام و مرتبہ پایا۔

    پروفیسر پری شان خٹک علمی و تحقیقی سرگرمیوں‌ سے متعلق مختلف اداروں کے منتظم بھی رہے۔ ان کا اصل نام محمد غمی جان تھا۔ 10 دسمبر 1932ء کو صوبہ سرحد (کے پی کے) کے ایک گائوں غنڈی میر خان خیل میں آنکھ کھولنے والے غمی جان نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد پشاور یونیورسٹی سے تاریخ اور پشتو ادب میں ایم اے کیا اور پشاور یونیورسٹی ہی سے بہ طور لیکچرار عملی زندگی کا آغاز کیا۔ بعدازاں پشتو اکیڈمی کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے جہاں اپنی قابلیت اور صلاحیتوں سے خود کو منوایا اور بعد میں انھیں متعدد علمی و تعلیمی اداروں کا سربراہ مقرر کیا گیا۔

    پروفیسر پری شان خٹک اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین بھی رہے۔ انھوں نے کئی کتابوں کی تدوین اور تالیف کا کام بخوبی انجام دیا۔ ان کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے انھیں ستارۂ امتیاز اور تمغہ امتیاز سے نوازا تھا۔

    پری شان خٹک پشاور کے ایک قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔

  • صاحبُ السیف والقلم خوش حال خان خٹک کا یومِ وفات

    صاحبُ السیف والقلم خوش حال خان خٹک کا یومِ وفات

    پشتو ادب کو اپنی فکر اور تخلیقات سے مالا مال کرنے والے خوش حال خان خٹک کی تلوار زنی اور سامانِ حرب میں مہارت بھی مشہور ہے۔ انھیں ایک جنگجو اور آزادی کے متوالے کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔ وہ پانچ صدی قبل 25 فروری 1689ء کو اس دنیا سے رخصت ہوئے تھے، لیکن اپنی شاعری اور جذبہ حریّت کے سبب آج بھی انھیں یاد کیا جاتا ہے۔

    خوش حال خان خٹک نے پشتو ادب میں اپنے کمالِ فن کا مظاہرہ کیا۔ خطاطی ان کا ایک حوالہ ہے، سُر اور ساز سے انھیں لگاؤ تھا اور تلوار کے دستے پر ان کی گرفت مضبوط تھی۔ اسی سبب وہ صاحبُ السّیف والقلم بھی کہلائے۔

    خوش حال خان خٹک 1613ء میں پشاور کے نزدیک ایک گائوں اکوڑہ میں پیدا ہوئے۔ اوائلِ عمری میں یوسف زئی قبیلے کے سردار بنے۔ مغل دور میں شاہ جہاں نے ان کا حقِ سرداری قبول کیا، مگر اورنگزیب نے ایسا کرنے سے انکار کیا تو خوش حال خان خٹک نے اس کے خلاف علمِ حرّیت بلند کیا جس کے بعد وہ گرفتار کیے گئے اور قید کاٹی۔

    رہائی کے بعد انھوں نے جھڑپوں اور لڑائیوں کے دوران مغل فوج کو متعدد بار شکست سے دوچار کیا۔ اس پر اورنگزیب خود ان کی سرکوبی کے لیے آیا اور اس موقع پر انھیں شکست ہوئی۔

    خوش حال خان خٹک نے تقریباً چالیس ہزار اشعار یادگار چھوڑے جن میں تغزل سے بڑھ کر واقعاتی رنگ غالب ہے۔ بیش تَر کلام رجزیہ ہیں۔ ان کے اشعار میں جوش و ولولہ، آزادی کا موضوع اور مغلوں کی مخالفت پڑھنے کو ملتی ہے۔ خوش حال خان خٹک پر علم و ادب سے وابستہ شخصیات نے بہت کچھ لکھا اور ان کی شاعری اور فکر و نظریہ پر تحقیق کے بعد کئی کتب منظرِ عام پر آچکی ہیں۔ پشتو کے اس مشہور شاعر کا مدفن اکوڑہ خٹک میں ہے۔

  • پشتو کے نام ور شاعر اور ادیب امیر حمزہ خاں شنواری کی برسی

    پشتو کے نام ور شاعر اور ادیب امیر حمزہ خاں شنواری کی برسی

    قومی زبان کے علاوہ پاکستان میں مقامی زبانوں میں بھی تخلیق کاروں اور اہلِ‌ قلم نے نثر و نظم دونوں اصنافِ ادب میں طبع آزمائی کی ہے اس حوالے سے پشتو زبان و ادب کی بات کی جائے تو ایک اہم نام امیر حمزہ خاں شنواری کا ہے جن کا آج یومِ‌ وفات ہے۔ وہ پشتو کے ممتاز شاعر اور ادیب تھے۔ انھوں نے 18 فروری 1994ء کو وفات پائی۔

    امیر حمزہ خاں شنواری ستمبر 1907ء میں خوگا خیل، لنڈی کوتل میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے پشتو زبان میں ادب کی مختلف اصناف پر کام کیا اور ان کی کئی نثری اور شعری کتب شایع ہوئیں‌۔ ان میں تجلیاتِ محمدیہ، وجود و شہود، جبر و اختیار، انسان اور زندگی اور نوی چپی اور شعری مجموعوں میں غزونے، پیروونے، یون، سلگی، بھیر، سپرلے پہ آئینہ کے، صدائے دل اور کلیاتِ حمزہ شامل ہیں۔ انھوں نے اردو میں‌ بھی شاعری کی ہے، لیکن جلد پشتو غزل گوئی اور دیگر اصنافِ سخن کی طرف مائل ہو گئے تھے۔

    امیر حمزہ خاں شنواری نے سفر نامے بھی تحریر کیے جو کتابی شکل میں شایع ہوئے۔ انھوں نے شاعرِ مشرق علاّمہ اقبال، نام ور شاعر صبا اکبر آبادی کے کلام کو پشتو میں‌ منتقل کیا اور مشہور صوفی شاعر رحمٰن بابا پر بھی مضامین اور ان کے کام کو اکٹھا کرکے پشتو میں کتابی شکل میں پیش کیا۔

    حکومتِ پاکستان نے امیر حمزہ خاں شنواری کی علمی اور ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی اور ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔

  • پشتو زبان کے نام وَر ادیب اور شاعر سمندر خان سمندر کا یومِ وفات

    پشتو زبان کے نام وَر ادیب اور شاعر سمندر خان سمندر کا یومِ وفات

    پاکستان کے عظیم شعرا کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے یادگاری ڈاک ٹکٹوں کی سیریز کا سلسلہ شروع ہوا تو 2002ء میں سمندر خان سمندر یادگاری ٹکٹ بھی جاری کیا گیا تھا۔ وہ پشتو زبان کے ادیب، محقق، شاعر اور مترجم کی حیثیت سے نام و مقام رکھتے ہیں۔

    یکم جنوری 1901ء کو پیدا ہونے والے سمندر خان سمندر 17 جنوری 1990ء کو جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    سمندر خان سمندر بدرشی، نوشہرہ کینٹ کے رہائشی تھے۔ وہ ایک زمانے میں خاکسار تحریک سے وابستہ رہے اور بعد میں مسلم لیگ سے جڑ گئے۔ ان کی زندگی اور فن سے نئی نسل کو روشناس کرانے کے لیے پشتو کے ادیب اور شعرا اور جامعات کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ سمندر خان سمندر کے یادگاری ڈاک ٹکٹ پر ان کا خوب صورت پورٹریٹ شایع کیا گیا تھا جس کی مالیت دو روپیہ تھی۔

    ان کی تصانیف میں ژور سمندر، دادب منارہ، میرمنے، کاروان روان دے، لیت ولار، خوگہ شپیلئی، پختنے، قافیہ، دایلم سوکہ، دقرآن ژڑا اور بلے ڈیوے شامل ہیں۔

    انھوں نے علّامہ اقبال کی مثنوی اسرارِ خودی اور رموزِ بے خودی کا بھی منظوم پشتو ترجمہ کیا تھا۔

  • مغل بادشاہ اور اکوڑہ خٹک کا ایک صاحبِ سیف و قلم

    مغل بادشاہ اور اکوڑہ خٹک کا ایک صاحبِ سیف و قلم

    اکوڑہ خٹک نامی گاؤں کو سولہویں صدی عیسوی میں ملک اکوڑہ خان خٹک نے آباد کیا تھا۔ مغل بادشاہ اکبر نے انھیں اس علاقے کی جاگیر داری اور اٹک کے گھاٹ سے دریائے سندھ عبور کرنے والوں سے راہداری (ٹول ٹیکس) وصول کرنے کا اختیار نامہ دیا تھا جس کے بعد ملک اکوڑہ خٹک نے اسی جگہ مستقل سکونت اختیار کی اور یہ علاقہ انہی سے منسوب ہوگیا۔

    ملک اکوڑہ خٹک پشتو زبان کے مشہور شاعر اور مجاہد خوش حال خان خٹک کے پڑ دادا تھے۔ اب اسے پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ایک تاریخی قصبہ کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے جو ضلع نوشہرہ میں واقع ہے۔

    اس قصبے کے ایک نام وَر اور پشتو کے ممتاز شاعر و ادیب خوش حال خان خٹک کو صاحبِ سیف و قلم بھی کہا جاتا ہے۔ پشتو ادب کو اپنی فکر اور تخلیقات سے مالا مال کرنے والے خوش حال خان خٹک کی تلوار اور سامانِ حرب میں مہارت بھی مشہور ہے۔ انھیں ایک مجاہد کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔

    خوش حال خان خٹک نے ادب کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی اور پشتو زبان میں اپنے کمالِ فن کا مظاہرہ کیا۔ خطاطی ان کا ایک حوالہ ہے، سُر اور ساز سے انھیں لگاؤ تھا اور تلوار کے دستے پر ان کی گرفت مضبوط تھی۔

    وہ 1613 میں اکوڑہ میں پیدا ہوئے تھے۔ اوائل عمری میں یوسف زئی قبیلے کے سردار بنے تو مغل حکم راں شاہ جہاں نے انھیں قبول کرلیا، مگر بعد میں کسی وجہ سے اورنگزیب نے ان کی سرداری قبول کرنے سے انکار کیا تو خوش حال خان خٹک نے میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا، لیکن گرفتار ہوئے اور انھیں‌ رن تھمبور کے قلعے میں قید کردیا گیا۔ بعد میں‌ وفادار اور مطیع رہنے کے وعدے پر انھیں آزاد کیا گیا، مگر انھوں‌ نے شاہی افواج کے خلاف کارروائیاں‌ جاری رکھیں اور یہ معاملہ اتنا بڑھا کہ اورنگزیب خود ان کے خلاف میدان میں نکل آیا۔ خوش حال خان خٹک اور ان کے ساتھیوں کو اس میں شکست ہوئی اور پشتو ادب کا یہ نام ور اور حریت پسند 1689 میں اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔

    خوش حال خان خٹک کی زندگی، شخصیت اور فن پر کئی کتب لکھی جاچکی ہیں‌۔ انھیں‌ کثیر الجہت اور نابغہ روزگار شخصیات میں شمار کیا جاتا ہے جن کے تذکرے کے بغیر پشتو ادب کی تاریخ ادھوری ہے‌۔

  • ممتاز ادیب، محقق اور ماہرِ تعلیم پری شان خٹک کا تذکرہ

    ممتاز ادیب، محقق اور ماہرِ تعلیم پری شان خٹک کا تذکرہ

    تعلیم و تدریس کے شعبے میں خدمات، علمی و تحقیق کاموں اور ادب کے حوالے سے پری شان خٹک کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

    معروف ماہرِ تعلیم اور ادیب پروفیسر پری شان خٹک علمی و تحقیقی سرگرمیوں‌ سے متعلق مختلف اداروں کے منتظم بھی رہے ہیں۔ آج 16 اپریل کو پروفیسر پری شان خٹک کی برسی منائی جاتی ہے۔ ان کا انتقال 2009 میں ہوا تھا۔

    پروفیسر پری شان خٹک کا اصل نام محمد غمی جان تھا۔ انھوں نے 10 دسمبر 1932 کو صوبہ سرحد (کے پی کے) کے ایک گائوں غنڈی میر خان خیل میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد پشاور یونیورسٹی سے تاریخ اور پشتو ادب میں ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔

    پری شان خٹک نے پشاور یونیورسٹی ہی سے بہ طور لیکچرار عملی زندگی کا آغاز کیا۔ بعدازاں پشتو اکیڈمی کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے جہاں اپنی قابلیت اور صلاحیتوں سے خود کو منوایا اور یہی وجہ تھی کہ بعد میں انھیں متعدد علمی و تعلیمی اداروں میں منتظم مقرر کیا گیا۔

    پروفیسر پری شان خٹک اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین بھی رہے۔ انھوں نے کئی کتابوں کی تدوین اور تالیف کا کام بخوبی انجام دیا اور علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے انھیں ستارۂ امتیاز اور تمغہ امتیاز سے نوازا۔