Tag: پطرس بخاری

  • ہیمر شولڈ نے احمد بخاری کو کیسا پایا؟

    ہیمر شولڈ نے احمد بخاری کو کیسا پایا؟

    یہ احمد شاہ بخاری کا تذکرہ ہے جنھیں اردو ادب میں پطرس بخاری کے نام سے پہچان اور مقبولیت ملی۔ وہ بطور مزاح نگار نام ور ہوئے اور ادیب، نقاد، معلّم، ماہرِ نشریات اور سفارت کار کی حیثیت سے بھی خود کو منوایا۔ پطرس کی پیشہ ورانہ قابلیت، ان کی ذہانت اور دور اندیشی کے ساتھ ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتی ایک تحریر ہم یہاں نقل کررہے ہیں جو اپنے وقت کی ایک مدبر و دانش ور شخصیت ہیمر شولڈ کے قلم سے نکلی۔ ڈیگ ہیمر شولڈ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بنے تو وہاں ان کی ملاقات احمد بخاری المعروف پطرس بخاری سے ہوئی۔ ہیمر شولڈ احمد شاہ سے بہت متاثر ہوئے جس کا اظہار اپنی تحریر میں کیا ہے۔

    احمد شاہ بخاری اقوامِ متحدہ میں ان دنوں پاکستان کے نمائندے کے طور پر موجود تھے اور اقوامِ متحدہ میں انھیں اہم ذمہ داریاں تفویض کی گئی تھیں‌۔ تعریف و توصیف پر مبنی ہیمر شولڈ کی یہ تحریر ۲۵ جون ۱۹۵۹ء کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    احمد بخاری سے میری پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب مجھے سیکرٹری جنرل کا عہدہ سنبھالے کوئی زیادہ مدت نہیں گزری تھی۔ اس وقت وہ اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کے رئیس تھے اور اپنی حاضر جوابی اور شگفتہ بیانی کی بدولت عظیم شہرت کے مالک تھے۔

    اس کے علاوہ وہ اپنے ملک کے بدرجہ غایت مؤثر اور با وقار ترجمان ہونے کے اعتبار سے بڑے احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ ہماری پہلی گفتگو نے ان جذبات و احساسات میں کسی قدر اضافہ ضرور کیا۔ لیکن یہ اضافہ ان کی اس خیالی تصویر سے چنداں مختلف نہ تھا جس کے لیے وہ باہر کی دنیا میں معروف تھے۔

    مجھے یاد ہے کہ کس طرح اس موقع پر انہوں نے اقوام متحدہ کے عالمی مسائل سے زیادہ انگریزی زبان کے ماورائی شعراء کے بارے میں اپنی دل چسپی کا اظہار کیا تھا۔

    کم و بیش ایک سال کے بعد جب مجھے اس ادارے کے لیے عالم اسلام کے ایک اعلیٰ نمائندے کی جستجو ہوئی تو قدرتی طور پر میرا ذہن بخاری کی طرف متوجہ ہوا اور مجھے یہ معلوم کر کے مزید مسرت ہوئی کہ وہ ہمارے عملے میں شرکت کے لیے رضامند ہیں۔ یوں پہلے پہل ان کی خود سپردگی کسی قدر اچنبے کی بات تھی۔

    جنوری ۱۹۵۵ء میں وہ میرے ہمراہ پیکنگ گئے جہاں مجھے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ہوا بازوں کی ایک جماعت کو رہا کرانے کے لیے بات چیت کرنی تھی۔ کچھ شک نہیں کہ وہ بڑے ہوش مند اور زیرک مشیر تھے لیکن اپنے فرائض منصبی کی بجا آوری کے ساتھ جس بات پر انہیں زیادہ تسکین حاصل ہوئی وہ یہ تھی کہ انہیں مشرقی ایشیا کی تہذیب سے رابطہ پیدا کرنے کا اولین موقع ہاتھ آیا تھا۔ یہ تہذیب مغربی ایشیا کی ثقافت کے متوازی اوصاف رکھتی تھی کہ جس رنگ میں وہ خود رنگے ہوئے تھے۔

    اس کے بعد مشرق وسطیٰ کے دوروں میں مجھے چند موقعوں پر ان کی رہنمائی سے استفادہ کا شرف حاصل ہوا۔ ان ہی سفروں کے دوران، میں نے ان کی قدر و قیمت کا اندازہ لگا کر یہ محسوس کیا کہ ان کی شخصیت پر ان کے عہد شباب کے تجربوں اور خاص کر ان کی خاندانی روایات کی کتنی گہری چھاپ ہے۔ ان کے تمام رفقاء اور احباب جانتے ہیں کہ ان کی قدرتی گرم جوشی اور سادگی میں حیا داری کس قدر رچی بسی ہوئی تھی۔ ان مرکب اوصاف کے پیچھے ان کے عمیق شریفانہ اطوار کارفرما تھے۔ دراصل وہ ایک احساس فخر بھی رکھتے تھے۔ جس کا اظہار انہوں نے میرے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے دو موقعوں پر کیا۔ ان میں سے ایک ان طنزیہ الفاظ سے بھی مترشح ہے کہ "میری پرورش و تربیت اونٹ کے کوہان پر ہوئی۔”

    میں نے اس جگہ روایات کے اس پس منظر پر خاص زور دیا ہے جس سے انہیں واقعی دل بستگی تھی۔ دوسرے اصحاب بلاشبہ ان کی علمی فضلیت اور مغربی اقدار پر ان کی بصیرت کا ذکر کریں گے۔ فی الواقع انہیں انگریزی زبان اور اپنے علاقے کی زبانوں پر زبردست قدرت حاصل تھی اور وہ غیر معمولی طور پر مغربی ادب کے بھی بلند پایہ نقاد تھے۔

    قدرتی طور پر میرے لیے لازم ہے کہ احمد بخاری کے اوصاف و کمال کے بارے میں جو کچھ میں نے کہا ہے اسے چند لفظوں میں سمیٹ کر یہ بیان کروں کہ ان کی یہ خصوصیات ایک سیاسی سفیر کی حیثیت میں کس طرح ظاہر ہوتیں اور اپنا اثر ڈالتی تھیں۔ یہ کام میں جیقس برزون (Jacques Barzun) کی تازہ تصنیف دی ہاؤس آف انٹی لیکٹ کا ایک اقتباس پیش کر کے بخوبی انجام دے سکتا ہوں۔ وہ لکھتے ہیں "حکمت عملی (سفارت) کا تقاضہ ہے کہ دوسرے کے افکار و اذہان سے آگاہی حاصل ہو، یہ انشاء پرداز کا بھی ایک امتیازی وصف ہے مگر اس سے دوسرے درجے پر کہ وہ دوسروں کے دلائل کا جواب کس ہوش مندی اور واضح استدلال کے ساتھ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایک ‘حاضر دماغ’ سفیر اور ایک ‘پریشان خیال’ سفیر اصلاح میں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔”

    احمد بخاری حقیقت میں ان اوصاف پر پورے اترنے والے سفیر تھے جو مندرجہ بالا اقتباس میں بیان کئے گئے ہیں۔

  • پطرس بخاری: صاحبِ طرز ادیب، منفرد مزاح نگار

    پطرس بخاری: صاحبِ طرز ادیب، منفرد مزاح نگار

    علم و ادب کے شیدا ہر دور میں پطرس بخاری کی تحریروں کا لطف اٹھانے کے ساتھ ان کے قلم کی روانی، شگفتہ بیانی اور طرزِ تحریر کا انفرادیت کے قائل رہیں گے۔ آج پطرس کا یومِ وفات ہے۔

    ایک کتاب کے دیباچہ کی حسبِ ذیل سطریں پطرس کے زورِ‌ قلم اور محاورات کے برجستہ استعمال کی خوب صورت مثال ہیں۔ ملاحظہ کیجیے: "اگر یہ کتاب آپ کو کسی نے مفت بھیجی ہے تو مجھ پر احسان کیا ہے۔ اگر آپ نے کہیں سے چرائی ہے تو میں آپ کے ذوق کی داد دیتا ہوں۔ اپنے پیسوں سے خریدی ہے تو مجھے آپ سے ہمدردی ہے۔ اب بہتر یہی ہے کہ آپ اس کتاب کو اچھا سمجھ کر اپنی حماقت کو حق بجانب ثابت کریں۔”

    پطرس بخاری کی وجہِ شہرت ان کی مزاح نگاری ہے، لیکن اُن کے انشائیے، تنقیدی مضامین اور تراجم پر مبنی کتابیں بھی اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔ پطرس بخاری کو ہمہ جہت شخصیت کہا جاتا ہے جو صرف انہی اصنافِ ادب تک محدود نہیں رہے بلکہ انھوں نے خود کو ایک صحافی اور بہترین صدا کار کے طور پر بھی منوایا۔ تخلیقی کاموں کے ساتھ ان کی اپنے شعبہ اور کام پر گرفت بھی قابلِ‌ ذکر ہے۔ وہ ریڈیو کے ماہرِ نشریات اور زبردست براڈ کاسٹر تھے۔ ریڈیو پر تخلیقی کام ہی نہیں، انھوں نے انتظامی امور اور تکنیکی معاملات کو بھی سنبھالا اور اپنی ٹیم سے خوب کام لیا۔

    پطرس بخاری ان ادیبوں اور مزاح نگاروں‌ میں سے ایک تھے جو ابتذال اور پھکڑ پن کا راستہ روکتے ہوئے اپنی تحریروں سے ثابت کرتے ہیں کہ شائستہ طنز و مزاح‌ کیا ہوتا ہے اور شگفتہ نگاری کا مطلب کیا ہے۔ وہ اپنے دور کے باکمال اور بڑے ادیبوں رشید احمد صدیقی، عظیم بیگ چغتائی، مرزا فرحت اللہ بیگ، غلام احمد فرقت کاکوروی، شفیق الرّحمٰن، شوکت تھانوی پر مشتمل کہکشاں میں شامل تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد اردو ادب میں پطرس بخاری کا قد ان کے ہم عصروں میں بہت بلند نظر آتا ہے۔ اس کا اعتراف معروف مزاح نگار رشید احمد صدیقی نے یوں کیا، "ظرافت نگاری میں پطرس کا ہم سَر ان کے ہم عصروں میں کوئی نہیں۔ بخاری کی ظرافت نگاری کی مثال داغ کی غزلوں اور مرزا شوق کی مثنویوں سے دی جا سکتی ہے۔”

    فن و ادب کا یہ بڑا نام ایک ماہرِ تعلیم اور سفارت کار کی حیثیت سے بھی ممتاز ہوا۔ پطرس بخاری گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی کے پروفیسر اور آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے بھی ان کی خدمات بیش بہا ہیں۔ انگریزی زبان پر ان کو عبور حاصل تھا اور انھوں نے انگریزی سے کئی کتابوں کے اردو تراجم کیے جو قارئین میں بہت مقبول ہوئے۔

    پشاور میں 1898 میں پیدا ہونے والے پطرس بخاری کا اصل نام احمد شاہ تھا۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد پطرس نے فارسی، پشتو اور انگریزی زبانیں سیکھیں اور ریڈیو سے وابستہ ہوگئے۔ پاکستان بنا تو یہاں بھی ریڈیو کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ کالج کے زمانے میں ہی پطرس نے معروف مجلّے ‘‘راوی’’ کی ادارت سنبھال لی تھی اور اسی زمانے میں باقاعدہ لکھنے کا آغاز بھی کر دیا تھا۔ انھیں انگریزی سے کیمبرج پہنچے کے بعد بڑا لگاؤ ہوگیا تھا اور عالمی ادب کا خوب مطالعہ کیا۔

    بخاری صاحب کے دل میں پیدائشی خرابی تھی۔ عمر کے ساتھ ساتھ انھیں دیگر عوارض بھی لاحق ہو گئے۔ کہتے ہیں کہ وہ اکثر بے ہوش ہو جاتے تھے۔ ڈاکٹروں نے مکمل آرام کا مشورہ دیا، لیکن بخاری صاحب دفتر جاتے رہے۔ 1958 میں پطرس نیویارک میں سرکاری کام کی غرض سے ٹھہرے ہوئے تھے اور وہیں 5 دسمبر کو اچانک ان کی زندگی کا سفر تمام ہوگیا۔ انھیں امریکہ ہی میں دفن کیا گیا۔

    بخاری صاحب کو خان لیاقت علی خاں نے بطور سفارت کار منتخب کیا تھا۔ وہ اپنے اوّلین دورۂ امریکہ میں انہی کو اپنے ساتھ بطور ترجمان لے گئے تھے۔ پچاس کے عشرہ میں‌ پطرس بخاری نے اقوامِ متحدہ میں پاکستانی مندوب کے فرائض سرانجام دیے۔ بعد میں‌ وہ اقوامِ متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل بھی مقرر ہوئے۔

    پطرس کے شگفتہ و سنجیدہ مضامین اور تراجم کے علاوہ ان کی تالیف کردہ کئی کتب شایع ہوچکی ہیں۔ برجستہ گو، حاضر دماغ اور طباع پطرس بخاری کی مقبول تحریروں‌ میں‌ ہاسٹل میں‌ پڑھنا، مرحوم کی یاد میں، کتّے، میبل اور میں شامل ہیں۔

    پطرس کتّے کے عنوان سے اپنے مضمون میں وہ لکھتے ہیں. ‘‘آپ نے خدا ترس کتا بھی ضرور دیکھا ہو گا، اس کے جسم میں تپّسیا کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں، جب چلتا ہے تو اس مسکینی اور عجز سے گویا بارِ گناہ کا احساس آنکھ نہیں اٹھانے دیتا۔ دُم اکثر پیٹ کے ساتھ لگی ہوتی ہے۔

    سڑک کے بیچوں بیچ غور و فکر کے لیے لیٹ جاتا ہے اور آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ شکل بالکل فلاسفروں کی سی اور شجرہ دیو جانس کلبی سے ملتا ہے۔ کسی گاڑی والے نے متواتر بگل بجایا، گاڑی کے مختلف حصوں کو کھٹکھٹایا، لوگوں سے کہلوایا، خود دس بارہ دفعہ آوازیں دیں تو آپ نے سَر کو وہیں زمین پر رکھے سرخ مخمور آنکھوں کو کھولا۔ صورتِ حال کو ایک نظر دیکھا، اور پھر آنکھیں بند کر لیں۔

    کسی نے ایک چابک لگا دیا تو آپ نہایت اطمینان کے ساتھ وہاں سے اٹھ کر ایک گز پرے جا لیٹے اور خیالات کے سلسلے کو جہاں سے وہ ٹوٹ گیا تھا وہیں سے پھر شروع کر دیا۔ کسی بائیسکل والے نے گھنٹی بجائی، تو لیٹے لیٹے ہی سمجھ گئے کہ بائیسکل ہے۔ ایسی چھچھوری چیزوں کے لیے وہ راستہ چھوڑ دینا فقیری کی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔’’

    حکومتِ پاکستان نے بعد از مرگ انھیں ہلالِ امتیاز دینے کا اعلان کیا تھا۔ یہاں ہم ان کے ایک رفیقِ‌ کار عشرت رحمانی کی تحریر سے وہ اقتباس نقل کررہے ہیں جس میں بخاری صاحب کی شخصیت اور ان کے اوصاف کو بیان کیا گیا ہے۔ عشرت رحمانی لکھتے ہیں: "بخاری صاحب ضابطہ و قاعدہ کے سختی سے پابند ہونے کے باوجود ہر معاملے کو چٹکی بجاتے باتوں باتوں میں طے کر دیتے تھے۔ مشکل سے مشکل مسئلہ کو نہایت خندہ پیشانی سے باآسانی حل کرنا ان کے ضابطہ کا خاصہ تھا۔ ان کی ضابطہ کی زندگی کے بے شمار واقعات و مطائبات مشہور ہیں جن کا بیان اس مختصر مضمون میں دشوار ہے وہ اپنے تمام ماتحت اہلکاروں سے ایک اعلیٰ افسر سے زیادہ ایک ناصح مشفق کا سلوک اختیار کرتے۔ ہر شخص کی ذہنی صلاحیت اور قابلیت کو بخوبی پرکھ لیتے۔ اس کے ساتھ اسی انداز سے ہم کلام ہوتے اور اس کے عین مطابق برتاؤ کرتے۔ شگفتہ بیانی ان کا خاص کمال تھا۔ اور ہر شخص کے ساتھ گفتگو کے دوران میں اس کا دل موہ لینا اور بڑی سے بڑی شخصیت پر چھا جانا ان کا ادنیٰ کرشمہ تھا۔ ان کے حلقہٴ احباب میں سیاسی لیڈر، سرکاری افسران اعلیٰ، پروفیسر، عالم فاضل اور ادیب و شاعر سب ہی تھے لیکن سب ہی کو ان کی لیاقت اور حسنِ گفتار کا معترف پایا۔ ان احباب میں سے اکثر ان کے ضابطہ کے کاموں میں سفارشیں بھی کرتے لیکن وہ تمام معاملات میں وہی فیصلہ کرتے جو حق و دیانت کے مطابق ہوتا۔ لطف یہ ہے کہ خلافِ فیصلہ کی صورت میں بھی کسی کو شکایت کا موقع نہ دیتے اور بڑے اطمینان و سکون سے اس طرح سمجھا کر ٹال دیتے کہ صاحبِ معاملہ مطمئن ہونے پر مجبور ہو جاتا۔”

  • معاشرہ سازی کی جعلی اور مجنونانہ کوشش

    معاشرہ سازی کی جعلی اور مجنونانہ کوشش

    پروفیسر احمد شاہ بخاری نے اردو زبان و ادب میں ’پطرس بخاری‘ کے قلمی نام سے خوب لکھا اور بطور مزاح نگار اس قلمی نام سے ان کی منفرد پہچان بنی۔ علمی و ادبی حلقے اور باذوق قارئین انھیں اسی نام سے یاد کرتے ہیں۔ پطرس بخاری کی ہمہ گیر شخصیت کا تعارف بیک وقت مزاح نگار، نقّاد، مترجم، صحافی، براڈ کاسٹر، ایک ماہرِ تعلیم، اور سفارت کار کے طور پر ہم سے ہوتا ہے۔

    پطرس بخاری کی اپنے دور کے ادب، ادبی سرگرمیوں اور اہلِ قلم کی بعض کم زوریوں پر نظر رہی۔ اس کا اندازہ ان کے ایک انگریزی مقالہ سے ہوتا ہے۔ یہ مقالہ پطرس مرحوم نے ۱۹۴۵ء میں پی ای این کے جے پور میں منعقدہ سالانہ اجلاس میں پڑھا تھا۔ اس میں ان کا موضوع اردو ادب کا جدید دور یعنی اقبال کے فوراً بعد کا زمانہ تھا۔ مظفر علی سیّد نے اس کا ترجمہ کیا تھا جو ہم یہاں نقل کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے:

    ہمارا ادیب اپنے آپ کو ایک نئے معاشرے میں گھرا ہوا دیکھتا ہے۔ یہ معاشرہ اس کے فہم و بصیرت کی حدوں سے بڑھ کر وسیع اور پیچیدہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایسا معاشرہ اس کے اسلاف کے تجربے اور مشاہدے سے ماورا ہے۔ اور اسی وسیع و عریض حقیقت سے اس کو موافقت پیدا کرنا ہے تاکہ تکمیل اور استحکام حاصل ہو۔ جب تک یہ موافقت پوری نہیں ہوتی۔ وہ بڑے پُر جوش اضطراب کے ساتھ کسی نہ کسی طرز کی محفل بنا کے بیٹھ جائے۔ اسی اضطراب کی وجہ سے اس زمانے کے اکثر ادیب ایک نہ ایک انجمن یا حلقے سے وابستہ ہو گئے ہیں اور ایک دوسرے کے تصانیف پر دیباچے اور پیش لفظ لکھتے رہتے ہیں۔ آج سے پہلے شاید ہی کبھی ہمارے ادیبوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑنے، محفلیں، انجمنیں اور حلقے بنانے کی ضرورت محسوس کی ہو۔ یہ ادارے کتنی ہی سنجیدگی اور خلوص سے کیوں نہ وجود میں آئے ہوں، معاشرہ سازی کی جعلی اور مجنونانہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اور ادیب کو ان آوارگیوں اور سیاحتوں کی قیمت اپنے تخلیقی جوہر سے ادا کرنی پڑتی ہے۔ ان غیر واضح قسم کی حرکتوں سے اس کا مدعا یہ ہے کہ زندگی کے ’’کل‘‘ کو پا لے اور چونکہ برونِ خانہ سے اس کا ربط قائم نہیں ہوا، اس کو درونِ خانہ میں تلاش و تجسس سے کام لینا پڑتا ہے۔ مگر اس تلاش کے دوران میں زندگی کا کاروبار ملتوی ہوتا رہتا ہے اور جب تک کوئی زرخیز زمین ملے۔ زندگی کا رس خشک ہو جاتا ہے۔

  • ہیبت ناک افسانے

    ہیبت ناک افسانے

    یہ فرانس کے ایک مشہور ادیب مورس لیول (Maurice Level) کی پُراسرار اور دہشت انگیز کہانیوں کے اردو ترجمہ پر رواں تبصرہ ہے، اور اس کے مصنّف اردو کے ممتاز ادیب، براڈ کاسٹر اور مشہور مزاح نگار پطرس بخاری ہیں۔

    پطرس کو یہ کتاب معروف ڈرامہ نگار امتیاز علی تاج نے ارسال کی تھی جو ان کہانیوں کے اردو مترجم ہیں۔ اگر آپ دل چسپی رکھتے ہیں اور یہ کہانیاں‌ پڑھنا چاہتے ہیں تو انٹرنیٹ پر اردو ترجمہ دست یاب ہے۔ فرانس کے ادیب مورس لیول کو بطور فکشن نگار اور ڈرامہ نویس دنیا بھر میں‌ پہچانا جاتا ہے۔ ان کی خوف ناک اور پرتجسس واقعات پر مبنی مختصر کہانیاں بہت مقبول ہوئیں اور امتیاز علی تاج انہی کو اردو زبان میں ڈھالا تھا جس پر پطرس بخاری کا یہ مضمون ملاحظہ کیجیے۔

    ”ہیبت ناک افسانے“ کا پیکٹ جب یہاں پہنچا۔ میں گھر پر موجود نہ تھا۔ میری عدم موجودگی میں چند انگریز احباب نے جو کتابوں اور اشیائے خوردنی کے معاملے میں ہر قسم کی بے تکلفی کو جائز سمجھتے ہیں، پیکٹ کھول لیا۔

    یہ دوست اردو بالکل نہیں جانتے۔ بجز چند ایسے کلموں کے جو غصے یا رنج کی حالت میں وقتاً فوقتاً میری زبان سے نکل جاتے ہیں اور جو بار بار سننے کی وجہ سے انہیں یاد ہوگئے ہیں۔ اردو تقریر میں ان کی قابلیت یہیں تک محدود ہے۔ تحریر میں اخبار ”انقلاب“ کا نام پہچان لیتے ہیں وہ بھی اگر خط طغریٰ میں لکھا گیا ہو چنانچہ جب واپس پہنچا تو ہر ایک نے محض کتاب کی وضع قطع دیکھ کر اپنی اپنی رائے قائم کر رکھی تھی۔ سرورق پر جو کھوپڑی کی تصویر بنی ہوئی ہے اس سے ایک صاحب نے یہ اندازہ لگایا کہ یہ کتاب،

    میں بھی کبھی کسی کا سر پر غرور تھا

    سے متعلق ہے۔ ایشیا کے ادیب (عمر خیام، گوتم بدھ وغیرہ) اکثر اس قسم کے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ ایک دوسرے صاحب سمجھے کہ فن جراحی کے متعلق کوئی تصنیف ہے۔ ایک بولے جادو کی کتاب معلوم ہوتی ہے (ہندوستان کے مداریوں کا یہاں بڑا شہرہ ہے ) ایک خاتون نے کتاب کی سرخ رنگت دیکھ کر بالشویکی شبہات قائم کر لیے۔

    میں نے کتاب کو شروع سے آخر تک پڑھا۔ گو یہ سب کی سب کہانیاں میں پہلے انگریزی میں پڑھ چکا ہوں۔ اور ان میں سے اکثر تراجم کتابی صورت میں شائع ہونے سے پہلے خود امتیاز سے سن چکا ہوں۔ وہ مختلف قسم کی دلفریبیاں جو مجھے کبھی کسی تصنیف کو مسلسل پڑھنے پر مجبور کرسکتی ہیں سب کی سب یہاں یکجا تھیں۔ کتابت ایسی شگفتہ کہ نظر کو ذرا الجھن نہ ہو تحریر میں وہ سلاست اور روانی کہ طبیعت پر کوئی بوجھ نہ پڑے۔ اور پھر امتیاز کے نام میں وہ جادو جس سے ہندوستان یا انگلستان میں کبھی بھی مَفر نہ ہو۔ یہ کتاب تیرہ ہیبت ناک افسانوں کا مجموعہ ہے۔ جن کے مصنف کا مدعا یہ تھا کہ پڑھنے والوں کے جسم پر رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے اور ہر افسانے میں درد و کرب خوف و دہشت یا پھر مرگ و ابتلاء کی ایسی خونیں تصویر کھینچی جائے کہ بدن پر ایک سنسنی سی طاری ہوجائے۔

    ایڈگر ایلن پو کے پڑھنے والے ایسے افسانوں سے بخوبی آشنا ہوں گے۔ حق تو یہ ہے کہ پو اس فن کا استاد تھا۔ اور یہ جو آج کل اس صنف ادب کی کثرت فرانس میں نظرآتی ہے عجب نہیں کہ اس کا بیشتر حصہ تو اسی کی بدولت ہو۔ کیونکہ فرانس کی ادیبات پر پو کا اثر مسلّم ہے اور ادب کا شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہو۔ جہاں کسی نہ کسی صورت میں اس نے اپنا رنگ نہ پھیر رکھا ہو۔ پیرس میں ایک خاص تھیٹر اسی بات کے لئے وقف ہے کہ اس میں دہشت انگیز کھیل دکھائے جائیں۔ اس کمپنی نے اس قسم کے ڈراموں کا اچھا خاصا مجموعہ مہیا کر رکھا ہے۔ تھیٹر کی ڈیوڑی میں چیدہ چیدہ ڈراموں کے مشہور مناظر کی تصاویر آویزاں ہیں۔ کہیں کوئی بدنصیب موت کی آخری انگڑائیاں لے رہا ہے۔ چہرہ تنا ہوا ہے اور آنکھیں باہر پھوٹی پڑتی ہیں۔ کہیں کوئی سفاک کسی حسینہ کی آنکھیں نکال رہا ہے۔ بائیں ہاتھ سے گردن دبوچے ہوئے ہے۔ دائیں ہاتھ میں خون آلود چھری ہے اور لڑکی کی آنکھوں سے لہو کی دھاریں بہہ رہی ہیں۔ کھیل کو ہیبت ناک بنانے کے لئے جو جو تدابیر بھی ذہن میں آسکتی ہیں ان سب پر عمل کیا جاتا ہے۔ ایکٹر اپنی شکل شباہت اپنی آواز اور اپنی حرکات کے ذریعے ایک خوف سے کانپتی ہوئی فضا پیدا کر لیتے ہیں۔ پردہ اُٹھنے سے پہلے ہی گھنٹی نہیں بجائی جاتی بلکہ چراغ گُل کر کے لکڑی کے تختے پر دستک دی جاتی ہے۔ اس سے ہیبت اور بھی زیادہ ہوجاتی ہے۔

    اس بات میں بحث کی گنجائش نہیں کہ درد و کرب یا خوف و دہشت کے مناظر یا افسانوں سے ایک خاص قسم کی خوشی حاصل ہوتی ہے۔ یہ فقرہ بظاہر خود اپنی تردید کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے جس کو درد کہا جاتا ہے۔ اس سے خوشی کیسے حاصل ہوگی۔ لیکن یہ ہمارے متداول الفاظ کی کم مائیگی کا نتیجہ ہے۔ اصل خیال کو جو اس فقرے سے ظاہر کیا گیا ہے الفاظ کے اس گورکھ دھندے سے باہر نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اسی وجہ سے بعض ماہرین نفسیات دکھ، درد، کرب وغیرہ اس قسم کے الفاظ استعمال سے مجتنب رہتے ہیں کیونکہ وہ کب کے اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ بہت سی ایسی کیفیات جن کو ہم عام زبان میں دکھ درد وغیرہ سے موسوم کرتے ہیں۔ بسا اوقات اس قدر تسکین بخش ہوتی ہیں کہ لوگ ان کے وصول کے لئے جدوجہد کرتے ہیں۔ اور ان میں اپنی مسرت ڈھونڈ لیتے ہیں۔ یقیناً آپ کے پڑوس میں کئی ایسی عورتیں ہوں گی جو اس تلاش میں رہتی ہیں کہ کسی نہ کسی کی موت کی خبر سن پائیں اور بین اور واویلا میں شامل ہو کر آنسو بہا بہا کر اپنی تمنا پوری کرلیں۔ جرائم اور اموات کی گھناؤنی سے گھناؤنی تفصیلات کی اشاعت یورپ اور امریکہ کے کئی اخباروں کی مقبولیت کا باعث ہے۔ لوگوں کو ان کے پڑھنے میں ایک خاص لطف آتا ہے۔ اسی طرح اگر آپ یا میں بعض دہشت ناک افسانوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں تو ہمیں اس کا اعتراف کرتے ہوئے محض اس وجہ سے متامل نہ ہونا چاہیے کہ کہیں لوگ اس کو ہماری طینت کے کسی نقص پر محمول نہ کریں۔

    اعصاب میں ایک تھرتھراہٹ! بس یہی ان افسانوں کا مقصد ہے اور جس کامیابی، جس خوبی اور جس فن کے ساتھ اس کتاب کے مصنف نے اس مقصد کی تکمیل چاہی ہے اس کی تعریف اس سے زیادہ اور کیا ہوسکتی ہے کہ امتیاز جیسے ذی مطالعہ اہل قلم کو اس کے ترجمے کی خواہش ہو۔ ان لوگوں کے سامنے جو اردو ادب کے مشاہیر سے واقف ہیں اس سے زیادہ قابل وقعت ضمانت نہیں پیش کی جاسکتی۔ مصنف کی سب سے بڑی خوبی خود مترجم نے کتاب کے دیباچے میں واضح کر دی ہے۔

    مورس لیول بے انتہا، سلیس عبارت استعمال کرتے ہیں۔ جس کی پختگی اور روانی پڑھنے میں نظم کا سا لطف دیتی ہے۔ ایک فقرہ یا لفظ بھی ضرورت سے زیادہ یا کم نہیں ہوتا۔ مختلف چیزوں کے بیان میں تناسب کی سمجھ بے حد تیز ہے۔ چنانچہ ان کی ہر مکمل کہانی ایک نفیس اور صاف ستھرے ترشے ترشائے ہیرے کی طرح دل کش معلوم ہوتی ہے۔“

    یہ اختصار دہشت انگیز افسانوں کی ایک ضروری صفت معلوم ہوتی ہے۔ اس کے بغیر ان میں وہ تندی وہ تیزی نہیں رہتی جس سے سنسنی پیدا کی جا سکے۔ اور پھر یہ اختصار ہر رنگ میں شامل حال رہتا ہے ورنہ افسانے یا ڈرامے کی کامیابی میں نمایاں طور پر فرق پڑ جاتا ہے اس کی وجہ میں کبھی ٹھیک طور پر سمجھ نہیں سکا لیکن اس کی حقیقت کے متعلق میرے دل میں کوئی شبہ نہیں۔ پیرس کے جس تھیٹر کا میں نے ذکر کیا ہے وہاں اکثر کھیل صرف ایک ایکٹ کے ہوتے ہیں اور خود تھیٹر بھی بہت چھوٹا سا ہے۔ چند دن ہوئے میں نے لندن میں ایک ایسی قسم کا کھیل دیکھا جو ہیو والیول کے ایک ناول سے مرتب کیا گیا ہے۔ دل چسپی کی بات یہ ہے کہ اس کھیل کے لئے بھی لندن کا ایک بہت چھوٹا سا تھیٹر منتخب کیا گیا اس تھیٹر کا نام لٹل تھیٹر یا چھوٹا تھیٹر ہے۔ باقی رہا امتیاز کا ترجمہ، میں حیران ہوں کہ اس مختصر سے تبصرے میں اس موضوع کے متعلق کیا کہوں اور کیا کسی اور وقت پر اٹھا رکھوں۔

  • رہتی دنیا تک اقبال مشرق کا ولولہ خیز شاعر رہے گا!

    رہتی دنیا تک اقبال مشرق کا ولولہ خیز شاعر رہے گا!

    ’’وہ انسان جس نے اردو شاعری کو مردانہ پن بخشا۔‘‘ اقبال کی وفات سے ہندوستان ایک جلیل القدر شاعر سے کہیں زیادہ باعظمت ہستی سے محروم ہو گیا۔

    وہ بطور ایک عالم اور تاریخ، فلسفہ اور مذہب کے سرگرم طالب علم بھی ان لوگوں کے لئے جو اپنی محدود قابلیت کے سبب اس کی اعلیٰ شاعری تک رسائی سے قاصر تھے، منبع فیض وجود تھا۔ بطور شاعر اگرچہ اس کا مقام نہایت بلند تھا لیکن ادبی اور عمرانی دنیا میں اثر و نفوذ کے لحاظ سے اس کا مقام اس سے بھی بلند تر تھا۔ اس کی وفات سے جہاں مسلمانوں سے ایک فصیح اللسان پیغامبر اور ان کی تہذیب کا ایک بہت بڑا شارح چھن گیا ہے وہاں اردو شاعری سے خدا معلوم کتنی دراز مدت کے لئے اہمیت اور منزلِ مقصود چھن گئی۔

    کم و بیش چالیس سال گزرے جب اقبال کی شاعرانہ زندگی کا آغاز ہوا۔ اس وقت اردو شاعری اگرچہ لوگوں میں مقبول تھی اور ہر کس و نا کس اس سے لطف اندوز ہوتا تھا۔ اس کا مقصد خود زندگی نہیں بلکہ محض زندگی کے حاشیہ کی تزئین سمجھا جاتا تھا۔ اگرچہ یہ مقبولِ عام فن تھا مگر یہ فن محض فن کی خاطر اختیار کیا جاتا تھا۔ اس وقت شاعری کیا تھی؟ محض جذبات انگیز عیاشی، نرم و نازک، دل خوش کن، مزاحیہ یا ہجویہ، لیکن سراسر بے ربط۔ اسی لئے اس کے اختیار کرنے میں سنجیدگی اور متانت سے کام لینے کی ضرورت نہ سمجھی جاتی۔

    لیکن مسلمانوں کے دلوں میں ایک نیا احساس کروٹیں لے رہا تھا۔ اور لوگوں کی زبان پر تعمیرات ملت اور ترقی کے الفاظ آنے شروع ہو گئے تھے۔ ان میں جو زیادہ ذکی الحس واقع ہوئے تھے۔ انہوں نے آرٹ کو پھر ڈھونڈ نکالا کہ یہ بھی انسان کے زیادہ اہم مشاغل میں سے ایک ہے اور اس کو اعلیٰ سنجیدگی اور مقصد و مدعا سے معمور کرنے کی کوشش کی گئی۔ چنانچہ حالی ایسا غزل گو عہد شباب کی ہوس کاریوں سے تائب ہو کر مشہور زمانہ مسدّس کا مصنف بن گیا۔ جس نے خوابِ غفلت کے متوالے ہندوستانی مسلمانوں کو اس طرح جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر جگایا کہ کوئی ایک نظم نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد ایسا کر سکی۔ ان ہی حالات میں اقبال جس نے اسی فرسودہ ڈگر پر اپنی شاعری شروع کی تھی، محسوس کرنے لگا کہ اس کا دل مسلمانوں کے احیا اور ان کی نئی زندگی کے خواب سے مضطرب اور بے قرار ہے۔

    ہندوستان ہمارا
    اقبال کی ابتدائی نظموں سے ہی جو اس رجحان کے ماتحت لکھی گئیں۔ اس کے ولولہ، عمل سے بے تاب دل اور اپنے وطن کے لئے جذباتِ محبت کا پتہ لگتا ہے، اس کی نظم، ’’سچ کہہ دوں اے برہمن گر تو برا نہ مانے‘‘ اب تک فرقہ وارانہ اتحاد کی سب سے زیادہ پُر اثر اپیل ہے جو کسی محب وطن کے قلم سے نکلی ہو۔ اور اس کا شہرۂ آفاق گیت ”ہندوستان ہمارا“ میرے خیال میں بہترین قومی گیت ہے جس پر کسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا اور جس سے بہتر گیت کی شاید مدت مدید تک بننے کی امید نہیں ہو سکتی۔ لیکن مذہب اسلام کے غائر مطالعہ نے جو اقبال نے اپنی زندگی کے آخری ایام تک مسلسل جاری رکھا۔ اس کے افق خیال کو وسعت بخشی۔ وطن اور ملک کی نسبت سے قوموں کا تصور اس کی فطرت کے خلاف تھا۔ اپنی شاعری اور اپنی گفتگو میں وہ ہمیشہ یورپ کی مثال دے کر انسانوں کو ملکوں اور وطنوں کے تنگ دائروں میں تقسیم کرنے کی بیہودگی ثابت کیا کرتا۔ وہ ایک ایسے تمدنی نصب العین کا قائل تھا جو انسانوں کو وطنوں اور قوموں کے اختلافات کی سطح سے بلند کر دے اور جو زندگی کو ایک مقصود مدعا بخشے کیونکہ اس کے نزدیک آرٹ کا با مقصد ہونا محض زندگی کے اصول علت العلل کا جزو لاینفک تھا۔ اسی قسم کی ہمہ گیری اور با مقصدیت انہیں نظر آئی تو اسلام میں یا چند جرمن فلسفیوں کی تعلیمات میں جن سے وہ بے دریغ اپنی شاعری میں استفادہ کرتا رہا۔

    مجازی خیالی دنیا
    جس دور سے ہم ہندوستان میں گزر رہے ہیں اگرچہ اس میں بڑے بڑے امکانات پوشیدہ ہیں تاہم اس میں ایک خاص غم ناک کیفیت موجود ہے۔ ہم میں شاید ہی کوئی فن کار ایسا ہو جس کے فن میں گھر کے لئے اداسی بطور مرض کے موجود ہو۔ ہم دور دراز خیالی دنیاؤں کے آرزومند ہیں۔ اور خواہ وہ دنیائیں خیالی ہوں یا حقیقی۔ ان کی زمانی یا مکانی دوری ہی ان کے اندر ایک بے پناہ دلکشی پیدا کر دیتی ہے۔ اقبال نے اسلام کے ابتدائی زمانے پر پُر شوق نظر ڈالی۔ اس کی آرزو تھی کہ وہ اس عہد کے مسلمانوں کی سادگی، بلند ہمتی، ایمان اور عزم و استقلال کو دوبارہ پیدا کر سکے۔ ایک عالمگیر تمدن کے لئے اس کی دلی خواہش انسان کی تقدیر میں اس کا زبردست ایمان، انسان کے ارتقا میں اس کا پختہ یقین کہ وہ مقصد کی بلندیوں کو منزل بمنزل طے کرتا ہوا کمال کی چوٹیوں پر پہنچ سکتا ہے ان شرائط کے مطابق جو مسلم گھرانے میں پیدائش کے سبب اور اسلامی تعلیمات اس کے ذہن نشین ہو چکی تھیں۔ ان سب باتوں نے اس کی شاعری کو اسلامی رنگ دے دیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوستان میں اس کے بعض قدر دان اس سے چھن گئے۔
    کسی شاعر کے کلام کی قدر اور اس کے اعتقاد کے باہمی تعلق کی بحث پرانی چیز ہے اور میں اس کے متعلق یہاں کچھ نہ کہوں گا۔ مگر اس میں شک نہیں کہ کچھ نہ کچھ ایسے لوگ ضرور ہوتے ہیں جو صرف اس لئے ملٹن کی شاعری سے لطف اندوز نہ ہوں کہ وہ اس کے مذہبی عقائد سے متفق نہیں یا جو شیکسپیئر کا کلام محض اس لئے پڑھنا گوارا نہ کریں کہ وہ اس کی شاہ پرستانہ خیالات کو پسند نہیں کرتے۔ لیکن دوسرے لوگوں کے لئے جو کولرج کے لفظوں میں کسی شاعر کے کلام کا مطالعہ کرتے وقت ”انکار کو عمداً معطل کر دیتے ہیں“ اقبال رہتی دنیا تک مشرق کا سب سے زیادہ ولولہ خیز شاعر رہے گا۔

    فارسی اور اردو
    اس کے بعض ہم وطنوں کی بدقسمتی ہے کہ اقبال کے بہترین کلام کا زیادہ تر حصہ فارسی میں ہے اور اس کی صرف ایک طویل نظم اسرارِ خودی کا ترجمہ جو پروفیسر نکلسن نے کیا ہے، انگریزی زبان میں ملتا ہے۔ تاہم اس کا ابتدائی کلام جو اردو میں ہے وہی اس کی ہندوستانی شاعروں میں ایک بلند مقام دینے کے لئے کافی ہے۔ لیکن خواہ اس نے اپنی نظمیں اردو میں لکھیں، خواہ فارسی میں، اس کا اردو شاعری پر گہرا اور مسلسل اثر پڑتا رہا۔ پیدائش کے لحاظ سے وہ پنجابی تھا (اصل میں اقبال کشمیری اور ذات کا سپرو تھا) اسی لئے اس کے یوپی کے نکتہ چیں اس کو ہمیشہ یہ حقیقت ایسے لفظوں میں یاد دلاتے رہے جن میں انصاف کم اور تلخی زیادہ ہوتی تھی اور اس کی شاعری کی زبان کو ٹکسال باہر ہونے کا طعنہ دیتے رہتے۔ اور یہ باوجود اس حقیقت کے کہ وہ داغ کا معنوی فرزند تھا۔ جو اردو زبان کا مسلمہ بادشاہ ہوا ہے لیکن اس کی غیر معمولی قابلیت نے اس کے نکتہ چینوں کو جلدی خاموش کر دیا۔ اور اس کی طرز شاعری کے بے شمار پہلو ملک کے طول و عرض میں پیدا ہو گئے۔ اگر افراد کی وسیع اثرات کا تذکرہ کرنا اندیشناک نہ ہو تو اس ضمن میں تین ہستیوں کا نام لیا جا سکتا ہے جنہوں نے اپنے اپنے رنگ میں اردو ادب کو نئی اور مختار صورت بخشی ہے۔

    مولانا ظفر علی خان نے زمیندار کے ابتدائی ایام میں اس میں مضمون لکھ لکھ کے اردو صحافت کو ایک ایسی زور دار اور لچکیلی زبان سے مالامال کیا جس سے وہ پہلے قطعاً ناواقف تھی۔مولانا ابوالکلام آزاد نے اردو نثر کو وہ شوکت، فراوانی اور شیرینی بخشی جس کا راز انہوں نے عربی زبان کے مطالعہ کرتے وقت پا لیا تھا لیکن چٹپٹے مضامین یا پُر اثر وعظوں کی نسبت شاعری لوگوں کے دلوں میں زیادہ دیرپا اثر رکھتی ہے اور شاعر زبان پر زیادہ گہرے نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ جدید اردو کے بنانے والوں میں اقبال (اور اسی طرح اس کا پیش رو غالب) ابھی تک سب سے نمایاں اور زبردست اثر ڈال رہا ہے۔ ہزاروں ترکیبیں اور الفاظ جو ان دونوں استادان فن نے گھڑے یا اپنے فارسی کے پیشرو استادوں سے مستعار لئے آج بھی اردو تحریر اور تقریر میں ان کی گونج سنائی دے رہی ہے۔

    (اردو کے ممتاز ادیب، طنز نگار اور ماہرِ نشریات پطرس کے انگریزی مضمون کا ترجمہ از صوفی ریاض حسین)

  • ”حضور پرمٹ!“

    ”حضور پرمٹ!“

    عشرت رحمانی ایک ممتاز ادیب، مؤرخ، نقاد اور براڈ کاسٹر تھے جنھوں نے لگ بھگ سو کتابیں یادگار چھوڑی ہیں۔ آج عشرت رحمانی کا یومِ وفات ہے۔

    ان کا اصل نام امتیاز علی خان تھا۔ 16 اپریل 1910ء کو رام پور (یو پی) میں پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد کراچی آگئے اور یہیں 20 مارچ 1992ء کو وفات پائی۔ تاریخی اور سوانحی موضوعات پر انھوں نے بڑا وقیع کام کیا۔ آل انڈیا ریڈیو پر سے عشرت رحمانی کی وابستگی ان دنوں ہوئی جب پطرس بخاری وہاں کا انتظام سنبھالے ہوئے تھے۔ اردو کے مایہ ناز ادیب اور مقبول مزاح نگار پطرس بخاری اپنی طباعی، غیر معمولی ذہانت اور مختلف علوم وفنون میں واقفیت رکھنے کے سبب ہندوستان بھر میں جانے جاتے تھے۔ پطرس بخاری کی شگفتہ مزاجی، بزلہ سنجی اور ہمہ گیر لیاقت و ذہانت ہر اعلیٰ وادنیٰ محفل میں ان کی ذات کو ممتاز بنائے رہتی تھی۔ عشرت بخاری کو ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور وہ بھی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ یہاں ہم عشرت رحمانی کی ایک تحریر سے وہ اقتباس نقل کررہے ہیں جس میں انھوں نے بخاری صاحب کی شخصیت اور ان کے اوصاف کو بیان کیا ہے۔

    عشرت رحمانی لکھتے ہیں: "بخاری صاحب ضابطہ و قاعدہ کے سختی سے پابند ہونے کے باوجود ہر معاملے کو چٹکی بجاتے باتوں باتوں میں طے کر دیتے تھے۔ مشکل سے مشکل مسئلہ کو نہایت خندہ پیشانی سے باآسانی حل کرنا ان کے ضابطہ کا خاصہ تھا۔ ان کی ضابطہ کی زندگی کے بے شمار واقعات و مطائبات مشہور ہیں جن کا بیان اس مختصر مضمون میں دشوار ہے وہ اپنے تمام ماتحت اہلکاروں سے ایک اعلیٰ افسر سے زیادہ ایک ناصح مشفق کا سلوک اختیار کرتے۔ ہر شخص کی ذہنی صلاحیت اور قابلیت کو بخوبی پرکھ لیتے۔ اس کے ساتھ اسی انداز سے ہم کلام ہوتے اور اس کے عین مطابق برتاؤ کرتے۔ شگفتہ بیانی ان کا خاص کمال تھا۔ اور ہر شخص کے ساتھ گفتگو کے دوران میں اس کا دل موہ لینا اور بڑی سے بڑی شخصیت پر چھا جانا ان کا ادنیٰ کرشمہ تھا۔ ان کے حلقہٴ احباب میں سیاسی لیڈر، سرکاری افسران اعلیٰ، پروفیسر، عالم فاضل اور ادیب و شاعر سب ہی تھے لیکن سب ہی کو ان کی لیاقت اور حسنِ گفتار کا معترف پایا۔ ان احباب میں سے اکثر ان کے ضابطہ کے کاموں میں سفارشیں بھی کرتے لیکن وہ تمام معاملات میں وہی فیصلہ کرتے جو حق و دیانت کے مطابق ہوتا۔ لطف یہ ہے کہ خلافِ فیصلہ کی صورت میں بھی کسی کو شکایت کا موقع نہ دیتے اور بڑے اطمینان و سکون سے اس طرح سمجھا کر ٹال دیتے کہ صاحبِ معاملہ مطمئن ہونے پر مجبور ہو جاتا۔”

    "بخاری صاحب کا حاکمانہ برتاؤ اپنے ماتحت افسران ہی کے ساتھ مشفقانہ نہیں تھا بلکہ تمام درجوں کے ملازمین کے ساتھ بھی پسندیدہ تھا۔ ہر اہل کار ان کے حسنِ سلوک اور اخلاقِ حمیدہ کا گرویدہ اور معترف تھا۔ ماتحت عملہ میں جو ادیب، شاعر اور ان کے دوست احباب شامل تھے ان کے ساتھ دفتر میں نہایت باضابطہ اور باقاعدہ ڈائریکٹر جنرل نظر آتے لیکن نجی صحبتوں میں اسی انداز کی بے تکلفی برتتے، جس حیثیت کے تعلقات ہوتے۔ ضابطہ کی پابندی کا یہ حال تھا کہ ایک بار اسٹوڈیو کے محافظ نے ان کو حسبِ ضابطہ بغیر پرمٹ دروازے کے اندر داخل ہونے سے روک دیا۔ نئی دہلی پارلیمنٹ اسٹریٹ کے براڈ کاسٹنگ ہاؤس میں بالائی منزل پر ڈائریکٹر جنرل کے دفاتر تھے۔ اور زیریں منزل میں دہلی اسٹیشن کے دفاتر اور اسٹوڈیوز واقع تھے۔ واقعہ یوں ہوا کہ ایک دن بخاری صاحب اپنے دفتر سے اُٹھ کر بغرض معائنہ اسٹوڈیوز کی عمارت میں جانے لگے۔اسٹوڈیوز کے دروازے پر محافظ موجود تھا جس کا پہلا فرض یہ تھا کہ وہ اندر جانے والے ہر شخص کو ٹوکے اور داخلے کا پرمٹ دیکھ کر دروازہ کھولے ورنہ باہر ہی روک دے۔

    بخاری صاحب کا حکم تھا کہ اس ضابطہ کی سختی سے پابندی کی جائے اور وہ خود پرمٹ کارڈ اپنے لئے بھی ساتھ رکھتے تھے۔ اس وقت اتفاق سے پرمٹ ساتھ لے جانا بھول گئے۔ محافظ نے حسبِ صابطہ ادب سے سلام کیا۔ اور عرض کیا۔ ”حضور پرمٹ!“ ڈائریکٹر جنرل بخاری نے جیب میں ہاتھ ڈالا پرمٹ کارڈ نہ پایا، خاموشی سے مسکرائے اور واپس اپنے دفتر چلے گئے، تھوڑی دیر بعد چپراسی آیا اور محافظ کی طلبی کا حکم سنایا۔ ”ڈائریکٹر جنرل کو اس طرح بے باکی سے روک دیا۔ اب خیریت نہیں۔“ محافظ بے چارہ تھرتھر کانپنے لگا۔ باضابطہ پیشی ہوئے اور محافظ جو ڈرتا ہانپتا حاضر ہوا تھا خوش خوش اکڑتا ہوا اپنی ڈیوٹی پر واپس گیا۔ ڈائریکٹر جنرل نے اس کی فرض شناسی اور مستعدی کی تعریف کر کے اس کی حوصلہ افزائی کی۔ اور کئی روز تک اس محافظ کے چرچے براڈ کاسٹنگ ہاؤس میں ہوتے رہے۔”

  • پطرس بخاری: ایک ہمہ جہت شخصیت

    پطرس بخاری: ایک ہمہ جہت شخصیت

    پطرس بخاری کی وجہِ شہرت ان کی مزاح نگاری ہے، لیکن اُن کے انشائیے، تنقیدی مضامین اور تراجم پر مبنی کتابیں بھی اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔ پطرس، ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ وہ ان اصنافِ ادب تک محدود نہیں رہے بلکہ صحافی اور صدا کار کے ساتھ ریڈیو کے لیے ان کی خدمات ایک ماہر براڈ کاسٹر طور پر ناقابلِ فراموش ہیں۔ آج پطرس بخاری کا یومِ وفات ہے۔

    دنیا کی دیگر ترقی یافتہ زبانوں کی طرح اردو ادب کا دامن بھی طنز و مزاح سے خالی نہیں رہا اور ادیبوں نے اس میدان میں ابتذال اور پھکڑ پن کا راستہ روکتے ہوئے اپنی تحریروں سے ثابت کیا کہ شائستہ اور عمدہ شگفتہ نگاری کیا ہوتی ہے۔ پطرس انہی میں سے ایک تھے اور وہ ادیبوں کی جس کہکشاں میں شامل تھے، ان میں رشید احمد صدیقی، عظیم بیگ چغتائی، مرزا فرحت اللہ بیگ، غلام احمد فرقت کاکوروی، شفیق الرّحمٰن، شوکت تھانوی تک کئی نام لیے جاسکتے ہیں۔

    قیامِ پاکستان کے بعد اردو ادب میں پطرس بخاری کا قد ان کے ہم عصروں میں بہت بلند نظر آتا ہے اور اس کا اعتراف اپنے وقت کے نام ور اہلِ قلم بھی کرتے تھے۔ معروف مزاح نگار رشید احمد صدیقی نے پطرس کی مزاح نگاری سے متعلق لکھا کہ، "ظرافت نگاری میں پطرس کا ہم سَر ان کے ہم عصروں میں کوئی نہیں۔ بخاری کی ظرافت نگاری کی مثال داغ کی غزلوں اور مرزا شوق کی مثنویوں سے دی جا سکتی ہے۔”

    پطرس بخاری ماہرِ تعلیم اور ایک سفارت کار کی حیثیت سے بھی سرگرم رہے۔ وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی کے پروفیسر تھے اور آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ انگریزی زبان پر ان عبور نے ان کے قلم سے کئی کتابوں کے تراجم کروائے جو یہاں قارئین میں مقبول ہوئے۔

    پشاور میں 1898 میں پیدا ہونے والے پطرس بخاری کا اصل نام احمد شاہ تھا جنھوں نے ابتدائی تعلیم کے بعد فارسی، پشتو اور انگریزی زبان پر عبور حاصل کیا اور پھر ریڈیو سے وابستہ ہو کر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا۔ بعد میں وہ ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوئے اور گراں قدر خدمات انجام دیں۔ کالج کے زمانے میں ہی پطرس نے معروف مجلّے ‘‘راوی’’ کی ادارت سنبھال لی تھی اور اسی کے ساتھ لکھنے لکھانے کا آغاز بھی کردیا تھا۔

    پطرس بخاری جب کیمبرج پہنچے تو انگریزی ادب سے بھی واقف ہوئے۔ انگریزی کے علاوہ دیگر زبانوں کا ادب بھی پڑھا اور اپنے اسی ذوقِ مطالعہ کے سبب جب خود قلم تھاما تو کمال لکھا۔

    بخاری صاحب کے دل میں پیدائشی خرابی تھی۔ عمر کے ساتھ ساتھ دیگر عوارض بھی لاحق ہو گئے۔ اکثر بے ہوشی طاری ہو جاتی۔ ڈاکٹر نے مکمل آرام کا مشورہ دیا، لیکن بخاری صاحب دفتر جاتے رہے۔ 1958 کی بات ہے جب پطرس نیویارک میں اپنی حکومتی ذمہ داریوں کے سلسلہ میں مقیم تھے تو 5 دسمبر کو اچانک بے ہوش ہو گئے اور وہیں ان کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔ امریکا میں ہی ان کی تدفین کی گئی۔

    بخاری صاحب علمی و ادبی شخصیت اور مدبّر اور معاملہ فہم بھی تھے جنھیں‌ لیاقت علی خاں نے سفارت کار کے طور پر منتخب کیا تھا۔ وہ اپنے اوّلین دورۂ امریکا میں بخاری صاحب کو پاکستانی ترجمان کے طور پر ساتھ لے گئے تھے۔ پچاس کے عشرہ میں‌ پطرس بخاری اقوامِ متحدہ میں پاکستانی مندوب کے فرائض سرانجام دینے لگے۔ بعد میں‌ وہ اقوامِ متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل بھی بنائے گئے۔

    پطرس کے شگفتہ و سنجیدہ مضامین اور تراجم کے علاوہ ان کی تصنیف و تالیف کردہ کئی کتب شایع ہوچکی ہیں۔ وہ برجستہ گو، حاضر دماغ اور طباع تھے جن کی کئی پُرلطف اور دل چسپ باتیں مشہور ہیں۔ ہاسٹل میں‌ پڑھنا، مرحوم کی یاد میں، کتّے، میبل اور میں ان کی مقبول تحریریں ہیں۔

    پطرس کے مختلف مضامین سے یہ پارے آپ کو ان کے فنِ ظرافت سے واقف کروائیں گے۔ لاہور پر ان کی تحریر سے ایک پارہ ملاحظہ کیجیے۔

    ‘‘کہتے ہیں کسی زمانے میں لاہور کا حدود اربعہ بھی ہوا کرتا تھا، لیکن طلبا کی سہولت کے لیے میونسپلٹی نے اسے منسوخ کر دیا ہے۔ اب لاہور کے چاروں طرف بھی لاہور ہی واقع ہے۔ یوں سمجھیے کہ لاہور ایک جسم ہے جس کے ہر حصّے پر ورم نمودار ہو رہا ہے لیکن ہر ورم موادِ فاسد سے بھرا ہوا ہے۔ گویا یہ توسیع ایک عارضہ ہے جو اس جسم کو لاحق ہے۔’’ لاہور سے متعلق ان کی تحریر 1930 کی ہے۔

    اسی طرح کتّے کے عنوان سے وہ لکھتے ہیں. ‘‘آپ نے خدا ترس کتا بھی ضرور دیکھا ہو گا، اس کے جسم میں تپّسیا کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں، جب چلتا ہے تو اس مسکینی اور عجز سے گویا بارِ گناہ کا احساس آنکھ نہیں اٹھانے دیتا۔ دُم اکثر پیٹ کے ساتھ لگی ہوتی ہے۔

    سڑک کے بیچوں بیچ غور و فکر کے لیے لیٹ جاتا ہے اور آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ شکل بالکل فلاسفروں کی سی اور شجرہ دیو جانس کلبی سے ملتا ہے۔ کسی گاڑی والے نے متواتر بگل بجایا، گاڑی کے مختلف حصوں کو کھٹکھٹایا، لوگوں سے کہلوایا، خود دس بارہ دفعہ آوازیں دیں تو آپ نے سَر کو وہیں زمین پر رکھے سرخ مخمور آنکھوں کو کھولا۔ صورتِ حال کو ایک نظر دیکھا، اور پھر آنکھیں بند کر لیں۔

    کسی نے ایک چابک لگا دیا تو آپ نہایت اطمینان کے ساتھ وہاں سے اٹھ کر ایک گز پرے جا لیٹے اور خیالات کے سلسلے کو جہاں سے وہ ٹوٹ گیا تھا وہیں سے پھر شروع کر دیا۔ کسی بائیسکل والے نے گھنٹی بجائی، تو لیٹے لیٹے ہی سمجھ گئے کہ بائیسکل ہے۔ ایسی چھچھوری چیزوں کے لیے وہ راستہ چھوڑ دینا فقیری کی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔’’

    پطرس بخاری کے لیے حکومتِ پاکستان نے بعد از مرگ ہلالِ امتیاز کا اعلان کیا۔

  • سینما کا عشق

    سینما کا عشق

    "سینما کا عشق” عنوان تو عجب ہوس خیز ہے۔ لیکن افسوس کہ اس مضمون سے آپ کی تمام توقعات مجروح ہوں گی۔ کیونکہ مجھے تو اس مضمون میں کچھ دل کے داغ دکھانے مقصود ہیں۔

    اس سے آپ یہ نہ سمجھیے کہ مجھے فلموں سے دلچسپی نہیں یا سینما کی موسیقی اور تاریکی میں جو ارمان انگیزی ہے میں اس کا قائل نہیں۔ میں تو سینما کے معاملے میں اوائلِ عمر ہی سے بزرگوں کا موردِ عتاب رہ چکا ہوں لیکن آج کل ہمارے دوست مرزا صاحب کی مہربانیوں کے طفیل سینما گویا میری دکھتی رگ بن کر رہ گیا ہے۔ جہاں اس کا نام سن پاتا ہوں بعض درد انگیز واقعات کی یاد تازہ ہو جاتی ہے جس سے رفتہ رفتہ میری فطرت ہی کج بین بن گئی ہے۔ اوّل تو خدا کے فضل سے ہم کبھی سینما وقت پر نہیں پہنچ سکے۔ اس میں میری سستی کو ذرا دخل نہیں یہ سب قصور ہمارے دوست مرزا صاحب کا ہے جو کہنے کو تو ہمارے دوست ہیں لیکن خدا شاہد ہے ان کی دوستی سے جو نقصان ہمیں پہنچے ہیں کسی دشمن کے قبضہ قدرت سے بھی باہر ہوں گے۔

    جب سینما جانے کا ارادہ ہو ہفتہ بھر پہلے سے انہیں کہہ رکھتا ہوں کہ کیوں بھئی مرزا اگلی جمعرات سینما چلو گے نا؟ میری مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ پہلے سے تیار رہیں اور اپنی تمام مصروفیتیں کچھ اس ڈھب سے ترتیب دے لیں کہ جمعرات کے دن ان کے کام میں کوئی ہرج واقع نہ ہو لیکن وہ جواب میں عجب قدر ناشناسی سے فرماتے ہیں: "ارے بھئی چلیں گے کیوں نہیں؟ کیا ہم انسان نہیں؟ ہمیں تفریح کی ضرورت نہیں ہوتی؟ اور پھر کبھی ہم نے تم سے آج تک ایسی بے مروتی بھی برتی ہے کہ تم نے چلنے کو کہا ہو اور ہم نے تمہارا ساتھ نہ دیا ہو؟”

    ان کی تقریر سن کر میں کھسیانا سا ہو جاتا ہوں۔ کچھ دیر چپ رہتا ہوں اور پھر دبی زبان سے کہتا ہوں: "بھئی اب کے ہو سکا تو وقت پر پہنچیں گے۔ ٹھیک ہے نا؟”

    میری یہ بات عام طور پر ٹال دی جاتی ہے کیونکہ اس سے ان کا ضمیر کچھ تھوڑا سا بیدار ہو جاتا ہے۔ خیر میں بھی بہت زور نہیں دیتا۔ صرف ان کو بات سمجھانے کے لیے اتنا کہہ دیتا ہوں: "کیوں بھئی سینما آج کل چھ بجے شروع ہوتا ہے نا؟”

    مرزا صاحب عجیب معصومیت کے انداز میں جواب دیتے ہیں۔ "بھئی ہمیں یہ معلوم نہیں۔”

    "میرا خیال ہے چھ ہی بجے شروع ہوتا ہے۔”

    "اب تمہارے خیال کی تو کوئی سند نہیں۔”

    "نہیں مجھے یقین ہے چھ بجے شروع ہوتا ہے۔”

    "تمہیں یقین ہے تو میرا دماغ کیوں مفت میں چاٹ رہے ہو؟”

    اس کے بعد آپ ہی کہیے میں کیا بولوں؟

    خیر جناب جمعرات کے دن چار بجے ہی ان کے مکان کو روانہ ہو جاتا ہوں اس خیال سے کہ جلدی جلدی انہیں تیار کرا کے وقت پر پہنچ جائیں۔ دولت خانے پر پہنچتا ہوں تو آدم نہ آدم زاد۔ مردانے کے سب کمروں میں گھوم جاتا ہوں۔ ہر کھڑکی میں سے جھانکتا ہوں ہر شگاف میں سے آوازیں دیتا ہوں لیکن کہیں سے رسید نہیں ملتی آخر تنگ آ کر ان کے کمرے میں بیٹھ جاتا ہوں۔ وہاں دس منٹ سیٹیاں بجاتا رہتا ہوں۔ دس پندرہ منٹ پنسل سے بلاٹنگ پیپر پر تصویریں بناتا رہتا ہوں، پھر سگریٹ سلگا لیتا ہوں اور باہر ڈیوڑھی میں نکل کر ادھر اُدھر جھانکتا ہوں۔ وہاں بدستور ہُو کا عالم دیکھ کر کمرے میں واپس آ جاتا ہوں اور اخبار پڑھنا شروع کر دیتا ہوں۔ ہر کالم کے بعد مرزا صاحب کو ایک آواز دے لیتا ہوں۔ اس امید پر کہ شاید ساتھ کے کمرے میں یا عین اوپر کے کمرے میں تشریف لے آئے ہوں۔ سو رہے تھے تو ممکن ہے جاگ اٹھے ہوں۔ یا نہا رہے تھے تو شاید غسل خانے سے باہر نکل آئے ہوں۔ لیکن میری آواز مکان کی وسعتوں میں سے گونج ہر واپس آ جاتی ہے آخرکار ساڑھے پانچ بجے کے قریب زنانے سے تشریف لاتے ہیں۔ میں اپنے کھولتے ہوئے خون پر قابو میں لا کر متانت اور اخلاق کو بڑی مشکل سے مد نظر رکھ کر پوچھتا ہوں:

    "کیوں حضرات آپ اندر ہی تھے؟”

    "ہاں میں اندر ہی تھا۔”

    "میری آواز آپ نے نہیں سنی؟”

    "اچھا یہ تم تھے؟ میں سمجھا کوئی اور ہے؟”

    آنکھیں بند کر کے سر کو پیچھے ڈال لیتا ہوں اور دانت پیس کر غصے کو پی جاتا ہوں اور پھر کانپتے ہوئے ہونٹوں سے پوچھتا ہوں:

    "تو اچھا اب چلیں گے یا نہیں؟”

    "وہ کہاں”؟

    "ارے بندۂ خدا آج سینما نہیں جانا؟”

    "ہاں سینما۔ سینما۔ (یہ کہہ کر وہ کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں) ٹھیک ہے۔ سینما۔ میں بھی سوچ رہا تھا کہ کوئی نہ کوئی بات ضرور ایسی ہے جو مجھے یاد نہیں آتی اچھا ہوا تم نے یاد دلایا ورنہ مجھے رات بھر الجھن رہتی۔”

    "تو چلو پھر اب چلیں۔”

    "ہاں وہ تو چلیں ہی گے میں سوچ رہا تھا کہ آج ذرا کپڑے بدل لیتے۔ خدا جانے دھوبی کم بخت کپڑے بھی لایا ہے یا نہیں۔ یار ان دھوبیوں کا تو کوئی انتظام کرو۔”

    اگر قتل انسانی ایک سنگین جرم نہ ہوتا تو ایسے موقع پر مجھ سے ضرور سرزد ہو جاتا لیکن کیا کروں اپنی جوانی پر رحم کھاتا ہوں بے بس ہوتا ہوں صرف یہی کر سکتا ہوں کہ: "مرزا بھئی للہ مجھ پر رحم کرو۔ میں سینما چلنے کو آیا ہوں دھوبیوں کا انتظام کرنے نہیں آیا۔ یار بڑے بدتمیز ہو پونے چھ بج چکے ہیں اور تم جوں کے توں بیٹھے ہو۔”

    مرزا صاحب عجب مربیانہ تبسّم کے ساتھ کرسی پر سے اٹھتے ہیں گویا یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ اچھا بھئی تمہاری طفلانہ خواہشات آخر ہم پوری کر ہی دیں۔ چنانچہ پھر یہ کہہ کر اندر تشریف لے جاتے ہیں کہ اچھا کپڑے پہن آؤں۔

    مرزا صاحب کے کپڑے پہنے کا عمل اس قدر طویل ہے کہ اگر میرا اختیار ہوتا قانون کی رو سے انہیں کبھی کپڑے اتارنے ہی نہ دیتا۔ آدھ گھنٹے کے بعد وہ کپڑے پہنے ہوئے تشریف لاتے ہیں۔ ایک پان منہ میں دوسرا ہاتھ میں، میں بھی اٹھ کھڑا ہوتا ہوں۔ دروازے تک پہنچ کر مڑ کر جو دیکھتا ہوں تو مرزا صاحب غائب۔ پھر اندر آ جاتا ہوں مرزا صاحب کسی کونے میں کھڑے کچھ کرید رہے ہوتے ہیں۔ "ارے بھئی چلو۔”

    "چل تو رہا ہوں یار، آخر اتنی بھی کیا آفت ہے؟”

    "اور یہ تم کیا کر رہے ہو؟”

    "پان کے لیے ذرا تمباکو لے رہا تھا۔”

    تمام راستے مرزا صاحب چہل قدمی فرماتے جاتے ہیں۔ میں ہر دو تین لمحے کے بعد اپنے آپ کو ان سے چارپانچ قدم آگے پاتا ہوں۔ کچھ دیر ٹھہر جاتا ہوں وہ ساتھ آ ملتے ہیں تو پھر چلنا شروع کر دیتا ہوں پھر آگے نکل جاتا ہوں پھر ٹھہر جاتا ہوں۔ غرض یہ کہ گو چلتا دوگنی تگنی رفتار سے ہوں لیکن پہنچتا ان کے ساتھ ہی ہوں۔

    ٹکٹ لے کر اندر داخل ہوتے ہیں تو اندھیرا گھپ، بہتیرا آنکھیں جھپکتا ہوں کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ ادھر سے کوئی آواز دیتا ہے۔ "یہ دروازہ بند کر دو جی!” یا اللہ اب جاؤں کہاں۔ رستہ، کرسی، دیوار، آدمی، کچھ بھی تو نظر نہیں آتا۔ ایک قدم بڑھاتا ہوں تو سر ان بالٹیوں سے جا ٹکراتا ہے جو آگ بجھانے کے لیے دیوار پر لٹکی رہتی ہیں، تھوڑی دیر کے بعد تاریکی میں کچھ دھندلے سے نقش دکھائی دینے لگتے ہیں۔ جہاں ذرا تاریک تر سا دھبہ دکھائی دے جائے۔ وہاں سمجھتا ہوں خالی کرسی ہو گی خمیدہ پشت ہو کر اس کا رخ کرتا ہوں، اس کے پاؤں کو پھاند کر اس کے ٹخنوں کو ٹھکرا۔ خواتین کے گھنٹوں سے دامن بچا۔ آخرکار کسی گود میں جا کر بیٹھتا ہوں وہاں سے نکال دیا جاتا ہوں اور لوگوں کے دھکوں کی مدد سے کسی خالی کرسی تک جا پہنچتا ہوں مرزا صاحب سے کہتا ہوں: "میں نہ بکتا تھا کہ جلدی چلو خوامخواہ میں ہم کو رسوا کروا دیا نا! گدھا کہیں کا!” اس شگفتہ بیانی کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ساتھ کی کرسی پر جو حضرت بیٹھے ہیں اور جن کو مخاطب کر رہا ہوں وہ مرزا صاحب نہیں کوئی اور بزرگ ہیں۔ اب تماشے کی طرف متوجہ ہوں اور سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں کہ فلم کون سا ہے اس کی کہانی کیا ہے اور کہاں تک پہنچ چکی ہے اور سمجھ میں صرف اس قدر آتا ہے کہ ایک مرد اور ایک عورت جو پردے پر بغل گیر نظر آتے ہیں ایک دوسرے کو چاہتے ہوں گے۔ اس انتظار میں رہتا ہوں کہ کچھ لکھا ہوا سامنے آئے تو معاملہ کھلے کہ اتنے میں سامنے کی کرسی پر بیٹھے ہوئے حضرات ایک وسیع و فراخ انگڑائی لیتے ہیں جس کے دوران میں کم از کم دو تین سو فٹ فلم گزر جاتا ہے۔ جب انگڑائی کو لپیٹ لیتے ہیں تو سر کو کھجانا شروع کر دیتے ہیں اور اس عمل کے بعد ہاتھ کو سر سے نہیں ہٹاتے بلکہ بازو کو ویسے خمیدہ رکھتے ہیں۔ میں مجبوراً سر کو نیچا کر کے چائے دانی کے اس دستے کے بیچ میں سے اپنی نظر کے لیے راستہ نکال لیتا ہوں اور اپنے بیٹھنے کے انداز سے بالکل ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ٹکٹ خریدے بغیر اندر گھس آیا ہوں اور چوروں کی طرح بیٹھا ہوا ہوں۔ تھوڑی دیر کے بعد انہیں کرسی کی نشست پر کوئی مچھر یا پسو محسوس ہوتا ہے چنانچہ وہ دائیں سے ذرا اونچے ہو کر بائیں طرف کو جھک جاتے ہیں۔ میں مصیبت کا مارا دوسری طرف جھک جاتا ہوں۔ ایک دو لمحے کے بعد وہی مچھر دوسری طرف ہجرت کر جاتا ہے چنانچہ ہم دونوں پھر سے پینترا بدل لیتے ہیں۔ غرض یہ کہ یہ دل لگی یوں ہی جاری رہتی ہے وہ دائیں تو میں بائیں اور وہ بائیں تو میں دائیں ان کو کیا معلوم کہ اندھیرے میں کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ دل یہی چاہتا ہے کہ اگلے درجے کا ٹکٹ لے کر ان کے آگے جا بیٹھوں۔ اور کہوں کہ لے بیٹا دیکھوں تو اب تو کیسے فلم دیکھتا ہے۔

    پیچھے سے مرزا صاحب کی آواز آتی ہے: "یار تم سے نچلا نہیں بیٹھا جاتا۔ اب ہمیں ساتھ لائے ہو تو فلم تو دیکھنے دو۔”

    اس کے بعد غصے میں آ کر آنکھیں بند کر لیتا ہوں اور قتل عمد، خودکشی، زہر خورانی وغیرہ معاملات پر غور کرنے لگتا ہے۔ دل میں، میں کہتا ہوں کہ ایسی کی تیسی اس فلم کی۔ سو سو قسمیں کھاتا ہوں کہ پھر کبھی نہ آؤں گا۔ اور اگر آیا بھی تو اس کم بخت مرزا سے ذکر تک نہ کروں گا۔ پانچ چھ گھنٹے پہلے سے آ جاؤں گا۔ اوپر کے درجے میں سب سے اگلی قطار میں بیٹھوں گا۔ تمام وقت اپنی نشست پر اچھلتا رہوں گا! بہت بڑے طرے والی پگڑی پہن کر آؤں گا اور اپنے اوور کوٹ کو دو چھڑیوں پر پھیلا کر لٹکا دوں گا! بہرحال مرزا کے پاس تک نہیں پھٹکوں گا!

    لیکن اس کم بخت دل کو کیا کروں۔ اگلے ہفتے پھر کسی اچھی فلم کا اشتہار دیکھ کر پاتا ہوں تو سب سے پہلے مرزا کے ہاں جاتا ہوں اور گفتگو پھر وہیں سے شروع ہوتی ہے کہ کیوں بھئی اگلی جمعرات سے سینما چلو گے نا؟

    (اردو کے ممتاز ادیب اور مشہور مزاح نگار پطرس بخاری کی ایک شگفتہ تحریر)

  • روشن آرا اور ‘از حد شریف’

    روشن آرا اور ‘از حد شریف’

    اردو ادب میں میاں‌ بیوی کے تعلق پر مزاح نگاروں نے بہت کچھ لکھا ہے۔ اردو ہی نہیں‌ عالمی ادب میں بھی شادی شدہ مردوں کے بارے میں ایسی ہی مزاحیہ تحریریں پڑھنے کو ملتی ہیں‌ جن میں انھیں خاتونِ خانہ کے آگے بے بس اور مجبور بتایا جاتا ہے۔

    یہ پطرس بخاری کی ایک ایسی ہی تحریر ہے جس میں انھوں نے خود کو ایک ایسے خاوند کے طور پر پیش کیا ہے جو اپنی بیوی کے غصّے اور ناراضی سے ڈرتا ہے اور اس کی ہر بات مانتا ہے۔ وہ خاص طور پر اپنے دوستوں سے دور رہنے کی کوشش کرتا ہے کیوں کہ بیوی کی نظر میں‌ اس کے دوست نکھٹو، احمق اور کام چور ہیں۔ وہ سمجھتی ہے کہ اس کا خاوند بھی انہی کی عادات اپنا رہا ہے۔ پطرس کے اس شگفتہ مضمون سے یہ اقتباسات ملاحظہ کیجیے۔

    شادی سے پہلے ہم کبھی کبھی دس بجے اٹھا کرتے تھے ورنہ گیارہ بجے۔

    اب کتنے بجے اٹھتے ہیں؟ اس کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جن کے گھر ناشتہ زبردستی صبح کے سات بجے کرا دیا جاتا ہے اور اگر ہم کبھی بشری کمزوری کے تقاضے سے مرغوں کی طرح تڑکے اُٹھنے میں کوتاہی کریں تو فوراً ہی کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ اس نکھٹو نسیم کی صحبت کا نتیجہ ہے۔

    ایک دن صبح صبح ہم نہا رہے تھے۔ سردی کا موسم، ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے۔ صابن سر پر ملتے تھے تو ناک میں گھستا تھا کہ اتنے میں ہم نے خدا جانے کس پُراسرار جذبے کے ماتحت غسل خانے میں الاپنا شروع کیا اور پھر گانے لگے کہ ’’توری چھل بل ہے نیاری۔۔۔‘‘ اس کو ہماری انتہائی بدمذاقی سمجھا گیا اور اس بدمذاقی کا اصل منبع ہمارے دوست پنڈت جی کو ٹھہرایا گیا۔

    لیکن حال ہی میں مجھ پر ایک ایسا سانحہ گزرا ہے کہ میں نے تمام دوستوں کو ترک کر دینے کی قسم کھالی ہے۔ تین چار دن کا ذکر ہے کہ صبح کے وقت روشن آرا نے مجھ سے میکے جانے کے لیے اجازت مانگی۔ جب سے ہماری شادی ہوئی ہے روشن آرا صرف دو دفعہ میکے گئی ہے، اور پھر اس نے کچھ اس سادگی اور عجز سے کہا کہ میں انکار نہ کرسکا۔

    کہنے لگی، ’’تو پھر میں ڈیڑھ بجے کی گاڑی میں چلی جاؤں؟‘‘

    ’’میں نے کہا، اور کیا؟‘‘ وہ جھٹ تیاری میں مشغول ہوگئی اور میرے دماغ میں آزادی کے خیالات نے چکر لگانے شروع کیے۔ یعنی اب بیشک دوست آئیں، بیشک اودھم مچائیں۔ میں بے شک گاؤں، بے شک جب چاہوں اٹھوں۔ بے شک تھیٹر جاؤں۔ میں نے کہا، ’’روشن آرا جلدی کرو۔ نہیں تو گاڑی چھوٹ جائے گی۔‘‘

    ساتھ اسٹیشن پر گیا۔ جب گاڑی میں سوار کرا چکا تو کہنے لگی، ’’خط روز لکھتے رہیے۔‘‘

    ’’میں نے کہا، ہر روز اور تم بھی۔‘‘

    ’’کھانا وقت پہ کھا لیا کیجیے اور ہاں دھلی ہوئی جرابیں اور رومال الماری کے نچلے خانے میں پڑے ہیں۔‘‘ اس کے بعد ہم دونوں خاموش ہوگئے اور ایک دوسرے کے چہرے کو دیکھتے رہے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ میرا دل بھی بیتاب ہونے لگا اور جب گاڑی روانہ ہوئی تو میں دیر تک مبہوت پلیٹ فارم پر کھڑا رہا۔

    آخر آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا کتابوں کی دکان تک آیا اور رسالوں کے ورق پلٹ پلٹ کر تصویریں دیکھتا رہا۔ ایک اخبار خریدا۔ تہہ کرکے جیب میں ڈالا اور عادت کے مطابق گھر کا ارادہ کر لیا۔ پھر خیال آیا کہ اب گھر جانا ضروری نہیں رہا۔ اب جہاں چاہوں جاؤں، چاہوں تو گھنٹوں اسٹیشن پر ہی ٹہلتا رہوں۔ دل چاہتا تھا قلابازیاں کھاؤں۔

    کہتے ہیں جب افریقہ کے وحشیوں کو کسی تہذیب یافتہ ملک میں کچھ عرصہ کے لیے رکھا جاتا ہے تو گو وہ وہاں کی شان و شوکت سے بہت متاثر ہوتے ہیں لیکن جب واپس جنگلوں میں پہنچتے ہیں تو خوشی کے مارے چیخیں مارتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی کیفیت میرے دل کی بھی ہو رہی تھی۔ بھاگتا ہوا اسٹیشن سے آزادانہ باہر نکلا۔ آزادی کے لہجہ میں تانگے والے کو بلایا اور کود کر تانگے میں سوار ہوگیا۔ سگریٹ سلگا لیا، ٹانگیں سیٹ پر پھیلا دیں اور کلب کو روانہ ہوگیا۔

    رستے میں ایک بہت ضروری کام یاد آگیا۔ تانگہ موڑ کر گھر کی طرف پلٹا۔ باہر ہی سے نوکر کو آوازد دی۔
    ’’امجد!‘‘

    ’’حضور!‘‘

    ’’دیکھو، حجام کو جاکے کہہ دو کہ کل گیارہ بجے آئے۔‘‘

    ’’بہت اچھا۔‘‘

    ’’گیارہ بجے سن لیا نا؟ کہیں روز کی طرح پھر چھے بجے وارد نہ ہو جائے۔‘‘

    ’’بہت اچھا حضور۔‘‘

    ’’اور اگر گیارہ بجے سے پہلے آئے تو دھکے دے کر باہر نکال دو۔‘‘ یہاں سے کلب پہنچے۔ آج تک کبھی دن کے دو بجے کلب نہ گیا تھا۔ اندر داخل ہوا تو سنسان، آدمی کا نام و نشان تک نہیں۔ سب کمرے دیکھ ڈالے۔ بلیرڈ کا کمرہ خالی، شطرنج کا کمرہ خالی، تاش کا کمرہ خالی۔ صرف کھانے کے کمرے میں ایک ملازم چھریاں تیز کر رہا تھا۔

    اس سے پوچھا، ’’کیوں بے آج کوئی نہیں آيا؟‘‘ کہنے لگا، ’’حضور آپ جانتے ہیں، اس وقت بھلا کون آتا ہے؟‘‘ بہت مایوس ہوا۔ باہر نکل کر سوچنے لگا کہ اب کیا کروں؟ اور کچھ نہ سوجھا تو وہاں سے مرزا صاحب کے گھر پہنچا۔ معلوم ہوا ابھی دفتر سے واپس نہیں آئے۔ دفتر پہنچا۔ دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔ میں نے سب حال بیان کیا۔

    کہنے لگے،’’ تم باہر کے کمرے میں ٹھہرو، تھوڑا سا کام رہ گیا ہے۔ بس ابھی بھگتا کے تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔ شام کا پروگرام کیا ہے؟‘‘

    میں نے کہا، ’’تھیٹر۔‘‘

    کہنے لگے، ’’بس بہت ٹھیک ہے، تم باہر بیٹھو۔ میں ابھی آیا۔‘‘

    باہر کے کمرے میں ایک چھوٹی سی کرسی پڑی تھی۔ اس پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگا اور جیب سے اخبار نکال کر پڑھنا شروع کر دیا۔ شروع سے آخر تک سب پڑھ ڈالا اور ابھی چار بجنے میں ایک گھنٹہ باقی تھا۔ پھر سے پڑھنا شروع کر دیا۔ سب اشتہار پڑھ ڈالے اور پھر سب اشتہاروں کو دوبارہ پڑھ ڈالا۔

    آخر کار اخبار پھینک کر بغیر کسی تکلف یا لحاظ کے جمائیاں لینے لگا، جمائی پہ جمائی۔ جمائی پہ جمائی، حتٰی کہ جبڑوں میں درد ہونے لگا۔ اس کے بعد ٹانگیں ہلانا شروع کیا لیکن اس سے بھی تھک گیا۔ پھر میز پر طبلے کی گتیں بجاتا رہا۔ بہت تنگ آگیا تو دروازہ کھول کر مرزا سے کہا،
    ’’ابے یار اب چلتا بھی ہے کہ مجھے انتظار ہی میں مار ڈالے گا۔ مردود کہیں کا، سارا دن میرا ضائع کر دیا۔‘‘

    وہاں سے اُٹھ کر مرزا کے گھر گئے۔ شام بڑے لطف میں کٹی۔ کھانا کلب میں کھایا اور وہاں سے دوستوں کو ساتھ ليے تھیٹر گئے۔ رات کے ڈھائی بجے گھر لوٹے۔ تکیے پر سر رکھا ہی تھا کہ نیند نے بے ہوش کر دیا۔

    صبح آنکھ کھلی تو کمرے میں دھوپ لہریں مار رہی تھی۔ گھڑی کو دیکھا تو پونے گیارہ بجے تھے۔ ہاتھ بڑھا کر میز پر سے ایک سگریٹ اٹھایا اور سلگا کر طشتری میں رکھ دیا اور پھر اونگھنے لگا۔

    گیارہ بجے امجد کمرے میں داخل ہوا کہنے لگا، ’’حضور حجام آیا ہے۔‘‘
    ہم نے کہا، ’’یہیں بلا لاؤ۔‘‘ یہ عیش مدت کے بعد نصیب ہوا کہ بستر پر لیٹے لیٹے حجامت بنوا لیں۔ اطمینان سے اٹھے اور نہا دھو کر باہر جانے کے ليے تیار ہوئے لیکن طبیعت میں وہ شگفتگی نہ تھی، جس کی امید لگائے بیٹھے تھے۔ چلتے وقت الماری سے رومال نکالا تو خدا جانے کیا خیال آیا۔ وہیں کرسی پر بیٹھ گیا اور سودائیوں کی طرح اس رومال کو تکتا رہا۔ الماری کا ایک اور خانہ کھولا تو سرمئی رنگ کا ایک ریشمی دوپٹہ نظر آیا۔ باہر نکالا، ہلکی ہلکی عطر کی خوشبو آرہی تھی۔ بہت دیر تک اس پر ہاتھ پھیرتا رہا دل بھر آیا، گھر سُونا معلوم ہونے لگا۔ بہتیرا اپنے آپ کو سنبھالا لیکن آنسو ٹپک ہی پڑے۔ آنسوؤں کا گرنا تھا کہ بیتاب ہوگیا اور سچ مچ رونے لگا۔ سب جوڑے باری باری نکال کر دیکھے لیکن نہ معلوم کیا کیا یاد آیا کہ اور بھی بےقرار ہوتا گیا۔ آخر نہ رہا گیا، باہر نکلا اور سیدھا تار گھر پہنچا۔ وہاں سے تار دیا کہ، ’’میں بہت اداس ہوں۔ تم فوراً آجاؤ!‘‘

    تار دینے کے بعد دل کو کچھ اطمینان ہوا۔ یقین تھا کہ روشن آرا اب جس قدر جلد ہوسکے گا آجائے گی۔ اس سے کچھ ڈھارس بندھ گئی اور دل پر سے جیسے ایک بوجھ ہٹ گیا۔

    دوسرے دن دوپہر کو مرزا کے مکان پر تاش کا معرکہ گرم ہونا تھا۔ وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ مرزا کے والد سے کچھ لوگ ملنے آئے ہیں۔ اس ليے تجویز یہ ٹھہری کہ یہاں سے کسی اور جگہ سرک چلو۔ ہمارا مکان تو خالی تھا ہی۔ سب یار لوگ وہیں جمع ہوئے۔ امجد سے کہہ دیا گیا کہ حقے میں اگر ذرا بھی خلل واقع ہوا تو تمہاری خیر نہیں اور پان اس طرح سے متواتر پہنچتے رہیں کہ بس تانتا لگ جائے۔

    اب اس کے بعد کے واقعات کو کچھ مرد ہی اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ شروع شروع میں تو تاش باقاعدہ اور باضابطہ ہوتا رہا۔ جو کھیل بھی کھیلا گیا بہت معقول طریقے سے، قواعد و ضوابط کے مطابق اور متانت و سنجیدگی کے ساتھ لیکن ایک دو گھنٹے کے بعد کچھ خوش طبعی شروع ہوئی۔ یار لوگوں نے ایک دوسرے کے پتے دیکھنے شروع کر دیے۔ یہ حالت تھی کہ آنکھ بچی نہیں اور ایک آدھ کام کا پتہ اُڑا نہیں اور ساتھ ہی قہقہے پر قہقہے اُڑنے لگے۔

    تین گھنٹے کے بعد یہ حالت تھی کہ کوئی گھٹنا ہلا ہلا کر گا رہا ہے، کوئی فرش پر بازو ٹیکے بجا رہا ہے۔ کوئی تھیٹر کا ایک آدھ مذاقیہ فقرہ لاکھوں دفعہ دہرا رہا ہے لیکن تاش برابر ہو رہا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد دھول دھپا شروع ہوگیا۔ ان خوش فعلیوں کے دوران میں ایک مسخرے نے ایک ایسا کھیل تجویز کردیا۔ جس کے آخر میں ایک آدمی بادشاہ بن جاتا ہے۔ دوسرا وزیر، تیسرا کوتوال اور جو سب سے ہار جائے وہ چور۔ سب نے کہا ’’واہ وا کیا بات کہی ہے۔‘‘

    ایک بولا، ’’پھر آج جو چور بنا اس کی شامت آجائے گی۔‘‘

    دوسرے نے کہا، ’’اور نہیں تو کیا۔ بھلا کوئی ایسا ویسا کھیل ہے۔ سلطنتوں کے معاملے ہیں، سلطنتوں کے۔‘‘

    کھیل شروع ہوا۔ بدقسمتی سے ہم چور بن گئے۔ طرح طرح کی سزائیں تجویز ہونے لگیں۔‘‘ کوئی کہے، ’’ننگے پاؤں بھاگتا ہوا جائے اور حلوائی کی دکان سے مٹھائی خرید کر لائے۔ کوئی کہے، ’’نہیں حضور! سب کے پاؤں پڑے، اور ہر ایک سے دو دو چانٹے کھائے۔‘‘ دوسرے نے کہا، ’’نہیں صاحب ایک پاؤں پر کھڑا ہو کر ہمارے سامنے ناچے۔‘‘

    آخر میں بادشاہ سلامت بولے،’’ہم حکم دیتے ہیں کہ چور کو کاغذ کی ایک لمبوتری نوک دار ٹوپی پہنائی جائے اوراس کے چہرے پر سیاہی مل دی جائے اور یہ اسی حالت میں جاکر اندر سے حقے کی چلم بھر کر لائے۔‘‘
    سب نے کہا۔ ’’کیا دماغ پایا ہے حضور نے! کیا سزا تجویز کی ہے! واہ وا‘‘

    ہم بھی مزے میں آئے ہوئے تھے، ہم نے کہا، ’’تو ہوا کیا؟ آج ہم ہیں کل کسی اور کی باری آجائے گی۔‘‘

    نہایت خندہ پیشانی سے اپنے چہرے کو پیش کیا۔ ہنس ہنس کر وہ بیہودہ سی ٹوپی پہنی۔ ایک شانِ استغنا کے ساتھ چلم اٹھائی اور زنانے کا دروازہ کھول کر باورچی خانے کو چل دیے اور ہمارے پیچھے کمرہ قہقہوں سے گونج رہا تھا۔

    صحن میں پہنچے ہی تھے کہ باہر کا دروازہ کھلا اور ایک برقعہ پوش خاتون اندر داخل ہوئی۔ منہ سے برقعہ الٹا تو روشن آرا۔

    دم خشک ہوگیا۔ بدن پر ایک لرزہ سا طاری ہوگیا۔ زبان بند ہو گئی۔ سامنے وہ روشن آرا جس کو میں نے تار دے کر بلایا تھا کہ، ’’تم فوراً آجاؤ میں بہت اداس ہوں۔‘‘ اور اپنی یہ حالت کہ منہ پر سیاہی ملی ہے، سر پر وہ لمبوتری سی کاغذ کی ٹوپی پہن رکھی ہے اور ہاتھ میں چلم اٹھائے کھڑے ہیں اور مردانے کمرے سے قہقہوں کا شور برابر آرہا ہے۔ روح منجمد ہوگئی اور تمام حواس نے جواب دے دیا۔ روشن آرا کچھ دیر تک چپکی کھڑی دیکھتی رہی اور پھر کہنے لگی۔۔۔ بس میں کیا بتاؤں کہ کیا کہنے لگی؟ اس کی آواز تو میرے کانوں تک جیسے بیہوشی کے عالم میں پہنچ رہی تھی۔

    اب تک آپ اتنا تو جان گئے ہوں گے کہ میں بذاتِ خود از حد شریف واقع ہوا ہوں۔ جہاں تک میں میں ہوں۔ مجھ سے بہتر میاں دنیا پیدا نہیں کرسکتی۔ میری سسرال میں سب کی یہی رائے ہے اور میرا اپنا ایمان بھی یہی ہے لیکن ان دوستوں نے مجھے رسوا کر دیا ہے۔ اس ليے میں نے مصمم ارادہ کر لیا ہے کہ اب یا گھر میں رہوں گا یا کام پر جایا کروں گا۔ نہ کسی سے ملوں گا اور نہ کسی کو اپنے گھر آنے دوں گا، سوائے ڈاکیے یا حجام کے اور ان سے بھی نہایت مختصر باتیں کروں گا۔

    ’’خط ہے؟‘‘

    ’’جی ہاں۔‘‘

    ’’دے جاؤ۔ چلے جاؤ۔‘‘

    ’’ناخن تراش دو۔‘‘

    ’’بھاگ جاؤ۔‘‘

    بس، اس سے زیادہ کلام نہ کروں گا۔ آپ دیکھیے تو سہی!

  • مطیع و فرماں بردار میاں

    مطیع و فرماں بردار میاں

    میں ایک میاں ہوں۔ مطیع و فرماں بردار۔

    اپنی بیوی روشن آرا کو اپنی زندگی کی ہر ایک بات سے آگاہ کرنا اصولِ زندگی سمجھتا ہوں اور ہمیشہ اس پر کاربند رہا ہوں۔ خدا میرا انجام بخیر کرے۔

    چنانچہ میری اہلیہ میرے دوستوں کی تمام عادات و خصائل سے واقف ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ میرے دوست جتنے مجھ کو عزیز ہیں اتنے ہی روشن آرا کو برے لگتے ہیں۔ میرے احباب کی جن اداؤں نے مجھے مسحور کر رکھا ہے، انہیں میری اہلیہ ایک شریف انسان کے ليے باعث ذلت سمجھتی ہے۔ آپ کہیں یہ نہ سمجھ لیں کہ خدا نحواستہ وہ کوئی ایسے آدمی ہیں، جن کا ذکر کسی معزز مجمع میں نہ کیا جاسکے۔ کچھ اپنے ہنر کے طفیل اور کچھ خاکسار کی صحبت کی بدولت سب کے سب ہی سفید پوش ہیں لیکن اس بات کو کیا کروں کہ ان کی دوستی میرے گھر کے امن میں اس قدر خلل انداز ہوتی ہے کہ کچھ کہہ نہیں سکتا۔

    مثلاً مرزا صاحب ہی کو لیجیے۔ اچھے خاصے بھلے آدمی ہیں۔ گو محکمہ جنگلات میں ایک معقول عہدے پر ممتاز ہیں لیکن شکل و صورت ایسی پاکیزہ پائی ہے کہ امام مسجد معلوم ہوتے ہیں۔ جوا نہیں کھیلتے، گلی ڈنڈے کا ان کو شوق نہیں، جیب کترتے ہوئے کبھی وہ نہیں پکڑے گئے۔ البتہ کبوتر پال رکھے ہیں،انھیں سے جی بہلاتے ہیں۔

    ہماری اہلیہ کی یہ کیفیت ہے کہ محلے کا کوئی بدمعاش جوئے میں قید ہوجائے تو اس کی ماں کے پاس ماتم پرسی تک کو چلی جاتی ہیں۔ گلی ڈنڈے میں کسی کی آنکھ پھوٹ جائے تو مرہم پٹی کرتی رہتی ہیں۔ کوئی جیب کترا پکڑا جائے تو گھنٹوں آنسو بہاتی رہتی ہیں لیکن وہ بزرگ جن کو دنیا بھر کی زبان مرزا صاحب مرزا صاحب کہتے تھکتی نہیں، ہمارے گھر میں ’’موئے کبوتر باز‘‘ کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔ کبھی بھولے سے بھی میں آسمان کی طرف نظر اٹھا کر کسی چیل، کوے، گدھ، شکرے کو دیکھنے لگ جاؤں تو روشن آرا کو فوراً خیال ہوجاتا ہے کہ بس اب یہ بھی کبوتر باز بننے لگا۔

    اس کے بعد مرزا صاحب کی شان میں ایک قصیدہ شروع ہوجاتا ہے۔ بیچ میں میری جانب گریز۔ کبھی لمبی بحر میں، کبھی چھوٹی بحر میں۔

    ایک دن جب یہ واقعہ پیش آیا، تو میں نے مصمم ارادہ کرلیا کہ اس مرزا کمبخت کو کبھی پاس نہ پھٹکنے دوں گا، آخر گھر سب سے مقدم ہے۔ میاں بیوی کے باہمی اخلاص کے مقابلے میں دوستوں کی خوشنودی کیا چیز ہے؟ چنانچہ ہم غصے میں بھرے ہوئے مرزا صاحب کے گھر گئے، دروازہ کھٹکھٹایا۔ کہنے لگے، ’’اندر آجاؤ‘‘ ہم نے کہا، ’’نہیں آتے، تم باہر آؤ‘‘ خیر اندر گیا۔ بدن پر تیل مل کر ایک کبوتر کی چونچ منہ میں لئے دھوپ میں بیٹھے تھے۔ کہنے لگے ’’بیٹھ جاؤ‘‘ ہم نے کہا ’’بیٹھیں گے نہیں‘‘ آخر بیٹھ گئے، معلوم ہوتا ہے ہمارے تیور کچھ بگڑے ہوئے تھے۔ مرزا بولے، ’’کیوں بھئی؟ خیرباشد!‘‘ میں نے کہا ’’کچھ نہیں۔‘‘ کہنے لگے ’’اس وقت کیسے آنا ہوا؟‘‘

    اب میرے دل میں فقرے کھولنے شروع ہوئے۔ پہلے ارادہ کیا کہ ایک دم ہی سب کچھ کہہ ڈالو اور چل دو۔ پھر سوچا کہ مذاق سمجھے گا، اس ليے کسی ڈھنگ سے بات شروع کرو لیکن سمجھ میں نہ آیا کہ پہلے کیا کہیں۔ آخر ہم نے کہا،

    ’’مرزا! بھئی کبوتر بہت مہنگے ہوتے ہیں؟‘‘ یہ سنتے ہی مرزا صاحب نے چین سے لے کر امریکہ تک کے تمام کبوتروں کو ایک ایک کرکے گنوانا شروع کیا۔ اس کے بعد دانے کی مہنگائی کے متعلق گل افشانی کرتے رہے اور پھر محض مہنگائی پر تقریر کرنے لگے۔ اس دن تو ہم یوں ہی چلے آئے لیکن ابھی کھٹ پٹ کا ارادہ دل میں باقی تھا۔ خدا کا کرنا کیا ہوا کہ شام کو گھر میں ہماری صلح ہوگئی۔ ہم نے کہا ’’چلو اب مزرا کے ساتھ بگاڑنے سے کیا حاصل؟‘‘ چنانچہ دوسرے دن مرزا سے بھی صلح صفائی ہوگئی۔

    لیکن میری زندگی تلخ کرنے کے ليے ایک نہ ایک دوست ہمیشہ کارآمد ہوتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فطرت نے میری طبیعت میں قبولیت اور صلاحیت کوٹ کوٹ کر بھر دی ہے کیونکہ ہماری اہلیہ کو ہم میں ہر وقت کسی نہ کسی دوست کی عادات کی جھلک نظر آتی رہتی ہے۔ یہاں تک کہ میری اپنی ذاتی شخصی سیرت بالکل ہی ناپید ہوچکی ہے۔

    (پطرس بخاری کے مزاحیہ مضمون سے چند پارے)