Tag: پلاسٹک کے ذرات

  • زندہ افراد کے پھیپھڑوں میں پلاسٹک کے ذرات

    زندہ افراد کے پھیپھڑوں میں پلاسٹک کے ذرات

    لندن: مائیکرو پلاسٹک پہلی بار زندہ لوگوں کے پھیپھڑوں میں گہرائی میں پایا گیا ہے، یہ انکشاف چند مریضوں پر ہونے والی تحقیق میں سامنے آیا۔

    برطانوی اخبار دی گارڈین میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پہلی بار زندہ لوگوں کے پھیپھڑوں میں گہرائی میں مائیکرو پلاسٹک آلودگی پائی گئی ہے، اس سلسلے میں جتنے نمونے تجزیے کے لیے لیے گئے تھے، تقریباً تمام نمونوں میں یہ ذرات پائے گئے۔

    سائنس دانوں نے کہا ہے کہ مائیکرو پلاسٹک کی آلودگی اب پورے کرۂ ارض پر پھیل چکی ہے، جس سے انسان کا بچنا ناممکن نظر آتا ہے، اور اس کا مطلب ہے کہ صحت کو لاحق خطرات کے حوالے سے تشویش بہت بڑھ چکی ہے۔

    اس تحقیق کے لیے محققین نے سرجری سے گزرنے والے 13 مریضوں کے ٹشوز سے نمونے لیے تھے، جن میں سے 11 کیسز میں مائیکرو پلاسٹک پایا گیا، لیے گئے نمونوں میں سب سے زیادہ عام ذرات پولی پروپیلین کے تھے، جو پلاسٹک کی پیکیجنگ اور پائپوں میں، اور پولی تھیلین تھیرپٹالیٹ (PET) ذرات جو بوتلوں میں استعمال ہوتے ہیں۔

    انسانی خون میں پلاسٹک دریافت

    اس سے قبل 2 تحقیقی مطالعوں کے دوران مردہ افراد کے اجسام کے پوسٹ مارٹم کے دوران بھی پھیپھڑوں کے ٹشوز میں مائکرو پلاسٹک پایا گیا تھا اور اس کی شرح بھی زیادہ تھی۔

    یہ بات پہلے ہی سے علم میں آ چکی ہے کہ لوگ نہ صرف سانس کے ذریعے پلاسٹک کے چھوٹے ذرات اندر لے جاتے ہیں بلکہ کھانے اور پانی کے ذریعے بھی یہ جسم کے اندر جا رہے ہیں، محنت کش افراد سے متعلق بھی یہ معلوم ہے کہ وہ مائیکرو پلاسٹک کی بڑی مقدار جسم میں جانے سے بیماری کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔

    مارچ میں پہلی بار انسانی خون میں مائیکرو پلاسٹکس کا پتا چلا تھا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ذرات جسم کے اندر ایک جگہ سے دوسری جگہ گھوم سکتے ہیں اور مختلف اعضا میں رہ سکتے ہیں، صحت پر اس کے اثرات ابھی تک نامعلوم ہیں، لیکن محققین کو اس حوالے سے شدید تشویش لاحق ہے، کیوں کہ لیبارٹری میں مائیکرو پلاسٹک سے انسانی خلیوں کو نقصان پہنچتے دیکھا گیا، جب کہ یہ تو پہلے ہی معلوم کیا جا چکا ہے کہ فضائی آلودگی کے ذرات سال میں لاکھوں ابتدائی اموات کا سبب بنتے ہیں۔

    اس تحقیقی مطالعے کی ایک سینئر مصنف، برطانیہ کے ہل یارک میڈیکل اسکول کی محقق لارا سڈوفسکی نے کہا کہ ہمیں پھیپھڑوں کے نچلے حصوں میں اتنی زیادہ تعداد میں ذرات یا اس سائز کے ذرات ملنے کی امید بالکل نہیں تھی، یہ حیرت کی بات ہے کیوں کہ پھیپھڑوں کے نچلے حصوں میں ہوا کی نالیاں چھوٹی ہوتی ہیں اور ہمیں توقع تھی کہ ان سائز کے ذرات اس گہرائی میں جانے سے پہلے فلٹر ہو جائیں گے یا پھنس جائیں گے۔

    انھوں نے کہا کہ اس تحقیقی ڈیٹا کو فضائی آلودگی، مائیکرو پلاسٹک اور انسانی صحت کے میدان میں ایک اہم پیش کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

  • بوتل سے دودھ پینے والے بچوں کے بارے میں دل دہلا دینے والا انکشاف

    بوتل سے دودھ پینے والے بچوں کے بارے میں دل دہلا دینے والا انکشاف

    ڈبلن: محققین نے بوتل سے دودھ پینے والے بچوں کے بارے میں یہ دل دہلا دینے والا انکشاف کیا ہے کہ وہ یومیہ پلاسٹک کے 10 لاکھ ذرات نگل جاتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق آئرلینڈ میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ بوتل سے دودھ پینے والے بچے ہر روز مائیکرو پلاسٹک کے تقریباََ دس لاکھ ذرات نگل جاتے ہیں۔

    نیچر فوڈ‘ نامی جریدے میں شایع تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اس بات کے واضح ثبوت ملے کہ انسان بڑی تعداد میں پلاسٹک کے نہایت چھوٹے چھوٹے ذرات روزمرہ کی خوراک کے ذریعے نگل جاتے ہیں، یہ ذرات پلاسٹک کے بڑے ٹکڑے ٹوٹنے کے سبب بنتے ہیں۔

    آئرلینڈ کے محققین کا کہنا ہے کہ کھانے کی مصنوعات میں پلاسٹک کے بے تحاشا ذرات موجود ہوتے ہیں جن سے سب سے زیادہ متاثر بوتل سے دودھ پینے والے بچے ہوتے ہیں۔

    محققین نے ابھی یہ نہیں بتایا ہے کہ جب یہ ذرات جسم کے اندر جاتے ہیں تو اس سے صحت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ تاہم ماہرین یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ دودھ کی بوتلوں اور پلاسٹک تھیلیوں میں کتنے فی صد مائیکرو ذرات پائے جاتے ہیں۔

    تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ پلاسٹک کی ایک بوتل سے فی لیٹر 13 لاکھ سے ایک کروڑ 62 لاکھ تک مائیکرو پارٹیکلز خارج ہوتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق بوتل سے دودھ پینے والا بچہ زندگی کے ابتدائی 12 ماہ میں اوسطاََ ہر دن 16 لاکھ پلاسٹک کے ذرات نگل جاتا ہے۔

    محققین نے تجویز دی ہے کہ شدید گرم پانی میں دودھ کی بوتل دھوئی جائے تو پلاسٹک کے ذرات بڑی حد تک کم ہو سکتے ہیں۔ اور ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس تحقیق کا مقصد والدین کو پریشان کرنا نہیں بلکہ مائیکرو پلاسٹک کے صحت پر پڑنے والے ممکنہ خطرات کا جائزہ لینا تھا۔