Tag: پلاسٹک

  • پلاسٹک کھانے والی سنڈی دریافت

    پلاسٹک کھانے والی سنڈی دریافت

    لندن: برطانوی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ایک ایسی سنڈی دریافت کی ہے جو پلاسٹک کو کھا سکتی ہے۔

    برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کے محققین کے مطابق یہ سنڈی شہد کی مکھی کے چھتے سے موم کھاتی ہے اور جب اس پر تجربات کیے گئے تو اس سنڈی نے پلاسٹک کی کیمیائی ساخت کو توڑ کر باآسانی اسے ہضم کرلیا۔

    تاہم یہ عمل اتنا بھی آسان نہیں تھا اور گیلیریا مولونیلا نامی اس سنڈی کو پلاسٹک کی تھیلی میں سوراخ کرنے میں 40 منٹ کا وقت لگا۔

    ماہرین کے مطابق یہ سنڈی دنیا بھر میں پلاسٹک سے پیدا ہونے والی آلودگی کی روک تھام میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔

    تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ صرف نقطہ آغاز ہے اور وہ پلاسٹک کو تلف کرنے کے لیے بدستور کسی تکنیکی حل کی تلاش میں ہیں۔

    واضح رہے کہ پلاسٹک ایک ایسا مادہ ہے جسے ختم ہونے یا زمین کا حصہ بننے کے لیے ہزاروں سال درکار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ماحول، صفائی اور جنگلی حیات کے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔

    ہر سال دنیا بھر میں 8 کروڑ ٹن پلاسٹک کی تھیلیاں بنائی جاتی ہے۔

    مزید پڑھیں: پلاسٹک کی آمیزش کی وجہ سے کاغذ کا کپ گلنا مشکل

    پلاسٹک کی یہ تھیلیاں شہروں کی آلودگی میں بھی بے تحاشہ اضافہ کرتی ہیں۔ تلف نہ ہونے کے سبب یہ کچرے کے ڈھیر کی شکل اختیار کرلیتی ہیں اور نکاسی آب کی لائنوں میں پھنس کر انہیں بند کردیتی ہیں جس سے پورے شہر کے گٹر ابل پڑتے ہیں۔

    یہ تھیلیاں سمندروں اور دریاؤں میں جا کر وہاں موجود آبی حیات کو بھی سخت نقصان پہنچاتی ہے اور اکثر اوقات ان کی موت کا سبب بھی بن جاتی ہیں۔

    پلاسٹک کے ان نقصانات سے آگاہی ہونے کے بعد دنیا کے کئی ممالک اور شہروں میں آہستہ آہستہ اس پر پابندی عائد کی جارہی ہے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔ 

  • بلوچستان میں پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی عائد

    بلوچستان میں پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی عائد

    کوئٹہ: صوبہ بلوچستان کی اسمبلی میں پلاسٹک کی تھیلیوں کی فروخت، استعمال اور پیداوار پر پابندی کا بل منظور کرلیا گیا جس کے بعد اب اگلے ماہ سے صوبے بھر میں پلاسٹک کی تھیلیاں ممنوع قرار دے دی جائیں گی۔

    بلوچستان اسمبلی میں مذکورہ بل وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات سردار رضا محمد نے پیش کیا جسے متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔

    بل کی منظوری کے بعد صوبائی ایجنسی برائے تحفظ ماحولیات ای پی اے نے بھی پابندی کا باقاعدہ نوٹی فیکیشن جاری کردیا ہے۔

    صوبے میں پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی کا اطلاق 15 مئی سے ہوگا۔ یہ اقدام ماحولیات کے تحفظ اور لوگوں کی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے اٹھایا گیا ہے۔

    ذرائع کے مطابق حکومتی عہدیداران اس سے قبل ہی پلاسٹک کی پیداوار اور کاروبار سے منسلک افراد اور اداروں پر زور دے رہے تھے کہ وہ پلاسٹک کی تھیلیوں کے بجائے ماحول دوست بیگز کی تیاری پر کام کریں۔

    جس کے بعد کاروباری افراد نے یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ اس معاملے میں یورپی ممالک کی تقلید کرتے ہوئے اور ان کی تکنیکوں کو اپناتے ہوئے اس پر کام کریں گے۔

    واضح رہے کہ پلاسٹک ایک ایسا مادہ ہے جسے ختم ہونے یا زمین کا حصہ بننے کے لیے ہزاروں سال درکار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ماحول، صفائی اور جنگلی حیات کے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔

    پلاسٹک کی تھیلیاں شہروں کی آلودگی میں بھی بے تحاشہ اضافہ کرتی ہیں۔ تلف نہ ہونے کے سبب یہ کچرے کے ڈھیر کی شکل اختیار کرلیتی ہیں اور نکاسی آب کی لائنوں میں پھنس کر انہیں بند کردیتی ہیں جس سے پورے شہر کے گٹر ابل پڑتے ہیں۔

    یہ تھیلیاں سمندروں اور دریاؤں میں جا کر وہاں موجود آبی حیات کو بھی سخت نقصان پہنچاتی ہے اور اکثر اوقات ان کی موت کا سبب بھی بن جاتی ہیں۔

    پلاسٹک کے ان نقصانات سے آگاہی ہونے کے بعد دنیا کے کئی ممالک اور شہروں میں آہستہ آہستہ اس پر پابندی عائد کی جارہی ہے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • خبردار!پلاسٹک پر لکھا کوڈ آپ کو کیا بتاتا ہے؟

    خبردار!پلاسٹک پر لکھا کوڈ آپ کو کیا بتاتا ہے؟

    آج کی دنیا میں پلاسٹک جہاں ایک جانب سب سے زیادہ استعمال ہونے والی شے ہے وہیں یہ انسانی بقا کے لیے انتہائی سنگین خطرہ بھی اوراس خطرناک شے کے استعمال کرنے کے طریقے جاننا اوراس کے غیرضروری استعمال سے اجتناب بے حد ضروری ہے۔

    آپ نے پلاسٹک کی اکثر بوتلیں دیکھی ہوں گی جن کے نیچے اس طرح کا مستطیل کا نشان بناہوتا ہے اور ساتھ ہی اس میں کوئی ہندسہ لکھا ہوتا ہے،آخر اس کا کیا مطلب ہوتا ہے؟انہیں Resin Identification Code(RIC)سمبل لکھا ہوتا ہے،ان کی وجہ سے لگانے میں آسانی ہوتی ہے کہ اس طرح ری سائیکل کرتے ہوئے یہ معلوم رہتا ہے کہ اسے کہاں ڈالنا ہے اورکیا تیار کرنا ہے۔

    p-post-2

    ان بوتلوں میں1سے لے کر 7 نمبر تک آپشنز موجود ہوتی ہیں جو کہ اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ اس نمبر کی حامل پلاسٹک کی اشیا کو ری سائیکل کرنے کے لیے کیا طریقہ کاراستعمال کیا جانا چاہیے۔

    اگر پلاسٹک کی بوتل پر مستطیل نشان میں 1 لکھا ہے تواس کا مطلب ہے کہ سافٹ ڈرنکس،دودھ اوردیگر کھانے پینے کی اشیاء کے استعمال کے لیے ہے اورری سائیکل کرکے اسے کارپٹ ‘ فرنیچر یا فائبر سے بنی ہوئی اشیا تیار کی جاتی ہیں اور اسے نسبتاً محفوظ تصور کیا جاتا ہے۔

    p-post-3

    اگر یہی نمبر 2ہو تو یہ پلاسٹک دودھ کی بوتلیں اورجگ‘ شیمپو یا جوس کی بوتلیں‘ موٹر آئل کے ڈبے وغیرہ بنانے کے لیے استعمال کی جاتی ہے اور یہ تین محفوظ ترین پلاسٹک کی اقسام میں شامل ہے۔ اسے ری سائیکل کرکےپین ‘ ری سائیکلنگ کنٹینر‘ پکنک ٹیبل اور باسکٹ جیسی اشیا تیار کی جاتی ہیں۔

    نمبر3والا پلاسٹک عموماًغذائی اجناس کی پیکنگ ‘ پلمبنگ پائپ اور ڈیٹرجنٹ کی پیکنگ وغیرہ کے لئے استعمال ہوتا ہےاور کافی حد تک نقصان دہ ہے ‘ اسے جلانا انتہائی مضرِ صحت ہوسکتا ہے۔ اسے ری سائیکل کرکے فرشی شیٹس‘ وینائل ٹائلز‘ گٹر کے ڈھکن وغیرہ تیار کیے جاتے ہیں۔

    p-post-4

    اگر 4لکھا ہوتو پلاسٹک یہ قسم سودا سلف لانے والے بیگز، قالین، کپڑوں اور فروزن فوڈکو محفوظ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اسے محفوظ پلاسٹک تصور کیا جاتا ہے۔ اسے ری سائیکل کرکے ٹوکریاں‘ پینلز‘ ٹریش کین اور شپنگ کے لفافے وغیرہ تیار کیے جاتے ہیں۔

    جس پلاسٹک پر نمبر 5 درج ہووہ پلاسٹک دہی کے ڈبوں، سٹراز، بوتلوں کے ڈھکن کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس کو ری سائیک کرکے اس سے جھاڑو‘ بیٹری کور‘ ٹوکریاں‘ سگنل لائٹس وغیرہ بنائی جاتی ہیں۔

    p-post-1

    اگر نمبر 6لکھا ہوتویہ سامان پیکنگ کے طورپر استعمال کیا جانا ہے اسے انسانی صحت اور ماحول کے لیے سخت مضرِ صحت تصوری کیا جاتا ہے۔ ری سائکلنگ کے اکثر ادارے اسے قبول نہیں کرتے تاہم اس سے انسولیشن‘ فوم پیکنگ وغیرہ بنائی جاتی ہیں۔

    آخر میں نمبر7یہ پلاسٹک کی قسم ہے جو کہ مذکورہ بالا اقسام میں شامل ہونے کے قابل نہیں ہوتی اور اسے ہر صورت استعمال سے گریز کیاجانا چاہیے کیونکہ اسے مختلف اقسام کی بیماریوں میں براہ راست عامل کے طور پرلیا جاتا ہے۔تاہم یہ بھی مختلف اشیا میں استعمال ہوتا ہے جیسے کہ موبائل کور اور سن گلاسز وغیرہ میں، اسے ری سائیکل کرکے پلاسٹک لمبر اور کچھ دیگر اشیا تیار کی جاتی ہیں۔

    مذکورہ بالا معلومات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ 1 نمبر جس پلاسٹک پر لکھاہو وہ محفوظ ہے جبکہ 2ِ‘ 4 اور 5 نمبر کی حامل محفوظ ترین پلاسٹکس ہیں اور 3‘ 6 اور 7 نمبر کی حامل پلاسٹکس کو ری سائیکل کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

    آج کی دنیا میں پلاسٹک ایک انتہائی اہم ترین ضرورت بن چکی ہے اور اس سے مکمل اجتناب ممکن نہیں لیکن اس کرہ ارض اور آنے والی نسلوں کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ جس حد تک اس کا استعمال کم کیا جاسکے کیا جائے۔




  • نئی دہلی میں پلاسٹک پر پابندی عائد

    نئی دہلی میں پلاسٹک پر پابندی عائد

    نئی دہلی: بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں پلاسٹک کی اشیا کے استعمال پر مکمل طور پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

    بھارت کے نیشنل گرین ٹربیونل کی جانب سے عائد کی جانے والی اس پابندی کے تحت پلاسٹک کے برتن بشمول پلیٹ اور کپ، تھیلے، اور چیزوں کو لپیٹنے کے لیے بھی پلاسٹک کے استعمال کو قطعی ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔

    مزید پڑھیں: ماحول دوست پلاسٹک بیگ تیار

    بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں استعمال کیے جانے والے پلاسٹک کو جب پھینکا جاتا ہے تو یہ سمندروں میں پلاسٹک کی عالمی آلودگی کا 60 فیصد حصہ بنتا ہے۔

    plastic-2

    بھارتی حکام کے مطابق یہ پابندی ان شکایات کے بعد عائد کی گئی ہے جو شہریوں کی جانب سے کی گئیں جس میں کہا گیا کہ شہر میں قائم کچرا جمع کرنے کے مقامات پر بڑی مقدار میں کچرا جلایا گیا جو شہر کی فضا کو بے تحاشہ آلودہ کرنے کا سبب بنا۔

    مزید پڑھیں: فرانس کا پلاسٹک سے بنے برتنوں پر پابندی کا فیصلہ

    واضح رہے کہ پلاسٹک ایک ایسا مادہ ہے جسے ختم ہونے یا زمین کا حصہ بننے کے لیے ہزاروں سال درکار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ماحول، صفائی اور جنگلی حیات کے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔

    پلاسٹک شہروں کی آلودگی میں بھی بے تحاشہ اضافہ کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کئی شہروں میں پلاسٹک پر پابندی عائد ہے۔

  • ان اشیا کو مائیکرو ویو میں رکھنے سے گریز کریں

    ان اشیا کو مائیکرو ویو میں رکھنے سے گریز کریں

    مائیکرو ویو اوون ویسے تو جدید دور کی ایک کارآمد شے ہے لیکن بعض اوقات اس کا استعمال صحت کو نقصان پہنچانے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق مائیکرو ویو اوون کے استعمال سے پہلے اس کے طریقہ استعمال سے آگاہی حاصل کرنی چاہیئے ورنہ غلط استعمال پر آپ اپنی صحت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ مندرجہ ذیل اشیا کو مائیکرو ویو میں گرم کرنے سے سختی سے پرہیز کرنا چاہیئے۔

    :انڈے ابالنا

    oven-2

    مائیکرو ویو میں انڈے ابالنا ایک نقصان دہ عمل ہے۔ انڈے بھاپ کو بہت زیادہ جذب کرتے ہیں جو مائیکرو ویو میں بند ہونے کے باعث باہر نہیں نکل پاتی۔ لہٰذا انڈے کو کھلے برتن میں چولہے پر ابالنا ہی درست طریقہ ہے۔

    :جما ہوا گوشت

    oven-3

    اکثر افراد جمے ہوئے گوشت کو کٹ لگا کر مائیکرو ویو میں گرم کرنے کے لیے رکھ دیتے ہیں۔ اس طرح گوشت کے کنارے پک جاتے ہیں جبکہ اندرونی حصہ ویسا ہی کچا اور جما ہوا رہ جاتا ہے۔

    مزید یہ کہ اگر مائیکرو ویو کی پلیٹ گردش نہیں کر رہی تو اس کا مطلب ہے کہ گوشت کے کسی ایک حصہ پر ہی حرارت جمع ہو رہی ہے جو نقصان دہ بیکٹریا کی افزائش کا سبب بن سکتی ہے۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ جمے ہوئے گوشت کو معمول کے روم ٹمپریچر پر ہی پگھلنے دینا چاہیئے۔

    :پلاسٹک کے برتن

    oven-4

    پلاسٹک کے برتن کو کبھی بھی مائیکرو ویو میں گرم نہ کریں۔ پلاسٹک کے برتن یا بوتلوں سے اکثر پلاسٹک جھڑ کر کھانے یا پانی میں شامل ہوجاتا ہے جو ہمارے جسم میں جا کر سخت نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتا ہے۔

    مائیکرو ویو میں پلاسٹک کے برتن گرم کرنے کے لیے رکھنے سے یہ خدشہ دگنا ہوجاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ان اشیا کو دوبارہ گرم کرنے سے پرہیز کریں

  • مختلف اشیا کو زمین کا حصہ بننے کے لیے کتنا وقت درکار؟

    مختلف اشیا کو زمین کا حصہ بننے کے لیے کتنا وقت درکار؟

    کائنات میں موجود ہر شے زمین کا حصہ بن جاتی ہے چاہے وہ بے جان اشیا ہوں یا جاندار۔ ہم جو اشیا کچرے میں پھینکتے ہیں وہ مختلف مراحل سے گزر کر بالآخر زمین کا حصہ بن جاتی ہیں۔

    کچھ اشیا زمین کا حصہ بن کر زمین کی زرخیزی میں اضافہ کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر پھلوں اور سبزیوں کے چھلکوں کو مٹی کے ساتھ ملا دیا جائے تو مٹی میں موجود بیکٹریا اس کے اجزا کو توڑ دیں گے اور کچھ عرصے بعد اس کی آمیزش سے تیار ہونے والی مٹی نہایت زرخیز کھاد ثابت ہوتی ہے۔

    مزید پڑھیں: ضائع شدہ خوراک کو کھاد میں تبدیل کرنے کا منصوبہ

    لیکن یہ عمل اتنا آسان اور معمولی نہیں۔ زمین کی مٹی اپنی فطرت کے مطابق ہر شے کو ایک مقررہ وقت میں اپنے اندر جذب کرتی ہے۔ یہ وقت کئی مہینے بھی ہوسکتا ہے اور کئی سال بھی بلکہ بعض اوقات ہزاروں سال بھی۔

    آئیے دیکھتے ہیں کہ ہم جو اشیا کچرے میں پھینکتے ہیں انہیں تلف ہونے یا زمین کا حصہ بننے کے لیے کتنا عرصہ درکار ہوتا ہے۔

    اونی موزہ ۔ 1 سے 5 سال

    دودھ کا خالی کارٹن ۔ 5 سال

    سگریٹ کے ٹوٹے ۔ 10 سے 12 سال

    لیدر کے جوتے ۔ 25 سے 40 سال

    ٹن کا کین ۔ 50 سال

    ربر کے جوتے ۔ 50 سے 80 سال

    پلاسٹک کا برتن ۔ 50 سے 80 سال

    ایلومینیئم کا کین ۔ 200 سے 500 سال

    پلاسٹک کی بوتل ۔ 450 سال

    مچھلی پکڑنے والی ڈور ۔ 600 سال

    پلاسٹک بیگ (شاپر یا تھیلی) ۔ 200 سے 1000 ہزار سال

    یاد رہے کہ چونکہ ہم ان اشیا کو زمین میں نہیں دباتے، لہٰذا یہ ایک طویل عرصے تک زمین کے اوپر رہتی ہیں اور آلودگی اور گندگی کا باعث بنتی ہیں۔ اس کچرے کی موجودگی آس پاس رہنے والے افراد کی صحت کے لیے بھی خطرہ ثابت ہوتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ چیزوں کو پھینکنے کے بجائے کفایت شعاری سے استعمال کرنا چاہیئے اور انہیں ری سائیکل یا دوبارہ استعمال کرلینا چاہیئے۔

    مزید پڑھیں: فطرت کے تحفظ کے لیے آپ کیا کرسکتے ہیں؟


    یہاں آپ کو کچھ طریقے بتائے جارہے ہیں جنہیں اپنا کر آپ ماحول کی صفائی میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں اور خود کو ماحول دوست فرد ثابت کر سکتے ہیں۔

    قدرتی وسائل کا احتیاط سے استعمال کریں۔

    کوشش کریں کہ کاغذ کا استعمال کم سے کم کریں۔ آج کل اسمارٹ فون نے کتاب اور کاغذ سے چھٹکارہ دلا دیا ہے لہٰذا یہ کوئی مشکل کام نہیں۔ کاغذ درختوں میں پائی جانے والی گوند سے بنائے جاتے ہیں اور ہر سال اس مقصد کے لیے لاکھوں کروڑوں درخت کاٹے جاتے ہیں۔

    کاغذ کی دونوں سمتوں کو استعمال کریں۔

    پلاسٹک بیگز کا استعمال ختم کریں۔ ان کی جگہ کپڑے کے تھیلے استعمال کریں۔

    مختلف پلاسٹک کی اشیا جیسے برتن، کپ، یا مختلف ڈبوں کو استعمال کے بعد پھینکنے کے بجائے ان سے گھریلو آرائش کی کوئی شے تخلیق کرلیں۔

    بازار سے خریدی جانے والی مختلف اشیا کی پیکنگ پھینک دی جاتی ہے اور یہ ہمارے ماحول کی آلودگی میں اضافہ کرتی ہیں۔ سائنسدان دودھ کے پروٹین سے ایسی پیکنگ بنانے کی کوششوں میں ہیں جو کھائی جاسکے گی یا گرم پانی میں حل کی جاسکے گی۔


     

  • سال 2016: ماحول کو بچانے کے لیے ہم نے کیا کیا؟

    سال 2016: ماحول کو بچانے کے لیے ہم نے کیا کیا؟

    جیسے جیسے دنیا میں قدرتی آفات و مختلف موسمیاتی عوامل سامنے آرہے ہیں ویسے ویسے ماحولیات کا تحفظ اور موسمیاتی تغیرات یا کلائمٹ چینج کے بارے میں آگاہی بڑھتی جارہی ہے۔

    تاہم ماہرین کا ماننا ہے کہ مستقبل قریب میں ہمیں کلائمٹ چینج کے باعث جن شدید خطرات کا سامنا ہوگا، ان کے مقابلے میں ہمارے اقدامات نہایت معمولی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پوری دنیا کو ہنگامی بنیادوں پر کلائمٹ چینج کے اثرات سے بچنے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے، بصورت دیگر یہ دنیا کی ترقی، امن اور فلاح کے لیے دہشت گردی سے بھی بڑا خطرہ ثابت ہوگا۔

    رواں برس پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس سلسلے میں کیا کیا اقدامات کیے گئے، اور دنیا نے مزید کن ماحولیاتی خطرات کا سامنا کیا، آئیے ان پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

    پاکستان ۔ کلائمٹ چینج سے متاثرہ ممالک میں سے ایک

    جنوری تا جون

    پاکستانی پارلیمنٹ مکمل طور پر شمسی توانائی پر انحصار کرنے والی دنیا کی پہلی پارلیمنٹ بن گئی۔

    مارچ میں وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے سرسبز پاکستان پروگرام کی منظوری دی جس کے تحت ملک بھر میں 5 سال کے اندر 10 کروڑ درخت لگانے کا ہدف رکھا گیا۔

     وزارت برائے موسمیاتی تبدیلی (کلائمٹ چینج) نے قومی پالیسی برائے جنگلات کا حتمی مسودہ تیار کر کے مشترکہ مفادات کونسل کو ارسال کردیا۔ مسودہ تاحال منظوری کا منتظر ہے۔

    وزیر اعظم گرین پاکستان پروگرام کے تحت جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ اور افزائش کے لیے 2 ارب روپے کی منظوری دی گئی۔

    پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے 3 سابق فوجی افسران نے ایک تحقیقی رپورٹ شائع کی جس میں تجویز دی گئی کہ تینوں ممالک مل بیٹھ کر کلائمٹ چینج سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے پائیدار منصوبوں پر کام کریں اور علاقائی تعاون میں اضافہ کریں۔

    انہوں نے متنبہ کیا کہ دوسری صورت میں یہ تینوں ممالک آپس میں مختلف تنازعوں کا شکار ہوجائیں گے جس سے ان 3 ممالک میں بسنے والے کروڑوں افراد کی زندگیوں کو خطرہ ہے۔

    جولائی تا دسمبر

     وزارت برائے موسمیاتی تبدیلی (کلائمٹ چینج) کے مطابق شمالی علاقوں میں درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا جس کے باعث چترال اور گلگت بلتستان کے کچھ حصوں میں 5000 کے قریب گلیشیئرز تیزی سے پگھلنا شروع ہوگئے۔

    مقامی افراد کے مطابق برفانی پہاڑی علاقوں میں گرمی میں درجہ حرارت 30 سے اوپر کبھی نہیں گیا لیکن رواں برس یہ 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچا۔

    ڈپٹی کمشنر تھر پارکر ڈاکٹر شہزاد تھیم نے تھر میں درخت کاٹنے پر پابندی عائد کردی۔

     کمشنر کراچی اعجاز احمد خان نے شہر میں ماحول دشمن درخت کونو کارپس کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کردی۔

    وفاقی حکومت نے شمالی علاقوں میں گلیشیئرز کے پگھلنے اور اس سے ہونے والے نقصانات سے بچانے کے لیے نصب مانیٹرنگ سسٹم پر 8.5 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا فیصلہ کیا۔

    رواں سال پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں بدترین دھند دیکھی گئی جسے ماہرین نے اسموگ قرار دیا۔ عالمی خلائی ادارے ناسا کے مطابق لاہور میں زہریلی اسموگ کی وجہ بھارتی پنجاب میں فصلوں کا جلایا جانا تھا جو ایک غیر معمولی عمل تھا۔

    اس فوگ کی وجہ سے مختلف حادثات میں پنجاب میں 15 سے زائد افراد ہلاک بھی ہوئے۔

    لاہور ہائیکورٹ نے بھی حکومت سے اسموگ کے حوالے سے حفاظتی اقدامات اور آگاہی مہم کی تفصیلات طلب کرلیں۔

    پاکستان نے انسداد ماحولیاتی نقصانات کے لیے طے کیے جانے والے معاہدے پیرس کلائمٹ ڈیل کی توثیق کردی جس کے بعد پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہوگیا جو دنیا بھر کو موسمیاتی تغیرات (کلائمٹ چینج) کے نقصانات سے بچانے کے لیے سنجیدہ اقدامات پر عمل کریں گے۔

    پنجاب کے ضلع لیہ کے نواحی علاقے بکھری احمد کے مقام پر دریائے سندھ نے آگے بڑھنا شروع کردیا جس کے بعد ماہرین نے خطرے کی گھنٹی بجادی۔ دریا کے آگے بڑھنے کے باعث اس مقام پر تیزی کے ساتھ زمین کا کٹاؤ جاری ہے اور زمین دریا برد ہورہی ہے۔

    وفاقی وزیر برائے کلائمٹ چینج زاہد حامد نے اعلان کیا کہ پاکستان بہت جلد دنیا کا سب سے بڑا شمسی توانائی کا پارک قائم کرنے والا ہے جس سے 1000 میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکے گی۔

    برطانوی باکسر عامر خان نے سندھ کے صحرائی علاقے تھر پارکر میں 200 کنویں بنانے کا اعلان کیا۔

    وزیر اعظم نواز شریف کی ہدایت پر نایاب پرندے تلور اور ہجرت کر کے آنے والے دیگر پرندوں کے تحفظ و افزائش نسل کے لیے 25 کروڑ روپے جاری کردیے گئے۔

    وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بڑھتی ہوئی پانی کی قلت کو دیکھتے ہوئے مقامی حکومت نے پانی ضائع کرنے والے گھروں پر جرمانہ عائد کرنے کا فیصلہ کیا۔

    ٹھٹھہ اور بلوچستان کے ساحل پر غیر معمولی جسامت کی جیلی فش دیکھی گئی جو اس سے قبل پاکستان میں کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔

    عالمی ادارے جرمن واچ نے گلوبل کلائمٹ رسک انڈیکس 2017 جاری کیا جس میں کلائمٹ چینج سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں پاکستان کو ساتویں نمبر پر رکھا گیا۔

    رواں برس آخری عشرے میں تلور کا شکار بھی موضوع بحث رہا۔ قطر سے آنے والے شہزادوں نے پنجاب کے مختلف علاقوں میں دل بھر کر تلور کا شکار کیا۔ ان کے جانے کے بعد بھی انہیں شکار کی اجازت دینے کا معاملہ مختلف اداروں اور صوبائی و وفاقی حکومتوں کے درمیان کھینچا تانی کا سبب بن رہا ہے۔

    سائنس آف دی ٹوٹل انوائرنمنٹ نامی جریدے میں شائع کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان کے شہری علاقوں میں رہنے والی 40 فیصد آبادی پارے (مرکری) کی آلودگی اور اس کے نقصانات کے خطرے کا شکار ہے۔

    دنیا نے کلائمٹ چینج سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات کیے؟

    جنوری تا اپریل

    یورپین خلائی ایجنسی نے ماحولیاتی تبدیلیوں کا جائزہ لینے کے لیے سیٹلائٹ لانچ کردیا۔

    کینیا میں ہاتھیوں کے تحفظ کے لیے قائم کیے جانے والے فورم ’جائنٹ کلب‘ کا پہلا اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں شرکا کی جانب سے زور دیا گیا کہ ہاتھی دانت کی غیر قانونی تجارت پر فوری پابندی عائد کی جائے۔

    مئی تا اگست

    متحدہ عرب امارات کی حکومت نے بارشوں میں اضافے کے لیے مصنوعی پہاڑ بنانے کا فیصلہ کیا۔

    کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر کے باعث آسٹریلیا میں پائے جانے والے ایک چوہے کی نسل مکمل طور پر معدوم ہوگئی جس کی سائنسدانوں نے تصدیق کردی۔ یہ کلائمٹ چینج کے باعث معدوم ہونے والا پہلا ممالیہ ہے۔

    دوسری جانب معدومی کے خطرے کا شکار جانداروں کے تحفظ کے لیے نہایت منظم اقدامات اٹھائے گئے جن کے باعث چین میں خطرے کا شکار پانڈا، اور کیلیفورنیا میں پائی جانے والی لومڑیوں کی ایک قسم، جن کا قد چھوٹا ہوتا ہے اور انہیں ننھی لومڑیاں کہا جاتا ہے، معدومی کے خطرے کی زد سے باہر نکل آئے۔

    دنیا بھر میں جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات میں اضافہ ہوگیا جس کے بعد عالمی خلائی ادارے ناسا نے متنبہ کیا کہ جنگلات میں لگنے والی آگ کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر میں اضافہ کا باعث بن رہی ہے۔

    آسٹریلیا کے حکومتی سائنسی ادارے کے مطابق آسٹریلیا نے اپنے جغرافیہ میں ایک میٹر کی تبدیلی کرلی۔

    ماہرین کے مطابق آسٹریلیا اپنی ٹیکٹونک پلیٹوں کی حرکت کی وجہ سے ہر سال 7 سینٹی میٹر شمال کی جانب حرکت کر رہا ہے اور سنہ 2020 تک اس کے جغرافیے میں 1.8 میٹر کی تبدیلی ہوچکی ہوگی۔

    ناروے دنیا کا وہ پہلا ملک بن گیا جہاں ملک بھر میں جنگلات کی کٹائی پر پابندی عائد کردی گئی۔

    قطب شمالی اور گرین لینڈ میں برف گلابی ہونا شروع ہوگئی۔ قطب شمالی کی برف گلابی اس وقت ہوتی ہے جب برف میں پرورش پانے والی کائی تابکار شعاعوں کو اپنے اندر جذب کرلیتی ہے۔ اس کا نتیجہ برفانی گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے کی صورت میں نکلتا ہے۔

    ستمبر تا دسمبر

    امریکی صدر بارک اوباما نے بحرالکاہل میں قائم کی گئی سمندری جانداروں کی حفاظتی پناہ گاہ (ریزرو) کو وسیع کرنے کے منصوبے کی منظوری دی جس کے بعد یہ دنیا کی سب سے بڑی آبی پناہ گاہ بن جائے گی۔ یہاں 7000 آبی جاندار رکھے گئے ہیں جن میں معدومی کے خطرے کا شکار ہوائی کی مونگ سگ ماہی اور سیاہ مونگے شامل ہیں۔

    امریکی صدر بارک اوباما نے اپنے دور میں ماحولیاتی تحفظ کے لیے بے شمار اقدامات کیے اور جانے سے قبل انہوں نے کلائمٹ چینج کو سیاسی ایجنڈے میں شامل کرلیا تھا۔

    انڈونیشیا میں علمائے دین نے جنگل میں جان بوجھ کر لگائی جانے والی آگ کے خلاف فتویٰ جاری کرتے ہوئے اسے حرام قرار دے دیا۔

    عالمی عدالت برائے انصاف نے ماحولیاتی نقصانات سے متعلق کیسوں کی سماعت کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

    فرانس نے ملک بھر میں پلاسٹک سے بنے برتنوں جیسے کپ، پلیٹ اور کانٹوں پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

    سنہ 1975 میں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی جنگلی حیات کی غیر قانونی تجارت کے خلاف منظور ہونے والے معاہدے سائٹس کی کانفرنس میں مختلف ممالک نے دنیا کے سب سے زیادہ غیر قانونی تجارت کے شکار جانور پینگولین اور دنیا سے تیزی سے ختم ہوتے روز ووڈ درخت کے کاٹنے پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا۔

    برطانوی ماہرین نے سیٹلائٹ سے موصول ہونے والی ہزاروں تصویروں اور ڈیٹا کی بغور چھان بین کے بعد اس بات کی تصدیق کی کہ دنیا کے برفانی خطے قطب جنوبی یعنی انٹارکٹیکا میں برف کے نیچے جھیلیں بن رہی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق یہ جھیلیں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ کلائمٹ چینج کے باعث وہاں موجود برف پگھل رہی ہے اور اس کی تہہ کمزور ہو کر چٹخ رہی ہے۔

    سات نومبر کو مراکش میں ماحولیات کی عالمی سالانہ کانفرنس کوپ 22 کا آغاز ہوا۔ گزشتہ برس پیرس میں ہونے والی کانفرنس میں تاریخی معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد رواں برس کانفرنس کا مرکزی ایجنڈا اس معاہدے پر عملدرآمد کے لیے اقدامات اٹھانا تھا۔

    نو نومبر کو امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ صدارتی انتخاب جیت کر نئے صدر منتخب ہوگئے۔ ان کی فتح نے دنیا بھر میں ماحولیات کی بہتری کے لیے کیے جانے والے کاموں پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا۔

    صدر ٹرمپ کا انتخابی منشور ماحول دشمن اقدامات سے بھرا پڑا ہے۔ وہ اپنی انتخابی مہم میں کئی بار کلائمٹ چینج بھی کو ایک وہم اور مضحکہ خیز چیز قرار دے چکے تھے۔

    عالمی ادارہ تجارت ڈبلیو ٹی او نے فیصلہ کیا کہ وہ اب دنیا بھر میں ماحول دوست مصنوعات پر سرمایہ کاری کرے گا۔

    امریکا کے نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیریک ایڈمنسٹریشن نے ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی جس میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں 24 اہم موسمیاتی مظاہر کا ذکر کیا گیا جو کرہ ارض پر آب و ہوا کی تبدیلی کے خطرے کو ظاہر کرتے ہیں۔

    ایسے موسمیاتی مظاہر کا اس سے پہلے تصور بھی ناممکن تھا۔

    سمندر کی اتھاہ گہرائیوں میں ایک ایسی شارک کو حرکت کرتے دیکھا گیا جس کے بارے میں ماہرین کا ماننا ہے کہ وہ ڈائنو سارز سے بھی پہلے سے ہماری زمین پر موجود ہے۔

    اب تک اس شارک کو کسی نے نہیں دیکھا تھا جس کے باعث یہ شارک ایک تخیلاتی حیثیت اختیار کر گئی تھی اور اس کے بارے میں مصدقہ طور پر نہیں کہا جاسکتا تھا کہ آیا یہ موجود ہے بھی یا نہیں۔

    فرانس میں دنیا کی پہلی سولر ہائی وے کا افتتاح کردیا گیا۔

    دنیا کے سب سے گرم ترین صحرا، براعظم افریقہ کے صحرائے اعظم میں 37 سال بعد برفباری ہوئی۔

    رواں برس دنیا بھر میں فضائی آلودگی میں بھی خطرناک اضافہ دیکھا گیا اور پیرس، میڈرڈ، تہران، نئی دہلی اور لاہور وغیرہ میں تاریخ کی بلند ترین فضائی آلودگی کی شرح ریکارڈ کی گئی۔

  • جرمنی میں مردہ وہیل مچھلیاں بہہ کر ساحل پر آگئیں

    جرمنی میں مردہ وہیل مچھلیاں بہہ کر ساحل پر آگئیں

    برلن: جرمنی کی ایک ساحلی ریاست میں 2 دیو قامت مردہ وہیل مچھلیاں بہہ کر ساحل پر آگئیں۔ ماہرین کے مطابق ان وہیلوں کے پیٹ میں لاتعداد پلاسٹک کے اجزا ہیں۔

    جرمنی کی ریاست شیلسوگ ہولسٹن کے ساحل پر 2 مردہ وہیل مچھلیاں سمندر کی لہروں کے ساتھ بہہ کر ساحل پر آگئیں۔ ماہرین نے جب ان مچھلیوں کا جائزہ لیا تو انہیں معلوم ہوا کہ ان مچھلیوں کے معدے پلاسٹک کے اجزا سے بھرے پڑے تھے۔

    مزید پڑھیں: جہازوں کا شور وہیل مچھلی کی صحت پر منفی اثرات کا باعث

    جاری کی گئی پریس ریلیز کے مطابق ان کے پیٹ میں 13 میٹر طویل مچھلیوں کے جال، 70 سینٹی میٹر لمبے کار کے ایک پلاسٹک کے ٹکڑے سمیت دیگر پلاسٹک کی اشیا ملی ہیں۔ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ان مچھلیوں نے ان اشیا کو خوراک سمجھ کر کھایا ہوگا۔

    ریاست کے وزیر برائے ماحولیات رابرٹ ہیبک کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ پلاسٹک نہ صرف ہماری زندگیوں کا لازمی جز بن چکا ہے بلکہ ہم انہیں استعمال کے بعد بہت لاپرواہی سے پھینکنے کے عادی ہوگئے ہیں۔

    whale-2

    انہوں نے کہا کہ پلاسٹک اشیا کا سمندر میں جانا سمندری حیات کے لیے سخت خطرے کا باعث ہے۔ یوں لگتا ہے کہ یہ مچھلیاں پلاسٹک سے پیٹ بھرے ہونے کے باوجود بھوکی تھیں۔

    ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ پلاسٹک براہ راست ان کی موت کی وجہ نہیں بنا البتہ اس پلاسٹک کے باعث ان کا وزن بے ہنگم ہوگیا اور غلطی سے کم گہرے پانی میں آنے کے بعد ان کے لیے گہرے پانی میں واپس جانا مشکل ہوگیا، یوں جلد ہی ان کے جسمانی اعضا ناکارہ ہوتے گئے جو ان کی موت کا سبب بنا۔

    واضح رہے کہ پلاسٹک ایک ایسا مادہ ہے جسے ختم ہونے یا زمین کا حصہ بننے کے لیے ہزاروں سال درکار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ماحول، صفائی اور جنگلی حیات کے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: فرانس کا پلاسٹک سے بنے برتنوں پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ

    مزید پڑھیں: برطانیہ میں پلاسٹک بیگ کا استعمال ختم کرنے کے لیے انوکھا قانون

    ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین پر استعمال کیے جانے والے پلاسٹک کا 80 فیصد حصہ سمندر میں چلا جاتا ہے۔ ان میں پلاسٹک کی بوتلیں اور تھیلیاں شامل ہوتی ہیں جو سمندر میں جا کر آبی حیات کی بقا کو سخت خطرات پہنچانے کا سبب بنتی ہیں۔

    اکثر سمندری جانور پلاسٹک کے ٹکڑوں میں پھنس جاتے ہیں اور اپنی ساری زندگی نہیں نکل پاتے۔ اس کی وجہ سے ان کی جسمانی ساخت ہی تبدیل ہوجاتی ہے۔ مچھلیاں اور دیگر آبی حیات ان کو کھانے کی اشیا سمجھ کر بھی نگل جاتے ہیں جس کے بعد یہ ان کے معدے میں پھنس جاتے ہیں اور بالآخر یہ آبی حیات موت کا شکار ہوجاتی ہیں۔

  • ماحول دوست پلاسٹک بیگ تیار‘ آپ کھا بھی سکتے ہیں

    ماحول دوست پلاسٹک بیگ تیار‘ آپ کھا بھی سکتے ہیں

    دنیا بھر میں پلاسٹک ایک ایسے عفریت کی صورت میں سامنے آیا ہے جو زمین‘ ہوا اور سمندروں کو یکساں طور پر متاثر کررہا ہے لیکن اب ایک نئی بھارتی کمپنی نے ایسا پلاسٹک بنایا ہے جسے جانور اور خود انسان بھی کھاسکتے ہیں۔

    اینوائے گرین نامی کمپنی نے قدرتی نشاستے اور سبزیوں کے تیل سے پلاسٹک نما ایک مٹیریل بنایا ہے جو 100 فیصد نامیاتی ( آرگینک)‘ ماحول دوست اور ازخود گھل کر ختم ہونے والا ہے۔ اس کے علاوہ پلاسٹک کو کھایا بھی جاسکتا ہے۔

    فرانس کا پلاسٹک سے بنے برتنوں پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ

    پاکستان میں شاپر کہلانے والے پلاسٹک بیگز کے بارے میں بہت سے لوگ فکر مند رہتے ہیں جو ہوا میں اڑتے رہتے ہیں اور نالیوں میں پھنس کر سیوریج کے پورے نظام کو ناکارہ بنادیتے ہیں۔ اسی طرح سمندری جاندار نرم پلاسٹک کو چارہ سمجھ کر کھارہے ہیں اور ہلاک ہورہے ہیں۔

    fdff

    اس پلاسٹک کے مؤجد نے چار سال تک نئے پلاسٹک پر تجربات کیے اوربالاخرسورج مکھی کے تیل‘ آلو‘ مکئی‘ قدرتی نشاستے‘ سبزیوں کے تیل اور کیلے کے مرکبات سے ایک پلاسٹک نما مٹیریل تیار کرلیا ہے فی الحال اس کی تیاری کے طریقے کو خفیہ رکھا گیاہے۔

    اتنا معلوم ہوسکا ہے کہ پہلے اس کا خام مال مائع صورت میں ڈھالا جاتا ہے اور اس کے بعد 6 مختلف مراحل سے گزار کر پلاسٹک بیگز تیار کیے جاسکتے ہیں۔ لیکن اس کی قیمت روایتی پلاسٹک بیگ کے مقابلے میں 35 فیصد زائد ہے اور اس کے فوائد اس اضافی رقم سے کہیں زیادہ ہیں۔

    ایسی پیکنگ جسے کھایا جا سکتا ہے

     کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اگر بیگ کو پھینک دیا جائے تو 180 دن کے اندر یہ ازخود گھل کر ختم ہوجاتے ہیں اگر انہیں پانی میں ڈالا جائے تو ایک دن اور ابلتے پانی میں 15 سیکنڈ میں حل ہوجاتے ہیں۔

    واضح رہے کہ شاپنگ بیگز کرہ ارض کے ماحول کو لاحق شدید ترین خطرات میں سے ایک ہیں ‘ ان کے سبب سے زیادہ خطرہ سمندری حیات کو درپیش ہےاور یہ پاکستان جیسے ممالک میں ڈرینیج سسٹم کو بھی متاثر کرتے ہیں۔

    برطانیہ میں پلاسٹک بیگ کا استعمال ختم کرنے کے لیے انوکھا قانون

     ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ ایک کھرب پلاسٹک کی تھیلیاں استعمال کی جاتی ہیں۔ یہ تھیلیاں استعمال کے بعد پھینک دی جاتی ہیں جو کروڑوں ٹن کچرے کی شکل میں ہماری زمین کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔

    پلاسٹک ایک ایسا مادہ ہے جسے ختم ہونے یا زمین کا حصہ بننے کے لیے ہزاروں سال درکار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ماحول، صفائی اور جنگلی حیات کے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔

  • فرانس کا پلاسٹک سے بنے برتنوں پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ

    فرانس کا پلاسٹک سے بنے برتنوں پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ

    پیرس: یورپی ملک فرانس نے ملک بھر میں پلاسٹک سے بنے برتنوں جیسے کپ، پلیٹ اور کانٹوں پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

    یہ فیصلہ ملک بھر میں پلاسٹک کی پیداوار، اس کے استعمال کو روکنے اور اس سے ہونے والے نقصانات سے بچنے کے لیے کیا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ پلاسٹک ایک ایسا مادہ ہے جسے ختم ہونے یا زمین کا حصہ بننے کے لیے ہزاروں سال درکار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ماحول، صفائی اور جنگلی حیات کے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔

    france-2

    یہ اقدام فرانس کے انرجی ٹرانزیشن فار گرین گروتھ نامی بل کا حصہ ہے جو 2015 میں پیش کیا گیا۔ یہ قانون باقاعدہ طور پر 2020 سے ملک بھر میں لاگو کردیا جائے گا۔ اس وقت تک پلاسٹک کے کاروبار سے وابستہ افراد کو کسی اور شے سے ڈسپوز ایبل برتن بنانے کا وقت مل جائے گا۔

    فرانسیسی اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں 4.73 بلین پلاسٹک کپ استعمال کیے جاتے ہیں جو استعمال کے بعد پھینک دیے جاتے ہیں اور ان کا صرف 1 فیصد حصہ ری سائیکل یا دوبارہ استعمال ہو پاتا ہے۔

    یہ اقدام فرانس کے ماحول اور ماحول دوست افراد کے لیے تو خوش آئند ہے تاہم فرانس کا کاروباری و تجارتی طبقہ اس سے ناخوش نظر آتا ہے۔

    ایک تاجر کے مطابق فرانس کا یہ قانون یورپی یونین کے تجارتی اشیا کی آزادانہ نقل و حمل کے قوانین سے متصادم ہے۔

    یورپ کی فوڈ پیکنگ ایسوسی ایشن پیک ٹو گو کی سیکریٹری جنرل کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کے قوانین کی خلاف ورزی پر فرانس کے خلاف قانونی اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں۔

    france-3

    فرانس کی وزارت ماحولیات نے تاحال اس معاملے پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا تاہم آثار یہی ہیں کہ یہ قانون جلد نافذ العمل ہوجائے گا کیونکہ فرانس اس سے قبل بھی کئی ماحول دوست قوانین متعارف کروا چکا ہے۔

    فرانس رواں برس پلاسٹک بیگز کے استعمال پر بھی پابندی لگا چکا ہے جبکہ ایک قانون کے تحت سپر مارکیٹس کی انتظامیہ اس بات پر مجبور ہیں کہ وہ نہ فروخت ہونے والی غذائی اشیا کو عطیہ کردیں۔

    گزشتہ برس برطانیہ میں بھی ماحولیاتی تحفظ کے لیے سپر مارکیٹس میں استعمال ہونے والے پلاسٹک بیگز پر بھاری قیمت وصول کی جانے لگی تھی جس کے بعد رواں برس پلاسٹک بیگز کے استعمال میں 85 فیصد کمی دیکھی گئی۔