Tag: پلاسٹک

  • ایسی پیکنگ جسے کھایا جا سکتا ہے

    ایسی پیکنگ جسے کھایا جا سکتا ہے

    یہ ایک بہت عام سی بات ہے کہ آپ نے کوئی چیز بازار سے خریدی، اس کے گرد لپٹا پلاسٹک کھول کر پھینک دیا اور اس چیز کو استعمال کرلیا۔

    لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ پھینکا جانے والا پلاسٹک ہماری زمین کو کس قدر شدید نقصانات پہنچا رہا ہے؟

    پلاسٹک ایک ایسا مادہ ہے جو ختم نہیں ہوتا۔ اگر اسے ایک ہزار سال بھی زمین میں دبائے رکھا جائے تب بھی یہ زمین میں حل ہو کر اس کا حصہ نہیں بنتا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ماحول، صفائی اور جنگلی حیات کے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔

    pl-3

    ساحلوں پر پھینکی جانے والی پلاسٹک کی بوتلیں اور تھیلیاں سمندر میں چلی جاتی ہیں جس سے سمندری حیات کی بقا کو سخت خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ اکثر سمندری جانور پلاسٹک کے ٹکڑوں میں پھنس جاتے ہیں اور اپنی ساری زندگی نہیں نکل پاتے۔ اس کی وجہ سے ان کی جسمانی ساخت ہی تبدیل ہوجاتی ہے۔

    کچھ سمندری حیات پلاسٹک کو کھا بھی لیتی ہیں جس سے فوری طور پر ان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

    pl-2

    ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ ایک کھرب پلاسٹک کی تھیلیاں استعمال کی جاتی ہیں۔ یہ تھیلیاں استعمال کے بعد پھینک دی جاتی ہیں جو کروڑوں ٹن کچرے کی شکل میں ہماری زمین کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔

    pl-1

    انہی خطرات کو کم کرنے کے لیے امریکا میں ماہرین ’خوردنی پیکنگ‘ پر کام کر رہے ہیں۔

    امریکن کیمیکل سوسائٹی کے ماہرین پلاسٹک کے متبادل کے طور پر ایسی چیزوں کی پیکنگ بنانے پر کام کر رہے ہیں جنہیں انسان یا جانور کھا سکتے ہیں۔ اگر اسے پھینک دیا جائے تب بھی یہ مختصر عرصہ میں حل ہو کر زمین کا حصہ بن سکتی ہے یوں یہ کچرے اور آلودگی میں اضافہ کا سبب نہیں بنے گی۔

    pl-5

    یہ پیکنگ دودھ کے پروٹین سے تیار کی جائے گی اور یہ وہی کام کرے گی جو پلاسٹک سر انجام دیتا ہے۔ یہ آکسیجن کو جذب نہیں کرسکے گی لہٰذا اس کے اندر لپٹی چیز خراب ہونے کا کوئی خدشہ نہیں ہوگا۔

    اس پیکنگ کے اندر کافی یا سوپ کو پیک کیا جاسکے گا۔ استعمال کرتے ہوئے اسے کھولے بغیر گرم پانی میں ڈالا جاسکتا ہے جہاں یہ پیکنگ بھی پانی میں حل ہوجائے گی۔ چونکہ یہ پروٹین ہی سے بنی ہے لہٰذا یہ صحت کے لیے بھی فائدہ مند ہوگی۔

    pl-4

    pl-6

    ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں زمین کی بڑھتی آلودگی میں کمی کے لیے یہی خوردنی پیکنگ استعمال کی جائے گی۔

    اس سے قبل برطانیہ میں بھی پلاسٹک کی تھیلیوں کے استعمال کو کم کرنے کے لیے اس پر ٹیکس عائد کردیا گیا جس کے بعد رواں برس پلاسٹک بیگز کے استعمال میں 85 فیصد کمی دیکھی گئی۔

  • برطانیہ میں پلاسٹک بیگ کا استعمال ختم کرنے کے لیے انوکھا قانون

    برطانیہ میں پلاسٹک بیگ کا استعمال ختم کرنے کے لیے انوکھا قانون

    لندن: برطانیہ میں سپر مارکیٹس میں استعمال ہونے والے پلاسٹک بیگز پر حکومت کی جانب سے قیمت وصول کی جانے لگی جس کے بعد رواں برس پلاسٹک بیگز کے استعمال میں 85 فیصد کمی دیکھی گئی۔

    یہ اقدام ماحول کو پلاسٹک سے درپیش خطرات اور اس کے نقصانات کو مدنظر رکھتے ہوئے گزشتہ برس اکتوبر میں اٹھایا گیا۔ ایک پلاسٹک بیگ کی قیمت 5 پاؤنڈ رکھی گئی تھی اور یہ قانون تجرباتی طور پر لندن کی 7 بڑی سپر مارکیٹوں پر نافذ کیا گیا۔

    p3

    اس سے قبل ان سپر مارکیٹس نے اپنے گاہکوں کے استعمال کے لیے 7 بلین کے قریب پلاسٹک بیگز بنوائے لیکن اس اقدام کے صرف 6 ماہ بعد ان سپر اسٹورز نے صرف 5 ملین بیگز ہی منگوائے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قیمت کی وصولی کے باعث گاہکوں نے شاپنگ بیگ لینا چھوڑ دیا۔

    یہ اعداد و شمار برطانیہ کے شعبہ برائے ماحولیات، غذا اور دیہی امور ڈیفرا کی جانب سے جاری کیے گئے۔

    صرف 6 ماہ قبل اٹھایا جانے والا یہ قدم صرف سپر مارکیٹس کے لیے تھا۔ چھوٹی دکانیں اس سے مستشنیٰ تھیں۔

    برطانیہ کے وزیر ماحولیات تھریس کوفے نے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پلاسٹک بیگز کے استعمال میں 6 بلین کی کمی ایک خوش آئند بات ہے۔ اس سے ہماری سمندری حیات کو نقصان پہنچنے کا خدشہ بھی کم ہوگا، جبکہ ہمیں ایک صاف ستھرا ماحول میسر ہوگا۔

    انہوں نے کہا کہ یہ ایک مثال ہے کہ ایک چھوٹے سے قدم سے آپ کتنی بڑی تبدیلی لاسکتے ہیں۔

    اس سے قبل برطانیہ میں پلاسٹک بیگز کے استعمال کی شرح 140 فی شخص ماہانہ تھی، جبکہ اس کی کل مقدار 61000 ٹن تھی۔ ایک ہفتہ میں ان 7 سپر اسٹورز سے 3 ملین پلاسٹک بیگز گاہکوں کو دیے جاتے تھے۔

    p4

    واضح رہے کہ پلاسٹک ایک ایسا مادہ ہے جسے ختم ہونے یا زمین کا حصہ بننے کے لیے ہزاروں سال درکار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ماحول، صفائی اور جنگلی حیات کے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔

    ساحلوں پر پھینکی جانے والی پلاسٹک کی بوتلیں اور تھیلیاں سمندر میں چلی جاتی ہیں جس سے سمندری حیات کی بقا کو سخت خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ اکثر سمندری جانور پلاسٹک کے ٹکڑوں میں پھنس جاتے ہیں اور اپنی ساری زندگی نہیں نکل پاتے۔ اس کی وجہ سے ان کی جسمانی ساخت ہی تبدیل ہوجاتی ہے۔

    p1

    کچھ سمندری حیات پلاسٹک کو کھا بھی لیتی ہیں جس سے فوری طور پر ان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

    ماہرین پلاسٹک بیگ کے متبادل کے طور پر کپڑے کے تھیلے استعمال کرنے کی تجویز دیتے ہیں جو کافی عرصہ تک استعمال کیے جاسکتے ہیں۔

  • فطرت کے تحفظ کا عالمی دن: آپ کیا کرسکتے ہیں؟

    فطرت کے تحفظ کا عالمی دن: آپ کیا کرسکتے ہیں؟

    آج دنیا بھر میں فطرت کے تحفظ کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد لوگوں میں زمین کے وسائل، ماحول، اور فطرت کے تحفظ کے حوالے سے شعور بیدار کرنا ہے۔

    ہم زمین پر موجود قدرتی وسائل جیسے ہوا، پانی، مٹی، معدنیات، درخت، جانور، غذا اور گیس پر انحصار کرتے ہیں۔ زندگی میں توازن رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ زمین پر موجود تمام جانداروں کی بقا قائم رہے۔ کسی ایک جاندار کو بھی خطرہ ہوگا تو پوری زمین خطرے میں ہوگی کیونکہ تمام جاندار اور وسائل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

    ورلڈ وائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے مطابق 1970 سے دنیا کی آبادی میں اس قدر تیزی سے اضافہ ہوا ہے کہ ہماری زمین پر پڑنے والا بوجھ دگنا ہوگیا ہے جبکہ قدرتی وسائل میں 33 فیصد کمی واقع ہوگئی۔

    مزید پڑھیں: آبادی میں اضافہ پائیدار ترقی کے لیے خطرہ

    ماہرین کے مطابق زندگی میں سسٹین ایبلٹی یعنی پائیداری بہت ضروری ہے۔ اس پائیداری سے مراد ہماری ذاتی زندگی میں ایسی عادات ہیں جو فطرت اور ماحول کی پائیداری کا سبب بنیں۔

    مثال کے طور پر اگر ہم زیادہ پانی خرچ کرتے ہیں تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ زمین سے پینے کے پانی کے ذخائر ختم ہوجائیں گے۔ یا اگر ہم صنعتی ترقی کرتے ہیں اور زہریلی گیسوں کا اخراج کرتے ہیں، تو ان گیسوں سے زمین کے درجہ حرارت میں تبدیلی ہوگی، گلیشیئرز پگھلیں گے، سطح سمندر میں اضافہ ہوگا، اور زمین کی وہ ساخت جو اربوں سال سے قائم ہے، اس میں تبدیلی ہوگی جس کا نتیجہ قدرتی آفات کی صورت میں نکلے گا۔

    مزید پڑھیں: دنیا کے مستقبل کے لیے پائیدار ترقیاتی اہداف

    معروف اسکالر، ماہر ماحولیات اور سابق وزیر جاوید جبار کہتے ہیں، ’فطرت اور زمین کسی سے مطابقت پیدا نہیں کرتیں۔ یہاں آنے والے جاندار کو اس سے مطابقت پیدا کرنی پڑتی ہے۔ ڈائنوسار اور دیگر جانداروں نے جب زمین کے ماحول سے مطابقت پیدا نہیں کی تو ان کی نسل مٹ گئی۔ زمین ویسی کی ویسی ہی رہی۔ اور ہم (انسان) جنہیں اس زمین پر آ کر چند ہزار سال ہی ہوئے، ہمیں لگتا ہے کہ ہم زمین کو اپنے مطابق کرلیں گے‘۔

    ان کے مطابق جب ہم فطرت کو تباہ کرنے کی ایک حد پر آجائیں گے، اس کے بعد ہمارا وجود شدید خطرے میں پڑجائے گا، جبکہ زمین ویسی ہی رہے گی۔

    فطرت سے چھیڑ چھاڑ کے نتیجے میں کئی منفی اثرات واقع ہو رہے ہیں جن میں سے ایک کلائمٹ چینج یعنی موسمیاتی تغیر ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ مستقبل قریب میں دنیا کے لیے امن و امن کے مسئلہ سے بھی بڑا خطرہ ہوگا جبکہ اس کے باعث جانداروں کی کئی نسلیں معدوم ہوجائیں گی۔

    ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ ہر شخص اپنی انفرادی زندگی میں کچھ عادات اپنا کر فطرت کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔

    آپ کیا کرسکتے ہیں؟

    اپنے آس پاس ہونے والی ماحول دوست سرگرمیوں میں حصہ لیں۔

    ماحول کے تحفظ کے بارے میں دوسروں میں آگاہی پیدا کریں۔

    وسائل کا احتیاط سے استعمال کریں۔ جیسے ایندھن کے ذرائع یا کاغذ۔ واضح رہے کہ کاغذ درختوں سے بنتے ہیں اور کاغذ کو ضائع کرنے کا مطلب درختوں کی کٹائی میں اپنا حصہ ڈالنا ہے۔

    گھروں پر پانی، بجلی اور ایندھن کا احتیاط سے استعمال کیاجائے اور بچوں کو بھی اس کی تربیت دی جائے۔

    پلاسٹک بیگز کا استعمال ختم کیا جائے۔ پلاسٹک ایک ایسی شے ہے جسے اگر ہزاروں سال بھی زمین میں دفن رکھا جائے تب بھی یہ کبھی زمین کا حصہ نہیں بنتی۔ یہ ہمیشہ جوں کی توں حالت میں رہتی ہے نتیجتاً زمین کی آلودگی میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔

    سفر کرتے ہوئے ہمیشہ ماحول دوست بنیں۔ خصوصاً کچرا پھیلانے سے گریز کریں۔

    ماحول کی تباہ کرنے والی کوئی بھی سرگرمی جیسے درخت کٹتا ہوا دیکھیں تو فوراً متعلقہ حکام کو اطلاع دیں۔

  • انگلینڈ میں پلاسٹک کے شاپنگ بیگ اب مفت نہیں ملیں گے

    انگلینڈ میں پلاسٹک کے شاپنگ بیگ اب مفت نہیں ملیں گے

    لندن: ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لئے انگلینڈ میں شاپنگ بیگس کی قیمت متعین کردی گئی ہے لیکن چھوٹے دکاندار اس سے مبرا رہیں گے۔

    ایک مرتبہ استعمال ہونے والے شاپنگ بیگ کی قیمت 5 پنس رکھی گئی ہے اوراسکا مقصد کچرے کی مقدارمیں کمی اورجنگلی حیات کا تحفظ ہے۔

    برطانوی حکومت پرامید ہے کہ ان اقدامات سے شاپنگ بیگ کے استعمال سے 80 فیصد کمی آئے گی جہاں گزشتہ سال 61 ہزار ٹن شاپنگ بیگ استعمال کئے گئے۔

    ذرائع کے مطابق پانچ پنس کی رقم میں سے 4 پنس فلاحی کاموں میں صرف ہوں گے جبکہ 1 پنس ملکی خزانے میں شامل کئے جائیں گے۔

    امید کی جارہی ہے کہ اس منصوبے سے 730 ملین پاؤنڈ کی رقم فلاحی کاموں کے لئے اکھٹی کی جاسکے گی جبکہ کچرے کی صفائی پر صرف ہونے والے 60 ملین پاؤنڈ بچائے جاسکیں گے۔

    واضح رہے کہ اس فیصلے کا اطلاق 250 سے زائد مستقل ملازمین رکھنے والی سپر مارکیٹس پر ہوگا اور چھوٹے دوکاندار اس سے مبرا ہوں گے۔