Tag: پلاسٹک

  • ڈسپوز ایبل کپ میں چائے پینے والے ہوشیار

    ڈسپوز ایبل کپ میں چائے پینے والے ہوشیار

    ایک بار استعمال کیے جانے والے ڈسپوزایبل کپ نہایت عام ہوچکے ہیں تاہم یہ ری سائیکل نہ ہوسکنے کی وجہ سے زمین کے ماحول کے لیے نہایت خطرناک ہیں۔

    اب حال ہی میں ان کے حوالے سے ایک اور انکشاف سامنے آیا ہے۔

    حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق میں انکشاف کیا گیا کہ گرم مشروبات کے برتن ہمارے مشروب میں کھربوں انتہائی باریک پلاسٹک کے ذرات چھوڑ دیتا ہے۔

    نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹینڈرڈز اینڈ ٹیکنالوجی کے ماہرین نے گرم مشروبات کے لیے ایک بار استعمال ہونے والے کپس کا تجزیہ کیا جس پر کم کثافت والے پولی ایتھیلین کی پرت چڑھی ہوئی تھی۔

    یہ ایک نرم لچکدار پلاسٹک فلم ہوتی ہے جو عموماً واٹر پروف لائنر کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔

    ماہرین کو معلوم ہوا کہ جب ان کپس کو 100 ڈگری سیلسیئس کے پانی میں رکھا گیا تو ان کپس نے فی لیٹر پانی میں کھربوں نینو ذرات خارج کیے۔

    نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹینڈرڈ اینڈ ٹیکنالوجی کے کیمیا دان کرسٹوفر زینگمئیسٹر کا کہنا تھا کہ جو بنیادی مشاہدہ ہے وہ یہ ہے کہ ہم جہاں بھی دیکھتے ہیں اس میں پلاسٹک کے ذرات دکھتے ہیں، فی لیٹر کھربوں ذرات ہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ ہم یہ نہیں جانتے کہ اگر اس کے لوگوں یا جانوروں کی صحت پر کوئی برے اثرات ہیں، ہم صرف اس بات پر پر اعتماد ہیں کہ وہ یہاں ہیں۔

    نینو پلاسٹک کا تجزیہ کرنے کے لیے زینگمئیسٹر اور ان کی ٹیم نے کپ میں پانی لیا اور باہر نمی کا چھڑکاؤ کیا اور کپ کو سوکھنے کے لیے چھوڑ دیا، جس کے نتیجے میں نینو پارٹیکلز باقی محلول میں خارج ہوتے رہے۔

  • انسانی خون میں پلاسٹک دریافت

    انسانی خون میں پلاسٹک دریافت

    پلاسٹک کی بے تحاشہ آلودگی نے زمین کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور یہ ہمارے پینے کے پانی اور غذا میں بھی شامل ہوگیا ہے اور اس کا نتیجہ بالآخر سامنے آگیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق سائنس دانوں نے پہلی بار انسانی خون میں پلاسٹک کے ننھے ذرات کو دریافت کیا ہے، انہوں نے جن افراد کے نمونوں کی جانچ پڑتال کی ان میں سے لگ بھگ 80 فیصد میں پلاسٹک کے ننھے ذرات کو دریافت کیا گیا۔

    اس دریافت سے ثابت ہوتا ہے کہ مائیکرو پلاسٹک ذرات خون کے ذریعے پورے جسم میں سفر کرسکتے ہیں اور اعضا میں اکٹھے ہوسکتے ہیں۔

    ابھی صحت پر ان کے اثرات کا تو علم نہیں مگر ماہرین فکر مند ہیں کہ ان ذرات سے انسانی خلیات کو نقصان پہنچ سکتا ہے جیسا لیبارٹری میں ثابت ہوا۔

    اسی طرح فضائی آلودگی کے ذرات کے بارے میں پہلے ہی علم ہے کہ وہ جسم میں داخل ہو کر ہر سال لاکھوں اموات کا باعث بنتے ہیں۔

    اس تحقیق کے لیے 22 افراد کے عطیہ کردہ خون کے نمونوں کا تجزیہ کیا گیا تھا جو کہ سب صحت مند تھے، ماہرین نے 17 افراد کے نمونوں میں پلاسٹک کے ذرات کو دریافت کیا۔

    50 فیصد نمونوں میں اس پلاسٹک کے ذرات تھے جس کا استعمال پانی کی بوتلوں کی تیاری کے لیے کیا جاتا ہے جبکہ ایک تہائی میں پولی اسٹرینی ذرات دریافت ہوئے۔

    یہ قسم فوڈ پیکنگ اور دیگر مصنوعات کے لیے استعمال ہوتی ہے، ایک چوتھائی کے خون کے نمونوں میں پولی تھیلین قسم کو دریافت کیا گیا جس سے پلاسٹک بیگ تیار کیے جاتے ہیں۔

    نیدر لینڈز کی وریجے یونیورسٹی کی تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ پہلی بار ہے جب انسانی خون میں پولیمر ذرات کو دریافت کیا گیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں تحقیق کو مزید بڑھانا ہوگا اور زیادہ نمونوں کی جانچ پڑتال کرنا ہوگی اور اس حوالے سے تحقیقی کام کیا جارہا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ یہ یقیناً تشویشناک ہے، یہ ذرات پورے جسم میں گردش کرسکتے ہیں۔ اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل انوائرمنٹل انٹرنیشنل میں شائع ہوئے۔

  • غذا کو خراب ہونے سے محفوظ رکھنے والا پلاسٹک تیار

    غذا کو خراب ہونے سے محفوظ رکھنے والا پلاسٹک تیار

    ماہرین نے ایسا پلاسٹک بنایا ہے جو طویل عرصے تک غذا کو جرثوموں سے بچا کر انہیں خراب ہونے سے محفوظ رکھتا ہے، یہ پلاسٹک آم کے پتوں سے بنایا گیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق اسپین اور پرتگال کے سائنسدانوں نے آم کے پتے استعمال کرتے ہوئے ایک ایسا پلاسٹک تیار کرلیا ہے جو غذا کو الٹرا وائلٹ شعاعوں اور جراثیم سے بچا کر لمبے عرصے تک محفوظ رکھتا ہے۔ یہ پلاسٹک 250 ڈگری سینٹی گریڈ جتنی گرمی بھی برداشت کرسکتا ہے۔

    آن لائن ریسرچ جرنل میں شائع شدہ رپورٹ کے مطابق اس منفرد پلاسٹک میں آم کے پتوں سے حاصل شدہ اجزا کے علاوہ، کاغذ کی تیاری سے بچ رہنے والے مادے بھی شامل ہیں جنہیں نینو سیلولوز کہا جاتا ہے۔

    ان دونوں اجزا کے ملاپ سے تیار ہونے والا پلاسٹک بائیو ایکٹو ہے یعنی زندگی سے متعلق کچھ مخصوص کیمیکل ری ایکشنز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

    جب کھانے پینے کی کسی چیز مثلاً پھل، سبزی، گوشت یا تیار کھانے کو اس پلاسٹک میں لپیٹا جاتا ہے تو اپنی ان ہی بائیو ایکٹو خصوصیات کی بدولت یہ غذا پر حملہ آور جرثوموں کو ناکارہ بنانے کے ساتھ ساتھ نقصان دہ الٹرا وائلٹ شعاعوں کو بھی اپنے اندر سے گزرنے نہیں دیتا۔

    ابتدائی تجربات میں اس پلاسٹک کو زہر خورانی (فوڈ پوائزننگ) کی وجہ بننے والے دو اہم جرثوموں سے غذائی تحفظ کے لیے کامیابی سے آزمایا جاچکا ہے۔

    اسے تیار کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پلاسٹک کے استعمال سے غذا کو طویل عرصے تک محفوظ رکھنے کے لیے کیمیائی مادوں کی ضرورت بھی نہیں رہے گی جو انسانی صحت پر منفی اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔

  • ختم ہوجانے والا پلاسٹک تیار

    ختم ہوجانے والا پلاسٹک تیار

    پلاسٹک ہماری زمین کو آلودہ کرنے والی سب سے بڑی وجہ ہے جس کا سبب اس کا تلف یا ضائع نہ ہونا ہے، اب ماہرین نے ایسی پلاسٹک تیار کرلی ہے جو چند روز میں گھل کر ختم ہوسکتی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق سائنسدانوں نے طویل تحقیق و تجربے کے بعد بالآخر ایسے پلاسٹک کی تیاری میں کامیابی حاصل کرلی ہے جو صرف گرمی اور پانی کی موجودگی میں چند ہفتوں کے دوران ختم ہو جاتا ہے۔

    سائنسدانوں کا تیار کردہ پلاسٹک اس لیے کامیاب قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ انہوں نے ناکارہ اور خراب ہوجانے والے پلاسٹک کے اندر ہی وہ جراثیم داخل کیے ہیں جو استعمال کے بعد اسے کھا کر ختم کردیتے ہیں۔

    سائنسدانوں کے مطابق دنیا میں اب تک استعمال ہونے والے روایتی پلاسٹک کے ساتھ مسئلہ یہ ہوتا تھا کہ اس میں موجود مضبوط ریشوں کے باعث باہر سے جراثیم حملہ کر کے ختم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے جس کی وجہ سے ایک دفعہ بننے والا پلاسٹک ہمیشہ کے لیے اپنی جگہ برقرار رہتا تھا اور ماحولیاتی آلودگی کا سب سے بڑا سبب بنتا تھا۔

    سائنسدانوں کے مطابق جس طرح دیگر چیزوں کو مٹی میں ملنے کے بعد جراثیم کھا کر ختم کردیتے ہیں بالکل اسی طرح تیار کیے جانے والے پلاسٹک کو صرف گرمی اور پانی کی موجودگی چند ہفتوں کے اندر ختم کردے گی۔

    اس ضمن میں کیے جانے والے تجربے میں یہ بات ثابت ہوئی کہ تیار کردہ پلاسٹک کا ٹکڑا 40 ڈگری سینٹی گریڈ پر پانی میں دو دن کے اندر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا۔

    ماہرین نے تیار کردہ پلاسٹک کے متعلق دعویٰ کیا ہے کہ اس پلاسٹک کو جرثومے بالکل اسی طرح سے کھا جائیں گے جس طرح وہ کھاد میں پائے جانے والے جرثوموں کو کھا کر ختم کردیتے ہیں۔

    سائنسدانوں کی ساری محنت کا واحد مقصد استعمال شدہ پلاسٹک سے پیدا ہونے والے مسئلے کا مستقل اور صاف ستھرا حل ہے تاکہ ماحولیاتی آلودگی پیدا نہ ہو۔

    فی زمانہ استعمال ہونے والا پلاسٹک عام استعمال کے لیے اچھا ہے اور ان کو اس طرح تیار کیا جاتا ہے کہ وہ ٹوٹ نہ جائیں لیکن بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بعد از استعمال انہیں محفوظ طریقے سے ضائع کرنا ایک بہت بڑ ا مسئلہ ہوتا ہے جس نے پوری دنیا کو متاثر کیا ہوا ہے۔

    ماہرین نے اسی مسئلے کا حل یہ نکالا ہے کہ انہوں نے پلاسٹک کی تیاری کے دوران ہی جرثوموں کو اندر داخل کردیا ہے جبکہ روایتی طور پر تیار کیے جانے والے پلاسٹک میں ایسا ممکن نہیں تھا اور باہر سے جرثوموں کا اندر داخل ہونا بھی ممکن نہیں تھا۔

  • ‘پلاسٹک’ کی برف باری…….دیکھنے والے حیران!

    ‘پلاسٹک’ کی برف باری…….دیکھنے والے حیران!

    ماسکو: روس کے برفانی خطے سائبیریا میں ہونے والی برفباری نے ماہرین کو پہلے حیران اور پھر پریشان کردیا، ماہرین نے برف میں پلاسٹک کے ننھے ذرات دریافت کیے۔

    روسی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ سائبیریا میں ہونے والی برفباری پلاسٹک کے ذرات سے آلودہ ہے، ذرات برف کے ساتھ زمین پر گرے اور برف پگھلنے کے بعد زمین پر پھیل گئے۔

    ٹمسک اسٹیٹ یونیورسٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ انہوں نے سائبیریا کے 20 مختلف علاقوں سے برف کے نمونے لیے اور ان نمونوں کے جائزے و تحقیق کے بعد تصدیق ہوئی کہ ہوا میں موجود پلاسٹک کے ذرات برف میں شامل ہو کر زمین پر گرے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ پلاسٹک صرف دریاؤں اور سمندروں میں ہی نہیں بلکہ مٹی حتیٰ کہ فضا میں بھی پھیل چکا ہے۔

    مائیکرو پلاسٹک دراصل پلاسٹک کے نہایت ننھے منے ذرات ہوتے ہیں۔ یہ پلاسٹک کی مختلف اشیا ٹوٹنے کے بعد وجود میں آتے ہیں اور مزید چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ کر نینو ذرات میں بھی تبدیل ہوجاتے ہیں۔

    چونکہ پلاسٹک کا تلف ہونا یا زمین میں گھل جانا ناممکن ہے اور ان ذرات کو دیکھ پانا مشکل بھی ہے تو یہ ہر شے میں شامل ہو کر ہماری صحت اور ماحول کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

    'پلاسٹک' کی برف باری.......دیکھنے والے حیران!

    یہ ہر قسم کے فلٹر پلانٹ سے باآسانی گزر جاتے ہیں اور جھیلوں، دریاؤں اور مٹی میں شامل ہوجاتے ہیں۔

    زراعتی مٹی میں شامل پلاسٹک ہمارے کھانے پینے کی اشیا بشمول سبزیوں اور پھلوں میں شامل ہوجاتا ہے جبکہ سمندروں میں جانے والا پلاسٹک مچھلیوں اور دیگر آبی حیات کی خوراک بن جاتا ہے۔

    بعد ازاں جب یہ مچھلیاں پک کر ہماری پلیٹ تک پہنچتی ہیں تو ان میں پلاسٹک کے بے شمار اجزا موجود ہوتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے دریا اور سمندر پلاسٹک سے اٹ چکے ہیں اور سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں آبی حیات اور مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگا۔

    سائبیریا میں پلاسٹک سے اٹی برفباری پر مزید تحقیق کا کام کیا جارہا ہے اور اس کے عوامل اور ممکنہ اثرات کا جائزہ لیا جارہا ہے۔

  • پلاسٹک کے برتن میں کھانا کھانے کے خطرناک نقصانات

    پلاسٹک کے برتن میں کھانا کھانے کے خطرناک نقصانات

    کراچی: پلاسٹک کرہ ارض کے لیے خطرناک ترین شے ہے اور اس کے برتن انسانی جسم کے لیے سخت نقصان دہ ہیں، پلاسٹک کے برتنوں میں کھانا کھانے مطلب ہے کہ پلاسٹک کے ذرات کھانے میں شامل ہوجاتے ہیں جو ہمارے جسم میں پہنچ جاتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کنزیومر سولیڈیرٹی سسٹم کے صدر محسن بھٹی نے اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں شرکت کی اور پلاسٹک کے برتنوں کی تباہ کاریوں میں بتایا۔

    محسن بھٹی کا کہنا تھا کہ اسپتال کا فضلہ جو انسانی صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہے، ری سائیکل کیا جاتا ہے اور یہ انتہائی خوفناک بات ہے۔ اسپتال میں استعمال ہونے والی ڈرپس، یورین بیگز، بلڈ بیگز اور دیگر سامان جسے جلا کر راکھ کردینا چاہیئے دوبارہ استعمال کے قابل بنائے جاتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ یہی صورتحال فصلوں میں استعمال ہونے والی کیڑے مار ادویات کی بوتلوں کے ساتھ بھی ہے۔

    محسن بھٹی کے مطابق پلاسٹک کے برتنوں کا استعمال نہایت خطرناک ہے کیونکہ ہمیں نہیں علم کہ وہ کس پلاسٹک سے بنایا گیا ہے۔ ان برتنوں کو چیک کرنے کے لیے نہ تو کوئی ادارہ ہے، نہ ہی ان کے بنانے کے لیے کوئی اسٹینڈرڈز مقرر کیے گئے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ہمارے گھروں میں پلاسٹک کی بوتلوں، ڈبوں اور کنٹینرز کا استعمال عام بات ہے۔ ان برتنوں میں نہ صرف گرم کھانا ڈالا جاتا ہے بلکہ اسے مائیکرو ویو اوون میں بھی گرم کیا جاتا ہے۔

    گرم کرنے سے پلاسٹک کے اجزا کھانے میں شامل ہوجاتے ہیں جو ہمارے جسم میں چلے جاتے ہیں۔ یہ ایک قسم کی سلو پوائزننگ ہے جو کینسر سمیت دیگر بیماریوں کی شکل میں اپنا اثر دکھا سکتی ہے۔

    دوسری جانب عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ ہر بالغ شخص سالانہ پلاسٹک کے 50 ہزار ذرات نگل رہا ہے، پلاسٹک کرہ ارض کو کچرے کے ڈھیر میں بدلنے کے بعد اب ہمارے جسم تک راستہ بھی بنا چکا ہے۔

  • 1 ارب روپے مالیت کے اس پرس کی خاص بات کیا ہے؟

    1 ارب روپے مالیت کے اس پرس کی خاص بات کیا ہے؟

    اٹلی کے ایک برینڈ نے دنیا کے مہنگے ترین ہینڈ بیگ کی رونمائی کردی، اس ہینڈ بیگ کی قیمت 60 لاکھ یوروز یعنی 1 ارب پاکستانی روپے سے زائد ہے۔

    اطالوی برینڈ بورینی میلانیز نے دنیا کے مہنگے ترین پرس کی رونمائی کی ہے، قیمتی ہیرے جواہرات جڑے یہ ہینڈ بیگز صرف 3 بنائے گئے ہیں اور ہر بیگ کی تیاری میں 1 ہزار گھنٹے صرف ہوئے ہیں۔

    اس بیش قیمت ہینڈ بیگ کو بنانے کا ایک مقصد ہے، سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر اس بیگ کی ویڈیو جاری کرتے ہوئے بورینی میلانیز نے لکھا کہ یہ دنیا کا مہنگا ترین بیگ ہے اور اسے بنانے کا مقصد سمندروں کی حفاظت کی طرف توجہ دلانا ہے جو پلاسٹک کے کچرے کی وجہ سے سخت خطرات کا شکار ہیں۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by BOARINI MILANESI (@boarinimilanesi)

    میلانیز کی جانب سے لکھا گیا کہ ان بیگز کی آمدنی کا ایک حصہ سمندروں کی صفائی کے لیے عطیہ کیا جائے گا۔

    یہ بیش قیمت پرس مگر مچھ کی کھال سے بنایا گیا ہے اور اس کا رنگ سمندر سے ملتا جلتا چمکدار نیلگوں ہے، اس پر موجود تتلیاں وائٹ گولڈ سے بنائی گئی ہیں جبکہ اس کا کلپ ہیرے سے بنایا گیا ہے۔

    تتلیوں کے اندر بھی ہیرے اور قیمتی نیلم جڑے ہیں۔

    بیگ کی ڈیزائنر کیرولینا بورینی کہتی ہیں کہ اس کا سبز، نیلا اور سفید رنگ ان سمندروں کی طرف اشارہ ہے جو آلودگی سے قبل صاف شفاف تھے۔

    اس مہنگے ترین پرس کی قیمت 60 لاکھ یوروز یعنی پاکستانی 1 ارب 14 کروڑ 45 لاکھ 71 ہزار 962 روپے ہے۔

    یاد رہے کہ ہمارے سمندر اس وقت پلاسٹک کے کچرے کا گڑھ بنتے جارہے ہیں، نیدر لینڈز کے ماحولیاتی ادارے گرین پیس کے مطابق دنیا بھر میں 26 کروڑ ٹن پلاسٹک پیدا کیا جاتا ہے جس میں سے 10 فیصد ہمارے سمندروں میں چلا جاتا ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں مچھلیوں اور دیگر آبی حیات سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگی۔

  • ماسک کو پھینکنے سے قبل اس کی ڈوریاں کاٹ دینا کسی معصوم کی جان بچا سکتا ہے!

    ماسک کو پھینکنے سے قبل اس کی ڈوریاں کاٹ دینا کسی معصوم کی جان بچا سکتا ہے!

    لندن: تحفظ ماحول کے عالمی اداروں نے کہا ہے کہ ہمارے روزمرہ کے استعمال کے بعد پھینکے جانے والے ماسک زمین میں گلنے کے لیے 450 سال کا عرصہ لے سکتے ہیں، علاوہ ازیں ماسک کی ڈوریاں جانوروں کی تکلیف اور ہلاکت کا سبب بھی بن رہی ہیں۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق انوائرمینٹل سائنس اینڈ ٹیکنالوجی جرنل میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس کی وبا کے باعث دنیا بھر میں ہر مہینے 19 کروڑ 40 لاکھ ڈسپوزیبل ماسک استعمال کیے جا رہے ہیں۔

    تحقیق کے مطابق سنگل یوز (ایک دفعہ استعمال کیا جانے والا) ماسک پولی پروپلین اور وینل ون جیسی پلاسٹک سے بنا ہوتا ہے جسے تحلیل ہونے کے لیے 450 سال کا عرصہ درکار ہے۔

    اس وقت کے دوران فیس ماسک مائیکرو پلاسٹکس میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور سمندری حیات انہیں نگل لیتی ہے۔

    میرین کنزرویٹو چیریٹی کا کہنا ہے کہ استعمال شدہ فیس ماسکس اور پلاسٹک ایک تباہ کن دھماکے کی صورت میں ساحل سمندر اور دریاؤں میں پھیل رہے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق جب سے لاک ڈاؤن کا آغاز ہوا ہے تب سے پلاسٹک کے کچرے کی ایک نئی لہر کا مشاہدہ کیا جارہا ہے جو ہمارے ساحلوں پر ڈسپوزیبل ماسکس اور دستانوں کی صورت میں موجود ہے۔

    ان کے مطابق پی پی ای (پرسنل پروٹیکٹو ایکوپمنٹ ۔ حفاظتی لباس) نے انسانی زندگیاں بچانے میں مدد دی ہے تاہم اب اس کے درست انداز میں ٹھکانے لگانے کا بھی سوچنا ہوگا تاکہ یہ ہمارے دریاؤں اور سمندروں میں بہتے ہوئے انہیں برباد نہ کر سکے۔

    اس حوالے سے ماحولیاتی تحفظ کے ایک ادارے نے وارننگ دی ہے کہ اگر سنگل یوز پلاسٹک کا استعمال موجودہ شرح سے جاری رہا تو بحیرہ روم میں جیلی فش کے مقابلے میں جلد ہی ماسکس کی تعداد زیادہ ہو جائے گی۔

    دوسری جانب رواں برس ستمبر میں برطانیہ کی تحفظ جنگلی حیات کی تنظیم آر ایس پی سی اے نے عوام سے اپیل کی تھی کہ وہ ڈسپوزیبل ماسکس کی ڈوری کو کاٹ کر پھینکیں۔ یہ اپیل جانوروں کے ان ڈوریوں میں پھنسنے کی اطلاعات میں اضافے کے بعد سامنے آئی تھی۔

    ادارے کے چیف ایگزیکٹو کا کہنا تھا کہ ہمارے اہلکاروں نے فیس ماسک میں الجھے بہت سے جانوروں کو بچایا ہے اور ہم سمجھتے ہیں آنے والے وقت میں یہ واقعات زیادہ ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا سب سے آسان چیز یہ ہے کہ ان ماسکس کو پھینکنے سے پہلے ان کی ڈوریاں کاٹ دی جائیں۔

  • سمندروں کی صفائی کرنے والا منفرد آلہ تیار

    سمندروں کی صفائی کرنے والا منفرد آلہ تیار

    آٹو موبائل کمپنی سوزوکی نے سمندری آلودگی میں کمی کے لیے ایک ایسا آلہ تیار کیا ہے جو سمندر سے پلاسٹک کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے صاف کرسکے گا۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق جاپان کی سوزوکی موٹرز نے اعلان کیا ہے کہ اس نے ایک آلہ تیار کیا ہے جو کشتیوں کے باہر نصب موٹر کو مائیکرو پلاسٹک جمع کرنے کے قابل بناتا ہے۔

    مائیکرو پلاسٹک، پلاسٹک کے ننھے ننھے ٹکڑے ہوتے ہیں، چونکہ یہ بہت چھوٹے ہوتے ہیں لہٰذا یہ ہر قسم کے فلٹر پلانٹ سے باآسانی گزر جاتے ہیں اور جھیلوں اور دریاؤں میں شامل ہو جاتے ہیں جہاں سے یہ سمندری حیات کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں۔

    سوزوکی کمپنی پلاسٹک کے کوڑے سے ہونے والی آبی آلودگی کے مسئلے کے حل کے لیے کئی سال سے تحقیق کر رہی تھی۔

    موٹر گاڑیاں بنانے والی اس کمپنی کے مطابق اس نے کشتیوں اور بحری جہازوں کے باہر لگی ہوئی ان موٹروں پر توجہ مرکوز کی جو انجن کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے ٹنوں کے حساب سے پانی پمپ کرتی ہیں۔

    سوزوکی کا بنایا جانے والا یہ نیا آلہ ان پمپس سے خارج ہونے والے پانی کو فلٹر کرے گا اور پانی میں موجود کچرے کو جمع کرے گا۔ کمپنی کے مطابق، محض کشتی چلانے سے ارد گرد پانی کی سطح پر موجود مائیکرو پلاسٹک جمع کیا جا سکے گا۔

    منگل کے روز سوزوکی کے عملے نے شزواوکا پریفیکچر میں واقع جھیل ہامانا میں نئے آلے کی آزمائش کی۔ آلے نے مائیکرو پلاسٹک باور کیے جانے والے اجزا کے علاوہ کائی اور ریت بھی جمع کی۔

    سوزوکی کمپنی، اس نئے آلے کو اگلے سال کے اندر اندر فروخت کے لیے پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

  • مختلف شہروں میں ممنوعہ پلاسٹک بیگز کے خلاف کریک ڈاؤن

    مختلف شہروں میں ممنوعہ پلاسٹک بیگز کے خلاف کریک ڈاؤن

    کراچی: ایجنسی برائے تحفظ ماحولیات سندھ (ایس ای پی اے ۔ سیپا) نے صوبے کے مختلف شہروں میں ممنوعہ پلاسٹک بیگز کے خلاف کریک ڈاؤن کے دوران ممنوعہ پلاسٹک بیگز ضبط کرلیے۔

    تفصیلات کے مطابق مشیر ماحولیات اور ترجمان سندھ حکومت مرتضیٰ وہاب کی ہدایات پر ایجنسی برائے تحفظ ماحولیات سندھ (ایس ای پی اے ۔ سیپا) نے صوبے کے مختلف شہروں میں ممنوعہ پلاسٹک بیگز کے خلاف کریک ڈاؤن کیا۔

    سیپا کی کراچی، حیدر آباد اور لاڑکانہ کی ٹیموں نے اپنے علاقوں کی مارکیٹس میں چھاپے مارے۔ کراچی کے جوڑیا بازار، لاڑکانہ کے مرکزی بازار اور حیدر آباد کی ٹاور مارکیٹ میں سیپا کی ٹیموں نے ممنوعہ پلاسٹک بیگز ضبط کرلیے۔

    کارروائی مقامی پولیس کی مدد سے سیپا کے ضلعی انچارجز کی سربراہی میں کی گئی۔

    اس سے قبل تھر پارکر اور ٹنڈو الہیار میں بھی ممنوعہ پلاسٹک بیگز کی خرید و فروخت کے خلاف کارروائی کی جاچکی ہے۔

    مرتضیٰ وہاب نے ہدایت کی ہے کہ ممنوعہ پلاسٹک بیگز کے خاتمے تک صوبے بھر میں سیپا کی ٹیمیں اپنی کارروائیاں جاری رکھیں۔

    خیال رہے کہ پلاسٹک کے، آلودگی اور کچرے میں اضافے کی وجہ بننے کے سبب صوبے میں سنگل یوز (ایک بار استعمال کیے جانے والے) پلاسٹک پر پابندی عائد ہے۔

    صوبہ سندھ کے علاوہ دیگر صوبوں میں بھی پلاسٹک کے استعمال پر پابندی عائد کی جاچکی ہے، تاہم تاحال پلاسٹک کے متبادل استعمال کے حوالے سے کوئی حکمت عملی پیش نہیں کی گئی۔

    عوام کی قلیل تعداد کپڑے کے بنے تھیلے استعمال کر رہی ہے لیکن اکثریت پلاسٹک کے نقصانات اور اس کی جگہ پائیدار اشیا کے استعمال کے حوالے سے شعور سے محروم ہے۔