Tag: پلاسٹک

  • پاکستانی طالبہ نے ماحول دوست پلاسٹک تیار کرلیا

    پاکستانی طالبہ نے ماحول دوست پلاسٹک تیار کرلیا

    پلاسٹک کرہ زمین کو گندگی کے ڈھیر میں تبدیل کرنے والی سب سے بڑی وجہ ہے کیونکہ پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے ہزاروں سال درکار ہیں۔

    یہی وجہ ہے کہ پلاسٹک بڑے پیمانے پر استعمال کے باعث زمین پر اسی حالت میں رہ کر زمین کو گندگی وغلاظت کا ڈھیر بنا چکا ہے۔ دنیا بھر میں جہاں پلاسٹک کا استعمال کم سے کم کرنے پر زور دیا جارہا ہے وہیں پلاسٹک کی متبادل پیکجنگ اشیا بنانے پر بھی کام جاری ہے۔

    ایسی ہی ایک کوشش ایک پاکستانی طالبہ نے بھی کی ہے۔ ڈاکٹر انجم فیروز نامی طالبہ جامعہ کراچی سے فوڈ سائنسز اور ٹیکنالوجی میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ انہوں نے ایسا پلاسٹک تیار کیا ہے جس کی تیاری میں آم کی گٹھلی استعمال ہوئی ہے۔

    آم کی گٹھلی سے تیار ہونے کے بعد یہ پلاسٹک نہ صرف ماحول دوست بلکہ کھائے جانے کے قابل بھی بن گیا ہے، اگر اسے پھینک دیا جائے تو یہ آسانی سے چند لمحوں میں پانی میں حل ہوجائے گا یا چند دن میں زمین میں تلف ہوجائے گا۔

    ڈاکٹر انجم کا خیال ہے کہ چونکہ پاکستان آم کی پیداوار کرنے والا دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے لہٰذا اس پلاسٹک کی تیاری نہایت آسانی سے قابل عمل ہے۔

    خوردنی یا ایڈیبل پلاسٹک کا آئیڈیا نیا نہیں ہے، دنیا بھر میں اس آئیڈیے کے تحت مختلف اشیا سے پلاسٹک کا متبادل تیار کیا جارہا ہے۔

    اس سے قبل امریکن کیمیکل سوسائٹی کے ماہرین نے دودھ کے پروٹین سے پلاسٹک کا متبادل تیار کیا تھا۔ یہ متبادل آکسیجن کو جذب نہیں کرسکتا لہٰذا اس کے اندر لپٹی چیز خراب ہونے کا کوئی خدشہ نہیں۔

    اس پیکنگ کے اندر کافی یا سوپ کو پیک کیا جاسکتا ہے۔ استعمال کرتے ہوئے اسے کھولے بغیر گرم پانی میں ڈالا جاسکتا ہے جہاں یہ پیکنگ بھی پانی میں حل ہوجائے گی۔

    پاکستان میں پہلی بار مقامی طور پر خوردنی پلاسٹک تیار کیا گیا ہے اور اسے نہایت آسانی سے بڑے پیمانے پر تیار کر کے ماحول اور صحت کے لیے نقصان دہ پلاسٹک سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔

  • یہ دردناک ویڈیو دیکھ کر آپ کو اپنے انسان ہونے پر شرم آئے گی

    یہ دردناک ویڈیو دیکھ کر آپ کو اپنے انسان ہونے پر شرم آئے گی

    ہم انسانوں نے اس زمین پر اس طرح ترقی کی ہے کہ ہم دوسرے جانداروں کی موجودگی بھی بھلا بیٹھے ہیں۔ زمین کے وسائل کا بے دریغ استعمال اور چیزوں کو ایک بار استعمال کر کے بے دردی سے پھینک دینا ہماری عادت بن چکا ہے۔

    اس معمول میں ہم یہ بھول گئے ہیں کہ ہماری یہ عادتیں اس زمین پر بسنے والے دیگر جانداروں کو بے تحاشہ نقصان پہنچا رہی ہیں۔ ہمارے پھینکے گئے کچرے نے جانوروں اور پرندوں کو موت کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔

    سب سے زیادہ بے رحمانہ رویہ ہمارا پلاسٹک کی طرف ہے جسے ہم ایک بار استعال کر کے پھینک دیتے ہیں۔ پلاسٹک ہزاروں سال تک یونہی زمین پر رہنے والی چیز ہے اور اس کے بے تحاشہ استعمال کی وجہ سے زمین اب ایک پلاسٹک کا کچرا گھر معلوم ہوتی ہے۔

    یہ پلاسٹک جانوروں اور پرندوں کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہو رہے ہیں۔ اکثر سمندری و زمینی جانور اور پرندے انہیں کھانے کی اشیا سمجھ کر کھا لیتے ہیں جس کے بعد یہ اشیا ان کے جسم کے اندر پھنس جاتی ہیں۔

    اس کے بعد یہ زہریلا پلاسٹک آہستہ آہستہ اس جاندار کو اس طرح موت کے گھاٹ اتارتا ہے کہ وہ بھوک سے مرتے ہیں تاہم ان کا پیٹ پلاسٹک سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔

    زیر نظرویڈیو بھی ایک ایسی ہی ننھی سی معصوم چڑیا کی ہے جسے جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے کچھ افراد نے بغور دیکھا۔ یہ چڑیا بے چینی کا شکار تھی جبکہ کچھ کھا بھی نہیں پا رہی تھی۔

    جب اس ننھی چڑیا کے جسم کا ایکسرے کیا گیا تو پتہ چلا کہ اس کے اندر پلاسٹک کی بے شمار اشیا موجود تھیں۔ اس کے بعد اس چڑیا کے جسم میں نلکی ڈال کر ابکائی کے ذریعے وہ اشیا باہر نکالی گئیں۔

    زیر نظر ویڈیو اسی پروسس کی ہے جو اتنی دردناک اور تکلیف دہ ہے جسے دیکھ کر ہر حساس شخص یہ سوچنے پر مجبور ہوجائے گا کہ ہمای خود غرضی نے ان معصوم بے زبانوں کو کس حال میں پہنچا دیا۔

  • کچرے سے بنے ہوئے آلات موسیقی

    کچرے سے بنے ہوئے آلات موسیقی

    پلاسٹک کرہ زمین کو گندگی کے ڈھیر میں تبدیل کرنے والی سب سے بڑی وجہ ہے کیونکہ پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے ہزاروں سال درکار ہیں۔

    یہی وجہ ہے کہ پلاسٹک بڑے پیمانے پر استعمال کے باعث زمین پر اسی حالت میں رہ کر زمین کو گندگی وغلاظت کا ڈھیر بنا چکا ہے۔ دنیا بھر میں جہاں پلاسٹک کا استعمال کم سے کم کرنے پر زور دیا جارہا ہے وہیں استعمال شدہ پلاسٹک کے کسی نہ کسی طرح دوبارہ استعمال کے بھی نئے نئے طریقے دریافت کیے جارہے ہیں۔

    ایک مصری فنکار نے بھی ایسا ہی ایک طریقہ نکالا ہے۔

    مصر سے تعلق رکھنے والا فنکار شیدی رباب کچرے سے آلات موسیقی بناتا ہے۔ رباب ایک موسیقار ہے جبکہ وہ آلات موسیقی بھی بناتا ہے۔

    وہ کچرے سے مختلف پلاسٹک و شیشے کی بوتلوں کو اکٹھا کر کے ان سے ڈرمز، گٹار اور بانسریاں بناتا ہے۔

    رباب کا کہنا ہے کہ اس طرح سے وہ لوگوں کی توجہ مصر میں بڑھتی ہوئی آلودگی اور کچرے کے ڈھیروں کی طرف دلانا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ لوگ اس بات کو سمجھیں کہ دریاؤں اور سمندروں میں کچرا پھینکنا کس قدر نقصان دہ ہے۔

    دریائے نیل کے مغربی کنارے پر رباب کی سازوں کی دکان موجود ہے جہاں ہر وقت موسیقی کے شیدائیوں کا ہجوم رہتا ہے۔

    رباب ان آلات کو موسیقی سیکھنے والے بچوں میں مفت تقسیم کرتا ہے اور جو بچے موسیقی سیکھنا چاہتے ہیں انہیں سکھاتا بھی ہے۔ اسے اقوام متحدہ سے ینگ چیمپئن آف دا ارتھ پرائز بھی مل چکا ہے۔

    رباب کا عزم ہے کہ وہ اپنے ملک میں پھیلی آلودگی کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے اس لیے نہ صرف وہ خود کچرے سے آلات موسیقی تیار کرتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی سکھاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس کے مشن کا حصہ بن سکیں۔

  • کراچی کے شہریوں کا فی ہفتہ 5 گرام پلاسٹک کھانے کا انکشاف

    کراچی کے شہریوں کا فی ہفتہ 5 گرام پلاسٹک کھانے کا انکشاف

    کراچی: ایک حالیہ تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ شہرِ قائد کے شہری ایک ہفتے میں 5 گرام پلاسٹک کھاتے ہیں، غذا میں شامل پلاسٹک کے ذرات انسانی زندگی کے لیے جان لیوا بننے لگے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ڈبلیو ڈبلیو ایف انٹرنیشنل نے پلاسٹک پلوشن کی تازہ تحقیق جاری کر دی ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پلاسٹک کے ذرات انسانی زندگی کے لیے جان لیوا ثابت ہو رہے ہیں۔

    یہ رپورٹ یونی ورسٹی آف نیو کاسل آسٹریلیا کے طلبہ نے عالمی ماحولیات پر تیار کی ہے، رپورٹ کے مطابق کراچی میں پلاسٹک کے بڑھتے ذرات شہریوں کی خوراک کا حصہ بننے لگے ہیں۔

    پلاسٹک کی وجہ سے کراچی کے شہریوں کا غذائی نظام بھی متاثر ہوا ہے، تحقیق کے مطابق ایک ہفتے میں 5 گرام پلاسٹک عام آدمی کی غذا کا حصہ بن رہی ہے، پلاسٹک کی آلودگی سے ہوا، پانی اور مٹی کی کوالٹی بہت متاثر ہے، پلاسٹک کی مقدار مہینے کے اوسطاً 21 گرام اور سال کے 250 گرام کے برابر ہے۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کا کہنا ہے کہ کلفٹن کے ساحل پر ایک گرام مٹی میں 300 پیس مائیکرو پلاسٹک رپورٹ ہوئے ہیں، تنظیم کے ٹیکنیکل ایڈوائزر معظم خان نے بتایا کہ مائیکرو پلاسٹک سے آبی جانور اور ماحول متاثر ہو رہا ہے۔

    معظم خان نے مزید بتایا کہ ڈبلیو ڈبلیو ایف اس سلسلے میں پاکستان کے 10 شہروں میں آگاہی پروگرام ترتیب دے رہا ہے۔

  • فیس کی جگہ پلاسٹک کی اشیا طلب کرنے والا اسکول

    فیس کی جگہ پلاسٹک کی اشیا طلب کرنے والا اسکول

    ہماری زمین کو آلودہ کرنے والی سب سے بڑی وجہ پلاسٹک اس وقت دنیا بھر کے ماہرین کے لیے درد سر بن چکا ہے، اس پلاسٹک کے کچرے کو ختم کرنے کے لیے دنیا بھر میں مختلف کوششیں کی جارہی ہیں۔

    ایسی ہی کوشش بھارت کا ایک اسکول بھی کر رہا ہے جو بچوں کو تعلیم دینے کے عوض ان سے فیس کے بجائے استعمال شدہ پلاسٹک وصول کر رہا ہے۔

    بھارتی ریاست آسام کا یہ گاؤں غریب افراد پر مشتمل ہے اور یہاں کے لوگ اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ جب یہاں پر یہ اسکول کھولا گیا تو صرف 20 بچوں کا داخلہ ہوا۔

    صورتحال کو دیکھتے ہوئے اسکول نے تمام بچوں کے لیے تعلیم مفت کردی تاہم شرط رکھ دی گئی کہ ہر بچہ ہر ہفتے کم از کم 25 پلاسٹک کی اشیا اسکول میں جمع کروائے گا۔

    یہ پلاسٹک شہر میں ری سائیکلنگ فیکٹریوں کو دے دیا جاتا ہے جو اس سے نئی اشیا بنا لیتی ہیں۔

    ریاست آسام میں لوگ موسم سرما میں آگ جلانے کے لیے پلاسٹک کا استعمال کرتے ہیں جس سے نہایت زہریلے دھوئیں کا اخراج ہوتا ہے۔ اس اسکول کی پلاسٹک وصول کرنے کی پالیسی سے اب اس رجحان میں کمی آرہی ہے جبکہ گلی کوچوں کی بھی صفائی کی جارہی ہے۔

    ایک اندازے کے مطابق بھارت میں روزانہ 26 ہزار ٹن پلاسٹک پیدا کیا جارہا ہے جو استعمال کے بعد پھینک دیا جاتا ہے اور یوں بھارت میں کچرے اور آلودگی میں اضافہ ہورہا ہے۔

    تاہم بھارت اب سلسلے میں اقدامات کر رہا ہے اس کا عزم ہے کہ سنہ 2022 تک سنگل استعمال پلاسٹک کو ختم کردیا جائے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے دریا اور سمندر پلاسٹک سے اٹ چکے ہیں اور سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں آبی حیات اور مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگا۔

    نیدر لینڈز کے ماحولیاتی ادارے گرین پیس کے مطابق دنیا بھر میں 26 کروڑ ٹن پلاسٹک پیدا کیا جاتا ہے جس میں سے 10 فیصد ہمارے سمندروں میں چلا جاتا ہے۔

  • ان نقصان دہ اشیا کو اپنے گھر سے نکال باہر کریں

    ان نقصان دہ اشیا کو اپنے گھر سے نکال باہر کریں

    بعض لوگ اپنے گھر کو بہت سے سامان سے بھر دیتے ہیں جس کا مقصد ضرورت کے وقت کسی شے کی دستیابی، گھر کو خوبصورت بنانا اور سہولت پیدا کرنا ہوتا ہے۔

    تاہم ان میں سے کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو نقصان دہ بن سکتی ہیں اور ماہرین ایسی اشیا کو گھر میں نہ رکھنے کی تجویز دیتے ہیں۔ آئیں جانتے ہیں ایسی کون سی اشیا ہیں جو آپ کے گھر میں موجود ہیں اور آپ کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔

    پلاسٹک کے ڈبے

    پلاسٹک کے ڈبے کچن اور فریج میں مختلف اشیا محفوظ کرنے کے لیے نہایت کارآمد ثابت ہوتے ہیں لیکن یہ ڈبے آپ کے قاتل بھی بن سکتے ہیں۔ اگر آپ کے گھر میں موجود پلاسٹک کے ڈبوں پر ’پی سی‘ لکھا ہے تو ایسے ڈبوں کو ایک لمحہ بھی سوچے بغیر کوڑے دان کی نذر کردیں۔

    پی سی کا مطلب ہے پولی کاربونیٹ، اس عنصر میں ایک زہریلا کیمیکل بسفینول اے (بی پی اے) شامل کیا جاتا ہے۔ یہ کیمیکل تنفس کے مسائل، امراض قلب، اور بلڈ پریشر کا سبب بن سکتا ہے۔

    پلاسٹک کے ان ڈبوں کی جگہ آپ شیشے کے ڈبے استعمال کر سکتے ہیں۔

    ایئر فریشنر

    گھر کو خوشبوؤں سے مہکا دینے والا ایئر فریشنر اپنے اندر بے شمار کیمیکلز رکھتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کی خوشبو طویل وقت تک موجود رہتی ہے۔ مستقل ایئر فریشنر کا استعمال آپ کی صحت کے لیے خطرات پیدا کر سکتا ہے۔

    خوشبو کے لیے پھولوں والے پودے گھر میں رکھے جاسکتے ہیں۔ گلاب و موتیا کے تازہ پھول بھی کمرے کو خوشبو سے مہکا دیتے ہیں۔

    پرانا ٹوتھ برش

    ٹوتھ برش کے استعمال کے عرصے کو کم رکھیں، ٹوتھ برش جراثیم ذخیرہ کرنے کی آئیڈیل جگہ ہے۔ ماہرین کے مطابق ہر 3 سے 4 ماہ بعد ٹوتھ برش تبدیل کر لینا چاہیئے چاہے وہ بہتر حالت میں ہی کیوں نہ موجود ہو۔

    ماہرین کے مطابق جب ہم بخار، نزلہ، زکام یا کسی اور بیماری کے دوران ٹوتھ برش استعمال کرتے ہیں تو بیماری کے جراثیم برش میں بھی جگہ بنا لیتے ہیں۔

    صحت مند ہونے کے بعد وہی ٹوتھ برش دوبارہ استعمال کرنا اس بیماری کو واپس بلانے کے مترادف ہے۔

    پرانے کپڑے

    پرانے اور غیر ضروری کپڑے جمع کیے رکھنا بے وقوفانہ عمل ہے۔ جن کپڑوں کی آپ کو ضروت نہ ہو انہیں کسی ضرورت مند کو دے دیں۔

    ماہرین کے مطابق ایسی الماری جس میں بے تحاشہ کپڑے ٹھنسے ہوں، ہر بار کھلنے پر آپ کو ذہنی تناؤ میں مبتلا کر دیتی ہے۔

    غیر ضروری کپڑے رکھنے سے آپ کا دماغ آپ کو یہ تاثر بھی دیتا ہے کہ آپ کے پاس بہت سے کپڑے موجود ہیں اور آپ کو خریداری کرنے کی ضرورت نہیں۔

    یہ دھوکہ اس وقت مشکل سے دو چار کر سکتا ہے جب آپ کو پتہ چلے کہ کسی اہم موقع کے لیے آپ کے پاس واقعی کوئی مناسب لباس موجود نہیں۔

    پلاسٹک کے کٹنگ بورڈ

    کٹنگ یا چوپنگ بورڈ سبزیاں کاٹنے کے عمل میں آسانی پیدا کرتا ہے تاہم اگر یہ پلاسٹک کا ہو تو آپ کی کٹی ہوئی سبزیوں کو جراثیموں سے بھر سکتا ہے۔

    ہر بار جب پلاسٹک کے کٹنگ بورڈ پر چھری سے خراش لگتی ہے تو اس میں جراثیموں کی رہائش کے لیے ایک نئی جگہ پیدا ہوجاتی ہے۔

    پلاسٹک کی جگہ لکڑی کے کٹنگ بورڈ استعمال کریں۔ لکڑی قدرتی طور پر اینٹی بائیوٹک خصوصیات رکھتی ہے لہٰذا اس پر کاٹی جانے والی سبزیوں سے آپ ایک صحت بخش کھانا تیار کرسکتے ہیں۔

  • پلاسٹک سمندروں کو آلودہ کررہا ہے، جی20 ممالک سمندری کچرا اٹھانے کیلئے رضامند

    پلاسٹک سمندروں کو آلودہ کررہا ہے، جی20 ممالک سمندری کچرا اٹھانے کیلئے رضامند

    ٹوکیو : سمندروں سے پلاسٹک کا کچرا کم کرنے کے لیے اقدامات ناگزیر ہیں جس کے لیے باقاعدہ اقدامات کیے جائیں، یہ اقدامات رضاکارانہ طور پر اٹھائے جائیں گے اور سالانہ بنیادوں پر ان اقدامات کا جائزہ لیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق دنیا کی 20 بڑی معیشتوں کے حامل ممالک کا گروپ ’جی 20‘اس بات پر رضامند ہوگیا ہے کہ سمندروں سے پلاسٹک کا کچرا کم کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں جو کہ سمندروں کو آلودہ کرنے کا سبب بن رہا ہے۔

    عالمی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ جاپان میں ہونے والے جی ٹوئنٹی کے ایک اجلاس میں ارکان ممالک اس بات پر راضی ہوگئے کہ سمندروں سے پلاسٹک کا کچرا کم کرنے کے لیے اقدامات ناگزیر ہیں جس کے لیے باقاعدہ اقدامات کیے جائیں اور اس ضمن میں ایک ڈیل سائن کی جائے۔

    معاہدے کے تحت جی ٹوئنٹی ممالک اس ضمن میں پابند ہوجائیں گے تاہم اس بات کی تفصیلات سامنے نہیں آئیں کہ سمندروں سے کچرا اٹھانے کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کیا جائے گا۔

    مقامی میڈیا کا کہنا تھا کہ یہ اقدامات رضاکارانہ طور پر اٹھائے جائیں گے اور سالانہ بنیادوں پر ان اقدامات کا جائزہ لیا جائے گا۔

    جاپانی اخبار کے مطابق جاپانی حکومت پرامید ہے کہ اس ضمن میں نومبر میں پہلا اجلاس منعقد ہوگا جس میں آئندہ کے لائحہ عمل اور موثر اقدامات پر بات کی جائے گی۔

    معاہدے کے تحت نہ صرف امیر اور بڑے ممالک کو اس دائرے میں لایا جائے گا بلکہ ترقی پذیرممالک کو بھی اس بعد کا پابند بنایا جائے گا کہ وہ سمندروں میں پلاسٹک نہ پھینکیں خواہ وہ ماہی گیری کے جال ہوں یا پھر پلاسٹک کی بوتلیں ہوں۔

    ٹھوس سائنسی شواہد سے یہ بات سامنے آگئی ہے کہ سمندروں میں گرایا جانے والا پلاسٹک وھیل سے لے کر کھچوﺅں تک کی غذا میں شامل ہوکر ان کی تیزرفتار ہلاکت کی وجہ بن رہے ۔

    دوسری جانب یہ پلاسٹک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر بہت تیزی سے خرد ذرات یا مائیکرو پلاسٹک میں ڈھل رہا ہے، اب یہ سمندری جانوروں اور سی فوڈ کے ذریعے دوبارہ ہمارے کھانے کی میز تک پہنچ رہا ہے۔

  • کیا آپ بھی ہر ہفتے ایک کریڈٹ کارڈ کھاتے ہیں؟

    کیا آپ بھی ہر ہفتے ایک کریڈٹ کارڈ کھاتے ہیں؟

    کیا آپ ہر ہفتے ایک کریڈٹ کارڈ تناول فرماتے ہیں؟ یہ سوال سننے میں تو عجیب سا لگتا ہے تاہم ماہرین نے حال ہی میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ہم میں سے ہر شخص مختلف غذائیں کھانے کے ساتھ ساتھ کریڈٹ کارڈ بھی کھا رہا ہے۔

    عالمی ادارہ ماحولیات ڈبلیو ڈبلیو ایف نے حال ہی میں ایک مہم شروع کی ہے جس میں انہوں نے لوگوں کو آگاہ کیا کہ ان کی غذا میں پلاسٹک کی اچھی خاصی مقدار موجود ہوتی ہے اور وہ تقریباً ہر ہفتے ایک کریڈٹ کارڈ جتنا پلاسٹک کھا رہے ہیں۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق اس وقت دنیا کا ہر انسان ہفتے میں 5 گرام پلاسٹک کھا رہا ہے اور یہ مقدار ایک کریڈٹ کارڈ جتنی ہے۔

    تحقیق کے مطابق ہر انسان سال میں کم از کم 1 لاکھ پلاسٹک کے چھوٹے ذرات (مائیکرو پلاسٹک) کھا رہا ہے جو اس کی غذا میں شامل ہوتے ہیں۔ یہ مقدار ماہانہ 21 گرام اور سالانہ 250 گرام بنتی ہے۔

    لیکن یہ پلاسٹک کہاں سے آرہا ہے؟

    تحقیق کے مطابق اس وقت ہماری زمین پر استعمال ہونے والے پلاسٹک میں سے 80 لاکھ ٹن پلاسٹک سمندروں میں جارہا ہے۔

    ان میں پلاسٹک کے نہایت ننھے منے ذرات بھی ہوتے ہیں جنہیں مائیکرو پلاسٹک کہا جاتا ہے۔ یہ مزید چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ کر نینو ذرات میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ چونکہ یہ بہت چھوٹے ہوتے ہیں لہٰذا یہ ہر قسم کے فلٹر پلانٹ سے باآسانی گزر جاتے ہیں اور جھیلوں، دریاؤں اور مٹی میں شامل ہوجاتے ہیں۔

    زراعتی مٹی میں شامل پلاسٹک ہمارے کھانے پینے کی اشیا بشمول سبزیوں اور پھلوں میں شامل ہوجاتا ہے جبکہ سمندروں میں جانے والا پلاسٹک مچھلیوں اور دیگر آبی حیات کی خوراک بن جاتا ہے۔

    بعد ازاں جب یہ مچھلیاں پک کر ہماری پلیٹ تک پہنچتی ہیں تو ان میں پلاسٹک کے بے شمار اجزا موجود ہوتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے دریا اور سمندر پلاسٹک سے اٹ چکے ہیں اور سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں آبی حیات اور مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگا۔

    نیدر لینڈز کے ماحولیاتی ادارے گرین پیس کے مطابق دنیا بھر میں 26 کروڑ ٹن پلاسٹک پیدا کیا جاتا ہے جس میں سے 10 فیصد ہمارے سمندروں میں چلا جاتا ہے۔

  • بحرین بھی پلاسٹک پر پابندی عائد کرنے والے ممالک میں شامل

    بحرین بھی پلاسٹک پر پابندی عائد کرنے والے ممالک میں شامل

    منامہ : بحرینی حکومت نے ملک بھر میں آئندہ ماہ سے پلاسٹک بیگز کے استعمال پر پابندی عائد کردی، خلاف ورزی کرنے والوں کو بھاری جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔

    گو کہ دنیا بھر کے دیگر ممالک میں بھی پلاسٹک کے استعمال کو روکنے کے لیے پابندیاں عائد کی گئی ہیں جس کے بعد آئندہ ماہ جولائی سے ملک بھر میں پلاسٹک بیگز کے استعمال پر پابندی ہوگی۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ بحرین پہلی ریاست ہے جس نے ماحولیاتی تحفظ کے لیے پلاسٹک بیگز کے استعمال پر ملک بھر میں پابندی عائد کردی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ پابندی کے تحت ملک میں پلاسٹک بیگ، پلاسٹک کے شاپرز و دیگر پلاسٹک مصنوعات کا استعمال ممنوع ہوگا۔

    وزارتی احکامات میں کہا گیا ہے کہ پہلے مرحلے میں ملک بھر میں درآمد کی جانے والی پلاسٹک پر پابندی عائد کی جائے گی جبکہ دوسرے مرحلے میں شاپنگ مالز اور سپر مارکیٹز میں سمیت ملک بھر میں پلاسٹک بیگز کا خاتمہ کردیا جائے گا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ متعلقہ حکام وزارت احکامات پر عمل درآمد کے لیے اپنی ذمہ داری انجام دے رہے ہیں۔

    بحرینی حکام کا کہنا تھا کہ پلاسٹک بیگز تیار اور درآمد کرنے والے اداروں کو پلاسٹک بیگز پر پابندی سے متعلق آگاہ کردیا گیا ہے۔

    بحرینی نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق بحرین بھی ان ممالک کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے کہ جنہوں نے اقوام متحدہ کی درخواست پر ماحولیات کی تبدیلی اور سمندر کو آلودگی سے بچانے کے لیے پلاسٹک کے استعمال پر پابندی کی ہے۔

  • باصلاحیت طالبات نے پلاسٹک سے ڈیزائنر لباس تیار کردیا

    باصلاحیت طالبات نے پلاسٹک سے ڈیزائنر لباس تیار کردیا

    ہماری زمین کو آلودہ کرنے والی سب سے بڑی وجہ پلاسٹک اس وقت دنیا بھر کے ماہرین کے لیے درد سر بن چکا ہے، اس پلاسٹک کے کچرے کو ختم کرنے کے لیے اس کے مختلف استعمالات متعارف کروائے جارہے ہیں اور ایسا ہی ایک اور استعمال سامنے آیا ہے۔

    سنگاپور کے کچھ طالب علموں نے پلاسٹک کو ملبوسات کی صورت میں پیش کیا ہے جسے دنیا بھر کی پذیرائی حاصل ہورہی ہے۔ جیسیکا اور ایوانا، صرف 2 طالبات پر مشتمل اس فیشن ڈیزائننگ ٹیم نے ماحول دوستی میں ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے فیشن میں ایک نئی جہت پیش کی اور پلاسٹک سے بنے ملبوسات متعارف کروائے ہیں۔

    یہ ملبوسات سنگاپور میں ہونے والی انوویٹ فار کلائمٹ کانفرنس میں پیش کیے گئے جہاں دنیا بھر کے ماہرین اور مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد نے اسے دیکھا اور ان طالبات کو سراہا۔ طالبات کو اس کانفرنس میں ان کی تخلیقات پر انعام سے بھی نوازا گیا۔

    جیسیکا اور ایوانا کو سنگاپور میں کام کرنے والی ایک کمپنی کی معاونت حاصل ہے۔ یہ کمپنی روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والی پلاسٹک کی بوتلوں کو جمع کر کے انہیں مختلف مراحل سے گزار کر کپڑے کی شکل میں بدل ڈالتی ہے۔ اس کپڑے کو تجارتی بنیادوں پر تو فروخت کیا ہی جاتا ہے، تاہم یہ کمپنی ان افراد کو یہ کپڑا مفت فراہم کرتی ہے جو استعمال شدہ پلاسٹک بوتلوں کی بڑی مقدار جمع کر کے انہیں دیں۔

    جیسیکا اور ایوانا نے بھی مختلف صفائی مہمات میں جمع ہونے والی پلاسٹک بوتلیں اس کپمنی کو فراہم کیں جس کے بعد انہیں پلاسٹک سے بنا ہوا کپڑا دیا گیا اور ان باصلاحیت طالبات نے اس سادے سے کپڑے پر اپنے ہنر کا جادو جگا کر اسے ڈیزائنر لباس میں تبدیل کرڈالا۔

    ان طالبات کا کہنا ہے کہ وہ فیشن میں رائج اس تصور کو بدلنا چاہتی ہیں کہ لباس صرف کاٹن یا مخمل سے ہی تیار کیا جاسکتا ہے۔

    وہ کہتی ہیں، ’پلاسٹک سے بنا ہوا لباس زمین سے ہماری محبت کا ثبوت ہے، اور خوبصورتی سے ڈیزائن کیے جانے کے بعد یہ لباس کسی بڑے ڈیزائنر کے تیار کردہ لباس سے کسی صورت کم نہیں اور اسے اہم سے اہم ترین موقع پر بھی پہنا جاسکتا ہے‘۔

    سنگاپور میں منعقد کی جانے والی اس نمائش میں پلاسٹک سے بنے صرف ملبوسات ہی نہیں اور بھی بے شمار اشیا پیش کی گئیں۔

    ایک اور کپمنی نے پلاسٹک بوتلوں کے ڈھکن سے بنے ہوئے ٹی میٹس، چشمے، تلف شدہ اسمارٹ فون اسکرین سے بنے گلاس اور سگریٹ بٹ سے بنی آرائشی اشیا بھی پیش کیں۔

    یاد رہے کہ پلاسٹک ایک تباہ کن عنصر اس لیے ہے کیونکہ دیگر اشیا کے برعکس یہ زمین میں تلف نہیں ہوسکتا۔ ایسا کوئی خورد بینی جاندار نہیں جو اسے کھا کر اسے زمین کا حصہ بناسکے۔

    ماہرین کے مطابق پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے 1 سے 2 ہزار سال کا عرصہ درکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا پھینکا جانے والا پلاسٹک کا کچرا طویل عرصے تک جوں کا توں رہتا ہے اور ہمارے شہروں کی گندگی اور کچرے میں اضافہ کرتا ہے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں