Tag: پلاسٹک

  • واش روم کو پلاسٹک سے محفوظ رکھنے والی ماحول دوست بوتلیں

    واش روم کو پلاسٹک سے محفوظ رکھنے والی ماحول دوست بوتلیں

    کاسمیٹکس اور باڈی کیئر کا زیادہ تر سامان پلاسٹک کی بوتلوں میں آتا ہے جو استعمال کے بعد پھینک دیا جاتا ہے اور کچرے میں اضافے کا سبب بنتا ہے، حال ہی میں ماحول دوست بوتلوں میں ایک باڈی کیئر لائن متعارف کروائی گئی ہے جسے بے حد پذیرائی حاصل ہورہی ہے۔

    امریکا کے شہر ڈیٹرائٹ میں نیچرل ویگن نامی کمپنی نے باڈی کیئر اشیا کے لیے کاغذ سے بنی ہوئی بوتلیں متعارف کروائی ہیں۔

    موٹے کاغذ سے بنی ہوئی یہ بوتلیں باآسانی زمین میں تلف ہوسکتی ہیں۔ کچھ بوتلیں کھاد بنانے میں بھی استعمال کی جاسکتی ہیں۔

    یہ بوتلیں گو کہ کاغذ سے بنی ہیں تاہم یہ پانی سے محفوظ رہ سکتی ہیں جبکہ 6 ماہ تک استعمال کے قابل ہیں۔ ان میں موجود اشیا ختم ہونے کے بعد بھی انہیں استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    اسے بنانے والی کمپنی کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد اس بزنس مائنڈ سیٹ کو بدلنا ہے جو پلاسٹک کے گرد گھومتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے دریا اور سمندر پلاسٹک سے اٹ چکے ہیں اور سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں آبی حیات اور مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگا۔

    نیدر لینڈز کے ماحولیاتی ادارے گرین پیس کے مطابق دنیا بھر میں 26 کروڑ ٹن پلاسٹک پیدا کیا جاتا ہے جس میں سے 10 فیصد ہمارے سمندروں میں چلا جاتا ہے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاریوں سے متعلق مزید مضامین پڑھیں

  • وزارت کلائمٹ چینج کا پلاسٹک کی تھیلیوں پر ٹیکس لگانے پر غور

    وزارت کلائمٹ چینج کا پلاسٹک کی تھیلیوں پر ٹیکس لگانے پر غور

    اسلام آباد: وزیر مملکت برائے موسمیاتی تغیر (کلائمٹ چینج) زرتاج گل کا کہنا ہے کہ وزارت کلائمٹ چینج نے پلاسٹک کی تھیلیوں پر ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس حوالے سے مختلف تجاویز پر غور کیا جارہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر مملکت زرتاج گل کا کہنا ہے کہ پلاسٹک کی تھیلیوں پر جلد ٹیکس عائد کردیا جائے گا اور اس سلسلے میں ایک تھیلی پر 1 سے 2 روپے کا ٹیکس زیر غور ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں صوبوں سے رابطہ کیا جارہا ہے اور مشاورت کے بعد ٹیکس کو ملک بھر میں لاگو کردیا جائے گا۔

    زرتاج گل کا کہنا تھا کہ پلاسٹک کی تھیلیاں نہ صرف انسانی صحت کے لیے مضر ہیں بلکہ زمینی و آبی حیات کے لیے بھی خطرناک ہیں، ہم اس سے چھٹکارہ پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ پلاسٹک کی تھیلیوں کی جگہ تلف ہوجانے والے (بائیو ڈی گریڈ ایبل) یا کاغذ کے تھیلوں کو فروغ دیا جائے گا۔

    خیال رہے کہ ملک میں پلاسٹک کی آلودگی کے مسئلے پر تشویش تو ظاہر کی جارہی ہے تاہم ابھی تک اس سے چھٹکارے کے لیے کوئی حتمی قانون نہیں بنایا جاسکا۔

    مختلف صوبوں میں پلاسٹک پر پابندی کی تجاویز پیش کی گئیں تاہم تاحال ان پر حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔

    ماہرین کے مطابق پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے 1 سے 2 ہزار سال کا عرصہ درکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا پھینکا جانے والا پلاسٹک کا کچرا طویل عرصے تک جوں کا توں رہتا ہے اور ہمارے شہروں کی گندگی اور کچرے میں اضافہ کرتا ہے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں

  • پلاسٹک کو بلامعاوضہ ری سائیکل کرنے والی کمپنی

    پلاسٹک کو بلامعاوضہ ری سائیکل کرنے والی کمپنی

    پلاسٹک کرہ زمین کو گندگی کے ڈھیر میں تبدیل کرنے والی سب سے بڑی وجہ ہے۔ پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے ہزاروں سال درکار ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پلاسٹک بڑے پیمانے پر استعمال کے باعث زمین کی سطح پر مستقل اسی حالت میں رہ کر اسے گندگی و غلاظت کے ڈھیر میں تبدیل کرچکا ہے۔

    دنیا بھر میں جہاں پلاسٹک کا استعمال کم سے کم کرنے پر زور دیا جارہا ہے وہیں استعمال شدہ پلاسٹک کے کسی نہ کسی طرح دوبارہ استعمال کے بھی نئے نئے طریقے دریافت کیے جارہے ہیں۔

    امریکا کی ایسی ہی ایک کمپنی ٹیرا سائیکل مفت میں ان اشیا کو ری سائیکل یا استعمال کے قابل بناتی ہے جو سخت ہوتی ہیں اور آرام سے ٹوٹ نہیں پاتیں۔ ان اشیا میں پرفیوم کی بوتلیں، استعمال شدہ سگریٹ، پین اور ٹوتھ برش سمیت دیگر اشیا شامل ہیں۔

    پلاسٹک کو ری سائیکل کرنے کے خواہشمند افراد اس کمپنی سے رابطہ کرتے ہیں جس کے بعد یہ کمپنی ان کے گھر پر جا کر استعمال شدہ پلاسٹک وصول کرتی ہے۔

    یہ کمپنی پلاسٹک کو توڑ کر ان اداروں اور افراد کو فراہم کرتی ہیں جو پلاسٹک کو ری سائیکل کرنے کا کام کرتے ہیں۔

    اب تک یہ کمپنی 21 ممالک سے 8 کروڑ افراد سے پلاسٹک جمع کر کے دنیا بھر کی کمپنیوں کو روانہ کر چکی ہے جہاں اس پلاسٹک کو دوبارہ استعمال کے قابل بنایا جارہا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے دریا اور سمندر پلاسٹک سے اٹ چکے ہیں اور سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں آبی حیات اور مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگا۔

    نیدر لینڈز کے ماحولیاتی ادارے گرین پیس کے مطابق دنیا بھر میں 26 کروڑ ٹن پلاسٹک پیدا کیا جاتا ہے جس میں سے 10 فیصد ہمارے سمندروں میں چلا جاتا ہے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاریوں سے متعلق مزید مضامین پڑھیں

  • پانی پینے کے لیے چینی سے بنی بوتلیں

    پانی پینے کے لیے چینی سے بنی بوتلیں

    دنیا بھر میں پانی پینے کے لیے پلاسٹک کی بوتلوں کا استعمال نہایت عام ہے، لیکن یہی پلاسٹک ہماری زمین کو کچرے کا گڑھ بنا رہا ہے۔ پلاسٹک کے نقصانات کو دیکھتے ہوئے اس کا متبادل لانے کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں۔

    ایسی ہی ایک کوشش کے تحت ماہرین ایسی بوتل تیار کرنے پر کام کر رہے ہیں جو چینی سے بنائی جارہی ہے۔

    ہمارے زیر استعمال پلاسٹک کی عام بوتلیں پولی کاربونیٹ سے بنائی جاتی ہیں۔ یہ پلاسٹک فون کے کیس، سی ڈی اور ڈی وی ڈی بنانے میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

    پولی کاربونیٹ کو خام تیل سے بنایا جاتا ہے جو ماحول کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔

    مزید پڑھیں: پینے کے ساتھ ساتھ ختم ہوجانے والی پانی کی بوتل

    سائنسدان اب ایسا پولی کاربونیٹ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جس کے بنانے میں چینی استعمال ہو۔

    اس سے قبل بھی چینی سے پلاسٹک بنانے کا تجربہ کیا گیا تھا لیکن اس کے لیے ایک زہریلا کیمیکل فوسیجین درکار تھا۔

    اب یہی کوشش ایک اور نئے طریقے سے کی جارہی ہے۔ نئے طریقہ کار کے تحت چینی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کو ملایا جارہا ہے۔

    استعمال کے بعد جب اسے پھینک دیا جائے گا تو یہ مٹی میں موجود بیکٹریا سے انزائم کو استعمال کر کے واپس اپنی اصل حالت میں آجائیں گے جس کے بعد باآسانی زمین میں تلف ہوجائیں گے۔

    یہ بوتلیں پائیدار اور ماحول دوست ہوں گی اور زمین کے کچرے میں بھی کمی کریں گی۔

  • ایسی پلیٹ جو کھانے کے ساتھ کھائی جاسکتی ہے

    ایسی پلیٹ جو کھانے کے ساتھ کھائی جاسکتی ہے

    دنیا بھر میں پلاسٹک کی آلودگی سے نمٹنے کے لیے طرح طرح کے اقدامات کیے جارہے ہیں، حال ہی میں پلاسٹک کی پلیٹوں کی جگہ ایسی پلیٹیں پیش کی گئی ہیں جو کھائی بھی جاسکتی ہیں۔

    پولینڈ کی بائیو ٹرم نامی کمپنی ایسے برتن بنا رہی ہے جو ایسے اجزا سے بنائے جاتے ہیں جنہیں کھایا بھی جاسکتا ہے جبکہ پھینک دینے کی صورت میں یہ بہت جلد زمین میں تلف ہوجاتے ہیں۔

    جو اور گندم کی بھوسی سے بنائے جانے والے ان برتنوں کو بہت پسند کیا جارہا ہے۔ انہیں روزمرہ زندگی میں تمام اقسام کے کھانے کھانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے جبکہ گرم کرنے کے لیے مائیکرو ویو میں بھی رکھا جاسکتا ہے۔

    چونکہ انہیں غذائی اشیا سے بنایا جاتا ہے لہٰذا انہیں کھایا بھی جاسکتا ہے جبکہ پھینک دینے کی صورت میں یہ 30 دن میں زمین کا حصہ بن جاتے ہیں۔

    پلاسٹک کے برتنوں کی طرح یہ کسی بھی قسم کی آلودگی اور کچرا پیدا نہیں کرتے۔

    ایک ٹن جو اور بھوسی سے 10 ہزار پلیٹیں اور پیالے تیار کیے جاسکتے ہیں، انہیں تیار کرنا بھی نہایت آسان ہے اور ایک پلیٹ کی تیاری میں صرف 2 منٹ کا وقت لگتا ہے۔

    کیا آپ ایسے ماحول دوست برتنوں میں کھانا چاہیں گے؟

  • سب سے بڑے مسئلے کی طرف دنیا کی مجرمانہ خاموشی

    سب سے بڑے مسئلے کی طرف دنیا کی مجرمانہ خاموشی

    اسلام آباد: پاکستان میں تعینات جرمن سفیر مارٹن کوبلر کا کہنا ہے کہ ہماری زمین موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے حوالے سے سخت خطرات میں ہیں، لیکن ابھی تک ہم اس کے بارے میں مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں منعقدہ ایک تقریب میں پاکستان میں تعینات جرمن سفیر مارٹن کوبلر نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ تاحال ماحولیاتی مسائل کو وہ توجہ نہیں دی جارہی جو دی جانی چاہیئے۔

    جرمن سفیر کا کہنا تھا کہ خوبصورت قدرتی حسن سے مالا مال ہونے کے باوجود پاکستان ماحولیاتی خطرات کا شکار ہے۔

    انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ پولینڈ میں اس وقت ماحولیات کی سب سے بڑی کانفرنس جاری ہے جس میں نہایت اہم فیصلے کیے جانے ہیں، تاہم اس بارے میں پاکستانی ذرائع ابلاغ بالکل خاموش ہیں۔

    انہوں نے کہا، ’اقوام متحدہ کے مطابق سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں آبی حیات سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگی۔ یہ پوری دنیا کی معیشت کو بری طرح متاثر کرے گا اس کے باوجود ہم مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں‘۔

    مارٹن کوبلر نے ماحولیاتی مسائل اجاگر کرنے کے سلسلے میں صحافیوں کی کاوشوں کو بھی سراہا جو تمام تر مشکلات اور دباؤ کے باجود کلائمٹ چینج اور اس سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کر رہے ہیں۔

    تقریب میں ماحولیات پر کام کرنے والے صحافیوں کی کاوشوں کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں تعریفی اسناد سے بھی نوازا گیا۔

  • ہماری نئی غذا ۔ پلاسٹک

    ہماری نئی غذا ۔ پلاسٹک

    اسپین میں بنایا گیا ایک اشتہار دنیا کے خوفناک مستقبل کی طرف اشارہ کر رہا ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ مستقبل میں ہماری خوراک پلاسٹک ہوگی۔

    اس اشتہار میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح ہمارے دریا اور سمندر پلاسٹک سے اٹ چکے ہیں اور سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں آبی حیات اور مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگا۔

    نیدر لینڈز کے ماحولیاتی ادارے گرین پیس کے مطابق دنیا بھر میں 26 کروڑ ٹن پلاسٹک پیدا کیا جاتا ہے جس میں سے 10 فیصد ہمارے سمندروں میں چلا جاتا ہے۔

    کچھ عرصہ قبل عالمی اقتصادی فورم نے دنیا بھر کے سمندروں میں پائے جانے والے پلاسٹک کی تعداد پیش کی تھی۔

    عالمی اقتصادی فورم کے مطابق جنوبی بحر اوقیانوس میں پلاسٹک کے 297 ارب ٹکڑے موجود ہیں۔

    جنوبی بحر الکاہل میں 491 ارب پلاسٹک کے ٹکڑے پھینکے گئے ہیں۔

    شمالی بحر اوقیانوس میں 930 ارب پلاسٹک کے ٹکڑے سمندر کو آلودہ کیے ہوئے ہیں۔

    بحرہ ہند میں 1 اعشاریہ 3 کھرب پلاسٹک کے ٹکڑے موجود ہیں۔

    سب سے زیادہ پلاسٹک کے ٹکڑے شمالی بحر اوقیانوس میں موجود ہیں جن کی تعداد 2 کھرب ہے۔

    دنیا کو متاثر کرنے والے اس بڑے مسئلے کی نشاندہی کے باجود تاحال اسے سنجیدگی سے نہیں لیا جارہا، حال ہی میں جاپان اور امریکا ایک معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کر چکے ہیں جو سمندروں کی صفائی سے متعلق تھا۔

    ماہرین کے مطابق اگر فوری طور پر اس سلسلے میں اقدامات نہ اٹھائے گئے تو ہماری غذا اسی اشتہار میں دکھائی گئی جیسی ہوگی اور ہم پلاسٹک کھانے پر مجبور ہوں گے۔

  • پلاسٹک کی بوتلوں سے بنی کشتیاں

    پلاسٹک کی بوتلوں سے بنی کشتیاں

    پلاسٹک کرہ زمین کو گندگی کے ڈھیر میں تبدیل کرنے والی سب سے بڑی وجہ ہے۔ پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے ہزاروں سال درکار ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پلاسٹک بڑے پیمانے پر استعمال کے باعث زمین کی سطح پر مستقل اسی حالت میں رہ کر اسے گندگی و غلاظت کے ڈھیر میں تبدیل کرچکا ہے۔

    دنیا بھر میں جہاں پلاسٹک کا استعمال کم سے کم کرنے پر زور دیا جارہا ہے وہیں استعمال شدہ پلاسٹک کے کسی نہ کسی طرح دوبارہ استعمال کے بھی نئے نئے طریقے دریافت کیے جارہے ہیں اور ایسی ہی ایک کوشش پلاسٹک کی بوتلوں سے بنی کشتیوں کی صورت میں سامنے آگئی۔

    ان کشتیوں کو بنانے کا آغاز وسطی افریقہ میں واقع ملک کیمرون کے کچھ طلبا نے کیا جس کے بعد یہ براعظم افریقہ میں تیزی سے مقبول ہوتی گئیں۔

    پانی کی پلاسٹک والی استعمال شدہ بوتلوں سے بنائی گئی یہ کشتیاں دیکھنے میں بہت منفرد معلوم ہوتی ہیں۔

    چونکہ پلاسٹک وزن میں ہلکا ہوتا ہے لہٰذا وہ پانی میں ڈوبتا نہیں، لیکن پلاسٹک کی کشتی میں کسی کے بیٹھنے کی صورت میں وہ ڈوب بھی سکتی ہیں، لہٰذا یہاں طبیعات کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسی کشتیاں بنائی گئی ہیں جو سائز میں بڑی ہیں چنانچہ وہ اپنے اوپر پڑنے والے دباؤ کو توازن میں رکھتی ہیں۔

    پلاسٹک کی بے دریغ استعمال ہوتی بوتلوں کی ری سائیکلنگ کے لیے یہ ایک اچھوتا خیال ہے اور یقیناً دیگر ممالک کو بھی اس معاملے میں افریقہ کی تقلید کرنی چاہیئے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاریوں سے متعلق مزید مضامین پڑھیں

  • استعمال شدہ پلاسٹک سے تیار ہونے والا پارک

    استعمال شدہ پلاسٹک سے تیار ہونے والا پارک

    دنیا بھر میں ماحول کو شدید نقصان پہنچانے والے عنصر پلاسٹک کو ختم کرنے کے منصوبوں کے بارے میں سوچا جا رہا ہے اور اس ضمن میں ایک اور منصوبہ سامنے آیا ہے۔

    فرانس میں دریا میں پھینکے جانے والے پلاسٹک سے خوبصورت پارک تیار کیے جارہے ہیں۔

    فرانس کے دریا میوز کے کناروں پر خوبصورت پارک بنائے جارہے ہیں جس سے دریا کی خوبصورتی میں اضافہ ہورہا ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ یہ پارک استعمال شدہ پلاسٹک سے بنائے جارہے ہیں۔

    اس کے لیے سب سے پہلے دریا میں پھینکا جانے والا پلاسٹک اکٹھا کیا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: سمندروں اور دریاؤں کی صفائی کرنے والا پہیہ

    بعد ازاں اسے پگھلا کر 6 کونوں والے پلیٹ فارم تیار کیے جاتے ہیں جن پر کھاد ڈال کر سبزہ اور مختلف پودے اگائے جاتے ہیں۔

    یہ پلیٹ فارمز بہت بڑی تعداد میں دریا کے کناروں پر چھوڑ دیے جاتے ہیں جس کے بعد مذکورہ حصہ خوبصورت سا پارک معلوم ہونے لگتا ہے۔

    ان پر لگے پودے نہ صرف کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کر کے ہوا کو صاف ستھرا کر رہے ہیں بلکہ یہ مختلف پرندوں کی غذائی ضروریات بھی پوری کر رہے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں پلاسٹک کا بے دریغ استعمال جاری ہے جس کے باعث ہمارے شہر اور سمندر پلاسٹک کے کچرا دان میں بدلتے جارہے ہیں۔

    ایک تحقیق کے مطابق ہر سال کم از کم 80 لاکھ میٹرک ٹن پلاسٹک کا کچرا سمندر میں پھینکا جاتا ہے اور اگر ہم نے اپنی یہی روش برقرا رکھی تو سنہ 2050 تک سمندروں میں آبی حیات سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگا۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں

  • خاتون انڈیانا جونز کچرا جزیرے کے سفر پر

    خاتون انڈیانا جونز کچرا جزیرے کے سفر پر

    سنہ 80 کی دہائی کا مشہور فلمی کردار انڈیانا جونز جس کی شخصیت اپنے دور کی بہترین اور مقبول ترین افسانوی شخصیت سمجھی جاتی تھی، دور دراز مقامات اور دنیا سے چھپے مقامات کی کھوج لگاتا تھا۔

    ایسی ہی ایک اور خاتون ایک ایسا ہی پوشیدہ مقام منظر عام پر لانے کے لیے محو سفر ہیں جنہیں خاتون انڈیانا جونز بھی کہا جارہا ہے۔

    ایلیسن ٹیل نامی یہ سیاح وہاں کے سفر پر ہیں جہاں جانے کا کوئی سیاح سوچ بھی نہیں سکتا۔

    ایلیسن سیاحت کے لیے بہترین سمجھے جانے والے ملک مالدیپ کے ’کچرا جزیرے‘ کو سامنے لانا چاہتی ہیں۔

    یہ علاقہ مالدیپ کا ایک ویران علاقہ ہے جو کچرے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ یہاں پر تمام رہائشی علاقوں کا کچرا لا کر پھنکا جاتا ہے اور یہ پورا علاقہ اب کچرے کا علاقہ بن چکا ہے جس کی طرف توجہ کرنا بے حد ضرور ہوگیا ہے۔

    ایلیسن دنیا کو یہی جزیرہ دکھانے نکلی ہیں۔

    بحرہ ہند کے کنارے واقع اس علاقے میں موجود کچرا سمندر میں بھی جارہا ہے چنانچہ اس مقام پر سمندر گندگی اور کچرے گڑھ بن چکا ہے۔

    بڑے بڑے کچرے کے پہاڑ، کچرے سے بھرا پانی اور یہاں موجود آبی حیات کے اندر سے نکلنے والا زہریلا اور گندا کچرا لوگوں کے ہوش اڑا دینے کے لیے کافی ہے۔

    ایلیسن کہتی ہیں کہ جزیروں کی سیاحت پر جانے والے سیاح سرفنگ کرنا اور پانی میں مختلف کھیل کھیلنا پسند کرتے ہیں، لیکن اس مقام پر یہ سب ایک بھیانک خواب معلوم ہوتا ہے۔