Tag: پلاسٹک

  • آپ کے کانٹیکٹ لینس سمندروں کی آلودگی کا سبب

    آپ کے کانٹیکٹ لینس سمندروں کی آلودگی کا سبب

    کیا آپ کانٹیکٹ لینسز استعمال کرتے ہیں؟ آپ کو چشمے سے چھٹکارہ دلانے والے یہ لینسز سمندروں اور دریاؤں میں پلاسٹک کی آلودگی میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔

    کانٹیکٹ لینس عام طور پر لچک دار پلاسٹک سے بنائے جاتے ہیں تاکہ آکسیجن ان سے گزر کر آنکھ کے قرنیہ تک جاسکے۔

    امریکی ماہرین نے ایک تحقیق کا آغاز کیا کہ ان لینسز کی معیاد ختم ہونے کے بعد انہیں کس طرح ضائع کیا جاتا ہے؟

    سروے میں علم ہوا کہ زیادہ تر امریکی شہری استعمال شدہ کانٹیکٹ لینس فلش یا سنک میں بہا دیتے ہیں جو مختلف مراحل سے گزر کر سمندروں اور دریاؤں میں پہنچ کر ان کی آلودگی میں اضافہ کرتے ہیں۔

    تحقیق کے مطابق صرف امریکا میں ساڑھے 4 کروڑ افراد کانٹیکٹ لینس استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح یورپ کی 5 سے 15 فیصد آبادی انہیں استعمال کرتی ہے جو سب سمندروں میں چلا جاتا ہے۔

    نیدر لینڈز کے ماحولیاتی ادارے گرین پیس کے مطابق دنیا بھر میں 26 کروڑ ٹن پلاسٹک پیدا کیا جاتا ہے جس میں سے 10 فیصد ہمارے سمندروں میں چلا جاتا ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں آبی حیات سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگی۔

    کچھ عرصہ قبل عالمی اقتصادی فورم نے دنیا بھر کے سمندروں میں پائے جانے والے پلاسٹک کی تعداد پیش کی تھی۔ عالمی اقتصادی فورم کے مطابق جنوبی بحر اوقیانوس میں پلاسٹک کے 297 ارب ٹکڑے موجود ہیں۔

    جنوبی بحر الکاہل میں 491 ارب پلاسٹک کے ٹکڑے پھینکے گئے ہیں۔ شمالی بحر اوقیانوس میں 930 ارب پلاسٹک کے ٹکڑے سمندر کو آلودہ کیے ہوئے ہیں۔

    بحرہ ہند میں 1 اعشاریہ 3 کھرب پلاسٹک کے ٹکڑے موجود ہیں۔ سب سے زیادہ پلاسٹک کے ٹکڑے شمالی بحر اوقیانوس میں موجود ہیں جن کی تعداد 2 کھرب ہے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں

  • سال 2018 کا مقبول لفظ جان کر آپ پریشان ہوجائیں گے

    سال 2018 کا مقبول لفظ جان کر آپ پریشان ہوجائیں گے

    آکسفورڈ چلڈرن ڈکشنری نے ’پلاسٹک‘ کو سال 2018 کا لفظ قرار دیا ہے۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی جانب سے منعقدہ کیے گئے کہانی لکھنے کے ایک مقابلے میں 1 لاکھ 34 ہزار کہانیاں موصول ہوئیں۔ ان کہانیوں میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا لفظ پلاسٹک تھا۔

    آکسفورڈ کے مطابق اس لفظ کو بچوں کی جانب سے بہت زیادہ استعمال کیے جانے کے بعد رواں سال کا لفظ قرار دیا گیا۔

    آکسفورڈ کا کہنا ہے کہ اس لفظ کا بے تحاشہ استعمال ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے بچے ماحولیاتی مسائل سے آگاہ ہیں اور ان سے نمٹنا چاہتے ہیں۔

    مقابلے کے لیے جمع کروائی کہانیوں میں ایک اور لفظ بہت زیادہ استعمال کیا گیا جو ’ری سائیکل‘ تھا۔

    آکسفورڈ کے مطابق بچوں کی جانب سے جمع کروائی گئی زیادہ تر کہانیوں میں ماحولیاتی مسائل کو کسی نہ کسی طرح اجاگر کیا گیا۔

    نمائندہ آکسفورڈ کا کہنا ہے کہ یہ بہت خوش آئند بات ہے کہ ہمارے بچے ان ماحولیاتی خطرات سے بہت جلدی آگاہ ہوگئے جنہیں سمجھنے میں ہمیں طویل عرصہ لگا۔

    انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی مسائل مستقبل قریب میں سب سے بڑے مسائل ہوں گے اور ہماری نئی نسل ابھی سے ہی ان سے آگاہ ہے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • کیا مستقبل کی سڑکیں پلاسٹک سے تعمیر ہوں گی؟

    کیا مستقبل کی سڑکیں پلاسٹک سے تعمیر ہوں گی؟

    پلاسٹک ہمارے کرہ ارض کو جس قدر نقصان پہنچا رہا ہے بدقسمتی سے اسی قدر پلاسٹک بنایا بھی جارہا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج ہمارے شہر اور سمندر پلاسٹک کے کچرے سے آلودہ ترین ہوچکے ہیں۔

    ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں 26 کروڑ 90 لاکھ ٹن پلاسٹک کی اشیا بنائی جاتی ہیں جو عموماً ایک بار استعمال کے بعد پھینک دی جاتی ہیں۔

    دراصل پلاسٹک ایک ایسا مادہ ہے جسے ختم ہونے یا زمین کا حصہ بننے کے لیے ہزاروں سال درکار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ماحول، صفائی اور جنگلی حیات کے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں

    دنیا بھر سے استعمال شدہ پلاسٹک کو ختم کرنے کے منصوبوں کے بارے میں سوچا جارہا ہے اور اس ضمن میں بھارت ایک نئے منصوبے کے ساتھ سامنے آیا ہے۔

    بھارت میں ضائع شدہ پلاسٹک سے سڑکیں بنائی جارہی ہیں۔

    اس منصوبے کے تحت کچرا اٹھانے والوں کو پلاسٹک جمع کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے جس سے شہروں کی صفائی میں مدد مل رہی ہے۔ اس کے بعد اس پلاسٹک کو پگھلا دیا جاتا ہے۔

    بعد ازاں اسے تعمیراتی کمپنیوں کو فراہم کردیا جاتا ہے جہاں پر اس میں مختلف اشیا بشمول تارکول کی آمیزش کر کے ایک نئی شکل میں ڈھالا جاتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ سڑکیں عام سڑکوں کے مقابلے میں بارش اور ہیٹ ویو کے موقع پر زیادہ پائیدار ثابت ہوسکتی ہیں جب شدید گرمی کے موسم میں تارکول سے بنی سڑکیں پگھلنے لگتی ہیں۔

    بھارت میں اب تک اس مٹیریل سے 21 ہزار میل کی سڑکیں بنائی جا چکی ہیں اور سڑکوں کی تعمیر کے معاملے میں اب یہ بھارتی حکومت کی پہلی ترجیح بن چکی ہے۔

    یاد رہے کہ بھارت ماحولیاتی آلودگی سے نمٹنے کے لیے نہایت مؤثر انداز میں کام کر رہا ہے اور  بھارت نے اپنی تمام ذرائع آمد و رفت کو سنہ 2030 تک بجلی پر منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔

    مزید پڑھیں: بھارت میں بجلی سے چلنے والے رکشے

    گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں نہ صرف بھارت کو دنیا کے آلودہ ترین ممالک میں سے ایک بنا چکا ہے بلکہ یہ ہر سال 12 لاکھ بھارتیوں کو مختلف جان لیوا امراض میں مبتلا کر کے انہیں ہلاک کردیتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • پلاسٹک سے بھری قوی الجثہ وہیل نہر میں آگئی

    پلاسٹک سے بھری قوی الجثہ وہیل نہر میں آگئی

    بیلجیئم کے شہر بروجژ کی نہر سے پلاسٹک سے بنی قوی الجثہ وہیل نمودار ہوگئی۔

    یہ وہیل دراصل پلاسٹک سے بنائی گئی جس کا مقصد لوگوں کی توجہ پلاسٹک کی آلودگی کی طرف مبذول کروانا ہے۔

    بروجژ کی نہر میں بنائی جانے والی یہ وہیل 38 فٹ طویل ہے اور اسے 5 ٹن پلاسٹک کے کچرے سے بنایا گیا ہے۔

    اسے بنانے والوں کا کہنا ہے کہ یہ پلاسٹک انہوں نے سمندروں اور دریاؤں سے جمع کیا ہے۔

    نیدر لینڈز کے ماحولیاتی ادارے گرین پیس کے مطابق دنیا بھر میں 26 کروڑ ٹن پلاسٹک پیدا کیا جاتا ہے جس میں سے 10 فیصد ہمارے سمندروں میں چلا جاتا ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں آبی حیات سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگی۔

    پلاسٹک سمندروں میں موجود آبی حیات کی بقا کے لیے بھی سخت خطرات کا باعث بن رہی ہے۔

    زیادہ تر جاندار پلاسٹک کو غذائی اشیا سمجھ کر نگل جاتے ہیں جو ان کے جسم میں ہی رہ جاتا ہے نتیجتاً ان کا جسم پلاسٹک سے بھرنے لگتا ہے اور یہ جاندار بھوک کی حالت میں مر جاتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: پلاسٹک نے بے زبان وہیل کی جان لے لی

    اسی طرح یہ جاندار پلاسٹک کے ٹکڑوں میں پھنس جاتے ہیں جس سے ان کے جسم کی ساخت بگڑ جاتی ہے۔ پلاسٹک میں پھنس جانے والے جاندار بعض اوقات ہلاک بھی ہوجاتے ہیں۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ممبئی میں پلاسٹک پر پابندی عائد

    ممبئی میں پلاسٹک پر پابندی عائد

    بھارت کے سب سے بڑے شہر ممبئی کی مقامی حکومت نے شہر بھر میں پلاسٹک مصنوعات کے استعمال پر پابندی عائد کردی۔ خلاف ورزی کرنے والوں کو بھاری جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔

    گو کہ بھارت کی دیگر ریاستوں میں بھی پلاسٹک کے استعمال کو روکنے کے لیے پابندیاں عائد کی گئی ہیں لیکن مہاراشٹر پہلی ریاست ہے جس نے ماحولیاتی تحفظ کے لیے پلاسٹک کے استعمال پر اتنے بڑے پیمانے پر پابندی عائد کی ہے۔

    پابندی کے تحت شہر میں پلاسٹک بیگ، پلاسٹک کے (ڈسپوز ایبل) برتن اور دیگر پلاسٹک مصنوعات کا استعمال ممنوع قرار پاگیا ہے۔

    حکام کے مطابق پہلی بار پابندی کی خلاف ورزی کرنے والوں پر 5 ہزار روپے جرمانہ عائد ہوگا، تاہم اگر کوئی شخص ایک بار سے زائد پابندی کی خلاف ورزی کرتا پایا گیا تو اس پر 25 ہزار روپے جرمانہ اور 3 ماہ کی قید کی سزا دی جائے گی۔

    مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ کا کہنا ہے، ’ہم چاہتے ہیں کہ پلاسٹک سے بنے بیگ کا استعمال ذمہ دارانہ انداز سے کیا جائے۔ اسی لیے ہم نے ہر اس طرح کے پلاسٹک کے استعمال پر پابندی عائد کی ہے جسے دوبارہ استعمال کے قابل نہیں لایا جاتا‘۔

    اس پابندی کو تحفظ ماحولیات کے لیے کام کرنے والے افراد نے سراہا ہے تاہم پلاسٹک کے کاروبار سے وابستہ افراد پریشانی کا شکار ہوگئے ہیں۔ بھارت میں اس وقت 9 ارب ڈالر مالیت کی پلاسٹک کی صنعت فعال ہے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • پلاسٹک کے کھلونے خوبصورت فرنیچر میں تبدیل

    پلاسٹک کے کھلونے خوبصورت فرنیچر میں تبدیل

    بچوں کے کھلونے زیادہ تر پلاسٹک سے بنائے جاتے ہیں جو خراب ہوجانے یا ٹوٹ جانے کے بعد پھینک دیے جاتے ہیں۔ بیلجیئم کی ایک کمپنی نے ان کھلونوں کو ری سائیکل کر کے نئی زندگی دے دی۔

    ایکو برڈی نامی یہ کمپنی بچوں کے پرانے کھلونے جمع کرتی ہے۔ اس کمپنی کے ارکان مختلف اسکولوں میں جا کر بچوں کو پلاسٹک کے نقصانات بتاتے ہیں اور ان سے پرانے کھلونے دینے کا کہتے ہیں۔

    ان کھلونوں کو بعد ازاں ایک پلانٹ میں لے جایا جاتا ہے جہاں انہیں توڑا جاتا ہے۔ مختلف رنگوں کے ٹکڑوں کو الگ کیا جاتا ہے اور ان سے بچوں ہی کے لیے نیا خوبصورت فرنیچر تخلیق کیا جاتا ہے۔

    ایک اندازے کے مطابق ہمارے بچوں کے زیر استعمال 80 فیصد کھلونے کچرے کے ڈھیر میں پھینک دیے جاتے ہیں۔

    زمین میں تلف نہ ہونے کے سبب یہ کھلونے سالوں تک یونہی کچرے کے ڈھیر پر پڑے رہتے ہیں اور شہروں کی گندگی اور آلودگی میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سونم کپور کا پلاسٹک استعمال نہ کرنے کا عہد

    سونم کپور کا پلاسٹک استعمال نہ کرنے کا عہد

    دنیا بھر کی معروف شخصیات اس وقت مختلف تنظیموں کے ساتھ مل کر ماحول کو بچانے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ معروف بالی ووڈ اداکارہ سونم کپور نے بھی تحفظ ماحول کی مہم میں شامل ہو کر ماحول دوست ہونے کا ثبوت دیا ہے۔

    سونم کپور نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹا گرام پر اپنی ایک تصویر پوسٹ کی جس میں وہ کپڑے کا ایک تھیلا تھامے ہوئے نظر آرہی ہیں، ساتھ ہی انہوں نے لکھا کہ پلاسٹک ہمارے دریاؤں، جنگلی حیات اور کرہ ارض کو تباہ کر رہا ہے۔

    انہوں نے لکھا کہ میں عہد کرتی ہوں کہ آئندہ کبھی بھی پلاسٹک استعمال نہیں کروں گی۔

    خیال رہے کہ کچھ عرصہ قبل اقوم متحدہ نے بالی ووڈ اداکارہ اور پروڈیوسر دیا مرزا کو بھارت میں خیر سگالی سفیر برائے ماحولیات مقرر کیا تھا۔

    دیا مرزا اپنے ساتھ دیگر فنکاروں کو بھی تحفظ ماحول کے لیے کام کرنے کی دعوت دے رہی ہیں جس سے متاثر ہو کر کئی فنکاروں نے ماحول دوست اقدامات شروع کردیے ہیں۔

    چند روز قبل عالمی یوم ماحولیات کے موقع پر ہونے والی تقاریب میں بھی کئی فنکاروں نے شرکت کی اور ماحول دوست بننے خصوصاً پلاسٹک کا استعمال ختم کرنے کا عزم کیا۔

    یاد رہے کہ رواں برس اقوام متحدہ کی جانب سے پلاسٹک کی آلودگی کے خاتمے پر کام کیا جارہا ہے جو ہماری زمین کو بری طرح سے آلودہ کر رہی ہے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔ 

  • پلاسٹک کا گڑھ بنتے ہمارے سمندر

    پلاسٹک کا گڑھ بنتے ہمارے سمندر

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں سمندروں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ رواں برس یہ دن سمندروں کو پلاسٹک کی آلودگی سے بچانے کے خیال کے تحت منایا جارہا ہے۔

    سمندروں کا عالمی دن منانے کی تجویز سنہ 1992 میں دی گئی تھی اور تب سے اسے مختلف ممالک میں انفرادی طور پر منایا جارہا تھا تاہم 2008 میں اقوام متحدہ نے اس دن کی منظوری دی جس کے بعد سے اس دن کو باقاعدہ طور پر پوری دنیا میں منایا جانے لگا۔

    اس دن کو منانے کا مقصد انسانی زندگی میں سمندروں کی اہمیت، آبی جانوروں کے تحفظ اور سمندری آلودگی میں کمی کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا ہے۔

    انسانی زندگی اور زمین کی بقا کے لیے ضروری سمندر پلاسٹک کی تباہ کن آلودگی سے اٹ چکے ہیں۔

    نیدر لینڈز کے ماحولیاتی ادارے گرین پیس کے مطابق دنیا بھر میں 26 کروڑ ٹن پلاسٹک پیدا کیا جاتا ہے جس میں سے 10 فیصد ہمارے سمندروں میں چلا جاتا ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں آبی حیات سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگی۔

    کچھ عرصہ قبل عالمی اقتصادی فورم نے دنیا بھر کے سمندروں میں پائے جانے والے پلاسٹک کی تعداد پیش کی تھی۔

    عالمی اقتصادی فورم کے مطابق جنوبی بحر اوقیانوس میں پلاسٹک کے 297 ارب ٹکڑے موجود ہیں۔

    جنوبی بحر الکاہل میں 491 ارب پلاسٹک کے ٹکڑے پھینکے گئے ہیں۔

    شمالی بحر اوقیانوس میں 930 ارب پلاسٹک کے ٹکڑے سمندر کو آلودہ کیے ہوئے ہیں۔

    بحرہ ہند میں 1 اعشاریہ 3 کھرب پلاسٹک کے ٹکڑے موجود ہیں۔

    سب سے زیادہ پلاسٹک کے ٹکڑے شمالی بحر اوقیانوس میں موجود ہیں جن کی تعداد 2 کھرب ہے۔

    پلاسٹک سمندروں میں موجود آبی حیات کی بقا کے لیے بھی سخت خطرات کا باعث بن رہی ہے۔

    زیادہ تر جاندار پلاسٹک کو غذائی اشیا سمجھ کر نگل جاتے ہیں جو ان کے جسم میں ہی رہ جاتا ہے نتیجتاً ان کا جسم پلاسٹک سے بھرنے لگتا ہے اور یہ جاندار بھوک کی حالت میں مر جاتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: پلاسٹک نے بے زبان وہیل کی جان لے لی

    اسی طرح یہ جاندار پلاسٹک کے ٹکڑوں میں پھنس جاتے ہیں جس سے ان کے جسم کی ساخت بگڑ جاتی ہے۔ پلاسٹک میں پھنس جانے والے جاندار بعض اوقات ہلاک بھی ہوجاتے ہیں۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • عالمی یوم ماحولیات: زمین کو پلاسٹک کی آلودگی سے بچانا ضروری

    عالمی یوم ماحولیات: زمین کو پلاسٹک کی آلودگی سے بچانا ضروری

    آج دنیا بھر میں ماحولیات کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ رواں برس اس دن کا مرکزی خیال پلاسٹک کی آلودگی کو شکست دینے کا عزم کرنا اور اس کے لیے فوری اقدامات کرنا ہے تاکہ زمین کو پلاسٹک کے کچرے میں دفن ہونے سے بچایا جائے۔

    پلاسٹک ایک تباہ کن عنصر اس لیے ہے کیونکہ دیگر اشیا کے برعکس یہ زمین میں تلف نہیں ہوسکتا۔ ایسا کوئی خورد بینی جاندار نہیں جو اسے کھا کر اسے زمین کا حصہ بناسکے۔

    ماہرین کے مطابق پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے 1 سے 2 ہزار سال کا عرصہ درکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا پھینکا جانے والا پلاسٹک کا کچرا طویل عرصے تک جوں کا توں رہتا ہے اور ہمارے شہروں کی گندگی اور کچرے میں اضافہ کرتا ہے۔

    یہ کچرا سمندروں میں جا کر انہیں آلودہ کرنے اور جنگلی حیات کو موت کا شکار کرنے کا سبب بھی بن رہا ہے۔

    بھارت شہر پونا میں پلاسٹک کی تھیلیوں سے بنا ہوا کچھوا

    اس وقت ہماری زمین کی یہ حالت ہوچکی ہے کہ ہمارے سمندروں، ہماری مٹی اور ہماری غذا تک میں پلاسٹک کے ذرات موجود ہیں۔

    پلاسٹک کی آلودگی کا سب سے بڑا ذریعہ پلاسٹک کی تھیلیاں ہیں جو جا بجا استعمال ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔ ایک محتاط اندازے کےمطابق پاکستان میں ہر سال 55 ارب پلاسٹک کی تھیلیاں استعمال ہوتی ہیں اور اس شرح میں ہر سال 15 فیصد اضافہ ہورہا ہے۔

    دنیا بھر میں پلاسٹک کی آلودگی کے پیش نظر کئی ممالک نے اس پر پابندی بھی عائد کردی ہے۔


    پلاسٹک سے کیسے بچا جائے؟

    ہم اپنی زندگی میں پلاسٹک کے استعمال کو کم سے کم کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں اور اگر ہر شخص یہ عزم کرے تو یقیناً ہزاروں افراد کے یہ اقدامات پلاسٹک کی آلودگی کو کسی حد تک کم کرسکیں گے۔

    گھر میں استعمال ہونے والی پلاسٹک کی تھیلیاں عموماً باہر سے آتی ہیں جن میں سودا سلف یا مختلف اشیا لائی جاتی ہیں۔ ایسی اشیا خریدتے ہوئے ایک کپڑے سے بنا ہوا تھیلا ساتھ لے جائیں۔

    اس تھیلے کو بار بار استعمال کیا جاسکتا ہے جبکہ اس کے استعمال کی عمر بھی پلاسٹک سے زیادہ ہے۔

    کچن میں پلاسٹک کے کنٹینرز کی جگہ اسٹیل یا لکڑی سے بنے کنٹینرز استعمال کریں۔

    پلاسٹک کے اسٹرا کم سے کم استعمال کریں اور روایتی طریقے سے مشروب پیئیں یعنی منہ سے۔

    کوشش کریں کہ پلاسٹک کی اشیا کا کم سے کم استعمال کریں۔ آج کل پلاسٹک کے متبادل کے طور پر کپڑے، کاغذ یا لکڑی سے بنی اشیا کا رجحان فروغ پارہا ہے۔

    اسی طرح بعض کمپنیاں اپنی پروڈکٹ کی جلد تلف ہوجانے والے مادے یعنی بائیو ڈی گریڈ ایبل پیکنگ کرتی ہیں جو بہت جلدی زمین کا حصہ بن جاتا ہے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • کاغذ سے بنا کافی کپ 30 سال میں گلنے کا انکشاف

    کاغذ سے بنا کافی کپ 30 سال میں گلنے کا انکشاف

    دنیا بھر میں پلاسٹک کے مضر اثرات سے واقف ہونے کے بعد اب بڑی بڑی فوڈ چین کوشش کر رہی ہیں کہ اپنے گاہکوں کو ٹیک اوے یعنی لے کر جانے والا کھانا کاغذ سے بنے برتنوں میں فراہم کیا جائے۔

    اس سلسلے میں سب سے زیادہ کھپت موٹے کاغذ سے بنے کافی کے کپوں کی ہے۔ امریکہ اور برطانیہ سمیت دنیا کے کئی ممالک میں اکثر افراد دفاتر تک جانے کے دوران راستوں سے کافی لے لیتے ہیں۔ اسی طرح اکثر دفاتر میں بھی کاغذ سے بنے کپ ہی استعمال کیے جاتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: فرانس کا پلاسٹک سے بنے برتنوں پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ

    لیکن ماہرین نے اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کاغذ سے بنے یہ کپ ٹوٹنے اور اس کے بعد زمین کا جزو بننے میں 30 سال کا عرصہ لے سکتے ہیں۔

    cup-2

    برطانیہ میں کیے جانے والے ایک تحقیقی سروے میں دیکھا گیا کہ لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں کہ ان کے استعمال شدہ کاغذ کے کپ ری سائیکل کر لیے جائیں گے یعنی دوبارہ استعمال کے قابل بنا لیے جائیں گے۔ یہی سوچ کر وہ ہر سال اربوں کی تعداد میں ان کپوں کا استعمال کرتے ہیں۔

    لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب ان کپوں کو ری سائیکل مشین میں ڈالا جاتا ہے تو وہ اس میں لگی ہوئی پلاسٹک کی لائننگ کو الگ نہیں کر پاتی جس کے باعث کاغذ کے کپ کافی یا پانی کو جذب نہیں کرتے۔

    پلاسٹک کی اس آمیزش کی وجہ سے یہ کپ دوبارہ استعمال کے قابل نہیں بنائے جا سکتے اور مجبوراً انہیں واپس پھینکنا پڑتا ہے۔

    cup-3

    لندن کے امپیریل کالج کی ایک پروفیسر کا کہنا ہے کہ پلاسٹک زمین میں آسانی سے حل نہیں ہو پاتا۔ اس کی وجہ سے کاغذ کے اس کپ کو گلنے اور زمین کا حصہ بننے میں 30 سال کا عرصہ لگ جاتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ اگر یہ پلاسٹک ان کپوں میں نہ شامل کیا جائے تب بھی ان کاغذوں کی موٹائی کی وجہ سے یہ ٹوٹنے میں کم از کم 2 سال کا عرصہ لگاتے ہیں جس کے بعد ان کا زمین میں ملنے کا عمل شروع ہوتا ہے۔

    یاد رہے کہ حفظان صحت کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کپوں کو بنانے کے لیے بالکل نئے کاغذ استعمال کیے جاتے ہیں جو اس سے پہلے استعمال نہ کیے گئے ہوں۔

    cup-4

    ماہرین کے مطابق برطانوی شہریوں کے کافی کے چسکے کو پورا کرنے کے لیے ہر سال تقریباً 1 لاکھ درخت کاٹے جاتے ہیں تاکہ ان سے کاغذ بنایا جاسکے۔

    برطانیہ سمیت دنیا بھر میں ماحول دوست افراد اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ کاغذ اور پلاسٹک کے استعمال پر بھاری ٹیکس نافذ کیا جائے تاکہ ان کا استعمال کم ہوسکے۔

    واضح رہے کہ کچرے میں پھینکی جانے والی کاغذ یا پلاسٹک سے بنی یہ اشیا دنیا بھر کی آلودگی میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔ سمندر کنارے پھینکی جانے والی یہ اشیا اکثر اوقات سمندر میں چلی جاتی ہیں جس سے سمندری حیات کی زندگی کو سخت خطرہ لاحق ہوتا ہے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔