Tag: پلاسٹک

  • بھارتی یوم جمہوریہ کے موقع پر پلاسٹک کے ترنگے لہرانے پر پابندی عائد

    بھارتی یوم جمہوریہ کے موقع پر پلاسٹک کے ترنگے لہرانے پر پابندی عائد

    نئی دہلی: بھارتی وزارت داخلہ نے رواں برس بھارت کے یوم جمہوریہ کے موقع پر پلاسٹک کے جھنڈوں کی تیاری اور خرید و فروخت پر پابندی عائد کردی۔

    بھارتی وزارت داخلہ کی جانب سے تمام ریاستوں کو ہدایات جاری کردی گئی ہیں کہ پلاسٹک کے جھنڈے بنانے اور ان کی خرید و فروخت پر مکمل طور پر پابندی عائد کردی جائے۔

    وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ چونکہ پلاسٹک تلف نہیں ہوتا لہٰذا چند دن بعد یہ جھنڈے جابجا زمین پر بکھرے نظر آتے ہیں جس سے ترنگے کی بے حرمتی ہوتی ہے۔

    وزارت کی جانب سے پلاسٹک کے ترنگے لہرانے والوں کو قومی پرچم کی بے حرمتی کا مرتکب قرار دیا جائے گا۔

    بھارتی آئین کے مطابق ترنگے کی بے حرمتی کرنے والے پر جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے، اسے جیل بھیجا جاسکتا ہے یا دونوں سزائیں لاگو کی جاسکتی ہیں۔

    جاری کردہ حکم کے مطابق یوم جمہوریہ کے علاوہ بھی دیگر قومی و ثقافتی مواقعوں پر پلاسٹک کے جھنڈوں سے اجتناب کیا جائے اور ان کی جگہ کاغذ کے بنے جھنڈے استعمال کیے جائیں تاکہ اسے فلیگ کوڈ آف انڈیا 2002 کے تحت بحفاظت تلف کیا جاسکے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سال 2017: پلاسٹک خوردنی اشیا میں تبدیل

    سال 2017: پلاسٹک خوردنی اشیا میں تبدیل

    سال 2017 اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے۔ ماہرین ماحولیات کے مطابق اس شعبے میں یہ سال خوردنی اشیا کے نام رہا جس میں مختلف پھینک دی جانے والی چیزوں کو کھانے کے قابل بنایا گیا تاکہ کچرے کے ڈھیر میں بدلتی ہماری زمین پر دباؤ میں کچھ کمی آئے۔

    آئیں دیکھتے ہیں سائنسدانوں نے رواں برس کن اشیا کو خوردنی اشیا میں تبدیل کیا۔


    پانی کی گیند

    پانی کی فراہمی کا سب سے عام ذریعہ پلاسٹک کی بوتلیں ہیں جو زمین میں تلف نہ ہونے کے سبب شہروں کو کچرے کے ڈھیر میں تبدیل کر رہا ہے۔

    ان بوتلوں سے نجات کے لیے کچھ ماہرین نے پانی کی گیندیں ایجاد کر ڈالیں۔ ان گیندوں کو ایک باریک جھلی کی صورت دائرے کی شکل میں تیار کیا گیا اور اس کے اندر پانی بھر دیا گیا۔

    پانی کی یہ گیندیں ویسے تو کھائی جاتی ہیں تاہم یہ پیاس بجھانے کا ضروری کام ہی سر انجام دیتی ہیں۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    خوردنی گلاس

    انڈونیشیا میں سمندری گھاس سے خوردنی گلاس تیار کیے گئے جو پانی پینے کے کام آسکتے تھے۔ یہ گلاس نہ صرف کھانے کے قابل ہیں بلکہ اگر آپ انہیں پھینکنا چاہیں تو یہ بہت جلد زمین کا حصہ بن کر وہاں خودرو پودے بھی اگا سکتے ہیں۔


    الجی جیلی سے بنائی گئی بوتل

    آئس لینڈ میں ایک طالب علم نے الجی جیلی کو جما کر بوتلوں کی شکل دے دی۔ اسے اس شکل میں برقرار رہنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے اندر کوئی سیال مادہ بھراجائے۔

    جیسے ہی اس کے اندر بھرا پانی یا سیال ختم ہوجاتا ہے یہ ٹوٹ جاتی ہے یا گل جاتی ہے۔ اب یہ پھینکنے کے بعد زمین میں نہایت آسانی سے اور بہت کم وقت میں تلف ہوجانے والی شے ہے۔


    کھانے والے اسٹرا

    کیا آپ جانتے ہیں امریکا میں ہر روز 5 کروڑ پلاسٹک کے اسٹرا مختلف جوسز پینے کے بعد پھینک دیے جاتے ہیں۔ بظاہر معمولی سا پلاسٹک کا ٹکڑا دکھائی دینے والا یہ اسٹرا بھی کچرے کے ڈھیر میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔

    اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکا میں سمندری گھاس سے اسٹرا تیار کرنے کا تجربہ کیا گیا جسے بے حد پذیرائی ملی۔ اس اسٹرا کو مختلف فلیورز سے بنایا جاتا ہے جس کے باعث لوگ جوس ختم کرنے کے بعد اس اسٹرا کو بھی نہایت مزے سے کھا لیتے ہیں۔


    کھانے والا ریپر

    دودھ کے پروٹین سے تیار کیے جانے والے باریک ریپر آکسیجن کو جذب نہیں کرسکتے لہٰذا اس کے اندر لپٹی چیز خراب ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا۔

    ان ریپرز کو مختلف اشیا کے ساشے پیکٹ، برگر کے ریپرز اور سبزیاں اور پھل محفوظ کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ ان ریپرز سے بنے ساشے کو کھولنے کے بجائے آپ پورا ریپر گرم پانی میں ڈال کر اپنی مطلوبہ شے تیار کرسکتے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کیا سبز کرنسی دنیا کا مستقبل ثابت ہوگی؟

    کیا سبز کرنسی دنیا کا مستقبل ثابت ہوگی؟

    دنیا بھر میں جہاں بٹ کوائن کی مقبولیت میں بے حد اضافہ ہوتا جارہا ہے وہیں یورپی ملک نیدر لینڈز کے دارالحکومت ایمسٹر ڈیم میں سبز کوائن مقبولیت حاصل کر رہے ہیں جو کسی اور شے سے نہیں بلکہ پلاسٹک سے بنائے جارہے ہیں۔

    جی ہاں ہماری زمین کو کچرے کے ڈھیر میں بدلنے والے پلاسٹک کو نیدرلینڈز میں سبز کرنسی میں تبدیل کیا جارہا ہے جسے کئی مقامی کاروباری و تجارتی اداروں نے قبول کرنے کی حامی بھرلی ہے۔

    ایک فلاحی تنظیم کی جانب سے شروع کیے جانے والے اس پروجیکٹ کے تحت لوگوں کو سبز بیگز فراہم کیے جاتے ہیں جس میں وہ غیر ضروری پلاسٹک ڈال دیتے ہیں۔

    جب یہ پلاسٹک وہ اس تنظیم کے حوالے کرتے ہیں تو انہیں بدلے میں پلاسٹک کے سبز سکے دیے جاتے ہیں جو پلاسٹک ہی سے بنائے جاتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: مستقبل کی سڑکیں پلاسٹک سے تعمیر ہوں گی

    یہ سکے مقامی دکانوں سے چھوٹی موٹی اشیا کی خریداری یا ڈسکاؤنٹ کے لیے استعمال ہوسکتے ہیں۔ اس ضمن میں مذکورہ علاقے کی 30 تجارتی کمپنیوں نے ان سکوں کو قبول کرنے کی حامی بھر لی ہے۔

    یہ پروجیکٹ پلاسٹک کے حوالے سے لوگوں کی سوچ بھی تبدیل کر رہا ہے۔

    سبز کوائن حاصل کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ انہوں نے اب پہلے کی نسبت پلاسٹک کا استعمال کم کردیا ہے جبکہ وہ پلاسٹک کی استعمال شدہ اشیا کو ری سائیکل بھی کرنے لگے ہیں۔

    یاد رہے کہ اقوام متحدہ کے مطابق ہر سال 5 سے 14 ملین ٹن پلاسٹک صرف سمندروں میں پھینکا جاتا ہے۔ زمین پر جابجا پڑے پلاسٹک کے ڈھیر اس کے علاوہ ہیں۔

    ماہرین نے امکان ظاہر کیا ہے کہ پلاسٹک کی خطرناک آلودگی سے نمٹنے کے لیے یہ کہنا مشکل نہیں کہ مستقبل قریب میں یہ سبز سکے ہی دنیا کا مستقبل ہوں گے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • رنگوں بھری افشاں سمندری آلودگی میں اضافے کا سبب

    رنگوں بھری افشاں سمندری آلودگی میں اضافے کا سبب

    آپ نے اکثر ایسی آرائشی اشیا دیکھی ہوں گی جنہیں رنگوں بھری چمکیلی افشاں یا گلیٹرز سے سجایا جاتا ہے۔ اگر آپ اپنے گھر میں ایسی آرائشی اشیا سجانے کے عادی ہیں تو جان لیں کہ آپ سمندروں میں آلودگی کی وجہ بن رہے ہیں۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق میں ماہرین نے ان گلیٹرز کو سمندروں اور آبی حیات کے لیے سخت نقصان دہ قرار دیا ہے۔

    اس کی وجہ یہ ہے کہ پلاسٹک کی طرح یہ گلیٹر بھی کسی صورت زمین یا پانی میں حل یا تلف نہیں ہوتے اور جوں کے توں موجود رہتے ہیں۔

    گلیٹرز کو پلاسٹک کی چھوٹی قسم یعنی مائیکرو پلاسٹک بھی کہا جاتا ہے۔

    ان کی سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ یہ فلٹر سے بھی باآسانی گزر جاتے ہیں۔

    سمندر میں جانے کے بعد یہ آبی حیات کی خوراک کا حصہ بن جاتے ہیں اور یوں ان کے جسم میں پلاسٹک جمع ہوتا رہتا ہے جو بالآخر ان کی موت کا سبب بن جاتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پلاسٹک کی طرح گلیٹرز پر بھی پابندی عائد کی جائے تاکہ سمندری آلودگی میں کمی اور آبی حیات کی حفاظت کی جا سکے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پاکستان کو کچرے کا ڈھیر بننے سے بچانے کے لیے کوشاں 10 سالہ طالبہ

    پاکستان کو کچرے کا ڈھیر بننے سے بچانے کے لیے کوشاں 10 سالہ طالبہ

    پاکستان اور خصوصاً شہر کراچی کچرے کا ڈھیر بنتا جارہا ہے جس سے ماحولیاتی آلودگی میں بے حد اضافہ ہورہا ہے۔ تاہم سرگودھا کی 10 سالہ غیر معمولی بچی اپنے ملک کو صاف ستھرا بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔

    صوبہ پنجاب کے شہر سرگودھا سے تعلق رکھنے والی 10 سالہ زیمل عمر نے صرف 6 سال کی عمر میں اپنے ارد گرد موجود گندگی اور کچرے کو دیکھ کر بے زاری اور کراہیت کا اظہار کرنا شروع کردیا۔

    آہستہ آہستہ اسے احساس ہوا کہ یہ مسئلہ صرف اس کے علاقے یا شہر کا نہیں بلکہ پورے ملک کا ہے، اور تب ہی اس نے اپنے ننھے ہاتھوں سے اس کچرے کے ڈھیر کی صفائی کرنے کا عزم کیا۔

    مزید پڑھیں: زمین پر کچرے کی نئی تہہ

    ننھی سی زیمل کو یہ معلومات بھی بہت جلد ہوگئیں کہ پلاسٹک کی تھیلیوں میں پھینکا جانے والا کچرا ہی اصل مسئلے کی جڑ ہے کیونکہ پلاسٹک زمین میں تلف نہیں ہوتا اور یہی بڑے پیمانے پر کچرا پھیلانے کا سبب بنتا ہیں۔

    وہ کہتی تھی، ’لوگ ان کا بہت بے دردی کے ساتھ استعمال کر کے انہیں پھینک دیتے ہیں اور انہیں دوبارہ استعمال کرنے کا نہیں سوچتے‘۔

    زیمل کے ننھے ذہن نے اس کچرے کو ٹھکانے لگانے کا حل سوچنا شروع کیا اور تب ہی اس کے ذہن میں پرانے اخبارات کا خیال آیا۔

    آپ جانتے ہوں گے کہ کاغذ درختوں سے حاصل کی جانے والی گوند سے بنتے ہیں اور اخبارات کے لیے استعمال ہونے والے اخبارات ایک سے 2 بار استعمال کے بعد پھینک دیے جاتے ہیں۔

    زیمل نے انہی اخبارات سے کچرے کے بیگز بنانے کا سوچا۔ ’زی بیگز‘ کے نام سے یہ کاغذی تھیلے بہت جلد لوگوں میں مقبول ہوگئے اور اس کی انتہائی کم قیمت کی وجہ سے لوگوں نے انہیں خریدنا بھی شروع کردیا۔

    اب جبکہ زیمل اپنی تعلیم کے فقط ابتدائی مراحل میں ہی ہے، وہ ابھی سے لوگوں میں تحفظ ماحول اور آلودگی سے بچنے کا شعور پیدا کرنے کی کوششیں کر رہی ہے۔

    زیمل بتاتی ہے کہ اسکول کے ساتھ بیگز بنانے کا کام نہایت مشکل ہے چنانچہ یہ کام وہ صرف ویک اینڈ کو انجام دیتی ہے اور اس میں اس کے اہلخانہ اور کزنز بھی اس کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔

    اس کم عمر ترین سماجی انٹر پرینیئور کو اب تک پاکستان اور مشرق وسطیٰ میں 2 ایوارڈز سے بھی نوازا جا چکا ہے۔

    زیمل اپنے کام اور آگاہی مہم کو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں پھیلانا چاہتی ہے اور اس کے لیے بے حد پرعزم ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ زیمل کاغذی تھیلوں کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم کو بھی غریب بچوں میں تقسیم کردیتی ہے۔

    کچرے کے نقصانات کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پینے کے ساتھ ساتھ ختم ہوجانے والی پانی کی بوتل

    پینے کے ساتھ ساتھ ختم ہوجانے والی پانی کی بوتل

    کیا آپ نے پانی کی کسی ایسی بوتل کا تصور کیا ہے جو آپ کے پانی پینے کے ساتھ ساتھ ختم ہوتی جائے؟

    آئس لینڈ کے ایک طالبعلم ایری جانسن نے ایک ایسی بائیو ڈی گریڈ ایبل یعی زمین میں تلف ہوجانے والی پانی کی بوتل بنائی ہے جو پانی کے ساتھ ساتھ ختم ہوتی جائے گی۔

    یہ بوتل الجی جیلی سے بنائی گئی ہے جسے جما کر بوتل کی شکل میں ڈھال دیا جاتا ہے۔ اسے اس شکل میں برقرار رہنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے اندر کوئی سیال مادہ بھراجائے۔

    تاہم جیسے ہی اس کے اندر بھرا پانی یا سیال ختم ہوجاتا ہے یہ ٹوٹ جاتی ہے یا گل جاتی ہے۔ اب یہ پھینکنے کے بعد زمین میں نہایت آسانی سے اور بہت کم وقت میں تلف ہوجانے والی شے ہے۔

    یاد رہے کہ پانی کے لیے استعمال ہونے والی پلاسٹک کی بوتلوں کو تلف کرنا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے کیونکہ پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے ہزاروں سال درکار ہیں۔

    یہی وجہ ہے کہ یہ زمین اور پانی کے اندر کچرے کے ڈھیر کی صورت میں جمع ہوتی جارہی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں آبی حیات سے زیادہ پلاسٹک کی اشیا موجود ہوں گی۔

    تو کیا آپ اس کچرے کو کم کرنے کے لیے اس انوکھی بوتل میں پانی پینا چاہیں گے؟

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پاکستان میں پلاسٹک کھانے والی پھپھوندی دریافت

    پاکستان میں پلاسٹک کھانے والی پھپھوندی دریافت

    اسلام آباد: وطن عزیز کے دارالحکومت اسلام آباد میں ایسی پھپھوندی دریافت ہوئی ہے جو پلاسٹک کو کھا سکتی ہے۔

    وفاقی دارالحکومت کے ایک کچرے کے ڈھیر سے اتفاقاً دریافت ہونے والی اس پھپھوندی کا نام اسپرگلس ٹیوبی جینسس ہے۔

    عالمی اقتصادی فورم میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق یہ زمین میں تلف نہ ہوسکنے والی پلاسٹک کو چند ہفتوں میں توڑ سکتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ دریافت دراصل اس پھپھوندی کی نہیں، بلکہ اس کی پلاسٹک کھانے والی خاصیت کی ہے جو حال ہی میں دریافت ہوئی ہے۔

    مذکورہ پھپھوندی پلاسٹک کے مالیکیولز کو توڑ کر انہیں الگ کردیتی ہے جس کے بعد ان کی تلفی کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ یہ عموماً مٹی میں پائی جاتی ہے اور اکثر اوقات پلاسٹک کی اشیا کے اوپر ملتی ہے۔

    ماہرین کا خیال ہے کہ اس پھپھوندی کو پانی میں اور زمین پر کچرے کے ڈھیر کی صورت میں موجود پلاسٹک کی اشیا کو تلف کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    اس سے قبل برطانوی ماہرین نے بھی ایسی سنڈی دریافت کرنے کا دعویٰ کیا تھا جو پلاسٹک کو کھا سکتی تھی۔

    واضح رہے کہ پلاسٹک ایک ایسا مادہ ہے جسے ختم ہونے یا زمین کا حصہ بننے کے لیے ہزاروں سال درکار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ماحول، صفائی اور جنگلی حیات کے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔

    عالمی اقتصادی فورم کے مطابق سنہ 2014 میں 31 کروڑ ٹن سے بھی زائد پلاسٹک بنایا گیا۔

    پلاسٹک خصوصاً اس سے بنائی گئی تھیلیاں شہروں کی آلودگی میں بھی بے تحاشہ اضافہ کرتی ہیں۔ تلف نہ ہونے کے سبب یہ کچرے کے ڈھیر کی شکل اختیار کرلیتی ہیں اور نکاسی آب کی لائنوں میں پھنس کر انہیں بند کردیتی ہیں جس سے پورے شہر کے گٹر ابل پڑتے ہیں۔

    یہ تھیلیاں سمندروں اور دریاؤں میں جا کر وہاں موجود آبی حیات کو بھی سخت نقصان پہنچاتی ہے اور اکثر اوقات ان کی موت کا سبب بھی بن جاتی ہیں۔

    پلاسٹک کے ان نقصانات سے آگاہی ہونے کے بعد دنیا کے کئی ممالک اور شہروں میں آہستہ آہستہ اس پر پابندی عائد کی جارہی ہے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • روانڈا جیسے ملک میں بھی ایئرپورٹ پر مسافروں کی سخت چیکنگ

    روانڈا جیسے ملک میں بھی ایئرپورٹ پر مسافروں کی سخت چیکنگ

    امریکہ اور برطانیہ سمیت کئی یورپی ممالک میں ایئرپورٹ پر بیرون ملک سے آنے والے مسافروں کی سخت چیکنگ تو ایک معمول کی بات بن گئی ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں مشرقی افریقہ کا ملک روانڈا بھی اپنے ملک میں آںے والے افراد کی نہایت سخت چیکنگ کرتا ہے؟

    اگر کبھی آپ کا روانڈا جانے کا اتفاق ہو تو ایئرپورٹ پر اترتے ہی آپ کے سامان کی نہایت سخت چیکنگ کی جائے گی۔ اس لیے نہیں کہ کہیں آپ اسلحہ یا منشیات اپنے ساتھ نہ لیے جا رہے ہوں، بلکہ اس لیے کہ کہیں آپ کے سامان میں پلاسٹک بیگ تو موجود نہیں۔

    جی ہاں، روانڈا میں پلاسٹک کی تھیلیاں اپنے ساتھ رکھنا یا استعمال کرنا نہایت سخت جرم ہے۔

    روانڈا میں سنہ 2008 میں پلاسٹک پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ یہ فیصلہ ملک میں شدید گندگی اور آبی آلودگی کو دیکھتے ہوئے کیا گیا۔

    روانڈا کے وزیر برائے قدرتی وسائل ونسنٹ بروٹا نے ایک بار عالمی اقتصادی فورم میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ اس پابندی سے عام لوگوں کو کوئی مسئلہ نہیں تھا، مسئلہ ان لوگوں کو تھا جو پلاسٹک بنانے کی صنعت سے وابستہ تھے۔

    انہوں نے بتایا، ’ان لوگوں نے اس کے خلاف شکایات کیں اور احتجاج بھی کیا، لیکن وقت کے ساتھ انہیں بھی معلوم ہوگیا کہ پلاسٹک پر پابندی سے ہمیں زیادہ فوائد حاصل ہوئے بہ نسبت پلاسٹک کو استعمال کرنے سے‘۔

    خیال رہے کہ پلاسٹک ایک ایسا مادہ ہے جسے ختم ہونے یا زمین کا حصہ بننے کے لیے ہزاروں سال درکار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ماحول، صفائی اور جنگلی حیات کے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔

    پلاسٹک کی تھیلیاں شہروں کی آلودگی میں بھی بے تحاشہ اضافہ کرتی ہیں۔ تلف نہ ہونے کے سبب یہ کچرے کے ڈھیر کی شکل اختیار کرلیتی ہیں اور نکاسی آب کی لائنوں میں پھنس کر انہیں بند کردیتی ہیں جس سے پورے شہر کے گٹر ابل پڑتے ہیں۔

    یہ تھیلیاں سمندروں اور دریاؤں میں جا کر وہاں موجود آبی حیات کو بھی سخت نقصان پہنچاتی ہے اور اکثر اوقات ان کی موت کا سبب بھی بن جاتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں پلاسٹک کے بے تحاشہ استعمال کے باعث سنہ 2050 تک سمندر میں مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگا۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کینیا میں پلاسٹک بیگ پر پابندی عائد

    کینیا میں پلاسٹک بیگ پر پابندی عائد

    نیروبی: افریقی ملک کینیا میں پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی عائد کردی گئی۔ خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت سزا اور جرمانے کا سامنا کرنا ہوگا۔

    یہ فیصلہ اس عدالتی درخواست کے بعد سامنے آیا ہے جس میں پلاسٹک کے کاروبار سے وابستہ تاجروں نے ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی کہ پلاسٹک پر پابندی عائد کرنے سے ان کے ہزاروں ملازمین بے روزگار ہوجائیں گے۔

    تاہم عدالت نے درخواست کو رد کرتے ہوئے پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی کا اصولی فیصلہ جاری کردیا۔

    گو کہ اس سے قبل کئی ممالک پلاسٹک کے استعمال پر پابندی عائد کر چکے ہیں تاہم کینیا اس حوالے سے قابل تعریف ہے کہ یہاں خلاف ورزی کی صورت میں 32 ہزار یورو کا جرمانہ جبکہ 4 سال قید کی سزا بھی رکھی گئی ہے۔

    اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ماحولیات کا کہنا ہے کہ کینیا کی سپر مارکیٹس میں سالانہ 10 کروڑ تھیلیاں استعمال ہوتی تھیں۔ اب اقوام متحدہ نے کینیا کے اس اقدام کا خیر مقدم کیا ہے۔

    یاد رہے کہ کینیا کی حکومت 6 ماہ قبل اس پابندی کا اعلان کر چکی تھی اور پلاسٹک کے کاروبار سے وابستہ افراد اور استعمال کندگان کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ ماحول دوست بیگز کا استعمال شروع کردیں۔

    اس قانون کے مکمل طور پر اطلاق کے روز متعدد مقامات پر اس وقت شدید افراتفری کی صورتحال سامنے آئی جب دکانداروں نے اپنے گاہکوں کو پلاسٹک کی تھیلیوں میں سامان دینے سے انکار کردیا اور ان سے کہا کہ وہ اپنا سامان ہاتھوں میں اٹھا کر لے جائیں۔

    خیال رہے کہ پلاسٹک ایک ایسا مادہ ہے جسے ختم ہونے یا زمین کا حصہ بننے کے لیے ہزاروں سال درکار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ماحول، صفائی اور جنگلی حیات کے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔

    پلاسٹک کی تھیلیاں شہروں کی آلودگی میں بھی بے تحاشہ اضافہ کرتی ہیں۔ تلف نہ ہونے کے سبب یہ کچرے کے ڈھیر کی شکل اختیار کرلیتی ہیں اور نکاسی آب کی لائنوں میں پھنس کر انہیں بند کردیتی ہیں جس سے پورے شہر کے گٹر ابل پڑتے ہیں۔

    یہ تھیلیاں سمندروں اور دریاؤں میں جا کر وہاں موجود آبی حیات کو بھی سخت نقصان پہنچاتی ہے اور اکثر اوقات ان کی موت کا سبب بھی بن جاتی ہیں۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • قاتل پلاسٹک نے ایک اور نایاب مچھلی کی جان لے لی

    قاتل پلاسٹک نے ایک اور نایاب مچھلی کی جان لے لی

    کراچی: صوبہ سندھ کے ساحلی دارالحکومت کراچی کے ساحل پر پلاسٹک کی بہتات نے ایک اور نایاب نڈل مچھلی کی جان لے لی۔ مچھلی سمندر میں پھینکے جانے والے پلاسٹک کے کپ میں پھنس گئی تھی۔

    جنگلی حیات کے تحفظ کی عالمی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق نایاب نڈل فش پلاسٹک کے کپ میں پھنس گئی تھی۔

    ماہی گیروں نے پھنسی ہوئی مچھلی کو نکالنے کی کوشش کی لیکن وہ بچ نہ سکی۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق سمندر میں پھینکے جانے والے پلاسٹک نے ایک طرف تو سمندر کو آلودہ ترین کردیا ہے، دوسری جانب مختلف آبی حیات کو نہایت خطرے میں ڈال دیا ہے۔

    ساحل پر سیر و تفریح کے لیے آنے والے افراد کھانے پینے کی اشیا کا پلاسٹک ریپر سمندر میں بہا دیتے ہیں جس کے باعث سمندر آہستہ آہستہ پلاسٹک کے سمندر میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق کراچی کے ساحل پر 200 کلومیٹر تک پلاسٹک کا کچرا پھیلا ہوا ہے۔

    یہ پلاسٹک آبی حیات کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔

    اکثر مچھلیاں اور دیگر آبی جاندار اس پلاسٹک کو نگل لیتے ہیں جو ان کے جسم میں رہ جاتی ہے، جس کے بعد ان کا جسم پھولنے لگتا ہے، بھوک لگنے کی صورت میں وہ کچھ بھی نہیں کھا سکتے کیونکہ پلاسٹک ان کے معدے کی ساری جگہ گھیر چکا ہوتا ہے۔

    یوں آہستہ آہستہ وہ بھوک اور پلاسٹک کے باعث ہلاکت کے دہانے پر پہنچ جاتے ہیں اور بالآخر مر جاتے ہیں۔

    اکثر سمندری جانور پلاسٹک کے ٹکڑوں میں بھی پھنس جاتے ہیں اور اپنی ساری زندگی نہیں نکل پاتے۔ اس کی وجہ سے ان کی جسمانی ساخت ہی تبدیل ہوجاتی ہے۔

    اس صورت میں اگر یہ پلاسٹک ان کے نظام تنفس کو متاثر کرے تو یہ پلاسٹک میں پھنسنے کے باعث بھی مرجاتے ہیں جیسے کراچی کی اس نڈل مچھلی کے ساتھ ہوا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندر میں براہ راست پھینکے جانے والے پلاسٹک کے علاوہ، زمین پر استعمال کیے جانے والے پلاسٹک کا بھی 80 فیصد حصہ سمندر میں چلا جاتا ہے۔ ان میں زیادہ تر پلاسٹک کی بوتلیں اور تھیلیاں شامل ہوتی ہیں۔

    یاد رہے کہ پلاسٹک ایک تباہ کن عنصر اس لیے ہے کیونکہ دیگر اشیا کے برعکس یہ زمین میں تلف نہیں ہوسکتا۔ ایسا کوئی خورد بینی جاندار نہیں جو اسے کھا کر اسے زمین کا حصہ بناسکے۔

    ماہرین کے مطابق پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے 1 سے 2 ہزار سال لگ سکتے ہیں۔

    پلاسٹک کی تباہ کاریوں کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔