Tag: پلے بیک سنگر

  • یومِ‌ وفات: کئی فلمی نغمات اخلاق احمد کی آواز میں امر ہوگئے

    یومِ‌ وفات: کئی فلمی نغمات اخلاق احمد کی آواز میں امر ہوگئے

    پاکستان فلم انڈسٹری میں‌ پسِ پردہ گائیکی کے لیے معروف اخلاق احمد 1999ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔ کئی فلمی گیتوں کو اپنی آواز دینے والے اخلاق احمد شوقیہ گلوکار تھے، اور خود بھی نہیں جانتے تھے کہ ایک دن انھیں پاکستان بھر میں پہچان اور بطور گلوکار شہرت ملے گی۔

    1952ء میں کراچی میں پیدا ہونے والے اخلاق احمد نے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد اسٹیج پروگراموں کے لیے شوقیہ گلوکاری کا سلسلہ شروع کیا اور اسی شوق ے دوران موقع ملا تو 1971ء میں ’’تم سا نہیں دیکھا‘‘ نامی فلم کے لیے ایک گانا ریکارڈ کروا دیا یہ فلم کراچی میں بنائی جارہی تھی، یہیں سے ان کے فلمی کیریئر کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد فلم ’’بادل اور بجلی‘‘ اور ’’پازیب‘‘ میں بھی اخلاق احمد کے گیت شامل ہوئے، لیکن انھیں خاص توجہ نہ ملی۔ مگر بعد کے برسوں‌ میں وہ ملک میں مقبول ترین گلوکاروں‌ کی صف میں‌ شامل ہوئے۔

    1974ء میں اداکار ندیم نے اپنی فلم ’’مٹی کے پتلے‘‘ میں اخلاق احمد کے آواز میں ایک نغمہ شامل کیا اور موسیقار روبن گھوش نے لاہور میں ان کی آواز میں اپنی فلم ’’چاہت‘‘ کا ایک نغمہ ’’ساون آئے، ساون جائے…‘‘ ریکارڈ کیا۔ اس نغمے کو بہت زیادہ پسند کیا گیا اور یہ فلمی دنیا کا ایک مقبول ترین نغمہ ثابت ہوا۔ بعد میں اخلاق احمد کو اسی گیت پر خصوصی نگار ایوارڈ بھی دیا گیا۔

    اس گلوکار کو پاکستان ٹیلی وژن کے پروگراموں میں مدعو کیا جانے لگا اور ان کے کئی گیت پی ٹی وی پر نشر ہوئے جس نے اخلاق احمد کو ملک بھر میں‌ عزت اور نام و مقام دیا۔ وہ ہر خاص و عام میں‌ مقبول تھے۔

    اخلاق احمد نے شرافت، دو ساتھی، پہچان، دلربا، امنگ، زبیدہ، انسان اور فرشتہ، انسانیت، مسافر، دوریاں، بسیرا جیسی کام یاب فلموں کے لیے گیت گائے جنھیں بہت پسند کیا گیا۔

    اخلاق احمد کو آٹھ نگار ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔ شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں‌ کو چھونے والے اس فن کار کو 1985ء میں خون کے سرطان کی تشخیص کے بعد علاج کی غرض سے لندن جانا پڑا جہاں وہ ہمیشہ کے لیے ہم سے بچھڑ گئے۔

    اخلاق احمد کراچی کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • پاکستانی فلم انڈسٹری کے معروف گلوکار مجیب عالم کی برسی

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے معروف گلوکار مجیب عالم کی برسی

    پاکستان کے نام وَر گلوکار مجیب عالم کی زندگی کا سفر 2004 میں تمام ہوا۔ 2 جون کو فلم نگری میں پسِ پردہ گائیکی کے لیے مشہور اس فن کار نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لی تھیں۔ آج مجیب عالم کی برسی منائی جارہی ہے۔

    ہندوستان کے شہر کان پور سے تعلق رکھنے والے مجیب عالم 1948ء میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ بے حد سریلی آواز کے مالک تھے۔ پہلی بار موسیقار حسن لطیف نے انھیں اپنی فلم نرگس میں گائیکی کا موقع دیا مگر یہ فلم ریلیز نہ ہوسکی۔ تاہم فلمی دنیا میں‌ ان کا سفر شروع ہوگیا تھا اور فلم مجبور کے گانے ان کی آواز میں‌ شائقین تک پہنچے۔ 1966ء میں انھوں نے فلم جلوہ اور 1967ء میں چکوری کا ایک نغمہ ریکارڈ کروایا جو بہت مقبول ہوا۔ اس نغمے کے بول تھے، وہ میرے سامنے تصویر بنے بیٹھے ہیں….

    مجیب عالم کو اس گیت کے لیے نگار ایوارڈ عطا کیا گیا۔ اس کے بعد کئی فلموں میں مجیب عالم نے اپنی آواز کا جادو جگایا اور یہ نغمات بہت مقبول ہوئے۔ ان کی آواز میں‌ جن فلموں کے گیت ریکارڈ کیے گئے ان میں دل دیوانہ، گھر اپنا گھر، جانِ آرزو، ماں بیٹا، شمع اور پروانہ، قسم اس وقت کی، میں کہاں منزل کہاں سرفہرست ہیں۔

    1960 کی دہائی میں مجیب عالم نے اس وقت اپنا فنی سفر شروع کیا تھا جب مہدی حسن اور احمد رشدی جیسے گلوکار انڈسٹری میں جگہ بنا رہے تھے۔ مجیب عالم نے یوں کھو گئے تیرے پیار میں ہم اور میں تیرے اجنبی شہر میں جیسے خوب صورت اور سدا بہار نغمات کو اپنی آواز دے کر امر کر دیا۔ “میرا ہر گیت ہے ہنستے چہروں کے نام” مجیب عالم کی آواز میں‌ نشر ہونے والا وہ نغمہ تھا جو بے حد مقبول ہوا۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کے اس نام وَر گلوکار کو کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا تھا۔

  • طلعت محمود کو سگریٹ پینے کی کیا سزا ملی؟

    طلعت محمود کو سگریٹ پینے کی کیا سزا ملی؟

    ایک زمانہ تھا جب اخلاقی قدریں، روایات اور کردار بہت اہمیت رکھتا تھا۔ مختلف شعبہ ہائے حیات میں غیر سنجیدہ طرزِ عمل، منفی عادت اور رویہ یا کوئی معمولی کوتاہی بھی کسی کے لیے مسئلہ بن جاتی تھی۔ ایسی صورتِ حال میں کسی شعبے میں اپنے سینئرز سے رعایت اور درگزر کی امید بھی کم ہی ہوتی تھی۔

    اس کی ایک مثال یہ واقعہ ہے جو ہم یہاں نقل کررہے ہیں۔

    یہ دنیائے موسیقی کی دو نہایت مشہور، باصلاحیت اور قابل شخصیات سے متعلق ہے جن میں سے ایک طلعت محمود ہیں جنھوں نے گلوکاری کے میدان میں خوب نام کمایا اور آج بھی ہم ان کی آواز میں کئی گیت نہایت ذوق و شوق سے سنتے ہیں اور انھیں پسند کرتے ہیں۔

    طلعت محمود نے ریڈیو سے گلوکاری کا سفر شروع کیا تھا اور جلد ہی مشہور فلم سازوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ اپنے وقت کے نام ور موسیقاروں نے ان کی آواز کو معتبر اور پُرسوز مانا۔

    ایک وقت آیا کہ فلم انڈسٹری کی قد آور شخصیات اور کام یاب فلم سازوں نے ان کے کمالِ فن کا اعتراف کیا۔

    طلعت محمود خوب رُو اور پُرکشش شخصیت کے مالک تھے اور مشہور فلم ساز کے کہنے پر اداکاری بھی کی، لیکن درجن سے زائد فلموں میں کام کرنے کے باوجود وہ شائقین کو اس روپ میں متأثر نہ کرسکے۔

    تب وہ اپنی دنیا میں یعنی گلوکاری کی طرف لوٹ آئے اور ان کی آواز میں کئی گانے مشہور ہوئے۔

    طلعت محمود کے بعد ہم ماسٹر نوشاد کا تذکرہ کریں گے جنھیں ہندوستان کا عظیم موسیقار مانا جاتا ہے۔

    ماسٹر نوشاد کی خوب صورت اور دل موہ لینے والی دھنوں کے ساتھ طلعت محمود کی پُرسوز آواز نے ہندوستان میں‌ سنیما کے شائقین کو گویا اپنے سحر میں جکڑ لیا تھا۔

    ماسٹر نوشاد ایک وضع دار، اپنی اقدار اور روایات سے محبت کرنے والے، سنجیدہ اور متین انسان تھے۔

    ایک مرتبہ انھوں نے طلعت محمود کو سگریٹ پیتے دیکھ لیا اور اس کے بعد کبھی اس مشہور گلوکار کے ساتھ کام نہیں کیا۔

    کہتے ہیں اس واقعے کے بعد طلعت محمود ایک بار بھی ماسٹر نوشاد کی ترتیب دی ہوئی موسیقی کے لیے کوئی غزل یا گیت ریکارڈ نہیں کروا سکے۔

  • برصغیر کے مشہور گلوکار کی درجن بھر ناکامیوں کی روداد!

    برصغیر کے مشہور گلوکار کی درجن بھر ناکامیوں کی روداد!

    فلم انڈسٹری میں درجن سے زائد فلموں میں اداکاری کا موقع دیے جانے کے باوجود طلعت محمود شائقین کو متأثر نہ کرسکے.

    انھوں‌ نے فلم سازوں کو بھی مایوس کیا، مگر اس میدان میں نامراد اور ناکام طلعت محمود آج بھی سُر اور آواز کی دنیا کا بڑا نام ہیں۔ گلوکار کی حیثیت سے مشہور طلعت محمود کو اس وقت کے نام ور فلم ساز اے آر کاردان نے اداکاری کے میدان میں قسمت آزمانے کا مشورہ دیا تھا۔

    برصغیر میں پسِ پردہ گائیکی کے حوالے سے طلعت محمود کا نام شہرت کی بلندیوں پر تھا جب انھوں نے فلم راج لکشمی سائن کی۔ یہ 1945 کی بات ہے۔ وہ بڑے پردے پر ہیرو کے روپ میں نظر آئے۔ اس وقت ممبئی کی فلم نگری میں طلعت محمود کے اس فیصلے کا تو بہت شور ہوا، لیکن بڑے پردے پر اداکار کے روپ میں انہیں پزیرائی نہ ملی۔ پہلی فلم کی ناکامی کے باوجود طلعت محمود کو بڑے بینر تلے مزید فلموں میں رول دیے گئے، لیکن ہر بار ناکامی ان کا مقدر بنی۔

    لالہ رخ، ایک گاؤں کی کہانی، دیوالی کی رات، وارث، سونے کی چڑیا، ٹھوکر وہ فلمیں ہیں جن میں طلعت محمود نے اپنے وقت کی مشہور ہیروئنوں کے ساتھ کام کیا۔ ان میں نوتن، مالا سنہا اور ثریا شامل ہیں۔

    فلم نگری بہ حیثیت گلوکار ان کی شہرت کا آغاز آرزو نامی فلم کے گیت ‘‘اے دل مجھے ایسی جگہ لے چل جہاں کوئی نہ ہو’’ سے ہوا۔ فلم داغ کے لیے انہوں نے ‘‘اے میرے دل کہیں اور چل’’ اور ‘‘ہم درد کے ماروں کا’’ جیسے گیت گائے اور اپنے فن کو منوایا۔

    طلعت محمود کے والد آل انڈیا ریڈیو پر نعتیں پڑھا کرتے تھے۔ لکھنؤ کے طلعت کو بچپن ہی سے گانے کا شوق ہو گیا تھا اور ایک وقت آیا کہ فلم انڈسٹری کے بڑے ناموں اور گائیکوں نے ان کے کمال فن کا اعتراف کیا۔

    1940 میں طلعت محمود 16 برس کے تھے جب انھوں نے آل انڈیا ریڈیو، لکھنؤ پر اپنی آواز میں ایک گیت ریکارڈ کروایا تھا۔ بعد میں گلوکاری کے میدان میں کام یابیاں ان کا مقدر بنتی چلی گئیں۔ تاہم اداکاری کے میدان میں بری طرح ناکام رہے۔

  • گلوکار اے نیئر انتقال کرگئے، وزیراعظم کا اظہار افسوس

    گلوکار اے نیئر انتقال کرگئے، وزیراعظم کا اظہار افسوس

    لاہور: پلے بیک سنگر اے نیئر 66 برس کی عمر میں انتقال کرگئے، وہ طویل عرصے سے علالت کا شکار تھے۔

    تفصیلات کے مطابق لالی ووڈ کے معروف پلے بیک سنگر اے نیر انتقال کرگئے، ان کی عمر 66 برس تھی اور وہ طویل عرصے سے علالت کا شکار تھے، مرحوم کے سوگواروں میں بیوہ اور تین بیٹیاں شامل ہیں۔

    nayar-post-1

    اے نیر نے 1974ء میں گلوکاری کا آغاز کیا، بہترین گلوکاری پر انہوں نے پانچ بار نگار ایوارڈ بھی حاصل کیا، چار ہزار دو سو گیت گائے

     

    ان کے مشہور گانوں میں ’’میں تو جلا ایسا جیون بھر کیا کوئی دیپ جلا ہوگا‘‘، ’’ملے دو ساتھی کھلی دو کلیاں‘‘،’’ ہم اور تم تم اور ہم‘‘ ، ’’اک بات کہوں دل دارہ‘‘، ’’جنگل میں منگل‘‘،’’کرتا رہوں گا یاد تجھے میں ہونہی صبح و شام اور دیگر شامل ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے نمائندے نعیم حنیف کے مطابق اے نیئر نے انہیں خود بتایا تھا کہ گلوکار نے پرائیڈ آف پرفارمنس کے لیے کئی باراپلائی کیا تاہم انہیں ایوارڈ نہیں دیا گیا۔

    اے نیئر مداحوں کے دلوں میں زندہ رہیں گے، وزیراعظم کا اظہار افسوس

    وزیراعظم نواز شریف نے اے نیئر کے انتقال پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا ہے کہ فن موسیقی کے فروغ میں مرحوم کی خدمات قابل تحسین ہیں،وہ مداحوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔