Tag: پناہ گزین

  • لیبیا، ساحلی علاقے سے 74 افراد کی لاشیں برآمد

    لیبیا، ساحلی علاقے سے 74 افراد کی لاشیں برآمد

    ٹریپولی : لیبیا کے جنوبی ساحل سے تین خواتین سمیت 74 پناہ گزینوں کی لاشیں برآمد ہوئی ہیں جن کی شناخت تاحال نہیں ہو سکی ہے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق لیبیا کے جنوبی علاقے میں موجود شہر الذاویہ کے ساحلی علاقے سے 74 پناہ گزینوں کی لاشیں ملی ہیں جن میں اکثریت ادھیڑ عمر مردوں کی ہیں تا ہم جاں بحق ہونے والوں میں تین خواتین بھی شامل ہیں۔

    ریسکیو ادارے کے ترجمان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ لاشوں کی حالت زار سے معلوم ہوتا ہے کہ لاشیں دو روز پرانی ہیں جب کہ خدو خال اور شکل و صورت سے تمام افراد ادھیڑ عمر افریقی مرد لگتے ہیں جب کہ تین خواتین کی بھی لاشیں ملی ہیں۔

    الذاویہ کے ساحل سے ملنے والی 74 پناہ گزینوں کی لاشیں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں بلکہ غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے کی کوشش میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھونے کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

    واضح رہے لیبیا یورپ میں داخل ہونے کا بنیادی راستہ ہے جہاں سے کئی پناہ گزین اچھے مستقبل کا خواب آنکھوں میں سجائے سرحد پار کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس میں کچھ خوش قسمت لوگ تو کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن اکثر بدنصیب بے رحم لہروں کی خوراک بن جاتے ہیں۔

    حالیہ دنوں میں ایسے واقعات میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس کی وجہ عالمی سطح پر جاری خانہ جنگی کے علاوہ غربت کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔

  • پناہ گزینوں سے اظہار یکجہتی کے لیے واشنگٹن میں ہڑتال

    پناہ گزینوں سے اظہار یکجہتی کے لیے واشنگٹن میں ہڑتال

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پناہ گزینوں کے لیے نفرت انگیز پالیسی کے خلاف واشنگٹن میں ’ہڑتال‘ کرتے ہوئے کئی ریستوران احتجاجاً بند کردیے گئے۔

    امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں پناہ گزینوں سے اظہار یکجہتی کے طور پر بڑی بڑی فوڈ چینز سمیت متعدد ریستورانوں نے اپنی شاخیں ایک دن کے لیے بند کردیں۔ ریستورانوں نے اس دن کو ’ایک دن پناہ گزینوں کے بغیر‘ کے طور پر منایا۔

    ہڑتال کے موقع پر امریکی دفاعی ادارے پینٹاگون اور وائٹ ہاؤس کے قریب واقع ریستورانوں سمیت پورے واشنگٹن میں 70 کے قریب ریستوران بند کردیے گئے۔

    us-2

    ریستورانوں کی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ ان کا کم معاوضے لینے والا زیادہ تر اسٹاف پناہ گزینوں پر مشتمل ہے۔ اس ہڑتال کا مقصد یہ باور کروانا تھا کہ پناہ گزین امریکی معیشت کے لیے کس قدر ضروری ہیں۔

    واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس سے تھوڑے ہی فاصلے پر واقع ایک ریستوران سویٹ گرین کے مالکان نے کہا، ’ہم تینوں (ریستوران کو قائم کرنے والے) بھائی ایک پناہ گزین کی اولاد ہیں۔ ہم اپنے ریستوان میں کام کرنے والے ان افراد کا احترام کرتے ہیں جو امریکی نہیں ہیں‘۔

    یہ ہڑتال صرف ریستورانوں تک ہی محدود نہیں رہی۔

    us-3

    پورے امریکا میں نیویارک سے لاس اینجلس تک ہزاروں پناہ گزین اس دن اپنے گھروں تک محدود رہے، انہوں نے اپنے بچوں کو اسکول جانے سے روک دیا، علاوہ ازیں انہوں نے پیٹرول اور دیگر ضروری اشیا کی خریداری سے گریز کر کے حکومت کو یہ پیغام دیا کہ وہ امریکی معیشت کا ایک لازمی جزو ہیں۔

    ریاست میسا چوسٹس میں بھی ایک میوزیم نے ان تمام یادگاروں کو اپنی گیلریوں سے ہٹا دیا جو پناہ گزینوں کی بنائی ہوئی یا ان کی جانب سے عطیہ کی گئی تھیں۔

    یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے عہدے کا حلف اٹھاتے ہی 7 مسلمان ممالک کے شہریوں پر امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کردی تھی، تاہم ایپلیٹ کورٹ نے اس فیصلے کو معطل کردیا تھا۔ عدالت اور صدر کے درمیان اس معاملے پر تاحال قانونی جنگ جاری ہے۔

  • امریکی ایئرپورٹ پر متعدد پناہ گزین آتے ہی زیرحراست

    امریکی ایئرپورٹ پر متعدد پناہ گزین آتے ہی زیرحراست

    نیو یارک : نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دستخط کرتے ہی انتظامیہ نے پُھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایئر پورٹ پر ہی متعدد پناہ گزینوں کو حراست میں لے لیا، انسانی حقوق کی تنظیموں نے نیویارک کی عدالت میں ان پناہ گزینوں کو رہا کرنے کے لیے مقدمہ دائر کیا ہے جنہیں جان ایف کینیڈی ایئر پورٹ پر حراست میں رکھا گیا ہے۔

    برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر چھ مسلمان ممالک کے باشندوں کا امریکہ میں 90 دن تک داخلہ بند ہے۔

    اس حکم نامے پر عملدرآمد کا طریقۂ کار تاحال واضح نہیں ہے۔ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اس پابندی کے فوری نفاذ کے لیے کام کر رہے ہیں۔

    نیویارک میں دو عراقی پناہ گزینوں کو حراست میں لیا گیا ہے جن میں سے ایک امریکی فوج کے ساتھ مترجم کے طور پر کام کرتا تھا۔ یہ لوگ جمعے کو ہوائی اڈے کے ٹرانسٹ حصے میں تھے جس وقت اس حکم نامے پر دستخط کیے گئے اور انہیں وہیں روک دیا گیا۔

    دوسری جانب امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ان اقدامات کا مقصد شدت پسند اسلامی دہشت گردی کو امریکہ سے باہر رکھنا ہے۔ لیکن اس حوالے سے انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ شامی پناہ گزینوں اور دہشت گردی کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

  • شامی پناہ گزین کا ڈونلڈ ٹرمپ کے نام خط

    شامی پناہ گزین کا ڈونلڈ ٹرمپ کے نام خط

    امریکا کے 45 ویں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دو روز قبل اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔ حلف اٹھاتے ہی انہوں نے پہلے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط بھی کردیے۔

    لیکن دنیا کے لیے باعث تشویش ان کے وہ بیانات ہیں جو وہ وقتاً فوقتاً اپنی انتخابی مہم کے دوران دیتے رہے ہیں۔ میکسیکو کے ساتھ دیوار بنانے اور پناہ گزینوں کو ملک سے نکال دینے کے ان کے بیانات نے دنیا کے مستقبل پر ایک سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے جو اس وقت تاریخ میں پناہ گزینوں کی سب سے بڑی تعداد کی میزبانی کر رہی ہے۔

    مشرق وسطیٰ کا ملک شام گزشتہ 5 برسوں سے جنگ کا شکار ہے اور وہاں سے 40 لاکھ لوگ ہجرت کر کے دربدر دھکے کھانے پر مجبور ہیں۔ کچھ خوش نصیبوں کو کسی ملک میں پناہ مل گئی، کوئی تاحال سرحد پر حسرت و یاس کی تصویر بنا بیٹھا ہے۔

    ایسے ہی ایک شامی پناہ گزین نے ڈونلڈ ٹرمپ کے نام خط لکھا ہے۔ عبدالعزیز نامی 18 سالہ نوجوان اپنے خط میں لکھتا ہے۔

    محترم ڈونلڈ ٹرمپ!

    میں ان 40 لاکھ مہاجرین میں سے ایک ہوں جنہیں شام سے ہجرت کرنی پڑی۔ ہم اپنے دل اور اپنے پیاروں کی لاشوں کو پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ یہ دونوں ہی کہیں کسی سڑک پر دفن ہوچکے ہیں۔

    میں آپ کو صدارت کے عہدے کی مبارکباد دیتا ہوں، لیکن ساتھ ہی آپ کو یاد دلاتا چلوں کہ آپ کے الفاظ ہمارے مستقبل کا تعین کریں گے۔

    ہم نے اس انقلاب کا آغاز پھولوں کے ساتھ کیا تھا اور ہمیں امید تھی کہ عالمی برادری ہمارا ساتھ دے گی۔ برسوں گزر گئے، پھول ہتھیاروں میں تبدیل ہوگئے، لیکن ہماری امید اب بھی برقرار ہے۔

    ہم شامیوں میں سے کوئی بھی اپنا گھر، اپنا ملک نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔ لیکن جب زمین پر ٹینک ہوں، اور آسمان سے موت برس رہی ہو تو ہم کیا کرسکتے ہیں؟ ہم اپنے تباہ شدہ گھروں اور شہروں کو دیکھتے ہوئے پہلے ترکی گئے پھر یونان گئے۔

    مزید پڑھیں: شامی فنکار اپنے ثقافتی ورثے کو بچانے کے لیے سرگرداں

    اب ہم پناہ گزین ہیں۔ اور کیا آپ جانتے ہیں، ایک مہاجر کیمپ میں رہتے ہوئے سب سے تکلیف دہ بات کیا ہے؟ وہ ہے اچھوتوں کی طرح علیحدہ کردینا۔ لوگ ہمارے کیمپوں کے گرد دیواریں بنا رہے ہیں۔ ملک ان دیواروں کے گرد مزید دیواریں بنا رہے ہیں۔

    ہم کمزور ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ عالمی برادری ہماری مدد کرے۔ صرف یقین اور امید ہی ہمیں آگے بڑھنے پر مجبور کر رہی ہے۔

    محترم صدر!

    دیواریں خوابوں کو قتل کردیتی ہیں۔ میں نے خوابوں کو ان جسموں سے پہلے مرتے دیکھا ہے جن میں وہ قید تھے۔ یہ قتل انسان کی روح کو ختم کردیتا ہے۔ ابھی ہم جیسے کچھ لوگ ہیں جنہیں کچھ امید باقی ہے، خدارا ہمارے گرد دیواریں نہ قائم کریں۔

    عزیز صدر!

    آپ کے الفاظ ہمارے مستقبل کا تعین کریں گے۔ ہوسکتا ہے کل میں ایک پناہ گزین نہ رہوں، کسی ملک میں مجھے سر چھپانے کو کوئی محفوظ مقام مل جائے۔ ہوسکتا ہے کل کو میں اپنے وطن واپس لوٹ جاؤں اور پھر سے اسے تعمیر کروں۔ یہ سب کچھ آپ پر منحصر ہے۔

    مجھے امید ہے کہ کوئی ہماری آواز ضرور سنے گا۔ مجھے امید ہے کہ آپ ہمیں ضرور سنیں گے اور سمجھیں گے۔

    مضمون بشکریہ: الجزیرہ

  • پولیس افسر اور پناہ گزین خاتون کی محبت کی کہانی

    پولیس افسر اور پناہ گزین خاتون کی محبت کی کہانی

    عراق اور شام کی خانہ جنگی نے لاکھوں افراد کو بے گھر کردیا اور ان افراد کی دوسرے ممالک میں داخلے کی ناکام کوششوں، اور دربدری کی زندگی نے جہاں بے شمار ناخوشگوار واقعات اور المیوں کو جنم دیا وہیں یہ حالات کسی کی زندگی کو خوشگوار بنانے کا سبب بھی بن گئے۔

    نورا ارکوازی اور بوبی ڈوڈوسکی بھی ایسے ہی افراد تھے جن کی زندگی ان حالات کے باعث مکمل طور پر تبدیل ہوگئی اور یہ تبدیلی نہایت خوشگوار تھی۔

    ان دونوں کی پہلی ملاقات نہایت ہی عجیب و غریب انداز میں ہوئی جسے حسن اتفاق یا رومانوی ہرگز نہیں کہا جاسکتا۔ نورا عراق کے جنگ زدہ علاقے سے ہجرت کر کے اپنے خاندان اور دیگر درجنوں افراد کے ساتھ مقدونیہ میں داخل ہونے کی کوشش کر رہی تھیں اور بوبی ان پولیس اہلکاروں میں شامل تھے جو کسی غیر متوقع صورتحال سے نمٹنے کے لیے وہاں موجود تھے۔

    بوبی اس ڈیوٹی پر اپنے ایک ساتھی کی جگہ پر نہایت ہی غیر متوقع طور پر موجود تھے۔

    refugee-2

    دوسری جانب نورا اپنی والدہ، بھائی اور بہن کے ساتھ اپنا گھر چھوڑ کر ایک طویل سفر طے کر کے مقدونیہ پہنچی تھیں۔

    دیگر لاکھوں مہاجرین کی طرح نورا بھی کسی یورپی ملک میں جا کر روزگار حاصل کرنا چاہتی تھیں۔ اس کے لیے ان کی نظر جرمنی پر تھی۔ وہ کہتی ہیں ’میں اپنے خاندان کے ساتھ جرمنی جانا چاہتی تھی۔ لیکن مجھے نہیں پتہ تھا کہ میری قسمت مجھے کہاں دھکیل رہی ہے‘۔

    مزید پڑھیں: موت برسانے والے جنگی ہتھیار گہرے رنگوں میں رنگ گئے

    جب ان دونوں کی پہلی ملاقات ہوئی تو نورا شدید بخار کی حالت میں تھیں۔ انہیں واحد فکر یہ تھی کہ کیا انہیں اور ان کے خاندان کو مقدونیہ میں پناہ مل سکتی ہے۔ اس وقت اکثر مغربی ممالک نے پناہ گزینوں کے لیے اپنے دروازے بند کر دیے تھے لہٰذا وہاں ہجرت کر کے آنے افراد کو علم نہیں تھا کہ ان کا مستقبل کیا ہوگا۔

    ان کے مطابق جب انہوں نے وہاں موجود پولیس اہلکاروں سے گفتگو کرنا چاہی تو ان سب نے انہیں بوبی کی طرف بھیج دیا کیونکہ اس وقت وہ واحد پولیس اہلکار تھے جو انگریزی میں گفتگو کرسکتے تھے۔

    refugee-4

    نورا نے بوبی سے اپنی اور اپنی بیمار والدہ کے بارے میں پوچھا کہ کیا انہیں علاج کی مناسب سہولیات مل سکیں گی۔ بوبی نے انہیں صرف چند الفاظ کہے، ’فکر مت کرو، سب ٹھیک ہوجائے گا‘۔

    نورا اس وقت کو یاد کرتے ہوئے ہنستی ہیں کہ بوبی ان سے بات کرتے ہوئے انہیں دیکھے بنا رہ نہیں پا رہے تھے۔

    بعد ازاں ان لوگوں کی مزید ملاقاتیں ہوئیں۔ نورا نے وہیں پر ریڈ کراس کے لیے کام کرنا شروع کردیا تھا جبکہ بوبی بھی وہاں موجود پناہ گزینوں کی مدد کے لیے کوشاں تھے۔ اپنے دیگر ساتھیوں کے برعکس بوبی پناہ گزین بچوں کے ساتھ کھیلا کرتے اور بڑوں کی مدد کرتے۔

    مزید پڑھیں: پناہ گزین بچوں کے خواب

    بالآخر کچھ عرصے بعد بوبی نے نورا کو شادی کی پیشکش کی جو نورا نے قبول تو کرلی۔ مگر انہیں اپنے خاندان کی مخالفت کا ڈر تھا کہ شاید وہ اسے کسی غیر مسلم شخص سے شادی نہ کرنے دیں۔

    تاہم ان کے خدشات غلط ثابت ہوئے اور نورا کے والدین نے کسی قدر غصے سے مگر اجازت دے دی۔

    refugee-3

    ان دونوں کی شادی بھی نہایت منفرد تھی جو تمام مذاہب کے 120 افراد کے سامنے منعقد کی گئی۔ مہمانوں نے کئی گھنٹے رقص کیا اور گانے گائے۔

    نورا اب بوبی کے ساتھ ان کے گھر میں رہتی ہیں اور یہ جوڑا نہایت ہنسی خوشی زندگی گزار رہا ہے۔ بوبی اس سے قبل بھی دو بار شادی کر چکے تھے جن سے ان کے 3 بچے ہیں۔ نورا بھی حاملہ ہیں اور وہ بوبی کے بچوں کے ساتھ نہایت پرسکون زندگی گزار رہی ہیں۔

    یہ دونوں لوگوں کو پیغام دیتے ہیں، ’کسی کی فکر مت کریں، صرف اپنے آپ پر یقین کریں اور محبت پر یقین رکھیں۔ اس کے بعد زندگی خوبصورت ہوجائے گی‘۔

  • شامی مہاجرین کی مشکلات میں اضافہ

    شامی مہاجرین کی مشکلات میں اضافہ

    دمشق: شام میں خانہ جنگی کے باعث کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور شامی مہاجرین کی مشکلات میں شدید سردی اور برفباری نے مزید اضافہ کردیا۔

    اپنے ہی ملک میں پناہ گزینوں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور شامی مہاجرین کی مشکلات کم ہونے کے بجائے بڑھتی جا رہی ہیں۔ کیمپوں میں پناہ گزین بچوں، بوڑھوں اور خواتین کو موسم کی شدت کا سامنا ہے۔

    مزید پڑھیں: پناہ گزین بچوں کے خواب

    شام کے شہر ادلب کے پناہ گزین کیمپوں میں بدترین صورتحال میں زندگی گزارتے افراد نا کافی سہولتوں کے ساتھ شدید سردی اور برفباری کا مقابلہ کرنے پر مجبور ہیں۔

    ایک شامی شخص کا کہنا ہے کہ انہیں گھر سے بے گھر ہوئے 2 سال ہوگئے ہیں۔ جہاں کیمپ قائم ہے یہ زرعی زمین ہے اور رہائش کے قابل نہیں لیکن وہ یہاں رہنے پر مجبور ہیں۔ ہم کیمپ کے اور دیگر اخراجات خود اٹھا رہے ہیں۔

    مزید پڑھیں: اکیا کا اسٹور شامی خانہ جنگی سے تباہ حال گھر میں تبدیل

    اقوام متحدہ کے مطابق پچھلے 5 سال سے جاری شامی خانہ جنگی اب تک 4 لاکھ افراد کی جانیں لے چکی ہے۔

    شام اور عراق کے جنگ زدہ علاقوں سے ہجرت کرنے والے افراد کی تعداد تاریخ میں مہاجرین کی سب سے بڑی تعداد ہے اور دنیا نے اس سے قبل کبھی اتنی زیادہ تعداد میں مہاجرین کی میزبانی نہیں کی۔

  • حلب میں جنگ سے متاثر بچے نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار

    حلب میں جنگ سے متاثر بچے نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار

    حلب: اقوام متحدہ کے ادارہ اطفال یونیسف کا کہنا ہے کہ شام کے جنگ زدہ شہر حلب میں خوفناک بربادی و تباہی دیکھنے والے بچے شدید صدمے اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہو رہے ہیں۔

    حلب میں یونیسف کے فیلڈ آفس کے نگران رڈوسلا رزاک کا کہنا ہے کہ حلب میں تمام بچے اس سے متاثر ہیں اور تمام ہی بچے صدموں اور مختلف نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار ہو رہے ہیں۔

    رزاک گزشتہ 15 سال سے یونیسف کے لیے حلب میں کام کر رہے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے بچوں کی نفسیات میں یہ ڈرامائی اور پریشان کن تبدیلیاں پہلی بار دیکھی ہیں۔

    child-2

    اقوام متحدہ کے مطابق گزشتہ 5 سال سے جاری شامی خانہ جنگی سے اب تک 8 ہزار سے زائد بچے متاثر ہوچکے ہیں۔ سینکڑوں بچے جنگ کے دوران مارے گئے، کئی ایسے ہیں جو اپنے والدین کے ساتھ قیدی بنا لیے گئے اور قید خانوں میں انہوں نے سخت اذیتیں سہیں۔

    یونیسف اہلکار رزاک کا کہنا ہے کہ حلب میں نصف سے زائد بچوں کو نفسیاتی علاج اور جذباتی سہارے کی ضرورت ہے، ان میں سے بڑی تعداد ایسے بچوں کی ہے جنہیں طویل عرصہ تک ماہرین کی زیر نگرانی طبی و نفسیاتی علاج چاہیئے۔

    :دوران جنگ پیدا ہونے والے بچے

    یونیسف کے مطابق حلب میں بہت سے بچے ایسے ہیں جو جنگ شروع ہونے کے بعد پیدا ہوئے۔ ان کی عمریں اب 1 سے 5 سال کے درمیان ہیں اور اس مختصر زندگی میں انہوں نے سوائے خون خرابے اور بمباری کے کچھ نہیں دیکھا۔ ’اس نے ان کی نفسیات کو مکمل طور پر تبدیل کردیا ہے‘۔

    رزاک نے بتایا کہ ان بچوں کے لیے یہ ایک معمول کی سی بات بن گئی ہے کہ وہ کئی دن تک بھوکے رہیں، بمباری ہو تو اپنی جان بچانے کے لیے بھاگیں یا اپنے والدین کے ساتھ زیر زمین بنکرز میں جا چھپیں۔ ’یہ ان کے لیے کوئی خطرے والی بات نہیں۔ یہ ان کے لیے روزمرہ کی معمول کی زندگی ہے‘۔

    مزید پڑھیں: شامی بچوں کے لیے مسکراہٹ لانے والا ٹوائے اسمگلر

    مزید پڑھیں: پناہ گزین بچوں کے خواب

    رزاک کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کے بھی عادی نہیں کہ ان کے والدین کو ان کی حفاظت کرنی ہے۔ کیونکہ بمباری کے وقت ان کے والدین خود اپنی جانیں بچانے کی جدوجہد کرتے ہیں، علاوہ ازیں وہ خود اپنے لیے بھوک پیاس اور مختلف نفسیاتی مسائل سے برسر پیکار ہیں۔

    واضح رہے کہ مارچ 2011 سے شروع ہونے والی شام کی اس خانہ جنگی میں اب تک 3 لاکھ سے زائد افراد مارے جاچکے ہیں جبکہ لاکھوں ایسے ہیں جو شام سے ہجرت کر چکے ہیں اور مہاجرین کیمپوں میں رہائش پذیر ہیں یا پناہ کی تلاش میں تا حال دربدر پھر رہے ہیں۔

  • شامی بچوں کے لیے مسکراہٹ لانے والا ٹوائے اسمگلر

    شامی بچوں کے لیے مسکراہٹ لانے والا ٹوائے اسمگلر

    ایک جنگ زدہ علاقہ میں، جہاں آسمان سے ہر وقت موت برستی ہو، کھانے کے لیے اپنوں کی جدائی کا جان لیوا غم اور پینے کے لیے صرف خون دل میسر ہو، وہاں بچوں کو کھیلنے کے لیے، اگر وہ جنگ کے ہولناک اثرات میں دماغی طور پر اس قابل رہ جائیں، بھلا تباہ شدہ عمارتوں کی مٹی اور پتھر کے علاوہ اور کیا میسر ہوگا؟

    جنگ زدہ علاقوں میں جہاں اولین ترجیح اپنی جان بچانا، اور دوسری ترجیح اپنے اور اپنے بچے کھچے خاندان کے پیٹ بھرنے کے لیے کسی شے کی تلاش ہو وہاں کس کو خیال آئے گا کہ بچوں کی معصومیت ابھی کچھ باقی ہے اور انہیں کھیلنے کے لیے کھلونے درکار ہیں۔

    یقیناً کسی کو بھی نہیں۔

    مزید پڑھیں: پناہ گزین بچوں کے خواب

    تب مشرق کے سورج کی طرح ابھرتا دور سے آتا ’کھلونا اسمگلر‘ ہی ان بچوں کی خوشی کا واحد ذریعہ بن جاتا ہے جو سرحد پار سے ان کے لیے کھلونے ’اسمگل‘ کر کے لاتا ہے۔

    toy-2

    بچوں میں ’ٹوائے انکل‘ کے نام سے مشہور یہ اسمگلر دراصل 44 سالہ رامی ادھم ہے جو فن لینڈ کا رہائشی ہے لیکن اس کی جڑیں یہیں جنگ زدہ علاقوں میں مٹی کا ڈھیر بنی عمارتوں کے نیچے کہیں موجود ہیں، تب ہی تو یہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر خطرناک طریقے سے سرحد عبور کر کے ان بچوں کے چہرے پر مسکراہٹ لانے کے لیے آتا ہے۔

    toy-6

    سنہ 1989 میں اچھے مستقبل کی تلاش کے لیے فن لینڈ کا سفر اختیار کرنے والے 44 سالہ رامی کا بچپن حلب کی ان ہی گلیوں میں گزرا جو اب اپنے اور بیگانوں کی وحشیانہ بمباری کا شکار ہے۔

    رامی بتاتا ہے، ’جب بچے مجھے آتا دیکھتے ہیں تو دور ہی سے ’ٹوائے انکل‘ کے نعرے لگانا شروع کردیتے ہیں۔ میری آمد کی خبر لمحوں میں یہاں سے وہاں تک پھیل جاتی ہے اور جب میں تباہ حال شہر کے مرکز میں پہنچتا ہوں تو سینکڑوں بچے چہروں پر اشتیاق سجائے میرا انتظار کر رہے ہوتے ہیں‘۔

    اس کا کہنا ہے کہ جب وہ اپنے سبز بیگ میں سے کھلونے نکال کر بچوں میں تقسیم کرتا ہے اس وقت ان بچوں کی خوشی ناقابل بیان ہوتی ہے۔

    toy-3

    رامی ان کھلونوں کے لیے فن لینڈ میں عطیات جمع کرتا ہے۔ وہ لوگوں سے ان کے بچوں کے پرانے کھلونے دینے کی بھی اپیل کرتا ہے۔ پچھلے 2 سال سے چونکہ شام کی سرحد کو بند کیا جاچکا ہے لہٰذا وہ قانونی طریقہ سے شام تک نہیں جاسکتا اور مجبوراً اسے اسمگلنگ کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔

    لیکن یہ اسمگلنگ ایسی ہے جو غیر قانونی ہوتے ہوئے بھی غیر انسانی نہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ اب تک زندہ سلامت ہے اور کامیابی سے اس اسمگلنگ کو  جاری رکھے ہوئے ہے۔ رامی کے مطابق فن لینڈ اور ترکی میں اس کے کچھ واقف کار ہیں جو اسے بحفاظت سرحد پار کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ وہ اسے ’جوائے اسمگلر‘ یعنی خوشی کے اسمگلر کا نام دیتے ہیں۔

    toy-4

    پچھلے 5 سال سے جاری شام کی خانہ جنگی کے دوران رامی 28 مرتبہ بڑے بڑے تھیلوں میں بچوں کے لیے خوشی بھر کر لاتا ہے۔ اس دوران اسے 6 سے  7 گھنٹے پیدل چلنا پڑتا ہے۔ کئی بار اس کے شام میں قیام کے دوران جھڑپیں شروع ہوجاتی ہیں جن کے دوران اسے گولیوں سے بچنے کے لیے ادھر ادھر بھاگنا اور چھپنا بھی پڑتا ہے۔

    رامی بتاتا ہے، ’شام کے لوگوں کا بیرونی دنیا سے اعتبار اٹھ چکا ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ ان پر ٹوٹنے والے اس عذاب میں ساری دنیا شامل ہے۔ وہ اپنے انسان ہونے کی شناخت بھی بھول چکے ہیں‘۔

    رامی نے فن لینڈ میں ایک ’گو فنڈ می‘ نامی مہم بھی شروع کر رکھی ہے جس کے تحت وہ شام میں اسکول قائم کرنے کے لیے عطیات جمع کر رہا ہے۔ وہ یہ اسکول جنگ و جدل سے دور ترکی کی سرحد کے قریب بنانا چاہتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اپنے حالیہ دورے میں وہ ایک اسکول کا بنیادی ڈھانچہ قائم کرچکا ہے۔

    toy-5

    اس رقم سے وہ اب تک حلب کے 4 اسکولوں کی بھی امداد کر چکا ہے جو مختلف تباہ شدہ عمارتوں اور سڑکوں پر قائم ہیں۔

    شامی نژاد رامی خود بھی 6 بچوں کا باپ ہے اور اس کا عزم ہے کہ جب تک شامی بچوں کو اس کی ضرورت ہے وہ ان کے لیے یہاں آتا رہے گا۔ ’میں اپنے مشن سے کبھی نہیں رکوں گا، نہ کوئی مجھے روک سکتا ہے‘۔

    مزید پڑھیں: خدارا شام کے مسئلہ کا کوئی حل نکالیں

    واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق شام کی 5 سالہ خانہ جنگی کے دوران اب تک 4 لاکھ شامی ہلاک ہوچکے ہیں جن میں 15 ہزار کے قریب بچے بھی شامل ہیں۔ شام اور عراق میں لاکھوں بچے ایسے ہیں جو جنگی علاقوں میں محصور ہیں اور تعلیم و صحت کے بنیادی حقوق سے محروم اور بچپن ہی سے نفسیاتی خوف کا شکار ہیں۔

  • یورپی یونین نازک دورسےگزرررہی ہے،انجیلامرکل

    یورپی یونین نازک دورسےگزرررہی ہے،انجیلامرکل

    براتیسلوا: جرمن چانسلر انجیلامرکل کاکہناہےکہ یورپی یونین نازک دور سے گزررہی ہےاورلوگوں کااعتماد دوبارہ حاصل کرنےکےلیے سیکورٹی،دفاعی اورمعاشی معاملات میں بہتری لانے کی ضرورت ہے

    تفصیلات کےمطابق سلوواکیا کے دارالحکومت براتیسلوا میں ہونے والے سربراہی اجلاس کے بعد اتحاد کی علامت کے طور پر مشترکہ پریس کانفرنس منعقد ہوئی۔

    اجلاس میں جرمن چانسلر انجیلا مرکل اور فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند نے اس موقع پر کہا کہ پناہ گزینوں کا بحران ایک کلیدی معاملہ ہے۔

    صدر اولاند نے کہا ہم نے کسی چیز سے نظریں نہیں چرائیں ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہمیں پناہ گزینوں کے معاملے سے مشترکہ طور پر نمٹنا ہو گا،اور ساتھ ہی ساتھ سیاسی پناہ حاصل کرنے کے حق کا پاس بھی رکھنا ہوگا۔

    مزید پڑھیں:جرمن چانسلرتارکینِ وطن کی حمایت میں اپنے شہریوں کے خلاف صف آراء

    پناہ گزینوں کے بڑی تعداد میں یورپ پہنچنے کے معاملے پر سخت اختلافات ہیں اور سلوواکیا، ہنگری، چیک رپبلک اور پولینڈ نے یورپی یونین کی جانب سے پناہ گزینوں کے لیے مختص کوٹا قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

    واضح رہے کہ چانسلر مرکل نے کہا’ہم نے پناہ گزینوں کے مسئلے پر ٹھوس گفتگو کی ہمیں مفاہمت سے معاملہ سلجھانا ہوگا۔

  • ’خدارا شام کے مسئلہ کا کوئی حل نکالیں‘

    ’خدارا شام کے مسئلہ کا کوئی حل نکالیں‘

    عمان: ہالی ووڈ اداکارہ انجلینا جولی نے اردن کی سرحد پر قائم شامی پناہ گزینوں کے کیمپ کا دورہ کیا اور عالمی برادری کو ان کے مسائل حل کرنے پر زور دیا۔

    انجلینا جولی نے اردن کے دارالحکومت عمان سے 100 کلومیٹر دور قائم ازراق مہاجر کیمپ کا دورہ کیا۔ یہ کیمپ تقریباً ایک صحرائی علاقہ میں قائم ہے۔

    میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے جولی نے کہا کہ 75 ہزار سے زائد شامی اس سنسان و بے آباد جگہ پر موجود ہیں۔ ان میں بچے، حاملہ خواتین، بزرگ اور شدید بیمار افراد شامل ہیں۔

    jolie-4

    انہوں نے کہا کہ عالمی قوانین کے مطابق ان افراد کو جو سہولیات دی جانی چاہئیں، ان میں سے ایک بھی انہیں میسر نہیں۔

    جولی نے کہا، ’یہ صرف اردن کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔ پوری دنیا ان مہاجرین سے واقف ہے لیکن کوئی ان کی مدد کو آگے نہیں بڑھ رہا‘۔

    انجلینا جولی اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے برائے مہاجرین یو این ایچ سی آر کی خصوصی ایلچی ہیں۔

    جولی نے بتایا کہ 5 برس قبل شامی خانہ جنگی کا آغاز ہونے کے بعد متاثرین کی مدد کرنے کے بڑے بڑے دعوے تو کیے گئے، تاہم یو این ایچ سی آر کو عالمی ڈونرز کی جانب سے فقط آدھی امداد ہی مل سکی۔

    واضح رہے کہ رواں برس جون میں اردن کی سرحد پر داعش کے ایک حملہ کے بعد اردن نے شامی مہاجرین تک امداد پہنچانے والے 21 راستے بند کردیے تھے۔ اس حملہ میں سرحد پر تعینات 7 اردنی فوجی مارے گئے تھے۔

    jolie-3

    اس کے بعد سے صحرا میں مقیم ان پناہ گزینوں کے لیے صرف ایک بار اگست میں امداد آ سکی۔

    اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس رواں ماہ کے آخر میں متوقع ہے اور جولی کا کہنا ہے کہ اس موقع پر وہ عالمی رہنماؤں سے صرف ایک سوال کا جواب چاہتی ہیں کہ آخر شام کے اس تنازعہ کا بنیادی سبب کیا ہے، اور اسے ختم کرنے کے لیے کیا درکار ہے؟ ’خدارا اس مسئلہ کو اپنے فیصلوں اور بحثوں کا مرکزی حصہ بنائیں‘۔

    جولی کا کہنا تھا کہ پناہ گزین اپنے گھروں کو واپس لوٹنا چاہتے ہیں۔ وہ ساری زندگی امداد پر زندہ رہنا نہیں چاہتے۔ وہ اس تنازعہ کا ایک مستقل سیاسی حل چاہتے ہیں۔

    jolie-2

    شام میں جاری خانہ جنگی کے باعث اب تک اڑتالیس لاکھ افراد اپنا گھر بار چھوڑ کر دربدر پھرنے پر مجبور ہیں۔ مہاجرین کی ایک بڑی تعدا مصر، اردن، ترکی، لبنان اور عراق میں پناہ گزین کیمپوں میں ایک اذیت ناک زندگی گزار رہی ہے۔

    ان میں سے اردن 6 لاکھ پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہا ہے۔

    مزید پڑھیں: پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ سے دنیا ناخوش

    اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطاق اس وقت دنیا بھر میں 6 کروڑ افراد جنگوں، تنازعات اور خانہ جنگیوں کے باعث اپنے گھروں سے زبردستی بے دخل کردیے گئے ہیں اور ان کا شمار پناہ گزینوں میں ہوتا ہے۔

    یہ جنگ عظیم دوئم کے بعد پناہ گزینوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔