Tag: پنجابی ادب

  • فقیر محمد فقیر کا تذکرہ جو بابائے پنجابی مشہور ہوئے

    فقیر محمد فقیر کا تذکرہ جو بابائے پنجابی مشہور ہوئے

    فقیر محمد فقیر کو ’’بابائے پنجابی‘‘ کہا جاتا ہے۔ وہ ایک ادیب، محقق اور پنجابی زبان کے بڑے شاعر تھے جنھیں دستِ اجل نے 11 ستمبر 1974 کو ہم سے ہمیشہ کے لیے چھین لیا تھا۔ آج فقیر محمد فقیر کی برسی منائی جارہی ہے۔

    اردو کے مشہور ادیب اور ڈرامہ نگار منو بھائی نے کہا تھا، میرے نزدیک ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کی زندہ رہ جانے والی نمایاں ترین خوبیوں میں سے ایک خوبی ان کی بھرپور جذبات کے ساتھ بے لوث، پُرخلوص محنتِ شاقہ کے علاوہ یہ تھی کہ پنجابی زبان سے بے پناہ محبت کے ساتھ وہ دیگر زبانوں کی بھی عزت فرماتے تھے۔

    گوجرانوالہ کے ایک گھرانے میں 5 جون 1900ء کو آنکھ کھولنے والے فقیر محمد نے تعلیمی منازل طے کرتے ہوئے ادبی ذوق و شوق کا آغاز کیا تو 1951 میں پنجابی زبان کا اوّلین رسالہ ’’پنجابی‘‘ جاری کر کے کئی قلم کاروں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کردیا۔ بعدازاں ڈاکٹر محمد باقر کے ساتھ مل کر پنجابی ادبی اکادمی قائم کی جس کے تحت پنجابی زبان و ادب پر متعدد قدیم و جدید کتابیں شایع ہوئیں اور یہ سلسلہ پنجابی زبان و ادب کی ترویج اور ترقی کا باعث بنا۔

    فقیر محمد فقیر کو پنجابی شاعر کی حیثیت سے بہت اہمیت حاصل ہے۔ انھوں نے اس زبان کو نئے اسلوب اور نئے آہنگ سے مہکایا۔ اپنی ادبی مصروفیات کے زمانے میں انھوں نے کئی کتابوں کی تدوین کا کام بحسن و خوبی انجام دیا جن میں کلیاتِ ہدایت اللہ، کلیاتِ علی حیدر، کلیاتِ بلھے شاہ اور چٹھیاں دی وار، جب کہ شعری مجموعوں میں صدائے فقیر، نیلے تارے، مہکدے پھول، ستاراں دن، چنگیاڑے اور مناظر احسن گیلانی کی النّبی الخاتم اور عمر خیّام کی رباعیات کے منظوم تراجم شامل ہیں۔

    انھیں گوجرانوالہ ہی میں احاطہ مبارک شاہ بڑا قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • مذہبی رجعت پسندی اور منافقت سے بیزار بلھے شاہ

    مذہبی رجعت پسندی اور منافقت سے بیزار بلھے شاہ

    پنجابی کلچر میں اصل ناموں سے عرفیت بنانا ایک عام سی بات ہے۔ بلھے شاہ نے یہ نام اپنے لیے خود تجویز کیا تھا یا ان کے جاننے والوں نے یہ نام رکھا تھا، اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

    اگر حضرت بلھّے شاہ نے اپنی شاعری میں اسے ایک تخلص کے طور پر استعمال کیا، اس کی ایک اور صوفیانہ تاویل کی جاسکتی ہے۔ بُھلا سے مراد بھولا ہوا بھی ہے، یعنی وہ اپنی ذات کو بھول چکا ہے۔ بلھے شاہ کا نِک نیم اتنا مشہور ہوا کہ لوگ ان کے اصل نام سید عبداللہ شاہ کو بھول گئے ہیں۔

    سترھویں اور اٹھارویں صدی عیسوی میں مغلیہ دور میں بالخصوص پنجاب اور سندھ میں چند ایسی شخصیات نے جنم لیا جنھیں ایک باکرامت درویش، مفکر اور صوفی کی حیثیت سے شہرت حاصل ہوئی اور مقامی زبان میں‌ ان کی شاعری اور داستانیں‌ بھی ان کی وجہِ‌ شہرت ہیں۔ بلھے شاہ انہی میں سے ایک تھے۔ وہ اس دور کے ہم عصر مفکر شاعروں میں سے ایک تھے جن کی آواز شمالی ہندوستان کے ہر کونے میں اور ہر لہجے میں گونجی۔ ان کی کافیاں اور دوہڑے پنجاب ہی میں نہیں سندھ، راجستھان اور ہندوستان کے دوسرے علاقوں میں بھی عوام کے دل کی آواز بنے۔

    بابا بلھے شاہ کی زندگی اور ان کی شخصیت کے بارے میں بہت کم معلومات کو مصدقہ کہا جاسکتا ہے اور بیش تَر تذکرے روایات پر مبنی ہیں جن سے ان کا ایک خاکہ بنایا جاسکتا ہے اور ان کے بارے میں‌ ایک تاثر قائم جاسکتا ہے۔ پرانے تذکروں میں خزینۃُ الاصفیا، نافع السّالکین میں حضرت بلھے شاہ کے بارے میں چند ایک معلومات ملتی ہیں لیکن ان میں بھی تضاد ہے۔

    کچھ کا خیال ہے کہ حضرت بلھے شاہ کی پیدائش اچ گیلانیاں میں ہوئی تھی جب کہ چند محققین کا اصرار ہے کہ وہ پانڈو کے میں پیدا ہوئے تھے۔ یہ بات زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے، کیوں کہ حضرت بلھے شاہ کے مرشد حضرت شاہ عنایت نے ایک کتاب نافعُ السّالکین مرتب کی تھی جس میں بلھے شاہ کے بارے میں ایک حاشیہ ملتا ہے جس کے مطابق وہ اچ گیلانیاں میں پیدا ہوئے تھے۔ حضرت عنایت شاہ سے حضرت بلھے شاہ کا تعلق بہت قریبی تھا اس لیے اس بات کو قبول کرنے میں کوئی تعرض نہیں ہونا چاہیے۔

    اسی قسم کا ابہام حضرت بلھے شاہ کے سنِ پیدائش میں‌ بھی ہے۔ خزینۃُ الاصفیا اس پر خاموش ہے لیکن اس کتاب میں‌ ان کا سنہ وفات 1750ء بتایا ہے جب کہ ایک انگریز سی ایف آسبورن نے بلھے شاہ کی زندگی اور شاعری پر اپنے مقالے میں سنِ پیدائش 1680ء اور وفات کا سال 1753ء لکھا ہے۔ روایات کے مطابق وہ 22 اگست کو اس دارِ فانی سے ہمیشہ کے لیے چلے گئے تھے۔

    مشہور ہے کہ حضرت بلھے شاہ سخی درویش کے ہاں پیدا ہوئے جن کا نام عبداللہ رکھا گیا۔ ان کے والد اچ شریف چھوڑ کر ملک وال ضلع ساہیوال چلے گئے تھے جہاں بلھے شاہ نے جنم لیا۔ لیکن چند مہینوں بعد وہ پنڈ پانڈو، ضلع لاہور چلے گئے جہاں ایک مسجد میں‌ امامت پر مامور ہوئے اور مدرسہ پڑھانے لگے۔ بلھے شاہ کا بچپن اسی گاؤں میں مویشی چراتے گزرا۔ اسی جگہ ان سے پہلی کرامت بھی صادر ہوئی جس کا ذکر روایات میں مختلف طرح‌ سے کیا گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ عبداللہ نامی اس نوعمر پر یہ الزام لگا کہ اس نے اپنے مویشیوں کو چراتے ہوئے، ان کی نگرانی میں‌ کوتاہی کی اور انھوں نے گاؤں کے زمین دار کی فصل اجاڑ دی۔ اس پر بلھے شاہ نے اجڑی ہوئی فصل کو پھر سے ہرا بھرا کر دیا۔ یہ ان سے منسوب ایک افسانوی داستان ہے یا اسے گھڑا گیا ہے، اس بارے میں‌ کچھ نہیں‌ کہا جاسکتا۔ لیکن بلھے شاہ نے قصور کے مشہور معلّم حافظ غلام مرتضیٰ کے مدرسے سے قرآن، حدیث و فقہ اور منطق کا علم حاصل کیا۔ اور انہی علوم کی تدریس بھی کی۔

    ان کی مجذوبیت نے جب کوتوال کی گرفت میں آکر انھیں شیخ فاضل الدین کے پاس پہنچایا تو یہاں سے بلھے شاہ کو علم اور معرفت کے اس راستے کا پتا ملا جس نے ان کی زندگی کو یکسر بدل ڈالا۔ شیخ فاضل الدّین نے انھیں شاہ عنایت کے دربار میں‌ جانے کو کہا، اور پھر شاہ عنایت سے ان کی عقیدت اور تعلق اٹوٹ ثابت ہوئی۔

    بلھے شاہ نے اہلِ طریقت کے ساتھ رہ کر معرفت کے مراحل طے کیے اور اس عرصہ میں‌ انھوں‌ نے اس وقت کے بادشاہ اورنگزیب کی مذہب پرستی کو دیکھا، قصور کے حاکم حسین خان خویشگی اور اس کے مذہبی منصب دار شہباز خان کی چیرہ دستیاں کو جھیلا۔ انھوں نے شہر آشوب دیکھا، اپنے افکار اور شاعری میں‌ مجذوبانہ اپنی فکر کے اظہار پر سختیاں پڑنے پر ایک علاقے سے دوسرے علاقے اور شہر در شہر گھومتے ہوئے زندگی گزاری۔ وہ کہتے ہیں:

    الٹے ہور زمانے آئے، تاں میں بھید سجن دے پائے
    کاں لگڑنوں مارن لگے، چڑیاں جرے ڈھائے
    پیو پتراں اتفاق نہ کائی، دھیاں نال نہ مائے

    (ترجمہ و مفہوم: یہ عجیب زمانہ ہے اور اسی سے ہم نے زندگی کا بھید پایا ہے۔ زمانے ایسے بدلے کہ کوّے الٹا شکاری پرندوں کو مار رہے ہیں اور چڑیوں نے شہبازوں کو زیر کر لیا ہے۔ باپ بیٹے میں اتفاق نہیں ہے اور مائیں بیٹیوں کا ساتھ چھوڑ گئی ہیں۔)

    یہ مشہورِ زمانہ کلام تو آپ نے بھی سنا ہو گا

    تیرے عشق نچایا کر کے تھیا تھیا
    تیرے عشق نے ڈیرا میرے اندر کیتا
    بھر کے زہر پیالہ، میں تاں آپے پیتا

    بلھے شاہ نے کس عمر میں شاعری کا آغاز کیا اور ان کا روحانی سفر کس طرح شروع ہوا، اس بارے میں‌ بھی مستند حقائق اور مصدقہ معلومات دست یاب نہیں ہیں۔ اسی طرح انھوں نے اپنی شاعری میں بھی اپنے بارے میں کوئی اشارہ نہیں‌ دیا ہے اور اپنی زندگی کے کسی واقعے کو بیان نہیں‌ کیا ہے۔ یوں پنجاب کی سرزمین میں مذہبی رجعت پسندی اور منافقت سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے اپنی شاعری میں روحانیت اور وجدان پر زور دینے والے بابا بلھے شاہ کی اصل سوانح کبھی سامنے نہیں آسکی اور چند حقائق اور ان کی بنیاد پر قیاس ہی کیا جاسکتا ہے۔ تاہم انھیں اپنے دور کی باکرامت روحانی شخصیت، ایک حکیم شاعر مانا جاتا ہے اور ان کی شاعری کی بھی اسی نقطۂ نظر سے وضاحت کی جاتی ہے۔

    سید محمد عبداللہ المعروف بابا بلھے شاہ کا مزار قصور میں واقع ہے۔

  • پریت نگر اور پریت لڑی والے گور بخش سنگھ کا تذکرہ

    پریت نگر اور پریت لڑی والے گور بخش سنگھ کا تذکرہ

    سردار گور بخش سنگھ کا نام پنجابی ادب کے ایک نام وَر قلم کار کے طور پر لیا جاتا ہے جو 1977ء میں آج کے ہی دن دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ وہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ ادیب تھے۔

    26 اپریل 1895ء کو پاکستان کے شہر سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے گور بخش سنگھ نے والد کے انتقال کے بعد مشکلات کا سامنا کیا، لیکن کسی طرح تعلیم کا سلسلہ ترک نہ کیا، انھوں نے میٹرک کے بعد ایف سی کالج، لاہور میں داخلہ لیا، معاشی مشکلات کی وجہ سے اسی زمانے میں ایک معمولی ملازمت بھی شروع کردی، بعد میں 1913ء میں تھامسن سول انجینئری کالج، روڑکی سے ڈپلوما حاصل کیا۔ فوج میں بھرتی ہوکر عراق اور ایران گئے، 1922ء امریکا میں مشی گن یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی ڈگری لے کر واپس آئے اور ریلوے انجینئر کے طور پر عملی زندگی شروع کی۔

    انھوں نے پنجابی ادب کو اپنے افسانوں، سواںح و تذکروں، تراجم، ڈراموں سے مالا مال کیا اور اپنی الگ شناخت بنائی۔ 1933ء میں انھوں نے لاہور سے پنجابی اور اُردو زبان میں ایک ماہانہ میگزین ‘‘پریت لڑی’’ جاری کیا جو لوگوں میں اتنا مقبول ہوا کہ ان کا نام ہی ‘‘گور بخش سنگھ پریت لڑی ’’پڑ گیا۔

    یہی نہیں‌ اپنے وطن سے ان کی محبّت کا بھی عجیب عالم رہا اور انھوں نے 1936ء میں لاہور اور امرتسر کے درمیان ‘‘پریت نگر ’’ یعنی محبت کرنے والوں کا شہر آباد کیا جس میں شاعروں اور ادیبوں کے ساتھ انسان دوست اور فن و ثقافت سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو بسایا۔ وہ ہر سال یہاں ادبی اجتماع منعقد کرتے جس میں برصغیر کے کونے کونے سے ادیب، شاعر اور دانشور شریک ہوتے تھے۔ تقسیمِ ہند کے وقت جب یہ شہر بھی فسادات سے محفوظ نہ رہا تو گور بخش سنگھ دل برداشتہ ہو کر دہلی چلے گئے تھے۔

    انھوں نے کہانی، ناول، ڈرامے، مضامین اور بچوں کے ادب پر پچاس سے زائد کتب شائع کروائیں۔ گور بخش سنگھ نے میکسم گورکی کے مشہور ناول ‘‘ماں ’’ کا پنجابی ترجمہ بھی کیا۔

  • اردو اور پنجابی زبان کی شاعرہ اور ادیب افضل توصیف کی برسی

    اردو اور پنجابی زبان کی شاعرہ اور ادیب افضل توصیف کی برسی

    افضل توصیف نے اردو اور پنجابی زبانوں میں‌ شاعری اور نثر میں نام و مقام بنایا اور ان کی متعدد کتابیں‌ شایع ہوئیں۔ پاکستان کی اس معروف شاعرہ اور ادیبہ نے 30 دسمبر 2014ء کو ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ دی۔ افضل توصیف کو ان کی ادبی تخلیقات پر حکومتِ پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

    افضل توصیف 18 مئی 1936ء کو ہوشیار پور (بھارت) میں پیدا ہوئیں۔ ان کا خاندان تقسیم کے بعد پاکستان آگیا۔ یہاں لاہور میں قیام کیا، لیکن والد کا تبادلہ کوئٹہ کردیا گیا اور یوں‌ وہ بھی کوئٹہ چلی گئیں۔

    افضل توصیف نے کوئٹہ سے بی اے کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے انگریزی اور ایم اے اُردو کیا اور درس و تدریس سے وابستہ ہو گئیں۔ اس دوران ادبی مشاغل جاری رہے اور ان کی تصانیف منظر عام پر آئیں‌۔ ان میں ‘زمیں پر لوٹ آنے کا دن، شہر کے آنسو، سوویت یونین کی آخری آواز، کڑوا سچ، غلام نہ ہوجائے مشرق، لیبیا سازش کیس، ہتھ نہ لاکسمبڑے، تہنداناں پنجاب، من دیاں وستیاں شامل ہیں۔ ان اردو اور پنجابی زبان میں کہانیاں‌ اور افسانے مختلف ادبی جرائد کی زینت بنے جنھیں کتابی شکل میں‌ شایع کیا گیا۔

    افضل توصیف لاہور کے ایک قبرستان میں مدفون ہیں۔

  • پنجابی زبان کے مقبول شاعر استاد دامن کا یومِ وفات

    پنجابی زبان کے مقبول شاعر استاد دامن کا یومِ وفات

    آج عوامی شاعر استاد دامن کی برسی ہے۔ وہ پنجابی زبان کے مقبول ترین شعرا میں سے ایک ہیں۔ استاد دامن کی شاعری ناانصافی، عدم مساوات اور جبر کے خلاف عوامی جذبات اور امنگوں کی ترجمان ہے۔ استاد دامن 3 دسمبر 1984ء کو وفات پاگئے تھے۔

    استاد دامن فارسی، سنسکرت، عربی اور اردو زبانیں جانتے تھے۔ عالمی ادب پر بھی ان کی توجہ تھی۔ ان کی سادہ بود وباش اور بے نیازی مشہور ہے۔ چھوٹے سے کھولی نما کمرے میں‌ کتابوں کے درمیان زندگی گزارنے والے استاد دامن کی جرأتِ اظہار اور حق گوئی کی مثال دی جاتی ہے۔

    وہ کثیرالمطالعہ اور خداداد صلاحیتوں کے حامل تخلیق کار تھے جنھیں پنجابی ادب کی پہچان اور صفِ اول کا شاعر کہا جاتا ہے۔

    استاد دامن مصلحت سے پاک، ہر خوف سے آزاد تھے۔ انھوں نے فیض و جالب کی طرح جبر اور ناانصافی کے خلاف عوامی لہجے میں اپنی شاعری سے لوگوں میں‌ شعور بیدار کیا۔ استاد دامن نے عوامی اجتماعات میں پنجابی زبان میں اپنے کلام سے بے حد مقبولیت اور پزیرائی حاصل کی۔

    ان کا اصل نام چراغ دین تھا۔ صلے اور ستائش سے بے نیاز ہوکر حق اور سچ کا ساتھ دینے والے استاد دامن 1910ء کو پیدا ہوئے۔ لاہور ان کا مستقر تھا جہاں اپنے والد کے ساتھ کپڑے سینے کا کام کرتے رہے۔ انھوں نے خیاطی کا کام والد سے سیکھا اور بعد میں کسی جرمن ادارے سے اس کا باقاعدہ ڈپلوما بھی حاصل کیا۔ انھوں نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی تھی، لیکن والد کے انتقال کے بعد ان کا کام سنبھال لیا اور تعلیمی سلسلہ آگے نہ بڑھ سکا۔

    پنجابی شاعری اور فن پر گرفت رکھنے کے سبب انھیں استاد تسلیم کیا جاتا ہے اور مشاہیر سمیت ہر دور میں اہلِ علم پنجابی زبان و ادب کے لیے ان کی خدمات کے معترف ہیں۔ انھیں لاہور میں مادھولال حسین کے مزار کے احاطے میں دفنایا گیا۔

  • پنجابی زبان و ادب کے نام ور مصنف، شاعر اور محقق فقیر محمد فقیر کی برسی

    پنجابی زبان و ادب کے نام ور مصنف، شاعر اور محقق فقیر محمد فقیر کی برسی

    ممتاز ادیب، شاعر اور محقق فقیر محمد فقیر کو پنجابی زبان و ادب کے لیے خدمات کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ انھیں ’’بابائے پنجابی‘‘ کہا جاتا ہے۔ وہ 11 ستمبر 1974 کو وفات پاگئے تھے۔ آج فقیر محمد فقیر کی برسی منائی جارہی ہے۔

    5 جون 1900 کو گوجرانوالہ میں پیدا ہونے والے فقیر محمد فقیر نے 1951 میں پنجابی زبان کا اوّلین رسالہ ’’پنجابی‘‘ جاری کیا اور ڈاکٹر محمد باقر کے ساتھ پنجابی ادبی اکادمی قائم کی جس کے تحت پنجابی زبان و ادب کی متعدد قدیم و جدید کتابیں شایع ہوئیں۔

    فقیر محمد فقیر شاعر بھی تھے اور پنجابی زبان کو نئے اسلوب اور نئے آہنگ سے مہکنے کا موقع دیا۔ انھوں نے کئی کتب کی تدوین کی جن میں کلیات ہدایت اللہ، کلیاتِ علی حیدر، کلیاتِ بلھے شاہ اور چٹھیاں دی وار، شعری کتب میں صدائے فقیر، نیلے تارے، مہکدے پھول، ستاراں دن، چنگیاڑے اور مناظر احسن گیلانی کی النبی الخاتم اور عمر خیام کی رباعیات کے منظوم تراجم شامل ہیں۔

    پنجابی زبان و ادب کے اس نام ور شاعر، ادیب اور محقق کو گوجرانوالہ میں احاطہ مبارک شاہ بڑا قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • فقیر محمد فقیر: پنجابی زبان اور ادب کا روشن حوالہ

    فقیر محمد فقیر: پنجابی زبان اور ادب کا روشن حوالہ

    روزنامہ امروز کی ادارت کے دنوں میں ڈاکٹر فقیر صاحب سے آئے دن میری ملاقات رہتی تھی۔

    وہ ایک وجہیہ انسان تھے اور ان کے باطن میں لہریں لیتی ہوئی محبت، ان کے چہرے پر ایک مستقل میٹھی مسکراہٹ کی صورت میں موجود رہتی تھی۔

    جب میں نے ان کی زبان سے ان کا کلام سنتا تو اندازہ ہوتا کہ یہ شخص کیسے ڈوب کر شعر کہتا ہے اور اس کے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ بلاغت کی شعاعیں بکھیرتا محسوس ہوتا ہے۔

    پنجابی ہونے کے باوجود مجھے ان کے اشعار کے بعض الفاظ کے معنیٰ سمجھنے میں دقت ہوتی تھی اور میں برملا اپنی اس مشکل کا اظہار کر دیتا تھا۔

    وہ کھل کر مسکراتے اور مجھے ان الفاظ کے معنیٰ بتاتے اور ساتھ ہی یہ بھی واضح کرتے چلے جاتے تھے کہ یہ لفظ گوجرانوالہ کے علاقے میں تو اسی طرح بولا جاتا ہے جیسا میں نے استعمال کیا ہے، مگر شیخوپورہ، سیالکوٹ، گجرات، لائل پور (فیصل آباد)، جھنگ اور منٹگمری (ساہیوال) اور ملتان میں اس کا تلفظ بھی مختلف ہے اور اس کے معنیٰ میں بھی ہلکا ہلکا پیاز کے چھلکے کے برابر اختلاف ہے۔

    کسی ایک لفظ کے بارے میں میرا استفسار ان سے پنجابی زبان اور روز مرہ سے متعلق باقاعدہ ایک بلیغ تقریر برآمد کروا لیتا تھا اور مجھے اپنی معلومات میں اس اضافے سے تسکین محسوس ہوتی تھی۔

    مولانا عبدالمجید سالک جیسے اردو کے اتنے بڑے ادیب اور اخبار نویس اور شاعر کی پنجابی دوستی کا اصل محرک ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کی شخصیت تھی۔

    ڈاکٹر صاحب کے پا س پنجابی الفاظ کا بے حد ذخیرہ تھا۔ وہ جب بھی گفتگو فرماتے تھے یا اپنا کلام مجھے سناتے تو مجھے سید وارث شاہ کا شاہ کار یاد آجاتا۔

    (ممتاز ادیب، شاعر اور محقق فقیر محمد فقیر کو خاص طور پر پنجابی ادب اور زبان کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، ان کے بارے میں یہ سطور مشہور شاعر احمد ندیم قاسمی کے ایک مضمون سے منتخب کی گئی ہیں)

  • پنجابی زبان کے مقبول شاعر استاد دامن کی 35 ویں‌ برسی آج منائی جارہی ہے

    پنجابی زبان کے مقبول شاعر استاد دامن کی 35 ویں‌ برسی آج منائی جارہی ہے

    استاد دامن کا تذکرہ ہو تو جہاں ان کی سادہ بود وباش اور بے نیازی کی بات کی جاتی ہے، وہیں جرأتِ اظہار اور حق گوئی کی بھی مثال دی جاتی ہے۔ اس کثیرالمطالعہ اور خداداد صلاحیتوں کے حامل تخلیق کار کو پنجابی ادب کی پہچان اور صفِ اول کا شاعر کہا جاتا ہے۔

    استاد دامن کا حافظہ قوی اور فی البدیہہ اشعار کہنے میں انھیں کمال حاصل تھا۔ ان کی شاعری عوامی جذبات کی ترجمان اور جذبۂ حبُ الوطنی سے آراستہ ہے۔ مصلحت سے پاک، کسی بھی قسم کے خوف سے آزاد اور عوامی لہجہ استاد دامن کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ ہے۔ جس طرح اردو میں فیض و جالب نے جبر اور ناانصافی کے خلاف نظمیں‌ کہیں اور لوگوں میں‌ شعور بیدار کیا، اسی طرح استاد دامن نے سیاسی جلسوں، عوامی اجتماعات میں پنجابی زبان میں اپنے کلام کے ذریعے استحصالی ٹولے اور مفاد پرستوں کو بے نقاب کیا۔

    آج پنجابی ادب کے اس مقبول شاعر کی برسی ہے۔ استاد دامن کو دنیا سے رخصت ہوئے 35 برس بیت چکے ہیں، مگر ناانصافی، عدم مساوات اور جبر کے خلاف ان کے ترانے، نظمیں آج بھی گویا زندہ ہیں۔ پنجابی کے علاوہ استاد دامن اردو، ہندی اور دیگر زبانوں سے واقف تھے۔

    ان کا اصل نام چراغ دین تھا۔ وہ زندگی بھر سادگی اور حق گوئی کی مثال بنے رہے۔ صلے اور ستائش کی تمنا سے آزاد اور سچائی کا ساتھ دینے والے اس شاعر کا سن پیدائش 1910 ہے۔ لاہور ان کا مستقر تھا جہاں استاد دامن کے والد کپڑے سینے کا کام کرتے تھے۔ استاد دامن نے بھی معاش کے لیے یہی کام کیا اور باوقار انداز سے زندگی گزاری۔

    استاد دامن نے پنجابی شاعری اور فن پر گرفت رکھنے کے سبب اہلِ علم نے انھیں استاد تسلیم کیا اور پنجابی زبان و ادب کے فروغ کے لیے ان کی خدمات کا اعتراف آج بھی کیا جاتا ہے۔ وہ 3 دسمبر 1984 کو یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے۔

  • درشن متوا کی جھجک!

    درشن متوا کی جھجک!

    درشن متوا کی ایک مختصر کہانی پڑھیے.

    پڑھے لکھے نوجوان کو کہیں جانا تھا۔ وہ بس کے اڈّے پر بسوں کے بورڈ پڑھتا پھر رہا تھا۔
    بے وقوف کہلانے کے ڈر سے اس نے کسی سے بس کے بارے میں پوچھا نہیں، صرف گھومتا رہا۔
    ایک بس سے دوسری اور دوسری سے تیسری اور چوتھی۔
    ایک اَن پڑھ سا آدمی آیا، اس نے بس میں بیٹھے ہوئے ایک شخص سے پوچھا اور جھٹ سے بیٹھ گیا۔ بس چلنے لگی۔
    پڑھا لکھا نوجوان اب بھی بسوں کے بورڈ پڑھتا ہوا وہیں چکر لگا رہا تھا۔

    جھجک کے عنوان سے یہ کہانی آپ کو یقینا پسند آئی ہو گی. اس کہانی کا موضوع اور بُنت بتاتی ہے کہ مصنف اپنے گرد و پیش اور ماحول سے جڑا ہوا ہے اور اس کا مشاہدہ گہرا ہے. دوسری طرف مختصر نویسی درشن متوا کی بلند تخلیقی قوت کا اظہار ہے۔

    درشن متوا کا شمار پنجابی اور ہندی زبان کے ان قلم کاروں میں ہوتا ہے، جنھوں نے اپنے زرخیز ذہن اور قوتِ متخیلہ سے کام لے کر ان موضوعات کو برتا ہے جو ایک زمانے میں ان کے محلِ نظر تھے۔ درشن متوا نے نہ صرف کئی صفحات پر مشتمل ناول اور دیگر کہانیاں لکھیں بلکہ مختصر نویسی میں بھی ان کو کمال حاصل تھا۔ پیشِ نظر کہانی نہ صرف ایک تعلیم یافتہ فرد اور ایک ان پڑھ کے درمیان اعتماد کے فرق اور شعور کی حالتوں کے مختلف رنگوں کو اجاگر کرتی ہے بلکہ یہ ایک عام رویے کی عکاس ہے۔ اس کہانی میں ایک خاص قسم کے غرور یا کسی کے اپنے پڑھے لکھے ہونے کے بے جا یا غیر ضروری فخر کو نہایت خوب صورتی سے اجاگر کیا گیا ہے. مصنف نے بتایا ہے کہ یہی فخر ایک موقع پر آگے بڑھنے میں‌ یا کسی کام کو انجام دینے میں‌ کیسے رکاوٹ کھڑی کرسکتا ہے اور اکثر اس کے سبب ناکامی مقدر بنتی ہے۔ یہ لفظی منظر کشی بامقصد، دل چسپ اور نہایت پُراثر ہے۔

  • مشہور پنجابی شاعرہ امرتا پریتم کا 100 واں یومِ پیدائش

    مشہور پنجابی شاعرہ امرتا پریتم کا 100 واں یومِ پیدائش

    آج پنجابی زبان کی مشہور و معروف ادیبہ اور شاعرہ امرتا پریتم کا سو واں یوم پیدائش ہے ، پنجابی ادب امرتا پریتم کے ذکر کے بغیر ادھورا تصور کیا جاتا ہے اور ان کے کام پر کئی دہائیوں تک تحقیق ہوتی رہے گی، ان کے یوم ِ پیدائش پر گوگل نے اپنا ڈوڈل بھی ان کے نام کیا ہے۔

    امرتا پریتم سن 13 اگست1919 میں برٹش ہندوستان کے شہر گجرانوالہ میں پیدا ہوئیں جو کہ اب پاکستان کا حصہ ہے۔ سن 1947 میں ہونے والے بٹوارے کے بعد بھارت جاکر دہلی کو اپنا مسکن بنایا۔ انہیں پنجابی زبان کی نمائندہ شاعر اور ادیب کے طور شناخت کیا جاتا ہے اور ان کے کام کا دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے۔

    امرتا پریتم کے نام گوگل ڈوڈل

    بھارت میں وہ ساہتیہ اکیڈمی پرسکار پانے والی پہلی خاتون تھیں۔ بھارت کا صدارتی ایوارڈ پدم شری حاصل کرنے والی بھی وہ پہلی پنجابی خاتون تھیں۔ اُن کی تحریروں کا ترجمہ انگریزی کے علاوہ فرانسیسی جاپانی اور ڈینش زبانوں میں بھی ہوا ہے اور اگرچہ وہ سوشلسٹ بلاک سے نظریاتی ہم آہنگی نہیں رکھتی تھیں لیکن مشرقی یورپ کی کئی زبانوں میں اُن کے کلام کا ترجمہ کیا گیا۔

    امریکہ میں مشی گن سٹیٹ یونیورسٹی کے ماہنامے ’محفل‘ نے امرتا پریتم ‘ پر اپنا ایک خصوصی نمبر بھی شائع کیا تھا۔ دہلی، جبل پور اور وِشو بھارتی یونیورسٹی کی طرف سے انھیں ڈاکٹر آف لٹریچر کی تین اعزازی ڈِگریاں دی گئیں اور 1982 میں انھیں پنجابی ادب کی عمر بھرکی خدمات کے صلے میں اعلیٰ ترین گیان پیتھ ایوارڈ بھی دیا گیا۔

    رسیدی ٹکٹ – امرتا پریتم کے نقوشِ قدم پرسفر

    چھ دہائیوں سے بھی زیادہ طویل کیرئر میں امرتا نے 28 ناول تحریر کیے‘ 18 نثری مجموعے شائع ہوئے’ پانچ مختصرکہانیوں کے مجموعے اور 16 متفرق نثری مجموعے قرطاس کی نذرکیے۔

    پنجابی کی معروف شاعر اور ادیب امرتا پریتم 31 اکتوبر 2006میں 86 سال کی عمر میں دہلی میں انتقال کرگئیں تھیں لیکن ان کا چھوڑا ہوا ادبی ورثہ‘ جب تک زبان وادب زندہ ہے انہیں زندہ رکھے گا۔