Tag: پنجابی فلمیں

  • نبیلہ: پنجابی فلموں‌ کی ‘ملکۂ جذبات’ جنھیں نشے کی لت نے زندگی سے محروم کر دیا

    نبیلہ: پنجابی فلموں‌ کی ‘ملکۂ جذبات’ جنھیں نشے کی لت نے زندگی سے محروم کر دیا

    جس دور میں پاکستان میں گنڈاسے والے ہیرو اور مار دھاڑ کے مناظر کے ساتھ ناچ گانے سے آراستہ پنجابی فلمیں بہت مقبول تھیں، اس دور میں اداکارہ نبیلہ نے بھی شہرت پائی اور انھیں پنجابی فلموں کی ‘ملکۂ جذبات’ کہا جاتا ہے۔

    اداکارہ نبیلہ نے اردو اور پنجابی دونوں زبانوں‌ میں بننے والی فلموں میں کام کیا تھا۔ انھیں 1966ء میں اردو کی فلم بدنام سے بے پناہ شہرت ملی۔ یہ فلم سعادت حسن منٹو کے مشہور افسانے سے ماخوذ تھی جس میں نبیلہ نے ایک شوقین مزاج عورت کا مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ یہ ایک شاہکار فلم تھی جس میں مرکزی کردار قیمتی زیورات اور پُرتعیش زندگی گزارنے کی خواہش رکھتی ہے لیکن اس کا شوہر غریب آدمی ہوتا ہے اور ایک کوچوان کے طور پر جو کچھ کماتا ہے، اس میں دو وقت کی روٹی کا حصول ہی ممکن ہو پاتا ہے۔

    اس فلم میں وہ اپنی بچّی کو ایک لوری سناتے ہوئے دراصل اپنی تشنہ آرزوؤں کا رونا روتی ہے ، "آ تجھ کو سناؤں لوری، حالات سے چوری چوری۔” یہ عورت بیش قیمت زیورات کی خواہش میں غیر ارادی طور پر ایک مالدار شخص کے ہاتھوں اپنی عزت گنوا دیتی ہے۔ جس کے بعد اداکارہ پر یہ مشہورِ زمانہ غزل "بڑے بے مروت ہیں یہ حسن والے، کہیں دل لگانے کی کوشش نہ کرنا” فلم کی ہائی لائٹ ثابت ہوتی ہے۔

    فلم میں شامل کیے جانے سے پہلے یہ غزل ریڈیو سے کئی بار نشر ہوئی تھی اور لوگوں میں بہت مقبول تھی۔ کہا جاتا ہے کہ بعد میں صرف اس غزل کی رائلٹی سے "بدنام” کے جملہ اخراجات پورے ہوگئے تھے۔ اداکارہ نبیلہ کی یہ یادگار اردو فلم تھی اور اس کے بعد انھیں پہلی اور آخری مرتبہ فلم چودہ سال میں فرسٹ ہیروئن کے طور پر یوسف خان کے ساتھ کاسٹ کیا گیا۔ یہ 1968 کی بات ہے لیکن فلم کی ناکامی کے بعد وہ ہمیشہ سیکنڈ ہیروئن اور معاون اداکارہ کے علاوہ ویمپ اور مزاحیہ کرداروں تک محدود ہوگئی تھیں۔

    ماضی کی مشہور اداکارہ نبیلہ کو کیریکٹرایکٹر رولز میں بہت پسند کیا گیا اور وہ بہت سی فلموں میں ہیروئن کے مقابلے میں زیادہ اہمیت اختیار کرتی نظر آئیں۔ انھیں خاص طور پر ماں کے کرداروں میں بہت شہرت ملی اور اپنے جذباتی اور جان دار مکالموں کی وجہ سے نبیلہ ‘ملکۂ جذبات’ مشہور ہوگئیں۔

    نبیلہ کی پہلی فلم 1963 میں دلہن تھی جس میں ایک بڑا خوب صورت گیت مالا اور آئرن پروین کی آوازوں میں شامل تھا اور اسے شمیم آرا اور نبیلہ پر فلمایا گیا تھا۔ اس کے بول تھے، "جان من، جانان من، یہ خط نہیں ، نذرانہ ہے!”

    بطور اداکارہ نبیلہ کی پہلی پنجابی فلم پیدا گیر 1966 میں‌ ریلیز ہوئی تھی جس میں وہ ایک اسٹیج ایکٹریس کے روپ میں اسکرین پر جلوہ گر ہوئی تھیں۔ اس میں وہ اداکار اکمل کے ساتھ کام کررہی تھیں اور ان پر یہ دو گیت فلمائے گئے تھے "کیخو جئی لگنی آں تیرا کی خیال اے۔۔” اور "چھنکدی جھانجھر چاندی دی۔”

    اداکارہ نبیلہ نے بعد میں پنجابی فلموں میں کام کرکے خوب شہرت پائی اور متعدد مقبول عام گیت ان پر فلمائے گئے۔ ان میں‌ فلم رن مرید (1969)، فلم جگو (1969)، فلم لچھی (1969)، فلم محلّے دار (1970)، فلم وچھڑیا ساتھی (1973) وغیرہ شامل ہیں۔

    نبیلہ کو سپر ہٹ فلم ماں پتر (1970) میں سدھیر کے ساتھ ٹائٹل رول ادا کرنے پر جو مقبولیت ملی تھی، اس کے بعد وہ پنجابی فلموں کی ضرورت بن گئی تھیں۔

    اس اداکارہ کا اصل نام شیریں گل تھا۔ انھوں نے سو کے قریب فلموں میں اداکاری کی تھی جن میں اردو اور پنجابی فلمیں شامل ہیں۔ نبیلہ کی آخری فلم محبت اور مجبوری ان کے انتقال کے دو سال بعد ریلیز ہوئی تھی۔ یہ 1981ء کی بات ہے۔

    ماضی یہ مشہور فلمی اداکارہ بدقسمتی سے نشے کی عادی ہو گئی تھیں اور اسی لت نے انھیں موت کے منہ میں دھکیل دیا۔ 1979ء میں وفات پانے والی اداکارہ کی عمر صرف 35 سال تھی۔ نبیلہ کا تعلق لاہور سے تھا۔

  • لاہور کا مشہور اسٹوڈیو جو "یکے والی” کی کمائی سے بنایا گیا تھا!

    لاہور کا مشہور اسٹوڈیو جو "یکے والی” کی کمائی سے بنایا گیا تھا!

    1957ء میں یکے والی ایک ایسی فلم ثابت ہوئی جس نے بزنس کا ریکارڈ قائم کیا اور اپنی لاگت سے 45 گنا زیادہ کمائی کی۔ اسی فلم کی کمائی سے باری اسٹوڈیو تعمیر کیا گیا تھا جس کا تذکرہ آج پاکستان کی فلمی صنعت کے سنہرے دنوں کی یاد تازہ کر دیتا ہے۔ یہ فلم ایم جے رانا نے بنائی تھی۔

    ایم جے رانا پاکستان کی فلمی تاریخ کے کام یاب ترین ہدایت کاروں‌ میں سے ایک تھے۔ اردو زبان میں تو انھوں نے صرف پانچ فلمیں‌ ہی بنائی تھیں، لیکن پنجابی زبان میں‌ ان کی کئی فلمیں‌ ان کے فن اور پیشہ ورانہ قابلیت و مہارت کا نمونہ ہیں۔ وہ سماجی موضوعات پر اصلاحی اور سبق آموز فلمیں بنانے کے ماہر تھے۔ ایم جے رانا 1995ء میں‌ انتقال کرگئے تھے۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کے اس نام ور ہدایت کار کا اصل نام محمد جمیل تھا۔ ایم جے رانا نے اپنے آخری دور میں اپنی شاہکار فلم یکے والی کا ری میک تانگے والی کی صورت میں بنایا تھا لیکن یہ فلم مایوس کُن ثابت ہوئی۔ مرحوم ہدایت کار نے فلموں کے بعد لاہور اسٹیج کے لیے مشہور ڈرامہ "شرطیہ مٹھے” کی بھی ہدایات دی تھیں اور اسی ڈرامے نے اسٹیج فن کاروں امان اللہ خان، ببو برال، مستانہ اور سہیل احمد کو لازوال شہرت دی تھی۔

    ایم جے رانا کے فلمی کیرئر کا آغاز فلم مندری (1949) سے ہوا تھا جس میں وہ فلم ڈائریکٹر داؤد چاند کے معاون تھے۔ اس فلم میں انھوں نے اداکاری بھی کی تھی۔ پاکستان کی پہلی گولڈن جوبلی سپر ہٹ اردو فلم سسی (1954) میں بھی وہ اپنے استاد کے معاون تھے۔ 1955ء کی فلم سوہنی ان کی بطور ہدایتکار پہلی فلم تھی لیکن کام یابی اگلے سال بننے والی فلم ماہی منڈا سے ملی تھی جس میں‌ ٹائٹل رول مسرت نذیر نے ادا کیا تھا۔ ایم جے رانا کو یہ اعزاز بھی حاصل تھا کہ وہ پاکستان کی پہلی پلاٹینم جوبلی فلم جی دار کے ڈائریکٹر بھی تھے۔

    ایم جے رانا کی فلم جگ بیتی (1968) ایک بامقصد اور اصلاحی فلم تھی جسے بہت پسند کیا تھا اور اسی طرح فلم باؤ جی (1968) میں طبقاتی کشمکش، ذات پات کی تقسیم کو انھوں نے بڑی مہارت سے سلور اسکرین پر پیش کیا تھا۔ ان کی دیگر فلموں میں ماہی منڈا، شیرا، جمالو، باپ کا باپ، من موجی، یار مار، راوی پار، جوانی مستانی، چن ویر، خون دا بدلہ خون، عید دا چن، پیار دی نشانی، ماں دا لال، جانی دشمن اور سرپھرا شامل ہیں۔ 1989ء میں فلم انڈسٹری کے لیے ایم جے رانا کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں خصوصی نگار ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

  • پنجابی فلموں کے کام یاب ہدایت کار ایم جے رانا کی برسی

    پنجابی فلموں کے کام یاب ہدایت کار ایم جے رانا کی برسی

    20 جون 1995ء کو وفات پانے والے ایم جے رانا فلم اور اسٹیج کے معروف ہدایت کار تھے۔

    ایم جے رانا کا اصل نام محمد جمیل رانا تھا جو شوبزنس کی دنیا میں ایم جے رانا مشہور ہوئے۔ دائود چاند کے معاون ہدایات کار کی حیثیت سے فلم نگری میں اپنا سفر شروع کرنے والے ایم جے رانا نے اپنی صلاحیتوں کو جلد منوا لیا۔ انھیں فلم ساز جے سی آنند نے اپنی فلم ’’سوہنی‘‘ کے لیے بطور ہدایت کار منتخب کیا۔ فلم تو باکس آفس پر کام یاب نہ ہوسکی، مگر ایم جے رانا نے ضرور اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا۔

    انھوں نے ایک اردو فلم کے لیے ہدایت کار کے طور پر کام کیا جب کہ دیگر تمام فلمیں‌ پنجابی زبان میں‌ بنائیں۔ 1989ء میں ایم جے رانا کو فلمی صنعت کے لیے خدمات پر خصوصی نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان کی سپر ہٹ فلم ماہی منڈا اور یکّے والی تھی جس نے کام یاب ہدایت کاروں‌ کی صف میں لا کھڑا کیا، بعد میں جمالو، باپ کا باپ، من موجی، جی دار، اباجی، یار مار، راوی پار، خون دا بدلہ خون، عید دا چن، پیار دی نشانی، ماں دا لال، میرا ماہی اور رانی خان جیسی فلموں‌ نے دھوم مچا دی۔

    ایم جے رانا نے چند اسٹیج ڈراموں کے لیے بھی ہدایات دیں لیکن ان کی وجہِ‌ شہرت پنجابی فلمیں‌ ہیں‌۔ ان کی وفات دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی۔

  • پاکستانی فلموں کے مشہور مزاحیہ اداکار خلیفہ نذیر کی برسی

    پاکستانی فلموں کے مشہور مزاحیہ اداکار خلیفہ نذیر کی برسی

    26 اپریل 2005ء کو فلمی صنعت کے مشہور مزاحیہ اداکار خلیفہ نذیر انتقال کرگئے تھے۔ ان کا شمار ایسے فن کاروں‌ میں ہوتا ہے جو انڈسٹری میں‌ اپنے کام کے ساتھ ساتھ فلمی صنعت کی ترقی، بقا اور استحکام کے لیے بھی سرگرم رہے اور اس حوالے سے مثبت کردار ادا کیا۔ آج پنجابی فلموں‌ کے اس مشہور اداکار کی برسی منائی جارہی ہے۔

    انھوں نے لگ بھگ 150 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے، خلیفہ نذیر کی اداکاری میں بے ساختگی ہوتی تھی جو فلم بینوں کو محظوظ کرتی تھی۔ خلیفہ نذیر نے پنجابی فلموں میں مزاحیہ اداکار کی حیثیت سے رنگیلا اور منور ظریف کے بعد بڑی مقبولیت حاصل کی۔

    ان کے فلمی کیریئر کا آغاز 1963ء میں اردو فلم خون کی پیاس سے ہوا تھا تاہم ان کی شہرت کا آغاز 1966ء میں ریلیز ہونے والی فلم زمیندار سے ہوا جس میں وہ ایک منجھے ہوئے مزاحیہ اداکار کے طور سامنے آئے۔ انھوں نے اس فلم کے ولن الیاس کاشمیری کے منشی کے طور پر اردو، پنجابی مکس زبان میں مکالمے بول کر جہاں شائقین کو اس انداز سے محفوظ ہونے کا موقع دیا، وہیں متاثر کن اداکاری بھی کی تھی۔

    خلیفہ نذیر نے زیادہ تر پنجابی فلموں میں ہی کردار نبھائے۔ ان کی مشہور فلموں میں بھائیاں دی جوڑی، انورا، اصغرا، دولت اور دنیا، انتقام، غلام، اک دھی پنجاب دی، بے تاب اور ماں پتر کے نام سرفہرست ہیں۔ انہوں نے فلم مستانہ میں مرکزی کردار بھی ادا کیا۔

  • پنجابی فلموں کے مشہور کہانی نویس اور نغمہ نگار حزیں قادری کا یومِ وفات

    پنجابی فلموں کے مشہور کہانی نویس اور نغمہ نگار حزیں قادری کا یومِ وفات

    آج پاکستان کی فلمی صنعت کے مشہور کہانی نویس اور نغمہ نگار حزیں قادری کی برسی ہے۔ حزیں قادری 19 مارچ 1991ء کو وفات پاگئے تھے۔

    حزیں قادری کا اصل نام بشیر احمد تھا۔ وہ 1926ء میں گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ اردو زبان میں بننے والی فلم دو آنسو سے حزیں قادری نے انڈسٹری میں نغمہ نگار کے طور پر قدم رکھا، لیکن اس کے بعد صرف پنجابی فلموں تک محدود ہوگئے۔ انھوں نے کئی پنجابی فلموں کے اسکرپٹ اور نغمات لکھے جن میں ہیر، پاٹے خان، چھومنتر، ڈاچی، ملنگی جیسی کام یاب فلمیں‌ شامل ہیں۔

    حزیں قادری کے مشہور نغمات میں فلم ہیر کا نغمہ اسین جان کے میٹ لئی رکھ وے، فلم چھومنتر کا بُرے نصیب مرے، فلم ڈاچی کے لیے انھوں‌ نے ٹانگے والا خیر منگدا جیسا نغمہ تحریر کیا جو بے حد مقبول ہوا۔ حزیں قادری کو ان کی کہانیوں اور فلمی نغمات پر نگار ایوارڈز سے نوازا گیا۔

    وہ لاہور میں ڈی ون، گلبرگ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • میک اَپ آرٹسٹ اکمل جنھوں‌ نے بطور اداکار 8 سال ناکامیاں سمیٹیں

    میک اَپ آرٹسٹ اکمل جنھوں‌ نے بطور اداکار 8 سال ناکامیاں سمیٹیں

    قد آور اور خوب رُو اکمل فلم نگری کے میک اَپ آرٹسٹ تھے اور ان کے بھائی اداکار۔ اکمل کے لیے کسی فلم کا کوئی معمولی اور چھوٹا سا کردار حاصل کرنا کیا مشکل تھا۔ ایک دن اکمل نے خود کو اس میدان میں آزمانے کا فیصلہ کیا اور ‘ایکسٹرا’ کے طور پر نظر آنے لگے۔

    ایک وقت آیا کہ اکمل پنجابی فلموں کے انتہائی مقبول اور مصروف اداکار بن گئے، لیکن کام یابی کا یہ سفر طویل اور مراحل صبر آزما ثابت ہوئے۔

    اکمل نے 1956ء میں فلم جبرو میں ہیرو کا رول نبھایا اور بڑے پردے کے شائقین اور فلم سازوں سے قبولیت اور پسندیدگی کی توقع کرنے لگے، لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اگلے 8 برس تک اکمل کو درجن سے زائد فلموں میں ہیرو یا مرکزی رول نبھانے کے باوجود خاص پذیرائی نہیں‌ مل سکی۔

    اکمل کی مایوسی کا یہ عالم تھا کہ 1963ء میں فلم بغاوت میں ولن اور فلم چاچا خوامخواہ میں ایک ثانوی کردار بھی قبول کرلیا، لیکن پھر ہدایت کار امین ملک کی فلم چوڑیاں نے انھیں ہمّت اور توانائی دی۔ انھوں نے اپنی اداکاری سے شائقین اور فلم سازوں کو بھی متاثر کیا۔ 1964ء میں ہدایت کار اسلم ایرانی کی فلم ہتھ جوڑی میں اکمل کو ایک دیہاتی کا کردار ملا جس نے انھیں‌ شہرت اور مقبولیت کی انتہاؤں پر پہنچا دیا۔ فلم سپرہٹ ثابت ہوئی جس کے بعد ہر طرف ان کا شہرہ ہونے لگا۔

    اپنے اسی دورِ عروج میں‌ جب ان کی عمر محض 38 سال تھی، اکمل کا انتقال ہو گیا۔

    اکمل پنجابی فلموں کے پہلے ہیرو تھے کہ جنھوں نے ایک کیلنڈر ائیر میں 10 سے زائد فلموں میں اداکاری کی اور یہی سلسلہ مزید دو سال جاری رہا جس سے اکمل کی مقبولیت اور مصروفیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔اداکارہ فردوس کے ساتھ ان کی جوڑی سب سے زیادہ پسند کی گئی تھی۔

    اکمل کی یہ مقبولیت اور ان کی کام یابی پنجابی فلموں تک محدود تھی اور متعدد اردو فلموں میں کام کرنے کے باوجود ناکامی کا سامنا کیا۔ بعض فلمی ناقدین کہتے ہیں کہ پنجابی فلموں میں بھی اکمل کی مقبولیت کا راز فلم کی کہانی اور کردار رہے، اور شہرت کی ایک وجہ جوانی میں ان کی موت ہے۔

  • مسعود پرویز: فلم انڈسٹری کا کام یاب ہدایت کار

    مسعود پرویز: فلم انڈسٹری کا کام یاب ہدایت کار

    ایک دور تھا جب پاکستان میں فلم انڈسٹری نے سنیما کے شائقین کو کوئل، ہیر رانجھا، انتظار، زہرِ عشق جیسی فلموں کے ذریعے متوجہ کیا اور اس وقت کے کئی فن کاروں اور فلمی صنعت کے مختلف شعبوں سے وابستہ لوگوں کے روزگار کا وسیلہ بنی۔ یہ معروف ہدایت کار مسعود پرویز کی یادگار فلمیں‌ ہیں۔ وہ 10 مارچ 2001 کو یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    1918 میں امرتسر میں پیدا ہونے والے مسعود پرویز کا تعلق ایک علمی اور ادبی گھرانے سے تھا۔ وہ مشہور ادیب سعادت حسن منٹو کے قریبی عزیز تھے۔

    مسعود پرویز نے ہدایت کاری کے شعبے میں نام کمانے سے پہلے فلموں میں اداکاری کی۔ تاہم یہ قیامِ پاکستان سے پہلے کی بات ہے۔ اس زمانے میں فلم منگنی میں مسعود پرویز کو ہیرو کا کردار نبھاتے دیکھا گیا اور یوں وہ فلم انڈسٹری سے جڑے۔ بعد میں وہ ہدایت کاری کی طرف آگئے۔

    فلم منگی کے بعد مسعود پرویز دو مزید فلموں غلامی اور میرا بائی میں بھی اداکاری کی، لیکن قیامِ پاکستان کے بعد جب یہاں فلمیں بننا شروع ہوئیں تو بطور ہدایت کار اپنی صلاحیتوں کو آزمانے کا فیصلہ کیا اور کام یابی ان کا مقدر بنی۔

    مسعود پرویز کی دیگر یادگار فلموں میں بیلی، مرزا جٹ، منزل، سکھ کا سپنا، جھومر، سرحد، مراد بلوچ، نجمہ، حیدر علی اور خاک و خون شامل ہیں۔

    صدارتی ایوارڈ یافتہ مسعود پرویز نے متعدد نگار ایوارڈز بھی اپنے نام کیے۔

  • رسیلی دھنیں‌ اور مدھر آوازیں، پنجابی فلموں‌ چند مشہور گیت

    رسیلی دھنیں‌ اور مدھر آوازیں، پنجابی فلموں‌ چند مشہور گیت

    قیامِ پاکستان کے بعد ہی لاہور میں پنچابی فلمیں بننا شروع ہو گئی تھیں۔ مشہور ہے کہ فلم ساز، ہدایت کار اور اداکار نذیر نے پہلی پنجابی فلم بنائی تھی جو بزنس کے لحاظ سے خاصی کام یاب رہی۔

    اس فلم کے پنجابی گیت بہت مقبول ہوئے تھے۔ اس کے بعد دیگر فلم سازوں نے بھی پنجابی فلمیں بنائیں جن کے لیے اس وقت کے مشہور شعرا نے گیت لکھے اور باکمال موسیقاروں نے ان کی دھنیں ترتیب دیں۔

    فلم سازوں‌ نے پنجابی گیتوں کو اُس دور کی مشہور آوازوں میں ریکارڈ کیا۔ یہ گیت جہاں فلم کی کام یابی کی بھی ایک وجہ بنے وہیں پاکستانی گلوکاراؤں کی شہرت اور مقبولیت کو بھی گویا پَر لگ گئے۔

    یہاں ہم چند ایسے ہی گیتوں کا تذکرہ کر رہے ہیں جو اپنی خوب صورت دھنوں، مدھر آواز اور رسیلے بولوں کی وجہ سے آج بھی سامعین کو اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں اور ان کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔

    تیرے مکھڑے دا کالا کالا تل وے، وے منڈیا سیالکوٹیا، وے منڈیا سیالکوٹیا

    https://youtu.be/f5BUEBrLPOc

    نی میں اُڈی اڈی جاواں ہوا دے نال

    مینوں رب دی سو تیرے نال پیار ہو گیا وے چنا سچی مچی

    اساں جان کے میت لئی اکھ وے

    https://youtu.be/joTA2YsbXnQ

    نی کی کیتا تقدیرے توں رول بیٹھے دو ہیرے

    https://youtu.be/eK0ZPoGhwQw

    او چن چھپ گیا انکھیاں لا کے، دل لے گیا نین ملا کے