Tag: پوسٹر

  • مقبوضہ کشمیر: میجر جنرل آصف غفورکے پوسٹرز آویزاں، بھارتی میڈیا بوکھلاہٹ‌ کا شکار

    مقبوضہ کشمیر: میجر جنرل آصف غفورکے پوسٹرز آویزاں، بھارتی میڈیا بوکھلاہٹ‌ کا شکار

    سری نگر: مقبوضہ کشمیرمیں ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفورکے پوسٹرز آویزاں ہوگئے، بھارتی میڈیا بوکھلا گیا.

    تفصیلات کے مطابق سری نگرکی شاہراہوں، گلیوں میں آصف غفورکے پوسٹرز، ہینڈ بلز لگائے گئے ہیں، پوسٹرز پر کشمیریوں کے لئے آخری گولی اور آخری سپاہی تک لڑنے کی تحریر درج ہے.

    ڈی جی آئی ایس پی آر کے پوسٹر پر بھارتی میڈیا بوکھلاہٹ کا شکار ہوگیا اور واویلا شروع کر دیا.

    ماضی میں بھارتی جنرل نے اطلاعات کی رسائی کےمحاذ پرآئی ایس پی آر کی جیت کا اعتراف کیا تھا، بھارتی جنرل کااعتراف تھا کہ اطلاعات کی رسائی کے محاذپر بھارت کوشکست ہوئی.

    تجزیہ کاروں کے مطابق ڈی جی آئی ایس پی آر کے ٹوئٹ کو مقبوضہ کشمیرکےعوام لائف لائن سمجھتے ہیں.

    بھارتی آرمی چیف کا خوف

    بھارتی آرمی چیف کی جانب سے بھی پاکستان کی انفارمیشن وارحکمت عملی پر اندیشوں کا اظہار کیا گیا ہے.

    بپن راوت نے سابق افسروں کوسوشل میڈیاکےاستعمال میں محتاط کردیا، بپن راوت نے خفیہ آپریشنل معلومات لیک ہونے کا بھی انکشاف کیا.

    بھارتی آرمی چیف نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ گزشتہ ہفتے آپریشنل معلومات لیک ہونے کے سنگین واقعات ہوئے.

    بھارتی آرمی چیف نے اعتراف کیا کہ پاکستان نے بھارت کو انفارمیشن وار فیئرمیں مات دے دی ہے.

  • عورت مارچ، وہ پوسٹر جو’وائرل‘ نہ ہوسکے

    عورت مارچ، وہ پوسٹر جو’وائرل‘ نہ ہوسکے

    عورت مارچ کے سوشل میڈیا پر جو پوسٹر وائرل ہوئے ، ان کے شور میں وہ پوسٹر کہیں دب کر رہ گئے جن کا ہر خاص و عام تک پہنچنا ضروری تھا، ہم آپ کے لیے لائے ہیں کچھ ایسے ہی پوسٹرز جو شیئر نہ ہوسکے۔

    آٹھ مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ملک کے مختلف شہروں میں جہاں بہت سے سیمنارز، تقاریب اور واک کا انعقاد کیا گیا وہیں کچھ شہروں میں عورت مارچ کا بھی اہتمام ہوا۔

    پاکستان ایک ایسا ملک ہےجہاں خواتین قوانین کاموثر نفاذ نہ ہونے کے سبب آج بھی اپنے بہت سے بنیادی حقوق کے لیے جدوجہد کررہی ہیں ، لیکن گزشتہ سال اور اس سال ان مسائل پر بات ہونے کے بجائے ’عورت مارچ‘ کے مخصوص پلے کارڈ ز ہی سوشل میڈیا اور تبصروں کی زینت بنے رہے۔

    پلے کارڈز پر لکھی گئی زبان کو کچھ لوگوں نے نازیبا قراردیا تو کچھ نے ان کارڈز کو بنیادی مسئلے سے غیر متعلق بھی قراردیا۔ اس سارے شور میں خواتین کے اصل حقوق کی جو آواز تھی وہ کہیں دب سی گئی۔

    یقیناً عورت مارچ کی خواتین کے مطالبات بھی ان کا حق ہیں لیکن ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ ترجیحات کیا ہیں۔ کیا اگر معاشرے کے مرد خراب زبان استعمال کرتے ہیں تو خواتین کو بھی اتنی ہی خراب زبان استعمال کرنے کا حق چاہیے، یا پھر درج ذیل مسائل کو زیادہ ترجیح دینی چاہیے۔

    سوشل میڈیا پر ہم نے کئی جگہ کچھ دبی دبی آوازیں دیکھیں جو کہنا چاہ رہی تھیں کہ پاکستان میں عورت کے بنیادی مسائل آخر ہیں کیا ، اور ہم کن چیزوں پر بات کررہے ہیں۔

    ہم نے ان تمام چیزوں کا جائزہ لینے کے بعد ان میں سے کچھ اہم نکات چنے اور اب انہیں یہاں آپ کی خدمت پیش کررہے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ اگر یہ مسائل حل ہوجائیں تو پھر کسی عورت کو کسی بھی قسم کے مارچ میں ’واہیات نعروں‘ کے ساتھ شرکت کی ضرورت نہیں ہوگی۔

    اہم نکات

    • لڑکی کی پیدائش پر بھی ویسے ہی خوشی منانی چاہیے جیسے لڑکے کی پیدائش پر منائی جاتی ہے ، اور بیٹی کی پیدائش پر عورت کو قصور وار نہ ٹھہرایا جائے۔
    • تعلیم ، غذا اور اندازِ زندگی میں برابر کا حق دار تسلیم کیا جائے اور دونوں کی پرورش یکساں خطوط پرکی جائے۔
    • بچے کی پیدائش پر ورکنگ خواتین کو قانون کے مطابق تنخواہ کے ساتھ چھٹی دی جائے ، اور کا م کی جگہوں پر ورکنگ خواتین کے بچوں کی نگہداشت کا انتطام کیا جائے۔
    • خواتین کو جائیداد میں ان کا جائز حصہ ریاستی قوانین کی روشنی میں دیا جائے۔
    • نوکریوں میں خواتین کو برابر کے مواقع فراہم کیے جائیں اور انہیں کام کے مطابق مردوں کے برابر تنخواہ دی جائے۔
    • شادی بیاہ کے معاملے میں خواتین کی رائے کو مقدم رکھاجائے اور کسی بھی جبر یا کسی اور سماجی مسئلے کے تحت ان پر کوئی رشتہ مسلط نہ کیا جائے۔
    • کھیتوں ، کارخانوں اور گھروں میں کام کرنے والی خواتین کے حقوق کو تسلیم کیا جائے اور انہیں ان کے کام کا باقاعدہ معاوضہ ادا کیا جائے۔ خواتین سے جبری مشقت لینے کا سلسلہ فی الفوربند کیا جائے۔

    یہ وہ چند آوازیں تھی جو سوشل میڈیا پر مناسب پذیرائی حاصل نہ کرسکیں اور عورت مارچ کے پوسٹروں پرہونے والی تنقید کے شور میں دب کر رہ گئیں۔ کیا آپ ان مطالبات سے متفق ہیں، اپنی رائے کا اظہار کمنٹ میں کریں۔

  • برطانوی بحری فوج میں ’خودکش بمبار‘ شامل کرنے کا اشتہار

    برطانوی بحری فوج میں ’خودکش بمبار‘ شامل کرنے کا اشتہار

    لندن: لندن کے طول و عرض میں عجیب و غریب اشتہاری پوسٹر نے شہریوں کو خوف اور اچھنبے میں مبتلا کردیا جس میں انہیں ’خود کش بمبار‘ بننے کی دعوت دی گئی ہے۔

    پوسٹر میں برطانیہ کی بحری فوج کا نشان ثبت ہے جبکہ اس میں فوج کے یونیفارم میں ملبوس 3 فوجیوں کو دکھایا گیا ہے۔ پوسٹر میں مزید معلومات کے لیے بحری فوج کی آفیشل ویب سائٹ بھی دی گئی ہے۔

    bomber-4

    یہ پوسٹر دراصل ایک برطانوی آرٹسٹ ڈیرن کلن نے شاہی (برطانوی) بحری فوج کی ہجو میں بنایا ہے۔ پوسٹر میں فوج میں شامل جوہری آبدوز کے عملے میں نوکری حاصل کرنے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ نوکری خودکش بمبار بننے کے مترادف ہے۔

    پوسٹر میں لکھا گیا ہے، ’ہماری جوہری آبدوزیں ایک خودکش مہم پر ہیں۔ ان آبدوزوں سے میزائل لانچ کرنے کا مطلب ہے یقینی موت۔ نہ صرف اس شخص کی جس نے میزائل لانچ کیا، بلکہ اس کے ساتھ ان لاکھوں معصوم لوگوں کی بھی جو اس میزائل کے نشانے پر ہوں گے‘۔

    اسے بنانے والے آرٹسٹ نے صرف ایک پوسٹر بنا کر اسے شہر میں لگایا، اور تھوڑی ہی دیر بعد شہریوں نے اس کی کئی کاپیاں بنا کر پورے لندن میں آویزاں کردیں۔

    bomber-3

    آرٹسٹ کا کہنا ہے کہ جوہری بموں کا استعمال اپنے آپ کو قتل کیے بغیر ممکن نہیں۔ ’جس طرح دہشت گرد خود پر بم باندھ کر ہزاروں معصوم افراد کو مار دیتے ہیں، بالکل یہی کام ہم خود بھی کر رہے ہیں‘۔

    اس عجیب و غریب پوسٹر اور اس پر لکھے پیغام نے پہلے تو لندن کے شہریوں کو ہراساں کیا، اس کے بعد جب انہیں اس کے پس منظر کا علم ہوا تو انہوں نے خود بھی اس پیغام کی تشہیر شروع کردی۔

  • فلم ’پی کے‘ پوسٹر میں برہنہ نظر آنا ہی کہانی ہے، عامر خان

    فلم ’پی کے‘ پوسٹر میں برہنہ نظر آنا ہی کہانی ہے، عامر خان

    ممبئی: بالی ووڈ فلم ’ پی کے ‘ کا کے متنازع پوسٹر پر اب عامر خان نے خاموشی توڑتے ہوئے کہا ہے کہ فلم کے جاری کردہ پوسٹر میں برہنہ نظر آنے کا مقصد کوئی شہرت حاصل کرنا نہیں ہے بلکہ یہ ایک ’’کی آرٹ‘‘ ہے جو کہ اس فلم کا حصہ ہے اور کہانی کی تصویر کشی کرتا ہے۔

    عامر خان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا جب آپ اس فلم کو دیکھیں گے پھر آپ سمجھ پائیں گے کہ اس پوسٹر میں عریاں نظر آنے کے پیچھے کیا نظریہ تھا۔ اس وقت میں اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ اس قسم کی فلم کے رائٹر راجکمار ہیں جو ہمیشہ کوشش کرتے ہیں کہ ان چیزوں کو منفرد انداز میں دکھایا جائے جو وہ سوچتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ میں ان کا بہت بڑا مداح ہوں۔