Tag: پوسٹ بجٹ

  • بجٹ میں ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے انقلابی اقدامات کیے گئے ہیں: معاشی ٹیم کی پریس کانفرنس

    بجٹ میں ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے انقلابی اقدامات کیے گئے ہیں: معاشی ٹیم کی پریس کانفرنس

    اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار خسرو بختیار کا کہنا ہے کہ بجٹ میں ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے انقلابی اقدامات کیے گئے ہیں، ثانیہ نشتر بتایا کہ احساس پروگرام کے لیے بجٹ میں 260 ارب روپے مختص کیے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار خسرو بختیار نے پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں بتایا کہ بجٹ میں ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے انقلابی اقدامات کیے گئے ہیں، صنعت کا پہیہ چلانے کے لیے بجلی اور گیس درکار ہے۔

    انہوں نے کہا کہ 15 سو ایکڑ پر کراچی میں انڈسٹری زون قائم کر رہے ہیں، ملک میں پائیدار ترقی کے لیے برآمدات بڑھانا لازمی ہیں تاکہ ڈالرز آئیں، اب ہمارا چیلنج ایس ایم ای سیکٹر ہے۔

    خسرو بختیار کا کہنا تھا کہ انڈسٹریل گروتھ میں انجینیئرنگ سیکٹر پر توجہ دے رہے ہیں۔

    وزیر اعظم کے مشیر برائے تجارت عبدالرزاق داؤد نے بتایا کہ آئندہ سالوں میں پاکستان میں کوسٹ آف ڈوئنگ بزنس کم ہوجائے گا، ایکسپورٹ کو مستحکم رکھنا ہے۔ بجٹ میں ٹیکسٹائل برآمدات کا ہدف 20 ارب ڈالر ہے۔ ادویات سازی کی برآمدات بڑھانے پر بھی توجہ ہے۔

    وزیر اعظم عمران خان کی معاون خصوصی برائے انسداد غربت پروگرام ڈاکٹر ثانیہ نشتر بتایا کہ احساس پروگرام کے لیے بجٹ میں 260 ارب روپے مختص کیے ہیں۔ احساس ایمرجنسی کیش کا دوسرا مرحلہ جلد شروع ہوگا۔

    ثانیہ نشتر کا کہنا تھا کہ جنوری سے احساس کیش کی رقم 12 ہزار سے بڑھا کر 13 ہزار کی جائے گی، ستمبر تک ایک کروڑ 20 لاکھ خاندانوں کو 12 ہزار روپے پہنچا دیں گے۔

    انہوں نے کہا کہ احساس کفالت پروگرام کا اکاؤنٹ کسی بھی بینک میں کھلوایا جا سکے گا، میرٹ پر 65 ہزار اسکالر شپس دیں گے، پناہ گاہ پروگرام کو توسیع دے رہے ہیں۔ یوٹیلٹی اسٹورز پر سبسڈی کا آغاز آئندہ ماہ سے ہو رہا ہے۔

  • بجٹ میں 10 قسم کے ود ہولڈنگ ٹیکسز کو ختم کیا جا رہا ہے: مشیر خزانہ

    بجٹ میں 10 قسم کے ود ہولڈنگ ٹیکسز کو ختم کیا جا رہا ہے: مشیر خزانہ

    اسلام آباد: مشیر خزانہ ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ کا کہنا ہے کہ بجٹ میں 10 قسم کے ود ہولڈنگ ٹیکسز کو ختم کیا جا رہا ہے، 2 سال میں 5 ہزار ارب روپے کی قرضوں کی ادائیگی کی۔

    تفصیلات کے مطابق مشیر خزانہ ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ نے پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ مالی سال سے متعلق آگاہ کرنا چاہتا ہوں، بجٹ کرونا وائرس سے نمٹنے اور عوام کو ریلیف دینے کے لیے ہے، 9 ماہ کے دوران حکومت نے بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔

    مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ حکومت میں آئے تو قرضوں کا حجم 30 ہزار ارب تھا، 2 سال میں 5 ہزار ارب روپے کی قرضوں کی ادائیگی کی۔ صوبوں کو دینے کے بعد وفاق کی آمدن 2 ہزار ارب بنتی ہے، تحریک انصاف حکومت نے اس سال 27 سو ارب روپے کے قرضے واپس کیے۔ حکومت نے اپنے اخراجات کم کرنے کے سخت اقدامات کیے، اسٹیٹ بینک سے کوئی قرض نہیں لیا، کسی ادارے کو کوئی گرانٹ نہیں دی۔

    انہوں نے کہا کہ کرونا کی وبا سے پہلے ٹیکس وصولی میں اضافہ ہو رہا تھا، ہمارے پاس ٹیکس کے بڑھنے کی شرح 27 فیصد تھی، حکومت آئی تو زر مبادلہ کے ذخائرختم ہو چکے تھے، تحریک انصاف کو 5 ہزار ارب روپے قرضوں کی مد میں واپس کرنے پڑے ہیں، ماضی میں لیے گئے قرضوں کے سود کی مد میں 27 سو ارب دینے پڑے۔

    مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کی وجہ سے آئی ایم ایف کے مطابق پوری دنیا میں آمدن 4 فیصد گرے گی، کرونا سے ہماری معیشت میں 3 ہزار ارب کی کمی آئے گی۔

    انہوں نے کہا کہ 1 کروڑ 60 لاکھ افراد میں سے 1 کروڑ کو نقد رقوم فراہم کردی گئیں، 280 ارب روپے کی گندم کی خریداری کی گئی، کاشتکاروں کی بہتری کے لیے 280 ارب کی خریداری کی گئی، چھوٹے کاروباری افراد کے 3 ماہ کے بجلی کے بل دیے گئے، زرعی شعبے کو بہتری کے لیے 50 ارب دیے گئے۔

    مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ کوشش کی کہ جتنا فائدہ عوام کو دے سکتے ہیں دیں، ڈیزل اور پیٹرول کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی کی گئی، حکومت نے احساس ایمرجنسی کیش گرانٹ اور گندم خریداری کے لیے فنڈز مختص کیے، زرعی شعبے کی ترقی کے لیے بھی خصوصی پروگرام شروع کیا گیا، عالمی سطح پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام کومنتقل کیا گیا۔

    انہوں نے کہا کہ ہم قرض وزیر اعظم ہاؤس کے لیے نہیں لے رہے، نئے قرض ماضی کے قرضوں کی ادئیگی کے لیے لے رہے ہیں، اس کے باوجود ہم نے کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے کا فیصلہ کیا، ہم حکومتی اخراجات کم کریں گے اور ترقیاتی بجٹ بڑھائیں گے، احساس پروگرام کے لیے مزید رقم مختص کریں گے۔

    مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کے حالات میں اب آگے کی طرف دیکھنا ہے، اس سال 29 سو ارب روپے پھر قرضوں کی مد میں دینے ہیں، واجب الادا قرضوں کی ادائیگی میں کمی ممکن نہیں، یہ رقوم عوام پرخرچ کرنے کے خواہاں ہیں، بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ ہم اخراجات کو کم کر رہے ہیں اور کیے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ 10 قسم کے ود ہولڈنگ ٹیکسز کو ختم کیا جا رہا ہے، امپورٹ پر ڈیوٹی کو ساڑھے 5 سے کم کر کے ڈیڑھ فیصد کیا جا رہا ہے، تعمیراتی شعبے کے لیے تاریخی پیکج دیا، کیپٹل گین ٹیکس کم کیا جا رہا ہے، سیمنٹ پر 15 روپے فی بیگ کمی کی جارہی ہے۔ ریلیف کے لیے 40 سے 50 ارب کی ڈیوٹیز واپس لے رہے ہیں، ٹیکس ریلیف کے لیے 40 سے 50 ارب کی ڈیوٹیز واپس لے رہے ہیں۔

    مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ہم لوگوں کی جیبوں میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہتے ہیں، ہم چاہتے ہیں جو اقدام بھی کریں وہ عوام کی بھلائی کے لیے ہو، ہماری سیونگز ٹیکسوں کی طرح ہدف سے کم رہتی ہیں، ہمارے لیے سیونگز کو بڑھانا ایک چیلنج ہے۔

  • کمزور اور غریب طبقے کے لیے اخراجات پر سمجھوتہ نہیں ہوگا: مشیر خزانہ

    کمزور اور غریب طبقے کے لیے اخراجات پر سمجھوتہ نہیں ہوگا: مشیر خزانہ

    اسلام آباد: مشیر خزانہ عبد الحفیظ شیخ کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کو 31 ہزار ارب کا قرض ورثے میں ملا، کمزور اور غریب طبقے کے لیے اخراجات پر سمجھوتہ نہیں ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق مشیر خزانہ عبد الحفیظ شیخ نے پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کل جمہوری حکومت کا پہلا بجٹ پیش کیا گیا، معیشت مشکل حالات سےگزر رہی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کو 31 ہزار ارب کا قرض ورثے میں ملا۔ ماضی کے قرضوں کا سود ادا کرنے کے لیے قرض لے رہے ہیں۔

    حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ برآمدات میں شرح نمو صفر فیصد ہے، بیرونی خدشات اور قرضوں کے مسائل ویسے کے ویسے ہی ہیں۔ 9.2 ارب ڈالر مسائل کے حل کے لیے حاصل کیے، درآمدات پر ڈیوٹی لگا کر کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔ ٹیکس وصولی کا ہدف چیلنجنگ بنایا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 12 فیصد عوام ٹیکس دیتے ہیں جو دنیا میں سب سے کم ہے، ہمیں اپنے ملک سے سچا ہونا ہوگا ٹیکس دینے ہوں گے۔ کوشش کی کہ لوگوں کی امنگوں کو پورا کیا جائے۔ اندرونی خسارے پر قابو پانے کی کوشش کی۔ ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں ہمارا امیر طبقہ کم ٹیکس دیتا ہے۔

    مشیر خزانہ نے کہا کہ ڈالر میں لیے گئے قرض ڈالر میں ہی واپس کیے جاتے ہیں۔ اہداف کے حصول کے لیے کچھ لوگوں کو ناراض کرنا پڑا تو تیار ہیں۔ قرضے ہم نے نہیں لیے لیکن ہمیں واپس کرنے پڑ رہے ہیں۔ فوج کو ہم صرف 1100 ارب روپے دے رہے ہیں۔ 3 سے 4 شعبوں میں اخراجات پر سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ کمزور اور غریب طبقے کے لیے اخراجات پر سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ سماجی بہبود کے لیے بجٹ دگنا کر دیا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ 2900 ارب ماضی کے قرض کے سود کی ادائیگی کے لیے ہیں، ماضی کے قرضوں اور سود کے لیے مزید قرض لیے۔ غریب طبقے کے لیے بجلی کی قیمت میں اضافہ نہیں ہوگا۔ 300 یونٹ سے کم بجلی کے استعمال پر اضافے کا اطلاق نہیں ہوگا۔ غریب طبقے کے لیے بجٹ 100 سے بڑھا کر 191 ارب کر دیا ہے، موجودہ حکومت سے پہلے 100 ارب ڈالر کے قرض لیے گئے۔ قبائلی اضلاع کے لیے 152 ارب روپے رکھے ہیں۔

    مشیر خزانہ نے بتایا کہ آمدن اور محصولات میں توازن کے لیے ٹیکس کا دائرہ بڑھایا گیا ہے، نجی شعبے کو گیس اور بجلی کی مد میں سبسڈی دی ہے۔ دنیا کو پیغام دیا ہے کہ ہم ہر معاملے میں متحد ہیں۔ برآمدات میں واضح کمی آئی جس سے ڈالر کی قدر بڑھی۔ برآمدی شعبے سے اچھا ٹیکس جمع ہو سکتا ہے۔ برآمدی سیکٹر کی مقامی فروخت پر ٹیکس عائد کیا ہے۔ برآمدی سیکٹر کی مقامی فروخت کا حجم 1200 ارب روپے تک ہے۔ ’1200 ارب کی فروخت پر 8 ارب ٹیکس دیا جاتا ہے، ایسا نہیں ہوگا‘۔

    انہوں نے کہا کہ ری فنڈ کے سلسلے کو بہتر کرنے کی گنجائش ہے، بنگلہ دیش اور چین کے ری فنڈ ماڈل کو اپنانے کی کوشش کریں گے۔ امیر طبقے کا ٹیکس نہ دینا قابل قبول نہیں۔ نان فائلر گاڑی اور جائیداد خرید کر خود بخود فائلر بن جائے گا۔ تیل کی قیمت بڑھنے پر چھوٹے صارفین کے لیے 216 ارب رکھے ہیں۔ 1655 ٹیرف لائن میں ٹیکس کی چھوٹ دی ہے۔ پاکستان میں نہ بننے والے خام مال پر کسٹم ڈیوٹی ختم کردی۔

    حفیظ شیخ نے کہا کہ چھوٹے گریڈ کے ملازمین کی تنخواہ میں اضافہ کیا، بڑے گریڈ کے افسران کی تنخواہ میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ انکم ٹیکس کی سطح میں تھوڑا بہت رد و بدل کیا گیا ہے۔ کولمبیا اور برازیل کی اشیا استعمال کرنی ہیں تو کریں لیکن زیادہ قیمت دے کر۔ 5 ہزار 555 ارب ٹیکس کا بوجھ ایف بی آر نہیں خود پر ڈالا ہے۔ عزت نفس برقرار رکھنی ہے تو ہمیں ٹیکس دینا ہوگا۔ گزشتہ حکومت نے آدھے ٹیکس دینے والوں کو فارغ کردیا، اگر ایک لاکھ کمانے والے غریب ہیں تو باقی غریبوں کا کیا بنے گا۔

    انہوں نے کہا کہ ابھی بھی 50 ہزار کمانے والے پر ٹیکس نہیں، کوئی بھی ٹیکس نہیں دینا چاہتا لیکن دنیا میں لوگ ٹیکس دیتے ہیں۔ نئے لگائے گئے ٹیکس گزشتہ ٹیکسوں سے آدھے ہیں۔ مدد کرنی ہے تو تعین کرنا ہوگا کہ کس کی مدد کرنی ہے۔ قبائلی اضلاع دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متاثر رہے ان کے لیے بجٹ غلط ہے؟

    مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ قرضوں کی تحقیقات کے لیے بنائے کمیشن کا طریقہ کار طے کرنا باقی ہے، ہمیں ماضی میں لیے گئے قرضوں کی ذمے داری کا تعین کرنا ہوگا۔ چینی کی قیمت میں اضافہ ہوگا لیکن کنٹرول کریں گے۔ محصولات کے اہداف کو حاصل کیے بغیر اپنے پاؤں پر نہیں کھڑے ہوسکتے۔

  • تعلیم کے بجٹ میں گزشتہ سال کی نسبت اضافہ کیا ہے: وزیر اعلیٰ سندھ

    تعلیم کے بجٹ میں گزشتہ سال کی نسبت اضافہ کیا ہے: وزیر اعلیٰ سندھ

    کراچی: وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ تعلیم کے بجٹ میں گزشتہ سال کی نسبت اضافہ کیا ہے۔ بجٹ تصدیق 30 ستمبر تک کی ہے، نئی اسمبلی بعد میں پھر تصدیق کرے گی۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 8 سال سے پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کر رہا ہوں۔ اسمبلی 28 مئی کو تحلیل ہوجائے گی، پھر نگران سسٹم آئے گا۔

    وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ نگران حکومت 2 ماہ میں عام انتخابات کروائے گی۔ بجٹ کے دو حصے ہیں۔ ایک سپلیمنٹری حصہ ہے جس میں زیادہ اخراجات کی منظوری ہوتی ہے۔ دوسرے حصے میں پورے سال کا بجٹ ہے لیکن تصدیق 3 ماہ کی لیں گے۔

    انہوں نے کہا کہ بجٹ تصدیق 30 ستمبر تک کی ہے، نئی اسمبلی بعد میں پھر تصدیق کرے گی۔ ’تعلیم کے بجٹ میں گزشتہ سال کی نسبت اضافہ کیا ہے، ملازمین کی بنیادی تنخواہوں میں 10 فیصد کا اضافہ کیا ہے‘۔

    ان کا کہنا تھا کہ وفاق سے کراچی کی تعمیر نو کے لیے بات کی مگر کچھ حاصل نہ ہوا۔ 10 بلین سے کراچی میں سڑکیں، فلائی اوور، انڈر پاسز بنائیں گے۔ گورنر سندھ نے 7 بلین روپے کی اسکیم کا افتتاح کرنے کی بات کی۔ ’رواں سال وفاق نے پی ایس ڈی پی میں ایک ٹکا نہیں رکھا‘۔

    وزیر اعلیٰ نے کہا کہ انڈس ہائی وے روڈ پر حادثات سے اموات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ وفاقی حکومت منصوبے کی رقم ہونے کے باوجود کچھ نہیں کر رہی۔ منصوبے کا ٹھیکہ بھی دے چکے ہیں لیکن حاصل کچھ نہیں ہوا۔

    انہوں نے مزید کہا کہ سندھ کو صرف 300 ملین روپے کی 3 اسکیموں سے نوازا گیا۔ آبی شعبے میں سندھ کو 1.7 فیصد شیئر دیا گیا۔ ’کیا یہ ہمارے ساتھ انصاف ہو رہا ہے‘؟

    مراد علی شاہ نے کہا کہ سندھ میں پیپلز پارٹی 2013 کے بعد اور مضبوط ہوئی ہے۔ پنجاب میں روزانہ کی بنیاد پر لوگ ن لیگ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی سندھ میں کامیابی سے پورا پاکستان جیتے گی۔

    خیال رہے کہ گزشتہ روز سندھ حکومت نے 3 ماہ کے لیے منی بجٹ پیش کیا تھا جو 30 ستمبر تک نافذ العمل ہوگا۔ ٹیکس فری بجٹ کا کل حجم 11 کھرب 44 ارب روپے ہے جبکہ اس میں کسی نئی اسکیم کو شامل نہیں کیا گیا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔