Tag: پولیس آرڈر 2002

  • نئے پولیس آرڈر 2002 پر عمل ہو رہا ہے: آئی جی سندھ

    نئے پولیس آرڈر 2002 پر عمل ہو رہا ہے: آئی جی سندھ

    کراچی: آئی جی سندھ ڈاکٹر کلیم امام نے کہا ہے کہ نئے پولیس آرڈر 2002 پر عمل ہو رہا ہے، پولیس آرڈر میں آئی جی کے اختیارات برقرار رکھے گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق آئی جی سندھ کا کہنا ہے کہ نئے پولیس آرڈر میں آئی جی کے اختیارات برقرار ہیں، آرڈر پر عمل ہو رہا ہے، اس کے تحت تبادلے مشاورت سے ہو رہے ہیں۔

    آئی جی سندھ نے کہا کہ سندھ میں خود کشیوں اور قبائلی فسادات میں اضافہ ہوا، میرپور خاص ڈویژن میں ایک سال میں 250 افراد نے خود کشی کی، جس کی بڑی وجہ غربت اور معاشی مسائل ہیں۔

    ڈاکٹر کلیم امام کا کہنا تھا کہ قبائلی فسادات کی وجہ سے اسکول اور اسپتال بند ہو جاتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سندھ میں ایف آئی آرز کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: سندھ پولیس کی تاریخ میں پہلی مرتبہ حساس ملزمان کی بلیک بک تیار

    سیکریٹری داخلہ سندھ قاضی کبیر کا کہنا تھا کہ پولیس کا نیا قانون سندھ اسمبلی نے منظور کر لیا، اب آئی جی سندھ اور ہوم سیکریٹری کا کام اس منظور شدہ قانون پر عمل کرانا ہے۔

    قاضی کبیر نے کہا کہ پولیس افسران کا تبادلہ چھوٹی سی بات ہے، آئی جی سندھ کلیم امام تمام امور پر عمل کر رہے ہیں۔

    دریں اثنا، سندھ حکومت نے پراسیکیوشن اکیڈمی قایم کرنے کا اعلان کر دیا ہے، سپریم کورٹ کی ہدایت پر 15 ایکڑ زمین پر اکیڈمی قایم کی جائے گی۔

    سیکریٹری داخلہ سندھ نے کہا کہ یہ اکیڈمی ججز اور وکلا کو تربیت فراہم کرے گی، اس اکیڈمی کے لیے بل سندھ کابینہ اور سندھ اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔

  • حکومت سندھ نے نوٹیفکیشن کے ذریعے پولیس آرڈر نافذ کر دیا

    حکومت سندھ نے نوٹیفکیشن کے ذریعے پولیس آرڈر نافذ کر دیا

    کراچی: سندھ حکومت نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے پولیس آرڈر 2002 نافذ کر دیا، تاہم ذرایع کا کہنا ہے کہ گورنر سندھ نے ایک بار پھر پولیس آرڈر ترمیمی بل مسترد کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق حکومت سندھ نے آرٹیکل 116 کے تحت ترمیم شدہ پولیس آرڈر 2002 نافذ کر دیا ہے، جس کے بعد پولیس افسران کے تبادلے اور تقرر کے اختیارات سندھ حکومت کو مل گئے ہیں۔

    ادھر ذرایع کا کہنا ہے کہ گورنر سندھ عمران اسماعیل نے ایک بار پھر پولیس آرڈر ترمیمی بل مسترد کر دیا ہے۔

    ترمیمی بل کے مطابق سندھ پولیس میں تبادلے اور تقرری کے لیے وزیر اعلیٰ سندھ اور آئی جی کی مشاورت لازمی قرار دی گئی ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  پولیس آرڈر بحالی بل: سندھ حکومت نے اپوزیشن کی متعدد تجاویز مان لیں

    بل کے نفاذ کے بعد سندھ حکومت ضلعی پبلک سیفٹی کمیشن قائم کرے گی، کمیشن میں بلدیاتی نمائندے، ارکان اسمبلی اور سول سوسائٹی کے ارکان شامل ہوں گے۔

    خیال رہے کہ رواں ماہ پولیس آرڈر بحالی بل کے معاملے پر حکومتِ سندھ اور اپوزیشن کے درمیان مثبت پیش رفت ہوئی تھی، سندھ حکومت نے اپوزیشن کی متعدد تجاویز تسلیم کر لی تھیں۔

    اس سلسلے میں پاکستان تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور سول سوسائٹی کے درمیان مذاکرات ہوئے تھے، جس میں حکومت نے اپوزیشن کی کئی تجاویز مان لیں۔

  • پولیس آرڈر بحالی بل: سندھ حکومت نے اپوزیشن کی متعدد تجاویز مان لیں

    پولیس آرڈر بحالی بل: سندھ حکومت نے اپوزیشن کی متعدد تجاویز مان لیں

    کراچی: پولیس آرڈر بحالی بل کے معاملے پر حکومتِ سندھ اور اپوزیشن کے درمیان مثبت پیش رفت ہوئی ہے، سندھ حکومت نے اپوزیشن کی متعدد تجاویز تسلیم کر لیں۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور سول سوسائٹی کے درمیان پولیس آرڈر بحالی بل پر مذاکرات ہوئے، حکومت نے اپوزیشن کی کئی تجاویز مان لیں۔

    پولیس افسران کے تقرر اور تبادلوں کے لیے آئی جی سندھ کی مشاورت لازمی قرار دی گئی، کسی بھی کیس کی تفتیش منتقل کرنے کا وزیر داخلہ کا اختیار واپس لیا جائے گا۔

    پولیس آرڈر 2002 بحالی بل کا نظرِ ثانی شدہ مسودہ کابینہ میں پیش کیا جائے گا، پبلک سیفٹی کمیشن کے آزاد ارکان کے انتخاب پر بھی حکومت اور اپوزیشن نے اتفاق کر لیا ہے۔

    پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر حلیم عادل شیخ نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں صوبے میں پولیسنگ کا مؤثر نظام آئے۔ انھوں نے تصدیق کی کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ بعض نکات پر اتفاق ہوا ہے۔

    خیال رہے کہ سندھ حکومت چاہتی ہے کہ پولیس آرڈر 2002 کو 2011 کی شکل میں بحال کیا جائے، وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا تھا کہ پولیس سندھ حکومت کو جواب دہ ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  گورنر سندھ نے پولیس ریفارمز ایکٹ اعتراضات لگا کر مسترد کردیا

    30 اپریل کو حکومت سندھ کے ایک اجلاس میں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے 2002 کا پولیس قانون کچھ ترمیم کے ساتھ سندھ اسمبلی کو بھیجنے کی منظوری دی تھی۔

    تاہم یہ ترمیمی بل جب 30 مئی کو گورنر سندھ عمران اسماعیل کے پاس توثیق کے لیے پہنچا تو انھوں نے پولیس ریفارمز ایکٹ اعتراضات لگا کر مسترد کر دیا، انھوں نے کہا کہ سندھ حکومت نے ریفارمز ایکٹ کی 190 شقوں میں سے 80 حذف کر دی ہیں، بل میں اتنی تبدیلیاں کی گئیں کہ کسی صورت اسے بل نہیں کہا جا سکتا ہے۔

    گورنر سندھ نے کہا کہ سندھ حکومت کو یہی کرنا تھا تو پولیس ریفارمز ایکٹ کے بجائے نیا بل لے آتی، بل کے تحت آئی جی سندھ کے اختیارات بالکل ختم کر دیے گئے ہیں، بل کے تحت آئی جی سندھ کا کردار ایک ڈاکیا یا پوسٹ مین کا رہ جائے گا۔