Tag: پولیس افسر

  • پولیس افسر نے اپنے کمسن بیٹے کو ہتھکڑی لگا کر قید کرلیا

    پولیس افسر نے اپنے کمسن بیٹے کو ہتھکڑی لگا کر قید کرلیا

    واشنگٹن: امریکی ریاست فلوریڈا کے ایک پولیس افسر نے اپنے تین سالہ کمسن بیٹے کو ہتھکڑی لگا کر قید کرلیا۔

    رپورٹ کے مطابق یہ عجیب واقعہ امریکی ریاست فلوریڈا میں پیش آیا جہاں ایک پولیس افسر نے اپنے 3 سالہ بیٹے کو سبق سکھانے کے لیے ہتھکڑی لگا کر اسے جیل میں بند کردیا۔

    رپورٹ کے مطابق امریکی پولیس افسر کے 3 سالہ بیٹے نے پینٹ میں اجابت(پوٹی) کردی تھی جس پر اس کے والد نے سزا کے طور پر ہتھکڑی لگا کر جیل میں قید کیا۔

    باڈی کیمرے کے ذریعے سامنے آنے والی ریکارڈ شدہ گفتگو سے پتہ چلا کہ فلوریڈا کے ڈیٹونا بیچ پولیس ڈپارٹمنٹ کا لیفٹننٹ مائیکل شان براڈ اپنے محکمے کے شبعہ چلڈرن اینڈ فیملیز کے ساتھی ورکر کو بتارہا ہے کہ اسے اپنے تین سالہ بیٹے کو حوائج ضروریہ سے فراغت کی تربیت میں مشکل کا سامنا ہے۔

    اس نے تین سالہ بچے کو یہ سیکھانے کے لیے اسے گزشتہ سال اکتوبر میں دوسری بار لگاتار تین دنوں تک جیل میں ہتھکڑی لگا کر قید کیا۔

    لیفٹننٹ مائیکل شان براڈ کے مطابق اس تکلیف دہ تجربہ کی وجہ سے بچے نے اس سے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ اپنی پینٹ میں پوٹی نہیں کرے گا۔ اس نے مزید بتایا کہ بچے نے روتے ہوئے یہ عہد کیا تھا اور مجھے اس سے یہی توقع تھی۔

  • امریکا کی پہلی مسلمان پاکستانی پولیس افسر فرحت میر کمیونٹی کیلئے روشن مثال

    امریکا کی پہلی مسلمان پاکستانی پولیس افسر فرحت میر کمیونٹی کیلئے روشن مثال

    واشنگٹن: امریکا کی پہلی مسلمان پاکستانی خاتون پولیس افسر فرحت میر امریکی کمیونٹی کیلئے روشن مثال بن گئی۔

    امریکا کی پہلی مسلمان خاتون پولیس افسر فرحت پاکستان میں ایبٹ آباد کے علاقے ملکوٹ سے تعلق رکھتی ہیں، فرحت آٹھ سال سے لاس ویگاس پولیس میں کاؤنٹر ٹیررازم آفیسر کی ذمہ داریاں سنبھال رہی ہیں۔

    فرحت میر کو لاس ویگاس پولیس ٹریننگ اکیڈمی میں اعلیٰ کارکردگی پر گولڈ میڈل بھی دیا گیا تھا۔

    امر یکی میڈیا نے بھی فرحت میر کی کمیونٹی کے تحفظ کیلئے خدمات پر انہیں خراج تحسین پیش کیا، کہا کہ وہ عبادت گاہوں کو دہشت گرد حملے سے بچانے کیلئے متحرک ہیں۔

    فرحت میر کا کہنا تھاکہ عبادت گاہوں کے تحفظ کیلئے کمیونٹی سے مسلسل رابطہ رہتا ہے، عبادت گاہیں ہر ایک کیلئے کھلی رہتی ہیں۔

    فرحت کا کہنا ہے کہ عبادت گاہیں دہشتگرد حملے کا آسان ہدف ہوتی ہیں اس لیے کمیونٹی کے ساتھ مل کر تحفظ کیلئے اقدامات کیے جاتے ہیں۔

    انہوں نے  پیغام دیا کہ امریکا میں آباد پاکستانیوں کو پولیس اور سیاست سمیت ہر میدان میں آگے آنا چاہیے۔

     انہوں نے اسلامو فوبیا کے خاتمے اور امریکی معاشرے میں مسلمانوں کے مثبت اور تعمیر ی کردار کو اجاگر کیا۔

    رپورٹ کے مطابق فرحت میر چار زبانیں پڑھ اور تین روانی سے بول سکتی ہیں، وہ مسز نیواڈا کے مقابلے میں حصہ لے رہی ہیں۔

    مسلمز آف امریکا کے سربراہ اور ریپبلکنز رہنما ساجد تارڑ نے فرحت میر کو کمیونٹی رپورٹ میں بتایا گیا کہ  پاکستان میں ایبٹ آباد کے علاقے ملکوٹ سے تعلق رکھنے والی فرحت میر نائن الیون حملے کے دو سال بعد امریکا منتقل ہوئیں۔

  • کراچی :  پولیس افسر کی تیز رفتار  گاڑی نے تین بہن بھائیوں کو کچل ڈالا

    کراچی : پولیس افسر کی تیز رفتار گاڑی نے تین بہن بھائیوں کو کچل ڈالا

    کراچی : سپرہائی وےجمالی پل کےقریب پولیس افسر کی تیز رفتار گاڑی نے تین بہن بھائیوں کو کچل ڈالا، جس کے نتیجے میں ایک بچہ جاں بحق اور دو زخمی ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں سپرہائی وےجمالی پل کےقریب ٹریفک حادثہ پیش آیا ، جہاں پولیس کی تیزرفتارگاڑی نے 4 افراد کو ٹکر مار دی۔

    ریسکیوذرائع نے بتایا کہ حادثے میں ایک بچہ جاں بحق اور 2 زخمی ہوئے ، جاں بحق اورزخمی بچےبہن بھائی ہیں۔

    عوام کو جمع ہوتے دیکھ کر ڈرائیور نے گاڑی بھگادی، عینی شاہد نے بتایا کہ خاتون اور تین بچے سڑک کراس کر رہے تھے،پولیس افسر کی تیز رفتار گاڑی نے چاروں کو ٹکر ماری،تینوں بچے اور خاتون دور جاگرے۔

    عینی شاہد کا کہنا تھا کہ کار میں خاتون بیٹھی تھی ڈرائیور چلا رہا تھا، خاتون کا کہنا تھا کہ میں پولیس کی فیملی سے ہوں۔

    ریسکیو حکام کے مطابق جاں بحق بچے کی شناخت 10 سالہ محسن کے نام سے ہوئی جبکہ 6 سالہ عائشہ اور 8 سالہ حسنین شدید زخمی ہیں۔

  • کراچی: پولیس افسر کی وردی پہن کر اغوا اور ڈکیتی کی وارداتوں کا انکشاف

    کراچی: پولیس افسر کی وردی پہن کر اغوا اور ڈکیتی کی وارداتوں کا انکشاف

    کراچی:پولیس افسر کی وردی پہن کر اغوااور ڈکیتی کی وارداتوں کا انکشاف سامنے ایا، پولیس نے انتہائی مطلوب 3 ملزمان کو گرفتار کرکے پولیس یونیفارم اور 3پستول برآمد کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں سرجانی پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے انتہائی مطلوب 3 ملزمان کو گرفتار کرلیا، ایس ایس پی سہائی عزیز نے بتایا کہ
    گرفتار ملزمان سے پولیس یونیفارم اور 3پستول بھی برآمد ہوئی۔

    سہائی عزیز کا کہنا تھا کہ گرفتار ملزمان میں مرزا شاہد ، بابر علی اورعبدالرافع شامل ہیں ، ملزمان پولیس یونیفارم پہن کر واردات کرتے تھے۔

    ایس ایس پی نے بتایا کہ ملزمان نے پولیس بن کر 22 جنوری کو جمشید نامی شہری کو روکا اور گھر کے قریب سے ہی اغواکرکے لےگئے جبکہ اگلے روز پھر یونیفارم میں ہی مغوی کو اس کے گھر تک لائے۔

    سہائی عزیز کا کہنا تھا کہ تلاشی کے بہانے گھر میں نقدی اور قیمتی سامان لوٹا اور واردات کے بعد ملزمان جمشید کو چھوڑ کر فرار ہوگئے، سرجانی پولیس نے مغوی سے تمام معلومات حاصل کرلیں۔

  • قیدیوں پر بہیمانہ تشدد میں ملوث پولیس افسر کو عمر قید کی سزا

    قیدیوں پر بہیمانہ تشدد میں ملوث پولیس افسر کو عمر قید کی سزا

    برلن: جرمنی میں شام کے ایک سابق پولیس افسر کو عمر قید کی سزا سنا دی گئی جو قیدیوں پر بہیمانہ اور جان لیوا تشدد میں ملوث رہا۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق جرمنی کی عدالت نے شامی خفیہ پولیس کے سابق افسر کو ایک دہائی قبل دمشق کے قریب ایک جیل میں قیدیوں پر تشدد کی نگرانی کرنے پر عمر قید کی سزا سنائی ہے۔

    ان شامی افراد کو اس تاریخی مقدمے پر فیصلے کا انتظار تھا جو خود صدر بشر الاسد کی حکومت کے دوران اس تشدد کا نشانہ بنے یا جنہوں نے اس کے ہاتھوں اپنے پیاروں کو کھویا ہے۔

    جرمنی کے کوبلینٹز شہر میں ریاستی عدالت نے کہا ہے کہ مجرم انور رسلان شام کے شہر دوما کی ایک جیل میں سینیئر افسر تھے، جہاں اپوزیشن کے مبینہ مظاہرین کو قید کیا گیا تھا۔

    جرمن میڈیا کے مطابق عدالت میں انور رسلان کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

    انور رسلان کے وکلا نے عدالت سے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ انہوں نے کبھی ذاتی طور پر کسی پر تشدد نہیں کیا اور وہ 2012 میں ملک سے فرار ہوئے تھے، اسی لیے انہیں بری کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔

    جرمن استغاثہ کا الزام ہے کہ انور رسلان نے اپریل 2011 سے ستمبر 2012 تک 4 ہزار سے زائد قیدیوں پر منظم اور وحشیانہ تشدد کی نگرانی کی تھی جس کے نتیجے میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔

    گزشتہ سال کوبلینٹز کی عدالت نے جونیئر افسر ایاد الغریب کو انسانیت کے خلاف جرائم کرنے پر ساڑھے 4 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ دونوں افراد نے جرمنی میں پناہ لی ہوئی تھی اور انہیں 2019 میں گرفتار کیا گیا تھا۔

    متاثرین اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ یہ فیصلہ ان ان گنت لوگوں کے لیے انصاف کی جانب پہلا قدم ہوگا، جو شام میں یا انٹرنیشنل کرمنل کورٹ میں ایسے افسران کے خلاف مجرمانہ مقدمے دائر نہیں کر پائے۔

  • امارات میں روبوٹک پولیس افسر جرائم کی تفتیش کرے گا

    امارات میں روبوٹک پولیس افسر جرائم کی تفتیش کرے گا

    ابو ظہبی: متحدہ عرب امارات کے شہر ام القوین کے محکمہ پولیس میں روبوٹک افسر شامل کرلیا گیا جو مختلف جرائم کی تحقیقات کرے گا۔

    مقامی میڈیا کے مطابق ایکسپو 2020 میں مذکورہ روبوٹک پولیس افسر کو پیش کیا گیا، ام القوین پولیس کے کمانڈر ان چیف میجر جنرل شیخ رشید بن احمد نے پروجیکٹ کا افتتاح کیا۔

    اس روبوٹک پولیس افسر کا کام بچوں کے خلاف جرائم کی تحقیقات کرنا ہے۔

    روبوٹ نے 3 سالہ تربیتی تجربے کے بعد 3 اکتوبر سے کام کرنا شروع کیا اور اس دوران اس نے بچوں کے خلاف جرائم کی تحقیقات میں متاثر کن نتائج حاصل کیے۔

    کمانڈر ان چیف کا کہنا ہے کہ یہ پروجیکٹ مستقبل کی ایک جھلک ہے اور تمام شعبوں میں مصنوعی ذہانت کے نفاذ کی طرف ایک کوشش ہے۔

  • سابق پولیس افسر کی موت نے 35 سال پرانے قتل اور زیادتی کے مقدمات حل کردیے

    سابق پولیس افسر کی موت نے 35 سال پرانے قتل اور زیادتی کے مقدمات حل کردیے

    پیرس: فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں کئی دہائیوں تک ایک سیریل کلر نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پریشان کیے رکھا، اور بالآخر اس کی موت کے بعد اس کے ڈی این اے نے ان تمام کیسز کو حل کردیا جو اب حل نہ کیے جاسکے تھے۔ قاتل ایک سابق فوجی افسر اور پولیس اہلکار تھا۔

    مقامی طور پر فرانسوا ویروو کے نام سے منسوب اس سابق فوجی کا ڈی این اے لے گریلے سے منسلک کئی جرائم کے جائے وقوعہ میں پایا گیا تھا۔ قتل اور ریپ کے واقعات نے سنہ 1986 اور 1994 کے درمیان پیرس میں سنسنی پھیلا رکھی تھی لیکن یہ واقعات ملزم کے اعتراف سے قبل تک سلجھائے نہ جاسکے۔

    ان سے منسوب سنسنی خیز جرائم میں 11 سال کی سیسل بلوخ کا قتل بھی شامل تھا۔ سنہ 1986 میں جب وہ پیرس میں اپنے سکول نہ پہنچیں تو اس کے بعد ان کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی گئی۔

    فرانسوا ویروو کو 4 قتل اور 6 ریپ کے واقعات سے منسلک کیا جا رہا ہے لیکن وکیل مسٹر سبان کا کہنا ہے کہ بلاشبہ وہ مزید جرائم کے بھی مرتکب رہے ہوں گے اور ان کی موت سے بہت سے خاندانوں کے سوالوں کے جواب ادھورے رہ گئے ہیں۔

    یہ معاملہ بالآخر اس وقت حل ہونے لگا جب حال ہی میں ایک تفتیشی مجسٹریٹ نے پیرس کے علاقے میں اس زمانے میں تعینات 750 ملٹری پولیس افسران کو خط بھیجنے کا فیصلہ کیا۔

    پولیس کو ایک فلیٹ میں ایک لاش ملی اور فلیٹ میں مردہ پایا جانے والا 59 سال کا یہ شخص پولیس افسر بننے سے پہلے ایک ملٹری پولیس کا اہلکار تھا اور وہ ریٹائر ہونے والا تھا۔

    پولیس نے 24 ستمبر کو پانچ دن کے بعد انہیں ڈی این اے کا نمونہ دینے کے لیے طلب کیا تھا لیکن ان کی بیوی نے 27 ستمبر کو ان کی گمشدگی کی اطلاع دی تھی۔

    ان کی لاش بحیرہ روم کے ساحل پر گراؤ دو روئی میں ایک کرائے کے فلیٹ میں خودکشی کے ایک نوٹ کے ساتھ ملی۔ استغاثہ کا کہنا ہے کہ ان کا ڈی این اے کئی جرائم کے مقامات سے ملنے والے شواہد سے ملتا ہے۔

    خط میں انہوں نے بظاہر متاثرین یا حالات کی تفصیل کے بغیر قتل کا اعتراف کیا ہے۔

    مقتولہ سیسل بلوخ کے سوتیلے بھائی لوک رچرڈ ان رہائشیوں میں شامل ہیں جنہوں نے اس حادثے کے دن ایک شخص کو اپنے اپارٹمنٹ کی عمارت میں دیکھا تھا جس کے چہرے پر کیل مہاسوں کے بہت سے نشان تھے۔

    بلوخ کی لاش بعد میں تہہ خانے میں پرانے قالین کے ایک ٹکڑے کے نیچے ملی تھی۔ عہدیداروں نے بتایا کہ اس لڑکی کا ریپ کیا گیا تھا، اس کا گلا گھونٹا گیا اور پھر چھرا گھونپا گیا اور اس واقعے نے پورے فرانس میں صدمے کی لہر دوڑا دی تھی۔

    ان کے بھائی نے پولیس کو ملزم کا خاکہ بنانے میں مدد کی تھی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ انہوں نے اس شخص کے ساتھ لفٹ شیئر کی تھی۔ رچرڈ نے کہا تھا کہ یہ واقعہ کسی سائے کی طرح تاعمر ان کا پیچھا کرتا رہا اور انہیں بہت بڑی ناانصافی کا احساس دلاتا رہا۔

    ڈی این اے شواہد نے بلوخ نامی نامی لڑکی کے قاتل کو دوسرے قتل اور ریپ کے واقعات میں بھی منسلک پایا۔ ان میں 1987 میں 38 سال کے گیلس پولیٹی اور ان کی جرمن ساتھی ارمگارڈ مولر کا قتل شامل تھا۔

    مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ سنہ 1994 میں 19 سال کی کیرین لیروئے کے قتل سے بھی منسلک تھا جو سکول جاتے ہوئے غائب ہونے کے ایک ماہ بعد جنگل کے کنارے مردہ پائی گئی تھیں۔

    ایک 26 سال کی جرمن خاتون کے ساتھ ساتھ 14 اور 11 سال کی دو لڑکیوں کے ساتھ ہونے والے ریپ میں بھی ملزم کو ایک پولیس اہلکار کے طور پر پہچانا گیا تھا۔

    متاثرین کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے فرانس انفو ٹی وی کو بتایا کہ ہمیں یہ یقین تھا کہ وہ یا تو کوئی پولیس افسر تھا یا ایک ملٹری پولیس کا اہلکار کیونکہ انہوں نے اپنے متاثرین کے خلاف جو طریقہ اختیار کیا اور جو ہتھکنڈے اپنائے دونوں اسی جانب اشارہ کر رہے تھے۔

    وکیل خیال ہے کہ قاتل نے اپنے ڈی این اے کو جرائم کی جگہ سے مٹانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن اب ان کی شناخت ظاہر ہو گئی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ان تمام جرائم کی دوبارہ تفتیش ہو جو حل نہیں ہوئے اور جس میں ڈی این اے کی تکنیک کبھی استعمال نہیں کی گئی۔

  • لندن: ماسک نہ پہننے پر پولیس اہلکار نے لڑکی کا گلا دبا دیا

    لندن: ماسک نہ پہننے پر پولیس اہلکار نے لڑکی کا گلا دبا دیا

    لندن: برطانوی دارالحکومت میں لندن پولیس کے ایک اہلکار نے ماسک نہ پہننے پر ایک لڑکی کا گلا اتنی زور سے دبایا کہ اسے سانس لینے میں مشکل ہوگئی، سوشل میڈیا پر پولیس کے اس رویے پر سخت تنقید کی جارہی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق لندن پولیس نے ایک لڑکی کو ماسک نہ پہننے کی اتنی سخت سزا دی کہ وہ مرتے مرتے بچی۔

    لندن پولیس نے وحشی پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ماسک نہ پہننے پر ایک لڑکی کا گلا دبا دیا جس کی وجہ سے اس لڑکی کو سانس لینے میں پریشانی ہونے لگی۔

    عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ اگر پولیس اہلکار تھوڑی دیر اور خاتون کا گلا دبائے رہتا تو اس کی موت بھی ہو سکتی تھی۔ سوشل میڈیا پر پولیس اہلکار کی اس حرکت پر سخت تنقید کی جارہی ہے۔

    خیال رہے کہ دنیا بھر کی طرح برطانیہ میں بھی کرونا وائرس ایک بار پھر زور پکڑنے لگا ہے، برطانیہ میں کرونا وائرس کیسز کی مجموعی تعداد 4 لاکھ 46 ہزار 156 ہوچکی ہے۔

    برطانیہ میں اب تک کوویڈ 19 سے 42 ہزار 72 اموات ہوچکی ہیں۔

    برطانیہ سمیت دنیا بھر میں کرونا وائرس کے مجموعی کیسز کی تعداد 3 کروڑ 38 لاکھ 72 ہزار 977 ہوچکی ہے جبکہ دنیا بھر میں 10 لاکھ 13 ہزار 146 اموات ہوچکی ہیں۔

  • امریکا: پولیس افسر کی کافی میں تھوکنے والا شخص گرفتار

    امریکا: پولیس افسر کی کافی میں تھوکنے والا شخص گرفتار

    امریکا میں اسٹار بکس کے ایک ملازم کو ایک پولیس افسر کی کافی میں تھوکنے پر گرفتار کرلیا گیا۔

    یہ واقعہ امریکی ریاست نیو جرسی میں پیش آیا، پولیس کا کہنا ہے کہ انہیں اطلاع موصول ہوئی کہ مقامی کافی شاپ کا ایک ملازم قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کافی میں تھوک رہا ہے۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ ملازم کو علم تھا کہ مذکورہ کافی پولیس افسر کی ہے لہٰذا وہ جان بوجھ کر اسے ایک خطرناک صورتحال سے دو چار کرتا رہا۔

    ملازم کو پولیس کی جانب سے حراست میں لے لیا گیا جبکہ کافی شپ نے بھی کارروائی کرتے ہوئے ملازم کو نوکری سے برخاست کردیا۔

  • مشتعل ہجوم نے نیویارک پولیس کو گھیر لیا، پولیس افسر کو جارج فلائیڈ کی طرح قتل کرنے کی کوشش

    مشتعل ہجوم نے نیویارک پولیس کو گھیر لیا، پولیس افسر کو جارج فلائیڈ کی طرح قتل کرنے کی کوشش

    امریکی شہر نیویارک میں سڑک پر جمع ہوئے مجمع کو منتشر کرنے کی کوشش پولیس کو مہنگی پڑگئی، مجمع میں سے ایک شخص نے پولیس افسر کو گردن سے پکڑ کر اسے ہوش و حواس سے بیگانہ کردیا۔

    سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ نیویارک پولیس نے برونکس کی ایک سڑک پر جمع افراد کو منتشر کرنے کی کوشش کی تو مجمع نے پولیس افسران کو گھیر لیا۔

    اس کے بعد مجمع نے پولیس کے خلاف نعرے بازی شروع کردی۔

    پولیس نے اس ہجوم میں سب سے آگے ایک شخص کو گرفتار کرنے کی کوشش کی تو ایک اور شخص نے ایک پولیس افسر کو گردن سے پکڑ کر ہیڈ لاک کرلیا۔

    اس دوران ہجوم میں سے کچھ افراد نے بقیہ پولیس والوں کو سڑک پر بے دردی سے گھسیٹا۔

    4 سیکنڈ کے اس ہیڈ لاک کے بعد مذکورہ شخص نے پولیس افسر کو چھوڑا تو وہ زمین پر گر گیا جس سے اس کے سر پر گہری چوٹ آئی، ہجوم میں سے ایک شخص اس سارے منظر کی ویڈیو بھی بناتا رہا۔

    پولیس کا کہنا تھا کہ ہیڈ لاک لگانے والا شخص ایک گینگ کا کارندہ تھا جس سے پولیس اچھی طرح واقف ہے۔ مذکورہ ملزم کو اس سے قبل حملوں، ڈاکوں اور اسلحہ رکھنے کے جرم میں 11 بار گرفتار کیا جاچکا ہے۔

    اب حالیہ حملے کے بعد ایک بار پھر اسے گرفتار کیا گیا تاہم عدم ثبوت کی بنا پر جلد ہی اس کی رہائی عمل میں آگئی۔

    نیویارک پولیس ترجمان کا کہنا ہے کہ مذکورہ ملزم پر فرد جرم عائد نہ کیے جانے اور رہائی سے پولیس ڈپارٹمنٹ بے حد مایوس ہے۔ پولیس پر حملہ ایک سنگین جرم ہے اور جلد اس سلسلے میں ڈسٹرکٹ اٹارنی سے بات کی جائے گی۔

    خیال رہے کہ ہیڈ لاک وہ عمل ہے جو جلد ہی نیویارک پولیس ڈپارٹمنٹ کے لیے ممنوع قرار دیا جانے والا ہے۔ امریکی سیاہ فام جارج فلائیڈ کی پولیس کے ہاتھوں بہیمانہ ہلاکت کے بعد اب تمام ریاستیں پولیس اصلاحات پر کام کر رہی ہیں۔

    نیویارک سٹی کونسل بھی جلد ہی ایک بل منظور کرنے والی ہے جس کے تحت اگر پولیس کسی مشتبہ ملزم کو پکڑتے ہوئے اس طرح سے گرفتار کرے جس سے ملزم کی سانس بند ہوجائے، جیسے کہ گردن، سینے یا پیٹھ پر کھڑا ہونا یا گھٹنہ رکھ دینا، تو اس جرم میں مذکورہ پولیس افسر کو ایک سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔

    تاہم اب حالیہ واقعے کے بعد اس بل کی مخالفت کی جارہی ہے۔ سرکاری اداروں سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ پولیس کے علاوہ اگر کوئی دوسرا شخص یہ حرکت کرے اور اس کی وجہ سے پولیس افسر کی موت ہوجائے تو ایسے شخص کے لیے کیا سزا ہوگی۔

    قانون نافذ کرنے والے اداروں میں سے ایک کے ترجمان کا کہنا ہے کہ گردن سے پکڑ لینے کے بعد اگر پولیس افسر اپنا ہتھیار کھو دے تو یہ سیدھا سیدھا اس کے لیے موت ہوگی۔

    شہر کے میئر متوقع طور پر اگلے ہفتے اس بل پر دستخط کردیں گے۔