اسلام آباد: پاکستان سے پولیو وائرس کا خاتمہ خواب بن گیا ہے، ایک بار پھر چاروں صوبوں کے سیوریج سیمپلز میں وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ریجنل ریفرنس لیب نے 18 اضلاع کے سیمپلز میں پولیو کی تصدیق کی ہے، سیوریج لائنز کے سیمپلز میں وائلڈ پولیو وائرس ون پایا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق پولیو ٹیسٹ کے لیے ماحولیاتی نمونے 21 فروری تا 6 مارچ لیے گئے تھے، سندھ کے 12، پنجاب 2، کے پی میں 2 اضلاع کے سیمپلز پولیو پازیٹو ہیں، اسلام آباد اور بلوچستان کے بھی ایک ضلع کے سیمپلز پولیو پازیٹو ہیں۔
اسلام آباد، چمن، جنوبی وزیرستان لوئر، اپر کی سیوریج پولیو پازیٹو ہے، لاہور، ڈیرہ غازی خان کے ماحولیاتی نمونوں میں پولیو پایا گیا ہے، بدین، دادو، حیدر آباد، جیکب آباد کے سیمپلز میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔
شہید بینظیر آباد، سجاول، قمبر، سکھر کے سیمپلز میں پولیو کی تصدیق ہوئی ہے، جب کہ کراچی ایسٹ، ویسٹ، سنٹرل، کیماڑی کی سیوریج پولیو پازیٹو ہے۔ ذرائع کے مطابق 4 اضلاع کے ماحولیاتی نمونے پولیو وائرس سے پاک نکلے۔
واضح رہے کہ رواں سال ملک میں 6 پولیو وائرس کیس رپورٹ ہو چکے ہیں، سندھ سے 4، پنجاب، کے پی سے ایک، ایک پولیو کیس رپورٹ ہوا، جب کہ رواں سال 115 سے زائد سیوریج سیمپلز پولیو پازیٹو ہو چکے ہیں۔
قومی ادارہ صحت (این آئی ایچ) میں قائم پولیو کے خاتمے کے لیے ریجنل ریفرنس لیبارٹری نے پہلے سے متاثرہ 12 اضلاع سے لیے گئے ماحولیاتی نمونوں میں وائلڈ پولیو وائرس ٹائپ ون (ڈبلیو پی وی 1) کی نشاندہی کی تصدیق کی ہے۔
نیشنل ایمرجنسی آپریشنز سینٹر ( این ای او سی) نے ریجنل ریفرنس لیب کی 12 اضلاع کے سیمپلز میں پولیو کی تصدیق ہوئی ہے، ماحولیاتی نمونوں میں وائلڈ پولیو وائرس ٹائپ ون پایا گیا ہے۔
این ای او سی ترجمان کا کہنا ہے کہ پولیو ٹیسٹ کیلئے ماحولیاتی نمونے 17 سے 26 فروری کو لئے گئے تھے، بلوچستان 4 اضلاع کے سیوریج سیمپلز پولیو پازیٹو نکلے ہیں۔
اس کے علاوہ پنجاب کے 5، خیبرپختونخوا کے 3 اضلاع کی سیوریج پولیو پازیٹو ہے جبکہ لاہور، ملتان، قصور، بہاولپور، ڈی جی خان کے ماحولیاتی نمونوں میں پولیو پایا گیا ہے۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ جنوبی وزیرستان لوئر، چارسدہ، صوابی، کوئٹہ، ڈیرہ بگٹی، لسبیلہ اور سبی کی سیوریج پولیو سے آلودہ نکلی ہے جبکہ ڈی آئی خان، جنوبی وزیرستان لوئر، شمالی وزیرستان کے سیمپلز پولیو سے پاک نکلے ہیں۔
ترجمان کا بتانا ہے کہ ملک میں 127 مقامات سے پولیو ٹیسٹنگ کیلئے سیمپلز لئے جاتے ہیں، 2021 میں ملک بھر کے 65 مقامات سے سیوریج سیمپلز لئے جاتے تھے۔
واضح رہے کہ رواں سال ملک میں چھ پولیو وائرس کیس رپورٹ ہو چکے ہیں، رواں سال سندھ سے 4، کے پی ایک، پنجاب ایک پولیو کیس رپورٹ ہوا ہے۔
پاکستان کے چاروں صوبوں کی سیوریج لائنوں میں ایک بار پھر پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ ماحولیاتی نمونوں میں وائلڈ پولیو ٹائپ ون پایا گیا ہے۔
قومی صحت کے ادارے (این آئی ایچ) کے مطابق ریجنل ریفرنس لیب کی 14اضلاع کے سیمپلز میں پولیو کی تصدیق ہوئی ہے، ماحولیاتی نمونوں میں وائلڈ پولیو ٹائپ ون پایا گیا ہے، پولیو ٹیسٹ کیلئے ماحولیاتی نمونے 10 تا 18 فروری لئے گئے تھے۔
حکام کا کہنا ہے کہ سندھ کے 2، بلوچستان 7 اضلاع کے سیوریج سیمپلز پولیو پازیٹو نکلے ہیں، خیبرپختونخوا کے 3، پنجاب کے 2 اضلاع کی سیوریج پولیو پازیٹو ہے، کوئٹہ، گوادر، خضدار، نصیر آباد کی سیوریج پولیو پازیٹو ہے۔
دریں اثنا اوستہ محمد، قلعہ سیف اللہ، کیچ کے ماحولیاتی نمونے پولیو پازیٹو ہیں، ایبٹ آباد، بنوں، ٹانک کے ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس پایا گیا ہے، کراچی ایسٹ، ساوتھ کی سیوریج لائنیں پولیو وائرس سے آلودہ ہیں۔
لاہور، سرگودھا کے ماحولیاتی نمونوں میں وائرس کی تصدیق ہوئی ہے، تیس اضلاع کے ماحولیاتی نمونے پولیو سے پاک نکلے ہیں، رواں سال ملک میں چھ پولیو وائرس کیس رپورٹ ہو چکے ہیں رواں سال سندھ سے 4، کے پی ایک، پنجاب ایک پولیو کیس رپورٹ ہوا ہے۔
اسلام آباد: پاکستان کے چاروں صوبوں کی سیوریج لائنوں میں ایک بار پھر پولیو وائرس کی تصدیق ہوگئی۔
تفصیلات کے مطابق چاروں صوبوں کی سیوریج لائنیں ایک بار پھر پولیو وائرس سے آلودہ نکلیں ، ریجنل ریفرنس لیب نے 25 اضلاع کے سیمپلز میں پولیو کی تصدیق کردی ہے۔
زرائع نے کہا ہے کہ سیوریج لائنز کے سیمپلز میں وائلڈ پولیو وائرس ون پایا گیا ہے،پولیو ٹیسٹ کیلئے سیوریج لائنز سے سیمپلز 3 تا 12 فروری لئے گئے تھے۔
زرائع کا کہنا تھا کہ سندھ کے 13، بلوچستان 5 اضلاع کے ماحولیاتی نمونے، خیبرپختونخوا کے 3 ، پنجاب کے 4 اضلاع کی سیوریج پولیو پازیٹو نکلے جبکہ کوئٹہ، چمن، لورالائی، نوشکی، ژوب کی سیوریج پولیو پازیٹو ہے۔
پشاور، ڈی آئی خان، لکی مروت ، لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد، گوجرانوالہ کی سیوریج میں پولیو وائرس پایا گیا ہے۔
زرائع کا کہنا تھا کہ کراچی سنٹرل، ایسٹ، کیماڑی، کورنگی، ملیر کی سیوریج پولیو پازیٹو ہے جبکہ حیدر آباد، بدین، جیک آباد، جامشورو ، میرپورخاص، سجاول، دادو، سکھر کی سیوریج پولیو سے آلودہ ہے۔
رواں سال ملک میں چھ پولیو وائرس کیس رپورٹ ہو چکے ہیں، جس میں سندھ سے چار، کے پی ایک اور پنجاب سے ایک پولیو کیس رپورٹ ہوا۔
پاکستان کے منظر نامے پر جہاں ایک طرف سیاسی میدان میں چلنے والی اکھاڑ پچھاڑ زور و شور سے جاری ہے، وہاں دوسری طرف چند برسوں سے ایک اور محاذ بہت شدت سے گرم رہا ہے، جس پر حکومتی سطح پر ’دشمن‘ سے ایک بڑی جنگ لڑی جا رہی ہے۔ اس دشمن نے پوری دنیا میں پاکستان کے گرد ایک سرخ دائرہ بنا رکھا ہے۔ یہ دشمن ہے پولیو وائرس!
اگر آپ نے نوٹ کیا ہو تو گزشتہ چند برسوں سے ملک بھر میں شد و مد کے ساتھ انسداد پولیو مہمات چلائی جا رہی ہیں، اور ابھی 3 فروری کو 2025 کی بھی پہلی قومی انسداد پولیو مہم کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا ہے، جس میں 4 کروڑ سے زائد بچوں کو قطرے پلائے جائیں گے۔ پاکستان سے ’’پولیو کا مکمل خاتمہ‘‘ حکومت کی اوّلین قومی ترجیح بنا ہوا ہے، اور وسیع سطح پر مہمات چلائے جانے کے باوجود یہ ایک حیران کن امر ہے کہ پولیو کا خاتمہ نہیں ہو رہا، اور ملک کے مختلف حصوں سے نہ صرف پولیو پازیٹو سیوریج سیمپلز سامنے آ رہے ہیں بلکہ پولیو کیسز بھی ختم ہونے میں نہیں آ رہے۔
این آئی ایچ کے مطابق گزشتہ سال ملک بھر میں 73 پولیو کیس سامنے آئے تھے، اور 493 سیوریج سیمپلز پازیٹو نکلے تھے۔ یہاں تک گزشتہ 20 سالوں میں آزاد کشمیر سے پولیو کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا، لیکن وہاں بھی سیوریج سیمپلز پولیو پازیٹو نکلنے لگے ہیں، گزشتہ سال میرپور آزاد کشمیر، اور رواں برس آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد میں سیمپلز مثبت نکلے ہیں۔
دی ڈریمرز: ہیروز فائٹنگ فار آ پولیو فری پاکستان
اگست 2024 میں جب راوا ڈاکیومنٹری فلمز نے پاکستان کی تاریخ کے ایک دل کو چھو لینے والے پنّے کو پلٹا تھا، تو اسکرین پر ڈائریکٹر سید عاطف علی نے ننھے اقبال مسیح کی سچی کہانی کو بہت دل پذیر طور سے منتقل کر دیا تھا۔ وہ تاریخ کے چند اور حیران کن اوراق ہمیں دکھا چکے ہیں، جو ان کی فلم میکنگ کی مہارت کا بیّن ثبوت ہے۔ لیکن پھر پچھلی بار کچھ ایسا ہوا کہ جب انھوں نے بلوچستان میں موجود قدیم تاریخی مندر پر ’ہنگلاج کی دیوی‘ نامی ڈاکیومنٹری بنائی تو یوٹیوب پر ریلیز ہونے والی 43 منٹ کی اس دستاویزی فلم کے پریمیئر شو میں پہلی بار مایوسی کی لہر محسوس کی گئی۔ کم زور اسکرپٹ اور پیش کش کی وجہ سے اس پر کئی سوالات ذہن میں اٹھے لیکن ظاہر ہے کہ یہ کوئی بڑی بات نہیں تھی، کیوں کہ ڈائریکٹرز کی ہر کوشش ہٹ نہیں ہوا کرتی۔
’پری‘ اور ’پیچھے تو دیکھو‘ جیسی خوب صورت فلمیں بنانے والے سید عاطف علی نے جب اگلی دستاویزی فلم کے لیے پاکستان میں پولیو جیسے حساس موضوع کو چُنا تو موضوع کی وجہ سے زیادہ توقعات وابستہ نہیں کی جا سکتی تھیں۔ لیکن انھوں نے بڑے اعتماد اور شان دار طریقے سے اس طرح ’کم بیک‘ کیا کہ حساس اور خشک موضوع پر ایک سنسنی خیز دستاویزی فلم تخلیق کر دی۔ اپنے مواد کے حساب سے اسے اگر سنسنی خیز کہا جا سکتا ہے، تو دوسری طرف شان دار طریقے سے اسکرین پر اس کی منتقلی کو ڈائریکٹر کی ایک تخلیقی جست بھی کہا جا سکتا ہے۔ شروع سے آخر تک پوری ڈاکیومنٹری دیکھتے ہوئے کہیں ایک لمحے کے لیے محسوس نہیں ہوتا کہ دیکھنے والے کا کنیکشن اسکرین سے منقطع ہو گیا ہے۔ اس فلم میں اسکرین پر ان کی اسٹوری نریشن بہت طاقت ور رہی۔
راوا فلمز کے تحت بننے والی ان ڈاکیومنٹری فلمز کی منفرد بات یہ رہی ہے کہ پاکستان میں پہلی بار ان فلموں کی باقاعدہ طور پر سنیما میں اسکریننگ کی گئی، اور پریمیئر شو رکھے گئے، جن میں بڑی تعداد میں متعلقہ لوگوں کو مدعو کیا گیا۔ لیکن اس سلسلے کو اچانک جھٹکا اس وقت لگا جب ’’دی ڈریمرز‘‘ کے سنسر سرٹیفکیٹ کے لیے سندھ بورڈ آف فلم سنسرز سے رابطہ کیا گیا۔ سندھ بورڈ آف فلم سنسرز نے اس ڈاکیومنٹری فلم کو سنسر سرٹیفکیٹ دینے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ بورڈ نے جائزے کے بعد اسے عوامی نمائش کے لیے غیر موزوں قرار دے دیا ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ آخر قومی سطح کے ایک حساس موضوع پر بننے والی ایک دستاویزی فلم کو آخر کیوں لوگوں کے لیے نامناسب قرار دیا گیا، جب کہ اس میں شہریوں کو پولیو ویکسین کی اہمیت کا شدید احساس دلایا گیا ہے؟ بہرحال یہ فلم اب یوٹیوب چینل پر ریلیز کی جا چکی ہے، جہاں اسے آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔
دی ڈریمرز میں ایسا کیا ہے؟
پولیو ایسا وائرس ہے جس کے خلاف پاکستان کی وفاقی اور صوبائی وزارت صحت نے کئی برسوں تک تواتر کے ساتھ پوری شد و مد کے ساتھ مہمات چلائیں، یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے، اس لیے اس کے بارے میں عام لوگوں تک ابتدائی آگہی پہنچ چکی ہے۔ کچھ منفی عناصر کی جانب سے پولیو ویکسین کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا کیا گیا، اور کافی لوگ اس سے متاثر بھی ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کو قطرے نہیں پلاتے، تاہم زیادہ تر آبادی اس کے خلاف جنگ پر متفق ہے۔ حکومتی کوششوں کے سبب عوام یہ بھی جاننے لگے ہیں پولیو کا خاتمہ کیسے ہوگا۔ لیکن ایک اہم نکتہ جو اس دستاویزی فلم سے عام لوگوں کے سامنے ایک انکشاف کی صورت میں آتا ہے، وہ ایک ایسا محاذ ہے جس پر پولیو کے خلاف لڑائی کے بارے میں سرکار کبھی بات نہیں کرتی۔
کیا صرف ویکسین کافی ہے؟
1960 کی دہائی میں امریکا میں بھی پولیو کے لاکھوں کیسز تھے، لوگ قطاروں میں لگ کر ویکسین لگواتے تھے۔ لیکن صرف ویکسین ہی نہیں تھی جس نے وائرس کا خاتمہ کیا، بلکہ ہمیں پتا چلتا ہے کہ امریکی حکومت نے سینیٹیشن کا نظام بہتر کیا، یعنی صحت اور صفائی کا نظام جس کی وجہ سے وائرس پوری طرح سے ختم ہو گیا۔ امریکا میں ساٹھ کی دہائی کے آخر میں مہم چلائی گئی کہ عوام کو پینے کا صاف پانی فراہم ہونا چاہیے، یہ مہم چلتے ہی پولیو کے کیسز کا گراف تیزی سے نیچے گرا، حالاں کہ اس وقت ان کی ویکسینیشن کی کوریج بھی 80 سے 85 فی صد تھی، جب کہ پاکستان میں کوریج 97 فی صد تک بھی جا چکی ہے لیکن پھر بھی یہاں سے پولیو ختم نہیں ہو رہا۔ جیسے ہی لوگوں کو پینے کا صاف ملنے لگا نہ صرف پولیو بلکہ دیگر کئی بیماریاں (جیسا کہ ہیپاٹائٹس اے، ٹائفائیڈ، کالرا)بھی ختم ہو گئیں۔
ویڈیو میں کراچی میں سینیٹیشن کے نظام پر بات کی گئی، اور بتایا گیا کس طرح گھروں سے فضلہ نکلتا ہے اور پینے کے پانی کے نظام کے ساتھ باہم ملتا ہے، یہ اس حد تک مدغم ہے کہ کراچی کے کسی بھی علاقے سے پانی لے ٹیسٹ کریں اس میں ای کولائی بیکٹیریا ملتا ہے۔ جن علاقوں کی ہائجینک صورت حال اچھی نہیں ہوتی، وہاں پولیو وائس پایا جاتا ہے۔ تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ پولیو وائرس کے خاتمے کا ایک طریقہ ویکسین ہے اور دوسرا صحت و صفائی۔ اگر یہ دونوں ایک ساتھ روبہ عمل نہیں لائے جاتے تو پولیو کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جو نہ صرف صوبائی بلکہ وفاقی حکومت کی انسداد پولیو کی کوششوں پر بھی ایک بڑا سوالیہ نشان لگاتا ہے۔ اس سے ایک سادہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ حکومتوں کو پہلے اپنی تمام آبادی کو پوری ایمان داری کے ساتھ پینے کا صاف پانی فراہم کرنا ہوگا اور علاقوں میں صفائی کا نظام بہتر بنانا ہوگا۔ تو کیا پاکستان میں حکومتی رویے اور اقدامات دیکھ کر ایسا کچھ ہونے کی امید کی جا سکتی ہے؟ یہ وہ بڑا سوال ہے جس سے حکومتیں ہمیشہ خائف رہتی ہیں۔ کیوں کہ وہ اس حد تک ایکسپوز ہو چکی ہیں کہ کوئی بھی پاکستانی ان سے اس کی امید نہیں رکھتا۔
اس ڈاکیومنٹری فلم میں ایک اور اہم نکتہ یہ اٹھایا گیا ہے کہ لوگ حقیقتاً اب پولیو ویکسین کے قطرے اپنے بچوں کو پلا پلا کر تھک چکے ہیں۔ پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جس میں ویکسین کا یہ سلسلہ اتنا دراز ہو چکا ہے کہ لوگوں نے اس کے خلاف پروپیگنڈے پر بھی آسانی سے یقین کر لیا ہے۔ ایک شخص اپنے بچپن سے یہ قطرے پیتا آ رہا ہے اور پھر اس کے بچوں نے پیے اور اب اس کے پوتے پوتیاں قطرے پی رہے ہیں، لیکن اس میراتھن ریس میں خاتمے کا نشان قریب نہیں آ رہا۔ نائجیریا جیسے ملک نے بھی اس کا خاتمہ کر لیا ہے، اور وہ اس حوالے سے آخری ملک ہے، جس کے بعد اب دنیا میں صرف پاکستان اور افغانستان دو ملک پولیو متاثرہ رہ گئے ہیں۔
سرکاری حکام اس بارے میں بتاتے ہیں کہ افغانستان میں حکام کا پولیو کے پھیلاؤ پر قابو نہیں ہے، اور چوں کہ سرحد پر افغانستان سے آبادی کی نقل و حرکت بہت زیادہ اور آزادانہ ہے، اس لیے وہاں سے پولیو وائرس منتقل ہوتا رہتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بارڈر پر دونوں طرف پولیو ٹیمیں اب مستقل طور پر تعینات رہتی ہیں اور ہر آنے جانے والوں کو پولیو قطرے پلائے جاتے ہیں۔ صرف یہی نہیں اس حوالے سے دونوں ممالک میں اب ایک ساتھ انسداد پولیو مہمات چلائی جاتی ہیں۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں افغانستان کی نسبت پولیو کیسز زیادہ ہیں۔ اس لیے حکام کے طرف سے پڑوسی ملک پر بار ڈالنے کے بیانات پر یقین نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا ہمیں دیکھ رہی ہے کہ یہ ایٹمی ملک کب پولیو کا خاتمہ کرتا ہے۔ پولیو مہمات کے خلاف لوگوں کے ذہنوں میں جو شکوک و شبہات پیدا ہوئے ہیں ہماری اتھارٹیز ان کا جواب نہیں دے پائیں۔
کرپشن کی سطح
ڈاکیومنٹری میں ہیلتھ جرنلسٹس کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ جب پاکستان میں کوئی بچہ پولیو وائرس سے معذور ہوتا ہے تو ملک میں کچھ لوگ مزید امیر ہو جاتے ہیں۔ ہمارے آس پاس ایسے لوگ موجود ہیں جو پولیو پروگرام سے برسوں سے وابستہ ہیں اور انھوں نے جائیدادیں بنا لی ہیں، اور وہ ارب پتی ہو گئے ہیں۔ ویڈیو میں ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کی بات کی گئی ہے، اور اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ پولیو پروگرام کو لوگوں کی دولت میں اضافے کا سبب نہیں ہونا چاہیے۔ یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ بہ طور قوم ہم پولیو کے خاتمے میں مکمل طور پر کیوں ناکام ہوئے۔ اس میں وہ آنکھیں خیرہ کرنے والے اعداد و شمار بتائے گئے ہیں کہ ورلڈ بینک سمیت کس کس ادارے نے پولیو کے خاتمے کے لیے اربوں ڈالر پاکستان کو دیے۔ پیسہ بے حساب آیا، لیکن وائرس ختم نہیں ہوا۔ آخر ذمہ دار کون ہے؟ یہ خطرناک پوائنٹ آف ویو سامنے رکھا گیا ہے کہ اگر کہیں کنفلیکٹ آف انٹرسٹ ہے تو آپ چاہیں گے کہ بیماری ختم نہ ہو، چاہیں گے کہ لوگ پولیو ویکسین کے قطرے نہ پلائیں، یعنی جو کام کرنا ہے وہ نہیں کرنا، اور روڑے اٹکا رہے ہوتے ہیں۔ یہاں تک بتایا گیا کہ کوریج اتنی نہیں تھی جتنا رجسٹر بھر بھر کر ظاہر کیا گیا۔ یہ دستاویز ہمیں ’فیک فنگر مارکنگ‘ کے بارے مین بھی کھل کر بتاتی ہے، جس کے بارے میں میڈیا میں کبھی بات نہیں کی جاتی۔ پولیو مہمات کے دوران ڈرائیور، مالی اور چوکیداروں کو یونین کونسلز کے میڈیکل آفیسرز لگانے کی نشان دہی کی۔ کمیونکیشنز کے لیے ایسے لوگوں کی بھرتی پر بات کی گئی جنھوں نے پیسے اینٹھنے کے لیے اپنے گھر والوں اور رشتہ داروں کو بھرتی کیا۔ یہ ڈاکیومنٹری بہت درد مندی سے بتاتی ہے کہ دوسروں کے بچوں کی معذوری اور لاشوں پر امیر ہونے کا یہ سلسلہ بند کرنا پڑے گا۔
پولیو ویکسین کے خلاف پروپیگنڈا
اس ڈاکیومنٹری میں پولیو ویکسین کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈے پر وسیع طور پر بات کی گئی ہے، اور اس کے سبھی پہلوؤں کو بہت اچھے سے پیش کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ عوام کو اس کا بات کا ادراک بھی نہیں ہوگا کہ ماضی میں کراچی کے ایک ’مقبول‘ اخبار نے اس کے خلاف شدید پروپیگنڈا کیا تھا۔ جس کی وجہ سے ہزاروں پولیو ورکرز کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہو گئے تھے۔ 2019 میں سوشل میڈیا پر زبردست پروپیگنڈے کے باعث عارضی طور پر پولیو پروگرام کو روکنا پڑ گیا تھا۔ طالبان کی جانب سے ہونے والی منفی سرگرمیوں پر بات کی گئی۔ خود ساختہ اور عاقبت نا اندیش عالموں کی مخالفانہ روش کو نمایاں کیا گیا۔ یہاں تک کہ پولیو سے متعلق اس ڈاکیومنٹری میں ایک لمحہ وہ بھی آتا ہے جب ناظرین اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے واقعے کو اس سارے مسئلے سے منسلک کر کے دیکھتے ہیں، کہ کس طرح شکیل آفریدی نے ایک جعلی پولیو مہم کے ذریعے اسامہ کے بارے میں معلومات سی آئی اے کو فراہم کیں، جس کی وجہ سے جہادی عناصر میں پولیو ورکرز کے خلاف شدید غصہ پیدا ہوا۔ مختصر یہ کہ ایسے حالات بن گئے ہیں کہ بقول پولیو ورکر صبا علی ہم بارڈر پر بھی لوگوں کو مرتا ہوا دیکھتے ہیں اور یہاں پولیو ورکرز کو بھی مرتا ہوا دیکھتے ہیں۔ امریکی اور یورپی ورکرز کا ذکر کیا گیا ہے کہ جب وہ ڈیوٹی کے دوران مارے جاتے ہیں تو انھیں حکومت کی جانب سے کروڑوں روپے ملتے ہیں۔ ویڈیو میں یہ قضیہ بھی اٹھایا گیا ہے کہ جو پولیو ورکر مارے جاتے ہیں ان کے گھر والوں کی اچھے سے کفالت کی جانی چاہیے۔
صرف یہی نہیں، اس ڈاکیومنٹری فلم کا ایک بڑا قصور یہ بھی ہے کہ اس کا اختتام پریشان کن اعداد و شمار کے ساتھ ساتھ پاکستان سے پولیو وائرس کے خاتمے کی ایک امید کے ساتھ کیا گیا ہے۔
اسلام آباد: ملک کے 8 اضلاع کے ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔
ذرائع وزارت صحت کے مطابق بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس پایا گیا ہے، رواں سال یہ تیسری بار ماحولیاتی نمونے پولیو پازیٹو نکلے ہیں۔
سیوریج لائنز کے سیمپلز میں وائلڈ پولیو وائرس ون پایا گیا ہے، ٹیسٹ کے لیے سیوریج سے سیمپلز 15 تا 24 جنوری لیے گئے تھے، بلوچستان سے 5 اور کے پی کے سئ 3 اضلاع کے سیمپلز پولیو پازیٹیو نکلے ہیں۔
بلوچستان میں کوئٹہ، کیچ، بارکھان کے سیوریج سیمپلز پولیو سے آلودہ نکلے ہیں، گوادر اور سبی کے ماحولیاتی نمونوں میں بھی پولیو وائرس پایا گیا ہے، کے پی میں ڈی آئی خان، لوئر جنوبی وزیرستان اور بنوں کی سیوریج پولیو پازیٹو ہے۔
واضح رہے کہ رواں سال ملک میں 2 پولیو وائرس کیس رپورٹ ہو چکے ہیں، جن کا تعلق بدین اور ڈی آئی خان سے تھا، جب کہ گزشتہ سال 74 پولیو کیس، اور 493 سیوریج سیمپلز پازیٹو نکلے تھے۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ میں قائم انسداد پولیو ریجنل ریفرنس لیبارٹری نے ملک میں سال 2024 کے 74 ویں وائلڈ پولیو وائرس ٹائپ ون (ڈبلیو پی وی 1) کیس کی نشاندہی کی تصدیق کی ہے۔
اس حوالے سے پولیو حکام کا کہنا ہے کہ سندھ کے ضلع بدین سے ایک اور پولیو کیس کی تصدیق ہوئی ہے، سال کا پہلاکیس جنوبی خیبرپختونخوا کے ضلع ڈی آئی خان سے رپورٹ ہوا تھا۔
سال2024 میں مجموعی طور پر پولیو وائرس کے74 کیسز رپورٹ ہوئے، ان کیسز میں سے 27 کا تعلق بلوچستان، 22 کا خیبرپختونخوا سے تھا۔ 23 کیسز کا تعلق سندھ، ایک کا پنجاب اور ایک کا اسلام آباد سے تھا۔
پولیو حکام کے مطابق 2025کی پہلی ملک گیر انسداد پولیو مہم کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوگئی ملک بھر میں مہم کے 99 فیصد اہداف حاصل کرلیے گئے ہیں۔
گزشتہ ماہ ہی نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کی لیبارٹری کے ایک عہدیدار نے ٹھٹھہ سے وائلڈ پولیو وائرس ٹائپ ون کیس کی نشاندہی کی تصدیق کی تھی۔
سال 2024 میں ٹھٹھہ سے پولیو وائرس کا یہ پہلا کیس ہے چونکہ نمونہ پچھلے سال دسمبر میں جمع کیا گیا تھا، اس لیے اس کیس کو پچھلے سال کے اعداد و شمار کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ انسداد پولیو مہم 3سے9فروری 2025 تک چلائی گئی، مہم کے دوران45ملین سے زائد بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے گئے۔
ہر مہم میں، یہ پروگرام اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ پانچ سال سے کم عمر بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جائیں، تاکہ انہیں پولیو وائرس کے خطرناک اثرات سے بچایا جا سکے۔
آزادکشمیر اور چاروں صوبوں کی سیوریج پولیو وائرس سے آلودہ نکلی، پولیو کا موذی وائرس آزاد کشمیر پہنچ گیا ہے۔
ذرائع این آئی ایچ کے مطابق آزاد کشمیر کی سیوریج میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے، 2025 میں دوسری بار ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس پایا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق ملک کے 21 اضلاع کے ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس پایا گیا ہے جس کے بعد رواں سال کے پولیو پازیٹو سیوریج سیمپلز کی تعداد 47 تک پہنچ گئی، سیوریج لائنز کے سیمپلز میں وائلڈ پولیو وائرس ون پایا گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیو ٹیسٹ کیلئے سیوریج لائنز سے سیمپلز 8 تا 23 جنوری لئے گئے تھے، بلوچستان کے 8 اضلاع کے سیوریج سیمپلز پولیو پازیٹیو نکلے ہیں، خیبرپختونخوا کے 4، پنجاب کے 6 اضلاع کی سیوریج پولیو پازیٹو ہے۔
اس کے علاوہ اسلام آباد کے ماحولیاتی نمونے پولیو سے آلودہ نکلے ہیں، سندھ، آزادکشمیر کے ایک، ایک ضلع کی سیوریج پولیو پازیٹو ہے، ڈیرہ بگٹی، حب، خضدار، نوشکی کے ماحولیاتی نمونے پولیو پازیٹو ہیں۔
نصیر آباد، اوستہ محمد، ژوب، لسبیلہ کی سیوریج پولیو پازیٹو ہے، لاہور، بہاولپور، ڈی جی خان، جھنگ، ملتان، رحیم یار خان، پشاور، چارسدہ، صوابی، ٹانک کی سیوریج پولیو پازیٹو ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کی سیوریج میں پولیو پایا گیا ہے، کراچی ایسٹ کی سیوریج پولیو وائرس سے آلودہ نکلی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال میرپور آزاد کشمیر کی سیوریج پولیو پازیٹو نکلی تھیاس کے علاوہ رواں سال ملک میں ایک پولیو وائرس کیس رپورٹ ہو چکا ہے گزشتہ سال 73 پولیو کیس اور 493 سیوریج سیمپلز پازیٹو نکلے تھے۔
واضح رہے کہ گزشتہ 20 سالوں میں آزاد کشمیر سے پولیو کیس رپورٹ نہیں ہوا۔
اسلام آباد : کراچی میں پولیو وائرس کا ایک اور کیس سامنے آگیا ، جس کے بعد ملک میں کیسز کی تعداد 70 تک جا پہنچی ہے۔
تفصیلات کے مطابق ملک میں پولیو وائرس کا ایک اور کیس رپورٹ سامنے آ گیا، این ای او سی نے بتایا کہ پولیو سے متاثرہ بچہ کراچی ایسٹ کا رہائشی ہے۔
این ای او سی کا کہنا ہے کہ نیشنل ریفرنس لیب نے سندھ سے پولیو کیس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا متاثرہ بچے میں وائلڈ پولیو وائرس ٹائپ ون پایا گیا۔
این ای او سی نے کہا کہ متاثرہ بچے میں21دسمبرکوپولیو کی علامات ظاہر ہوئی تھیں۔ سال 2024میں کراچی ایسٹ سے2 پولیو کیس رپورٹ اور سندھ بھر سے 20 پولیو کیس رپورٹ ہوچکے ہیں۔
این ای او سی کے مطابق سال 2024 میں بلوچستان 27، کے پی 21 پولیو کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔
خیال رہے گلوبل پولیو ایریڈیکیشن انیشیٹو کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پولیو کیخلاف جنگ میں افغانستان پاکستان سے آگے نکل گیا، جہاں کیسز میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے۔
عالمی رپورٹ کے مطابق دنیا میں صرف افغانستان اور پاکستان میں پولیو کیسز سامنے آرہے ہیں، گزشتہ سال افغانستان میں صرف 25 اور پاکستان میں 68 کیسز رپورٹ ہوئے۔
پاکستان میں کیسز کے تشویشناک حد تک اضافے پر وزیراعظم شہبازشریف نے نوٹس لیا ہے، اور پولیو کے خاتمے کیلئے نئی ٹیم تشکیل دی ہے، تاکہ پولیو وائرس کی روک تھام کی جاسکے۔
اسلام آباد: ملک کے تین صوبوں کے ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس ٹائپ ون (ڈبلیو پی وی ون) کی نشاندہی ہوئی ہے۔
تفصیلات کے مطابق حکومتی نااہلی کے باعث پولیو وائرس نے ملک پر پھر سے پنجے گاڑھ دیے ہیں، پولیو پازیٹو سیوریج سیمپلز کی ٹیکنیکل رپورٹ وزارت صحت کو موصول ہو گئی جس میں ملک 3 صوبوں کے 26 اضلاع کی سیوریج میں پولیو وائرس کی تصدیق کی گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق حیدرآباد، جیکب آباد، جامشورو، قمبر، کراچی سینٹرل، کراچی ایسٹ، کراچی ساؤتھ، کیماڑی، کورنگی، ملیر، میرپور خاص، شہید بینظیر آباد، سجاول، سکھر، چمن، لورالائی، پشین، کوئٹہ، ژوب، اسلام آباد، باجوڑ، پشاور، ڈیرہ غازی خان، لاہور، ملتان اور راولپنڈی کے ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس پایا گیا۔
واضح رہے کہ رواں سال 80 سے زائد اضلاع کے ماحولیاتی نمونوں میں وائرس کی تصدیق ہوئی ہے جب کہ ملک بھر میں 67 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
قومی ادارہ صحت کے مطابق رواں برس رپورٹ ہونے والے کیسز میں سب سے زیادہ 26 کا تعلق بلوچستان سے ہے جب کہ خیبرپختونخوا سے 18، سندھ سے 17 اور پنجاب، اسلام آباد سے ایک، ایک کیس رپورٹ ہوا۔
وزارت صحت نے گزشتہ دنوں ایک بیان میں کہا تھا کہ رواں برس رپورٹ ہونے والے پولیو کیسز میں 60 فیصد بچوں کو روٹین امیونائزیشن کی کوئی ویکسین نہیں لگی، جس کی وجہ سے بچوں میں مرض کی شدت دیکھنے میں آئی۔