Tag: پولیو

  • علماء کا ایک بار پھر پولیو کے خاتمے میں تعاون کا عزم

    علماء کا ایک بار پھر پولیو کے خاتمے میں تعاون کا عزم

    اسلام آباد: قومی اسلامی مشاورتی گروپ (این آئی اے جی) نے ایک بار پھر اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ وہ ملک میں جاری پولیو کے خاتمے کے لیے کی جانے والی تمام مہمات میں اپنا تعاون جاری رکھیں گے اور اس موذی مرض کا پاک وطن سے خاتمہ کر کے دم لیں گے۔

    وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر میں منعقد کیے جانے والے گروپ کے اجلاس میں صوبائی و قومی سطح پر پولیو کے خاتمے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔

    یہ تمام اقدامات پولیو کے خاتمے کے لیے بنائے جانے والے پروگرام نیشنل ایمرجنسی ایکشن پلان (این ای اے پی) 18۔2017 کے تحت اٹھائے جارہے ہیں۔

    گو کہ رواں برس اب تک ملک میں صرف 4 پولیو کیسز کی تصدیق ہوئی اور یوں لگ رہا ہے کہ پاکستان پولیو فری ملک بننے کی جانب بڑھ رہا ہے، لیکن اس سلسلے میں مرتب کی جانے والی رپورٹس کچھ اور ہی حقائق بتاتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: یونیسف کو پاکستان سے پولیو کے خاتمے کا یقین

    پروگرام کے ماحولیاتی نگرانی نیٹ ورک کی تحقیق کے مطابق مختلف شہروں کے سیوریج کے پانی میں پولیو وائرس تاحال موجود ہے جن میں صوبہ سندھ کا دارالحکومت کراچی، بلوچستان کا دارالحکومت کوئٹہ اور ضلع قلعہ عبداللہ شامل ہے۔

    دوسری جانب جڑواں شہروں راولپنڈی اور اسلام آباد کا پانی بھی اس سے پاک نہیں۔

    اجلاس میں شریک وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے پولیو سینیٹر عائشہ رضا نے علما سے درخواست کی کہ وہ اس سلسلے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں اور مقامی آبادیوں میں پولیو کے قطروں کے حوالے سے رائج مختلف اعتقاد اور توہمات کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔

    مزید پڑھیں: پشاور کا پانی پولیو وائرس سے پاک قرار

    سینیٹر عائشہ رضا نے کہا، ’ہم سے پوچھا جاتا ہے کہ بچے کو پولیو کے قطرے کب تک پلائے جائیں گے۔ پولیو کے یہ قطرے جسمانی صحت کے لیے بالکل بے ضرر ہیں البتہ یہ پولیو وائرس کے خلاف ایک ڈھال کی صورت کام کرتے ہیں۔ تو یہ ڈھال جتنی زیادہ مضبوط ہوگی پولیو وائرس کے حملے کا خطرہ اتنا ہی کم ہوتا جائے گا‘۔

    انہوں نے اس پہلو کی طرف بھی اشارہ کیا کہ باقاعدگی سے ہر سال پولیو کے قطرے نہ پینے والے بچے بھی بعض اوقات پولیو وائرس کا نشانہ بن سکتے ہیں۔

    اجلاس میں قومی اسلامی مشاورتی گروپ کے سربراہ مولانا حنیف جالندھری نے بتایا کہ بچوں کو پولیو وائرس اور عمر بھر کی معذوری سے بچانا اسلام اور شریعت کی رو سے ہمارا فرض ہے کیونکہ ہمارے بچوں کی دیکھ بھال اور مناسب پرورش ہماری ذمہ داری ہے جب تک کہ وہ خود باشعور نہیں ہوجاتے۔

    انہوں نے بتایا، ’جب بھی پولیو ٹیم میرے گھر کے دروازے پر آتی ہے، میری کوشش ہوتی ہے کہ میرے گھر میں موجود بچوں میں سے کوئی بھی یہ قطرے پینے سے محروم نہ رہے‘۔

    انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ جب تک پاکستان پولیو سے پاک ملک نہیں بن جاتا اور ہمارے بچے اس موذی وائرس سے محفوظ نہیں ہوجاتے، اس مہم کے ساتھ ہمارا تعاون ہر حال میں جاری رہے گا۔

    مزید پڑھیں: قبائلی علاقے میں پولیو کیسز کی شرح صفر

    یاد رہے کہ قومی اسلامی مشاورتی گروپ سنہ 2013 میں قائم کیا گیا تھا جس کا بنیادی مقصد پاکستانی کے چوٹی کے علماؤں کے ذریعے ملک بھر میں یہ پیغام عام کرنا تھا کہ انسداد پولیو وائرس کے قطرے نہ تو انسانی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں، اور نہ ہی کوئی مذہبی عقیدہ اسے پینے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

    سنہ 2013 سے ان علماؤں نے خصوصاً قبائلی علاقوں میں لوگوں کی ذہن سازی میں خصوصی کردار ادا کیا ہے جس کے بعد اب آہستہ آہستہ انسداد پولیو وائرس کے قطرے پینے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور پولیو کے قطروں کے بارے میں رائج توہمات کا بھی خاتمہ ہو رہا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کراچی میں انسداد پولیو مہم، 18 لاکھ بچوں کو پولیو سے بچانے کا ہدف

    کراچی میں انسداد پولیو مہم، 18 لاکھ بچوں کو پولیو سے بچانے کا ہدف

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں 3 روزہ انسداد پولیو مہم کا آغاز ہوگیا۔ کمشنر کراچی اعجاز احمد خان نے گزری کے ایم سی میٹرنٹی ہوم میں بچوں کو پولیو کے قطرے پلا کر مہم کا آغاز کیا۔

    کمشنر کراچی اعجاز احمد خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یہ دوسری سب نیشنل پولیو مہم ہے جس میں 18 لاکھ سے زائد بچوں کو شامل کیا گیا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ 161 یونین کونسل میں انسداد پولیو مہم شروع کی گئی ہے۔ مہم میں 7 ہزار سے زائد ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں جبکہ ان کی سیکیورٹی کے لیے رینجرز اور پولیس کے 5 ہزار 7 سو اہلکار سیکیورٹی کے فرائض انجام دیں گے۔

    مزید پڑھیں: پشاور سے پولیو وائرس کا خاتمہ

    کمشنر کا کہنا تھا کہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے کراچی میں پولیو کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔

    یاد رہے کہ رواں برس کراچی میں 80 ہزار سے زائد بچے پولیو کے قطرے پینے سے محروم رہ گئے تھے۔

    کچھ عرصہ قبل وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں انکشاف ہوا تھا کہ رواں برس کراچی میں 80 ہزار سے زائد بچے پولیو ویکسین لینے سے محروم رہ گئے جس کا سبب ان کے والدین کا پولیو ویکسین پلوانے کا انکار تھا۔

    وزیر اعلیٰ کو آگاہ کیا گیا کہ کراچی کے علاقوں مچھر کالونی اور سہراب گوٹھ میں اب بھی پولیو وائرس موجود ہے۔

    مزید پڑھیں: بلوچستان میں پولیو کا ایک اور کیس سامنے آگیا

    اس موقع پر وزیر اعلیٰ نے احکامات جاری کیے کہ جو والدین اپنے بچوں کو پولیو ویکسین پلانے سے انکاری ہیں ان کی کونسلنگ کا کوئی پروگرام بنایا جائے۔ ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ اور پولیو پروگرام مل کر کراچی سے پولیو وائرس کے خاتمے کے لیے جنگی بنیادوں پر اقدامات کرے۔

    دوسری جانب صوبہ بلوچستان میں پولیو وائرس کے ایک اور کیس کی تصدیق ہوگئی جس کے بعد پاکستان میں رواں برس پولیو کیسز کی تعداد 3 ہوگئی ہے۔

    پاکستان میں انسداد پولیو کے لیے سرگرم ادارے اینڈ پولیو پاکستان کے مطابق مذکورہ کیس کے بعد سال 2017 میں اب تک پاکستان میں 3 پولیو کیسز کی تصدیق ہوگئی ہے جن میں ایک پنجاب اور ایک گلگت بلتستان میں ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • بلوچستان میں پولیو کا ایک اور کیس سامنے آگیا

    بلوچستان میں پولیو کا ایک اور کیس سامنے آگیا

    کوئٹہ: سال 2017 میں صوبہ بلوچستان میں پولیو وائرس کے ایک اور کیس کی تصدیق ہوگئی جس کے بعد پاکستان میں رواں برس پولیو کیسز کی تعداد 3 ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ کی یونین کونسل محمود آباد کے رہائشی احمد شاہ کی 18 ماہ کی بیٹی میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔

    وائرس کا شکار بچی کو اس کے والدین نے انسداد پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کردیا تھا جس کے بعد یہ بچی زندگی بھر کے لیے معذوری کا شکار ہوگئی ہے۔

    پاکستان میں انسداد پولیو کے لیے سرگرم ادارے اینڈ پولیو پاکستان کے مطابق مذکورہ کیس کے بعد سال 2017 میں اب تک پاکستان میں 3 پولیو کیسز کی تصدیق ہوگئی ہے جن میں ایک پنجاب اور ایک گلگت بلتستان میں ہے۔

    یاد رہے کہ پاکستان کی انسداد پولیو کے لیے کی جانے والی کوششوں کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ کے ادارہ اطفال یونیسف نے امید ظاہر کی تھی کہ 2017 میں پاکستان پولیو فری ملک بن جائے گا تاہم بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔

    سال میں متعدد بار انجام دی جانے والی انسداد پولیو مہم کے باعث پاکستان مطلوبہ ہدف حاصل کرنے میں ناکام ہے۔

    مزید پڑھیں: قبائلی علاقے میں پولیو کیسز کی شرح صفر

    دوسری جانب صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں 80 ہزار بچوں سمیت ملک میں لاتعداد بچے ایسے ہیں جو پولیو کے قطرے پینے سے محروم ہیں۔

    واضح رہے کہ سنہ 2014 پاکستان میں پولیو کے حوالے سے بدترین سال تھا جب ملک میں پولیو وائرس کے 306 کیسز سامنے آئے تھے۔ یہ شرح پچھلے 14 سال کی بلند ترین شرح تھی۔

    اس شرح کے سامنے آنے کے بعد پاکستان پر سفری پابندیاں بھی عائد کردی گئی تھیں۔

    بعد ازاں سنہ 2015 میں پولیو کیسز کی تعداد گھٹ کر 54 اور سنہ 2016 میں 20 ہوگئی تھی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کراچی: 80 ہزار سے زائد بچے پولیو ویکسین پینے سے محروم

    کراچی: 80 ہزار سے زائد بچے پولیو ویکسین پینے سے محروم

    کراچی: رواں برس سندھ کے دارالحکومت کراچی میں 80 ہزار سے زائد بچوں کو ان کے والدین نے پولیو ویکسین پلانے سے انکار کردیا جس سے وہ ویکسین لینے سے محروم رہ گئے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں انسداد پولیو سے متعلق اہم اجلاس ہوا جس کی صدارت وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کی۔

    وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ وہ سندھ کو پولیو سے پاک اور آئندہ نسل کو اپاہج ہونے سے بچانا چاہتے ہیں۔ اس لیے جب بھی انسداد پولیو مہم چلتی ہے تو وہ پولیو ورکرز کی سیکیورٹی اور مانیٹرنگ خود کرتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: قبائلی علاقے میں پولیو کیسز کی شرح صفر

    بریفنگ کے دوران وزیر اعلیٰ کو بتایا گیا کہ رواں سال سندھ میں کوئی نیا پولیو کیس سامنے نہیں آیا۔

    رواں برس کراچی میں 80 ہزار سے زائد بچے پولیو ویکسین لینے سے محروم رہ گئے جس کا سبب ان کے والدین کا پولیو ویکسین پلوانے کا انکار تھا۔ مچھر کالونی، سہراب گوٹھ میں اب بھی پولیو وائرس موجود ہے۔

    وزیر اعلیٰ نے کہا جو والدین اپنے بچوں کو پولیو ویکسین پلانے سے انکاری ہیں ان کی کونسلنگ کا کوئی پروگرام بنایا جائے۔ ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ اور پولیو پروگرام مل کر کراچی سے پولیو وائرس کے خاتمے کے لیے جنگی بنیادوں پر اقدامات کرے۔

    مراد علی شاہ نے صوبائی وزیر صحت، محکمہ صحت اور پولیو پر ٹاسک فورس کو وائرس سرویلنس اور ہائی رسک یونین کونسلز میں پولیو کے کام کو مزید بہتر بنانے کی ہدایت کی۔

    مزید پڑھیں: پاکستانی پولیو ورکرز کے لیے بین الاقوامی اعزاز

    اجلاس میں آصفہ بھٹو، عذرا پیچوہو، وزیر صحت ڈاکٹر سکندر میندھرو، میئر کراچی، آئی جی سندھ اور سیکریٹری ہیلتھ سمیت دیگرافسران بھی شریک تھے۔

    یاد رہے کہ سنہ 2014 میں پاکستان میں پولیو وائرس کے 306 کیسز سامنے آئے تھے۔ یہ شرح پچھلے 14 سال کی بلند ترین شرح تھی۔

    سنہ 2015 میں پولیو کیسز کی تعداد گھٹ کر 54 اور سنہ 2016 میں 20 ہوگئی۔

    رواں برس اب تک صرف 2 پولیو کیسز سامنے آئے ہیں جن میں سے 1 پنجاب اور ایک گلگت بلتستان میں دیکھا گیا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ملک بھر میں 3 روزہ انسداد پولیو مہم کا آغاز

    ملک بھر میں 3 روزہ انسداد پولیو مہم کا آغاز

    پولیو کے خاتمے کے لیے آج سے ملک بھر میں سخت سیکیورٹی انتظامات میں 3 روزہ ویکسی نیشن مہم شروع ہوگئی ہے۔ ہزاروں ٹیمیں لاکھوں بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائیں گی۔

    ملک کے مختلف شہروں میں 3 روزہ انسداد پولیو مہم کا آج سے آغاز ہوگیا ہے۔ سکھر میں 5 تعلقوں میں 5 سال سے کم عمر 3 لاکھ 8 ہزار بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جائیں گے۔

    بلوچستان کے 16 اضلاع میں مہم کے دوران 6 ہزار 540 ٹیموں کے ذریعہ 17 لاکھ سے زائد بچوں کو حفاظتی قطرے پلائے جائیں گے۔

    خیبر پختونخوا کے تمام اضلاع میں 3 روزہ انسداد پولیو مہم کے دوران 17 ہزار 7 سو 66 ٹیموں کے ذریعے 56 لاکھ بچوں کو انسداد پولیو کے قطرے پلائے جائیں گے۔

    ضلع مالا کنڈ میں سخت سیکیورٹی انتظامات میں 1 لاکھ 3 ہزار بچوں کو حفاظتی قطرے پلائے جائیں گے۔ ضلع میں 28 میں سے 11 یونین کونسل کو حساس قرار دیا گیا ہے۔

    عوامی پارکس، ریلوے اسٹیشنز، بس اور ویگن اسٹینڈز، ہوائی اڈوں اور ٹرانزٹ پوائنٹس پر بھی خصوصی کاؤنٹرز قائم کیے گئے ہیں تاکہ کوئی بچہ بھی پولیو قطروں سے محروم نہ رہے۔

    واضح رہے کہ گزشتہ 2 سال میں پاکستان نے انسداد پولیو کے لیے نہایت بہترین اور منظم اقدامات اٹھائے ہیں جن کے باعث ان 2 سالوں میں پولیو کیسز کی شرح میں خاصی کمی آئی ہے۔

    سنہ 2014 میں پاکستان میں 306 کیسز منظر عام پر آئے تھے جبکہ 2016 میں یہ تعداد گھٹ کر صرف 20 تک آگئی۔

    کچھ عرصہ قبل یونیسف نے بھی انسداد پولیو کے لیے پاکستان کی کوششوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے پولیو کے مرض کے خاتمے کے لیے بھرپور اور نہایت منظم اقدامات اٹھائے ہیں جن کو دیکھتے ہوئے امید ہے کہ بہت جلد پاکستان سے پولیو وائرس کا خاتمہ ہوجائے گا۔

    یاد رہے کہ سنہ 2015 میں اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کی جانے والی رپورٹس کے مطابق صرف پاکستان اور افغانستان دنیا کے دو ایسے ممالک تھے جہاں اکیسویں صدی میں بھی پولیو وائرس موجود تھا تاہم گزشتہ برس افریقی ملک نائجیریا میں بھی ایک سے 22 پولیو کیسز ریکارڈ کیے گئے جس کے بعد اب نائیجریا بھی پولیو زدہ ممالک کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے۔

  • فاٹا میں بچوں کی اموات کا پولیو ویکسین سے کوئی تعلق نہیں: رپورٹ

    فاٹا میں بچوں کی اموات کا پولیو ویکسین سے کوئی تعلق نہیں: رپورٹ

    اسلام آباد: وزیر اعظم کی نمائندہ برائے انسداد پولیو سینیٹر عائشہ رضا فاروق کا کہنا ہے کہ فاٹا میں پولیو ویکسینیشن کے باعث بچوں کی اموات کا تاثر نہایت گمراہ کن ہے اور تحقیقات اور فرانزک تجزیے نے بھی اس کی تردید کردی ہے۔

    چند دن قبل فاٹا میں شروع کی جانے والی انسداد پولیو مہم کے بعد بعض والدین نے الزام عائد کیا تھا کہ ان کے بچوں کی حالت غیر ہوگئی جنہیں حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں داخل کیا گیا۔ ان میں سے کچھ بچے موت کا شکار بھی ہوگئے۔

    تاہم پولیٹیکل انتظامیہ نے ان اموات کو پولیو ویکسینیشن سے جوڑنے کی کوشش کو فوری رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ متاثرہ علاقوں میں خشک سالی کی وجہ سے نمونیہ پھیل گیا ہے اور یہی بچوں کی اموات کی ممکنہ وجہ ہے۔

    واقعے کے بعد سینیٹر عائشہ رضا نے فاٹا حکام کو تفصیلی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ انہوں نے اس سلسلے میں تجربہ کار ماہرین کو بھی معمور کیا تھا کہ وہ تمام تفصیلی جائزے مرتب کر کے بچوں کی اموات کی وجہ کا تعین کریں تاکہ پولیو کے قطروں کے بارے میں گمراہ کن افواہوں کا خاتمہ کیا جاسکے۔

    مزید پڑھیں: سوچ میں تبدیلی پولیو کے خاتمے کے لیے ضروری

    دو دن قبل خیبر میڈیکل کالج کے محکمہ فرانزک میڈیسن اور ٹاکزکولوجی نے متعلقہ تفصیلی رپورٹ جاری کی تھی۔ اس کے لیے حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں داخل کیے جانے والے بیمار بچوں کے خون کے نمونوں کا فرانزک تجزیہ کیا گیا تھا۔

    رپورٹ کی تفصیلات بتاتے ہوئے سینیٹر عائشہ رضا نے واضح طور پر کہا کہ انسداد پولیو کے لیے پلائے جانے والے قطروں یا ٹیکوں کا ان اموات سے کوئی تعلق نہیں۔

    انہوں نے کہا کہ آج تک پاکستان سمیت دنیا بھر میں ایسا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا جس میں پولیو ویکسین کے باعث کسی بچے کی موت واقع ہوئی ہو، تاہم متعلقہ انتظامیہ نے مقامی افراد کے خدشات کو دور کرنے کے لیے سائنسی بنیادوں پر تمام مطلوبہ تحقیقات سر انجام دی ہیں۔

    عائشہ رضا کا کہنا تھا کہ اب تک دنیا بھر میں ڈھائی ارب سے زائد بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جاچکے ہیں لیکن ان قطروں کے باعث بچوں کی بیماری یا موت کا ایک بھی واقعہ سامنے نہیں آیا۔

    مزید پڑھیں: قبائلی علاقے میں پولیو کیسز کی شرح صفر

    انہوں نے خفگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مقامی اخبارات نے نہ تو خود تحقیق کی، اور نہ ہی تحقیقاتی رپورٹ کا انتظار کیا اور اس کے بغیر ہی بچوں کی اموات کو چند روز قبل انجام دی جانے والی انسداد پولیو مہم سے جوڑ دیا۔

    سینیٹر نے بتایا کہ حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں داخل کیے جانے والے بچے اگلے ہی روز اسپتال سے فارغ کردیے گئے تھے۔ ان میں سے تقریباً نصف میں کسی قسم کی بیماری کی کوئی علامت نہیں پائی گئی، لیکن ان کے والدین انہیں افواہوں سے خوفزدہ ہو کر اسپتال لے آئے تھے۔

    سینیٹر عائشہ رضا نے ایک بار پھر واضح کیا کہ انسداد پولیو کی تمام ویکسین نہ صرف بالکل محفوظ بلکہ عالمی ادارہ صحت سے تصدیق شدہ ہیں اور دنیا بھر میں ان کا استعمال بلا خوف و خطر جاری ہے۔

    عائشہ رضا کے مطابق پاکستان میں شروع کی جانے والی ہر پولیو مہم میں اندازاً 3 کروڑ سے زائد بچوں کو پولیو ویکسین پلائی جاتی ہے لیکن آج تک ایک بھی ایسا کیس رپورٹ نہیں ہوا جس میں اس ویکسین کے باعث کوئی بچہ بیماری یا موت کا شکار ہوا ہو۔

    انہوں نے کہا کہ پاکستان انسداد پولیو کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھا رہا ہے اور بہت جلد پاکستان بھی پولیو سے پاک ملک بن جائے گا۔

    یاد رہے کہ رواں سال پاکستان میں 19 پولیو کیسز ریکارڈ کیے گئے ہیں۔

    کچھ عرصہ قبل یونیسف نے بھی انسداد پولیو کے لیے پاکستان کی کوششوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان نے پولیو کے مرض کے خاتمے کے لیے بھرپور اور نہایت منظم اقدامات اٹھائے ہیں جن کو دیکھتے ہوئے امید ہے کہ رواں سال کے اختتام تک پاکستان سے پولیو وائرس کا خاتمہ ہوجائے گا۔

    اقوام متحدہ کے مطابق صرف پاکستان اور افغانستان دنیا کے 2 ایسے ممالک ہیں جہاں اکیسویں صدی میں بھی پولیو وائرس موجود ہے۔

  • سلمان احمد کو پولیو کے خاتمے کی امید

    سلمان احمد کو پولیو کے خاتمے کی امید

    معروف گلوکار سلمان احمد نے امید ظاہر کی ہے کہ پاکستان بہت جلد پولیو سے پاک ملک بن جائے گا۔ انہوں نے اس حوالے سے ایک گانا بھی شیئر کیا جو انہوں نے سنہ 2012 میں انسداد پولیو مہم کے فروغ کے لیے بنایا تھا۔

    اپنے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنی تصویر شیئر کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ رواں سال پاکستان میں 19 پولیو کیسز منظر عام پر آئے جو اب تک پولیو کیسز کی سب سے کم تعداد ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ہم بہت جلد پولیو سے پاک ملک بنا کر تاریخ رقم کریں گے۔

    واضح رہے کہ سنہ 2014 پاکستان میں پولیو وائرس کے حوالے سے ایک بدترین سال تھا جب ملک میں اس وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 306 تک جا پہنچی تھی۔ یہ شرح پچھلے 14 سال کی بلند ترین شرح تھی جس کے بعد پاکستان پر سفری پابندیاں بھی عائد کردی گئیں تھی۔ اسی سال پڑوسی ملک بھارت پولیو فری ملک بن گیا۔

    تاہم حکومتی اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے چلائی جانے والی آگاہی مہمات کا مثبت نتیجہ نکلا اور ان 2 سالوں میں پولیو کیسز کی تعداد میں ڈرامائی تبدیلی آئی۔ سنہ 2015 میں ملک میں پولیو کیسز کی تعداد گھٹ کر 54 جبکہ رواں سال مزید گھٹ کر 19 ہوگئی۔

    سلمان احمد انسداد پولیو کے لیے اقوام متحدہ کے خیر سگالی سفیر بھی ہیں اور وہ اس سے قبل مرحوم اسکالر جنید جمشید، کرکٹر شاہد آفریدی، جاوید میانداد اور معروف صحافی ریحام خان کو بھی اس مشن کی تکمیل کے لیے شامل کرچکے ہیں۔

    polio-3

    polio-post-1

    polio-post-2

    انہوں نے 4 سال قبل انسداد پولیو مہم کے لیے کی جانے والی کوششوں کو فروغ دینے کے لیے سنہ 2012 میں ایک گانا بھی بنایا تھا جس میں وہ غالب کی شاعری کے ذریعہ دنیا کو اس وائرس کے خلاف پاکستان کی طویل جدوجہد کے بارے میں بتا رہے ہیں۔

    یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل یونیسف نے بھی انسداد پولیو کے لیے پاکستان کی کوششوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان نے پولیو کے مرض کے خاتمے کے لیے بھرپور اور نہایت منظم اقدامات اٹھائے ہیں جن کو دیکھتے ہوئے امید ہے کہ رواں سال کے اختتام تک پاکستان سے پولیو وائرس کا خاتمہ ہوجائے گا۔

    اقوام متحدہ کے مطابق صرف پاکستان اور افغانستان دنیا کے 2 ایسے ممالک ہیں جہاں اکیسویں صدی میں بھی پولیو وائرس موجود ہے۔

    overcoming all challenges by Salman Ahmad from Adnan Maqbool on Vimeo.

  • رواں سال کی آخری انسداد پولیو مہم کا آغاز

    رواں سال کی آخری انسداد پولیو مہم کا آغاز

    اسلام آباد: ملک بھر میں 6 روزہ انسداد پولیو مہم کا آغاز ہوگیا۔ پولیو مہم کے دوران سیکیورٹی کے سخت اقدامات کیے گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ملک میں رواں سال کی آخری انسداد پولیو مہم کا آغاز ہوگیا جس کے لیے سیکیورٹی کے فول پروف انتظامات کیے گئے ہیں۔

    چھ روزہ مہم کے دوران کراچی میں 15 لاکھ بچوں کو حفاظتی قطرے پلائیں جائیں گے۔ حکام کا کہنا ہے کہ قطرے نہ پلوانے پر والدین کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

    آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کا کہنا ہے کہ ممکنہ حساس یونین کونسلز میں انر او آؤٹر کارڈن کی بنیاد پر پولیو ٹیموں کو سیکیورٹی فراہم کی جائے۔ ایسی تمام یوسیز میں پولیس کمانڈوز کو خصوصی ذمہ داریاں دی جائیں۔

    مزید پڑھیں: سوچ میں تبدیلی پولیو کے خاتمے کے لیے ضروری

    دوسری جانب پنجاب کے تمام اضلاع میں 3 روزہ انسداد پولیو کے دوران 1 کروڑ 84 لاکھ بچوں کو انسداد پولیو ویکسین پلانے کا ہدف دیا گیا ہے۔ مہم کے دوران سیکیورٹی کے سخت اقدامات کیے گئے ہیں۔

    بلوچستان میں انسداد پولیو مہم میں 24 لاکھ 51 ہزار 295 بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جا رہے ہیں۔ حکام کے مطابق مہم کے دوران بچوں کو وٹامن اے کے قطرے بھی پلائے جائیں گے۔ مہم میں 9 ہزار 287 ٹیمیں حصہ لیں گی۔

    صوبہ خیبر پختونخواہ میں بھی سخت سیکیورٹی اقدامات کے ساتھ انسداد پولیو مہم جاری ہے جہاں سب سے زیادہ پولیو کیسز رپورٹ کیے جاتے ہیں۔

    مقامی افسران کے مطابق یہاں کے غیر ترقی یافتہ اور قبائلی علاقوں میں پولیو ویکسین کو بانجھ کردینے والی دوا سمجھی جاتی ہے، علاوہ ازیں دشوار گزار راستوں کی وجہ سے بھی درجنوں بچے پولیو کے قطروں تک رسائی حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: پشاور کا پانی پولیو وائرس سے پاک قرار

    تاہم قبائلی علاقہ جات کے میڈیا آفیسر عقیل احمد کا کہنا ہے کہ اب قبائلی علاقوں میں بھی پولیو سے بچاؤ اور قطرے پلانے کے حوالے سے سوچ میں تبدیلی آرہی ہے۔ ان کے مطابق اس حوالے سے صرف 2 سال میں ڈرامائی تبدیلی آئی ہے اور اب پولیو کے قطرے پینے سے محروم بچوں کی شرح صرف 1 فیصد رہ گئی ہے۔

    واضح رہے کہ گزشتہ 2 سال میں پاکستان نے انسداد پولیو کے لیے نہایت بہترین اور منظم اقدامات اٹھائے ہیں جن کے باعث ان 2 سالوں میں پولیو کیسز کی شرح میں خاصی کمی آئی ہے۔

    کچھ عرصہ قبل یونیسف نے بھی انسداد پولیو کے لیے پاکستان کی کوششوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے پولیو کے مرض کے خاتمے کے لیے بھرپور اور نہایت منظم اقدامات اٹھائے ہیں جن کو دیکھتے ہوئے امید ہے کہ رواں سال کے اختتام تک پاکستان سے پولیو وائرس کا خاتمہ ہوجائے گا۔

    یاد رہے کہ سنہ 2015 میں اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کی جانے والی رپورٹس کے مطابق صرف پاکستان اور افغانستان دنیا کے دو ایسے ممالک تھے جہاں اکیسویں صدی میں بھی پولیو وائرس موجود تھا تاہم رواں برس افریقی ملک نائجیریا میں بھی ایک سے 2 پولیو کیسز ریکارڈ کیے گئے جس کے بعد اب نائیجریا بھی پولیو زدہ ممالک کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے۔

  • رواں سال کے آخر تک پاکستان سے پولیو کا خاتمہ ممکن

    رواں سال کے آخر تک پاکستان سے پولیو کا خاتمہ ممکن

    اسلام آباد: یونیسف نے پاکستان کی جانب سے انسداد پولیو کے سلسلے میں کیے جانے والے اقدامات کا اعتراف کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ رواں سال کے آخر تک پاکستان سے پولیو وائرس کا مکمل طور پر خاتمہ ہوجائے گا۔

    پاکستان میں یونیسف کی نمائندہ اینجلا کیرنی نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان نے پولیو کے مرض کے خاتمے کے لیے بھرپور اور نہایت منظم اقدامات اٹھائے ہیں جن کو دیکھتے ہوئے امید ہے کہ رواں سال کے اختتام تک پاکستان سے پولیو وائرس کا خاتمہ ہوجائے گا۔

    انہوں نے کہا کہ سال 2014 میں پاکستان میں 309 پولیو کیسز کی تعداد منظر عام پر آئی جو ان دو سالوں میں کم ترین شرح پر آگئی ہے اور رواں برس پولیو کے صرف 18 کیسز ریکارڈ کیے گئے ہیں۔

    واضح رہے کہ سنہ 2014 پولیو کے حوالے سے پاکستان کے لیے ایک بدترین سال تھا جس میں ملک میں پولیو وائرس کے مریضوں کی شرح پچھلے 14 سال کی بلند ترین شرح تھی۔ اس کے بعد پاکستان پر سفری پابندیاں بھی عائد کردی گئیں تھی۔ اسی سال پڑوسی ملک بھارت پولیو فری ملک بن گیا۔

    مزید پڑھیں: بھارت کا ہنگامی انسداد پولیو مہم کا اعلان

    یونیسف کی نمائندہ کا کہنا تھا کہ سنہ 2014 میں ملک بھر میں 5 لاکھ کے قریب بچے ایسے تھے جو پولیو کے قطرے پینے سے محروم رہے لیکن یہ شرح بھی اب خاصی حد تک کم ہوگئی ہے۔

    سنہ 2015 میں اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کی جانے والی رپورٹس کے مطابق صرف پاکستان اور افغانستان دنیا کے دو ایسے ممالک تھے جہاں اکیسویں صدی میں بھی پولیو وائرس موجود تھا تاہم رواں برس افریقی ملک نائجیریا میں بھی ایک سے 2 پولیو کیسز ریکارڈ کیے گئے جس کے بعد اب نائیجریا بھی پولیو زدہ ممالک کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے۔

    پاکستان میں پولیو کیسز کی بڑی تعداد صوبہ خیبر پختونخوا سے رپورٹ کی جاتی ہے جہاں کے غیر ترقی یافتہ اور قبائلی علاقوں میں پولیو ویکسین کو بانجھ کردینے والی دوا سمجھی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں دشوار گزار راستوں کی وجہ سے بھی درجنوں بچے پولیو کے قطروں تک رسائی حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: پشاور کا پانی پولیو وائرس سے پاک قرار

    قبائلی علاقہ جات کے میڈیا آفیسر عقیل احمد نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ قبائلی علاقوں میں پولیو سے بچاؤ اور قطرے پلانے کے حوالے سے سوچ میں تبدیلی آرہی ہے۔ سنہ 2014 میں بیشتر قبائلی علاقوں میں 33 ہزار 6 سو 18 بچے پولیو کے قطرے پلانے سے محروم رہ گئے۔ یہ وہ بچے تھے جن تک دشوار گزار راستوں کی وجہ سے رسائی نہ ہوسکی، یا ان کے والدین نے انہیں پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کر دیا۔

    ان کے مطابق اس کے بعد صرف 2 سال میں ڈرامائی تبدیلی آئی اور اب پولیو کے قطرے پینے سے محروم بچوں کی شرح صرف 1 فیصد رہ گئی ہے۔

    مزید پڑھیں: قبائلی علاقے میں پولیو کیسز کی شرح صفر

    رواں برس صوبہ خیبر پختونخوا سے 8 پولیو کیسز سامنے آئے۔ سندھ سے 7، بلوچستان سے 1 اور فاٹا سے 2 کیسز سامنے آئے۔ صوبہ پنجاب واحد ایسا صوبہ ہے جہاں رواں برس پولیو کا کوئی کیس منظر عام پر نہیں آیا۔

  • سوچ میں تبدیلی پولیو کے خاتمے کے لیے ضروری

    سوچ میں تبدیلی پولیو کے خاتمے کے لیے ضروری

    دنیا بھر میں آج انسداد پولیو کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ دنیا بھر میں صرف پاکستان اور افغانستان ایسے ممالک ہیں جہاں آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی پولیو جیسا مرض موجود ہے۔

    سنہ 2015 میں جاری کی جانے والی رپورٹس کے مطابق یہ دو ممالک پولیو زدہ تھے تاہم رواں برس افریقی ملک نائجیریا میں بھی ایک سے 2 پولیو کیسز ریکارڈ کیے گئے جس کے بعد اب نائیجریا بھی اس فہرست میں شامل ہوگیا ہے۔

    polio-1

    رواں برس پاکستان میں 15 جبکہ افغانستان میں 8 پولیو کیسز ریکارڈ کیے گئے۔ پاکستان میں پولیو ویکسین حکومت کی جانب سے مفت فراہم کی جانے والی ویکسین ہے جو پولیو ورکرز گھر گھر جا کر 5 سال کی عمر تک کے بچوں کو پلاتے ہیں، تاہم اس کے باوجود پاکستان میں پولیو وائرس کی موجودگی کا سبب والدین کے توہمات اور کم علمی ہے۔

    پاکستان میں پولیو کیسز کی بڑی تعداد صوبہ خیبر پختونخوا سے رپورٹ کی جاتی ہے جہاں کے غیر ترقی یافتہ اور قبائلی علاقوں میں پولیو ویکسین کو بانجھ کردینے والی دوا سمجھی جاتی ہے۔

    یہی حال کراچی کے کچھ پسماندہ علاقوں کا بھی ہے جہاں پولیو ویکسین کو غیر ملکی ایجنڈے کے تحت پلائی جانے والی دوا سمجھی جاتی ہے جس میں لوگوں کو بیمار کردینے والے اجزا شامل ہوتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: انسداد پولیو کے لیے جاپان کا پاکستان کو قرض

    سر سید اسپتال کراچی کے ڈاکٹر اقبال میمن کے مطابق ایک بار جب وہ لوگوں میں پولیو کے خلاف آگاہی اور شعور بیدار کرنے کے لیے ایک مہم میں شامل ہوئے تو انہوں نے لوگوں سے یہ بھی سنا کہ ’پولیو ویکسین میں بندر کے خون کی آمیزش کی جاتی ہے جس سے ایبولا اور دیگر خطرناک امراض کا خدشہ ہے‘۔

    سنہ 2014 میں پاکستان میں پولیو وائرس کے مریضوں کی تعداد 306 تک جا پہنچی تھی جو پچھلے 14 سال کی بلند ترین شرح تھی۔ اس کے بعد پاکستان پر سفری پابندیاں بھی عائد کردی گئیں تھی۔ اسی سال پڑوسی ملک بھارت پولیو فری ملک بن گیا۔

    مزید پڑھیں: بھارت کا ہنگامی انسداد پولیو مہم کا اعلان

    تاہم حکومتی اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے چلائی جانے والی آگاہی مہمات کے باعث رفتہ رفتہ لوگوں کی سوچ میں تبدیلی آنے لگی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سنہ 2015 میں پولیو کیسز کی تعداد گھٹ کر 54 ہوگئی اور رواں سال اب تک 16 کیسز ریکارڈ کیے جا چکے ہیں۔

    polio-3

    قبائلی علاقہ جات کے میڈیا آفیسر عقیل احمد نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ قبائلی علاقوں میں بھی پولیو سے بچاؤ اور قطرے پلانے کے حوالے سے سوچ میں تبدیلی آرہی ہے۔ سنہ 2014 میں بیشتر قبائلی علاقوں میں 33 ہزار 6 سو 18 بچے پولیو کے قطرے پلانے سے محروم رہ گئے۔ یہ وہ بچے تھے جن تک دشوار گزار راستوں کی وجہ سے رسائی نہ ہوسکی، یا ان کے والدین نے انہیں پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کر دیا۔

    مزید پڑھیں: قبائلی علاقے میں پولیو کیسز کی شرح صفر

    اس کے بعد صرف 2 سال میں ڈرامائی تبدیلی آئی اور اب پولیو کے قطرے پینے سے محروم بچوں کی شرح صرف 1 فیصد رہ گئی ہے۔

    رواں برس جون میں پشاور میں پانی کے نمونوں کی جانچ کی گئی جو پولیو وائرس سے پاک پائے گئے جس کی تصدیق عالمی ادارہ صحت نے بھی کی۔

    یاد رہے کہ پاکستان بھر میں صوبہ پنجاب واحد ایسا صوبہ ہے جہاں رواں برس پولیو کا کوئی کیس منظر عام پر نہیں آیا۔

    آج انسداد پولیو کے عالمی دن کے موقع پر ملک بھر انسداد پولیو مہم کا آغاز کردیا گیا ہے۔ اس موقع پر پاکستان میں پولیو کی اعزازی سفیر آصفہ بھٹو نے ملک بھر کے والدین کو پیغام دیا کہ پولیو ویکسین کے دو قطرے دو مرتبہ ہر بچے کو پلائیں۔