Tag: پوٹاٹو چپس

  • پوٹاٹو چپس کا پیکٹ آدھا خالی کیوں ہوتا ہے؟

    پوٹاٹو چپس کا پیکٹ آدھا خالی کیوں ہوتا ہے؟

    ہم میں سے اکثر افراد چپس کھاتے ہوئے سوچتے ہیں کہ یہ پیکٹ تقریباً آدھا خالی کیوں ہوتا ہے اور آدھے سے زیادہ پیکٹ میں ہوا کیوں بھری گئی ہوتی ہے۔

    بعض اوقات ہم سوچتے ہیں کہ شاید یہ بھی صارفین کو لوٹنے کا ایک طریقہ ہے کہ بڑا پیکٹ دکھا کر زیادہ قیمت وصول کی جائے لیکن جب اسے کھولا جاتا ہے تو اس کی تہہ میں کہیں تھوڑے سے چپس نظر آجاتے ہیں۔

    اس حرکت کا مقصد دراصل صارفین کو بہترین شے پہنچانا ہوتا ہے۔

    چپس پیکٹ کے خالی حصے میں نائٹروجن گیس بھری جاتی ہے جس سے چپس محفوظ اور تازہ رہتے ہیں۔ نائٹروجن گیس کی عدم موجودگی میں آکسیجن پیکٹ میں آلو اور تیل کو خراب کرسکتی ہے۔

    پیکٹ میں ہوا بھری ہونے کی وجہ سے چپس ٹوٹنے سے بھی محفوظ رہتے ہیں اور آپ خستہ چپس کھا پاتے ہیں۔

    ایک اندازے کے مطابق ہر پیکٹ میں اوسطاً 43 فیصد ہوا بھری جاتی ہے۔ کچھ برانڈز یہ شرح اس سے کم یا اس سے زیادہ بھی کردیتے ہیں۔

  • ہم پوٹاٹو چپس کیوں کھاتے چلے جاتے ہیں؟

    ہم پوٹاٹو چپس کیوں کھاتے چلے جاتے ہیں؟

    پوٹاٹو چپس ایک ایسی شے ہے جو اگر ہمارے سامنے آجائے تو اسے پسند کرنے یا نہ کرنے سے قطع نظر ہم اسے کھاتے چلے جاتے ہیں، لیکن کیا آپ جانتے ہیں ایسا کیوں ہوتا ہے؟

    ایک عام مشاہدہ ہے کہ جب بھی ہمارے سامنے پوٹاٹو چپس رکھے جائیں تو چاہے ہم ڈائٹنگ پر ہوں یا اپنے کھانے پینے کے معاملے میں احتیاط کرتے ہوں، ایک چپس کھانے کے بعد ہم بے اختیار مزید چپس کھانا چاہتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ معمول کی بات ہے اور اس کی وجہ چپس میں موجود اشیا ہیں۔

    ماہرین کے مطابق پوٹاٹو چپس میں 2 اشیا کا مجموعہ ہوتا ہے، ایک نمک اور دوسری چکنائی۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق جب ہم صرف ایک پوٹاٹو چپس کھاتے ہیں تو اس میں موجود نمک ہمارے دماغ کے اس حصے کو متحرک کرتا ہے جو ڈوپامائن کیمیکل خارج کرتا ہے۔

    ڈوپامائن نامی کیمیکل ہمارے اندر خوشی پیدا کرتا ہے۔ گویا پوٹاٹو چپس کھانا ہمارے اندر خوشی کو جنم دیتا ہے جس کے بعد ہمارا دماغ مزید چپس کی طلب کرتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق نہ صرف پوٹاٹو چپس بلکہ کسی بھی کھانے میں نمک کی مناسب مقدار ڈالی جائے تو یہ ہمارے جسم میں جا کر اس کھانے کی مزید طلب پیدا کرتی ہے۔

    اس کے برعکس کم نمک والے کھانے کھاتے ہوئے خود پر کنٹرول رکھنا آسان ہوتا ہے نتیجتاً ہم اتنا ہی کھاتے ہیں جتنی ہمیں بھوک ہوتی ہے یا جتنا ہمارا ڈائٹنگ چارٹ اجازت دیتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔