Tag: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

  • اڑتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    اڑتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    ’’اُف جبران، ایسا مت کہو، مجھے نہیں لگتا کہ یہ برے لوگ ہیں۔‘‘ فیونا نے پریشان ہو کر کہا۔ ’’مم… میں وضاحت نہیں کر پا رہی ہوں لیکن مجھ لگتا ہے کہ یہ اس معاملے جڑے ہوئے ہیں۔‘‘

    ’’کس معاملے سے؟‘‘ جبران حیران ہو گیا۔

    ’’جادوئی گیند، قلعے اور قیمتی پتھروں کے معاملے سے، تمھارا کیا خیال ہے اس بارے میں؟‘‘

    ’’مجھے ایسا نہیں لگتا، ہاں کوئی غیر معمولی بات ضرور محسوس ہوتی ہے۔‘‘ جبران نے کہا اور آنکھیں ملنے لگا۔ ’’آج تو میں بہت تھک گیا ہوں۔ سارا دن کام میں لگا رہا۔ میں پاپا اور مہمانوں کے ساتھ مچھلیاں پکڑنے چلا گیا تھا۔‘‘

    ’’واہ، تو تم نے آج خوب تفریح کی۔‘‘ فیونا نے ہنس کر کہا۔ اچانک مائری کی آواز آئی: ’’فیونا کیا تم جانے کے لیے تیار ہو؟‘‘

    ’’اچھا میں جا رہی ہوں، ویسے تمھیں بتادوں کہ انکل اینگس کل صبح کریان لارچ جا رہے ہیں، تجارت کے سلسلے میں، وہ وہاں شو کریں گے۔‘‘

    ’’کیسا شو؟‘‘ جبران نے پوچھا۔ فیونا نے بتایا کہ وہ برطانیہ میں گھوم پھر کر اپنی دست کاری کے فن پارے فروخت کرتے ہیں۔ ان کی واپسی پیر کے دوپہر کو ہوگی۔ اور جب تک وہ واپس نہیں آئیں گے تب تک وہ کسی اور مہم پر بھی نہیں جائیں گے۔

    ’’ٹھیک ہے میں بھی اطمینان سے سو جاتا ہوں۔‘‘ جبران نے جماہی لی۔

    مائری اور فیونا رخصت ہو گئیں۔ جونی اور جمی بھی ان کے ساتھ ہو لیے۔ جونی نے چلتے چلتے کہا یہاں اندھیرا کچھ جلدی نہیں اترا ہے! مائری نے آسمان کی طرف دیکھ کر جواب دیا، جہاں اندھیرے نے پر پھیلا دیے تھے: ’’یہ خزاں کا موسم ہے اور ہم اسکاٹ لینڈ کے ہائی لینڈز میں ہیں۔‘‘

    اچانک فیونا نے جونی کو مخاطب کیا: ’’آپ کیوں ٹی وی دیکھنا نہیں چاہتے؟ جبران نے بتایا تھا کہ آپ نے اس سے پہلے ٹی وی کبھی نہیں دیکھا!‘‘

    ایک بار پھر دونوں بھائیوں نے ایک دوسرے کو آنکھوں ہی آنکھوں میں دیکھا۔ پھر جونی نے جواب دیا: ’’دراصل ہمارے والدین نے ہمیں بچپن ہی سے سکھا دیا تھا کہ وقت کا بہترین استعمال یہی ہے کہ ہم کتابیں پڑھیں یا کہانیاں لکھیں، یا پھر دور دراز مقامات کی سیر کیا کریں۔ اس لیے ہم نے کبھی ٹی وی دیکھا ہی نہیں، نہ ہمیں اس کا کوئی شوق ہے۔‘‘

    ’’اوہ، پھر تو ٹھیک ہے۔‘‘ فیونا دل چسپی سے بولی۔ ’’مجھے بھی مطالعہ اور کہانیاں لکھنا پسند ہے۔ تو آپ لوگ کماتے کیسے ہیں؟‘‘ اس سے پہلے کہ جونی جواب میں کچھ کہتا، اس کی ممی مائری نے فوراً مداخلت کر کے فیونا کو ٹوک دیا: ’’ایسی باتیں مت پوچھو، ان باتوں سے تمھارا کیا لینا دینا۔‘‘ لیکن جونی نے جواب میں کہا کہ یہ درست ہے کہ جمی زیادہ تر وقت سیر سپاٹے میں گزارتا ہے اور میں لکھنے میں۔ فیونا نے پوچھا کہ کیا وہ کوئی کتاب بھی لکھ چکے ہیں۔

    جونی نے جواب دیا: ’’ہاں بہت پہلے ایک کتاب لکھی تھی میں نے۔‘‘

    فیونا نے اس کے بعد کوئی اور سوال نہیں کیا، اس لیے باقی کا راستہ خاموشی سے طے ہوا۔ گھر کے دروازے پر پہنچ کر مائری نے ہینڈل گھما کر دروازہ کھولا تو جمی نے چونک کر کہا: ’’آپ نے دروازے کو تالا نہیں لگایا تھا؟‘‘

    ’’نہیں… ہمیں اس کی ضرورت نہیں پڑتی۔ گیل ٹے بہت پُر امن جگہ ہے، یہاں کوئی خطرہ نہیں۔‘‘ مائری نے پورے یقین کے ساتھ جواب دیا۔

    ’’لیکن ممی ہمیں دروازے کو تالا لگانا چاہیے، کیوں کہ ان دنوں یہاں باہر سے اجنبی سیاح آتے ہیں۔‘‘ فیونا بولی اور پھر جلدی سے جونی کی طرف مڑ کر معذرت کرنے لگی۔ ’’آپ برا نہ منائیں، میرا مطلب اجنبی سیاحوں سے ہے۔‘‘

    ’’تم درست کہہ رہی ہو فیونا، یہ اچھا آئیڈیا ہے، اب کے بعد دروازے کو ضرور تالا لگایا کریں مائری۔‘‘ جونی نے بھی کہا اور مڑ کر بولا: ’’مجھے امید ہے کہ جلد دوبارہ ملاقات ہوگی۔‘‘

    دونوں جبران کے گھر کی طرف چل پڑے، اور مائری نے دروازہ بند کر لیا۔ فیونا اپنے کمرے کی طرف بڑھتے ہوئے بولی: ’’ممی، جبران کے پاپا بلال صاحب کی فیملی کے بعد کیا یہ دونوں بھائی بھی ہمارے خاندان کے قریب آ رہے ہیں، کیا ہمیں ان کے ساتھ کوئی رشتہ قائم کرنا چاہیے؟‘‘

    ’’ابھی ہم ایک دوسرے کے بارے میں کچھ نہیں جانتے، اس لیے میں کچھ نہیں کہہ سکتی۔‘‘ مائری نے جواب دیا: ’’اب تم چلو، گڈ نائٹ!‘‘

    (جاری ہے….)

  • چودھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چودھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    سورج کی نرم گرم شعاعیں نیزوں کی طرح کھڑکی سے اندر داخل ہو کر فیونا کو جگانے لگیں۔ وہ کسمسا کر اٹھی اور کھڑکی کے پار لہلہاتے پھول دیکھنے لگی۔ یکایک وہ چونک اٹھی۔ "ارے آج تو ہفتہ ہے۔” اچھل کر بستر سے اتری۔ منھ ہاتھ دھو کر مستعدی سے الماری سے کپڑے نکالے اور بدل کر باورچی خانے میں گھس گئی۔ اس کی ممی مائری گاجر دھو رہی تھیں۔ فیونا میز کے سامنے بیٹھ گئی۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    "بس ایک منٹ، میں کچھ نہ کچھ دے دوں گی ابھی۔ دراصل آج میں نے باغیچے سے یہ تازہ گاجر نکالے ہیں۔ میں نے تمھارے لیے آج رات کے کھانے میں شلجم اور بروسل کی کونپلیں بنانے کا ارادہ کیا ہے۔ تمھیں یہ ننھے ننھے گوبھی تو پسند ہی ہیں۔ قیمہ اور آلو کا بھرتہ شلجم اور بروسل کے کونپلوں کے ساتھ کیسا رہے گا؟”

    "آپ جانتی ہیں ممی، مجھے قیمہ اور آلو کا بھرتہ پسند ہیں۔” فیونا بولی۔ "لیکن اس وقت تو میں صرف سیریل ہی کھاؤں گی۔ میں اپنے نئے دوستوں سے ملنے جاؤں گی۔ ہم سارا دن ساتھ کھیلیں گے اس لیے ممی مجھ سے کچھ زیادہ توقع نہ رکھیں آج۔”

    "ہاں، آج ہفتہ ہے، کھیلنے کا دن ہے، چلو یہ اچھا ہے۔ میں بھی بیکری میں آج دیر تک کام کروں گی۔ جانے سے پہلے میں ‘پرفیکٹ بی’ سے شہد بھی لوں گی۔” مائری نے دھلے گاجر ایک طرف پڑے شلجموں کے پاس ہی رکھ دیے اور گیلے ہاتھ ایک کپڑے سے خشک کرنے لگیں، پھر بولیں۔ "میرے خیال میں سیریل پڑ ا ہوا ہے، بس ابھی دیتی ہوں۔”

    "اوہ ممی، آپ کتنی اچھی ہیں، سچ بتاؤں آج آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں۔ میں آپ کو مشورہ دوں گی کہ جبران کے والدین کی طرف جائیں، وہ آپ کو کھلے دل سے خوش آمدید کہیں گے۔ مسٹر تھامسن، جنھیں آپ نے بھیجا تھا، وہ بھی جبران کے پاپا کے گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ اپنے ساتھ یہ ننھے ننھے گوبھی بروسل بھی لے جائیں۔ یہ کتنا خوب صورت اتفاق ہے ممی کہ مجھے بھی نئے دوست مل گئے ہیں اور آپ کا تعلق بھی دفتر سے نکل کر گھر تک پھیل گیا ہے، ہماری دوستی کی وجہ سے آپ کو بھی دوست مل گئے ہیں۔ ”

    "اوہ میری پیاری بیٹی، خدا تمھیں اپنی حفاظت میں رکھے۔” مائری نے جذباتی ہو کر فیونا کا ماتھا چوم لیا۔ فیونا مسکرانے لگی۔ ناشتہ کر کے وہ جلدی سے اٹھی اور برتن بیسن میں رکھ دیے۔ "ممی، میں واپس آ کر انھیں دھو لوں گی، مجھے ابھی دیر ہو رہی ہے۔”

    اس نے ممی کے گال پر بوسہ دیا اور دوڑتی ہوئی گھر سے نکل گئی۔ جبران اور دانیال اس کا انتظار کر رہے تھے۔ وہ اس وقت اینگس کے گھر سے کچھ ہی فاصلے پر بنے پارک میں بیٹھے ہوئے تھے۔

    "بڑی دیر کر دی تم نے، دس منٹ لیٹ ہو۔” جبران نے کہا۔

    "دراصل آنکھ ہی دیر سے کھلی، میں بہت گہری نیند سوئی رہی۔”

    تینوں تیز تیز قدموں سے اینگس کے گھر کے دروازے پر پہنچ گئے۔ دستک پر وہ باہر نکلے، انھوں نے دیکھا اینگس کے بال بکھرے ہوئے ہیں، آنکھوں کے گرد حلقے پڑے ہیں اور چہرہ بھی دھلا نہیں ہے۔ فیونا نے صبح بخیر کہتے ہی کہا "انکل کیا آپ سوئے نہیں؟”

    "دراصل میں ساری رات جاگ کر یہ کتاب پڑھتا رہا، تم لوگ اندر آ جاؤ، میں تمھیں بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے کتاب میں کیا پایا، سب کچھ حیرت انگیز اور جوش میں ڈال دینے والا ہے، چلو آؤ اندر۔”

    وہ اندر داخل ہوئے تو اینگس نے پوچھا کیا تم لوگوں نے ناشتہ کر لیا؟ تینوں نے اثبات میں سر ہلایا۔ اینگس بولے کہ میں نے تو نہیں کیا لیکن میں چند بسکٹ ہی کھاؤں گا۔ جبران نے کہا صرف بسکٹ تو کوئی بہتر ناشتہ نہیں ہے، کیا آپ کے پاس سیریل یا انڈے نہیں ہیں۔ جبران نے گھر میں چاروں طرف نظر دوڑا کر دیکھا۔ "کیا دودھ والا روزانہ دودھ نہیں لاتا، اور ریفریجریٹر بھی نہیں ہے کیا؟”

    اینگس نے چشمہ اپنے ہاتھ سے میز پر رکھتے ہوئے کہا۔ "آتا ہے، دودھ والا بھی آتا ہے، اور انڈے بھی آتے ہیں، مگر میں اسے پچھلے کمرے میں رکھ دیتا ہوں۔ وہ کافی ٹھنڈا رہتا ہے اس لیے مجھے ریفریجریٹر کی ضرورت نہیں رہتی۔ جب میرے گھر میں پنیر بھی آتا ہے تو وہ بھی وہیں اس کے پاس رکھ دیتا ہوں۔ مجھے کبھی اس سے کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا۔ چلو تم لوگ کرسیوں پر بیٹھ جاؤ۔ میں نے تمھیں بہت کچھ بتانا ہے۔” یہ کہ کر اینگس خود بھی ان کے سامنے اپنی مخصوص آرام کرسی پر بیٹھ گئے۔

    "سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ کتاب کے درمیان سے کسی نے چند اوراق پھاڑ دیے ہیں، لیکن اچھی بات یہ ہے کہ زیادہ تر کتاب محفوظ ہے۔ میں نے اس میں بہت ساری دل چسپ باتیں پڑھی ہیں، اس کتاب میں ایک قسم کا منتر بھی ہے۔ یہ ایسا منتر ہے جو بادشاہ کیگان کے کسی وارث کو ان جگہوں پر پہنچا سکتا ہے جہاں جادوئی ہیرے چھپائے گئے ہیں۔”

    تینوں ہمہ تن گوش ہو گئے۔ اینگس نے کتاب کھول لی اور پڑھنے لگے۔ "کتاب میں لکھا ہے کہ بادشاہ کیگان ابھی فلسطین جانے کا منصوبہ ہی بنا رہا تھا کہ اس کے بارہ آدمی ہیرے چھپا کر کہیں چلے گئے اور بادشاہ کی ہدایت کے مطابق کبھی واپس نہیں آئے۔ یہ راز انھی کے ساتھ ہی رہا کہ ہیرے کہاں کہاں چھپائے گئے ہیں۔ بہ قول آل رائے کیتھ مور جب بادشاہ کو قتل کر دیا گیا اور قلعے کو نذر آتش کیا گیا، تو وہ کئی برسوں تک غائب رہا۔ دراصل وہ دنیا بھر میں گھوم پھر کر ان بارہ آدمیوں کو تلاش کرتا رہا۔ آخر کار اس نے انھیں ڈھونڈ نکالا اور ان سے جہاں تک ممکن ہو سکا واقعات کی تفصیل جمع کر لی۔ ذرا سوچو، یہ کوئی آسان کام نہ تھا۔ وہ کئی برس بعد لوٹا اور یہ ساری تفصیل کتاب میں درج کر دی۔ اس میں ایک ہار کا بھی ذکر ہے جس کے بارہ کونے ہیں اور وہ کسی ستارے کی شکل میں ہے۔ اس کا ہر کونا ایک ایک آدمی اور ہیرے کا نمائندہ ہے، دیکھو اس کی تصویر۔”

    اینگس آگے کی طرف جھک کر اس کی تصویر دکھانے لگے۔ "یہ تو بالکل ویسی ہی تصویر ہے جیسی کہ ہم نے منقش شیشے پر دیکھی تھی۔” جبران حیران ہو کر بولا۔ "فیونا نے اس کی تصویر بھی اتاری ہے۔”

    "یہ کوئی معمولی ہار نہیں۔” اینگس بتانے لگے۔ "رالفن کے جادوگر لومنا نے یہ ہار اسی وقت ہی بنوایا تھا جب وہ جادوئی گولا بنوا رہا تھا اور یہ بھی ایک ہی سونے سے بنایا گیا تھا۔ اس نے بارہ اصلی ہیروں سے چاندی لے کر اسے ہار میں استعمال کیا۔ جب دوگان کے آدمیوں نے بادشاہ کیگان کو جان سے مار دیا تو انھوں نے اس کے گلے سے یہ ہار بھی کھینچ کر نکالا تھا۔ اس کے بعد بادشاہ دوگان نے اسے پہنا اور پھر اس کے بعد اس کی آنے والی نسلوں نے اسے اپنے گلے کی زینت بنایا۔”

    (جاری ہے….)

  • تیرہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    تیرہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    "جبران، کیا تم گھر جاؤ گے؟” فیونا نے اینگس کے گھر سے نکلتے ہی پوچھا۔ جبران نے کہا نہیں، میرا خیال ہے پاپا مسٹر تھامسن کے ساتھ باہر گئے ہوں گے، جب کہ ممی گھر کے کاموں میں مصروف ہوں گی، اور عرفان اور سوسن کھیل رہے ہوں گے، اس لیے گھر جانے کی ضرورت نہیں۔”

    "ٹھیک ہے، تو پھر میں گھر سے فلیش لائٹ اور کیمرہ لے لیتی ہوں۔” فیونا نے کہا اور دونوں اس کے ساتھ چلنے لگے۔ فیونا کی ممی باغیچے میں مصروف تھیں، فیونا نے جلدی جلدی مطلوبہ چیزیں اٹھائیں اور پھر وہ قلعۂ آذر کی طرف روانہ ہو گئے۔

    "اس مرتبہ ہمیں بہادری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ یعنی گیند ڈھونڈنے کے لیے سارا قلعہ چھان مارنا ہوگا۔” فیونا نے چلتے چلتے کہا۔

    "تو پھر آؤ، دوڑ کر چلیں۔” جبران نے اثبات میں سر ہلاکر کہا۔ تینوں دوڑتے ہوئے جھیل کے کنارے پہنچ گئے۔ کشتی اسی مقام پر موجود تھی جہاں انھوں نے گزشتہ روز چھوڑی تھی۔ فیونا نے تین فلیش لائٹس ساتھ لی تھیں اس لیے تینوں کے پاس ایک ایک موجود تھی۔ وہ کشتی کھول کر اسے قلعۂ آذر کی طرف کھینے لگے۔ اس مرتبہ وہ بے خوفی سے دوڑتے ہوئے قلعے کے اندر چلے گئے اور سیدھا آتش دان کے پاس رکے۔ خفیہ دروازہ تاحال کھلا تھا۔ انھوں نے فلیش لائٹس روشن کیں، اور سیڑھیاں اتر کر خفیہ کمرے میں آ گئے۔ فیونا نے کوٹ کی جیب سے شیشے صاف کرنے والا اسپرے نکال کر جبران کو تھمایا اور کہا۔ "تم یہ کھڑکی صاف کرو، پتا چلے یہ کیسی لگتی ہے، میں اور دانی جادوئی گولا ڈھونڈتے ہیں۔”

    "ٹھیک ہے۔” جبران نے اسپرے لیا اور صندوق پر چڑھ کر کھڑکی صاف کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ فیونا اور دانیال جادوئی گولا ڈھونڈنے لگے۔ فیونا ایک طویل راہداری میں گئی اور وہاں بنے کمروں میں تلاشی کے بعد نکل کر بولی۔ "یہاں کچھ بھی نہیں ہے۔”

    "مجھے مل گیا۔” اچانک دانیال چیخا۔ "میں نے اسے ڈھونڈ لیا۔”

    فیونا کو اگرچہ بات سمجھ نہیں آئی لیکن دانیال کی پرمسرت چیخ ہی سمجھانے کے لیے کافی تھی کہ وہ کیا کہنا چاہ رہا ہے۔ فیونا دوڑ کر اس کے پاس گئی اور اس کے ہاتھ سے وہ چیز لے لی۔ "تو یہ ہے جادوئی گولا۔ یہ تو میری سوچ سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔” انھوں نے دیکھا کہ یہ ایک سنہری گیند تھی اور اس میں رکھنے کے لیے بارہ عدد سوراخ نما جگہیں بنی ہوئی تھیں، جن میں جادوئی ہیرے رکھے جانے تھے۔”

    جبران نے کہا جادوئی گولا تومل گیا اب ہمیں میز کے نیچے تختی دیکھنی ہے۔ فیونا آگے بڑھ کر میز کے نیچے جھانکنے لگی۔ "ہاں یہی میز ہے، اف مجھے تویقین نہیں آ رہا ہے کہ ہم نے یہ کیا دریافت کر لیا ہے۔ اسے پڑھنے کے لیے انکل اینگس کو ہی آنا پڑے گا۔ اس تختی کو اکھاڑنے کےلیے ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ تختی چوبی میز ہی کا حصہ ہے لیکن ظاہر ہے کہ یہ سونے کی بنی ہے۔ ویسے میں اسے اکھاڑنا ہرگز پسند نہیں کروں گی، یہ لومنا جادوگر کے لیے ہے۔”

    فیونا نے مڑ کر جبران کی طرف دیکھا۔ وہ صندوق سے اتر گیا تھا۔ فیونا نے فلیش لائٹ کھڑکی کی طرف کر دی۔ "تم نے تو اسے چمکا دیا ہے۔” وہ مسکرا دی۔ یہ خوب صورت شیشہ تھا جس پر نقش و نگار بنے تھے۔ ابھی سورج غروب نہیں ہوا تھا اور اس کی روشنی شیشے پر منعکس ہو رہی تھی، جس کی وجہ سے دیوار پر مختلف رنگوں کی شکلیں نمودار ہو گئیں جو پہلے شیشے پر دھول جمنے کی وجہ سے نظر نہیں آتی تھیں۔

    فیونا کہنے لگی۔ "میرے خیال میں اس پر یہ تصویر بادشاہ کیگان کی ہے، میز پر جادوئی گولا رکھا ہے اور اس کے گرد بادشاہ کی بیوی بچے بیٹھے ہیں، ہیروں پر روشنی پڑ رہی ہے جس سے رنگین شعاعیں پھوٹ رہی ہیں اور یہ اس کے بچوں پر پڑ رہی ہیں۔” فیونا تصویر پر موجود تفصیلات باریک بینی سے بیان کرنے لگی۔ "اور یہ دیکھو ڈریگنز، یہ پتھروں سے نکل رہے ہیں، وہی ڈریگنز جو پتھروں پر تراشے گئے ہیں۔ بادشاہ نے ستاروں والا ہار پہنا ہوا ہے۔ ارے ہاں۔” اچانک فیونا بری طرح چونک اٹھی۔ "یہ ہار کہاں گیا؟ کیا تم میں سے کسی نے اسے دیکھا؟”

    فیونا نے دونوں کی طرف مڑ کر دیکھا۔ دونوں نے نفی میں سر ہلا دیا۔ جبران نے کہا "عین ممکن ہے اسے دوگان کے آدمیوں نے چرا لیا ہو۔” فیونا نے سر ہلا کر کیمرہ سیدھا کیا اور پھر روشنی کا ایک جھماکا ہوا۔ "میرے خیال میں یہ ایک اچھی تصویر ہوگی۔” فیونا نے تبصرہ کیا۔

    چند منٹ بعد تینوں قلعے کے دروازے سے باہر کھڑے تھے۔ "اُف، آج تو بہت دیر ہو گئی۔ چلو جلدی جلدی چلتے ہیں۔” جبران پریشان ہو کر بولا۔ جھیل کے دوسرے کنارے پہنچ کر انھوں نے پرانی جگہ پر کشتی باندھ دی۔ اس نے کہا "اندھیرا پھیلنے لگا ہے، اچھا خدا حافظ، کل ہفتہ ہے صبح کو تمھارے انکل کے گھر پر ملتے ہیں۔”

    جبران نے جادوئی گولا دانیال سے لے کر فیونا کے حوالے کر دیا۔ "فیونا، اس وقت تمھارا ہی گھر محفوظ جگہ ہے جہاں یہ ساری چیزیں چھپائی جا سکتی ہیں، کیوں کہ نہ تمھارے بھائی ہیں نہ بہنیں۔”

    فیونا نے مسکرا کر ہاتھ ہلایا اور رخصت ہو کر دوسرے راستے پر اپنے گھر کی طرف چل پڑی۔

    (جاری ہے….)

  • دسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    دسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    "شہنشاہ رالفن نے لومنا کو اپنا جادوگر بنا لیا لیکن وہ اسے صرف اچھے کاموں کے لیے استعمال کرتا تھا۔ جنگوں میں بھی جادوگر مدد کے لیے آگے آتا لیکن رالفن اسے منع کر دیتا۔ بادشاہ لومنا سے دو مواقع پر مدد لیا کرتا تھا؛ ایک جب اسے اپنی رعایا کی بیماریوں اور کمزوریوں کو دور کرنا ہوتا تھا، دوم جب اچانک قحط پڑ جاتا تھا۔ قحط کی صورت میں بادشاہ لومنا کو غذا کی فراہمی کے کام پر لگا دیتا تھا۔ ایک جنگ کے دوران رالفن شدید زخمی ہو گیا۔ لومنا کو اپنے بادشاہ سے بہت پیار تھا، اور وہ اس کا شکر گزار بھی تھا، اس نے بادشاہ کی جان بچا لی۔ جب رالفن صحت یاب ہو گیا تو لومنا نے عرض کیا کہ وہ انھیں ایک خاص تحفہ دینا چاہتا ہے۔ یہ کہہ کر وہ غائب ہو گیا، اور ساری دنیا میں گھوم پھر کر بارہ ہیرے جمع کیے۔ پھر ایک سنار سے کہہ کر ایک سنہری گیند بنوائی، ایک ایسی گیند جس پر یہ بارہ ہیرے رکھنے کی جگہیں بنی ہوئی تھیں۔ یہ باتیں اس نے بہت راز میں رکھیں۔ ان میں سے ہر ہیرا رالفن کی ایک ایک بیوی کے لیے تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اسے ہر حال میں بارہ ہی ہیرے جمع کرنے ہیں کیوں کہ رالفن اپنی تمام بیویوں کو بہت چاہتا تھا، یہ اور بات تھی کہ اس کی بیویاں حسد میں مبتلا تھیں۔ ہر ایک خود کو زیادہ اہم ثابت کرنے کی کوشش میں لگی ہوتی تھی۔ یہاں ان بیویوں کی فہرست بھی دی ہوئی ہے، کیا آپ لوگ اسے سنا پسند کریں گے؟”

    اینگس نے ٹھہر کر ان کی جانب دیکھا۔ فیونا کو ان بیویوں کے ناموں میں دل چسپی محسوس نہیں ہو رہی تھی لیکن اس نے دیکھا کہ خود اینگس کے چہرے پر جوش کے آثار چھائے ہوئے ہیں، تو اس نے بے دلی سے کہا۔ "جی انکل سنائیے۔” وہ اینگس کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچانا چاہتی تھی، کیوں کہ وہ دیکھ رہی تھی کہ اینگس کو کتاب میں دی ہوئی معلومات میں بے حد دل چسپی محسوس ہو رہی ہے۔ اینگس سنانے لگا۔ "ان میں ہر بیوی دنیا کے مختلف علاقے سے آئی ہوئی تھی، اور رالفن کی پہلی بیوی کا نام پولا تھا، وہ پونِک تھی۔”

    "پونِک… اس کا کیا مطلب ہے؟” جبران نے ناک کھجائی۔

    "اس کا مطلب ہے کہ پولا ہیڈرمیوٹم سے آئی تھی۔ جب ان کی شادی ہوئی تو اس وقت دونوں کی عمر صرف بیس سال تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ رالفن یا تو بورل سے وہاں گیا تھا یا پھر وہ کسی دور میں وہاں رہا ہوگا۔ جو لوگ کارتھیج کے آس پاس رہتے تھے، وہ پونیشیائی نسل سے تعلق رکھتے تھے، اسے مختصر طور پر پونِک کہتے تھے۔”

    "اس میں تو کافی تفصیل درج ہے۔” جبران حیران ہوا۔

    "ہاں ، آگے سنو۔” اینگس سر اٹھائے بغیر بولے۔ "اس کی دوسری بیوی فرانک تھی، اس کا نام بطینی تھا۔ اس سے پہلے کہ تم میں سے کوئی پوچھے میں خود بتا دیتا ہوں کہ فرانکس دراصل فرانسیسی تھے، جنھیں آج ہم فرنچ کہتے ہیں۔ اس وقت رالفن کی عمر تئیس برس تھی جب کہ بطینی انیس سال کی تھی۔ تیسری بیوی کا نام آبدی تھا، وہ ناک تھی۔”

    تینوں ہنسنے لگے۔ "یہ ناک کیا ہے؟” فیونا بے خیالی میں اپنی ناک مسلنے لگی۔ "یہ کون سا ملک ہے؟”

    "بری بات ہے، اگر تم لوگ کسی بات کے بارے میں علم نہیں رکھتے تو اس کے متعلق ہنسنا نہیں چاہیے۔” اینگس نے بہ ظاہر ناراضی کا اظہار کیا۔

    "سوری …. سوری انکل۔” انھوں نے جلدی سے معذرت کی۔ وہ بتانے لگے۔ "ناکس دراصل افریقا میں نائجیریا کی ثقافت والے لوگ ہیں۔ وہ لوہے سے چیزیں بنانے میں ماہر تھے۔ وہ اس وقت بہ مشکل سترہ سال کی تھی، اور غالباً شہزادی تھی، جب کہ بادشاہ رالفن اب چھبیس برس کا ہو گیا تھا۔ اس کی چوتھی بیوی حضرہ رومن تھی۔ اس کی عمر بھی انیس سال تھی جب کہ رالفن انتیس سال کا تھا۔ پانچویں بیوی جرمن تھی جس کا نام گریسلڈا تھا، وہ تمام بیویوں میں سب سے زیادہ خوب صورت تھی۔ اس کے بال نقرئی سنہری تھے اور آنکھیں سمندر کی طرح نیلی تھیں۔ رالفن کی عمر اس سے شادی کے وقت بتیس سال تھی اور گریسلڈا اٹھارہ سال کی تھی، چھٹی بیوی کا نام لیلا تھا، وہ بھارت سے تھی۔”

    "بھارت… میں نے تو یہ نام پہلے کبھی نہیں سنا۔” فیونا جلدی سے بولی۔ اس سے پہلے کہ اینگس جواب دیتا، جبران نے فوراً بول پڑا۔ "میں بتاتا ہوں، یہ انڈیا کا سنسکرت نام ہے، اور ہمارا پڑوسی ملک ہے۔”

    "ہاں انڈیا سنا ہے میں نے۔” فیونا نے اثبات میں سر ہلایا۔

    اینگس کتاب پڑھنے لگے۔ "لیلا کے بال لمبے سیاہ تھے اور اسی طرح آنکھیں بھی سیاہ کٹار تھیں۔ جب ان کی شادی ہوئی تو بادشاہ پینتیس سال کا جب کہ لیلا اکیس برس کی تھی۔

    (جاری ہے….)

  • نویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    انھوں نے احتیاط کے ساتھ کے خستہ صفحات الٹے اور بولے۔ "یہ تو بے حد دل چسپ کتاب ہے، تم لوگوں کو یہ کہاں سے مل گئی؟ یہ تو کسی بہت قدیم ایلوری کیتھ مور نامی مصنف نے لکھی ہے۔ یہ کہانی شہنشاہ کیگان سے متعلق ہے جو یہاں سے بہت دور ایک جگہ رہتا تھا، اس کے پاس دولت اور خزانوں کے انبار تھے۔”

    اینگس کتاب کا پہلا صفحہ الٹتے ہی بولتے چلے گئے۔ "اس کے پاس اتنی دولت تھی کہ کئی لوگ اس کی جان کے دشمن بن گئے اور یہ دولت حاصل کرنے کے لیے طرح طرح کی سازشیں کرنے لگے۔ اس کتاب کی خطاطی بہت ہی پیاری ہے۔ مجھے حیرت ہو رہی ہے اتنی خوب صورت خطاطی دیکھ کر، کیوں کہ آج تک میں نے ایسی خطاطی نہیں دیکھی۔ ارے، تم لوگوں نے بتایا نہیں کہ یہ کتاب تمھیں کہاں سے ملی؟”

    فیونا اپنے دوستوں کی طرف دیکھنے لگی، پھر ایک طویل سانس لے کر بولی۔ "انکل، میں اس وقت تک آپ کو یہ نہیں بتا سکتی جب تک آپ ہمارے ساتھ اسے راز رکھنے کا وعدہ نہ کریں۔ آپ میری ممی سے اس کا ذکر نہیں کریں گے۔”

    اینگس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ "میرا خیال ہے تم لوگ مجھ پر اعتبار کر سکتے ہو، میں وعدہ کرتا ہوں کہ اسے اپنے ہی تک محدود رکھوں گا۔” یہ سن کر فیونا نے انھیں قلعۂ آذر میں داخل ہونے کی پوری کہانی سنا دی۔ وہ سر ہلا کر بولے "تو یہ بات ہے، بہت دل چسپ!”

    جبران پہلی مرتبہ بولا۔ "کیا اس کتاب میں اور بھی کچھ لکھا ہے؟ کوئی نقشہ وغیرہ؟”

    "بہت کچھ لکھا ہے اس میں، بے قرار مت ہو،میں بتاتا ہوں۔” اینگس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیلنے لگی۔ "اس میں لکھا ہے کہ شہنشاہ کیگان کے پاس جادوئی طاقت تھی جو اسے کسی خاص جادوئی گولے سے حاصل ہوئی تھی۔ جب وہ اسے استعمال کرتا تھا تو اس میں ان بارہ چیزوں کے کرنے کی صلاحیت آ جاتی تھی۔ اس میں یہ سارے نام لکھے ہوئے ہیں، کیا انھیں دہراؤں؟”

    اینگس جو خود بھی کتاب کی تحریر میں کھو گئے تھے، سر اٹھا کر ان کی طرف دیکھنے لگے۔ وہ تینوں یک زبان ہو کر چلائے۔ "ہاں، ہاں بتا دیں۔”

    "تو غور سے سنو، نمبر ایک، سب سے پہلے اس کے پاس ایسی صلاحیت آ جاتی تھی جس کی وجہ سے وہ غاروں اور زمین میں دفن خزانوں کو کھوج سکتا تھا۔ وہ کسی نقشے کو دیکھتا، اس کے درست مقام کو سمجھ لیتا اور پھر اپنے آدمیوں کے ذریعے وہ مدفون خزانہ نکال لیتا، اسی لیے وہ اتنا دولت مند تھا۔”

    یہ سن کر فیونا نے ٹھنڈی سانس بھری۔ "یہ واقعی ایک زبردست قوت ہے۔ کاش میرے پاس بھی زیورات ہوں تو ہم کسی بڑے شہر کو منتقل ہوں اور مزید بیزار ہونے سے بچ جائیں۔”

    "فیونا، دولت سب کچھ نہیں ہوا کرتی، یہ دیکھو کہ اس نے شہنشاہ کیگان کے ساتھ کیا کیا؟” اینگس نے فوراً کہا "خیر، سنو، دوسری طاقت یہ تھی کہ وہ لوگوں کو اشیا میں تبدیل کرنے پر قادر ہو جاتا تھا۔”

    "کیا مطلب؟ کس قسم کی چیزوں میں؟” جبران چونک اٹھا۔ "ایسا تو کتاب میں کچھ نہیں لکھا۔” اینگس نے جواب دیا۔ "لیکن ہم خود بھی اس کا تصور کر سکتے ہیں۔ مثلاً انسان کو پتھر، بوتل یا درخت میں تبدیل کرنا وغیرہ ۔” کہتے کہتے اینگس کی آنکھوں میں پراسرار چمک آ گئی۔ "کچھ ایسے لوگ ہیں جنھیں میں بہت شوق سے چیزوں میں تبدیل کرنا چاہوں گا۔”

    وہ تینوں مسکرانے لگے۔ اینگس نے کہانی جاری رکھی۔ "اس کے پاس جو تیسری قوت تھی، وہ خود کو نظروں سے غائب کرنے سے متعلق تھی۔ وہ جانوروں کے ساتھ باتیں کرسکتا تھا، انھیں اپنے حکم پر چلا سکتا تھا، جب کہ موسم، سمندر اور پانیوں پر بھی اس کا اختیار ہو جاتا تھا۔ وہ کئی زبانیں سمجھنے لگتا اور دوسروں کا دماغ پڑھ سکتا تھا۔ اور وہ خود کو کہیں بھی پہنچا سکتا تھا، دور دراز کے ملکوں میں بھی۔ایک اور دل چسپ بات یہ ہے کہ وہ خود کو چھوٹا بڑا بھی بنا سکتا تھا، اور کہیں بھی اچانک ایک اشارے سے آگ بھڑ کا سکتا تھا۔ آخری یعنی نمبر بارہ یہ کہ وہ وقت میں بھی سفر کر لیتا تھا، یعنی ماضی میں بھی چلا جاتا تھا۔”

    "یہ ناممکن ہے، کوئی بھی انسان یہ سارے کام نہیں کر سکتا۔ ایسا تو کوئی بھی جادو نہیں پایا جاتا۔” فیونا نے اچانک رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا "کم سے کم میں تو اس پر یقین نہیں کر سکتی، کہیں آپ ہمارے ساتھ مذاق تو نہیں کر رہے ہیں انکل اینگس؟”

    "میری بچی، میں تمھارے ساتھ مذاق نہیں کر رہا، کتاب میں یہی کچھ لکھا ہے۔ اب تم اس پر یقین کرتی ہو یا نہیں، یہ تم پر منحصر ہے۔” اینگس نے کتاب کے اندر انگلی رکھ کر کتاب بند کر کے کہا۔

    "مجھے اس پر یقین ہے۔” جبران ایک دم سے بول اٹھا۔ "مجھے بھی۔” دانیال نے بھی کہا۔ "لیکن شہنشاہ نے یہ جادوئی گیند کہاں سے حاصل کی تھی؟”

    جبران نے دانیال کی بات اینگس کو ترجمہ کر کے سنائی، اینگس کافی دیر سے نوٹ کر رہے تھے کہ ہر بات کے اختتام پر جبران دانیال کے کان میں کھسر پھسر شروع کر دیتا تھا۔ اب ان کی سمجھ میں آیا کہ دانیال کو انگریزی نہیں آتی تھی۔ اینگس نے کتاب دوبارہ کھول کر دونوں کا اس بات کے لیے شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے اعتبار کیا اور اسے مذاق نہیں سمجھا۔

    وہ مزید بتانے لگے "اس میں لکھا ہے کہ میسح سے تقریباً دو سو سال قبل ایک قدیم جادوگر نے کیگان کے آباو اجداد میں کسی کو یہ دیا تھا۔ کیگان سے بہت پیچھے کی نسلوں میں اس کے پینتالیسویں پردادا شنہشاہ رالفن ہوا کرتا تھا، جس کی سلطنت کا نام بورل تھا۔” اینگس نے بتایا کہ انھوں نے بورل نام کی جگہ کے بارے میں کبھی نہیں پڑھا، یا سنا۔ انھوں نے کہا "شہنشاہ رالفن کی بارہ عدد بیویاں تھیں، اور اس کے پاس جو جادوگر تھا، وہ بے حد ماہر تھا اور اس کا نام لومنا تھا۔”

    "بارہ بیویاں…!” تینوں چیخ اٹھے۔

    اینگس نے یہ کہ کر اپنی بات جاری رکھی کہ پرانے زمانے میں زیادہ شادیاں کرنا عام بات تھی۔ "جادوگر لومنا دراصل جادوگروں کی سرزمین زیلیا سے آیا تھا۔ اس نے رالفن کے پاس آ کر درخواست کی کہ اگر بادشاہ سلامت اسے اپنا جادوگرِ خاص مقرر کر دیں، تو یہ اس کی عزت افزائی ہوگی۔”

    فیونا نے ایک بار پھر اعتراض کر دیا۔ "بھلا جادوگر کب سے لوگوں سے کہنے لگے کہ وہ انھیں اپنا جادوگر بنا لیں، مجھے اس پر یقین نہیں ہے۔”

    "فیونا، یہ میں اپنی طرف سے نہیں سنا رہا ہوں، بلکہ کتاب میں جو لکھا ہے وہی پڑھ رہا ہوں، اور یہ مت بھولو کہ یہ کتاب تم ہی میرے پاس لے کر آئی ہو۔” اینگس نے سپاٹ لہجے میں کہا اور گلا صاف کر کے بتانے لگے۔ "یہ بات ہر طرف مشہور ہو گئی تھی کہ شہنشاہ رالفن اس زمین کا سب سے بڑا بادشاہ ہے۔ وہ ایک بہادر جنگجو تھا۔ اس کے پاس بہت بڑی فوج تھی، لیکن لوگوں کو اس سے اس کی نرم دلی اور عدل کی وجہ سے پیار تھا۔ وہ صرف اپنی رعایا ہی کے لیے اچھا نہیں تھا بلکہ وہ اپنی بارہ بیویوں کو بھی بہت چاہتے تھے۔ ان بیویوں سے رالفن کے ڈیڑھ سو بچے تھے۔”

    "ڈیڑھ سو بچے…” جبران اچھل پڑا۔ "یہ کیسے ہو سکتا ہے؟”

    "بھئی، اگر تمھاری بھی بارہ بیویاں ہوں تو اتنے بچے تمھارے بھی ہو سکتے ہیں۔”فیونا نے مسکرا کر شرارت آمیز لہجے میں کہا۔

    "ناممکن… میں تو ایک بھی شادی نہیں کرنے والا، بارہ تو دور کی بات۔” جبران فوراً بولا اور پھر سے کرسی پر بیٹھ گیا۔

    "تم لوگ اپنی ہی بولو گے یا مجھے اسے ختم کرنے دو گے؟” اینگس نے مداخلت کی اور پھر کتاب پر نظریں جما دیں۔

    (جاری ہے….)

  • ناول: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ناول: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز (ویب سائٹ) کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    مائری سڑک پار کر کے مک ایوانز بچر شاپ کی طرف جانا چاہتی تھیں کہ اچانک ان کے سامنے ایک بس آکر رک گئی۔ بس کے پائیدان سے ایک وجیہ صورت آدمی اچھل کر ان کے سامنے آ رُکا۔

    "ذرا سنیے خاتون، کیا مجھے کسی ایسے شخص کا پتا دے سکتی ہیں جو مجھے بتائے کہ مچھلیاں پکڑنے کے لیے بہترین جگہ کون سی ہے؟”

    مائری نے اس کی طرف دیکھا، اور سوچا کہ کیا اسے واقعی کسی شخص کی تلاش ہے۔ مائری نے کہا "میں آپ کو ایک ایسے شخص کا نمبر دے سکتی ہوں جو پڑوسی قصبے میں رہتا ہے، آپ حیران ہوں گے لیکن بلال احمد کو گیل ٹے کے باسیوں سے بھی زیادہ یہاں کے ماہی گیری پوائنٹس کے بارے میں معلومات ہیں۔ ہم ایک ہی آفس میں کام کرتے ہیں، وہ پاکستانی نژاد ہے، فارغ اوقات میں اس کا بہترین مشغلہ یہاں مچھلیوں کا شکار ہے۔”

    "شکریہ خاتون، میرا نام جونی تھامسن ہے، میں لندن سے آیا ہوں، اور آپ ؟” اجنبی نے اپنا تعارف کراتے ہوئے پوچھا۔

    "میں مائری مک ایلسٹر ہوں۔”

    "معلوم ہوتا ہے آپ مسٹر بلال کو کافی عرصے سے جانتی ہیں۔”

    "جی ہاں، ہم ایک عرصے سے ایک ہی آفس میں کام کر رہے ہیں۔” مائری نے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر بلال کا نمبر اور گھر کا پتا لکھ کر انھیں دے دیا۔ "ان سے کہنا مائری نے بھیجا ہے، کیا آپ یہاں زیادہ دن رہیں گے؟” مائری نے روانی میں پوچھا لیکن پھر حیران ہو گئیں، کہ اس نے یہ بات کیوں پوچھی۔

    جونی تھامسن نے کہا "میرے بھائی جمی آئندہ ایک دو دن میں مجھ سے ملیں گے، ہم یہاں ایک ہفتے تک رہیں گے لیکن ہو سکتا ہے کہ ہمارا قیام طویل ہو جائے، مجھے امید ہے کہ ہم دوبارہ ملیں گے۔”

    اسی وقت بس کے ڈرائیور نے سیٹی بجا کر انھیں متوجہ کر دیا، تو وہ مائری سے رخصت ہو کر چلا گیا۔ مائری حیرت سے اس کے متعلق سوچنے لگیں، انھوں نے کئی برسوں سے یہاں اس جیسا وجیہ شخص نہیں دیکھا تھا اور اس کی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی۔ مائری نے سر جھٹک کر سڑک پار کیا اور دکان کی طرف بڑھنے لگیں۔

    جاری ہے……