Tag: پٹرول

  • پرانا پاکستان اور مہنگائی کا چڑھتا چاند

    پرانا پاکستان اور مہنگائی کا چڑھتا چاند

    گزشتہ رات تقریباً ساڑھے نو بجے کا وقت تھا عوام شام ہی کو بجلی کی قیمتوں میں بڑے اضافے کا خبر پاچکے تھے اور ابھی خود کو سنبھال ہی رہے تھے کہ اچانک ٹی وی اسکرین پر ہمارے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا چہرہ دکھائی دیا جنہوں نے ایک ہفتے کے دوران پٹرول کی قیمتوں میں دوسری بار 30 روپے فی لیٹر اضافے کا مژدہ سنا دیا اور یہ خبر ایسی تھی کہ ہر طرف ہلچل مچ گئی۔

    جس طرح 29 روزے مکمل ہونے کے بعد عشاء کی نماز تک عید کے چاند کا اعلان نہ ہونے پر لوگ قدرے پُرسکون ہونے لگتے ہیں کہ اچانک کہیں سے شہادتیں ملنے پر اگلے دن عید کی نوید سنائی جاتی ہے اور لوگ پھر اپنے سارے کام اور آرام چھوڑ کر نکل پڑتے ہیں تو ایسا ہی کچھ گزشتہ شب ہوا۔ جیسے ہی پٹرول کی قیمت میں اضافے کا اعلان ہوا تو عوام سمجھے کہ مہنگائی کی چاند رات ہوگئی ہے، اس لیے جو کھانا کھا رہا تھا وہ کھانا چھوڑ کر جو آرام کر رہا تھا وہ بستر سے اٹھ کر اور جو بیوی بچوں کے ساتھ خوش گپیاں کر رہا تھا وہ انہیں حیران و پریشان چھوڑ کر اپنی موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں لے کر پٹرول پمپس کی طرف نکل گیا۔ لیکن باہر نکلتے ہی شہر بھر کے اکثر پٹرول پمپ ایسے بند ملے کہ جیسے یہاں سے کورونا وائرس ہوکر گزرا ہو، شہر کے چند ایک پٹرول پمپس کھلے بھی ملے تو وہاں عید کی چاند رات پر مارکیٹوں میں پڑنے والا رش جیسا ہجوم نظر آیا۔ گاڑیوں کی طویل قطاریں ایسی تھیں کہ لگتا تھا کہ پٹرول میں 30 روپے لیٹر اضافہ نہیں کیا گیا بلکہ مفت بٹ رہا ہے، یا سیل لگی ہوئی ہے۔

    ابھی یہ مناظر نگاہوں کے سامنے تھے کہ ساتھ ہی ماضی قریب کی یادوں کے کچھ دریچے بھی وا ہونے لگے۔ شاعر اختر انصاری نے کیا خوب کہا ہے:

    یادِ ماضی عذاب ہے یا رب
    چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
    یاد کے تند و تیز جھونکے سے
    آج ہر داغ جل اٹھا میرا

    تو ماضی قریب کی یاد کا ایسا تند و تیز جھونکا آیا جس سے ہمارا ہر داغ جل ہی اٹھا کہ زیادہ پرانی نہیں، آج سے تین چار ماہ قبل ہی کی تو بات ہے۔ پاکستان کے عوام کے حافظے میں ضرور یہ سب تازہ ہوگا جب اس وقت کے "نئے پاکستان” میں "پرانے پاکستان” کے داعی پیٹوں میں کس طرح عوام کی حالت زار دیکھ دیکھ کر مروڑ اٹھتا تھا اور اس وقت وہ لوگ یہ کہتے نہ تھکتے تھے کہ "عمران حکومت نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ "، "یہ عوام دشمن حکومت ہے۔”، اور یہ بھی کہا جاتا تھاکہ "عمران خان کو عوام کا کوئی خیال نہیں۔”، "یہ سلیکٹڈ ہیں۔” اور اپوزیشن عوام کو یہ بھی بتاتی تھی کہ "مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے۔”، ” عوام کو سستا مکان اور بیروزگاروں کو کروڑوں نوکریاں‌ دینے کی بات کرنے والے نے غریب کے منہ سے نوالہ چھین لیا ہے۔”‌ اور سب سے بڑھ کر اسی پٹرول کی قیمت میں اضافے پر کہا جاتا تھا کہ”پٹرول کی قیمت میں 5 روپے فی لیٹر اضافہ عوام پر ظلم ہے۔”، "ہم نے ہمیشہ عوام کو ریلیف دیا اور موقع ملا تو دوبارہ ریلیف دیں گے۔”

    یہ تھے وہ خوش کن نعرے جو پرانے پاکستان کے موجودہ حکمران اور ان کے حلیف عمران خان کی حکومت میں اپوزیشن بن کر لگاتے تھے۔ یہ نعرے اس وقت لگتے تھے جب ملک میں پٹرول 150 روپے لیٹر تھا، سی این جی 230 روپے کلو میں دستیاب تھی، ڈالر 175 سے 180 کے درمیان تھا، کوکنگ آئل اور گھی 350 روپے کلو میں عوام کو دستیاب تھے، عوام آٹا 70 سے 80 روپے کلو خرید کر پیٹ کی آگ بجھا رہے تھے، بیرون شہر اور اندرون شہر ٹرانسپورٹ کے کرائے کم تھے، بجلی کے نرخ بھی آج سے کم تھے اور بجلی مکمل نہیں مگر پھر بھی دستیاب تو تھی۔ لیکن آج یہی خوش نما نعرے لگانے والے "پرانا پاکستان” کے داعی عوام کے دکھ درد کا مداوا کرنے والوں کی حکومت ہے اور لگ بھگ دو ماہ ہوچکے ہیں لیکن ان دو ماہ میں پٹرول 150 سے 210 روپے، ڈالر 175 سے 200 روپے کے لگ بھگ پہنچ چکا ہے، بجلی کی قیمت میں عمران دور حکومت کی نسبت فی یونٹ 47 فیصد تک اضافے کا اعلان کیا جاچکا ہے اور اس پر بھی بجلی دستیاب نہیں ہے، مختلف میڈیا رپورٹوں کے مطابق شہروں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 10 سے 12 گھنٹے اور دیہات میں 18 گھنٹے تک جا پہنچا ہے۔ سی این جی نے یک دم 70 روپے چھلانگ مار کر ٹرپل سنچری کرلی، کوکنگ آئل اور گھی، مرغی اور گائے کا گوشت سب 500 روپے کلو سے تجاوز کرگئے ہیں۔ آٹا بھی سنچری عبور کرنے کے قریب ہے بلکہ بہت سے علاقوں میں تو یہ 100 کی حد بھی عبور کرچکا ہے۔

    پٹرول کی قیمتوں سے براہ راست ٹرانسپورٹ کرائے تو بڑھے ہی ہیں اسی تناسب سے کھانے پینے کی اشیا، پھل، سبزیوں، دودھ، دہی، انڈوں، گوشت غرض کون سی ایسی چیز ہے جس کی قیمت میں اضافہ نہیں ہوا ہے اور اب تو وزیراعظم کے ماتحت وفاقی ادارہ شماریات نے بھی تصدیق کی مہر ثبت کردی ہے اور حالیہ جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رواں ہفتے مہنگائی ریکارڈ شرح پر پہنچ گئی ہے اور 20 فیصد سے بھی تجاوز کرچکی ہے۔

    وزیراعظم شہباز شریف جو ملک کے بدترین معاشی حالات میں دو ماہ میں اب تک 6 غیر ملکی دورے کرچکے ہیں نے گزشتہ ہفتے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 30 روپے فی لیٹر اضافے پر انتہائی "دکھی” انداز میں کہا تھا کہ انہیں پتہ ہے کہ عوام کے پاس کھانے اور دوا تک کے پیسے نہیں ہیں اور پٹرول قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ "دل پر پتھر” رکھ کر کیا تو اب جناب نیا اضافہ ہوچکا ہے، اب دیکھتے ہیں وزیراعظم عوام کا درد کتنا دل میں سمو کر اور کتنا چہرے پر ظاہر کرکے قوم کو بتاتے ہیں کہ یہ فیصلہ انہوں نے اب ” کتنی بڑی چٹان” دل پر رکھ کر کیا ہے۔

    اس ملک کی اکثریت غریب طبقے سے تعلق رکھتی ہے اور غریب عوام یوں تو عمران خان کے دور حکومت میں بھی دودھ اور شہد کی نہروں سے مستفید نہیں ہورہی تھی لیکن آج سے قدرے بہتر اور سکون کی حالت میں تھی، پرانا پاکستان کے نام پر جو جال پھینک کر سیاست کے کھلاڑیوں نے قوم کا حال کردیا ہے شاید اس کی توقع اس قوم کو نہیں تھی۔

    پوری قوم شہباز حکومت کے فیصلوں پر انگشت بدنداں ہے کہ بقول حکمران ہمارے پاس زہر خریدنے کے پیسے نہیں ہیں لیکن شاہانہ غیر ملکی دورے جاری ہیں، وزیراعظم اور ان کے کسی وزیر مشیر نے عوام کے دکھوں پر سوائے مگرمچھ کے آنسو بہانے کے علاوہ ان کے دکھوں کے مداوے کے لیے عملی طور پر کچھ نہیں کیا ہے حسب روایت مہنگائی کے اس طوفان کا ملبہ بھی سابق حکومت پر ڈال دیا گیا ہے لیکن عوام سب دیکھ رہے ہیں، عمران خان کے دور حکومت میں کراچی سے اسلام آباد تک مہنگائی مارچ کی قیادت کرنے والے بلاول بھٹو اور مہنگائی کا رونا رونے والی پی ڈی ایم آج اسی حکومت کے دست راست بنے ہوئے ہیں جنہوں نے صرف دو ماہ میں عوام کو مہنگائی کے سیلاب میں غرق کردیا ہے، حیرت اس بات پر ہے کہ سابق دور میں کراچی سے اسلام آباد تک مہنگائی مکاؤ مارچ کے نام پر تماشا لگانے والی پی پی پی اور اس کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اب خاموش تماشائی بنے ہیں شاید انہیں ملک کے خارجہ معاملات دیکھنے سے فرصت نہیں یا پھر وہ اپنی سابقہ حریف مسلم لیگ ن کی بے بسی کا تماشا انجوائے کررہے ہیں، اس کے ساتھ ہی سابقہ حکومت 5 یا 10 روپے پٹرول کی قیمت میں اضافہ ہونے پر شور مچانے والی ایم کیو ایم بھی اس 60 روپے کے ریکارڈ اضافے پر لب سیے ہوئے ہے۔

    مہنگائی مکاؤ کے فریبی نعرے سے وجود میں آنے والی حکومت کے لگ بھگ دو ماہ میں عوامی سہولت کے لیے اٹھایا گیا کوئی ایسا اقدام نظر نہیں آتا کہ جس پر اسے سراہا جا سکے، حتیٰ کہ حج پالیسی میں بھی حد سے زیادہ تاخیر کا شکار کرکے عازمین حج کو اذیت میں مبتلا کردیا گیا ہے۔ اگر موجودہ حکومت اور ان کے حلیفوں نے کچھ بھلائی کے کام کیے بھی ہیں تو لگتا ہے کہ وہ صرف اپنے مفاد میں ہی کیے ہیں، مثلاً نیب ترامیم، انتخابی اصلاحات، ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے "سب کے سب” نیب اور ایف آئی اے کے مجرموں یا ملزموں کے ناموں کا بیک جنبش قلم نکال دینا، تفتیشی اداروں کے سربراہوں کے تبادلے وہ تو خیر ہو کہ عدالت نے اس کا نوٹس لیا اور یہ سلسلہ کچھ تھما تھا۔

    ملک و قوم کا نعرہ لگانے سے نہ تھکنے اور ہر وقت جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپنے والے سیاستدانوں کی آمرانہ طرز حکومت کے پروردہ لوگوں نے شاید اپنے گھروں کو ملک اور اپنے بچوں کو قوم سمجھ رکھا ہے اسی لیے شہباز حکومت میں ایسے اقدام کثرت سے نظر آتے ہیں کہ جس میں بقول ان کے "ملک و قوم کی بھلائی” مضمر ہے۔ اب تو شاید پوری قوم کو ہی سمجھ میں آگیا ہے کہ حکمرانوں کی نظر میں ملک و قوم کی بھلائی اصل میں کس کی بھلائی ہے۔

    عظیم شاعر مرزا اسد اللہ غالب نے یہ شعر شاید آج کے پاکستان اور پاکستانی قوم کے لیے کہا تھا۔

    قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں
    موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں

    قتیل شفائی مرحوم کو بھی شاید آنے والے وقت کا ادراک ہوگیا تھا جب ہی وہ بھی کہہ گئے کہ

    حوصلہ کس میں ہے یوسف کی خریداری کا
    اب تو مہنگائی کے چرچے ہیں زلیخاؤں میں

    اسی لیے شاید عوام کی قوت برداشت کے حوصلے بھی پست سے پست ہوتے ہوتے اب ختم ہوچلے ہیں کہ اب انہوں نے حکومتوں سے حقیقی معنوں میں عوام کیلیے کسی اچھی خبر کی امید رکھنا ہی چھوڑ دی ہے۔ کسی شاعر نے یہ بھی تو کہا تھا کہ

    اتنی مہنگی پڑی ہیں تعبیریں
    خواب آنکھوں میں اب نہیں آتے

    یہ دور سوشل میڈیا کا دور ہے جس میں اب سب کچھ بلا خوف وخطر کہنے کی اجازت ہے تو پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہی لوگوں کا ردعمل سامنے آنا شروع ہوگیا ہے جس میں بلاتفریق اکثریت یہ کہہ رہی ہے کہ ملک مشکل حالات میں ہے تو ہمیشہ قربانیاں عوام سے ہی کیوں مانگی جاتی ہیں حکومت کرنے والے برسراقتدار بھی قربانیاں دینے کا حوصلہ پیدا کریں اور اسی تناظر میں بڑی شدومد کے ساتھ یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ حکمران، وزرا کی فوج ظفر موج، اراکین پارلیمنٹ، بلاتفریق تمام سرکاری اداروں کے افسران کی شاہانہ مراعات ختم کرکے ان سے بھی قربانی میں حصہ ڈلوایا جائے، شاید عوام کا یہ ردعمل ہی ہے کہ حکومتی سطح پر کچھ ایسے اقدامات کے اعلانات سامنے آئے ہیں لیکن پٹرول الاؤنس میں 40 فیصد کمی اس کا مکمل علاج تو نہیں۔

    انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
    شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات

    ویسے بھی پوری قوم جانتی ہے کہ عوام کا درد لیے اسمبلیوں میں آنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے مالی طور پر اتنا نوازا ہوا ہے کہ انہیں تو مراعات تو دور تنخواہ کی بھی ضرورت نہیں لیکن اگر وہ عوام کا درد محسوس کرنے کا اپنا "محنتانہ” وصول کرنا چاہتے ہیں تو ان کا حق ہے لیکن صرف محنتانہ ہی وصول کریں ساتھ میں شاہانہ مراعات تو نہ لیں اور اگر حکومت عوامی دباؤ میں کچھ ایسا فیصلہ بھی کرے تو صرف اعلان تک محدود نہ رکھے بلکہ جس طرح کے عوام کیلیے فوری فیصلے ہورہے ہیں اسی طرح ان کی شاہانہ مراعات ختم کرنے کے فوری ایگزیکٹو آرڈر جاری کیے جائیں یعنی فوری عملدرآمد شروع کردیا جائے۔

  • کیا روس سے سستے تیل کے لیے بات ہوئی؟ حماد اظہر نے خط شیئر کر دیا

    کیا روس سے سستے تیل کے لیے بات ہوئی؟ حماد اظہر نے خط شیئر کر دیا

    اسلام آباد: کیا پی ٹی آئی حکومت میں روس سے سستے تیل کے حصول کے لیے بات ہوئی تھی؟ حماد اظہر نے اس سلسلے میں ٹویٹر پر ایک خط شیئر کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیر مملکت برائے محصولات حماد اظہر نے کہا ہے کہ مفتاح صاحب قومی ٹی وی پر دعویٰ کر رہے ہیں کہ روسی تیل کے مذاکرات کا کوئی خط یا ثبوت موجود نہیں ہے، اور یہ کہ وہ کس سے بات کریں۔

    حماد اظہر نے ٹویٹر پر اپنی پوسٹ میں ایک خط شیئر کرتے ہوئے وزیر خزانہ کو جواب دیتے ہوئے لکھا کہ روس ہمیں رعایتی تیل فروخت کرنے کے لیے پُر جوش تھا، وزیر خزانہ کو روس کے وزیر توانائی سے بات کرنی چاہیے تھی۔

    پٹرول پر فی لیٹر سبسڈی کتنی رہ گئی؟

    حماد اظہر کی جانب سے پوسٹ میں ایک خط کا عکس بھی شیئر کیا گیا ہے، جو وزارت توانائی پٹرولیم ڈویژن کی جانب سے 30 مارچ 2022 کو روس کے وزیر توانائی نکولائی شولگنوف کو لکھا گیا تھا۔

    خیال رہے کہ گزشتہ روز اے آر وائی نیوز کے پروگرام الیونتھ آور میں سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے دعویٰ کیا تھا کہ روسی صدر نے یقین دلایا تھا کہ پاکستان کو تیل اور گندم 30 فی صد رعایت پر دیں گے، ہمیں روس سے یقین دہانی پر امید تھی کہ سبسڈی کم ہو جائے گی۔

    شوکت ترین نے بتایا کہ ٹارگٹڈ سبسڈی اور روس سے سستے تیل کے معاملات ہم نے حل کر لیے تھے، لیکن موجودہ حکومت نے ٹارگٹڈ سبسڈی اور روس کے پاس جانے کو ترجیح نہ دی،یہ لوگ روس سے سستا تیل کیوں نہیں لے رہے؟

    انھوں نے کہا روس نے پی ایس او کے ذریعے ایک طرف سے معاہدے کر لیے تھے، روس نے ہم سے وعدہ کیا تھا کہ رعایتی قیمت پر سستا تیل دیں گے، روس سے سستا تیل ملتا تو پاکستان میں 50 روپے فی لیٹر فرق پڑ جاتا۔

  • پٹرول پر فی لیٹر سبسڈی کتنی رہ گئی؟

    پٹرول پر فی لیٹر سبسڈی کتنی رہ گئی؟

    اسلام آباد: پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد سبسڈی کمی کا نوٹیفکیشن جاری ہو گیا۔

    تفصیلات کے مطابق پٹرولیم ڈویژن کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ پٹرول پر فی لیٹر سبسڈی 17 روپے 2 پیسے رہ گئی ہے۔

    نوٹیفکیشن کے مطابق پٹرول پر فی لیٹر سبسڈی 47 روپے 2 پیسے تھی، آئی ایم ایف کے کہنے پر 30 روپے فی لیٹر سبسڈی واپس لیے جانے کے بعد اب صرف سترہ روپے دو پیسے رہ گئی۔

    ڈیزل پر حکومت کی جانب سے سبسڈی 86 روپے 71 پیسے فی لیٹر تھی، جو اب 56 روپے 71 پیسے رہ گئی، آئی ایم ایف کے کہنے پر حکومت نے ڈیزل پر 30 روپے سبسڈی واپس لی۔

    حکومت کا پٹرول اور ڈیزل مہنگا کرنے کا اعلان

    مٹی کے تیل پر سبسڈی 51 روپے 83 پیسے تھی، نوٹیفکیشن کے مطابق تیس روپے واپس لیے جانے پر اب مٹی کے تیل پر سبسڈی 21 روپے 83 پیسے رہ گئی ہے۔

    لائٹ ڈیزل آئل پر فی لیٹر سبسڈی 67 روپے 84 پیسے تھی، اب لائٹ ڈیزل آئل پر سبسڈی 37 روپے 84 پیسے فی لیٹر پر آ گئی۔

    واضح رہے کہ حکومت پاکستان نے آئی ایم ایف کے آگے ڈھیر ہو کر پٹرول اور ڈیزل 30 روپے فی لیٹر مہنگا کر دیا ہے، لائٹ ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمت میں بھی تیس روپے اضافہ کیا گیا۔

    وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کہتے ہیں کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھائے بغیر آئی ایم ایف سے قرضہ نہیں مل سکتا، معاشی صورت حال کے پیش نظر وزیر اعظم نے مشکل فیصلہ کیا۔

  • پٹرول اور ڈیزل کی قیمت بڑھائی جائے یا نہیں، مسلم لیگ (ن) کی قیادت تقسیم ہو گئی

    پٹرول اور ڈیزل کی قیمت بڑھائی جائے یا نہیں، مسلم لیگ (ن) کی قیادت تقسیم ہو گئی

    اسلام آباد: ملک میں ریکارڈ مہنگائی کے دوران پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ناگزیر اضافے کے معاملے پر شہباز شریف حکومت مخمصے کا شکار ہو گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ملک میں معاشی صورت حال خراب تر ہوتی جا رہی ہے، ایسے میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھائیں یا نہیں ن لیگ ایک مشکل دو راہے پر پھنس گئی ہے۔

    ایک طرف مہنگائی کا طوفان ہے اور دوسری طرف بجلی کا بحران، اس صورت حال میں کیے گئے دعوے ن لیگ کے گلے پڑتے نظر آ رہے ہیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت اس بات پر تقسیم ہو گئی ہے کہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمت بڑھائی جائے یا نہیں، دوسری طرف آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان بھی پٹرول کی قیمتیں بڑھانے کے مخالف ہیں۔

    موجودہ صورت حال میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانا مسلم لیگ (ن) کے لیے ایک اور چیلنج بن گیا ہے، پٹرول کی قیمتیں بڑھائی جائیں گی تو مہنگائی کا طوفان آئے گا اور ملبہ مسلم لیگ (ن) پرگرے گا۔

    پٹرول 46 اور ڈیزل 84 روپے فی لیٹر مہنگا کرنے کی تیاری

    عمران خان حکومت نے 30 جون تک پٹرول اور ڈیزل پر سبسڈی کا انتظام کر رکھا تھا، جب کہ شہباز شریف حکومت سبسڈی کی رقم ہونے کے باوجود کیوں مینج نہیں کر پا رہی، جب کہ شہباز شریف حکومت ایل این جی کی قیمت میں پہلے ہی 40 فی صد اضافہ کر چکی ہے۔

    واضح رہے کہ پٹرول کی قیمت میں 46 اور ڈیزل کی قیمت میں 84 روپے فی لیٹر تک اضافہ ہو سکتا ہے، اس سلسلے میں اوگرا نے قیمتوں میں اضافے کی سمری حکومت کو ارسال کر دی ہے۔

  • پٹرول بھرنے والے شخص نے کیا کیا، کہ 3 لٹیرے سر پر پیر رکھ کر بھاگ اٹھے (ویڈیو)

    پٹرول بھرنے والے شخص نے کیا کیا، کہ 3 لٹیرے سر پر پیر رکھ کر بھاگ اٹھے (ویڈیو)

    سانتیاگو: لٹیروں نے سوچا بھی نہ تھا کہ اپنی گاڑی میں اطمینان سے پٹرول بھرنے والا شخص اتنا خطرناک رد عمل دے دے گا، ابھی وہ اس شخص تک پہنچے بھی نہ تھے کہ انھیں اپنی جانیں بچانے کے لیے سر پر پیر رکھ کر بھاگنا پڑا۔

    یہ واقعہ جنوبی امریکا کے ایک ملک چلی کا ہے، کسی مقام پر ایک پٹرول پمپ پر ایک شہری اپنی کار میں ایندھن بھر رہا تھا، کہ اس دوران ایک سفید وین میں لٹیرے پہنچ گئے۔

    اس واقعے کی ویڈیو بھی سامنے آ گئی ہے، سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک سفید وین بڑی تیزی سے آ کر کار کے بالکل قریب رک گئی، اور دونوں کے طرف کے دروازوں سے 3 ڈاکو تیزی سے نیچے اتر کر اس شخص کی طرف بڑھے۔

    دونوں طرف سے تین افراد کو تیزی سے اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر وہ شخص جبلی طور پر چوکنا ہو گیا، اور تیزی سے اپنے بچاؤ کا فیصلہ کرتے ہوئے اس نے ڈسپنسر کا رخ ان کی طرف کر دیا، اور پٹرول ان پر اسپرے کرنے لگا۔

    پٹرول کے حملے سے لٹیروں کے اوسان خطا ہو گئے، اور وہ الٹے پیر بھاگنے لگے، وہ اپنی گاڑی میں بیٹھنا تک بھول گئے اور آگے پیچھے ہوتے رہے، تاہم اسی بدحواسی کے عالم میں وہ وین میں بیٹھے اور بھاگ گئے۔

    سوشل میڈیا پر یہ ویڈیو شیئر ہوئی تو لوگوں نے اس پر مختلف قسم کے تبصرے کیے، کسی کا کہنا تھا کہ چور یہ ویڈیو دیکھ کر آئندہ کسی پٹرول بھرتے شخص کو لوٹنے سے محتاط رہیں گے، کیوں کہ ان کے ساتھ کچھ بھی بھیانک ہو سکتا ہے۔

    کسی نے کہا کہ پٹرول لگنے کے بعد اب چوروں کی وین کو پولیس حکام آسانی سے پہچان سکتے ہیں، تاہم یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ لٹیروں کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی یا نہیں۔

  • یکم مئی سے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کا امکان

    یکم مئی سے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کا امکان

    اسلام آباد: یکم مئی سے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کا امکان ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اوگرا نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی سمری پٹرولیم ڈویژن کو ارسال کر دی ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ پٹرول کی قیمت میں پونے 6 روپے فی لیٹر تک اضافہ ہو سکتا ہے، جب کہ ڈیزل کی قیمت 6 روپے فی لیٹر تک بڑھ سکتی ہے۔

    ذرائع نے بتایا کہ پٹرول اور ڈیزل کی مجوزہ قیمتوں کا تعین موجودہ پٹرولیم لیوی کی شرح پر کیا گیا ہے، پٹرول پر موجودہ لیوی 11 روپے 23 پیسے فی لیٹر ہے، جب کہ ڈیزل پر پٹرولیم لیوی 15 روپے 29 پیسے فی لیٹر ہے۔

    تاہم، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا حتمی فیصلہ وزارت خزانہ وزیر اعظم کی مشاورت سے کرے گی۔

  • پٹرول بحران، پٹرولیم ڈویژن کا بڑا قدم

    پٹرول بحران، پٹرولیم ڈویژن کا بڑا قدم

    اسلام آباد: وفاقی کابینہ کی ہدایت پر پٹرولیم ڈویژن نے آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے فرانزک آڈٹ کا فیصلہ کر لیا ہے، نیز حکومت پٹرول بحران پر منسٹریل کمیٹی کی رپورٹ بھی پبلک کرنے جا رہی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پٹرولیم ڈویژن نے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو خط تحریر کر دیا ہے، جس میں کابینہ کے 16 مارچ کی ہدایات کا حوالہ دے کر آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے فرانزک آڈٹ کی ہدایت کی گئی ہے۔

    آڈٹ سے جون 2020 میں پٹرولیم بحران میں ملوث کمپنیوں کا پتا چلے گا، اس سلسلے میں خط میں آڈیٹر جنرل کو کمپنیوں کی تفصیلات کا جائزہ لینے کی ہدایت کی گئی ہے۔

    آڈٹ سے یہ معلوم ہو جائے گا کہ کون سی کمپنیوں نے پٹرول کی ذخیرہ اندوزی کی، اور کس نے کتنا پیسا بنایا۔

    واضح رہے کہ پٹرول بحران سے متعلق ایف آئی اے انکوائری کمیشن کی رپورٹ بھی پبلک کی جائے گی، کابینہ نے آئل کمپنیوں، اور پٹرولیم ڈیلرز کے خلاف کارروائی کی منظوری دی تھی، وزیر اعظم نے بھی پٹرول بحران کی انکوائری کا حکم دے رکھا ہے۔

    پٹرولیم بحران پر وزیر اعظم کی ندیم بابر کو قلم دان چھوڑنے کی ہدایت

    خیال رہے کہ گزشتہ سال جون میں پٹرول بحران سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان ہوا تھا۔ آج اسلام آباد میں نیوز کانفرنس میں وفاقی وزیر اسد عمر نے بتایا کہ پٹرولیم بحران پر وزیر اعظم نے ندیم بابر کو قلم دان چھوڑنے کی ہدایت کی ہے، جب کہ سیکریٹری پٹرولیم کو بھی واپس بھیجا جا رہا ہے۔

    اسد عمر نے کہا پٹرولیم بحران پر منسٹریل کمیٹی نے وزیر اعظم کو سفارش کی تھی کہ ندیم بابر کو شفاف تحقیقات کے لیے عہدے سے ہٹایا جائے۔

  • پٹرول، ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمتوں سے متعلق حکومت کا اہم فیصلہ

    پٹرول، ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمتوں سے متعلق حکومت کا اہم فیصلہ

    اسلام آباد: حکومت نے پٹرول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمتیں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پٹرول کی قیمت 111 روپے 90 پیسے فی لیٹر برقرار رہے گی، جب کہ ہائی اسپیڈ ڈیزل حسب معمول 116 روپے 8 پیسے فی لیٹر فروخت ہوگا۔

    تاہم مٹی کے تیل اور لائٹ ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے، مٹی کے تیل کی فی لیٹر قیمت میں 3 روپے 42 پیسے اضافہ، جب کہ لائٹ ڈیزل کی فی لیٹر قیمت میں 2 روپے 19 پیسے اضافہ کر دیا گیا ہے۔

    اضافے کے بعد مٹی کے تیل کی نئی قیمت 83 روپے 61 پیسے فی لیٹر ہوگئی، جب کہ لائٹ ڈیزل کی فی لیٹر نئی قیمت 81 روپے 42 پیسے ہو گئی ہے۔

    پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا امکان

    واضح رہے کہ گزشتہ روز اوگرا نے پیٹرولیم مصنوعات کی آج سے قیمتوں میں اضافے سے متعلق سمری پیٹرولیم ڈویژن کو ارسال کی تھی، ذرائع نے امکان ظاہر کیا تھا کہ موجودہ لیوی کی بنیاد پر پٹرول ساڑھے پانچ روپے، جب کہ ڈیزل کی قیمت میں پونے چھ روپے تک اضافہ ہو سکتا ہے۔

    گزشتہ ماہ بھی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی سمری وزیر اعظم عمران خان نے مسترد کر دی تھی۔

  • پٹرولیم مصنوعات کی موجودہ قیمتیں کب تک برقرار رہیں گی؟

    پٹرولیم مصنوعات کی موجودہ قیمتیں کب تک برقرار رہیں گی؟

    اسلام آباد: ملک بھر میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، وزارت خزانہ کی جانب سے نوٹیفکیشن جاری ہو گیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق آج وزیر اعظم عمران خان نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی تجویز مسترد کر دی ہے، جس کے بعد وزارت خزانہ نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں برقرار رکھنے کا اعلامیہ جاری کر دیا۔

    اعلامیے کے مطابق آئندہ 13 روز کے لیے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں برقرار رہیں گی۔

    واضح رہے کہ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے پٹرول کی قیمت میں 14 روپے 7 پیسے اضافے کی تجویز دی تھی، جب کہ ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 13 روپے 61 پیسے اضافے کی تجویز دی گئی تھی۔

    عوام کو ریلیف: وزیر اعظم نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی تجویز مسترد کر دی

    اوگرا کی جانب سے مٹی کا تیل 10 روپے 79 پیسے فی لیٹر، لائٹ ڈیزل میں 7 روپے 43 پیسے اضافہ تجویز کیا گیا تھا۔

    وزارت خزانہ کے اعلامیے کے مطابق ہائی اسپیڈ ڈیزل کی فی لیٹر قیمت 116 روپے 7 پیسے برقرار رہے گی، پیٹرول کی قیمت 111 روپے 90 پیسے فی لیٹر برقرار رہے گی۔

    لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت 79 روپے 23 پیسے فی لیٹر، جب کہ مٹی کے تیل کی قیمت 80 روپے 19 پیسے فی لیٹر برقرار رہے گی۔

    یاد رہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی سمری پر کہا تھا کہ عوامی فلاح و بہبود کو مدِ نظر رکھ کر قیمتوں میں اضافے کی تجویز مسترد کر دی ہے، حکومت عوام کو ریلیف کی فراہمی کے لیے ہر حد تک جائے گی۔

  • برطانیہ: پٹرول کی قیمت حیران کن حد تک گر گئی

    برطانیہ: پٹرول کی قیمت حیران کن حد تک گر گئی

    لندن: برطانیہ میں کروناوائرس کے تناظر میں لاک ڈاؤن کے باعث پٹرل کی قیمت میں غیرمعمولی کمی ہوگئی۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں پٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 4 پینس کی کمی ریکارڈ کی گئی۔ جبکہ مستقبل میں مزید کمی کی پیش گوئی کی جارہی ہے۔

    ہفتے کے روز پٹرول فی لیٹر 118.33 پینس میں فروخت ہورہا تھا تاہم اچانک 4 پینس گرنے سے لیٹر کی قمیت 114.01 پیسن ہوگئی۔ اسی طرح ڈیزل کی قیمت 120.41 پینس سے گرکر 118.31 پینس ریکارڈ کی گئی ہے۔

    کروناوائرس: پٹرول کی قیمت میں تاریخی کمی کا امکان

    برطانیہ میں پٹرول کی قیمت کی یہ کمی تاریخی قرار دی گئی ہے۔ اس سے قبل 2008 میں 2.31 پینس پٹرول کی قیمت میں کمی ہوئی تھی۔ تاہم حالیہ قیمتوں نے تمام ریکارڈز توڑ دیے۔

    خیال رہے کہ کرونا وائرس کی وبا سے شروع ہونے والے بحران نے پوری دنیا کی معیشت کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس کے باعث عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں مزید گر گئی ہیں اور ایشیائی منڈی میں یہ گذشتہ 17 برس کی کم ترین سطح پر آ گئی ہیں اور قیمتوں میں کمی کا یہ سلسلہ تھمتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا۔