Tag: پٹنہ شہر

  • پٹنہ: تہذیب و ثقافت، علم و دانش کا شہر

    پٹنہ: تہذیب و ثقافت، علم و دانش کا شہر

    برصغیر کی تاریخ میں‌ کئی شہر اور قصبات کی وجہِ شہرت ان کی تہذیب و ثقافت ہی نہیں بلکہ وہ نابغۂ روزگار شخصیات بھی ہیں‌ جنھوں نے مغل دور اور انگریز راج کے دوران یہاں‌ آنکھ کھولی اور اس شہر کی ایک پہچان ہیں۔ یہ شہر کئی ایسے واقعات کے بھی گواہ ہیں جنھوں نے متحدہ ہندوستان کے عوام میں سیاسی اور سماجی شعور بیدار کیا اور انگریز راج کا خاتمہ ہوا۔ پٹنہ کی بات کی جائے تو یہ ایک قدیم شہر ہے جسے علوم و فنون میں کمال اور دانش و آگاہی میں شہرت حاصل رہی ہے۔

    یہاں ہم بھارتی قلم کار اور صحافی حقانی القاسمی کی پٹنہ پر ایک تحریر سے چند پارے نقل کررہے ہیں‌ جو قارئین کی دل چسپی کا باعث بنیں‌ گے۔ مصنّف نے یہ مضمون پٹنہ کا تخلیقی افق کے عنوان سے سپردِ قلم کیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں،

    اساطیر اور اسطوری عہد میں زندہ رہنے والا یہ شہر تاریخ کے کتنے عہد اور کتنی عبارتوں کو اپنے جلو میں سموئے ہوئے ہے۔ یہ شہر اپنے اندر زندہ اور تابندہ رہنے کی قوت رکھتا ہے کہ کسی بھی شہر کی زندگی اس کی عمارتوں سے زیادہ ان عبارتوں پر منحصر ہوتی ہے جو اس کے بارے میں لکھی جاتی ہیں۔ پٹنہ خوش نصیب شہر ہے کہ اس کی عظمتوں کی عبارتیں عہد قدیم سے عہد حاضر تک روشن ہیں۔ اس کے روشن نقوش ان سفر ناموں میں بھی مرتسم ہیں جو چینی سیاح فاہیاں اور یونانی سفیر و مؤرخ megasthenes نے لکھے اور ان تاریخوں میں بھی جو مختلف ملکوں اور شہروں کے حوالے سے لکھے گئے ہیں۔

    پٹنہ کو ماورائی آنکھ کے بجائے ظاہری آنکھ سے دیکھا جائے تو شہر بے کیف اور بے رنگ ونور نظر آئے گا۔ کھنڈرات، شکتہ، لر زیدہ، آبدیدہ عمارتوں کا محض ایک نقشہ۔ اس کا طبعی وجود چاہے کتنا ہی غیر متاثر کن کیوں نہ ہو مگر مابعد الطبیعاتی وجود میں حسن، حرارت اور تحرک وتوانائی ہے۔ طبعی وجود کی علامت عمارتیں خستہ اور بے تر تیب ہو سکتی ہیں مگر تخلیقی وجود میں نہ خستگی ہے نہ ویرانگی بلکہ تابندگی اور تابانی ہے۔

    پٹنہ کا تخلیقی شعور بہت بلند ہے کہ اسی شہر سے ماہر لسانیات پنپتی اور ارتھ شاسترر لکھنے والے کوٹلیا اور ماہرِ ریاضیات آریہ بھٹ جیسی ذہانتوں کا تعلق ہے۔ تہذیب و تعلیم کا ایک ایسا اہم مرکز، جہاں سے راجہ رام موہن رائے نے بھی عربی کی تعلیم حاصل کی۔

    تہذیب صدیوں کا سفر طے کر کے آج جس مقام تک پہنچی ہے، پاٹلی پتر بہت پہلے ہی وہاں تک پہنچ چکا تھا۔ اس کی قدیم تہذیب بھی آج کی جدید تہذیب سے بہت آگے تھی۔ وہاں لکڑیوں سے بنی عمارتیں پتھروں میں بدل گئیں مگر تخلیقی حسن نے ان پتھروں کے دل بھی پگھلا دیے۔

    اجات شترو نے اسے اپنی راجدھانی بنایا۔ یونانی سکندر کے ہم عصر چندر گپت موریہ کی حکومت بھی رہی جو خلیج بنگال سے افغانستان تک محیط تھی اور دنیا کے ایک عظیم ترین فرمانروا اشوک اعظم کی عظیم ترین سلطنت کا دارالحکومت بھی یہ پاٹلی پتر تھا۔

    اس شہر نے بھی نام بدلے۔ کبھی پاٹلی پتر، کبھی پٹنہ تو کبھی عظیم آباد۔ ابتداء میں یہ پاٹلی پتر تھا جو راجہ پتر ک نے اپنی رانی پاٹلی کے پہلے بچے سا ریکا کی خوشی میں رکھا تھا۔ اورنگ زیب کے پوتے عظیم الشان کی وجہ سے یہ شہر عظیم آباد کہلایا اور جب ایسٹ انڈیا کمپنی کا تسلط ہوا تو یہ پٹنہ میں تبدیل ہو گیا۔ اس شہر کے نام تو بدل دیے گئے مگر اس کی روح کو بدلنا آسان کام نہیں تھا۔ شہر کی آتما وہی رہی جو پاٹلی پتر کے زمانے میں تھی۔ شیر شاہ سوری نے بھی اس شہر کو رونق عطا کی اور شہنشا ہ اکبر نے بھی 1574میں پٹنہ کا دورہ کیا۔ اس وقت یہ شہر کاغذ پتھر اور شیشہ صنعتوں کا مرکز تھا اور پٹنہ کا چاول پوری دنیا میں مشہور ہو چکا تھا۔

    17 ویں صدی میں پٹنہ ایک شہر ہی نہیں بلکہ بین الاقومی تجارت کا مر کز بن گیا تھا۔ یہ فرنچ، ڈچ اور پرتگیز کے لئے اہم تجارتی مر کز تھا۔ peter mundy نے 1632میں یہ لکھا کہ یہ مشرقی علاقہ کا سب سے بڑا تجارتی مرکز ہے، the greatest mart of the eastern region۔ دین محمد یہیں کے تاجر تھے 1784 میں برطانیہ پہنچے اور برطانیہ میں پہلا ہندوستانی ریستوران کھولا۔ ہندوستانی کافی ہاؤس کے مالک یہی تھے۔

    بکسر کی لڑائی کے بعد 1765میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی کا تسلط ہوا تو اس شہر کی عمارتوں کے انداز و اسلوب بدل گئے۔ لیکن ایک خاص بات یہ رہی کہ برٹش حکومت میں محرم کی پندرہ دن کی چھٹیاں ہوتی تھیں جب کہ ہولی دیوالی کے لئے کوئی بھی چھٹی نہیں تھی مگر تہذیبی و ثقافتی امتزاجیت اور اجتماعیت نے قومی یک جہتی اور اتحاد یگانگت کی بنیادوں کو مضبوط بنائے رکھا۔ پٹنہ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے بعد گوتھک طرز کی عمارتیں نظر آنے لگیں جن کی وجہ سے شہر کی کشش میں اضافہ ہوا۔ کولونیل پٹنہ کی عمارتیں آج بھی زندہ ہیں جو lf munnings جیسے آرکیٹیکٹ کے طرز تعمیر کی کہانی سناتی ہیں۔ پٹنہ کے کمشنر میٹکاف نے گولف کھیلنے کے لئے وسیع ترین لان تعمیر کر وایا تھا جو اب گاندھی میدان میں تبدیل ہو گیا ہے۔

    گنگا، سون، پن پن جیسی ندیوں سے گھرا ہوا دنیا کا سب سے بڑا riverine شہر پٹنہ اب دو حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ ایک قدیم رنگ میں ڈوبا ہوا اور ایک جدید رنگ میں شرابور اور ان دونوں کے مابین آثار قدیمہ اور کھنڈرات کی طویل تاریخ ہے جو پٹنہ کی عظمتوں کا ثبوت بھی ہیں اور تاریخ کا حصہ بھی۔

    پٹنہ کے طبعی وجود کو دیکھا جائے تو یہاں اشوکا کے زمانے کا اگم کنواں ہے اور اسی زمانے کا کمہر، جہاں قدیم پاٹلی پتر کے آثار موجود ہیں اور پھر شاہ جہاں کے بڑے بھائی اور جہانگیر کے بیٹے پرویز کی بنائی ہوئی پتھر کی مسجد بھی ہے جو گنگا کے کنارے واقع ہے اور یہیں سکھوں کے دسویں گرو گوبند سنگھ کی یاد میں بنایا ہوا تخت ہرمندر بھی ہے جو پنجاب کے مہاراجہ رنجیت سنگھ نے تعمیر کر وایا تھا۔ یہیں گروجی کا جنم ہوا تھا اور یہ سکھوں کے چار مقدس مقامات میں سے ایک ہے۔ انگریزوں کا بنایا ہوا گودام، گول گھر بھی ہے، جو بیضوی شکل کا ہے اور 1770 کے قحط سالی کے بعد 1786 میں کیپٹن john garstin نے تعمیر کرایا تھا۔ پٹنہ میوزیم بھی ہے جس کا سن تعمیر 1917 ہے۔ اس طرح مختلف عہد کی بنائی ہوئی بہت سی عمارتیں ہیں جس پر مختلف حکمرانوں کے اقتدار کی عبارتیں بھی درج ہیں۔ یہ سب چیزیں سیاحوں کی دلکشی کا مرکز ہو سکتی ہیں، مگر پٹنہ شہر دراصل ان عمارتوں سے الگ ان عبارتوں میں آباد ہے جو وہاں کے تخلیق کاروں، فنکاروں اور عظیم ترین ذہانتوں نے لکھی ہیں اور ان عبارتوں کا بین الاقوامی مر کز خدا بخش لائبریری بھی ہے جس میں قدیم زمانے کے مخطوطات اور نوادرات کے علاوہ عربی، فارسی کا ایک بڑا ذخیرہ محفوظ ہے۔ عمارتیں گردش زمانے کے ساتھ ساتھ معدوم ہوتی جائیں گی۔ مگر یہ عبارتیں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔