Tag: پھول

  • تصاویر: پھولوں کے اس گلدستے میں کون سا پھول ’’زہریلا‘‘ ہے؟ خوفناک انکشاف

    تصاویر: پھولوں کے اس گلدستے میں کون سا پھول ’’زہریلا‘‘ ہے؟ خوفناک انکشاف

    پاکستان میں دکانوں اور سڑکوں پر پھولوں کے گلدستے فروخت کیے جاتے ہیں مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ اکثر گلدستوں میں ایک پھول زہریلا ہوتا ہے؟

    پھول اللہ تعالیٰ کی خوبصورت نعمتوں میں سے ایک ہیں۔ یہ خوشبودار ہونے کے ساتھ ماحول اور انسان کی نفسیات پر بھی مثبت اثر ڈالتے ہیں۔

    ہر خوشی یا تہوار کے موقع پر اپنے پیاروں کو پھولوں کے گلدستے بھیجنا ہماری روایت میں شامل ہوچکا ہے۔ ملک بھر میں دکانوں اور سڑکوں پر گل فروش خوبصورت گلدستے فروخت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان گلدستوں کی خوبصورتی میں اضافے کے لیے کئی اقسام کے چھوٹے بڑے پھول استعمال کیے جاتے ہیں۔

    لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ اکثر گلدستوں کی خوبصورتی بڑھانے کے لیے استعمال کیا جانے والا سفید رنگ کا ایک چھوٹا سا پھول اپنی تاثیر میں زہریلا ہے۔

    Parthenium in Vegetable Fields.

    گلدستوں میں استعمال ہونے والا سفید رنگ کا یہ چھوٹا پھول دراصل پاکستان کے کھیتوں میں پیدا ہونے والی خود رو گھاس پارتھینیم میں لگتا ہے، جس کو طبی ماہرین انسانی صحت کے لیے انتہائی خطرناک قرار دیتے ہیں۔

    خالی پلاٹوں پر پارتھینیم کی بے قابو افزائش—تصویر: سی اے بی آئی

    پاکستان میں پارتھینیم نامی خودرو گھاس جسے مقامی سطح پر ’گاجر بوٹی‘ کہا جاتا ہے۔ یہ گھاس اب دیہی اور شہری علاقوں میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔ شہروں میں اس گھاس کو گلدستوں میں پھولوں کے ساتھ بکثرت استعمال کیا جاتا ہے۔

    پارتھینیم گھاس کو دنیا بھر میں ایک خطرناک ترین جڑی بوٹی سمجھا جاتا ہے، جو تقریبا 48 ممالک میں ماحول، انسانی صحت، کھڑی فصلوں اور معیشت پر نا قابل تلافی اثرات مرتب کر چکی ہے۔

    طبی ماہرین اس کو انسانی صحت کے لئے انتہائی خطرناک اور زندگی بھر صحت کے مسائل کا باعث قرار دیتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پارتھینیم پودے کے نقصانات سے دکانداروں کے ساتھ ساتھ خریدار بھی لاعلم ہیں۔ اس کے نقصانات سے بچنے کے لیے ملکی سطح پر آگہی کی شدید ضرورت ہے۔

  • ویڈیو: برطانیہ میں بھی سڑکوں پر گڑھے، لیکن شہریوں کا رویہ پاکستانیوں سے بالکل الگ

    ویڈیو: برطانیہ میں بھی سڑکوں پر گڑھے، لیکن شہریوں کا رویہ پاکستانیوں سے بالکل الگ

    آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ برطانیہ کے مشہور علاقے سسیکس کی سڑکوں پر بھی گڑھے پڑے نظر آتے ہیں، لیکن حیران کن بات یہ بھی ہے کہ وہاں شہریوں کا رویہ پاکستانیوں سے بالکل الگ ہے۔

    صرف پاکستان ہی نہیں برطانیہ میں بھی لوگ گڑھوں سے پریشان ہیں، لیکن ڈیلی میل کی ایک رپورٹ کے مطابق سسیکس سے تعلق رکھنے والا ایک شخص اپنی کونسل کے خلاف انتہائی غیر معمولی انداز میں جنگ لڑ رہا ہے، اس نے سڑک پر بنے گڑھوں میں پھول دار پودے لگانے کی مہم شروع کر دی ہے۔

    سڑکوں پر پڑے گڑھوں پر ناراض نوجوان ہیری اسمتھ ہاگٹ نے سسیکس کے علاقے ہورشم کی سڑکوں پر ہریالی اگانے کی جدوجہد شروع کی ہے، تاکہ کونسل کی توجہ ان سڑکوں کی ’گھناؤنی‘ حالت کی طرف مبذول کرائی جا سکے۔

    یہ نوجوان سڑک کے گڑھوں پر باغبانی کر کے اس کی ویڈیو ٹک ٹاک پر شیئر کر دیتا ہے، اس کی ایک ویڈیو وائرل ہو رہی ہے اور اسے 2.7 ملین ویوز مل چکے ہیں۔

    ہیری اسمتھ کا کہنا ہے کہ پھول دیکھ کر لوگ گڑھوں کے پاس نہیں جائیں گے اور ان پھولوں سے انتظامیہ کو گڑھوں کی خوش بو آتی رہے گی۔ دوسری طرف ویسٹ سسیکس کاؤنٹی کونسل نے گڑھے ٹھیک کرنے کی بجائے شہریوں کو تجویز دی ہے کہ وہ ان سڑکوں پر نہ جائیں بلکہ ہائی ویز سے سفر کریں، شہریوں نے اس پر تنقید کی ہے کہ اس طرح ان کی جان خطرے میں ڈالی جا رہی ہے۔

    رپورٹ کے مطابق اتھارٹی اپنے بجٹ کا 6.7 فی صد ہائی ویز اور ٹرانسپورٹ پر خرچ کرتی ہے، اور اس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ شہریوں کے غصے اور مایوسی کو سمجھ رہی ہے، اور گڑھوں سے نمٹنے کے لیے وسائل میں اضافہ کیا گیا ہے۔ ہیری اسمتھ نے بی بی سی کو بتایا کہ لوگ برسوں سے ان گڑھوں کی شکایت کر رہے ہیں، آخر تنگ آ کر میں نے انھیں پھولوں سے بھرنا شروع کر دیا۔

    ہیری اسمتھ ہاگٹ گڑھوں میں پھول لگاتے وقت اپنی بنوائی ہوئی گلابی بنیان پہنتے ہیں، جس کی پشت پر ’پریٹی پاٹ ہولز‘ لکھا ہوتا ہے۔

    @harry_pretty_potholes Pretty potholes!#foryourpage #foryou #fyp #goviral #viralvideo #fyppppppppppppppppppppppp #potholes #prettypotholes #fypp ♬ original sound – Harry_pretty_potholes

  • انڈونیشیا: جنگل میں چہل قدمی کرتے شخص کا حیرت انگیز چیز سے واسطہ پڑ گیا

    انڈونیشیا: جنگل میں چہل قدمی کرتے شخص کا حیرت انگیز چیز سے واسطہ پڑ گیا

    جکارتہ: انڈونیشیا میں جنگل میں چہل قدمی کرتے شخص کا ایک حیرت انگیز پھول سے واسطہ پڑ گیا، جس سے مردے کی طرح بدبو آتی ہے۔

    ٹویٹر پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو کے مطابق انڈونیشیا کے جنگل سے گزرتے ہوئے ایک شخص کو نایاب پھول نظر آیا، جسے گلِ نعش بھی کہا جاتا ہے، لیکن اس کا سائنسی نام ریفلیشیا ارنولڈائی ہے، اور یہ دنیا کا سب سے بڑا پھول ہے۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ پھول صرف چند دنوں کے لیے کھلتا ہے، اس سے بہت زیادہ بدبو آتی ہے، اس لیے اسے گل نعش کہا جاتا ہے۔

    ویڈیو پوسٹ کے مطابق اس پھول کی ویڈیو جس شخص نے بنائی وہ جنگل میں ٹریکنگ پر تھا۔

    یہ پھول انڈونیشیا کے برساتی جنگلات میں پایا جاتا ہے، اور یہ 3 فٹ تک بڑھ سکتا ہے، اور اس کا وزن 15 پاؤنڈ تک ہو سکتا ہے۔

    شیئر کی گئی ویڈیو میں اس دیوہیکل پھول کو جنگل میں زمین پر پڑا ہوا دیکھا جا سکتا ہے، سرخ پھول، پورا کھلا ہوا ہے، اس پر سفید دھبے ہیں اور اس کی پانچ پنکھڑیاں ہیں۔

  • عرفان خان کی قبر پر لہلہاتے پھولوں نے مداحوں کو پھر سے غمزدہ کردیا

    عرفان خان کی قبر پر لہلہاتے پھولوں نے مداحوں کو پھر سے غمزدہ کردیا

    بالی ووڈ اداکار عرفان خان کو مداحوں سے بچھڑے 5 ماہ بیت گئے اور مداح اب بھی انہیں یاد کر کے اداس ہوجاتے ہیں، حال ہی میں ان کے دوست نے عرفان کی قبر کی تصویر پوسٹ کی جو پھولوں سے ڈھکی ہوئی تھی۔

    عرفان خان کے دوست اور بالی ووڈ اداکار چندن رائے سنیال عرفان خان کی قبر پر پہنچے اور اس کی تصاویر سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر پوسٹ کی۔

    اپنے ٹویٹ میں انہوں نے لکھا کہ میں کل سے عرفان کو بہت یاد کر رہا تھا، اور اس بات پر خود کو کوس رہا تھا کہ میں 4 ماہ سے عرفان کی قبر پر نہیں گیا۔

    چندن نے لکھا کہ میں وہاں گیا تو عرفان وہاں اکیلا پھولوں کے درمیان محو آرام تھا۔

    انہوں نے عرفان خان کی قبر کی تصویر بھی پوسٹ کی جو پھولوں سے ڈھکی ہوئی تھی، ان کی پوسٹ نے عرفان کے مداحوں کو ایک بار پھر سے غمزدہ کردیا۔

    خیال رہے کہ عرفان خان 29 اپریل کو ممبئی کے کوکیلا بین اسپتال میں انتقال کر گئے تھے۔

    عرفان کو سنہ 2018 میں نیورو اینڈو کرائن کینسر کی تشخیص ہوئی تھی جس کے علاج کے لیے وہ لندن چلے گئے تھے، وہاں سے وہ ایک برس بعد لوٹے اور واپس آ کر اپنی فلم ’انگریزی میڈیم‘ کی شوٹنگ مکمل کروائی۔

    انتقال سے چند روز قبل ان کی والدہ کا انتقال ہوا تھا جس میں وہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے شرکت نہ کر سکے تھے، بعد ازاں ان کی اپنی بھی طبیعت خراب ہوئی اور ایک رات آئی سی یو میں گزارنے کے بعد وہ داغ مفارقت دے گئے۔

  • انسانوں میں کورونا وائرس کی منتقلی کا ایک اور ذریعہ سامنے آگیا

    انسانوں میں کورونا وائرس کی منتقلی کا ایک اور ذریعہ سامنے آگیا

    کراچی ؛مائیکروبائیولوجسٹ ڈاکٹر فرحان عیسیٰ کا کہنا ہے کہ مریضوں کو صحتیابی پر گلدستہ دینا کورونا وائرس کی منتقلی کا باعث بن سکتا ہے، شہریوں سے درخواست ہے مریضوں کو پھول نہ پیش کئے جائیں۔

    تفصیلات کے مطابق مائیکروبائیولوجسٹ ڈاکٹر فرحان عیسیٰ نے کرونا وائرس کے پھیلنے کے حوالے سے کہا ہے کہ گلدستہ بھی وائرس کے پھیلنے کا ذریعہ بن سکتا ہے، کورونا پھولوں کے اوپر زندہ رہ سکتاہے۔

    ڈاکٹر فرحان عیسیٰ کا کہنا تھا کہ مریضوں کو صحتیابی پر گلدستہ دینا وائرس کی منتقلی کا باعث بن سکتا ہے،شہریوں سے درخواست ہے مریضوں کو پھول نہ پیش کئے جائیں۔

    مائیکرو بائیولوجسٹ نے کہا کہ کورونا وائرس فضا میں بھی زندہ رہ سکتا ہے اور ٹھنڈی جگہ پر9دن تک وائرس رہتاہے۔

    یاد رہے امریکی حکومت اور سائنس دانوں کی جاری کردہ مشترکہ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ کرونا وائرس کھلی ہوا میں گھنٹوں اور کسی شے کی سطح پر دو سے تین دن تک زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق کرونا وائرس ایک انسان سے دوسرے کو منتقل ہوتا ہے، ماہرین نے تحقیق کے دوران متاثرہ افراد کے زیر استعمال نیبولائزر سے نمونے حاصل کر کے انہیں فضا میں چھوڑا، جس سے یہ معلوم ہوا کہ تین گھنٹے تک وائرس ہوا میں موجود رہا اور پھر خود ختم ہوگیا۔

    رپورٹ میں بتایا گیا جب ان نمونوں کو دیگر اشیاء کی سطح پر چھوڑا گیا تو نتائج خوفناک صورت میں سامنے آئے، ماہرین کے مطابق تانبے کی دھات پر وائرس کے نمونے چار گھنٹے، گتے پر 24 جبکہ پلاسٹک اور اسٹیل کی دھات کی سطح پر یہ دو سے تین روز تک زندہ رہ سکتا ہے۔

  • کرونا وائرس: چلے بھی ’جاؤ‘ کہ گلشن کا کاروبار چلے

    کرونا وائرس: چلے بھی ’جاؤ‘ کہ گلشن کا کاروبار چلے

    یورپ کے خوبصورت ترین ملک نیدر لینڈز میں اس بار بہار تو آئی ہے، رنگین اور خوشبودار پھول بھی کھلے ہیں، لیکن یہ پھول اس بار لہلہانے کے بجائے کچرے کے ڈھیر میں بدل گئے ہیں۔

    کرونا وائرس نے جہاں دنیا بھر میں ہر طرح کے کاروبار کو شدید متاثر کیا ہے، وہیں نیدر لینڈز میں پھولوں کا کاروبار بھی رک گیا ہے۔

    نیدر لینڈز میں بہار کی آمد ہے، یہ وہ وقت ہے جب پورے ملک میں سرخ، گلابی، سفید، زرد اور ہر طرح کے پھول تیار ہوچکے ہیں اور اب انہیں ملک بھر میں کی جانے والی مختلف نمائشوں میں پیش کیا جانا تھا جبکہ دنیا بھر میں اس کی فروخت بھی کی جانی تھی، لیکن کرونا وائرس نے پوری دنیا کے کاروبار زندگی کو معطل کردیا ہے۔

    کرونا وائرس کے خدشے کے تحت دنیا بھر کے اجتماعات منسوخ کردیے گئے ہیں جس میں نیدر لینڈز میں ہونے والی پھولوں کی نمائشیں بھی شامل ہیں، جبکہ سرحدیں بند ہونے سے امپورٹ ایکسپورٹ بھی رک چکا ہے چنانچہ یہ لاکھوں کروڑوں پھول اب یونہی گوداموں میں پڑے ہیں۔

    پھولوں کے کاروبار سے وابستہ افراد نے مجبوراً اب ان پھولوں کو کچرے کے ڈھیر میں پھینکنا شروع کردیا ہے۔ لاکھوں کروڑوں رنگین اور خوشبودار پھولوں کو جب ٹرکوں کی مدد سے ڈمپ کیا جاتا ہے تو آس پاس کا علاقہ رنگوں اور خوشبوؤں سے نہا جاتا ہے۔

    پھولوں کے کاروبار سے وابستہ مائیکل وین کا کہنا ہے کہ ایسا ان کی زندگی میں پہلی بار ہورہا ہے، پھولوں کی نیلامی اور نمائش نیدر لینڈز میں تقریباً سو سال سے ہورہی تھی اور یہ پہلی بار ہورہا ہے جب ان کے عروج کے سیزن میں کاشت کار خود ہی انہیں کچرے میں پھینک رہے ہیں۔

    ان کے مطابق ملک بھر میں ہونے والی تقریباً 70 سے 80 فیصد پھولوں کی پیداوار اسی طرح ضائع کردی گئی ہے۔

    دنیا بھر میں ہونے والی پھولوں کی پیداوار کا نصف حصہ نیدر لینڈز میں کاشت ہوتا ہے، نیدر لینڈز اس میں سے 77 فیصد پیداوار دنیا بھر میں فروخت کرتا ہے۔ پھولوں کی یہ ایکسپورٹ زیادہ تر جرمنی، برطانیہ، فرانس اور اٹلی میں کی جاتی ہے۔

    نیدر لینڈز کی یہ صنعت لگ بھگ 6.7 ارب ڈالر سالانہ کمائی کی حامل ہے اور یہ ملکی مجموعی معیشت یعنی جی ڈی پی میں 5 فیصد حصے کی شراکت دار ہے۔

    ملک بھر میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب افراد پھولوں کی کاشت، اس کی ترسیل، تجارت اور کاروبار سے وابستہ ہیں اور اب اس بدترین نقصان کے بعد یہ سب دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں۔ زیادہ تر افراد خاندانی طور پر کئی دہائیوں سے اس صنعت سے وابستہ ہیں۔

    مائیکل وین کے مطابق ان کا مجموعی ریونیو رواں برس 85 فیصد گھٹ گیا ہے، اس نقصان کے بعد اب وہ ڈچ حکومت کی طرف دیکھنے پر مجبور ہیں کیونکہ پھولوں کے کاروبار سے منسلک تمام کمپنیز، تاجر اور کاشت کار شدید ترین مالی نقصان سے دو چار ہوئے ہیں۔

    ایک کاشت کار کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے زیادہ تر پھول کھاد بنانے کے لیے دے دیے ہیں، ’بھاری بھرکم مشینوں کے نیچے جب میرے ہاتھ کے اگائے ہوئے رنگین خوبصورت پھول کچلے جاتے ہیں تو انہیں دیکھنا بہت مشکل کام ہے‘۔

    مائیکل کا کہنا ہے کہ کچھ افراد اپنے پھولوں کو پھینکنے کے بجائے اسپتالوں میں طبی عملے کو بھجوا دیتے ہیں اور سڑک پر دکھائی دیتے اکا دکا راہگیروں کو دے دیتے ہیں۔

    ان کے مطابق صرف ایک نیدر لینڈز ہی نہیں، پھولوں کی کاشت سے منسلک دیگر ممالک بھی اسی صورتحال سے دو چار ہیں جن میں کینیا اور ایتھوپیا شامل ہیں۔ دونوں افریقی ممالک گلاب کی پیداوار کے لیے سرفہرست ہیں۔

    کینیا میں پھولوں کی پیداوار کا 70 فیصد حصہ یورپ بھیجا جاتا ہے، وہاں بھی اب ان پھولوں کو کچرے میں پھینکا جارہا ہے۔

  • تصویروں‌ میں‌ دیکھیے موسمِ بہار کے رنگ!

    تصویروں‌ میں‌ دیکھیے موسمِ بہار کے رنگ!

    موسمِ بہار کی آمد کا شور ہے۔ گویا ہر کلی تبسم کو بے قرار، ہر غنچہ کھلنے کو تیار اور ہر شجر ہرا بھرا ہونے کو آمادہ ہے۔

    بہار اپنے جوبن پر آئے تو ہر طرف ایک ترنگ، سرمستی، چہکار اور خوشی کا عالم ہوتا ہے۔ فضا گیت گاتی، ہوا مست و بے خود ہوجاتی ہے۔

    پاکستان میں‌ گزشتہ برسوں‌ کے دوران موسمِ بہار کے یہ مختلف رنگ ان تصاویر میں‌ محفوظ ہیں۔

    بہار کے موسم میں‌ رنگ برنگے پھول باغات میں‌ خوش بُو لٹاتے نظر آتے ہیں۔ شجر گویا ہرا رنگ اوڑھ لیتے ہیں۔ پاکستان میں موسمِ بہار کی مناسبت سے پھولوں کی نمائش اور میلوں کا انعقاد کیا جاتا ہے جو خوشی و مسرت کا احساس دلاتے اور انسان کو فطرت کی طرف بلاتے ہیں۔

    بدقسمتی یہ ہے کہ انسان ہی روئے زمین کو سبزہ و گل سے محروم کررہا ہے۔

    حضرتِ انسان نے فطرت کی ان خوش رنگ نزاکتوں، مہکتی لطافتوں، فضا میں چہکتی عنایتوں اور شادابی کی اہمیت و افادیت سمجھتے ہوئے بھی انھیں بچانے کے لیے زبانی جمع خرچ سے نہیں‌ بڑھا ہے اور زمین کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔

    گلوبل وارمنگ، موسمی تبدیلیوں سے نڈھال روئے زمین پر درختوں کا قتل، باغات کا صفایا کیا جارہا ہے جس کے باعث زمین قدرتی آفات اور انسان امراض و سانحات کا سامنا کررہے ہیں۔

    رواں سال حکومت نے موسمِ بہار کی شجر کاری مہم کے دوران ملک بھر میں دس ارب درخت لگانے کا اعلان کیا ہے۔ یہ مہم 30 جون تک جاری رہے گی جس کا تھیم ہے، کٹے ہوئے جنگلات کی بحالی۔

  • تھری ڈی پرنٹ شدہ پھول جو انسانوں کی بقا کے لیے ضروری ہیں

    تھری ڈی پرنٹ شدہ پھول جو انسانوں کی بقا کے لیے ضروری ہیں

    شہد کی مکھیاں اور دیگر کیڑے مکوڑے اس دنیا میں ہمارے وجود کی ضمانت ہیں، اگر یہ نہ رہیں تو ہم بھی نہیں رہیں گے۔

    ماہرین کے مطابق ہماری غذائی اشیا کا ایک تہائی حصہ شہد کی مکھیوں کا مرہون منت ہے۔ دراصل شہد کی مکھیاں پودوں کے پولی نیٹس (ننھے ذرات جو پودوں کی افزائش نسل کے لیے ضروری ہوتے ہیں) کو پودے کے نر اور مادہ حصوں میں منتقل کرتی ہیں۔

    اس عمل کے باعث ہی پودوں کی افزائش ہوتی ہے اور وہ بڑھ کر پھول اور پھر پھل یا سبزی بنتے ہیں اور ہمیں غذا فراہم کرتے ہیں۔ تاہم گزشتہ دو دہائیوں میں ان مکھیوں کی آبادی میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے جس نے ماہرین کو تشوش میں مبتلا کردیا ہے۔

    اسی مسئلے کے حل میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے نیدر لینڈز کی ایک طالبہ نے تھری ڈی پرنٹ شدہ پھولوں کو شہروں کے اندر اصل پھولوں کے ساتھ اور درختوں پر نصب کرنے کا کام شروع کیا ہے۔

    یہ پھول بارش کے پانی کو جمع کرتے ہیں اور اپنے اندر پہلے سے موجود چینی کے ساتھ اسے مکس کر کے مکھیوں کی غذائی ضرورت پورا کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق یہ مکھیوں کے لیے اس لیے ضروری ہے کیونکہ شہد کی مکھیاں پھولوں کا رس جمع کرنے کے لیے دور دور نکل جاتی ہیں اور بعض دفعہ وہ تھکن کا شکار ہو کر واپس اپنے چھتے تک نہیں پہنچ پاتیں۔

    ایسے میں ایمرجنسی فوڈ فلاورز کا نام دیے جانے والے ان پھولوں میں موجود چینی، ان مکھیوں کی توانائی بحال کر کے واپس انہیں ان کے گھر تک پہنچنے میں مدد دے سکتی ہے۔

    ایسی ہی ایک تجویز کچھ عرصہ قبل معروف محقق اور ماہر ماحولیات سر ڈیوڈ ایٹنبرو نے بھی دی تھی جب انہوں نے کہا کہ گھر کے لان یا کھلی جگہ میں ایک چمچے میں ایک قطرہ پانی اور چینی کی تھوڑی سی مقدار ملا کر ان مکھیوں کے لیے رکھ دی جائے، تاہم بعد ازاں ان کی یہ فیس بک پوسٹ جعلی ثابت ہوئی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ 5 برسوں میں شہد کی مکھیوں کی ایک تہائی آبادی ختم ہوچکی ہے۔ اگر شہد کی مکھیاں نہ رہیں تو ہم انسان صرف 4 برس مزید زندہ رہ سکیں گے۔

  • شام کی خانہ جنگی سے مرجھائے گلاب لبنان میں لہلہانے لگے

    شام کی خانہ جنگی سے مرجھائے گلاب لبنان میں لہلہانے لگے

    شام میں ہونے والی خانہ جنگی نے ایک طرف تو ہزاروں لاکھوں افراد کی جانیں لے لیں، تو دوسری اس ملک کی ثقافت و روایات اور تاریخ کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔

    انہی میں سے ایک شام کا خوبصورت پھول ’دمسک‘ بھی ہے جسے تاریخ کا قدیم ترین گلاب ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس پھول کا تذکرہ مغربی شاعری و ادب میں بھی ملتا ہے جبکہ شیکسپیئر نے بھی 400 سال قبل اپنی تحاریر میں اس کا ذکر کیا۔

    اپنی خوشبو اور خصوصیات کی وجہ سے مشہور یہ پھول شام میں بڑے پیمانے پر کاشت کیا جاتا رہا جہاں سے اسے یورپ بھی بھیجا جاتا تھا۔

    تاہم خانہ جنگی نے اس پھول اور اس کی تجارت سے جڑے چہروں کو مرجھا دیا۔

    دمسک گلاب جس کی وجہ سے ہی شام کے دارالحکومت کا نام دمشق پڑا، شام میں تو اب تقریباً خاتمے کے قریب ہے، تاہم لبنان میں ایک مقام پر اپنی بہار دکھا رہا ہے۔

    یہ مقام اس شامی جوڑے کا گھر ہے جو 5 سال قبل شام سے ہجرت کر کے لبنان آیا، کچھ عرصہ پناہ گزین کیمپ میں رہا اور پھر شام سے لائی اپنی تمام جمع پونچی خرچ کر کے اپنے لیے ایک چھت تعمیر کرنے میں کامیاب ہوگیا۔

    نہلا الزردہ اور سلیم الذوق اپنے دو بچوں کے ساتھ ہجرت کرتے ہوئے اس گلاب کے بیج بھی لبنان لے آئے۔ یہاں انہوں نے اس گلاب کی افزائش شروع کی اور 5 سال بعد اب ان کے گھر کا پچھلا حصہ گلابوں سے بھر چکا ہے۔

    یہ دونوں اس گلاب کو لبنان کے مختلف شہروں میں فروخت کرتے ہیں جہاں اس سے عرق گلاب بنایا جاتا ہے۔ وہ خود عرق گلاب نہیں بنا سکتے کیونکہ ان کے پاس مناسب سامان نہیں۔

    شام کی خانہ جنگی نے اس تاریخی و خوبصورت پھول کو بری طرح متاثر کیا ہے، صرف دارالحکومت دمشق کے قریب ایک گاؤں ’نبک‘ میں، جو دمسک کی افزائش کے لیے مشہور ہے، ہر سال 80 ٹن ان گلابوں کی افزائش ہوتی تھی تاہم خانہ جنگی کے دوران یہ گھٹ کر 20 ٹن رہ گئی۔

    نہلا اور سلیم پرامید ہیں کہ اپنی اس کوشش کے ذریعے وہ اپنی اس ثقافتی و تاریخی علامت کو بچانے اور پھر سے زندہ کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

  • رنگین پھولوں سے ڈھکی انوکھی واٹر سلائیڈ

    رنگین پھولوں سے ڈھکی انوکھی واٹر سلائیڈ

    واٹر سلائیڈ کا لطف لینا تو عام سی بات ہے تاہم چین میں حال ہی میں کھولی جانے والی ایک واٹر سلائیڈ ایسی ہے جس میں آپ بار بار جانا چاہیں گے۔

    چین کے صوبے ہینان میں کھولی گئی اس واٹر سلائیڈ کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ رنگین پھولوں اور سبزے سے ڈھکی ہوئی ہے۔

    18 سو میٹر طویل اور 66 میٹر اونچی اس سلائیڈ کو اسٹیل کے فریم سے بنایا گیا ہے جبکہ اس میں شیشے بھی لگے ہوئے ہیں۔ سیاح اس سلائیڈ میں کشتی پر بیٹھ کر جاتے ہیں اور خوشنما پھولوں بھری سرنگ سے گزرتے ہیں۔

    یہ سلائیڈ انگریزی حروف ایس اور سی کی شکل میں بل کھاتی ہوئی سیاحوں کو خوبصورت تجربے سے لطف اندوز ہونے کا موقع دیتی ہے۔

    اس واٹر سلائیڈ کا لطف اٹھانے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں سیاحوں اور مقامی افراد نے یہاں کا رخ کرلیا ہے۔