Tag: پھول

  • روشنی بھرے نرگس کے پھولوں کی بہار

    روشنی بھرے نرگس کے پھولوں کی بہار

    لندن: برطانوی دارالحکومت لندن کا سینٹ پال کیتھڈرل مصنوعی نرگس کے پھولوں سے جگمگا اٹھا۔ مصنوعی پھولوں کا یہ باغ جان لیوا بیماریوں کا شکار افراد کی حالت زار سے آگاہی کے لیے قائم کیا گیا ہے۔

    روشنیاں بکھیرنے والے نرگس کے یہ پھول برطانوی فنکار اینڈریو شوبن اور ان کے ساتھیوں نے ہاتھ سے تخلیق کیے ہیں اور مصنوعی پھولوں کے اندر ایل ای ڈی روشنیاں لگا کر انہیں روشن کیا گیا ہے۔

    روشنیوں کے باغ کے نام سے سجایا جانے والا یہ دلچسپ باغ فلاحی مقاصد کے لیے قائم کیا گیا ہے۔

    london-6

    london-3

    یہی نہیں یہاں روشن کیے گئے ان 21 ہزار پھولوں کو برطانیہ میں کام کرتی ان نرسوں سے منسوب کیا گیا ہے جو خود راتوں کو جاگتی ہیں، مگر علالت کا شکار مریضوں اور ان کے خاندان کے لیے روشنی کی کرن ہیں۔

    london-5

    london-4

    باغ میں وہ خطوط بھی رکھے گئے ہیں جو مختلف مریضوں نے صحت یابی کے بعد اپنی نرسوں کا شکریہ ادا کرنے کے لیے لکھے۔

    london-2

    london-7

    باغ میں ہر خاص و عام کا داخلہ مفت ہے اور لوگ بے حد دلچسپی سے روشنیوں بھرے مصنوعی نرگس کے پھولوں کو دیکھنے کے لیے آرہے ہیں۔

  • کیلیفورنیا میں پھولوں کی بہار

    کیلیفورنیا میں پھولوں کی بہار

    امریکی ریاست کیلیفورنیا میں نئے سال کی آمد کے پیش نظر سالانہ روز پریڈ کی تیاریاں جاری ہیں۔

    ہر سال منعقد کی جانے والی پھولوں کی پریڈ میں ہر رنگ اور قسم کے پھولوں سے قد آدم خوبصورت اشیا تیار کی جاتی ہیں۔

    1

    2

    3

    ہر سال ہزاروں لوگ اس پریڈ میں شرکت کرتے ہیں۔

    7

    8

    4

    اس پریڈ کا آغاز کیلیفورنیا کے شہر پساڈینا کے مقامی افراد نے سنہ 1890 سے کیا تھا جس کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔

    5

    6

    ایک سو اٹھائیسویں پریڈ کے لیے سخت سیکیورٹی انتظامات کیے گئے ہیں۔ یورپ میں فروغ پاتی ٹرک دہشت گردی کے پیش نظر انتظامیہ نے جگہ جگہ بیریئرز لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔

  • ایسا اخبار جو پودے اگا سکتا ہے

    ایسا اخبار جو پودے اگا سکتا ہے

    ماحول کو بچانے کے لیے کام کرنے والے افراد بہت سے حیرت انگیز کام سرانجام دیتے ہیں، جس سے ایک طرف تو وہ جدید دور کی انسانی ضروریات کو پورا کرتے ہیں، دوسری طرف وہ ماحول کو بھی حتیٰ الامکان فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔

    ایسی ہی ایک کوشش جاپان کے ایک اخبار شائع کرنے والے ادارے نے کی جنہوں نے اپنے اخبار کو ایسے کاغذ پر چھاپنا شروع کیا جو پودے اگا سکتا ہے۔

    آپ کو علم ہوگا کہ کاغذ درختوں میں موجود خاص قسم کی گوند سے تیار کیے جاتے ہیں۔ کاغذوں کا ایک دستہ جس کا وزن ایک ٹن ہو، اسے بنانے کے لیے 12 درخت کاٹے جاتے ہیں۔

    دنیا کے طویل ترین درختوں کا کلون تیار کرنے کے لیے مہم جوئی *

    ایک محتاط اندازے کے مطابق کاغذ بنانے کے لیے ہر سال پوری دنیا میں 3 سے 6 ارب درخت کاٹے جاتے ہیں جس کے باعث دنیا بھر کے جنگلات کے رقبے میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے۔

    کاغذوں سے بننے والے اخبارات عموماً ناقابل تجدید ہوتے یعنی دوبارہ استعمال کے قابل نہیں ہوتے، یوں یہ بے شمار کاغذ ضائع ہوجاتے ہیں۔

    ان تشویش کن اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے جاپانی اشاعتی ادارے نے یہ قدم اٹھایا جس کے بعد اب قارئین پڑھنے کے بعد اخبار کو گملوں اور مٹی میں دبا دیتے ہیں اور چند ہی دن بعد وہاں لہلہاتے پھول اگ آتے ہیں۔

    paper-3

    اشاعتی ادارے نے اس خیال پر عملدر آمد کرنے کے لیے اپنے کاغذ کو بنواتے ہوئے اس میں بیجوں کی آمیزش شروع کردی۔

    اخبار کی اشاعت کے لیے جو سیاہی استعمال کی جاتی ہے اس میں سبزیوں کو ملایا جاتا ہے جس کے بعد یہ قدرتی کھاد کا کام انجام دیتی ہیں۔

    paper-2

    اس اخبار کو پڑھنے کے بعد لوگ اپنے گھر میں موجود پودوں اور باغیچوں میں دفن کردیتے ہیں اور چند ہی روز بعد اس اخبار کی بدولت خوشنما پھول اور پودے اگ آتے ہیں۔

    اس آئیڈیے کے تخلیق کاروں کا کہنا ہے کہ اس خیال کے تحت انہوں نے فطرت کا چکر (سائیکل) قائم رکھنے کی کوشش کی ہے۔ ایک چیز جو درختوں سے بن رہی ہے وہ اپنے خاتمے کے بعد دوبارہ درخت بن جائے گی۔

    paper-4

    واضح رہے کہ دنیا بھر میں تعمیرات کے لیے جنگلات کا بے دریغ صفایا کیا جارہا ہے اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوارک و زراعت ایف اے او کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں 18 ملین ایکڑ رقبہ پر مشتمل جنگلات کاٹ دیے جاتے ہیں۔

  • خزاں میں پتوں کا رنگ کیوں تبدیل ہوجاتا ہے؟

    خزاں میں پتوں کا رنگ کیوں تبدیل ہوجاتا ہے؟

    خزاں یا پت جھڑ کا موسم تخلیق کاروں کو ان کی تخلیق کے لیے مہمیز کرتا ہے۔ سرخ، ہرے، زرد پھول اور پتے سنہری اور پھر سرمئی رنگ کے خشک ہو کر نیچے گر جاتے ہیں اور شاہراہوں، پگڈنڈیوں اور راستوں کو بھر دیتے ہیں جو ایک سحر انگیز سا منظر تخلیق کرتے ہیں۔

    لیکن کیا آپ جانتے ہیں خزاں میں پھول اور پتے اپنا رنگ کیوں تبدیل کرلیتے ہیں؟

    موسم خزاں کو شاعر کیسے دیکھتے ہیں؟ *

    ہم بچپن سے کتابوں میں پڑھتے آئے ہیں کہ پتوں میں کلوروفل نامی ایک مادہ ہوتا ہے جو ان پتوں کو سبز رنگ فراہم کرتا ہے۔ ان کے علاوہ پودوں میں ایک اور کیمیائی عنصر کیروٹینائڈز بھی پایا جاتا ہے۔

    autumn-3

    یہ مادہ گاجر میں بھی پایا جاتا ہے جو اسے نارنجی یا سرخ رنگ فراہم کرتا ہے۔ پودوں میں یہ مادہ کلوروفل کے نیچے موجود ہوتا ہے اور سارا سال اپنی موجودگی ظاہر نہیں کرتا۔

    سردیوں میں جب کلوروفل ختم ہونے لگتا ہے اس وقت یہ مادہ ابھر کر آتا ہے اور پتوں کو سنہرا، پیلا یا سرمئی رنگ کا کر دیتا ہے۔

    اب یہ بھی جان لیجیئے کہ خزاں میں کلوروفل کے ختم ہونے کی وجہ کیا ہے۔

    مصنوعی روشنیوں کے باعث برطانیہ کے موسم میں تبدیلی *

    کلوروفل دھوپ یا سورج کی روشنی سے اپنی تونائی پاتا ہے۔ جتنا زیادہ سورج روشن ہوگا کلوروفل بھی اتنا ہی بھرپور، اور پتہ اتنا ہی سبز ہوگا۔ موسم خزاں یا سرما میں سورج چونکہ کم نکلتا ہے جس کے باعث پتوں میں کلوروفل بننے کا عمل کم ہوتا جاتا ہے۔

    سردیوں میں چونکہ سورج جلدی ڈھل جاتا ہے لہٰذا کلوروفل کو موقع نہیں مل پاتا کہ وہ سورج سے توانائی حاصل کر کے پتے کو رنگ فراہم کرے لہٰذا وہ آہستہ آہستہ ختم ہونے لگتا ہے۔

    یہ عمل راتوں میں اور بھی تیزی سے ہوتا ہے کیونکہ سردیوں کی راتیں لمبی ہوتی ہیں۔

    autumn-2

    مختصر دنوں اور لمبی راتوں کے باعث پتوں میں موجود سبز رنگ آہستہ آہستہ ختم ہونے لگتا ہے اور پتے نارنجی، سرمئی، یا سنہری ہو کر خشک ہوجاتے ہیں اور بالآخر گر جاتے ہیں۔

    ایک تحقیق کے مطابق موسموں کے طریقہ کار میں تبدیلی کے باعث موسم خزاں کا دورانیہ کم ہوتا جارہا ہے جس کے باعث امریکا میں رہنے والے افراد کو اب موسم خزاں سے لطف اندوز ہونے کا موقع کم ملے گا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ کے باعث اب سردیوں میں موسم کی شدت کم ہوگی جبکہ موسم گرما بھی اپنے وقت سے پہلے آجائے گا یعنی خزاں کا دورانیہ کم ہوگا اور پھولوں کو مرجھانے اور پتوں کو گرنے کا ٹھیک سے وقت نہ مل سکے گا۔ یوں امریکی عوام پت جھڑ کے سحر انگیز نظاروں سے محروم ہوجائے گی۔

  • تاریخ کا قدیم پھول مرجھا رہا ہے

    تاریخ کا قدیم پھول مرجھا رہا ہے

    تاریخ کا قدیم ترین گلاب ’دمسک‘ جو اپنی خوشبو اور خصوصیات کی وجہ سے مشہور ہے، شام میں خانہ جنگی کی وجہ سے مرجھا رہا ہے۔

    دمسک گلاب جس کی وجہ سے ہی شام کے دارالحکومت کا نام دمشق پڑا اب خاتمے کے قریب ہے۔ دارالحکومت کے قریب ایک گاؤں ’نبک‘ دمسک کی افزائش کے لیے مشہور ہے، اب وہاں اس کی پیداوار آدھی ہوچکی ہے۔ وہاں رہنے والے ایک کسان حمزہ کے مطابق اس کی وجہ خانہ جنگی ہے۔

    حمزہ کا کہنا ہے کہ، ’اب جو پھول یہاں لگتے ہیں انہیں توڑنے والا بھی کوئی نہیں، کیونکہ باغیوں اور فوج کی لڑائی کی وجہ سے لوگ یہاں سے جا چکے ہیں۔

    damask

    ان کا کہنا ہے کہ یہاں ہر سال گلاب کی نمائش بھی منعقد ہوتی تھی جو ہم نے اس سال بھی انتظامیہ کے منع کرنے کے باوجود کی۔ یہ گاؤں باغیوں کی آمد و رفت کا راستہ بھی ہے۔

    حمزہ نے بتایا کہ یہاں ہر سال 80 ٹن پھولوں کی افزائش ہوتی تھی جو 2010 میں گھٹ کر صرف 20 ٹن رہ گئی۔ خانہ جنگی کے علاوہ قحط نے بھی اس کی افزائش پر اثر ڈالا ہے۔

    انہوں نے پرانے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ لبنان سے تاجر یہاں آکر اسے خریدا کرتے تھے اور پھر یورپ لے جا کر بیچتے تھے۔

    damask-2

    یہ پھول یورپ میں کثرت سے درآمد کیا جاتا ہے جہاں اسے خوشبویات بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ شام کے علاوہ یہ فرانس، مراکش، ایران اور ترکی میں بھی پایا جاتا ہے۔

    اس پھول کا تذکرہ مغربی شاعری و ادب میں بھی ملتا ہے۔ شیکسپیئر نے بھی 400 سال قبل اپنی تحاریر میں اس کا ذکر کیا۔