Tag: پھیلاؤ

  • ہیپاٹائٹس سی کا پھیلاؤ: کراچی کیلیے خطرے کی گھنٹی بج گئی

    ہیپاٹائٹس سی کا پھیلاؤ: کراچی کیلیے خطرے کی گھنٹی بج گئی

    کراچی میں موذی مرض ہیپاٹائٹس تیزی سے پھیل رہا ہے اور صرف ایک علاقے کی 13 فیصد آبادی اس کا شکار ہو چکی ہے۔

    بین الاقوامی غیرسرکاری ادارے کے مطابق پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں موذی مرض ہیپاٹائٹس سی تیزی سے پھیل رہا ہے اور اس کے صرف ایک علاقے مچھر کالونی کی 13 فیصد آبادی اس موذی مرض کا شکار پائی گئی ہے۔

    مچھر کالونی میں گزشتہ روز بین الاقوامی غیر سرکاری ادارے نے 74 ہزار افراد کی اسکریننگ کی۔ جب نتائج سامنے آئے تو یہ ہولناک انکشاف ہوا کہ علاقے کے 10 ہزار سے زائد آباد ہیپاٹائٹس سی سے متاثر ہوچکی ہے۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ سرنجز کا غیر ضروری اور دوبارہ استعمال، غیر محفوظ انتقال خون اور حجام کی دکانیں ہیپاٹائٹس سی کے پھیلاؤ کا بڑا سبب ہیں جب کہ مچھر کالونی میں اتائی ڈاکٹر بھی کالے یرقان کے پھیلاؤ کی بڑی وجہ ہیں۔

    کراچی کے علاقے مچھر کالونی میں بین الاقوامی غیر سرکاری ادارے نے 74 ہزار افراد کی اسکریننگ کی 10 ہزار سے زائد میں ہیپاٹائٹس سی کی تشخیص ہوئی

    بین الاقوامی غیر سرکاری ادارے کے مطابق مچھر کالونی میں ہیپاٹائٹس کا شکار 9,000 سے زائد افراد کو مفت علاج کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔

  • پاکستان میں ڈینگی کا پھیلاؤ: ماہرین نے خبردار کردیا

    پاکستان میں ڈینگی کا پھیلاؤ: ماہرین نے خبردار کردیا

    پاکستان میں ہر سال ڈینگی وائرس کی شدت اور پھیلاؤ میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور اب نئی تحقیق میں خبردار کیا گیا کہ ڈینگی ان علاقوں میں بھی پھیل سکتا ہے جہاں یہ وائرس پہلے نہیں تھا۔

    ایک تحقیق کے مطابق گلوبل وارمنگ کے سامنے آنے والے خوفناک اثرات، ماحولیاتی آلودگی میں اضافے اور مستقبل میں مون سون موسم میں تبدیلی کی پیش گوئی کے پیش نظر پاکستان کے ان علاقوں میں بھی ڈینگی وائرس پھیلنے کے خطرات اور خدشات میں اضافہ ہوگیا ہے جن علاقوں میں یہ وائرس پہلے کبھی نہیں پھیلا تھا۔

    ڈینگی کے پھیلاؤ پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور پاکستان میں فیوچر اسپیٹیوٹیمپورل شفٹ کے عنوان سے ہونے والی نئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی وجہ سے یہ وائرس اب تک محفوظ اونچائی والے علاقوں تک بھی پہنچ جائے گا۔

    ڈینگی ایک وائرل انفیکشن ہے جو انسانوں میں مچھروں کے کاٹنے سے پھیلتا ہے، عام طور پر یہ ان علاقوں میں پایا جاتا ہے جہاں سال کے بیشتر عرصے میں درجہ حرارت گرم رہتا ہے۔

    تاہم گلوبل چینج امپیکٹ اسٹڈیز سینٹر (جی سی آئی ایس سی)، ہیلتھ سروسز اکیڈمی (ایچ ایس اے) اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ) کے سائنسدانوں اور ماہرین کی جانب سے کی گئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ڈینگی کی منتقلی کے لیے موزوں ایام (ڈی ٹی ایس ڈی) مستقبل قریب میں پاکستان کے شمالی علاقوں تک پھیل جائیں گے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ ڈی ٹی ایس ڈی پورے پاکستان میں پھیل جائیں گے، خاص طور پر ان علاقوں میں بھی جہاں ہم نے اس سے قبل ڈینگی انفیکشن نہیں دیکھا۔

    بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے تناظر میں ماہرین نے نوٹ کیا کہ 2020 کی دہائی میں کوٹلی، مظفر آباد اور دروش جیسے بلندی والے شہر، 2050 کی دہائی میں گڑھی دوپٹہ، کوئٹہ، ژوب اور 2080 کی دہائی میں چترال اور بونجی میں ڈی ٹی ایس ڈی میں اضافے کا سلسلہ جاری رہے گا۔

    تحقیق میں خبردار کیا گیا ہے کہ اسی دوران کراچی، اسلام آباد اور بالا کوٹ اکیسویں صدی کے دوران ڈینگی کے پھیلاؤ کے سنگین خطرات سے دو چار رہیں گے۔

    تحقیق میں کراچی، حیدر آباد، سیالکوٹ، جہلم، لاہور، اسلام آباد، بالاکوٹ، پشاور، کوہاٹ اور فیصل آباد کو ڈی ٹی ایس ڈی فریکوئنسی کے شکار 10 ہاٹ اسپاٹ شہروں میں شامل کیا گیا ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اچھی خبر یہ ہے کہ موجودہ ہاٹ اسپاٹ شہروں میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے مستقبل میں ڈی ٹی ایس ڈی کم ہونے کا امکان ہے۔

  • اومیکرون کے پھیلاؤ کے حوالے سے نیا انکشاف

    اومیکرون کے پھیلاؤ کے حوالے سے نیا انکشاف

    کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے پھیلاؤ کے حوالے سے مختلف تحقیقات کی جاتی رہی ہیں، اور اب حال ہی میں سپر کمپیوٹر سے کی جانے والی سیمولیشن سے بھی نیا انکشاف ہوا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ایک سپر کمپیوٹر سے کیے گئے سیمولیشن سے پتا چلا ہے کہ جب لوگ ماسک پہننے کی صورت میں بھی 50 سینٹی میٹر کے اندر کے فاصلے پر ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں تو کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون سے متاثر ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    تحقیقی ادارے رکین کے ماہرین اور دیگر کی ایک ٹیم نے فوگاکو کمپیوٹر استعمال کر کے کرونا وائرس کے چھوٹے چھوٹے قطروں کے پھیلاؤ پر سیمولیشن کیا ہے۔

    گزشتہ کلسٹر انفیکشنز کے واقعات کی بنیاد پر بنایا گیا کہ یہ خاکہ اس قیاس پر تھا کہ اومیکرون، ڈیلٹا کے مقابلے میں 50 فیصد زیادہ متعدی ہے۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ اومیکرون سے متاثرہ ماسک پہنے شخص سے 15 منٹ کی گفتگو کے دوران جب دوسرے لوگ ایک میٹر یا اس سے زیادہ دور تھے تو انفیکشن کی اوسط شرح تقریباً صفر تھی۔

    لیکن جب وہ ایک دوسرے سے 50 سینٹی میٹر کے فاصلے پر تھے تو شرح تقریباً 14 فیصد بڑھی۔

    جب وائرس سے متاثرہ شخص ماسک نہ پہن ہوا ہو تو انفیکشن کی یہ شرح ایک میٹر کے فاصلے کے اندر تقریباً 60 فیصد بڑھ گئی اور 50 سینٹی میٹر کے اندر لگ بھگ 100 فیصد بڑھ گئی۔

    ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ فاصلہ برقرار رکھنے سے انفیکشن کا خطرہ کم رکھنے میں مدد ملتی ہے۔

  • کیا اومیکرون خطرناک قسم ثابت ہوسکتی ہے؟

    کیا اومیکرون خطرناک قسم ثابت ہوسکتی ہے؟

    کیپ ٹاؤن: جنوبی افریقہ کے نیشنل انسٹیٹوٹ فار کمیونیکیبل ڈیزیز نے کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے پھیلاؤ کی شرح کا ایک ابتدائی جائزہ پیش کیا ہے۔

    جنوبی افریقہ وہ ملک ہے جس نے اومیکرون کو سب سے پہلے رپورٹ کیا تھا اور جنوبی افریقی ادارے کے مطابق یہ نئی قسم ملک کے 9 میں سے 5 صوبوں میں دریافت ہوچکی ہے۔

    ادارے کے مطابق نومبر میں وائرس جینومز سیکونس کے 74 فیصد نمونوں میں اومیکرون کو دریافت کیا گیا، یکم دسمبر 2021 کو جنوبی افریقہ میں روزانہ رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد 8 ہزار 561 تھی جو گزشتہ روز سے دگنا زیادہ ہے۔

    مجموعی ٹیسٹوں پر مثبت ٹیسٹوں کی شرح ایک دن پہلے 10.2 فیصد تھی تو یکم دسمبر کو وہ 16.5 فیصد تک پہنچ گئی۔ مگر ڈیٹا میں یہ بھی بتایا گیا کہ اموات اور اسپتال میں شرح میں کوئی نمایاں تبدیلی دریافت نہیں ہوئی۔

    دنیا بھر کے طبی اداروں کے ماہرین نے کہا ہے کہ توقع ہے کہ اومیکرون اور اس کے پھیلاؤ اور شدت کے بارے میں چند دنوں میں زیادہ بہتر معلومات سامنے آجائیں گی۔

    یکم دسمبر کو گھانا، نائیجریا، سعودی عرب اور جنوبی کوریا میں اومیکرون کے اولین کیسز ریکارڈ ہوئے اور اب تک یہ قسم 24 ممالک میں دریافت ہوچکی ہے۔

    میڈیا بریفننگ کے دوران ڈبلیو ایچ او کی ماہر ماریہ واک کرکوف نے بتایا کہ ایک ممکنہ منظر نامہ تو یہ ہے کہ اومیکرون ڈیلٹا سے زیادہ متعدی ہوسکتی ہے مگر ابھی یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ نئی قسم لوگوں کو زیادہ بیمار کرسکتی ہے یا نہیں۔

    عالمی ادارے نے ایک بار پھر انتباہ کیا کہ ویکسی نیشن اور ٹیسٹنگ کی کم شرح کرونا وائرس کی نئی اقسام بننے کے لیے زرخیر زمین کا کام کررہی ہے۔

    درجنوں ممالک نے اس نئی قسم کے بعد سفری پابندیوں کو سخت کیا ہے جبکہ یکم دسمبر کو امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن نے کہا کہ اب امریکی سرزمین پر آنے والے تمام مسافروں کو نیگیٹو کووڈ ٹیسٹ پیش کرنا ہوگا جو سفر سے ایک دن پہلے ہونا ضروری ہے۔

    اب تک 56 ممالک نے اومیکرون کی روک تھام کے لیے سفری پابندیوں کا نفاذ کیا ہے حالانکہ عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ اس طرح کی پابندیاں بدترین ناانصافی ہیں۔

    ماریہ وان نے بتایا کہ افریقہ کے جنوبی حصے کے ممالک پر پابندیوں کے نفاذ سے طبی ماہرین تک اومیکرون کے نمونوں کی ترسیل میں مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔

    یکم دسمبر کو ایک نئی رپورٹ میں یہ انکشاف بھی سامنے آیا کہ نائیجریا میں ایک تجزیے میں اومیکرون کو اکتوبر 2021 میں دریافت کیا گیا، جس سے یہ خدشات بڑھ جاتے ہیں کہ یہ نئی قسم منظرعام پر آنے سے ہفتوں قبل گردش کررہی تھی۔

    نائیجرین طبی حکام نے بتایا کہ درحقیقت اکتوبر کے نمونوں میں اس نئی قسم کی شناخت ڈیلٹا کی روک تھام کے لیے کیے جانے والے جینیاتی سیکونس کے دوران ہوئی۔

  • کیا بچے کووڈ 19 کے پھیلاؤ کا ذریعہ بن سکتے ہیں؟

    کیا بچے کووڈ 19 کے پھیلاؤ کا ذریعہ بن سکتے ہیں؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے کرونا وائرس سے زیادہ بیمار نہیں ہوتے مگر وہ اس بیماری کو بالکل ویسے ہی پھیلا سکتے ہیں جیسے کووڈ 19 سے متاثرہ کوئی بالغ شخص۔

    امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق بچے کووڈ 19 سے زیادہ بیمار نہیں ہوتے مگر وہ اس بیماری کو آگے بالغ افراد کی طرح ہی پھیلا سکتے ہیں۔

    میساچوسٹس جنرل ہاسپٹل، برگھم اینڈ ویمنز ہاسپٹل اور ریگن انسٹی ٹیوٹ کی تحقیق میں سابقہ نتائج کی تصدیق کی گئی کہ نومولود بچے، چھوٹے اور بڑے بچوں کے نظام تنفس میں کرونا وائرس کی تعداد بالغ افراد جتنی ہی ہوتی ہے اور ان کے جسموں میں اسی شرح سے وائرس کی نقول بنتی ہیں۔

    اس تحقیق میں 2 ہفتے سے 21 سال کی عمر کے 110 بچوں کا جائزہ لیا گیا تھا جن میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی تھی۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ہر عمر کے بچوں میں چاہے ان میں بیماری کی علامات موجود ہوں یا نہ ہوں، وائرل لوڈ کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ سوال پہلے سے موجود تھا کہ بچوں میں زیادہ وائرل لوڈ اور زندہ وائرس کے درمیان تعلق موجود ہے یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اب ٹھوس جواب دینے کے قابل ہوگئے ہیں کہ یہ زیادہ وائرل لوڈ متعدی ہوتا ہے یعنی بچے بہت آسانی سے کووڈ 19 کو اپنے ارگرد پھیلا سکتے ہیں۔

    انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ بچوں میں زیادہ وائرل لوڈ اور بیماری کی شدت میں کوئی تعلق نہیں ہوتا، مگر بچے اس وائرس کو جسم میں لے کر پھر سکتے ہیں اور دیگر افراد کو متاثر کرسکتے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ طالب علم اور اساتذہ اب اسکول لوٹ رہے ہیں مگر اب بھی بچوں میں کووڈ 19 کے اثرات کے حوالے سے متعدد سوالات کے جوابات تلاش کرنا باقی ہے، جیسے
    بیشتر بچوں میں بیماری کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں یا معمولی علامات کا سامنا ہوتا ہے، جس سے یہ غلط خیال پیدا ہوا کہ بچوں سے اس بیماری کے پھیلنے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ کووڈ 19 سے متاثر بچوں میں کرونا وائرس کے وائرل فیچرز کی جانچ پڑتال سے زیادہ بہتر پالیسیوں کو تشکیل دینے میں مدد مل سکے گی۔

  • ننھے بچے کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا سبب

    ننھے بچے کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا سبب

    کرونا وائرس بڑوں کے مقابلے میں بچوں کو کم متاثر کرسکتا ہے تاہم حال ہی میں ایک تحقیق میں اس حوالے سے نیا انکشاف ہوا ہے۔

    کینیڈا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق چھوٹے بچوں کا نوجوانوں کے مقابلے میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے کا امکان کم ہوتا ہے تاہم اگر وہ کووڈ کے شکار ہوجائیں تو وہ اس وائرس کو اپنے گھر کے افراد میں پھیلا سکتے ہیں۔

    تحقیق میں اس بحث کا واضح جواب تو نہیں دیا گیا کہ بچے بھی بالغ افراد کی طرح اس وبائی مرض کو پھیلا سکتے ہیں یا وبا میں ان کا کردار ہے یا نہیں، مگر نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ بھی کردار ادا کرسکتے ہیں۔

    اس تحقیق میں یکم جون سے 31 دسمبر 2020 کے دوران کینیڈا کے شہر اونٹاریو میں ریکارڈ ہونے والے کووڈ کیسز کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا۔ ماہرین نے پھر ان گھرانوں میں اس پہلے فرد کی شناخت کی جس میں کووڈ 19 کی علامات نمودار ہوئی تھیں یا وائرس کا ٹیسٹ مثبت رہا تھا۔

    بعد ازاں ایسے 6 ہزار 820 گھرانوں پر توجہ مرکوز کی گئی جہاں اس وائرس سے پہلے متاثر ہونے والے مریض کی عمر 18 سال سے کم تھی، جس کے بعد اسی گھر کے دیگر افراد میں کیسز کی شرح کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ بیشتر کیسز میں وائرس کا پھیلاؤ متاثرہ بچے پر رک گیا مگر 27.3 فیصد گھرانوں میں بچوں نے وائرس کو گھر کے کم از کم ایک رکن میں منتقل کیا۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ 14 سے 17 سال کی عمر کے بچوں کی جانب سے وائرس کو گھر لانے کا امکان زیادہ ہوتا ہے یا کم از کم اس تحقیق میں کسی گھرانے میں سب سے پہلے متاثر ہونے والے 38 فیصد افراد کی عمریں یہی تھیں۔

    جن گھرانوں میں 3 سال یا اس سے کم عمر بچے سب سے پہلے بیمار ہوئے ان کی شرح محض 12 فیصد تھی مگر ان کی جانب سے وائرس کو آگے پھیلانے کا امکان زیادہ عمر کے بچوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق 3 سال یا اس سے کم عمر بچوں سے گھر کے دیگر افراد میں وائرس پھیلنے کاامکان زیادہ عمر کے بچوں کے مقابلے میں 40 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔ ماہرین کے خیال میں اس کی وجہ ننھے اور زیادہ عمر کے بچوں کے رویوں میں فرق ہے۔

    ننھے بچے گھر سے باہر بہت زیادہ گھومتے پھرتے نہیں اور جسمانی طور پر گھر والوں کے بہت قریب ہوتے ہیں جس سے وائرس پھیلنے کا امکان بڑھتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ ایسا بھی ممکن ہے کہ اس عمر کے بچوں میں وائرل لوڈ زیادہ ہوتا ہو یا وہ زیادہ مقدار میں وائرل ذرات کو جسم سے خارج کرتے ہوں۔

  • بھارت میں پھیلنے والا کرونا وائرس: ماہرین کا نیا انکشاف

    بھارت میں پھیلنے والا کرونا وائرس: ماہرین کا نیا انکشاف

    بھارت میں کرونا وائرس کی حالیہ تبدیل شدہ شکل نے خوفناک تباہی پھیلائی ہے اور اس کی وجہ سے خطے کے دوسرے ممالک بھی خوف کا شکار ہیں، حال ہی میں ایک پروفیسر نے اس تبدیل شدہ قسم کے بارے میں نیا انکشاف کیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق بیلجیئم کی ایک یونیورسٹی سے منسلک ماہر حیاتیات ٹام وینسیلیرز نے کہا ہے کہ کرونا وائرس کی بھارتی قسم ممکنہ طور پر کرہ ارض پر سب سے زیادہ متعدی مرض کے طور پر تبدیل شدہ قسم ہے۔

    ٹام وینسیلیرز ہی وہ پہلے سائنسدان تھے جنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وائرس کی برطانوی قسم دیگر اقسام کے مقابلے تیزی سے پھیلنے والی ہے، یہ دعویٰ پہلے متنازعہ تھا تاہم بعد میں اس کی دیگر ماہرین نے بھی تصدیق کردی تھی۔

    امریکی ریڈیو نیٹ ورک این پی آر کو دیے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں سامنے آنے والی وائرس کی قسم میں ترسیل اور نمو کی بے پناہ صلاحیت ہے، یہ برطانوی وائرس کی طرح ہی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ بھارت میں اس بڑے پیمانے پر پھیلاؤ میں حال ہی میں ہونے والے بڑے اجتماعات، انتخابی ریلیوں اور احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنے نے ایندھن کا کام کیا۔ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ موسم سرما کے دوران بھارت میں صورتحال معمول پر آگئی تھی اور یومیہ کیسز کی تعداد ہموار ہوگئی تھی بلکہ اس میں کمی آرہی تھی۔

    تاہم فروری کے وسط اور مارچ کے ابتدا میں صورتحال تیزی سے تبدیل ہوئی اور وائرس کسی دھماکے کی طرح پھیلا اور اب بھارت وائرس کی خطرناک دوسری لہر کا سامنا کررہا ہے جس میں یومیہ 4 لاکھ سے زائد کیسز اور 4 ہزار سے زائد اموات رپورٹ ہورہی ہیں۔

    دوسری جانب عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے نمائندے ڈاکٹر روڈریکو نے ایس او پیز پر عملدر آمد میں کوتاہی پر زیادہ ملبہ بھارت پر ڈالا اور کہا کہ ہم نے دیکھا کہ لوگ اس طریقے سے عمل نہیں کر رہے جو کووڈ 19 کو سست کرنے کے لیے مناسب ہوتا اس لیے ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں۔

    دوسری جانب بھارت میں یونیسیف کی نمائندہ ڈاکٹر یاسمین علی حق نے یہی بات اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہی کہ اس عالمی وبا کے اثرات سے نکلنے کے لیے برسوں لگیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پہلے ہی اس کے خاص کر بچوں، غریبوں اور پسے ہوئے طبقات پر ثانوی اثرات دیکھ رہے ہیں۔

    ڈاکٹر یاسمین حق نے نشاندہی کی کہ بھارت میں صرف 50 فیصد بچوں کو آن لائن تعلیم تک رسائی حاصل ہے اس کا مطلب یہ کہ اسکول جانے والے 15 کروڑ بچوں کو رسائی میسر نہیں اور ہم چائلڈ لیبر، کم عمری کی شادی اور بچوں کی اسمگلنگ کی کہانیاں بھی سن رہے ہیں۔

    اقوام متحدہ کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ بھارت میں کرونا کیسز مثبت آنے کی شرح 19 فیصد ہے جو بہت زیادہ ہے، بھارت میں انفیکشن کا وہی نمونہ ہے جو یورپ اور امریکا میں دیکھا گیا لیکن اس کی سطح مختلف ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ گنجان آبادی بھی ایک پہلو ہے اور انفکیشن میں اضافے کی سطح کو رسپانس کی سطح سے ملانا مشکل عمل ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک اور رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ جنوبی ایشیا میں نیا مہلک اضافہ کووِڈ 19 کے خلاف عالمی سطح پر حاصل کیے گئے فوائد کو ختم کرسکتا ہے۔

    یونیسیف اور ڈبلیو ایچ او کے تعاون سے تیار کی گئی رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ جنوبی ایشیائی ممالک میں انفیکشنز میں اضافہ ہو رہا ہے اور خطے کے 90 فیصد کیسز اور اموات بھارت میں رپورٹ ہورہے ہیں۔

    پاکستان کو بھی کووِڈ 19 کیسز میں اضافے کا سامنا ہے، حالیہ ہفتوں میں کیسز میں تیزی سے اضافہ ہوا اور 7 روز تک یومیہ اوسطاً ساڑھے 5 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے۔

    اقوام متحدہ کے دفتر کی ایک رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ عالمی وبا نے صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں نظام صحت پر اثرات مرتب کیے ہیں جس میں اسپتالوں میں دستیاب بستر، آکسیجن اور دیگر اشیائے ضروریات کی کمی کا سامنا ہے۔

    یونیسیف کے ریجنل ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیا کا کہنا تھا کہ جو منظر جنوبی ایشیا میں ہم دیکھ رہے ہیں ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا، ہمیں اس حقیقی امکان کا سامنا کرنا پڑرہا ہے کہ ہمارا نظام صحت بیٹھنے کی نہج پر پہنچ جائے گا جس سے مزید جانوں کا ضیاع ہوگا۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق گزشتہ ہفتے دنیا بھر میں رپورٹ ہونے والے کرونا کیسز میں 46 فیصد کیسز اور 25 فیصد اموات بھارت میں رپورٹ ہوئیں جبکہ مالدیپ، نیپال اور سری لنکا میں بھی کیسز بڑھ رہے ہیں۔

    رپورٹ میں خاص کر نیپال کی صورتحال کو خطرناک قرار دیا گیا جہاں رواں ہفتے انفیکشن میں 137 فیصد اضافہ ہوا جو وبا کے پھیلاؤ کے بعد سے اب تک کی بلند ترین سطح ہے۔

    نیپال کی حکومت نے ملک کے مختلف مقامات پر لاک ڈاؤن لگا دیا تھا اور وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے ڈومیسٹک پروازیں بھی معطل کردی تھیں۔

    یونیسیف کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیا میں ویکسی نیشن کی بہت کم سطح بھی وائرس کے مزید قابو سے باہر ہوکر پھیل جانے کے امکان کو بڑھا دیتی ہے۔

  • ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا کتنا خطرہ ہے؟

    ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا کتنا خطرہ ہے؟

    برلن: کرونا وائرس کے بارے میں نئی تحقیقات کیے جانے کا عمل جاری ہے، حال ہی میں ماہرین نے اس کے پھیلاؤ کے ایک اور سبب کی طرف اشارہ کیا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی جگہ پر ہوا میں نمی کا زیادہ تناسب کرونا وائرس کی وبا کو پھیلنے سے روکنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، اس کے برعکس خشک ہوا والے کمرے اور بند ایئر کنڈیشنڈ عمارات اس وائرس کے تیزی سے پھیلاؤ میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔

    جرمن اور بھارتی طبی ماہرین کی جانب سے مرتب کردہ اس تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کرونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ اور عمارتوں کے اندر ہوا میں نمی کے زیادہ تناسب کو یقینی بنایا جائے۔

    ماہرین کے مطابق ان مقامات پر ہوا میں نمی کا تناسب کم از کم 40 فیصد اور زیادہ سے زیادہ 60 فیصد ہونا چاہیئے۔

    ماہرین کے مطابق کووڈ 19 کے مریض کے منہ یا ناک سے کھانسی یا چھینک کے دوران نکلنے والے ننھے قطرے نمکیات، پانی، نامیاتی اجزا اور کرونا وائرس پر مشتمل ہوتے ہیں، ہوا میں نمی کے زیادہ تناسب کی صورت میں مزید آبی بخارات ان پر جمع ہوجانے کی وجہ سے ان ننھے قطروں کا وزن بڑھ جاتا ہے اور وہ فوری طور پر زمین پر یا کسی دوسری سطح پر بیٹھ جاتے ہیں۔

    اس طرح ہوا میں کم دیر تک رہنے کی وجہ سے ان کے منہ، ناک یا آنکھوں کے راستے کسی دوسرے فرد کے جسم میں داخل ہونے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ خشک ہوا اور کم درجہ حرارت کی صورت میں کووڈ 19 کے مریض کے منہ یا ناک سے نکلنے والے ننھے قطروں کا حجم مزید کم ہو جاتا ہے اور وہ زیادہ دور اور زیادہ دیر تک فضا میں رہتے ہیں جس کے نتیجے میں دوسروں کے متاثر ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

    کم حجم اور وزن کے ساتھ ان قطروں میں کرونا وائرس زیادہ دیر تک ایکٹو رہ سکتا ہے۔

    اسی طرح کووڈ 19 کے مریضوں کی موجودگی والے کمروں یا عمارات میں دروازے اور کھڑکیاں کھلی رکھنے سے بھی وائرس کے پھیلنے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔

    اس کے علاوہ ہوا میں نمی کا تناسب کم ہونے سے ہماری ناک کے اندر رطوبت خشک ہو جاتی ہے اور ایسی صورتحال کرونا وائرس کے لئے بے حد سازگار ثابت ہوتی ہے۔

  • کورونا سے متعلق غلط معلومات کے پھیلاؤ کو روکنے کیلیے کمیٹی تشکیل

    کورونا سے متعلق غلط معلومات کے پھیلاؤ کو روکنے کیلیے کمیٹی تشکیل

    اسلام آباد: وزیر داخلہ اعجاز شاہ کورونا سے متعلق غلط معلومات کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی، وفاقی وزیر داخلہ نے کہا  تمام ممکن وسائل بروئے کار لاتے ہوئے ذمہ داران کا پتہ لگائیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق کورونا سے متعلق غلط معلومات کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی گئی، وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے کہا کہ غلط اور غیر تصدیق شدہ معلومات پھیلانےوالوں کےخلاف کارروائی ہوگی ، مانیٹرنگ اورایکشن کوبروقت بنائیں۔

    وزیر داخلہ نے ڈائریکٹر سائبرونگ ایف آئی اے کو ہدایت کی کہ ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے، فیک نیوز اور غلط انفارمیشن پھیلانے والے ملک و عوام دوست نہیں۔

    اعجاز شاہ کا کہنا تھا کہ کمیٹی کی تشکیل کامقصدعوام تک صحیح معلومات کی رسائی کو یقینی بناناہے، غلط اورغیر تصدیق شدہ خبروں کا پھیلاؤ نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے، ہم تمام ممکن وسائل بروئے کار لاتے ہوئے ذمہ داران کا پتہ لگائیں گے۔

    یاد رہے اس سے قبل وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ کچھ لوگ کرونا کیسز میں کمی کو ٹیسٹنگ میں کمی قرار دے رہے ہیں، مریضوں میں کمی کی وجہ ٹیسٹ میں کمی نہیں بلکہ عوام کا بہتر رویہ ہے، احتیاط میں کمی کرنے سے وبا کا پھیلاؤ بڑھ سکتا ہے۔

    یاد رہے ملک بھر میں کرونا وائرس کے مصدقہ مریضوں کی تعداد 2 لاکھ 57 ہزار سے تجاوز کرگئی جبکہ وائرس سے اموات کی تعداد 5 ہزار 426 ہوگئی۔

  • کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے سخت فیصلوں کا وقت آگیا، مرتضیٰ وہاب

    کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے سخت فیصلوں کا وقت آگیا، مرتضیٰ وہاب

    کراچی: ترجمان سندھ حکومت مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے سخت فیصلوں کا وقت آگیا۔

    تفصیلات کے مطابق سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ترجمان سندھ حکومت مرتضیٰ وہاب نے اپنے پیغام میں کہا کہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نےگورنرسندھ، کور کمانڈر، ڈی جی رینجرز، آئی جی سندھ پولیس سے تبادلہ خیال کیا۔

    انہوں نے بتایا کہ لوگوں کوگھروں میں رہنے کے لیے حکومتی فیصلے پر عمل یقینی بنانے پر بھی غور کیا گیا۔ ترجمان سندھ حکومت مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے سخت فیصلوں کا وقت آگیا۔

    مرتضیٰ وہاب نے اپنے پیغام میں مزید کہا کہ سندھ حکومت یقینی بنائےگی راشن،میڈیکل اسٹورز کھلے رہیں۔

    اس وقت ہم ایک دوسرے کے لیے کلاشنکوف سے بھی زیادہ خطرناک ہیں، مرتضی ٰوہاب

    اس سے قبل ترجمان سندھ حکومت مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ اس وقت ہم ایک دوسرے کے لیے کلاشنکوف سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔

    واضح رہے کہ پاکستان میں کرونا وائرس کے کیسز کی تعداد 666 ہو گئی ہے، وائرس سے مجموعی طور پر 3 افراد جاں بحق جبکہ 13 مریض صحت یاب ہو چکے ہیں۔