Tag: پھیپھڑے

  • دانتوں پر چاندی کی تہہ چڑھانے والے شخص کو جان کے لالے پڑ گئے

    دانتوں پر چاندی کی تہہ چڑھانے والے شخص کو جان کے لالے پڑ گئے

    دنیا بھر میں مختلف افراد کو اپنے جسم کے ساتھ عجیب و غریب تجربے کرنے کا شوق ہوتا ہے جو ان کی صحت کو نقصان بھی پہنچا سکتا ہے، ایسے ہی ایک نوجوان کو اس وقت جان کے لالے پڑ گئے جب اس کے دانتوں پر چڑھی چاندی کی تہہ جسم کے اندر چلی گئی۔

    امریکی نوجوان کے دانتوں پر چڑھی چاندی کی تہہ حادثاتی طور پر نگلنے کے باعث اس کے پھیپھڑوں میں جا کر پھنس گئی۔

    ریاست وسکونسن سے تعلق رکھنے والے 22 سالہ نوجوان کو اس کے بعد شدید کھانسی اور سانس لینے میں تکلیف ہونے لگی اور سانس لینے کے دوران سیٹی بجنے جیسی آواز آنے لگی۔

    اس کیفیت پر جب ڈاکٹروں نے اس کا معائنہ کیا تو وہ حیران رہ گئے کیونکہ دانتوں پر چڑھا چاندی کا ملمع اس کے ایک پھیپھڑے میں جا کر پھنس گیا تھا۔

    امریکا کے کیورس میڈیکل جرنل میں حال ہی میں شائع ہونے والے ایک تحقیقی مقالے سے مذکورہ بالا کیس سامنے آیا، جس میں مذکورہ نوجوان کا نام ظاہر نہیں کیا گیا لیکن وہ ایپی لیپٹک سیزر کے بعد اب روبصحت ہے۔

    میڈیا رپورٹ کے مطابق 4 سینٹی میٹر لمبا ایک ماس اس کے پھیپھڑے میں موجود تھا، جسے ڈاکٹروں نے برونکو اسکوپی پروسیجر کے ذریعے باہر نکال لیا۔

  • زندہ افراد کے پھیپھڑوں میں پلاسٹک کے ذرات

    زندہ افراد کے پھیپھڑوں میں پلاسٹک کے ذرات

    لندن: مائیکرو پلاسٹک پہلی بار زندہ لوگوں کے پھیپھڑوں میں گہرائی میں پایا گیا ہے، یہ انکشاف چند مریضوں پر ہونے والی تحقیق میں سامنے آیا۔

    برطانوی اخبار دی گارڈین میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پہلی بار زندہ لوگوں کے پھیپھڑوں میں گہرائی میں مائیکرو پلاسٹک آلودگی پائی گئی ہے، اس سلسلے میں جتنے نمونے تجزیے کے لیے لیے گئے تھے، تقریباً تمام نمونوں میں یہ ذرات پائے گئے۔

    سائنس دانوں نے کہا ہے کہ مائیکرو پلاسٹک کی آلودگی اب پورے کرۂ ارض پر پھیل چکی ہے، جس سے انسان کا بچنا ناممکن نظر آتا ہے، اور اس کا مطلب ہے کہ صحت کو لاحق خطرات کے حوالے سے تشویش بہت بڑھ چکی ہے۔

    اس تحقیق کے لیے محققین نے سرجری سے گزرنے والے 13 مریضوں کے ٹشوز سے نمونے لیے تھے، جن میں سے 11 کیسز میں مائیکرو پلاسٹک پایا گیا، لیے گئے نمونوں میں سب سے زیادہ عام ذرات پولی پروپیلین کے تھے، جو پلاسٹک کی پیکیجنگ اور پائپوں میں، اور پولی تھیلین تھیرپٹالیٹ (PET) ذرات جو بوتلوں میں استعمال ہوتے ہیں۔

    انسانی خون میں پلاسٹک دریافت

    اس سے قبل 2 تحقیقی مطالعوں کے دوران مردہ افراد کے اجسام کے پوسٹ مارٹم کے دوران بھی پھیپھڑوں کے ٹشوز میں مائکرو پلاسٹک پایا گیا تھا اور اس کی شرح بھی زیادہ تھی۔

    یہ بات پہلے ہی سے علم میں آ چکی ہے کہ لوگ نہ صرف سانس کے ذریعے پلاسٹک کے چھوٹے ذرات اندر لے جاتے ہیں بلکہ کھانے اور پانی کے ذریعے بھی یہ جسم کے اندر جا رہے ہیں، محنت کش افراد سے متعلق بھی یہ معلوم ہے کہ وہ مائیکرو پلاسٹک کی بڑی مقدار جسم میں جانے سے بیماری کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔

    مارچ میں پہلی بار انسانی خون میں مائیکرو پلاسٹکس کا پتا چلا تھا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ذرات جسم کے اندر ایک جگہ سے دوسری جگہ گھوم سکتے ہیں اور مختلف اعضا میں رہ سکتے ہیں، صحت پر اس کے اثرات ابھی تک نامعلوم ہیں، لیکن محققین کو اس حوالے سے شدید تشویش لاحق ہے، کیوں کہ لیبارٹری میں مائیکرو پلاسٹک سے انسانی خلیوں کو نقصان پہنچتے دیکھا گیا، جب کہ یہ تو پہلے ہی معلوم کیا جا چکا ہے کہ فضائی آلودگی کے ذرات سال میں لاکھوں ابتدائی اموات کا سبب بنتے ہیں۔

    اس تحقیقی مطالعے کی ایک سینئر مصنف، برطانیہ کے ہل یارک میڈیکل اسکول کی محقق لارا سڈوفسکی نے کہا کہ ہمیں پھیپھڑوں کے نچلے حصوں میں اتنی زیادہ تعداد میں ذرات یا اس سائز کے ذرات ملنے کی امید بالکل نہیں تھی، یہ حیرت کی بات ہے کیوں کہ پھیپھڑوں کے نچلے حصوں میں ہوا کی نالیاں چھوٹی ہوتی ہیں اور ہمیں توقع تھی کہ ان سائز کے ذرات اس گہرائی میں جانے سے پہلے فلٹر ہو جائیں گے یا پھنس جائیں گے۔

    انھوں نے کہا کہ اس تحقیقی ڈیٹا کو فضائی آلودگی، مائیکرو پلاسٹک اور انسانی صحت کے میدان میں ایک اہم پیش کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

  • شعبہ طب کا اہم سنگ میل: کینسر زدہ پھیپھڑوں کا ٹرانسپلانٹ

    شعبہ طب کا اہم سنگ میل: کینسر زدہ پھیپھڑوں کا ٹرانسپلانٹ

    شعبہ طب کی تاریخ کا ایک اہم سنگ میل عبور کرلیا گیا جس میں ایک مریض کے کینسر زدہ پھیپھڑے نکال کر عطیہ کردہ صحت مند پھیپھڑے لگائے گئے، سرجری کے 6 ماہ بعد بھی کینسر کے واپس آنے کے کوئی آثار نہیں۔

    اس اہم طبی کارنامے میں پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا شخص کے دونوں پھیپھڑوں کا ٹرانسپلانٹ کیا گیا جس کے بعد وہ شخص نہ صرف روبصحت ہے بلکہ سرطان سے آزاد بھی ہے۔

    اس اہم سائنسی پیش رفت میں بہت کامیابی کے ساتھ اسٹیج 4 کے لنگ کینسر میں مبتلا مریض کا علاج نور ویسٹرن نامی ایک ادارے نے کیا ہے، اگرچہ اس کا ٹیومر دونوں پھیپھڑوں کو تباہ کر چکا تھا لیکن جسم کے دوسرے حصے اس مرض سے محفوظ تھے۔

    البرٹ خوری کا 6 ماہ قبل ٹرانسپلانٹ آپریشن ہوا تھا، ابھی تک اس میں کینسر کے پلٹنے کے کوئی آثار نہیں ملے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آپریشن کے 6 ماہ بعد بھی ڈاکٹروں نے اسے تندرست قرار دیا ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق سرطان زدہ پھیپھڑوں کو ہٹا کر دوسرے لگانا ایک نہایت پیچیدہ اور مشکل ترین عمل ہے کیونکہ یہ سرطان صرف سینے تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ دوسرے اعضا تک بھی سرایت کرجاتا ہے اور یوں زندگی بچانا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔

    54 سالہ البرٹ گو کہ سگریٹ نوشی نہیں کرتا تھا لیکن ایک سیمنٹ فیکٹری میں کام کرتا تھا، ابتدا میں اسے صرف کھانسی تھی لیکن یہ بیماری کینسر میں بدل کر اسٹیج 1 سے اسٹیج 4 تک پہنچ گئی۔

    یہ اس وقت ہوا جب کرونا وبا کے دوران اسپتال تک البرٹ کی رسائی نہیں تھی کیونکہ تمام اسپتال کووڈ کے مریضوں کے علاج میں مصروف تھے۔

    ڈاکٹرز کے مطابق سب سے بڑی مشکل یہ تھی ہے کہ پھیپھڑے جسامت میں بڑے ہوتے ہیں، اس لیے کینسر کو دوبارہ پھیلنے سے روکنا مشکل ہوجاتا ہے۔

    اس سے قبل جتنے مریضوں میں سرطان زدہ پھیپھڑوں کو نکال کر ایک یا دو صحت مند پھیپھڑے ٹرانسپلانٹ کیے گئے تو کچھ ہی عرصے بعد کینسر دوبارہ نمودار ہوا۔

    اب ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے بہت غور و فکر کے بعد کچھ نئے پروٹوکولز بنائے اور پھر ایک انتقال کر جانے والے شخص کے عطیہ شدہ پھیپھڑے لگائے۔

    آپریشن کے 6 ماہ گزرنے کے بعد مریض صحت مند ہے، اس کے پھیپھڑے معمول کے مطابق کام کر رہے ہیں اور مکمل طور پر صحت مند ہیں۔

  • کرونا وائرس سے صحت یابی کے بعد بھی پھیپھڑوں کو سخت نقصان

    کرونا وائرس سے صحت یابی کے بعد بھی پھیپھڑوں کو سخت نقصان

    کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے افراد کو طویل عرصے تک اس کی علامات کا سامنا رہتا ہے، اور اب حال ہی میں ایک اور تحقیق میں اس کے ایک اور خطرے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ماہرین نے لانگ کووڈ کے مریضوں میں پھیپھڑوں کے افعال میں تنزلی کی وجوہات کو شناخت کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

    یہ دعویٰ امریکا کے ییل اسکول آف میڈیسن کے ماہرین نے کرتے ہوئے بتایا کہ کووڈ کو شکست دینے کے بعد کچھ مریضوں کو مختلف علامات جیسے سانس لینے میں دشواری، کھانسی، بخار، تھکاوٹ یا سینے میں تکلیف کا سامنا مہینوں تک ہوتا ہے۔

    اس تحقیق کے لیے ماہرین نے کووڈ کو شکست دینے والے مریضوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا جن کو بیماری کو شکست دینے کے بعد بھی علامات کا سامنا ہوا تھا بالخصوص پھیپھڑوں کے افعال بدتر ہوگئے تھے۔

    تحقیق میں کووڈ کو شکست دینے والے 61 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا اور محقین نے ان کے پھیپھڑوں کے افعال کا جائزہ 2 اہم بنیادوں پر کیا۔

    یعنی کسی فرد کی جانب سے گہری سانس کے ذریعے جسم میں جانے والی ہوا کو خارج کرنے کی مقدار اور پھیپھڑوں میں آکسیجن خون کے سرخ خلیات میں تبدیل کرنا۔

    نتائج میں دریافت کیا گیا کہ 70 فیصد مریضوں کو مسلسل سانس لینے میں دشواری کا سامنا تھا جبکہ یہ بھی تصدیق ہوئی کہ کووڈ کی سنگین شدت کا سامنا کرنے والے افراد کے پھیپھڑوں کے افعال متاثر ہونے کا امکان زیادہ تھا۔

    اس کے بعد تحقیقی ٹیم نے مریضوں کے خون کے نمونوں کا جائزہ لے کر پھیپھڑوں کی علامات کے تسلسل کی حیاتیاتی وجوہات جاننے کی کوشش کی۔ انہوں نے 3 پروٹینز کو دریافت کیا جن کو پھیپھڑوں کے افعال میں تنزلی کا باعث قرار دیا گیا۔

    ماہرین نے بتایا کہ یہ حیاتیاتی عناصر یا پروٹینز ایک مخصوص مدافعتی خلیات کی وجہ سے متحرک ہوتے ہیں، ہم نے پہلے بھی ان وجوہات کو کووڈ 19 کی سنگین شدت سے منسلک پایا تھا، یہ حیران کن تھا کہ ان پروٹینز کی مقدار میں اضافہ بیماری کے بعد بھی رہتا ہے جس سے پھیپھڑوں کے افعال متاثر ہوتے ہیں۔

    اس سے قبل مئی 2021 میں برطانیہ کی ساؤتھ ہیمپٹن یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ سے اسپتال میں زیر علاج رہنے والے ایک تہائی افراد کے پھیپھڑوں میں ایک سال بعد بھی منفی اثرات کے شواہد ملے ہیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ کووڈ 19 نمونیا کی سنگین شدت کے شکار مریضوں کی اکثریت بظاہر مکمل طور پر صحت یاب ہوجاتی ہے، تاہم کچھ مریضوں کو اس کے لیے کئی ماہ لگ جاتے ہیں۔

  • کرونا وائرس سے پھیپھڑے کس طرح متاثر ہوتے ہیں؟

    کرونا وائرس سے پھیپھڑے کس طرح متاثر ہوتے ہیں؟

    کرونا وائرس انسانی جسم کے جس عضو کو سب سے زیادہ نقصان پہنچاتا ہے وہ پھیپھڑے ہیں، حال ہی میں ماہرین نے ایسا ماڈل تیار کیا ہے جس سے وضاحت ہوتی ہے کہ کرونا وائرس کس طرح انسانوں کے پھیپھڑوں میں تباہی مچاتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا کے طبی ماہرین نے پہلی بار ایسا تفصیلی ماڈل تیار کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کرونا وائرس کس طرح انسانوں کے پھیپھڑوں میں تباہی مچاتا ہے۔

    امریکا کے محکمہ توانائی کی بروک ہیون نیشنل لیبارٹری کے ماہرین کی تحقیق طبی جریدے جرنل نیچر کمیونیکشن میں شائع ہوئی۔ تحقیق سے وضاحت ہوتی ہے کہ کس طرح یہ وائرس پھیپھڑوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچاتا ہے اور کیسے وہ وہاں سے دیگر اعضا تک پھیل جاتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ گہرائی میں جاکر تفصیلات سے وضاحت ہوتی ہے کہ اس وائرس سے جسم کو اتنا نقصان کیوں پہنچتا ہے اور اس کی بنیاد پر روک تھام کے ذرائع کی تلاش آسان ہوسکتی ہے۔

    اس مقصد کے لیے ماہرین نے ایک مالیکیولر ماڈل تیار کیا تھا جس کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ ٹیکنالوجی وائرل پروٹینز کی تحقیق کے لیے بہت زیادہ کارآمد ہے جو دیگر تکنیکوں سے بہت مشکل ہوتی ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ کرونا وائرس میں ایسا پروٹین ہوتا ہے جو وائرس کی باہری جھلی میں اسپائیک پروٹین کے ساتھ پایا جاتا ہے، یہ پروٹین ای اس وائرس کو خلیات کے اندر نقول بنانے میں مدد فراہم کرتا ہے جبکہ انسانی پروٹینز کو ہائی جیک کرکے وائرس کے اخراج اور منتقلی میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ عمل وائرس کے لیے بہترین ہوتا ہے مگر انسانوں کے لیے بدترین، بالخصوص کووڈ 19 کے معمر اور پہلے سے مختلف امراض کے شکار افراد کے لیے۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جب پھیپھڑوں کے خلیات میں خلل پیدا ہوتا ہے تو مدافعتی خلیات آ کر نقصان کی تلافی کی کوشش کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں چھوٹے پروٹینز سائٹو کائینز کا اخراج ہوتا ہے، یہ مدافعتی ردعمل ورم کو متحرک کر کے زیادہ بدتر کرتا ہے، جس کو سائٹوکائین اسٹروم بھی کہا جاتا ہے۔

    اس صورتحال میں وائرسز کے لیے پھیپھڑوں سے نکل کر دوران خون کے ذریعے دیگر اعضا بشمول جگر، گردوں اور شریانوں کو متاثر کرنا آسان ہوجاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق اس منظر نامے میں مریضوں کو دیگر وائرسز سے بھی زیادہ نقصان پہنچتا ہے جبکہ زیادہ ای پروٹینز بننے لگتے ہیں، جس کے نتیجے میں یہ ایک بار بار ہونے والا سائیکل بن جاتا ہے، یعنی مزید وائرسز ای پروٹٰنز بناتے ہیں اور خلیات کے پروٹینز کو ہائی جیک کرکے زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں، زیادہ پھیلتے ہیں اور ایسا بار بار ہوتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ اسی وجہ سے ہم اس تعلقق پر تحقیق کرنا چاہتے تھے۔

    ماہرین نے ای پروٹین اور پھیپھڑوں کے پروٹین پی اے ایل ایس 1 کے درمیان تعلق کا گہرائی میں جا کر جائزہ لیا اور اس کی تصاویر بنائیں اور ان کو علم ہوا کہ کس طرح یہ وائرس پھیپھڑوں میں تباہی مچاتا ہے، جس کی وضاحت اوپر کی جاچکی ہے۔

  • کووڈ 19 کے دیرپا اثرات، کرونا وائرس کے مریضوں کے لیے ایک اور تشویشناک خبر

    کووڈ 19 کے دیرپا اثرات، کرونا وائرس کے مریضوں کے لیے ایک اور تشویشناک خبر

    لندن: کرونا وائرس کے آغاز سے ہی اس کے اثرات اور نقصانات سامنے آرہے ہیں، اب حال ہی میں ماہرین نے ایک اور تشویشناک امر کی طرف اشارہ کیا ہے۔

    برطانیہ میں ہونے والی ایک نئی تحقیق سے پتہ چلا کہ کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے افراد کے پھیپھڑوں کو کئی ماہ بعد بھی نقصان پہنچ رہا ہوتا ہے۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی کی جانب سے کی جانے والی اس تحقیق میں 10 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا اور ایسی نوول اسکیننگ تکنیک کا استعمال کیا گیا جو پھیپھڑوں کو پہنچنے والے ایسے نقصان کو شناخت کرسکیں جو روایتی اسکین سے ممکن نہیں۔

    اس مقصد کے لیے ایک گیس xenon کو ایم آر آئی اسکینز استعمال کر کے پھیپھڑوں کو پہنچنے والے نقصان کی تصاویر تیار کی گئیں۔ تحقیق میں شامل افراد کی عمریں 19 سے 69 سال کے درمیان تھی اور ان میں سے 8 کو ابتدائی بیماری کے 3 ماہ بعد بھی سانس لینے میں مشکلات کا سامنا تھا۔

    ان میں سے کسی کو بھی بیماری کے دوران آئی سی یو میں داخل کرانے یا وینٹی لیشن کی ضرورت نہیں پڑی تھی جبکہ روایتی اسکینز میں بھی پھیپھڑوں میں کوئی مسائل دریافت نہیں ہوئے تھے۔

    نئی تکنیک سے اسکینز سے ان مریضوں میں پھیپھڑوں کو پہنچنے والے نقصان کے آثار دریافت کیے گئے، جہاں سے ہوا آسانی سے خون میں شامل نہیں ہورہی تھی اور اسی وجہ سے انہیں سانس لینے میں مشکلات کا سامنا تھا۔

    اب تحقیقی ٹیم کی جانب سے سو مریضوں کو ٹرائل کا حصہ بنا کر دیکھا جائے گا کہ جن افراد کو کووڈ 19 کی سنگین شدت کا سامنا نہیں ہوا یا اسپتال میں داخل نہیں ہوئے، ان کے پھیپھڑوں کو نقصان پہنچا یا نہیں۔

    اس تحقیق کا مقصد یہ جاننا تھا کہ کووڈ سے پھیپھڑوں کو نقصان تو نہیں پہنچتا اور اگر ایسا ہوتا ہے تو کیا یہ مستقل ہے یا وقت کے ساتھ ٹھیک ہوجاتا ہے۔ محققین کا کہنا تھا کہ ہمیں کسی حد تک پھیپھڑوں کو نقصان پہنچنے کی توقع تھی مگر یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتنی زیادہ ہوگی جتنی ہم نے دیکھی۔

    انہوں نے بتایا کہ ویسے تو کوویڈ 19 کی سنگین شدت اور موت کا خطرہ 60 سال سے زائد عمر افراد میں زیادہ ہوتا ہے، مگر ہمارے ٹرائل میں دریافت کیا گیا کہ ہر عمر کے گروپ میں پھیپھڑوں کو نقصان پہنچتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق اگر نئے اسکین سے پھیپھڑوں کو ہونے والے نقصان کی شناخت ہوگئی تو یہ ممکنہ طور پر لانگ کووڈ کے پیچھے چھپا ایک عنصر ہوسکتا ہے، جس کے نتیجے میں بیماری سے صحت یابی کے کئی ماہ بعد بھی لوگوں کو مختلف مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔

  • کرونا سے صحت یاب 90 فی صد مریضوں کے پھیپھڑے خراب ہونے کا انکشاف

    کرونا سے صحت یاب 90 فی صد مریضوں کے پھیپھڑے خراب ہونے کا انکشاف

    ووہان: کرونا وائرس انفیکشن سے صحت یاب ہونے والے 90 فی صد مریضوں کے پھیپھڑے خراب ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کرونا انفیکشن سے ٹھیک ہوئے نوے فی صد مریضوں کے پھیپھڑے خراب نکل آئے ہیں، یہ انکشاف چین کے شہر ووہان میں سامنے آیا ہے۔

    ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کرونا انفیکشن سے جو لوگ صحت یاب ہو چکے ہیں ان میں 90 فی صد افراد کے پھیپھڑے خراب ہیں، کرونا انفیکشن کے بعد پھیپھڑے پہلے کی طرح ٹھیک سے کام نہیں کر رہے ہیں۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق چین کے شہر ووہان میں ایک بڑے اسپتال میں کو وِڈ نائٹین سے صحت یاب ہونے والے مریضوں کے ایک گروپ کا مطالعہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ان میں سے 90 فی صد کے پھیپھڑے خراب تھے، جب کہ ان میں 5 فی صد مریضوں کا وائرس ٹیسٹ دوبارہ مثبت آنے پر انھیں پھر قرنطینہ کیا گیا۔

    اس سلسلے میں اپریل سے زونگنن اسپتال یونی ورسٹی کی ایک ٹیم نے 100 صحت یاب مریضوں کے فالو اپ وزٹس کیے، جن کی اوسط عمر 59 تھی، اس ایک سالہ پروگرام کا پہلا مرحلہ جولائی میں مکمل ہوا۔ پہلے مرحلے کے نتائج میں دیکھا گیا کہ نوے فی صد مریضوں کو اب بھی پھیپھڑوں میں خرابی کا سامنا تھا، جس کا مطلب تھا کہ ان کے پھیپھڑوں کی وینٹی لیشن اور گیس ایکسچینج فنکشن صحت مند لوگوں کی طرح بحال نہیں ہوئے تھے۔

    طبی تحقیقی ٹیم نے مریضوں کا 6 منٹ واکنگ ٹیسٹ بھی کیا، انھوں نے دیکھا کہ صحت یاب مریض چھ منٹ میں صرف 400 میٹر تک چل سکے، جب کہ پوری طرح صحت مند لوگ چھ منٹ میں 500 میٹر تک چہل قدمی کر سکتے ہیں۔

    ٹیم کے ایک ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ صحت یاب مریضوں میں سے کچھ اب بھی آکسیجن مشینوں پر انحصار کر رہے ہیں حالاں کہ انھیں اسپتال سے فارغ ہوئے 3 ماہ ہو چکے ہیں۔ اس تحقیق کے نتائج میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ان 100 مریضوں میں سے 10 فی صد مریضوں کے اندر نئے کرونا وائرس کے خلاف بننے والی اینٹی باڈیز بھی ختم ہو چکی ہیں۔

    مذکورہ افراد میں سے 5 فی صد ایسے تھے جن کے کو وِڈ 19 نیوکلک ایسڈ ٹیسٹ منفی آئے، لیکن جب امینونو گلوبیولن ایم (IgM) ٹیسٹ کیا گیا تو وہ مثبت آ گئے، جس کی وجہ سے انھیں دوبارہ قرنطینہ کیا گیا۔

  • طبی انقلاب، کرونا سے ناکارہ پھیپھڑوں کی پیوندکاری، خاتون کو نئی زندگی مل گئی (ویڈیو)

    طبی انقلاب، کرونا سے ناکارہ پھیپھڑوں کی پیوندکاری، خاتون کو نئی زندگی مل گئی (ویڈیو)

    شکاگو: امریکا میں اپنی نوعیت کا پہلا بڑا آپریشن کر کے کرونا وائرس انفیکشن میں مبتلا ایک مریضہ کو نئی زندگی دی گئی۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکی شہر شکاگو میں کرونا وائرس کی مریضہ کے دونوں پھیپھڑوں کا کامیاب ٹرانسپلانٹ کیا گیا، امریکا میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا آپریشن تھا۔

    ہسپانوی نسل سے تعلق رکھنے والی خاتون کے دونوں پھیپھڑے ناکارہ ہو گئے تھے، دونوں پھیپھڑوں کا بیک وقت ٹرانسپلانٹ کیا گیا، یہ آپریشن عام ٹرانسپلانٹ سے زیادہ مشکل اور کئی گھنٹے طویل تھا۔

    ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ کامیاب آپریشن کے بعد خاتون کچھ دن وینٹی لیٹر پر رہیں گی کیوں کہ کرونا وائرس نے ان کے سینے کے پٹھوں کو اتنا کم زور کر دیا ہے کہ وہ خود سے سانس نہیں لے سکتیں۔

    مریضہ کے جسم سے نکالا گیا ناکارہ پھیپھڑا، دوسری طرف صحت مند پھیپھڑے جن کی پیوندکاری کی گئی

    یہ آپریشن 5 جون  کو نارتھ ویسٹرن میموریل اسپتال میں کیا گیا، جہاں نوجوان خاتون کو دہرے پھیپھڑوں کے ٹرانسپلانٹ پروسیجر کے ذریعے بچایا گیا، کرونا وائرس نے ان کے دونوں پھیپھڑوں شدید طور پر متاثر کر دیے تھے۔

    رپورٹس کے مطابق شکاگو کی 20 سالہ خاتون آپریشن سے قبل 2 ماہ تک وینٹی لیٹر اور دل اور پھیپھڑوں کی مشین (heart-lung machine) پر تھیں، آپریشن کرنے والے ڈاکٹر انکٹ بھرت کا کہنا تھا یہ آپریشن 10 گھنٹوں پر مشتمل تھا، کووِڈ نائنٹین نے مریضہ کے پھیپھڑوں میں بڑے بڑے سوراخ کر دیے تھے اور یہ سینے کی دیوار کے ساتھ بالکل چپک گئے تھے۔

    آپریشن سے قبل خاتون کا لیا گیا ایکسرے، ڈاکٹر انکٹ بھرت، جنھوں نے یہ مشکل آپریشن کیا

    ان کا کہنا تھا کہ امید ہے یہ طریقہ عام ہو جائے گا کیوں کہ اس سے اور بھی زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔ اسپتال کے میڈیکل دائریکٹر ڈاکٹر ریڈ ٹامک کا کہنا تھا کہ ہمیں توقع ہے کہ خاتون مکمل طور پر صحت یاب ہو جائیں گی۔

    ڈاکٹر بھرت کا کہنا تھا کہ جب اپریل میں خاتون کو اسپتال داخل کیا گیا تو اس کی حالت تیزی سے خراب ہوئی، ڈاکٹرز نے ٹرانسپلانٹ کے لیے اس کے جسم سے وائرس صاف ہونے کا 6 ہفتوں تک انتظار کیا، اس کی حالت بہت خراب تھی، ایسی علامات تھیں کہ اس کا دل، گردے اور جگر بھی ناکارہ ہونے والے ہیں، اس لیے اسے ٹرانسپلانٹ کی فہرست میں آگے کیا گیا۔

    دل اور پھیپھڑوں کو سہارا دینے والی مشین (heart-lung machine)

    خیال رہے کہ امریکا میں گزشتہ برس 40 ہزار اعضا کی پیوند کاری میں پھیپھڑوں کا تناسب صرف 7 فی صد تھا، پھیپھڑے عام طور پر ملنا بہت مشکل ہوتا ہے اور مریض اکثر ٹرانسپلانٹ کی فہرست میں مہینوں کا انتظار کرتے ہیں۔

  • کرونا اور لاک ڈاؤن سے جڑے ہوئے پھیپھڑوں کی کہانی

    کرونا اور لاک ڈاؤن سے جڑے ہوئے پھیپھڑوں کی کہانی

    تروتازہ اور صاف ہوا ہماری صحت اور تن درستی کے لیے نہایت ضروری ہے جو پھیپھڑوں کے ذریعے ہمارے جسم میں پہنچتی ہے۔

    اگر ہمارے جسم میں موجود پھیپھڑے خراب یا ناکارہ ہوجائیں تو ہم سانس نہیں لے سکیں جس کے نتیجے میں موت یقینی ہے۔ آلودہ ہوا میں سانس لینے کے دوران مختلف زہریلے مادے ہمارے جسم میں داخل ہو جاتے ہیں اور اسے نقصان پہنچاتے ہیں۔

    کرونا وائرس بھی ہمارے جسم میں داخل ہوکر اسی اہم ترین عضو کو متاثر کرتا ہے اور جب جسم اس وائرس کا مقابلے کرنے اور پھیپھڑے اپنا کام انجام دینے میں ناکام ہو جائیں تو انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

    اسی کرونا کی وجہ سے دنیا کے مختلف شہروں میں لاک ڈاؤن کیا گیا ہے جس کے دوران ایئر انڈیکس جائزے سے معلوم ہوا کہ مختلف ملکوں کے شہروں میں آب و ہوا صاف ہوئی ہے اور ماحول میں بہتری آرہی ہے اور گیسوں، دھویں، مخلتف زہریلے اور کثیف مادوں سے صاف ہوا کا کچھ تو فائدہ اٹھایا ہی جاسکتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق کھلی فضا اور تازہ ہوا میں سانس لینے سے آپ سانس کی مختلف طبی مسائل اور بیماریوں کے خطرے سے محفوظ رہتے ہیں۔

    لمبی اور گہری سانس لینے سے دل کو صحیح مقدار میں آکسیجن ملتی ہے جب کہ اس سے پھیپھڑے بھی مضبوط ہوتے ہیں اور ان کی کارکردگی پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں‌۔

    طبی ماہرین کے مطابق گہرے سانس لینے سے مدافعتی نظام تن درست رہتا ہے جس سے ہمارے بیمار ہونے کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔

    کرونا سے بچنے کے لیے تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے آپ تازہ اور پہلے کے مقابلے میں قدرے صاف ہوا میں لمبے اور گہرے سانس لے کر آپ جہاں بیماریوں کے خطرات کم کرسکتے ہیں، وہیں ڈپریشن، گھبراہٹ اور بیزاری کی کیفیت سے بھی نجات مل سکتی ہے۔

    محققین اور ماہرینِ نفسیات کہتے ہیں کہ لمبے اور گہرے سانس لینے سے دماغی حالت پر مثبت اثر پڑتا ہے اور یہ عمل خاص طور ڈپریشن سے نجات دلاتا ہے۔

    صاف ستھری ہوا جہاں پھیپھڑوں کو طاقت دیتی ہے، وہیں دل کو مضبوط کرتی ہے جو خون کی گردش بہتر بناتا ہے۔

    دنیا بھر میں‌ فضائی آلودگی سنگین مسئلہ بن چکی ہے اور انسان طرح طرح کے جسمانی اور ذہنی امراض سمیت مختلف قسم کی معذوریوں کا شکار ہورہا ہے، ان حالات میں میسر قدرے صاف ہوا پھیپھڑوں کے لیے تو نعمتِ غیر مترقبہ ہی ہے۔

  • کرونا وائرس پھیپھڑوں پر کیا اثرات مرتب کر رہا ہے؟

    کرونا وائرس پھیپھڑوں پر کیا اثرات مرتب کر رہا ہے؟

    بیجنگ: چین میں کرونا وائرس کا شکار مریض کے پھیپھڑوں کے ایکسرے نے ڈاکٹرز کو تشویش میں مبتلا کردیا، ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ یہ وائرس پھیپھڑوں کو نقصان پہنچانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔

    چین کے شہر لاژو کے ایک اسپتال میں آنے والی 33 سالہ خاتون کے ایکسرے نے ڈاکٹروں میں تشویش کی لہر دوڑا دی۔

    33 سالہ خاتون 102 بخار میں مبتلا تھیں اور انہیں سانس لینے میں مشکل کا سامنا تھا، انہیں گزشتہ 5 روز سے کھانسی کی بھی شکایت تھی۔ بعد ازاں ان میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوگئی۔

    ڈاکٹرز کی جانب سے ان کے پھیپھڑوں کا ایکسرے لیا گیا تو ان کے پھیپھڑوں پر سفید دھبے پائے گئے۔ یہ دراصل وہ مائع تھا جو پھیپھڑوں کی خالی جگہوں پر جمع ہوگیا تھا اور اس سے سانس کی آمد و رفت مشکل ہوگئی تھی۔

    دو دن بعد جب مریضہ کا دوبارہ ایکسرے لیا گیا تو یہ سفید دھبے مزید نمایاں اور بڑھ چکے تھے۔ ڈاکٹرز نے اس مائع کو صاف کر کے سانس کی آمد و رفت کی جگہ بنائی جس سے مریضہ کی حالت میں کچھ بہتری واقع ہوئی۔

    ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس، وائرسز کی ان اقسام میں سے ہے جو پھیپھڑوں کو ہلکے نوعیت کے انفیکشنز میں مبتلا کرسکتا ہے۔

    حالیہ کرونا وائرس کا شکار افراد کو سر درد اور گلے کی سوزش جیسی معمولی علامات کا سامنا ہے، اس سے شدید علامات میں بخار، کھانسی اور سانس لینے میں تکلیف شامل ہے۔

    بہت کم تعداد شدید ترین علامات یعنی انفیکشن، پھپیھڑوں کی خرابی اور نمونیا کا شکار ہورہی ہے جو موت کا سبب بھی بن سکتی ہے۔

    خیال رہے کہ چین میں کرونا وائرس سے ہلاک افراد کی تعداد 304 ہوگئی ہے، کروناسے ایک ہلاکت فلپائن میں بھی سامنے آئی ہے۔ چین میں کرونا سے متاثرہ افراد کی تعداد 15 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔