Tag: پیرس معاہدہ

  • امریکا دنیا کے لیے اہم معاہدے سے باضابطہ طور پر نکل گیا

    امریکا دنیا کے لیے اہم معاہدے سے باضابطہ طور پر نکل گیا

    واشنگٹن: امریکا باضابطہ طور پر عالمی ماحولیاتی معاہدے سے علیحدہ ہو گیا۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکا تین سالہ تاخیر کے بعد آخر کار موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے پیرس معاہدے سے نکلنے والا پہلا ملک بن گیا ہے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ معاہدہ ختم کیا تھا۔

    صدر ٹرمپ نے دراصل جون 2017 میں اس معاہدے سے دست برداری کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد گزشتہ برس اقوام متحدہ کو اس سے باضابطہ طور پر مطلع کیا گیا، تاہم یو این ضابطے کے مطابق مطلع کیے جانے کے بعد ایک سال تک انتظار کرنا پڑتا ہے، یہ انتظار آج بدھ کے روز ختم ہو گیا۔

    معاہدے سے دست برداری کا فیصلہ ایک ایسے دن نافذ العمل ہوا ہے جب کہ محض ایک دن قبل ہی امریکی انتخابات منعقد ہوئے، اور آج دونوں امیدواروں میں سے کسی ایک کی جیت کا اعلان ہوگا۔

    سابق اسٹیٹ سیکریٹری جان کیری اپنی پوتی کو گود میں لیے اقوام متحدہ میں پیرس ایگریمنٹ پر دستخط کر رہے ہیں

    مستقبل میں امریکا اس معاہدے میں دوبارہ شامل ہو سکتا ہے، اس کے لیے آنے والے صدر کو اس کا انتخاب کرنا ہوگا۔

    پیرس معاہدے پر تقریباً 200 ممالک نے دستخط کیے تھے، ان میں سے امریکا پہلا ملک بنا ہے جس نے گرین ہاؤس گیس اخراج کو کم کرنے کے وعدوں سے منہ پھیرا۔

    اٹھارویں صدی کے وسط سے جب سے صنعتی دور شروع ہوا ہے، تب سے امریکا وہ ملک ہے جس نے کسی بھی دوسرے ملک کی نسبت فضا میں مجموعی طور پر سب سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کیا۔

  • کلائمٹ چینج کے باعث موسموں کی شدت میں اضافے کا خطرہ

    کلائمٹ چینج کے باعث موسموں کی شدت میں اضافے کا خطرہ

    مراکش: ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق عالمی کانفرنس کوپ 22 مراکش میں جاری ہے۔ کانفرنس میں ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ موسمیاتی تغیرات میں مزید شدت آئے گی اور یہ دنیا کے تمام حصوں کو متاثر کرے گی۔

    کانفرنس میں پیش کی جانے والی متعدد رپورٹس میں سے ایک کے مطابق سنہ 2011 سے سنہ 2015 کے 5 سال دنیا کی تاریخ کے گرم ترین سال تھے۔ ماہرین نے واضح طور پر بتایا کہ موسموں کی شدت میں اضافے کے ذمہ دار خود انسان ہیں اور اس شدت میں مزید اضافہ ہوگا جو معیشت سمیت تمام شعبوں پر خطرناک اثرات مرتب کریں گے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے مطابقت کیسے ممکن ہے؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ موسموں میں یہ تبدیلی یا کلائمٹ چینج دنیا بھر میں ہیٹ ویو، قحط، شدید بارشوں اور خطرناک سیلابوں کی شرح میں اضافہ کردے گی۔

    ماہرین نے بتایا کہ سنہ 1996 سے 2015 تک دنیا کے مختلف حصوں میں 11 ہزار شدید ہیٹ ویوز آئیں جن کے باعث 5 لاکھ کے قریب افراد ہلاک جبکہ معیشتوں کو مجموعی طور پر 3 کھرب ڈالرز کا نقصان پہنچا۔

    ان خطرناک ہیٹ ویوز میں پاکستان اور بھارت میں 2015 میں آنے والی ہیٹ ویو کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

    رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ بڑھتے درجہ حرارت کی وجہ سے دنیا کے تمام سمندروں کی سطح میں اضافہ ہوگا اور اس سے دنیا کے 90 فیصد ساحلی علاقوں کو شدید خطرات لاحق ہوجائیں گے۔ ماہرین کے مطابق سنہ 2040 تک ساحلی علاقوں کے ساتھ موجود سمندر کی سطح میں 7 انچ سے زائد اضافہ ہوجائے گا۔

    مزید پڑھیں: گلوبل وارمنگ سے عالمی معیشتوں کو 2 کھرب پاؤنڈز نقصان کا خدشہ

    ماہرین نے واضح کیا کہ ان خطرات پر کسی حد تک قابو پانے کے لیے گزشتہ برس پیرس میں ہونے والے ماحولیاتی معاہدے پر ہنگامی بنیادوں پر عملدر آمد ضروری ہے۔

    اس معاہدے پر 195 ممالک نے دستخط کر کے اس بات کا عزم کیا تھا کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے جن کے باعث زہریلی گیسوں کا اخراج دنیا بھر کے موسموں میں تبدیلی لارہا ہے اور درجہ حرارت میں اضافہ کر رہا ہے۔

    رواں برس ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق اس کانفرنس کا مرکزی ایجنڈا اس معاہدے پر عملدر آمد کے لیے اقدامات وضع کرنا ہے۔

    :ٹرمپ کی ماحول دشمن پالیسیاں باعث تشویش

    کانفرنس کے دوران ہی امریکا میں صدارتی انتخابات کا مرحلہ مکمل ہوگیا اور ڈونلد ٹرمپ امریکا کے نئے صدر منتخب ہوگئے جس نے کانفرنس کے شرکا کو شدید تشویش میں مبتلا کردیا۔

    ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران ہی پیرس معاہدے سے دستبردار ہونے کا عندیہ دے چکے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ٹرمپ کے ماحول دشمن اقدامات

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کوئی بھی ایک ملک یہ معاہدہ ختم تو نہیں کر سکتا، لیکن اگر امریکا اس معاہدے سے دستبردار ہوجاتا ہے اور صدر اوباما کے داخلی سطح پر کیے گئے اقدامات کو روک دیا جاتا ہے تو دنیا بھر میں کلائمٹ چینج کے سدباب کے لیے کی جانے والی کوششوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔

    trump-2-2

    صرف یہی نہیں ٹرمپ کے انتخابی منشور میں ماحول دشمن اقدامات بھرے پڑے ہیں جس سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ امریکا، جو پہلے ہی کاربن کا اخراج کرنے والے ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے، مزید زہریلی گیسوں کا اخراج کرے گا جس کے بعد دنیا بھر میں ماحول کی بہتری کے لیے جاری اقدامات خطرے کا شکار ہوگئے ہیں۔

    ٹرمپ کے ان اقدامات میں امریکا میں کوئلے کی صنعت کی بحالی اور صدر اوباما کے شروع کیے گئے تمام ماحول دوست منصوبوں کو ختم کرنا سرفہرست ہے۔

    پاکستان کہاں کھڑا ہے؟

    دوسری جانب پاکستان اس منصوبے پر عملدر آمد کے حوالے سے نہایت سنجیدہ ہے اور چند روز قبل ہی پاکستان کی جانب سے پیرس معاہدے کی توثیق کی جاچکی ہے۔

    پاکستان اس معاہدے کی توثیق کر کے اب اس بات کا پابند ہوچکا ہے کہ وہ داخلی سطح پر کلائمٹ چینج سے نمٹنے کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھائے گا، اور خارجی سطح پر ایسی تمام کوششوں کی حمایت کرے گا جو دنیا کو ماحولیاتی نقصانات سے بچانے کے لیے کی جارہی ہیں۔

  • دنیا کو بچانے کے لیے کتنے ممالک سنجیدہ؟

    دنیا کو بچانے کے لیے کتنے ممالک سنجیدہ؟

    نیویارک: دنیا بھر کے درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ سے نمٹنے کے لیے گذشتہ برس پیرس میں ہونے والی کلائمٹ چینج کی عالمی کانفرنس میں ایک تاریخی معاہدہ پیش کیا گیا جس میں پاکستان سمیت 195 ممالک نے اس بات کا عزم کیا کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ان کی صنعتی ترقی عالمی درجہ حرارت میں 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد اضافہ نہ کرے۔

    اس معاہدے پر 191 ممالک نے دستخط کیے جبکہ 60 ممالک ایسے ہیں جنہوں نے اس معاہدے کی توثیق کردی ہے لیکن اقوام متحدہ کے مطابق ان ممالک کا کاربن گیسوں کے اخراج میں صرف 47 فیصد حصہ ہے۔

    paris_accord1

    واضح رہے کہ فیکٹریوں سے خارج ہونے والا زہریلا دھواں فضا میں کاربن گیس کی مقدار بڑھا دیتا ہے جس سے نہ صرف ماحول، انسان اور جنگلی حیات کو شدید خطرات لاحق ہیں بلکہ یہ گیس آسمان میں جا کر عالمی درجہ حرات میں اضافہ کا سبب بھی بن رہی ہے یعنی دنیا کے اکثر ممالک میں موسم گرم ہوگیا ہے۔

    ان زہریلی گیسوں جسے گرین ہاؤس گیس بھی کہا جاتا ہے کے اخراج میں سب سے آگے چین اور امریکا ہیں جو معاہدے کے دستخط کنندہ ہیں۔

    رواں برس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں 31 مزید ممالک نے اس معاہدے کی توثیق کی ہے جس کے بعد دنیا کو کلائمٹ چینج کے خطرات سے بچانے کی کوششوں کا اعادہ کرنے والے ممالک کی تعداد 60 ہوگئی ہے۔

    global-warming-2

    اقوام متحدہ کو امید ہے کہ رواں برس مراکش میں جب کلائمٹ چینج کی سالانہ عالمی کانفرنس منعقد ہوگی اس وقت تک تمام دستخط کنندہ ممالک اس معاہدے کی توثیق کر چکے ہوں گے اور دنیا کو بچانے کے لیے عملی کوششوں کا آغاز ہوجائے گا۔

    ان کوششوں کے تحت کئی ممالک اپنی توانائی کی ضروریات قدرتی ذرائعوں (سورج، ہوا، پانی) سے پورا کرنے، ماحول دوست بجلی کے آلات متعارف کروانے، ماحول کے لیے نقصان دہ پلاسٹک پر پابندی عائد کرنے، جنگلی حیات اور جنگلات کے تحفظ کرنے، قدرتی ذرائع جیسے گلیشیئر اور جھیلوں، دریاؤں کا تحفظ کرنے اور مختلف آفات سے متاثر ہونے کے خدشے کا شکار آبادیوں کی تربیت جیسے اقدامات کر رہے ہیں۔

    رواں برس مراکش میں کلائمٹ چینج کی عالمی کانفرنس میں ان امیر ممالک سے جو کاربن کے اخراج کا سبب بن رہے ہیں، اس بات کا بھی مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ غریب اور گلوبل وارمنگ کے نقصانات کا شکار ممالک کو معاشی طور پر بھی سہارا دیں تاکہ وہ اپنے نقصانات کا ازالہ کرسکیں۔