Tag: پیرس کلائمٹ ڈیل

  • پاکستان کی ماحولیاتی نقصانات کے سدباب کے لیے عالمی معاہدے کی توثیق

    پاکستان کی ماحولیاتی نقصانات کے سدباب کے لیے عالمی معاہدے کی توثیق

    نیویارک: پاکستان نے انسداد ماحولیاتی نقصانات کے لیے طے کیے جانے والے معاہدے پیرس کلائمٹ ڈیل کی توثیق کردی ہے جس کے بعد اب پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہوگیا ہے جو دنیا بھر میں موسمیاتی تغیرات (کلائمٹ چینج) کے نقصانات سے بچانے کے لیے سنجیدہ اقدامات پر عمل کریں گے۔

    آج صبح نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں ہونے والی ایک پروقار تقریب میں پاکستانی مندوب ملیحہ لودھی نے معاہدے کی توثیقی دستاویز پیش کی۔ پاکستان اس معاہدے کی توثیق کرنے والا ایک سو چوتھا ملک ہے جبکہ اب تک 105 ممالک اس معاہدے کی توثیق کر چکے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ٹرمپ ماحول کے لیے دشمن صدر؟

    یہ تاریخی معاہدہ سنہ 2015 میں پیرس میں ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں طے پایا تھا جس پر 195 ممالک نے دستخط کر کے اس بات کا عزم کیا تھا کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے۔ دنیا بھر میں ہونے والی صنعتی ترقی مضر گیسوں کے اخراج کا باعث بن رہی ہے جو ایک طرف تو دنیا کی فضا کو آلودہ کر رہی ہیں، دوسری جانب یہ دنیا بھر کے موسم کو بھی گرم (گلوبل وارمنگ) کر رہی ہیں۔

    پاکستان سمیت اس معاہدے کی توثیق کرنے والے ممالک اب اس بات کے پابند ہیں کہ وہ ماحول دوست پالیسیوں کو فروغ دیں گے، قدرتی ذرائع جیسے سورج اور ہوا سے توانائی پیدا کریں گے اور ماحول اور جنگلی حیات کو بچانے کے ہر ممکن اقدامات کریں گے۔

    مزید پڑھیں: دنیا کو بچانے کے لیے کتنے ممالک سنجیدہ؟

    یہی نہیں، معاہدے کے تحت امیر ممالک کو اس بات کا پابند بھی کیا گیا ہے کہ وہ ان ممالک کی مالی امداد کریں گے جو کلائمٹ چینج کے نقصانات سے متاثر ہو رہے ہیں۔

    خیال رہے کہ دنیا بھر میں مضر (گرین ہاؤس) گیسوں خصوصاً کاربن کے اخراج کے سب سے زیادہ ذمہ دار امیر اور ترقی یافتہ ممالک ہی ہیں جن میں پہلا نمبر چین اور دوسرا امریکا کا ہے۔ کاربن گیسوں کے اخراج میں ترقی پذیر ممالک کا حصہ تو نہیں، لیکن یہ اس کے مضر اثرات (سیلاب، شدید گرمی، قحط) کا بری طرح شکار ہو رہے ہیں۔

    مزید پڑھیں: پاکستانی شمالی علاقوں میں گلیشیئرز پگھلنے کی رفتار میں اضافہ

    پاکستان اس معاہدے کی توثیق کر کے اب اس بات کا پابند ہوچکا ہے کہ وہ داخلی سطح پر کلائمٹ چینج سے نمٹنے کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھائے گا، اور خارجی سطح پر ایسی تمام کوششوں کی حمایت کرے گا جو دنیا کو ماحولیاتی نقصانات سے بچانے کے لیے کی جارہی ہیں۔

    یاد رہے کہ گزشتہ برس پیرس میں ہونے والی عالمی کانفرنس میں وزیر اعظم نواز شریف نے بھی شرکت کی تھی، اور رواں برس جب اس معاہدے پر دستخط کیے جارہے تھے تب ویر اعظم اور صدر ممنون کی خصوصی ہدایت کے بعد وزیر داخلہ چوہدری نثار نے اس پر دستخط کیے تھے۔

  • ٹرمپ ماحول کے لیے دشمن صدر؟

    ٹرمپ ماحول کے لیے دشمن صدر؟

    واشنگٹن: امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلد ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ صدر اوباما کے دور میں کیے گئے بیشتر معاہدوں کو منسوخ اور پالیسیوں کو تبدیل کردیں گے جس سے دنیا بھر میں تشویش کی شدید لہر دوڑ گئی ہے۔

    اگر وہ حقیقتاً اپنی اس بات پر عمل کر بیٹھے تو دنیا بھر میں موسمیاتی تغیرات اور ماحولیاتی نقصانات کے سدباب کے لیے کی جانے والی پیرس کلائمٹ ڈیل کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

    یہ معاہدہ گزشتہ برس پیرس میں ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کی عالمی کانفرنس میں طے پایا تھا۔ اس تاریخی معاہدے پر 195 ممالک نے دستخط کیے تھے کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے۔ دنیا بھر میں ہونے والی صنعتی ترقی مضر (گرین ہاؤس) گیسوں کے اخراج کا باعث بن رہی ہے جو ایک طرف تو دنیا کی فضا کو آلودہ کر رہی ہیں، دوسری جانب یہ دنیا بھر کے موسم کو بھی گرم (گلوبل وارمنگ) کر رہی ہیں۔

    اس معاہدے کی توثیق کرنے والے ممالک اس بات کے پابند ہیں کہ وہ ماحول دوست پالیسیوں کو فروغ دیں گے، قدرتی ذرائع جیسے سورج اور ہوا سے توانائی پیدا کریں گے اور ماحول اور جنگلی حیات کو بچانے کے ہر ممکن اقدامات کریں گے۔

    مزید پڑھیں: دنیا کو بچانے کے لیے کتنے ممالک سنجیدہ؟

    یہی نہیں وہ ان ممالک کی مالی امداد بھی کریں گے جو کلائمٹ چینج یا ماحولیاتی تبدیلیوں کے نقصانات سے متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ ممالک عموماً ترقی پذیر ممالک ہیں اور کاربن گیسوں کے اخراج میں تو ان کا حصہ نہیں، لیکن یہ اس کے مضر اثرات (سیلاب، شدید گرمی، قحط) کا بری طرح شکار ہو رہے ہیں۔

    امریکا بھی اس معاہدے کی توثیق کرنے والے ممالک میں شامل ہے تاہم ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد اب اس معاہدے پر تشویش کے سائے منڈلانے لگے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق کوئی بھی ایک ملک یہ معاہدہ ختم تو نہیں کر سکتا لیکن اگر امریکا اس معاہدے سے دستبردار ہوجاتا ہے اور صدر اوباما کے داخلی سطح پر کیے گئے اقدامات کو روک دیا جاتا ہے تو دنیا بھر میں کلائمٹ چینج کے سدباب کے لیے کی جانے والی کوششوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔

    خیال رہے کہ امریکا اس وقت کاربن سمیت دیگر نقصان دہ (گرین ہاؤس) گیسوں کا سب سے زیادہ اخراج کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔

    مزید پڑھیں: کاربن گیس پہلے سے زیادہ خطرناک

    فرانس کی وزیر ماحولیات اور گزشتہ ماحولیاتی کانفرنس کی سربراہ سیگولین رائل کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ اچانک اس معاہدے سے دستبردار نہیں ہوسکتے۔ معاہدے کی شق کے مطابق 3 سال سے قبل کوئی ملک معاہدے سے دستبردار نہیں ہوسکتا۔ علاوہ ازیں اگر کوئی ملک پیچھے ہٹنا بھی چاہے تو اسے کم از کم ایک سال قبل باقاعدہ طور پر اس سے آگاہ کرنا ہوگا۔ ’گویا ہمارے پاس ابھی 4 سال کا وقت ہے‘۔

    لیکن انہوں نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’جس معاہدے کو تیار کرنے اور پوری دنیا کو ایک صفحہ پر لانے میں 20 سال سے زائد کا عرصہ لگا، امریکا اس معاہدے سے بآسانی دستبردار ہوجائے گا‘۔

    واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم میں کئی بار کلائمٹ چینج کو ایک وہم اور مضحکہ خیز چیز قرار دے چکے ہیں۔ اس کے برعکس شکست خوردہ صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن کلائمٹ چینج اور دیگر ماحولیاتی نقصانات سے بچاؤ کے لیے اقدامات اٹھانے میں سنجیدہ تھیں۔

    ٹرمپ ۔ ماحول دشمن صدر؟

    لیکن بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ ٹرمپ کا انتخابی منشور ماحول دشمن اقدامات سے بھرا پڑا ہے۔ انہوں نے امریکا کی دم توڑتی کوئلے کی صنعت کو دوبارہ بحال کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے یعنی اب امریکا میں بیشتر توانائی منصوبے کوئلے سے چلائے جائیں گے۔

    trump-2

    یہی نہیں وہ گیس اور تیل کے نئے ذخائر کی تلاش کا ارادہ بھی رکھتے ہیں جن کے لیے کی جانے والی ڈرلنگ اس علاقے کے ماحول پر بدترین اثرات مرتب کرتی ہے۔

    انہوں نے یہ بھی کہہ رکھا ہے کہ کلائمٹ چینج کے سدباب کے سلسلے میں تمام پروگراموں کے لیے اقوام متحدہ کی تمام امداد بند کر دی جائے گی۔

    :صدر اوباما ۔ ماحول دوست صدر

    اس سے قبل صدر اوباما نے داخلی سطح پر کئی ماحول دوست منصوبے شروع کر رکھے تھے جن کے لیے ٹرمپ واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ وہ انہیں ختم کردیں گے۔

    مزید پڑھیں: صدر اوباما کی ماحولیاتی تحفظ کے لیے کوششیں

    صدر اوباما نے کلائمٹ چینج کو قومی سلامتی کے لیے ایک اہم خطرہ قرار دیتے ہوئے اسے قومی سلامتی پالیسی کا حصہ بنانے کی منظوری دی تھی تاہم اس کے لیے انہوں نے ایوان نمائندگان میں موجود ری پبلکن اراکین سے کئی بحث و مباحثے کیے تھے۔

    obama-3

    ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح دیگر ری پبلکن بھی صرف دہشت گردی کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں جبکہ کلائمٹ چینج ان کے نزدیک غیر اہم مسئلہ ہے۔

    صدر اوباما کی انسداد ماحولیاتی تبدیلی کی حکمت عملی میں ماہرین نے اس کی وضاحت یوں کی تھی کہ کلائمٹ چینج فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور اس کے باعث قدرتی آفات میں ہونے والا اضافہ ہمیں اس بات پر مجبور کرے گا کہ ایمرجنسی اقدامات کے شعبوں میں بجٹ کا بڑا حصہ صرف کیا جائے۔

    obama-2

    ماہرین کے مطابق امریکا کے علاوہ بھی دنیا بھر میں قحط اور سیلاب کے باعث امن و امان کی صورتحال پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور امن و امان کی خراب صورتحال لوگوں کو ان کے گھر چھوڑنے پر مجبور کردے گی جس کے بعد دنیا کو پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد اور ان کے مسائل کی میزبانی کرنی ہوگی۔

    مزید پڑھیں: ماحولیاتی تبدیلی جنگوں کی وجہ بن سکتی ہے

    امریکا کے نئے صدر ٹرمپ ایک ماحول دشمن صدر ثابت ہوں گے یا نہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا، تاہم ان کی فتح نے دنیا بھر میں ماحول اور زمین کا احساس کرنے والے افراد کو سخت پریشانی میں مبتلا کردیا ہے۔

  • ایفل ٹاور ہرا بھرا ہوگیا

    ایفل ٹاور ہرا بھرا ہوگیا

    پیرس: فرانس کے دارالحکومت پیرس میں اس وقت خوبصورت نظارے دیکھنے میں آئے جب ایفل ٹاور سمیت پیرس کے تاریخی مقامات سبز روشنیوں میں نہا گئے۔

    یہ سبز روشنیاں دراصل اس بات کی خوشی میں روشن کی گئیں کہ گزشتہ برس ماحولیاتی تبدیلیوں کے نقصانات کو کم کرنے کے لیے کی جانے والی پیرس کلائمٹ ڈیل اب عالمی قوانین کا حصہ ہے۔

    paris-2

    paris-3

    paris-4

    paris-5

    اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے ان ممالک نے اس معاہدے کی توثیق کر کے اسے اپنی پالیسیوں اور قانون کا حصہ بنا لیا ہے جو دنیا میں مضر گیسوں کے اخراج میں سب سے زیادہ حصہ دار ہیں۔

    ایفل ٹاور اور پیرس کی یادگار محراب کو سبز رنگ میں روشن کرنا ماحول دوستی اور اور زمین کے تحفظ کی طرف اشارہ ہے۔

    گزشتہ برس پیرس میں کلائمٹ چینج کی عالمی کانفرنس میں 195 ممالک نے اس تاریخی معاہدے پر دستخط کیے کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے۔ دنیا بھر میں ہونے والی صنعتی ترقی مضر گیسوں کے اخراج کا باعث بن رہی ہے جو ایک طرف تو دنیا کی فضا کو آلودہ کر رہی ہیں، دوسری جانب یہ دنیا بھر کے موسم کو بھی گرم (گلوبل وارمنگ) کر رہی ہیں۔

    اس معاہدے کی توثیق کرنے والے ممالک اب اس بات کے پابند ہیں کہ وہ ماحول دوست پالیسیوں کو فروغ دیں گے، قدرتی ذرائع جیسے سورج اور ہوا سے توانائی پیدا کریں گے اور ماحول اور جنگلی حیات کو بچانے کے ہر ممکن اقدامات کریں گے۔

    دنیا کے ماحول دوست ممالک کون سے ہیں؟ *

    یہی نہیں وہ ان ممالک کی مالی امداد بھی کریں گے جو کلائمٹ چینج کے نقصانات سے متاثر ہورہے ہیں۔ یہ ممالک عموماً ترقی پذیر ممالک ہیں اور کاربن گیسوں کے اخراج میں تو ان کا حصہ نہیں، لیکن یہ اس کے مضر اثرات (سیلاب، شدید گرمی، قحط) کا بری طرح شکار ہورہے ہیں۔

    گلوبل وارمنگ سے عالمی معیشتوں کو 2 کھرب پاؤنڈز نقصان کا خدشہ *

    پاکستان بھی اس معاہدے کا دستخط کنندہ ہے۔

    اب تک جن ممالک نے اس معاہدے کی توثیق کی ہے وہ، وہ ممالک ہیں جن کا کاربن اخراج بہت زیادہ ہے۔ اگر وہ معاہدے کے تحت اپنے کاربن اخراج کو کم کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ یہ موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج اور گلوبل وارمنگ یعنی عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے نقصانات کو کم کرنے کی جانب ایک بڑا قدم ہوگا۔

  • دنیا کو بچانے کے لیے کتنے ممالک سنجیدہ؟

    دنیا کو بچانے کے لیے کتنے ممالک سنجیدہ؟

    نیویارک: دنیا بھر کے درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ سے نمٹنے کے لیے گذشتہ برس پیرس میں ہونے والی کلائمٹ چینج کی عالمی کانفرنس میں ایک تاریخی معاہدہ پیش کیا گیا جس میں پاکستان سمیت 195 ممالک نے اس بات کا عزم کیا کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ان کی صنعتی ترقی عالمی درجہ حرارت میں 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد اضافہ نہ کرے۔

    اس معاہدے پر 191 ممالک نے دستخط کیے جبکہ 60 ممالک ایسے ہیں جنہوں نے اس معاہدے کی توثیق کردی ہے لیکن اقوام متحدہ کے مطابق ان ممالک کا کاربن گیسوں کے اخراج میں صرف 47 فیصد حصہ ہے۔

    paris_accord1

    واضح رہے کہ فیکٹریوں سے خارج ہونے والا زہریلا دھواں فضا میں کاربن گیس کی مقدار بڑھا دیتا ہے جس سے نہ صرف ماحول، انسان اور جنگلی حیات کو شدید خطرات لاحق ہیں بلکہ یہ گیس آسمان میں جا کر عالمی درجہ حرات میں اضافہ کا سبب بھی بن رہی ہے یعنی دنیا کے اکثر ممالک میں موسم گرم ہوگیا ہے۔

    ان زہریلی گیسوں جسے گرین ہاؤس گیس بھی کہا جاتا ہے کے اخراج میں سب سے آگے چین اور امریکا ہیں جو معاہدے کے دستخط کنندہ ہیں۔

    رواں برس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں 31 مزید ممالک نے اس معاہدے کی توثیق کی ہے جس کے بعد دنیا کو کلائمٹ چینج کے خطرات سے بچانے کی کوششوں کا اعادہ کرنے والے ممالک کی تعداد 60 ہوگئی ہے۔

    global-warming-2

    اقوام متحدہ کو امید ہے کہ رواں برس مراکش میں جب کلائمٹ چینج کی سالانہ عالمی کانفرنس منعقد ہوگی اس وقت تک تمام دستخط کنندہ ممالک اس معاہدے کی توثیق کر چکے ہوں گے اور دنیا کو بچانے کے لیے عملی کوششوں کا آغاز ہوجائے گا۔

    ان کوششوں کے تحت کئی ممالک اپنی توانائی کی ضروریات قدرتی ذرائعوں (سورج، ہوا، پانی) سے پورا کرنے، ماحول دوست بجلی کے آلات متعارف کروانے، ماحول کے لیے نقصان دہ پلاسٹک پر پابندی عائد کرنے، جنگلی حیات اور جنگلات کے تحفظ کرنے، قدرتی ذرائع جیسے گلیشیئر اور جھیلوں، دریاؤں کا تحفظ کرنے اور مختلف آفات سے متاثر ہونے کے خدشے کا شکار آبادیوں کی تربیت جیسے اقدامات کر رہے ہیں۔

    رواں برس مراکش میں کلائمٹ چینج کی عالمی کانفرنس میں ان امیر ممالک سے جو کاربن کے اخراج کا سبب بن رہے ہیں، اس بات کا بھی مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ غریب اور گلوبل وارمنگ کے نقصانات کا شکار ممالک کو معاشی طور پر بھی سہارا دیں تاکہ وہ اپنے نقصانات کا ازالہ کرسکیں۔

  • بدترین فضائی آلودگی کا شکار 10 ممالک

    بدترین فضائی آلودگی کا شکار 10 ممالک

    جنیوا: عالمی اقتصادی فورم ورلڈ اکنامک فورم کی جانب سے آلودگی کے باعث سب سے زیادہ اموات والے ممالک کی فہرست جاری کی گئی ہے جس میں وسطی ایشیا اور یورپ کے سنگم پر واقع ملک جارجیا ایک لاکھ کی آبادی میں سے 293 افراد کے ساتھ سرفہرست ہے۔

    رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں فضائی آلودگی سے ہر روز 18 ہزار افراد کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق سالانہ یہ شرح 6.5 ملین ہے اور یہ تعداد ایڈز، ٹی بی اور سڑک پر ہونے والے حادثات کی مجموعی اموات سے بھی زیادہ ہے۔

    pollution-2

    فضائی آلودگی صنعتوں اور ٹریفک کے دھویں، سگریٹ نوشی اور کھانا پکانے کا دھویں کے باعث پیدا ہوتی ہے اور یہ انسانی صحت کو لاحق چوتھا بڑا جان لیوا خطرہ ہے۔ ماہرین کے مطابق فضائی آلودگی سے ایشیا اور افریقہ میں قبل از وقت اموات میں اضافہ ہوا ہے جبکہ امریکا اور یورپ میں اس شرح میں کمی آئی ہے۔

    فضائی آلودگی پوری دنیا میں پائی جاتی ہے مگر چند ممالک میں یہ بلند ترین سطح پر ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم نے دنیا کے ان 10 ممالک کی فہرست جاری کی ہے جہاں آلودگی کے باعث سب سے زیادہ اموات ہوتی ہیں۔

    فہرست میں جارجیا ایک لاکھ کی آبادی میں سے 293 افراد کی اموات کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے۔

    pollution-3

    شمالی کوریا 235 افراد کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ شمالی کوریا کی فضائی آلودگی کی سب سے بڑی وجہ ایندھن کی ضروریات کے لیے کوئلے کا استعمال ہے۔ 2012 میں شمالی کورین کوئلے کی صنعت نے 65 ملین ٹن کاربن کا اخراج کیا گیا۔

    مزید پڑھیں: کاربن اخراج کو ٹھوس بنانے کا طریقہ

    بوسنیا ہرزگووینیا 224 افراد کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ یہاں آلودگی کی بڑی وجہ ٹریفک کا دھواں ہے۔

    بلغاریہ 175 افراد کے ساتھ چوتھے، البانیہ 172 افراد کے ساتھ پانچویں نمبر پر ہے۔

    دنیا کی ایک بڑی معاشی طاقت چین میں فضائی آلودگی کے باعث 164 افراد ہلاک ہوجاتے ہیں اور فہرست میں یہ چھٹے نمبر پر ہے۔ چین اپنی ایندھن کی ضروریات زیادہ تر کوئلے سے پوری کرتا ہے اور یہی اس کی فضائی آلودگی کی وجہ ہے۔

    pollution-1

    ساتویں نمبر پر افریقی ملک سیرالیون 143 اموات کے ساتھ ہے۔ یہاں گھروں کے اندر جلایا جانے والا ایندھن فضائی آلودگی کا ایک بڑا سبب ہے۔

    یوکرین 140 افراد کے ساتھ آٹھویں نمبر پر موجود ہے۔ یوکرین میں گرمیوں کے موسم میں جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات عام ہیں جس کے باعث فضائی آلودگی میں بے تحاشہ اضافہ ہوچکا ہے۔

    مزید پڑھیں: جنگلات کی آگ سے کلائمٹ چینج میں اضافہ کا خدشہ

    رومانیہ 139 افراد کے ساتھ نویں جبکہ سربیا 138 اموات کے ساتھ دسویں نمبر پر موجود ہے۔

    فضائی آلودگی کی ایک بڑی وجہ صنعتوں سے نکلنے والا کاربن کا اخراج ہے جس کے سدباب کے لیے رواں سال کے آغاز میں ایک معاہدے پیرس کلائمٹ ڈیل پر دستخط کیے گئے ہیں۔ معاہدے کے مطابق 195 ممالک نے اس بات کا عہد کیا ہے کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ان کی صنعتوں سے خارج ہونے والا کاربن عالمی درجہ حرارت میں 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد اضافہ نہ کرے۔

    پاکستان بھی اس معاہدے پر دستخط کرچکا ہے اور یوں کلائمٹ چینج یعنی موسمیاتی تغیر اور گلوبل وارمنگ یعنی عالمی درجہ حرارت میں اضافہ کے خلاف کی جانے والی عالمی کوششوں کا حصہ ہے۔