Tag: پیر علی محمد راشدی

  • پیر علی محمد راشدی: سیاست سے ادب تک

    پیر علی محمد راشدی: سیاست سے ادب تک

    پیر علی محمد راشدی اُن شخصیات میں سے ایک ہیں‌ جنھوں‌ نے برصغیر میں تاریخی اہمیت کی حامل قراردادِ پاکستان کی ڈرافٹنگ کا کام سَر انجام دیا۔ وہ تحریکِ پاکستان کے کارکن اور قائد اعظم محمد علی جناح کے رفقا میں سے ایک تھے۔

    قیامِ پاکستان کے بعد پیر علی محمد راشدی نے مختلف سرکاری عہدوں پر خدمات انجام دیں۔ لیکن سیاست اور سفارت کاری کے علاوہ انھیں ایک صحافی، مؤرخ اور ادیب کی حیثیت سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ پیر علی محمد راشدی 14 مارچ 1987ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    علی محمد راشدی نے اردو، انگریزی اور سندھی زبانوں میں لکھا اور صحافت سے سیاست تک اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کو منوایا۔ وہ 1905ء میں‌ سندھ کے ضلع لاڑکانہ کے چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مسلم لیگ قائدِ اعظم کی شمولیت اور بعد میں ان کی قیادت میں تاریخی فیصلے کرنے جارہی تھی۔ پیر صاحب نے بھی اس دور میں‌ جلسے جلوس اور آزادی سے متعلق بڑے لوگوں کی جدوجہد اور ان کی سیاسی سرگرمیاں دیکھیں‌ اور پھر تحریکِ پاکستان کا حصّہ بنے۔ ان کا تعلق سندھ کے ممتاز روحانی گھرانے سے تھا۔ پیر صاحب نے کسی اسکول یا کالج سے تعلیم حاصل نہیں کی بلکہ گھر پر اپنی علمی استعداد بڑھائی اور اہلِ علم کی مجالس اور بڑے لوگوں کی صحبت میں رہ کر قابلیت میں اضافہ کیا۔ انھیں‌ لکھنے لکھانے کا شوق ہوا تو صحافت کی طرف آنکلے اور اس میدان میں بحیثیت قلم کار شہرت پائی۔ علی محمد راشدی نے صحافتی زندگی کے ساتھ ہی ادبی اور سیاسی سفر کا آغاز بھی کردیا۔ سیاست میں‌ انھوں نے پہلا قدم 1924ء میں حیدر آباد میں سندھی تعلیمی کانفرنس کے بعد رکھا۔ اگلے برسوں‌ میں وہ نہایت متحرک اور فعال رہے اور قائد اعظم کے رفقاء میں ان کا شمار ہوا۔ انھوں نے مسلمانوں کی وکالت اور سیاسی اکابرین کے ساتھ ان کی جدوجہد میں بھرپور کردار ادا کیا۔ قیام پاکستان کے بعد کئی عہدوں پر فائز رہے اور مختلف تنظیموں اور مجالس کے رکن بنائے گئے۔ اس کے علاوہ پیر صاحب نے ادب، تاریخ و ثقافت اور تحقیق کے میدان میں‌ بھی نمایاں کام کیا۔ بالخصوص راشدی صاحب نے سندھ کی تاریخ پر مضامین اور تحقیقی مقالے تحریر کیے، جو ان کا بڑا کام ہے۔ پیر علی محمد راشدی کی یادداشت پر مبنی سندھی زبان میں کتاب اھے ڈینھن اھے شینھن کو کلاسک کا درجہ حاصل ہے۔ یہ کتاب تین جلدوں پر مشتمل ہے۔

    پیر صاحب کو اپنے سیاسی سفر اور حکومتی عہدے پر فائز ہونے کے بعد مختلف مواقع پر مخالفت بھی برداشت کرنا پڑی اور علمی و ادبی میدان میں بھی ان کو بعض خامیوں اور کم زوریوں کی بنیاد پر مطعون کیا گیا جب کہ مختلف حلقوں میں ان کی مخالفت اور ناپسندیدگی بھی عروج پر رہی، لیکن علم و ادب کی دنیا میں ان خدمات کا اعتراف بھی کیا جاتا ہے۔ ان کی چند تصانیف میں رودادِ چمن (اردو)، فریادِ سندھ (سندھی)، چین جی ڈائری (سندھی)، ون یونٹ کی تاریخ (اردو)، کراچی کی کہانی (اردو) شامل ہیں۔

  • معروف ادیب، صحافی اور سیاست داں پیر علی محمد راشدی کا یومِ وفات

    معروف ادیب، صحافی اور سیاست داں پیر علی محمد راشدی کا یومِ وفات

    پاکستان کے ممتاز سیاست دان، صحافی، مؤرخ، سفارت کار اور ادیب پیر علی محمد راشدی 14 مارچ 1987ء کو وفات پاگئے تھے۔ وہ تحریکِ پاکستان کے کارکن اور قائد اعظم محمد علی جناح کے رفقا میں سے ایک تھے جنھوں‌ نے قیامِ پاکستان کے بعد مختلف سرکاری عہدوں پر خدمات انجام دیں۔

    علی محمد راشدی کو ایک نہایت قابل علمی اور ادبی شخصیت اور زیرک سیاست داں مانا جاتا ہے، انھوں نے اردو، انگریزی اور سندھی زبانوں میں لکھا اور صحافت سے سیاست سے اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کو منوایا۔

    1905ء میں‌ ضلع لاڑکانہ کے چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہونے والے پیر علی محمد راشدی کو وفات کے بعد کراچی میں سپردِ خاک کیا گیا۔ ہر شخص کی زندگی خوبیوں اور خامیوں کا مرقع ہوتی ہے اور پیر علی محمد راشدی بھی اپنی علمی و ادبی حیثیت، سیاسی مرتبے اور قابلیت و صلاحیت کے باوجود مطعون کیے جاتے رہے اور مختلف حلقوں میں ناپسندیدہ رہے، لیکن علم و ادب کے حوالے سے ان خدمات کا دائرہ وسیع ہے جس کا اعتراف بھی کیا جاتا ہے۔

    ان کی چند کتابوں‌ میں رودادِ چمن (اردو)، فریادِ سندھ (سندھی)، چین جی ڈائری (سندھی)، ون یونٹ کی تاریخ (اردو)، کراچی کی کہانی (اردو) شامل ہیں جب کہ ان کے کئی مضامین اردو اور انگریزی زبان میں مختلف اخبار اور جرائد کی زینت بنے۔

  • کراچی کے بااصول، بے داغ منتظمین کا تذکرہ

    کراچی کے بااصول، بے داغ منتظمین کا تذکرہ

    حکومت کی باگ ڈور سندھ کے کمشنر کے ہاتھ میں تھی۔ سندھ کا موجودہ علاقہ بمبئی صوبے میں شامل تھا۔ بمبئی کی گورنری سے سندھ کے فاصلے کے سبب مقامی انتظام چلانے کے تمام اختیارات کمشنر کے سپرد کر دیے گئے تھے۔

    کمشنر بھی بڑے بڑے انگریز مقرر ہوتے تھے۔ مرد آدمی، منتظم، با اصول، بے داغ۔

    یوں نہ ہوتا تھا کہ کمشنر دوسری طرف گردن پھیرے تو خلقِ خدا اس کے کردار پر نکتہ چینی شروع کر دے کہ فلاں معاملے میں نامراد اتنی رقم کھا گیا، اسمگلنگ کرنے والوں سے حصّہ وصول کرتا ہے، اتنے بنگلے بنوا لیے ہیں، رشوت اور تعلّقات کی بنیاد پر نوکریاں اور ٹھیکے بانٹتا ہے، اپنے ضمیر، ایمان اور انصاف کے اصولوں کو ترک کر کے اپنے بالا دستوں کے اشارے پر غلط کام کرتا ہے اور جھوٹی رپورٹیں بھیجتا ہے۔

    کمشنر کی مدد کے لیے ایک گورا آئی سی ایس افسر بطور اسسٹنٹ کمشنر اور تین دیسی ڈپٹی کلکٹر مقرر ہوتے تھے۔ ان میں سے ایک کو نیٹِو اسسٹنٹ کمشنر کہا جاتا تھا۔ اس کا رابطہ پبلک سے ہوتا تھا۔ کمشنر کے سائے میں رہنے کی بدولت اس کی بھی بڑی دھاک ہوتی تھی۔ زمیں دار تو اس کے دروازے پر دھکّے کھایا کرتے تھے۔

    خان بہادر نبی بخش محمد حسین مرحوم، جو بعد میں کئی اونچے عہدوں سے ہوتے ہوئے آخر بہاولپور ریاست کے وزیرِ اعظم بنے، نام ور نیٹِو اسسٹنٹ کمشنر تھے۔ خلافت تحریک کے زمانے میں انھوں نے انگریزوں سے وفاداری کا ثبوت دیا اور اس کے نتیجے میں انگریز کمشنر کی ناک کا بال بن گئے۔

    سندھ کے وڈیروں کے معاملے میں سفید و سیاہ کا اختیار انہی کے پاس تھا۔ کسی کو کہل، کسی کو ڈمر، کسی کو کچھ خطاب دلواتے، کسی کو کمشنر کے دربار میں کرسی مرحمت فرماتے۔ فریئر ہال کے پاس ان کا بنگلا تھا۔ وڈیروں کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگے رہا کرتے۔ ان کا رہن سہن اور طرزِ تعلّق انگریزی نمونے کا تھا اور کسی کو خواہ مخواہ اپنے سے بے تکلّف نہ ہونے دیتے۔

    کراچی کے کلکٹر بھی سینیئر آئی سی ایس انگریز ہوتے۔ کیا شان تھی، کیا آن بان تھی! سب سے پرے رہتے۔ جسے اچھا سمجھتے اس کی عزت کرتے، مگر اس طریقے سے کہ وہ ان سے قربت کا ناجائز فائدہ نہ اٹھا سکے۔ جاڑوں میں شہر سے نکل کر ضلعے کا گشت کرتے۔ سامان اونٹوں پر، صاحب خود گھوڑے پر، اپنا خرچ، اپنا کھانا پینا، نہ بک بک نہ جھک جھک۔

    ان کے سرشتے دار، کارندے اور پٹّے والے البتّہ مختار کاروں اور تپّے داروں سے رسائی (مہمانی) وصول کیا کرتے مگر اس کی مقدار ایسی "کمر توڑ” نہ ہوتی تھی۔ دودھ، گھی، سیر دو سیر آٹا اور چاول، اور ایک آدھ مرغ وغیرہ۔

    اگر صاحب کے باورچی خانے کے لیے کسی چیز کی ضرورت پڑتی تو صاحب اس کا بِل اپنی جیب سے ادا کرتے۔

    (سندھ کے معروف راشدی خاندان کے پیر علی محمد راشدی سیاست، صحافت اور علم و ادب میں‌ ممتاز ہوئے، جن کی کراچی سے متعلق یادوں کی لفظی جھلکیوں‌ سے یہ پارہ منتخب کیا گیا ہے)

  • کراچی میں کبھی برسات کے بعد بچّے بیر بہوٹیاں اور تتلیاں پکڑتے تھے!

    کراچی میں کبھی برسات کے بعد بچّے بیر بہوٹیاں اور تتلیاں پکڑتے تھے!

    صوبہ سندھ، بالخصوص کراچی جو ملک کا دارالخلافہ بھی رہا ہے، تقسیم سے پہلے انگریز دور میں سہولیات اور شہری انتظام و انصرام کے حوالے سے بھی بہت بہتر تھا، لیکن بعد میں بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ساتھ کارخانوں، بے ہنگم رہائشی تعمیرات اور سڑکوں پر بے تحاشا موٹر گاڑیوں نے اس کی آب و ہوا اور ماحول کو بڑا نقصان پہنچایا۔

    شہر میں آلودگی بڑھتی گئی جس کے مضر اثرات یہاں کی آب و ہوا، باغات، سبزہ و درختوں اور ان بے ضرر اور خوش نما حشرات پر بھی پڑے جو مختلف موسموں میں‌ نمودار ہوتے تھے۔ ان میں‌ تتلیاں اور بیربہوٹی شامل ہیں۔

    کراچی میں‌ بارش کے بعد جہاں حکومت اور انتظامیہ کو برساتی اور نکاسی آب کے بڑے نالوں کی صفائی نہ کروانے اور شہر کو برباد کر دینے کا ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے، وہیں کچھ بزرگ شہری ان دنوں کی یاد تازہ کررہے ہیں جب کراچی شہر کی آبادی کم تھی اور یہاں بارش کے بعد زندگی گویا کِھل اٹھتی تھی۔

    ممتاز صحافی، ادیب، مؤرخ، سیاست داں اور سفارت کار پیر علی محمد راشدی کی کتاب "کراچی کی کہانی” سے یہ لیا گیا یہ پارہ ایک ایسی برسات کی یاد دلاتا ہے جو کئی دہائیوں پہلے شہریوں کے لیے واقعی رحمت ثابت ہوتی تھی۔ وہ لکھتے ہیں:

    "کراچی میں تتلیاں بھی بے تحاشا ہوتی تھیں۔ خاص طور پر برسات کے بعد۔

    ہم بچوں نے تتلیوں کو مختلف نام دیے ہوئے تھے۔ سبز اور سیاہ بادشاہ تتلی، نارنجی پروں پر سیاہ و سفید دھبے والی ملکہ تتلی، نقرئی جامنی شہزادی تتلی۔

    انعام بھائی نے ایک چھوٹا سا جالی کا ڈبہ بھی بنایا تھا جس میں وہ تتلیوں کو پکڑ کر بند کرتے۔ مجھے اور نور الصباح کو تتلیاں چُھونے کا بڑا شوق تھا۔ ہم منت سماجت کر کے ڈبے سے تتلی نکلواتے پھر فخر کے ساتھ انگلیوں پر یہ اترے رنگ ایک دوسرے کو دکھاتے۔

    بارش کے بعد میدان میں بیر بہوٹیاں امنڈ آتیں اور سب بچے ماچس کی خالی ڈبیائیں لیے بیر بہوٹیوں کو پکڑنے میں شام کر دیتے۔ پھر اپنی اپنی ڈھونڈی ہوئی بیر بہوٹیاں گنی جاتیں اور پھیلی ہوئی ہتھیلیوں پر رکھی سرخ مخملی مخلوق پر انگلیاں پھیری جاتیں۔

    آج یہ بات یاد کرتے ہوئے بھی عجیب سا محسوس ہوتا ہے کہ کراچی میں کبھی بچے تتلیاں اور بیر بہوٹیاں پکڑا کرتے تھے۔”