Tag: پینٹاگون

  • پینٹاگون نے حساس دستاویزات افشا ہونے کو امریکی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دے دیا

    پینٹاگون نے حساس دستاویزات افشا ہونے کو امریکی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دے دیا

    واشنگٹن: امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے حساس دستاویزات افشا ہونے کو امریکی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دے دیا اور کہا امریکا اس اہم معاملے پر اتحادی ممالک کے ساتھ رابطے میں ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے حساس دستاویزات افشا ہونے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ حساس دستاویزات کا لیک ہوناقومی سلامتی کیلئے خطرہ ہے ، سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر خفیہ دستاویزات کے اصلی یا نقلی ہونے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

    ترجمان وائٹ ہاؤس جان کربی نے اس حوالے سے پریس بریفنگ میں بتایا کہ صدر بائیڈن کو خفیہ فوجی دستاویزات کے متعلق آگاہ کیا جا چکا ہے، امریکا اس اہم معاملے پر اتحادی ممالک کے ساتھ رابطے میں ہے۔

    گزشتہ ہفتے امریکا اور نیٹو کا یوکرین جنگ سے متعلق خفیہ منصوبہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پرجاری ہوا تھا، جس نے امریکی حساس اداروں کی سیکیورٹی پر سوالات اٹھا دئیے۔

    دستاویزات میں مبینہ طورپر ایسے چارٹس اور تفصیلات شامل ہیں، جن میں ہتھیاروں کی ترسیل، بٹالینز کی تعداد اور دیگر حساس معلومات موجود ہیں۔

    ان خفیہ دستاویزات میں یوکرین کو روس کے خلاف جارحانہ مقابلہ کرنے کے لیے تیار کرنے سے متعلق امریکہ اور نیٹو کے منصوبوں کی تفصیلات درج ہیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ یہ تفصیلات موسم بہار کے دوران روسی فوج کے خلاف یوکرین کے عسکری حملوں سے متعلق ہیں، یہ دستاویزات تقریباً پانچ ہفتے پرانی ہیں اور ان میں سے تازہ ترین دستاویز میں یکم مارچ کا حوالہ موجود ہے۔

    اخبار کے مطابق ایک دستاویز میں یوکرین کی 12 جنگی بریگیڈز کا تربیتی پروگرام تک موجود ہے اور اس میں کہا گیا ہے کہ ان میں سے نو کی تربیت امریکہ اور نیٹو کی فورسز نے کی۔ اسی دستاویز میں 250 ٹینکوں اور 350 سے زائد میکینائزڈ گاڑیوں کی ضرورت کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔

    یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان دستاویزات میں یوکرینی فوجی کنٹرول کے تحت گولہ بارود پر ہونے والے اخراجات کی تفصیلات بھی موجود ہیں۔ ان میں امریکی ساختہ آرٹلری راکٹ سسٹم یا ایچ آئی ایم اے آر ایس پر آنے والے اخراجات بھی شامل ہیں۔ یہ امریکی آرٹلری راکٹ سسٹم یوکرین میں روسی فوج کے خلاف انتہائی مؤثر ثابت ہوا ہے۔

    رپورٹ میں ایسے فوجی تجزیہ کاروں کے تجزیے بھی شامل ہیں، جنہوں نے متنبہ کیا ہے کہ بعض دستاویزات کو روس گمراہ کن اطلاعات پھیلانے کی اپنی مہم میں استعمال کرنے کی خاطر ممکنہ طور پر تبدیل بھی کرسکتا ہے۔

  • چین کی فوجی طاقت کے بارے میں پینٹاگون نے رپورٹ میں کیا کہا؟

    چین کی فوجی طاقت کے بارے میں پینٹاگون نے رپورٹ میں کیا کہا؟

    واشنگٹن: پینٹاگون نے ایک اہم رپورٹ میں چین کی فوجی طاقت کو امریکا کے لیے خطرہ قرار دے دیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکا چین کی تیزی سے بڑھتی ہوئی فوجی طاقت اور جوہری ہتھیاروں سے پریشان ہو گیا ہے، پینٹا گون نے اس سلسلے میں ایک رپورٹ میں اپنے خدشات کا اظہار کر دیا۔

    امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے خبردار کیا ہے کہ چین کے میزائل ٹیسٹ اور جوہری ہتھیار واشنگٹن کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں۔

    پینٹاگون کی جانب سے منگل کو جاری کردہ رپورٹ کے مطابق، اگر چین نے اپنی موجودہ جوہری تیاری کی رفتار کو جاری رکھا تو اس کے پاس ممکنہ طور پر 2035 تک 1,500 جوہری وار ہیڈز کا ذخیرہ ہو جائے گا۔

    چین کے سابق صدر انتقال کر گئے

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین عالمی بالا دستی کی شدید خواہش رکھتا ہے۔ چین سے متعلق پینٹاگون کی یہ رپورٹ کانگریس کو پیش کی جائے گی۔

    اس رپورٹ میں بنیادی طور پر 2021 میں ہونے والی سرگرمیوں کا احاطہ کیا گیا ہے، رپورٹ کے مطابق چین کے پاس اس وقت 400 سے زیادہ جوہری وار ہیڈز کا ذخیرہ ہے۔

    چین کا کہنا ہے کہ ہتھیاروں کو کم کرنے کے لیے بات چیت پر تیار ہے، لیکن صرف اس صورت میں جب واشنگٹن اپنے جوہری ذخیرے کو چین کی سطح تک کم کر دے۔ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (SIPRI) کے تھنک ٹینک کے مطابق، امریکا کے پاس تقریباً 3,700 جوہری وار ہیڈز کا ذخیرہ ہے، جن میں سے تقریباً 1,740 کو مختلف مقامات پر پوزیشن میں لایا جا چکا ہے۔

  • پاک فوج کے ساتھ مضبوط تعلقات جاری رہیں گے: ترجمان پینٹاگون

    پاک فوج کے ساتھ مضبوط تعلقات جاری رہیں گے: ترجمان پینٹاگون

    واشنگٹن: پینٹاگون نے کہا ہے کہ پاک فوج کے ساتھ امریکا کے مضبوط تعلقات جاری رہیں گے، ترجمان پینٹاگون نے ایک سوال پر کہا کہ پاکستان کی اندرونی سیاست کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔

    تفصیلات کے مطابق ترجمان پینٹاگون جان کربی نے بریفنگ میں کہا ہے کہ خطے میں سلامتی اور استحکام کے لیے پاکستان کے ساتھ مشترکہ مفادات ہیں، پاکستان کی اندرونی سیاست کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔

    ترجمان پینٹاگون سے سوال کیا گیا کہ حکومت پاکستان کی تبدیلی میں امریکا پر الزامات لگائے گئے ہیں، تاہم ترجمان جان کربی نے کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

    پاکستان نے امریکا اور بھارت کے حالیہ بیان کو ناپسندیدہ قرار دے دیا

    جان کربی نے کہا پاکستانی مسلح افواج کے ساتھ امریکا کے مضبوط ملٹری تعلقات ہیں، امید ہے پاک فوج کے ساتھ مضبوط تعلقات جاری رہیں گے۔

    ترجمان نے تسلیم کیا کہ پاکستان خطے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے، انھوں نے کہا پاکستانی عوام خود اپنے ہی ملک کے اندر دہشت گرد حملوں کا شکار ہیں۔

  • پینٹاگون نے یوکرین کے لیے لڑاکا طیارے امریکی اڈے بھیجنے پر کیا کہا؟

    پینٹاگون نے یوکرین کے لیے لڑاکا طیارے امریکی اڈے بھیجنے پر کیا کہا؟

    واشنگٹن: پینٹاگون نے یوکرین کے لیے لڑاکا طیارے امریکی اڈے بھیجنے کی پولینڈ کی پیش کش مسترد کر دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پولینڈ کی جانب سے جرمنی میں موجود امریکی اڈے پر یوکرین منتقل کرنے کے لیے جنگی طیارے بھیجنے کی پیش کش کی گئی تھی۔

    پینٹاگون کے پریس سیکریٹری جون کربی نے بدھ کو میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ وزیر دفاع لائیڈ آسٹن اور پولینڈ کے وزیر دفاع ماریُوز بلاسززاک نے ٹیلیفون پر بات چیت کی ہے، جس میں واشنگٹن نے امریکا سے متبادل طیاروں کے بدلے مِگ 29 لڑاکا جیٹ طیارے بھیجنے کی پولینڈ کی پیشکش رد کر دی۔

    مگ 29 طیارے اڑانے کے لیے یوکرینی پائیلٹ تربیت یافتہ ہیں، تاہم کوئی بھی ملک یہ طیارے یوکرین کو فراہم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، روس نے رواں ہفتے خبردار کیا تھا کہ جو ممالک حملوں کے لیے یوکرین کو ہوائی اڈے فراہم کریں گے وہ اس تنازعے میں براہِ راست ملوث سمجھے جائیں گے۔

    تاہم یوکرینی صدر ولودیمیر زیلنسکی ایک طاقت ور فوجی مدد پر زور دیتے رہے ہیں جس میں دیگر ملکوں سے لڑاکا طیارے بھی شامل ہیں۔

    جرمنی نے آنکھیں پھیر لیں

    کربی نے کہا کہ امریکا، یوکرین کو فضائی دفاع اور بکتر شکن نظاموں سمیت مختلف ہتھیار فراہم کر رہا ہے، جو حملے روکنے میں مدد دے رہے ہیں، لیکن لڑاکا جیٹ طیاروں کی فراہمی کو غلط طور پر معاملے کو بڑھانے والا سمجھا جا سکتا ہے۔

    امریکا کا مؤقف ہے کہ اگر یوکرین کو لڑاکا طیارے فراہم کیے گئے تو روس کی جانب سے اس کے نتیجے میں واضح ردِ عمل آ سکتا ہے، جس سے نیٹو کے ساتھ فوجی تناؤ بڑھنے کے امکانات میں بھی اضافے کا امکان ہے۔

  • پینٹاگون کے سابق عہدیدار نے شکست کا اعتراف کرلیا

    پینٹاگون کے سابق عہدیدار نے شکست کا اعتراف کرلیا

    واشنگٹن: امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگون) کے سابق چیف سافٹ ویئر افسر نکولس شیلان نے مصنوعی ذہانت کے میدان میں چین کے آگے اپنی شکست کا اعتراف کرلیا، انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی کے میدان میں چین آگے نکل چکا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگون) کے سابق چیف سافٹ ویئر افسر نکولس شیلان نے کہا ہے کہ مصنوعی ذہانت پر مشتمل ٹیکنالوجی کے میدان میں امریکا چین سے ہار چکا ہے اور آنے والے 15 سے 20 برسوں تک امریکا کی جیت کے امکانات نہیں ہیں۔

    حال ہی میں دیے گئے ایک انٹرویو میں نکولس نے بتایا کہ انہوں نے ٹیکنالوجی کے میدان میں تبدیلی اور اصلاحات میں سست روی کی وجہ سے استعفیٰ دیا تھا۔

    ان کے مطابق آرٹی فیشل انٹیلی جنس کے شعبے میں چین پہلے ہی امریکا کو شکست دے چکا ہے، عہدے پر برقرار رہتے ہوئے میں یہ نہیں دیکھ پایا کہ چین جیت رہا ہے لہٰذا میں نے استعفیٰ دے دیا۔

    نکولس کا کہنا تھا کہ عالمی غلبے کے لیے چین مصنوعی ذہانت میں جدت اور ترقی کی وجہ سے ہی آگے بڑھ رہا ہے، چین مشین لرننگ، سائبر صلاحیتوں اور ٹیکنالوجیکل ٹرانسفارمیشن میں آگے نکل چکا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ تقابل کے لحاظ سے دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ چین کے سامنے امریکی ٹیکنالوجی اب ایسی ہے جیسے کے جی کلاس میں پڑھتا ایک بچہ۔

    انہوں نے گوگل پر الزام عائد کیا کہ وہ امریکی محکمہ دفاع کے ساتھ کام کرنے سے انکاری ہے جبکہ دوسری طرف چین میں دیکھیں تو ہر چائنیز کمپنی حکومت کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہے اور بھاری سرمایہ کاری بھی کی جا رہی ہے، چین نے آرٹی فیشل انٹیلی جنس میں اخلاقی اقدار کو بالائے طاق رکھتے ہوئے زبردست سرمایہ لگایا ہے۔

    نکولس کا کہنا تھا کہ اگرچہ امریکا چین کے مقابلے میں اپنے دفاع پر تین گنا زیادہ خرچ کرتا ہے لیکن اس کا فائدہ اس لیے نہیں ہو رہا کیونکہ امریکا غلط شعبہ جات پر سرمایہ لگا رہا ہے، بیوروکریسی اور اضافی ضابطوں کی وجہ سے ان تبدیلیوں کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے جن کی امریکا کو اشد ضرورت ہے۔

    اپنے استعفے میں نکولس نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ براہ مہربانی کسی ایسے میجر یا کرنل کو ٹیکنالوجی کے شعبے کا سربراہ لگانے یا ایک سے چار ملین صارفین کے ڈیٹا کا کلاؤڈ حوالے کرنے سے گریز کریں جسے اس کام کا تجربہ ہی نہ ہو، کروڑوں ڈالر مالیت کا طیارہ بنانے کے بعد اسے اڑانے کے لیے بھی تو ایسے شخص کا انتخاب کیا جاتا ہے جسے سیکڑوں گھنٹے پرواز کا تجربہ ہو۔

    تو آخر ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ جسے آئی ٹی کا تجربہ ہی نہ ہو اسے ٹیکنالوجی کے شعبے کا سربراہ بنا دیا جائے؟ ایسے شخص کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ کرنا کیا ہے اور کس چیز کو ترجیح دینا ہے اور اس صورتحال کی وجہ سے اصل کام سے توجہ ہٹ جاتی ہے۔

  • امریکا نے بھی آواز کی رفتار سے تیز میزائل کا تجربہ کر لیا

    امریکا نے بھی آواز کی رفتار سے تیز میزائل کا تجربہ کر لیا

    واشنگٹن: امریکا نے بھی روس کے بعد آواز سے 5 گنا تیز رفتار ہائپر سانک کروز میزائل کا تجربہ کر لیا، چند دن قبل شمالی کوریا نے بھی ہائپرسانک میزائل کا تجربہ کیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق پینٹاگون نے 2013 کے بعد پہلی بار ہائپر سانک کروز کا کامیاب تجربہ کیا ہے، امریکا کی ڈیفنس ایڈوانسڈ ریسرچ پراجیکٹس ایجنسی کی طرف سے ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ اس میزائل کا تجربہ گزشتہ ہفتے کیا گیا۔

    پینٹاگون کے مطابق امریکا کے اس نئے میزائل نظام کی رفتار اور خفیہ رہنے کی صلاحیت دشمن کو حیران کر سکتی ہے، امریکی میزائل نظام کو ‘ہائپر سانک ایئر بریدنگ ویپن کنسپٹ‘ کا نام دیا گیا ہے، یہ نظام ایرو اسپیس اور ڈیفنس کے شعبے کی دو بڑی کمپنیوں ریتھیون ٹیکنالوجیز اور نارتھروپ گرومان کی جانب سے تیار کیا گیا ہے۔

    رواں برس جولائی میں امریکی ہائپرسانک میزائل کا تجربہ ناکام ہو گیا تھا

    امریکی ہائپرسانک میزائل کا یہ تجربہ روس کی طرف سے اسی طرح کے ایک میزائل تجربے کے چند ماہ بعد ہی ہوا ہے، رواں برس جولائی میں روس نے بھی ہائپر سانک کروز میزائل کا کامیاب تجربہ کیا تھا، روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے اس موقع پر کہا تھا کہ اس میزائل کا دنیا میں کوئی ثانی نہیں ہے۔

    شمالی کوریا کے اخبار نے میزائل تجربے کی تصدیق کر دی

    نئے ہائپر سانک کروز میزائل کی رفتار اور حرکت کرنے کی صلاحیت کے سبب بروقت اس کا کھوج لگایا جانا مشکل ہوتا ہے، یہ بہت زیادہ دھماکا خیز مواد کے بغیر بھی بہت زیادہ توانائی کے سبب زیادہ تباہ کن ہوتا ہے۔

    یاد رہے کہ آج شمالی کوریا کے حکمران ورکرز پارٹی کے اخبار رودونگ سنمُن نے تصدیق کی ہے کہ اس کے ملک نے نئے تیار کردہ، آواز سے پانچ گنا تیز رفتار میزائل کا منگل کی صبح پہلی مرتبہ تجربہ کیا۔

  • امریکا کا کابل ایئر پورٹ پر ملنے والے کتوں سے ’اظہار لاتعلقی‘

    امریکا کا کابل ایئر پورٹ پر ملنے والے کتوں سے ’اظہار لاتعلقی‘

    واشنگٹن: امریکا نے کابل ایئر پورٹ پر ملنے والے کتوں سے ’اظہار لاتعلقی‘ کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کابل ایئر پورٹ پر گزشتہ روز پنجروں میں بند ملنے والے کتے معمہ بن گئے ہیں، یہ سمجھا جا رہا ہے تھا کہ امریکی فوجی جاتے جاتے اپنے کتے چھوڑ گئے تھے۔

    تاہم امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے اپنے ایک سوشل میڈیا بیان میں ان کتوں کے حوالے سے وضاحت دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی فوج، فوجی کتوں سمیت کسی بھی کتے کو کابل ایئر پورٹ پر چھوڑ کر نہیں آئی۔

    جان کربی نے یہ بھی واضح کیا کہ انٹرنیٹ پر زیرگردش تصاویر ان جانوروں کی ہیں جو ’کابل اسمال اینیمل ریسکیو‘ کی نگہداشت میں تھے۔

    خیال رہے کہ کابل ایئر پورٹ پر امریکی افواج کے مکمل انخلا کے بعد طالبان اہل کاروں کو پنجروں میں بند کتے ملے تھے جس پر امریکا نے وضاحت دی ہے کہ پنجروں میں قید کتوں کا امریکی فوج سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

    امریکا میں جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے امریکی حکومت پر الزام عائد کیا تھا کہ انخلا کے دوران فوج کتوں کو دشمنوں کے ہاتھوں مرنے کے لیے کابل چھوڑ آئی ہے۔

  • ایمازون اور مائیکروسافٹ کے درمیان تلخی کا انجام

    ایمازون اور مائیکروسافٹ کے درمیان تلخی کا انجام

    واشنگٹن: پینٹاگون نے مائیکروسافٹ کے ساتھ 10 ارب ڈالر کا معاہدہ ختم کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق پینٹاگون نے مائیکروسافٹ کے ساتھ کلاؤڈ کمپیوٹنگ کا 10 ارب ڈالر مالیت کا ایک بڑا معاہدہ ختم کر دیا ہے۔

    امریکی محکمہ دفاع نے کہا ہے کہ جوائنٹ انٹرپرائز ڈیفنس انفرا اسٹرکچر کا معاہدہ منسوخ کر دیا گیا ہے، کیوں کہ یہ اب موجودہ ضروریات کو پورا نہیں کرتا اور ایک نئے ’ملٹی کلاؤڈ، ملٹی وینڈر‘ کمپیوٹنگ معاہدے کے لیے کام شروع کیا جائے گا، حکومت ایک نئی جدید ترین ٹیکنالوجی حاصل کرے گی۔

    ادھر غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ ایمازون اور مائیکروسافٹ کے درمیان سیاسی تعصب کے الزامات کی بنیاد پر جو تلخی جاری تھی، اس کی وجہ سے پینٹاگون نے ایک طرف ہونا مناسب سمجھا اور مائیکروسافٹ سے معاہدہ ختم کیا۔

    پینٹاگون نے 17 کروڑ سے زیادہ کمپیوٹر ایڈریسز رازداری سے فروخت کر دیے

    مائیکروسافٹ نے 2019 کے آخر میں یہ معاہدہ حاصل کیا تھا، جس پر ایمازون نے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ یہ معاہدہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ایمازون کے خلاف انتقامی سیاست کا نتیجہ ہو۔

    یہ معاہدہ جے ای ڈی آئی پروگرام سے متعلق تھا، جسے 10 سال قبل ڈیزائن کیا گیا تھا، اس پروگرام کے تحت تمام فوجی محکموں کی معلومات ایک کلاؤڈ بیسڈ سسٹم پر شیئر ہوتی تھی، اور ایمازون کو جے ای ڈی آئی ٹیکنالوجی کے لیے اہم سمجھا جا رہا تھا، ایمازون کی ویب سروسز کلاؤڈ کمپیوٹنگ کے فیلڈ میں آگے ہیں اور کمپنی پہلے ہی سے سی آئی اے سمیت دیگر حکومتی اداروں کو سرورز مہیا کر رہی ہے۔

    تاہم جب مائیکروسافٹ کے ساتھ اس کے لیے معاہدہ ہوا تو ایمازون نے اسے ڈونلڈ ٹرمپ کا سیاسی تعصب قرار دیا، ایمازون نے الزام عائد کیا تھا کہ کمپنی اور اس کے چیف ایگزیکٹو کے خلاف ٹرمپ کی انتقامی سیاست کی وجہ سے اس کو معاہدے سے نکالا گیا۔

    امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان جان شیرمین نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ جے ای ڈی آئی کو اس وقت تیار گیا تھا جب محکمے کی ضروریات مختلف تھیں، اب ہم ایک سے زیادہ کلاؤڈ کمپیوٹنگ چاہتے ہیں، ایک نئے معاہدے کے لیے ایمازون اور مائیکروسافٹ سے تجاویز بھی طلب کی جائیں گی۔

  • امریکا نے افغانستان سے فوجی انخلا کا عمل سست کرنے کا عندیہ دے دیا

    امریکا نے افغانستان سے فوجی انخلا کا عمل سست کرنے کا عندیہ دے دیا

    واشنگٹن: طالبان کے حملوں کے تناظر میں امریکا نے افغانستان سے فوجی انخلا کا عمل سست کرنے کا عندیہ دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے کہا ہے کہ طالبان کی کارروائیوں اور انھیں حاصل ہونے والے فوائد کے باعث افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کا عمل سست کیا جا سکتا ہے۔

    پیر کے روز جان کربی نے کہا کہ صدر جو بائیڈن کی جانب سے دی جانے والی ڈیڈ لائن برقرار رہے گی، تاہم انخلا کے عمل کو صورت حال کی مناسبت سے ترتیب دیا جائے گا، کیوں کہ طالبان کی جانب سے اضلاع پر حملوں اور پُر تشدد کارروائیوں کے بعد صورت حال تبدیل ہو رہی ہے۔

    ترجمان نے کہا ہم ہر ایک دن کا مسلسل بغور جائزہ لے رہے ہیں، کہ صورت حال کیا ہے، ہمارے پاس کیا کچھ ہے اور ہم کیا کر سکتے ہیں، ہمیں مزید کن ذرائع کی ضرورت ہے اور ہم نے افغانستان سے نکلنے کے لیے کیا رفتار رکھنی ہے، یہ تمام فیصلے مطلوبہ وقت پر کیے جائیں گے۔

    امریکی افواج کا انخلا: افغان اہلکاروں کو ہتھیار ڈالنے پر قائل کرنے والے درجنوں عمائدین گرفتار

    واضح رہے کہ افغانستان میں 20 سال تک القاعدہ کے خلاف لڑنے اور حکومت کو طالبان سے لڑائی میں مدد کے بعد صدر جو بائیڈن نے فوجیوں کے انخلا کا حکم دیا ہے، جو تقریباً آدھا مکمل ہو چکا ہے۔

    پینٹاگون افغانستان میں اپنے کئی اہم اڈے حکومتی افواج کے حوالے کر چکا ہے، اور مختلف ساز و سامان سے لدے سیکڑوں کارگو جہاز بھی ہٹا چکا ہے، تاہم جان کربی کے مطابق امریکی افواج طالبان سے لڑائی میں افغان فوجیوں کی مدد کرتی رہیں گی۔

    جان کربی نے واضح کیا کہ جوں جوں واپسی کا عمل تکمیل کے قریب پہنچے گا، افغان فورسز کی مدد کا یہ سلسلہ کم ہوتا جائے گا اور اس کے بعد دستیاب نہیں ہوگا۔

  • مذموم مقاصد کے لیے بنائی گئی پینٹاگون کی ایک بڑی خفیہ فوج کا انکشاف

    مذموم مقاصد کے لیے بنائی گئی پینٹاگون کی ایک بڑی خفیہ فوج کا انکشاف

    نیویارک: امریکا کے ہفتہ وار میگزین نیوز ویک نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ پینٹاگون نے مذموم کارروائیوں کے لیے دنیا کی سب سے بڑی خفیہ فوج تشکیل دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پینٹاگون نے گزشتہ 10 برسوں میں دنیا کی سب سے بڑی خفیہ فوج تشکیل دی ہے، جس نے بہت ساری مذموم کارروائیاں کیں، نیوز ویک کا کہنا ہے کہ ان کارروائیوں کی مذمت خود امریکا کو بھی متعدد مرتبہ کرنی پڑی۔

    پینٹاگون کی بنائی اس خفیہ فوج کے حوالے سے ہفتہ وار میگزین نے ’ملٹری کی خفیہ جاسوس فوج کی اندرونی کہانی‘ کے عنوان سے ایک رپورٹ شائع کی، جس میں کہا گیا ہے کہ 2 سال کی تحقیقات کے بعد معلوم ہوا ہے کہ اس خفیہ فوج سے اب تقریباً 60 ہزار افراد تعلق رکھتے ہیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس خفیہ فوج کے اکثر لوگ اپنی شناخت چھپاتے ہیں، اور کسی کی نظر میں آئے بغیر کام کرتے ہیں، اور یہ سب ایک بڑے پروگرام ’سگنیچر ریڈکشن‘ کا حصہ ہیں۔

    یہ فوج سی آئی اے کے خفیہ عناصر کے حجم سے بھی 10 گنا بڑی ہے، اور یہ نہ صرف ملک کے اندر بلکہ ملک سے باہر بھی کارروائیاں کرتی ہے، نہ صرف فوجی وردی میں بلکہ سادہ لباس میں بھی، جب کہ حقیقی زندگی میں یا آن لائن یہ لوگ کبھی خود کو نجی کاروبار اور مشاورتی ایجنسیوں میں چھپاتے ہیں اور چند نے گھریلو کمپنیاں قائم کی ہوئی ہیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خفیہ فوج میں دیگر کے علاوہ کارروائی کرنے والی خصوصی فوج اور فوجی انٹیلی جنس ماہرین بھی شامل ہیں، جنھوں نے کچھ خطوں میں فون ریکارڈ کرنے کی سرگرمیوں اور سوشل میڈیا پر ساز باز کرنے جیسی عوام کے علم میں موجود کارروائیاں کی ہیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس خفیہ دنیا کی دو سالہ تحقیقات اور بہت سارے انٹرویوز کے بعد جو منظر سامنے آیا وہ یہ ہے کہ یہ ایک مکمل بے ضابطہ سرگرمی ہے، اس پروگرام کا مجموعی حجم بھی کسی کو معلوم نہیں، نہ ہی اس خفیہ فوج کے فوجی پالیسیوں پر اثرات کو جانچا گیا۔

    رپورٹ کے مطابق کانگریس نے کبھی اس موضوع پر سماعت منعقد نہیں کی، حالاں کہ یہ امریکی قوانین، جنیوا کنونشنز، فوجی طرز عمل کے ضابطے اور بنیادی احتساب کو چیلنج کرتی ہے۔