Tag: پینٹر

  • پکاسو کے تاریخی فن پارے 11 کروڑ ڈالرز میں فروخت

    پکاسو کے تاریخی فن پارے 11 کروڑ ڈالرز میں فروخت

    لاس ویگاس: امریکی شہر لاس ویگاس کے ایک ریستوران میں برسوں تک نمائش کے لیے پیش کیے جانے کے بعد، پابلو پکاسو کے 11 فن پاروں کا ایک انتخاب مجموعی طور پر 110 ملین ڈالرز سے زیادہ میں نیلام ہو گیا۔

    اسپین کے فن کار پابلو پکاسو 20 ویں صدی کے پہلے نصف کے سب سے غالب اور با اثر آرٹسٹ تھے، ان کی گیارہ پینٹنگز لاس ویگاس میں 11 کروڑ ڈالرز (17 ارب روپے) میں نیلام ہو گئیں۔

    سوتھ بے کی نیلامی لاس ویگاس کے بیلاگیو ہوٹل میں ہوئی، جہاں پکاسو کے یہ فن پارے سالوں سے آویزاں تھے، یہ نیلامی 25 اکتوبر کو ہسپانوی آرٹسٹ پکاسو کی 140 ویں سالگرہ سے 2 روز قبل منعقد ہوئی تھی۔

    پکاسو کی محبت میری تھریس والٹر کی 1938 کی پینٹنگ سب سے زیادہ قیمت میں فروخت ہوئی، ایک کروڑ کے لگائے گئے تخمینے کے بعد یہ پینٹنگ 4 کروڑ ڈالر میں فروخت ہوئی۔ پکاسو اور میری کے درمیان تعلق 1920 کے بعد دس سال تک رہا اور ان کی ایک بیٹی بھی ہوئی۔

    بڑے سائز کے پورٹریٹس ’مرد اور بچہ‘ اور ’بسٹ ڈی ہوم‘ 2 کروڑ 44 لاکھ اور 95 لاکھ ڈالرز میں فروخت ہوئے۔

  • برین ہیمرج کا شکار گرافیٹی آرٹسٹ عزم اور حوصلے کی بڑی مثال

    برین ہیمرج کا شکار گرافیٹی آرٹسٹ عزم اور حوصلے کی بڑی مثال

    کراچی: کچھ لوگ صحیح سلامت وجود کے ساتھ تھوڑی سی مشکلیں دیکھ کر ہمت ہار جاتے ہیں لیکن کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو بڑی مصیبتیں ٹوٹ پڑنے پر بھی عزم اور حوصلے کی مثال بنے حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں۔

    انھی میں سے کراچی سے تعلق رکھنے والا ایک بہترین گرافیٹی آرٹسٹ بھی ہے، جو پہلے برین ہیمرج کا شکار ہوا اور پھر بیوی بچوں نے انھیں چھوڑ کر تنہا کر دیا، لیکن اس نوجوان نے ہمت نہیں ہاری۔

    گرافیٹی آرٹسٹ شہزاد نے بد ترین حالات میں بھی خود کو عزم اور حوصلے کی بہترین مثال بنا کر پیش کیا۔

    یہ ایک ایسا آرٹسٹ ہے جسے بیماری نے معذور تو کر دیا ہے لیکن اس نے معذوری کے سامنے ہار نہیں مانی، اور اپنی صلاحیت کا استعمال کر کے زندگی کا پہیا چلاتا رہا ہے۔

    معذور، بے سہارا اور اپنوں سے دور 42 سالہ گرافٹی آرٹ کے ماہر شہزاد کی معذوری بچپن سے نہ تھی، زندگی خوش حالی سے گزر رہی تھی کہ برین ہیمرج نے حالات بدل ڈالے، معاملات یہاں تک بگڑے کہ لوگوں نے ان سے پینٹنگز بنوانا بھی چھوڑ دیا، شہزاد نے بتایا کہ جب لوگ کام نہیں کرواتے تھے تو میں ان سے کہتا تھا کہ اگر خراب ہو گیا تو پیسے میں دوں گا۔

    شہزاد نے پسند کی شادی کی تھی لیکن مصیبت کے وقت سب نے ساتھ چھوڑ دیا، بیوی بچے چھوڑ کر چلے گئے، وہ 20 سال سے گرافٹی آرٹ میں مہارت رکھتے ہیں، شہزاد کا کہنا ہے کہ جب بیماری نے معذور کیا تو ایسا لگا کہ زندگی کا سفر جیسے رک گیا ہے۔

    انھوں نے کہا معذوری کے بعد لوگوں کو ہمت نہیں ہارنی چاہے، ہمت ہر حال میں کرنی چاہیے، اللہ بھی ساتھ دیتا ہے۔ شہزاد کا کہنا ہے کہ انھوں نے معذوری کے باوجود کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائے بلکہ محنت سے کمانے کی کوشش کی اور آج بھی اپنی محنت کی کمائی سے زندگی گزار رہے ہیں۔

  • حنیف رامے، ایک سچا فن کار

    حنیف رامے، ایک سچا فن کار

    اس کی شخصیت کی کئی جہتیں تھیں۔ وہ سیاست داں، صحافی، ادیب، مقرر، نقاد، دانش ور، خطاط، مصور بھی تھا اور ایک ناشر بھی تھا۔

    پھر یہ بھی کہ اس نے ہر شعبے یا ہر میدان میں نام وری اور مقام حاصل کیا، لیکن ان کام یابیوں اور کام رانیوں کے باوجود اس کی تحمل مزاجی اور میانہ روی میں فرق نہیں آیا۔

    وہ دھیمے مزاج اور لہجے میں بات کرتا تھا اور سوچ سمجھ کر بولتا تھا۔ اقتدار میں بھی رہا، مگر اسے اقتدار کا وہ نشہ نہیں چڑھا جو انسان کو انسان سے دور لے جاتا ہے۔ شہرت اور نام وری کے باوجود اس کا لوگوں سے رشتہ نہیں ٹوٹا۔ اس نے یاریاں بھی نبھائیں اور فرائض بھی پورے کیے۔

    زندگی بھر انسانی رشتوں پر یقین رکھا اور دوستوں کا دوست رہا۔ مجھ سے ساٹھ کی دہائی کے ابتدائی دنوں میں برادرانہ تعلقات قائم ہوئے تھے جو آخر تک قائم و دائم رہے۔ حالاںکہ اس دوران برسوں ملاقات نہیں ہوتی تھی اور بات چیت میں بھی طویل وقفے آجاتے تھے۔ اس کے باوجود کبھی دوری کا احساس نہیں ہوا۔ جب کبھی ملاقات ہوتی یا ٹےلی فون پر بات ہو جاتی یا پھر خط آجاتا تو قربت و نزدیکی کا احساس قائم رہتا۔

    حنیف رامے کے بزرگوں اور بڑے بھائیوں کا کاروبار کتابوں کی نشر و اشاعت تھا، اس لیے تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد وہ بھی اس پیشے سے منسلک ہوگیا۔ نیا ادارہ اور مکتبۂ جدید کے زیرِ اہتمام شایع ہونے والی کتابوں کی تزئین و ترتیب کے ساتھ ساتھ سرورق بنانے کا کام اس کے سپرد ہوا اور اس طرح آرٹ سے بھی رشتہ جڑا رہا۔ پھر جب بھائیوں میں کاروبار کا بٹوارا ہوا اور رشید احمد چوہدری اور بشیر احمد چوہدری نے الگ الگ کتابوں کے اشاعتی سلسلے شروع کیے تو حنیف رامے نے بشیر احمد چوہدری کو ”میری لائبریری“ کے نام سے مکتبہ قائم کروایا اور خود ”البیان“ کے عنوان سے اشاعتی مکتبے کی ابتدا کی۔

    ایک بات حنیف رامے کے ذہن میں ہمیشہ رہی کہ کم قیمت کتابیں چھپنی چاہییں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ خریدیں اور کتابوں کی اشاعت وسیع پیمانے پر ہو۔ حنیف رامے نے صرف کتابیں چھاپی ہی نہیں بلکہ خود بھی لکھیں اور ایک ادیب کی حےثیت سے بھی نام پیدا کیا۔

    اس کی کتابوں میں ”پنجاب کا مقدمہ“ کو بڑی شہرت ملی اور دیگر صوبوں کے بعض ادیبوں نے اس کے جواب میں بھی بہت کچھ لکھا۔ اسی طرح اس کی کتاب ”دُبِ اکبر“ بھی بڑی توجہ کا مرکز رہی اور پھر زندگی کی آخری تصنیف ”اسلام کی روحانی قدریں موت نہیں زندگی“ کو تو علمی و ادبی حلقوں میں بہت زیادہ پزیرائی حاصل ہوئی۔

    حنیف رامے کا پسندیدہ موضوع معاشیات و اقتصادیات تھا اور اسی میں اس نے ایم اے کیا تھا۔ لہٰذا اس موضوع کی ایک کتاب کا ترجمہ بھی کیا تھا جو ”اقتصادی ترقی کا منظر اور پس منظر“ کے نام سے شایع ہوئی اور پھر ”اقبال اور سوشلزم“ مرتب کرکے شایع کی تھی۔ اس نے انگریزی میں ایک ناول بھی تحریر کیا۔ اس طرح دیکھیے تو وہ صرف ادب چھاپتا ہی نہیں رہا بلکہ اس کی تخلیق و تحریر میں بھی باقاعدہ شامل رہا۔

    (معروف ادیب اور صحافی شفیع عقیل کی کتاب سے ایک ورق)

  • فٹ پاتھ پر سیڑھی لگانا پینٹر کو مہنگا پڑ گیا

    فٹ پاتھ پر سیڑھی لگانا پینٹر کو مہنگا پڑ گیا

    لیما: جنوبی امریکہ کے ملک پیرو میں پینٹر کو فٹ پاتھ پر سیڑھی لگا کر گھر کو پینٹ کرنا مہنگا پڑ گیا، معمر شخص نے غصے میں آکر پینٹر کو سیڑھی سے گرا دیا۔

    تفصیلات کے مطابق پیرو کے دارالحکومت لیما میں ویل چیئر پر فٹ پاتھ پر سے گزرنے والے شخص کو اس وقت غصہ آگیا جب اس نے فٹ پاتھ پر لگی سیڑھی کو دیکھا جو اس کا راستہ روک رہی تھی۔

    معمر شخص نے غصے میں آکر اپنے دونوں ہاتھوں سے سیڑھی کو زور سے ہلایا جس کے نتیجے میں 30 فٹ اونچائی پر گھر کو پیٹ کرنے والا 46 سالہ شخص منہ کے بل زمین پر جا گرا۔

    مقامی میڈیا کے مطابق پینٹر کو فوری طور پر اسپتال منتقل کیا گیا جہاں اسے طبی امداد دی گئی۔ 46 سالہ فرنینڈس اپنی پوتی کے ساتھ اس گھر میں رہتا ہے جسے وہ پینٹ کر رہا تھا۔

    پولیس نے واقعے کی تفتیش شروع کر دی ہے اور ویڈیو کے ذریعے معمر شخص کی شناخت کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔