Tag: پینٹنگز

  • کراچی کی 75 سالہ قدیم فریم مارکیٹ آج کس حال میں ہے؟

    کراچی کی 75 سالہ قدیم فریم مارکیٹ آج کس حال میں ہے؟

    کراچی : شہر قائد میں جامع کلاتھ مارکیٹ کے پاس قدیم فریم مارکیٹ اپنے گھروں کی سجاوٹ اور تزئین و آرائش کے غرض سے آنے والے گاہکوں میں آج بھی بے حد مقبول ہے۔

    اے آر وائی نیوز کراچی کی نمائندہ عشرت خان کی رپورٹ کے مطابق مارکیٹ میں لکڑی اور شیشے کے ان فریموں میں لوح قرآنی، اسمائے حسنیٰ، قرآنی آیات، کلمے، سینریاں، وال کلاک اور پینٹنگز وغیرہ فریم کرکے فروخت کیے جاتے ہیں۔

    جدید فریم ورک کے کاموں کی چھوٹی چھوٹی دکانوں پر مشتمل فریم مارکیٹ کے دکانداروں کا کہنا ہے کہ یہ مارکیٹ سال 1948 سال سے قائم ہے لیکن گزشہ دنوں کے ایم سی کی جانب سے کیے گئے تجاوزات کیخلاف آپریشن کے بعد ہمارا سب کچھ برباد ہوگیا۔

    وقت کی کروٹ کہیں یا حکومتی محکموں کی بے حسی کہ پانچ دکانوں کا مالک آج خود کسی کی دکان پر ملازمت کررہا ہے۔ دکاندار اس فریم مارکیٹ کو تاریکی میں ڈوبتا ہوا دیکھ کر پریشان ہیں۔

  • نامور مصور جمیل نقش لندن میں انتقال کر گئے

    نامور مصور جمیل نقش لندن میں انتقال کر گئے

    لندن: نامور مصور جمیل نقش لندن میں انتقال کر گئے، جمیل نقش کی نماز جنازہ اور تدفین لندن میں کی جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان کے معاصر آرٹسٹ جمیل نقش آج 16 مئی کو برطانیہ کے سینٹ میری اسپتال میں 80 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔

    جمیل نقش کو نمونیا کا مرض لاحق ہو گیا تھا، اسپتال میں ان کا علاج جاری تھا لیکن وہ جاں بر نہ ہو سکے، ان کی نماز جنازہ اور کفن دفن کے معاملات لندن ہی میں ادا کیے جائیں گے۔

    جمیل نقش 1939 میں بھارت کے شہر کیرالہ میں پیدا ہوئے تھے، انھیں فن مصوری میں خدمات پر مختلف ایوارڈز دیےجا چکے ہیں۔

    جمیل نقش کو 1989 میں صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا تھا، 2009 میں حکومت پاکستان نے انھیں ستارۂ امتیاز سے بھی نوازا۔

    معروف مصور کے انتقال پر فن کار برادری نے افسوس کا اظہار کیا۔ ان کا فن کیوبزم کے عمدہ نمونوں کا عکاس رہا۔ انھوں نے عورت اور کبوتر کو اپنی مصوری کا اہم موضوع بنایا اور دونوں کو ایک ساتھ اس طرح پیش کیا کہ اس امتزاج سے عورت ذات کے مختلف پہلو نمایاں ہوئے۔

    آرٹ کی معروف نقاد مارجری حسین نے جمیل نقش کے بارے میں لکھا کہ انھوں نے فن کے لیے زندگی گزاری، اپنی مسرت کے لیے پینٹنگز بنائیں، وہ ٹیکسچر، روشنی اور اسپیس کے ماسٹر تھے، یہی ان کی منفرد پینٹنگز کا موضوعاتی پس منظر رہا۔

    جمیل نقش کے بے مثال کام کی نمایش پاکستان، بھارت، برطانیہ اور متحدہ عرب امارات میں ہوئی، 1960 سے 1968 کے درمیان وہ مشہور ادبی جریدے سیپ کے شریک مدیر بھی رہے۔

    جمیل نقش نے 1970 سے 73 تک پاکستان پینٹرز گلڈ کی صدارت کا منصب بھی سنبھالا۔

    نامور مصور جمیل نقش کی پینٹنگ موہٹہ پیلس میوزیم میں بھی رکھی گئی جو ایک زندہ آرٹسٹ کے لیے انوکھا اعزاز تھا۔

  • تیزاب گردی کے شکار افراد کے بنائے گئے مصوری کے فن پارے

    تیزاب گردی کے شکار افراد کے بنائے گئے مصوری کے فن پارے

    تہران : ایران میں تیزاب گردی کا شکار ہونے والے افراد نے اپنے جذبات، احساسات اور خیالات کو کینوس پر رنگوں اور برش کی مدد سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے، ان پیٹنگز کو نمائش کے لیے آشیانہ گیلری تہران میں پیش کیا گیا.

    چہرہ جسم کا سب خوبصورت حصہ ہوتا ہے، یہ انسان کی شناخت بھی ہے اور اسی چہرے سے اپنے قلبی تاثرات کو عیاں کرتا ہے، خوشی کے لمحات ہوں یا غم کی تصویر، چہرے سے صاف عیاں ہوتی ہے لیکن ہمارے اردگرد ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو اپنے احساسات تو دور اپنے چہرے کوبھی چھپائے ہوئے پھرتے ہیں، یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں اپنے ہی کسی پیارے نے تیزاب پھینک کر چہرے سے روح تک کو مسخ کردیا ہوتا ہے.

    محسن مرتضوی لکڑی تراش کر فن پارے بنانے کے ماہر ہیں، انہیں کولیگ نے تیزاب گردی کا نشانہ بنایا۔ فوٹو : اے ایف پی

    ایران میں تیزاب گردی کے شکار ایک گروپ نے اپنی تکلیف کو قسمت کا لکھا سمجھ کر زندگی بھر کا رونا رونے کے بجائے اپنے احساسات اور تکلیف کو دنیا کے سامنے لانے کا فیصلہ کیا تاکہ جھلسے ہوئے چہرے والے افراد کی کچلی ہوئی روح کا نوحہ سنا جا سکے، محسن مرتضوی اور معصومہ اتائی نے اپنی جیسے بربریت کے شکار دیگر سانجھے داروں کے ساتھ مل کر پینٹنگ نمائش کا اہتمام کیا.

    فن پاروں کی نمائش میں تیزاب کے شکار افراد کے نفسیاتی مسائل کو بھی اجاگر کیا گیا۔ فوٹو : اے ایف پی

    اس اچھوتے خیال کے خالق محسن مرتضوی تھے جنہیں ان کے ایک حاسد کولیگ نے تیزاب گردی کا نشانہ بنایا تھا جس کے باعث ان کا پورا چہرہ جھلس گیا تھا، محسن لکڑی کو تراش کر دیدہ زیب فن پارے بنانے میں مہارت رکھتے تھے، خوش قسمتی انہیں اپنی ہم خیال معصومہ اتائی تک لے آئی، معصومہ کی ایک آنکھ تیزاب گردی کی نذر ہو گئی تھی اور اس دل دہلانے والے حادثے سے قبل وہ ایک مصورہ کے طور پر شہرت حاصل کرنا چاہتی تھیں.

    محسن مرتضوی نے تصویری نمائش کے لیے کلیدی کردار ادا کیا۔ فوٹو : اے ایف پی

    معصومہ اتائی خاندانی رنجش کے باعث اپنے شوہر سے طلاق لینا چاہتی تھی جسے غیرت کا جواز بنا کر معصومہ کے سسر نے اس کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا تاکہ وہ اور کہیں شادی کے قابل نہ رہے اور ساری عمر سسک سسک کر گزار دے، معصومہ کے سسرال نے کسی قانونی چارہ جوئی کرنے پر معصومہ کے بچے کو بھی تیزاب سے جھلسانے کی دھمکی دی جس پر معصومہ نے اپنا کیس واپس لے لیا تھا.

    نمائش میں تیزاب کے شکار افراد ہی مصور اور وہ ہی تصویر تھے۔ فوٹو : اے ایف پی

    واضح رہے کہ دنیا بھر میں تیزاب گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے جس کی بنیادی وجہ تیزاب کا بآسانی دستیاب ہونا اور اس کم قیمت ہتھیار سے مخالف کو ایسی کڑی سزا دی جاسکتی ہے جو شکار کو زندگی بھر سسکتے رہنے کے لیے کافی ہوتا ہے جب کہ قانون میں اس سفاک ظلم کی سزا کا درست تعین نہ ہونا بھی تیزاب گردی کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے.


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانےکے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سال 2017 کی منتخب تصاویر، جو آپ کو بھی حیران کردیں گی

    سال 2017 کی منتخب تصاویر، جو آپ کو بھی حیران کردیں گی

    نیویارک: سال 2017 تلخ و شیریں یادوں کے ساتھ اپنے اختتام کی جانب تیزی سے گامزن ہے، دنیا کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے گزرتے سال بہت سی کامیابیاں سمیٹیں۔

    سال 2017 جہاں کچھ لوگوں کے لیے کامیابیوں کا سال ہوا وہیں کچھ لوگوں کو ممکنہ طور پر مایوسی کا سامنا بھی کرنا پڑا ہوگا تاہم ہر شخص نئے آنے والے سال میں اچھی امیدوں کے ساتھ داخل ہونے کا خواہش مند ہے۔

    دنیا بھر کے فوٹو گرافرز اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے لیے ایسے مناظر کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرتے ہیں جنہیں دیکھ کر ہر کوئی حیران رہ جاتا ہے۔

    سال 2017 فوٹو گرافی کی دنیا کے لیے بھی اچھا ثابت ہوا کیونکہ جدید کیمروں اور لاینس آنے کے بعد اس شعبے سے وابستہ افراد کی لگن مزید بڑھ گئی۔

    رواں سال فوٹوگرافی کا مقابلہ امریکا کے شہر نیویارک میں منعقد کروایا گیا جس میں سے ماہرین نے 10 بہترین تصاویر کا انتخاب کیا۔

    نیویارک کے علاقے مین ہیٹن اور اسٹیٹن آئی لیند کے درمیان سمندری راستہ طے کرنے والی کشتیوں کی تصاویر کو کیمرے کی آنکھ نے محفوظ بنایا۔

    جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں واقع پارک کے تالاب میں موجود مچھلی جب سانس لینے کے لیے سطح سمندر پر آئی تو اس منظر کو فوٹو گرافر نے اپنے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کیا۔

    ارجنٹائن کے 140 سال قدیم چڑیا گھر میں موجود ایشیائی ہاتھی جس کے پنجرے کو مندر کی طرح سے تیار کیا گیا، اس منظر کو فوٹو گرافر نے اس خوبصورتی سے تصویر میں محفوظ کیا کہ دیکھنے والے داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔

    سانس فرانسسکوکا مشہور گولڈن گیٹ برج 13 جنوری کو بادلوں سے ڈھک گیا تھا، اس منظر کو فوٹو گرافر نے کیمرے میں محفوظ کر کے نایاب تصویر بنائی۔

    سربیا کے شہر بلغراد کے ایک خالی گودام میں مہاجرین آگ جلا کر سردی سے بچنے کی کوشش کر رہے تھے کہ وہاں موجود فوٹو گرافر نے منظر کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرلیا۔

    علاوہ ازیں منتخب کی جانے والی دیگر تصاویر


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • مرتی ہوئی مونگے کی چٹانوں کو بچانے کی کوشش

    مرتی ہوئی مونگے کی چٹانوں کو بچانے کی کوشش

    دنیا میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو زمین کے سبزے اور اس کی خوبصورتی کو بچانے کے لیے دیوانہ وار کام کر رہے ہیں۔ یہ لوگ پوری دنیا کو، زمین کو لاحق ان مسائل کی طرف متوجہ کرنے کا انوکھا طریقہ ڈھونڈتے ہیں، اور اپنی اس کوشش میں کامیاب بھی رہتے ہیں۔

    ایسا ہی ایک دیوانہ معروف اطالوی پیانو نواز لڈووکو اناڈی تھا جس نے قطب شمالی کے سمندر میں برفانی گلیشیئرز کے سامنے بیٹھ کر پیانو کی پرفارمنس پیش کی۔

    اس پرفارمنس کا مقصد دنیا کو متوجہ کرنا تھا کہ برفانی علاقوں کی برف تیزی سے پگھل کر دنیا کو کن خطرات سے دو چار کرنے والی ہے۔

    لارا جونز بھی ایسی ہی ایک مصورہ ہیں جو اپنے فن پاروں کے ذریعہ دنیا کو مونگے کی بے رنگ ہوتی چٹانوں کی طرف متوجہ کرنا چاہ رہی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق دنیا بھر کے سمندروں میں موجود رنگ برنگی مونگے یا مرجان کی چٹانیں اپنی رنگت کھو رہی ہیں جسے بلیچنگ کا عمل کہا جاتا ہے۔

    7

    اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی سب سے بڑی رنگ برنگی چٹانوں کا سلسلہ جو گریٹ بیریئر ریف یا عظیم حائل شعب کہلاتا ہے آسٹریلیا کے سمندر میں موجود ہے۔ یہاں موجود ایک تہائی سے زیادہ چٹانیں اپنی رنگت کھو چکی ہیں یا کھو رہی ہیں۔

    یہ دنیا کا واحد سب سے بڑا سمندری ڈھانچہ ہے جو زندہ اجسام نے بنایا ہے اور ان رنگ برنگی چٹانوں کو اربوں ننھے اجسام نے ترتیب دیا ہے جو کورل یعنی مونگے یا مرجان کہلاتے ہیں۔

    سنہ 1981 میں گریٹ بیرئیر ریف کو عالمی ورثہ قرار دیا گیا تھا۔

    6

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ان چٹانوں کی رنگت اڑنے کی وجہ سمندروں کی آلودگی اور عالمی درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ ہے۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے سمندروں کا پانی بھی گرم ہورہا ہے جس کے باعث یہ چٹانیں بے رنگ ہورہی ہیں۔

    لارا جونز انہی مرتی ہوئی خوبصورت چٹانوں کو اپنے فن پاروں میں پیش کر رہی ہیں۔

    ان کے فن پارے دیکھ کر آپ کو یوں لگے گا جیسے آپ خود سمندر میں موجود ہیں اور اپنی آنکھوں سے ان چٹانوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔

    2

    4

    3

    5


     

  • سلیگڑی:مغربی بنگال میں ایڈز سے آگاہی کیلئے مقابلہ مصوری

    سلیگڑی:مغربی بنگال میں ایڈز سے آگاہی کیلئے مقابلہ مصوری

    مغربی بنگال کے مشرقی صوبے سلیگڑی شہر میں ایچ آئی وی ایڈز سے آگاہی کیلئے مصوری کا مقابلہ منعقد کیا گیا۔

    پروگرام منتظمین کے مطابق ایڈز کی بیماری کے بارے میں آرٹ کے ذریعے آگاہی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں, لوگ آرٹ یا پینٹنگز دیکھ کر ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور یہی دیکھ کر انہوں نے اس کا انتخاب کیا ہے۔

    منتظمین کا کہنا تھا کہ اس فن کے ذریعے انہیں لوگوں کو سمجھانے میں مدد مل رہی ہے، غیر سرکاری ادارے کی ترجمان کے مطابق تقریب میں پیش کی جانیوالی تصاویرکی فروخت سے حاصل رقم کو ایڈز کے مرض میں مبتلا لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے استعمال کیا جائے گا۔